اُردُو
Perspective

ایران کی جوہری ڈیل اور امریکہ کی نئی جنگی حکمت عملی

امریکہ اور اسکے پاٹنرز کی جانب سے گزشتہ جمعرات کو ایران کے ساتھ جوہری معاہدے کا جو فریم ورک طے پا گیا ہے۔گو کہ اس میں ابھی بہت سی رکاوٹیں باقی ہیں جوامریکہ کی خارجہ پالیسی میں ایک اہم سٹیٹجک تبدیلی کو ظاہر کرتی ہے1979میں امریکی حمایت یافتہ شہنشاہ شاہ ایران کا ایرانی انقلاب میں تختہ الٹنے کے بعد کا تمام عرصہ جوکہ 36سالوں پر محیط ہے واشنگٹن نے اس پورے عرصے میں ایران سے مسلسل دشمنی کا موقف برقرار رکھا۔ 

امریکہ کی یہ پالیسی اس خطے اور بین الاقوامی سطح پر مسلسل برقرار رہی۔اب امریکہ ایران کے ساتھ ایک معاہدے تک پہنچ گیا ہے اور یہ امکان موجود ہے کہ واشنگٹن اور تہران ایک وسیع تر مفاہمت کی جانب آگے بڑھیں۔اس معاہدے پر امریکہ کو ایک جانب داخلی طور پر سیاسی اور فوجی اسٹیبلشمنٹ اور دوسری جانب بیرونی طور پر اسکے اتحادیوں کی مخالفت کا سامنا ہے۔صدر اوبامہ نے اس معاہدے کی پرزور الفاظ میں تعریف کرتے ہوئے کہا کہ’’مشرق وسطی میں ایک اور جنگ‘‘کا متبادل صرف یہ ہی ہوسکتا تھا۔لیکن جن سفارتی کوششوں سے ایران کے ساتھ ڈیل کی گئی دراصل وہ امن کی جانب پیش رفت نہیں ہے بلکہ اس ڈیل کا مقصد امریکی سامراج کے لئے اپنی پوزیشن کو مشرق وسطی اور سنٹرل ایشیاء میں مستحکم کرتے ہوئے اسکے زیادہ طاقتور حریفوں یعنی روس اور چین کے خلاف جنگ کی تیاری کرنا ہے۔مشرق وسطی میں اپنی بالادستی کے پلان کو حاصل کرنے کے غرض سے بش انتظامیہ نے2002میں ایران کو نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ وہ بھی شمالی کوریا اور عراق کی طرح ’’بدی کے محور‘‘(Axis of evil)کا حصہ ہے۔

عراق پر2003کے حملے کے بعد نام نہاد فتح پر جو خوشی منائی جارہی تھی امریکی حکومت کے ایک سینئر عہدیدار کے ریمارکس کے دوران بلی تھیلے سے باہر آئی جب اس نے کہا ’’ہر کوئی بغداد جاسکتاہے حقیقی آدمی تہران جاتا ہے‘‘ جسکا مطلب یہ تھا کہ ایران انکے لئے اہم ہے جسکو فتح کرنا ضروری ہے۔جونہی عراق پر امریکی قبضہ امریکہ کے لئے دلدل ثابت ہوا بش انتظامیہ نے ایران کو اشتعال اور اپنا دباؤ بڑھانے کے لئے ایران کے نیوکلیئر پروگرام کو بہانا بنایا اور2007میں امریکہ کی جانب سے ایران پر اعلی درجے کے فوجی حملے کی تیاری عروج پر پہنچ گئی۔ لیکن بش انتظامیہ نے ایران پر فوجی حملہ کرنے کا پروگرام اس لئے روک لیا تھا کیونکہ اسے افغانستان اور عراق کی کشیدہ صورتحال اور اپنی فوجیوں کی تباہی کے حوالے سے امریکن پولیٹیکل اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے تنقید کا سامنا تھا ۔2008کی انتخابی مہم کے دوران اوبامہ نے کہا تھا کہ صدر بش چین کو اور اسکے ابھرتے ہوئے اثر کو ایشیاء میں کاؤنٹر کرنے میں ناکام رہاہے۔جسکی وجہ یہ تھی مشرق وسطی میں ہماری افواج جنگ میں پھنسی ہوئی تھیں ۔اس لئے2009کے درمیانی عرصے میں اوبامہ انتظامیہ نے چین کے گرد گھیرا تنگ کرنے کی پالیسی یا ایشیاء کے اندر دوبارہ توازن کی پالیسی کی طرف گامزن ہوئی جسے حاصل کرنے کی غرض نے اسے جارحانہ سفارتی اقتصادی اور فوجی حکمت عملی کو بروئے کار لاتے ہوئے چین اور انڈوپیسفک(Indo-Pacific)ریجن کو اپنے ماتحت کرنے اور مقصد حاصل کرنے کے لئے استعمال کیا اور اس حد تک کہ اگر ضرورت پڑے تو جنگ کی صورت میں اس مقصد کو حاصل کیا جاسکے۔ اور ساتھ میں اوبامہ نے ایران کے متعلق اپنی اپروچ 2009کیرٹ اینڈ سٹک ،،رکھی ایک جانب مذاکرات کو طول دیتا رہا تاکہ نیوکلیئر معاملے پر ڈیڈلاک ختم کیا جائے اور دوسری جانب تہران پر ڈرامائی طور پر سخت اقتصادی پابندیاں عائد کرتے ہوئے اسے فوجی حملے کی بھی دھمکی دیتا رہا۔

نمایا طور پر اوبامہ کی خارجہ پالیسی کے سربراہ استادوں میں سے ایک سابق سلامتی کے مشیر(Zbigniew Brzezinski)تھا جوکہ طویل عرصے سے واشنگٹن ،تہران محور کی وسیع و عریض پٹی پر امریکی بالادستی کو یوروایشیاء پرانتہائی ضروری سمجھتا رہاہے کیونکہ ایران اسٹیٹجک طورپر سینٹرل ایشیاء مشرق وسطیٰ اور برصغیر کے سنگم پر واقع ہے۔ 2008میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے گہرے بحران اور ٹوٹ پھوٹ کے بعد جیوپولیٹکل تناؤ میں تیزی سے اضافہ ہوا جسکے سبب واشنگٹن نے فوری طور پر اپنے پلان کو انتہائی جارحانہ انداز میں بڑھانا شروع کیا ۔اگست اور ستمبر2013میں امریکہ شام کے ساتھ جنگ کی کیفیت میں انتہائی قریب آچکا تھا اور آخری وقت میں شام کی جنگ کے حوالے سے امریکن حکمران اشرافیہ میں تقسیم ابھر کر سامنے آئی اور اسکے ساتھ ہی برطانیہ کی حکومت پارلیمنٹ میں جنگ کے حق میں ووٹ حاصل کرنے میں ناکام رہی اور پھر ساتھ میں اسے طاقتور طریقے سے روس اور ایران کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑا تھا۔

ایران نے امریکہ کو انتبا کیا تھا کہ شام پر حملے کا مطلب ایران کے ساتھ جنگ کے مترادف ہوگا اوبامہ انتظامیہ نے اپنی شکست کی صورت حال کے پیش نظر دہری حکمت عملی اپنائی۔ایک جانب اس نے روس کے خلاف محاذ آرائی شروع کی جو واضع طور پر2013کے آخر میں یوکرائن میں کھل کر مداخلت کی اور ساتھ ہی اس نے ایران کے ساتھ نیوکلیئر بات چیت تیز کردی جو دراصل پہلے ہی سے خفیہ طور پر جاری تھی۔امریکہ اور ایران کی حکومت کے سربراہان کے درمیان ستمبر 2013میں پہلی مرتبہ عوامی سطح پر رابطہ بارک اوبامہ کا نئے منتخب ایرانی صدر حسن روحانی کے ساتھ اقوام متحدہ کی سالانہ میٹنگ کے دوران ٹیلی فون پر ہوا یہ رابطہ تین دہائیوں سے زائد عرصے کے بعد ہوا جبکہ عبوری نیوکلیئر معاہدہ نومبر2013میں ہوا تھا جسے جنوری2014کے آخر میں لاگو کیا گیا یہاں تک کہ واشنگٹن روس کے خلاف یوکرائن میں برسرپیکار تھا جسکی جارحیت کی واضع شکل فاشٹ قوتوں کی حمایت کرتے ہوئے فروری2014میں یوکرائن میں کود یتا(Coup)کی شکل میں ظاہر ہوئی۔ایران کے ساتھ شروع دن سے مذاکرات پر اوبامہ انتظامیہ نے واضع طور پر کہا تھا کہ جوبھی معاہدہ ہوگا وہ واشنگٹن کے شرائط کے مطابق ہوگا۔ جسکے نتیجے میں مذاکراتی عمل ڈیڈلائن سے بھی کراس کرگیا اور ایرانی کی بورژوا ملائیت کی حکومت ہر موقع پر زیادہ سے زیادہ رعایت دینے پر آمادہ ہوتی گئیں۔امریکہ نے ایران کے ساتھ یہ تسلیم کیا کہ وہ اپنی ساکھ کو بچانے کے حوالے سے نام نہاد نیوکلیئر پروگرام جاری رکھ سکتا ہے کیونکہ ایران کے مذاکرات کار اس بات پر آمادہ تھے کہ وہ ڈرامائی طور پر یورینیم کی افزودگی کی صلاحیت میں کمی کے ساتھ افزودہ یورینیم کے ذخائر کو بھی ریورس کریں گے اور ساتھ وہ اس بات پر بھی آمادہ تھے کہ وہ سب سے زیادہ سخت مداخلت کی معائنہ کے پروگرام کی ٹیم کو ایٹمی پروگرام کے معائنہ کی اجازت دیں گے اور دوسری طرف امریکہ معاہدے کی رو کے مطابق صرف اس حد تک پابند ہے کہ وہ ایران پر اقتصادی پابندیوں کو معطل کرے گا۔جوں جوں ایران اپنے معاہدے کی پاسداری کرتا جائے گا۔ کیونکہ امریکہ کو اب روس چین اور اقوام متحدہ کی سکیورٹی کونسل کی حمایت حاصل کرنے کے بغیر ہی اس قابل ہو گا کہ وہ دوبارہ ایران پر اقتصادی پابندیاں لگا سکے ۔

اس تمام صورتحال پر امریکہ کی بالادستی اس معاہدے پر قائم رہے گی۔اس جوہری ڈیل کے نتیجے میں ایران کے حکمران دھڑوں میں تقسیم کا عمل جاری ہے جبکہ حسن روحانی کا دھڑا دوسرے دھڑوں کے مقابلے پر ان سب پرحاوی ہے۔انہوں نے کہا ہے کہ یہ ڈیل نہ صرف فوری طور اقتصادی خاتمے کے لئے ضروری تھی بلکہ امریکہ کے لمبے عرصے سے ایران پر پابندیوں کے خاتمے کے لئے بھی ضروری تھیں حسن روحانی صدر ہاشمی رفسنجانی اور خاتمی کی حکومت میں ایک اہم شخصیت تھا اور امریکہ اور ایران سے تعلقات استوارکرنا چاہتا تھااور ایران کی مارکیٹ اکانومی میں اصلاحات کا حامی تھا اور اپنی منڈی کو یورپ اور امریکہ کے لئے کھلا رکھنے کا حامی تھا تاکہ ایران کی سستی محنت کے پلیٹ فارم کو استعمال کیا جاسکے۔

جیسے جیسے ایرانی بورژدازی واشنگٹن کے ساتھ قریب ہوتی جائے گی اسی نسبت سے ایرانی محنت کشوں پر حملے بھی تیز کرتی جائے گی۔اگلے تین ماہ میں معاہدے کو حتمی شکل دی جائے گی یہ عمل ابھی کافی الجھا ہوا ہے اور غیر یقینی سے دوچار ہے کیونکہ اوبامہ انتظامیہ کو امریکی کانگریس میں ری پبلکن اور کچھ فوجی اسٹیبلشمنٹ کے حصوں اور انٹیلی جنس اپریٹس کی جانب سے بھی شدید مخالفت کا سامنا ہے اور اسکے ساتھ ہی مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے اتحادیوں کی جانب سے بھی شدید مخالفت کا سامنا ہے اور خاص کر اسرائیل کسی حد تک سعودی عرب گلف ممالک اور مصر سے بھی شدید دباؤ کا سامنا ہے جبکہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نتن یاہو ایک دہائی سے ایران کے نیوکلیئر بم کے بارے میں سختی سے انتبا کرتا چلا آرہا ہے اسرائیل اور دوسرے امریکی اتحادیوں کو تشویش یہ بھی ہے کہ اگر واشنگٹن ایران کے قریب ہوجاتا ہے تو انکی اپنی اہمیت اور امریکہ کے ساتھ انکی سود ابازی کرنے کی طاقت کم ہوجائے گی۔اس معاہدے کی حتمی شکل کی صورت میں مشرق وسطیٰ استحکام کی بجائے مزید عدم استحکام میں داخل ہو جائے گا کیونکہ مشرق وسطیٰ میں ایران مخالف طاقتیں اپنی پوزیشن کو مزید فروغ دیگی۔

ایک وسیع تر تاریخی تناظر میں اگر دیکھا جائے تو معاہدہ فقط ایک کاغذ کا ٹکڑا ہے اور اس کی کوئی خاص اہمیت نہیں ہے اور جب کبھی امریکہ چاہے گا وہ اس معاہدے کے کاغذ کے ٹکڑے کو ردی کے ٹوکری میں پھینک دے گا جیسا کہ ماضی میں کئی بار ہوچکا ہے جیسا کہ2003میں لیبیا کی حکومت نے صدر قذافی کی سربراہی میں مہلک ہتھیاروں کے پروگرام سے دستبردار ہونے کا معاہدہ کیا تھا لیکن پھر بھی اسے نیٹو کی قیادت میں2011میں جنگ کا سامنا کرنا پڑا اور اسکی حکومت کا خاتمہ کیا گیا ۔امریکہ کے اپنے معاشی زوال کے دوران امریکی سامرا ج اپنے بڑے سامراجی حریفوں کی موجودگی میں عالمی بالادستی کی اس جارحانہ دوڑ سے اسے نہیں روکا جاسکتا۔

Loading