اُردُو

جنگ کے خلاف لڑائی اور سوشلزم

.1 امریکہ نے دہشت گردی کے خلاف جس جنگ کا آغاز کیا تھا۔ پندرہ سال کے بعد پوری دنیا کو تیزی کے ساتھ سامراجی تشدد تباہی اور بربادی میں گھسیٹ لیا ہے۔ امریکی سامراج کی سر براہی میں جن حملوں اور مداخلتوں کو افغانستان ، عراق لبیا اور شام میں شروع کیا گیا تھا۔ ان ممالک کو تباہ برباد کر کے رکھ دیاہے۔نیٹو روس کے خلاف جنگ کی تیاریوں میں بڑے پیمانے پر نئے ہتھیاروں سے لیس ہو کر خود کو مسلح کر رہاہے۔افریقہ مسلسل امریکی اور یورپی جدید نو آباد یاتی سازشوں کا ہدف ہے ۔جنوبی امریکہ ، مشرقی یو رپ ،ٹرانس کا کیشیا اور بر صغیر میں ہمسایہ ریاستوں کے درمیان سرحدی تنازعات کو ہوا دیتے ہوئے کشید گی اور علاقائی جھڑپوں کی لپیٹ میں لے لیاہے۔مشرقی ایشیاء میں اوباما انتظامیہ کی " ایشیاء کے گرد گھیرا تنگ " اور امریکہ کی چین کے ساتھ مخاصمت کی پالیسی نے پورے خطے کو جنگ میں ملوث کر دیاہے۔

.2 دہشت گردی کے خلاف جنگ جو شروع ہی سے مبہم اور مشکوک رہی ہے اور جو سا مراجی لا محدود فریب پر مبنی ہے نے بے پناہ انسانوں کا قتل عام اور لا تعداد انسانوں کو اپاہج اور اذیت سے دو چار کیا ہے۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد سب سے بڑے پیمانے پر پناہ گزینوں کے بحران کو پیدا کیاہے۔ابھی تک 60 ملین افراد اپنے ملکوں سے ہجرت کر چکے ہیں۔سینکڑوں ہزاروں افراد جو ایک مایوس کن ، خطرناک اور دشوار سفر کر نے کے بعد یورپ میں داخل ہوئے ہیں انہیں حراستی مرکزوں میں انتہائی خراب حالات میں رہنے پر مجبور کر دیئے گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ان سے روزمرہ کا معمولی سازو سامان بھی چھین لیا گیاہے۔محنت کشوں کی یکجہتی کو کمزور کر نے کی غرض سے سا مراجی حکومتیں سر ما یہ دار سیاسی پارٹیاں ، میڈیا قومی شاونز م اور نسل پرست تعصبا ت کو اُبھا ر رہی ہے۔1930 میں سیاسی ردعمل کے طور پر یہودیوں کو قربانی کا بکرا بنایا گیاتھا۔آج شمالی امر یکہ ، یو رپ اور آسٹریلیامیں ذرائع ابلاع کے ذریعے مسلمانوں کو بد نام کیا جا رہا ہے۔اور ریاستی سرپرستی کے ذریعے انہیں امتیاز ی سلوک نسل پرستی اور فا شسٹ تشددکا نشانہ بنا یا جارہاہے۔

.3 15 سالو ں سے جاری ’’دہشت گرد ی کے خلاف جنگ ‘‘ کے جرائم کے لیے کسی سرکاری آفسیرز یا فوجی انٹیلی جنس اہلکاروں کو جواب دہ نہیں ٹھہرایاگیا ۔بین الاقوامی قانون یکسر غیر متعلقہ ہو چکا ہے۔ وائٹ ہاؤ س قانون کے بر عکس غیر قانونی طور پر اغواء قید و بند ٹارچر اور اپنے مخا لفین کو قتل کروانے کی حمایت اور قیادت کر رہا ہے ۔سا مراجی ممالک دہشت گردی کے خلاف جنگ کو بہانہ بنا کر اسے اپنے ہاں سیاسی مفادادت کے لیے استعما ل کر رہے ہیں ۔دہشت گردی کی کا روئیوں میں اکثر ریا ستی نگرانی میں رہنے والے افراد ملوث ہیں اور انہیں استعمال کرتے ہوئے جمہوری حقوق کو بُری طرح پامال کیا جارہا ہے۔بو سٹن ،فرگوسن اور دیگر شہر وں میں کر فیودراصل مارشل لاء کے نفاد کے لیے ایک ریہرسل ہے۔ نومبر 2015 میں فرانس میں حملوں کے بعد اُسے ’’ہنگامی حالت‘‘ کے تحت رکھا گیا ہے۔ خفیہ ایجنسیاں دسویں لاکھوں افراد کا ڈیٹا بیس اکھٹا کر کے بڑے پیمانے پر جاسوسی کررہی ہیں۔ محنت کش طبقے کے علاقوں میں پولیس کے مظالم قتل وتشدد روزمرہ کا معمول اور حقیقت بن چکا ہے۔حکمران طبقے سماجی عدم مساوات کی وجہ سے پیداہونے والی کشیدہ دھماکہ خیزصورت حال سے نمٹنے کے لیے حذب مخالف کو مستقل پولیس جبر اور تشددکے ذریعے دبانے کی تیاریاں کر رہی ہیں۔

.4 دنیا ایک تبا ہ کن عالمی تنازعات کے دہانے پر کھڑی ہے۔ سرمایہ دار حکومتوں کے سربراہوں کے جنگجوانہ بیانات میں تلخی بڑھتی جارہی ہے۔یو کرین شام میں پراکسی جنگیں نٹیواور روس کو بڑی حد تک ایک دوسرے کے ساتھ مدمقابل کردیاہے۔ نیٹو کے ممبر ترکی نے پہلے ہی روسی جنگی جہازوں کو نشانہ بنایاہے۔2016 کے شروع میں سویڈن کے ایک معروف فوجی کمانڈر میجر جنرل اینڈرس برن سٹون ( Ander,s Brannstrom) نے اپنے زہر کمان فو جیوں کو انتباہ کرتے ہوئے کہاہے ’’ ہم جس عالمی صورت حال کا سامنا کر ہے ہیں اور اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ کچھ سالو ں کے اندر ہم جنگ کی جانب بڑھ سکتے ہیں‘‘۔ 1914 کی پہلی عالمی اور 1939کی دوسری عالمی جنگ سے پہلے کی طرح سیاسی لیڈرز اور فوجی منصوبہ ساز یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں کہ بڑی طاقتوں کے درمیان جنگ کوئی دور کی بات نہیں۔بلکہ انتہائی ممکن ہے اور شاید ناگزیر ہے۔

.5 کسی خاص نقطے پر فوجی جبریت جنگ کے پھٹنے میں ایک اہم عنصر کے طور پر کردار ادا کر تے ہیں۔ بین الا قوامی تعلقات کے ماہر نے حال ہی میں لکھا ہے کہ اگر ایک بار جنگ ناگزیر سمجھ لی جائے تو پھر فوجی قیادتوں اور سیا سی لیڈروں کے حساب کتاب میں تبدیلی آجاتی ہے۔سوال اب یہ نہیں ہو تا۔کہ جنگ ہو گی یا نہیں بلکہ اب سوال یہ ہے کہ جنگ میں اب زیادہ فائدہ کب اور کہاں اٹھایا جاسکتاہے وہ جو جنگ کے بارے میں پر جوش یا پر امید نہیں ہوتے وہ بھی اس فریم ورک کا حصہ بن کر نا گزیر طور پر جنگ کی طرف بڑھ جاتے ہیں۔" اگلی عظیم جنگ - پہلی عالمی جنگ کے اسباب اور امریکہ اور چین کے تنازعات کے خطرے" رچرڈاین روزن کیرنس اور سٹیون ای میلر(کیمبر ج ایم۔اے،ایم آئی ٹی پریس 2015 صفحہ نمبر11)

.6 جنگ کی جانب بڑ ھنے کی سازش کی ذمہ داری سرمایہ دار اشرافیہ اور حکومت کی اعلیٰ سطح کے فوجی اینٹلی جنس کے اداروں ، کارپوریٹ مالیاتی اشرافیہ اور کرپٹ دائیں بازو کے میڈیا پر عائد ہو تی ہے۔جو اسے فقط جمہوری بحث کے بہانے ہی سہی، کے بغیر ہی اسے آگے بڑھانا چاہتے ہیں اس کے بر عکس عالمی سطح پر محنت کشوں کی ایک بہت بڑی تعداد میں امن کی زبر دست خواہش پائی جاتی ہے۔ اب تک تاہم کوئی منظم بین الاقوامی سیاسی تحریک سامراجی لا پروا جنگجوانہ پالیسیوں کی مخالفت میں نہیں ہے۔

.7 لیکن تیسری عالمی جنگ کو رو کنا انتہائی ضروری ہے۔ جنگ کے خلاف ایک نئی بین الاقوامی تحریک ضروری ہے۔ جو سر مایہ داری اور سامراجی کی مخالفت پر محنت کشوں اور نوجوانوں کو عالمی سطح پر متحد کر تے ہو ئے تعمیر کی جائے۔سر مایہ داری کا بحران جس جنگی جنون اور جنگ کو پیدا کر تاہے وہاں سماجی انقلاب کو بھی جنم دیتا ہے تاہم جنگ اور سماجی عدم مساوات، جمہوری حقوق کی پامالیوں کے خلاف جو نفرت اربوں لو گوں میں پائی جاتی ہے ان کی نئے تناظر اور پروگرام سے رہنمائی کی جائے۔

.8 اس بیان کے ساتھ چو تھی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی ( آئی۔سی۔ایف ۔آئی ) نے جنگ مخالف تحریک کے لئے مندرجہ ذیل سیاسی بنیادوں کے اصول مرتب کئے ہیں۔

  • ٌٌٌٌ جنگ کے خلاف جدوجہد کی بنیاد محنت کش طبقے پر ہو نی چاہیے جو سماج کی عظیم انقلابی قوت ہے اور اسکی قیادت میں سماج کے تمام ترقی پسند عناصر کو متحد کیا جائے۔
  • نئی جنگ مخالف تحریک کا سر مایہ دار مخالف اور سو شلسٹ ہو نا ضروری ہے کیو نکہ جنگ کے خلاف جدو جہد صرف اس وقت ہی سنجیدہ ہو سکتی ہے جو مالیاتی سرمائے کی آمریت اور معاشی نظام کے خاتمے پر ہو۔جو کہ عسکریت پسندی اور جنگ کی بنیادی وجہ ہے۔
  • نئی جنگ مخالف تحریک کی بنیاد سرمایہ دار طبقے کی پارٹیوں اور تنظیموں کی مخالف پر ہو اور اس کا آزاد اور خود مختار ہو نا ضروری ہے۔
  • نئی جنگ مخالف تحریک کو سب سے بڑھ کر بین الاقوامی کردار کا حامل ہو نا چاہیے اور محنت کش طبقے کی وسیع طاقت کو عالمی سطح پر سامراج کے خلاف جدوجہد میں متحرک کیا جائے۔بور ژوازی کی مستقل جنگ کے جواب میں محنت کش طبقے کو مستقل انقلاب کا تناظر دینا چاہیے ۔جسکی حکمت عملی کا مقصد قومی ر یاستی نظام کے خاتمے اور عالمی سو شلسٹ فیڈریشن کا قیام عمل میں لایا جائے اور یہ اقدام ممکنہ اور معقول طو رپر عالمی و سائل کو ترقی دیگا۔ اور اسکی بنیاد پر غربت کے خاتمے اور انسانی ثقافت کو بلندیوں کے معراج تک لے جائے گا۔

عالمی معیشت کے تضادات اور قومی ریاست

.9 محنت کس طبقے کو اگر شا و نسٹ پر و پیگنڈے کی گمراہی کے اُلجھن سے بچنا ہے تو اسے جنگ کی معروضی وجہ کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ ایک سو شلسٹ اور بین الا قوامی جنگ مخالف تحریک کی بنیاد کا تنا ظر ایک درست معاشی اور طبقاتی مفادات کے عین مطابق تشخیص کی بنیاد پر ہو نا ضروری ہے جو سامراجی حکمت عملی اور بڑی طاقتوں کی بنیاد ڈالتا ہے صرف اس بنیاد پر محنت کش طبقہ اپنے خود مختار پر وگرام کو آگے بڑھا سکتا ہے کہ وہ نا قابل مفا ہمت حذب اختلاف کے طور پر حکمران اشرافیہ کے ہر ملک میں "قو می مفادات" جسکی بنیاد پر وہ جنگ کا جواز پیش کر تے ہیں کے خلاف کردار ادا کرے۔

.10 عسکریت پسندی اور جنگ کی بنیاد ی وجہ عالمی سر مایہ داری نظام کے تضادات میں مضمر ہیں۔ اول-: ایک عالمی سطح پر مربوط باہم وابسطہ معیشت اور مخالفانہ قومی ریاستوں کے درمیان اسکی تقسیم ۔ دوئم -: عالمی پیداوار کا سماجی کردار اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے تحت ماتحتی ،جسکے ذریعے سرمایہ دار حکمران طبقہ نجی منا فع کو جمع کر تا ہے۔سرمایہ دارانہ بینکوں اور کارپو ریشنوں کی طاقتور کنشورشیم " اپنی " ریاستوں کو استعمال کر تے ہوئے اور ان کے ذریعے خام مال تیل ، گیس پائپ لائنز، تجارتی راستوں ،سستے مزدوروں ، منڈیوں تک رسائی اور کنٹرول کیلئے تجارتی اور بالآخرفوجی پیش قدمیوں کی تگ ودو پر منتج ہو تی ہے جو ان کے سر مایہ جمع کر نے کیلئے انتہائی اہم ہو تے ہیں۔

.11 جنگ کی جانب پیش قدمی بنیادی طور پر ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی اُن کو ششوں میں مرکوز ہے۔جو اپنی بالا دست پو زیشن کو برقرار رکھنے کی خاطر کر رہا ہے۔1991 میں سو ویت یو نین کی تحلیل کے بعد امریکہ نے اس مو قع کو دنیا پر اپنی مکمل بالا دستی کے طور پر دیکھا تھا۔" تاریخ کے خاتمے" کے پر پیگنڈے کی بڑی ستائش کی گئی۔اور" ایک قطبی لمحہ" کی تخلیق کو ناقابل چیلنج " نیو ورلڈ آرڈر" کے طاقت کے طور پر اطلاق کیاگیا ۔یہ سب کچھ وال سٹریٹ کے مفادات میں کیا گیا۔سو ویت یو نین دنیا کے وسیع جغرافیہ پر مشتمل تھا۔ جو مشرقی یو رپ کی سر حدوں سے لیکر بحرالکاہل کے سمندروں تک پھیلا ہو ا تھا۔ یو روایشیاء کے وسیع العریض علاقوں پر مو جود ہ کمزور روس اور وسطی ایشیاء کی نوآزاد ریاستیں ایک بار پھر کا پوریٹ کے استحصال او ر لوٹ مار کا میدان بن گئی ہیں۔اور اسطرح سٹا لنسٹ چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور 1989 میں محنت کش طبقے کی مزاحمت کو ریاستی جبر سے دبانے کے بعد سامراجی اجارہ داریوں کیلئے آزاد"تجارتی زون" کا قیام وسیع ذخائر کے ساتھ محنت کشوں کی سستی محنت کا استحصال شامل ہے۔

.12 امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی 1991 میں خلیجی جنگ میں عراق پر فتح کو حکمران طبقوں نے بین الاقوامی سطح پر جنگ کو قانونی شکل دینے کے طور پر ایک موثر خارجہ پا لیسی کے ہتھیار کے طور پر لا گو کیاتھا۔ وال سٹیریٹ کے اخبار کا اعلان " Work Force" یعنی طاقت کا کام، ایک سال بعد ہی پینٹا گو ن نے اسے ایک دفاعی حکمت عملی کی دستاویزات کے طور پر اپنا یا جس میں بیان کیا گیا تھا امریکہ کا مقصد فو جی لحاظ سے " جدید صنعتی ممالک کی طرف سے امریکہ کی قیادت کو عالمی یا علاقائی کردار اداکرنے کی چیلنج کی خواہش کی حوصلہ شکنی کر نا تھا"۔

.13 25 سالوں سے نہ ختم ہو نے والی جنگ تاہم مکمل طور پر امریکہ کی سر مایہ داری کی زوال پذیری کو روکنے میں نا کام رہی ہے اور نہ ہی وہ کوئی مستحکم عالمی تعلقات فراہم کر سکی ہے بلکہ اس کے برعکس امریکہ داخلی طورپر سنگین بحرانوں اور اسلحوں کے انبارتلے سر تک ڈوب چکا ہے۔بلکہ بین الاقوامی عدم استحکام کا ذریعہ بن چکا ہے نیو ورلڈ آرڈر کی تشکیل کے برعکس امریکہ ڈس ورلڈ آرڈر دینے میں کامیاب ہوا ۔امریکہ کی طرف سے شروع کی جانے والی ہر جنگ کا نتیجہ غیر متوقع اور تباہ کن پیچیدگیوں پر اُبھر کر سامنے آیا ہے۔

سامراج کی جیو پولیٹکس

.14 امریکی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مسلسل اور دور دراز کی کاروائیاں اس حقیقت کا عملی اظہار ہیں۔کہ دُنیا کا کوئی بھی کونہ امریکی سرمایہ داروں کے مفادات سے باہر نہیں ہے۔دنیا کے ہر ملک اور براعظم کو امریکی سامراج اقتصادی جیوپولٹیکل سیاسی مفادات کے تناظر میں دیکھتا ہے اور اس کے لیے امریکی حکمران طبقہ ہر حقیقی اور ممکنہ چیلنج کا مقابلہ کرنے کی حکمت عملی تیار کرنے پر مرکوز رہا ہے۔

.15 واشنگٹن نے چین کو امریکی عالمی بالادستی کے لئے سب سے اہم خطرے کے طور پر پیش کیا ہے چین دنیا کی دوسری بڑی عالمی معیشت بن چکا ہے جو بین الاقوامی سرمایہ کاری اور اس سے پیدا ہونے والی وسیع پیداواری صلاحیت کے قیام سے اسے دنیا کے دوسری بے شمار ریاستوں کے ساتھ اہم تجارتی پارٹنر شپ کو فروغ ملا ہے۔ جیسے ہی چین کے عالمی وزن میں اضافہ ہوا ہے بیجنگ سرمایہ کاری اور تجارت کے نظام جس پر فی الحال امریکی غلبہ ہے وہ واشنگٹن کے یورپی اور ایشیائی اتحادیوں کی مدد مانگ رہا ہے۔امریکہ کو خطرہ لاحق ہے کہ کہیں ایشیائی انفراسٹرکچر انویسٹمنٹ بینک کے قیام اور چین کی "شاہراہ ریشم" اور یوروایشیاء کے اقدامات نمایاں طور پر اسکی عالمی معاشی پوزیشن کو کمزور کر دینگے۔

.16 اسکے علاوہ امریکی سامراجی تھنک ٹینک کے مطابق چین کی ریاست وسائل اور فوجی صلاحیتوں کے ساتھ ساتھ عالمی سطح تک رسائی کر رہی ہے اگر اسے نہ روکا گیا تو کئی عشروں میں وہ امریکہ کا حریف بن جائے گا۔ چین کی ابھرتی ہوئی معشیت کو مسلسل خام مال اور توانائی کی ضرورت ہے جس کی وجہ سے چین کو مجبوراََ ایشیاء افریقہ اور لاطینی امریکہ کے ساتھ تعلقات کو بڑھانے سے امریکہ کے اثر ورسوخ میں معروضی طور پر کمی ہونے سے اس کے مفادات کو خطرات درپیش ہیں۔سنٹر فار سٹریٹیجک اینڈ انٹر نیشنل سٹڈیز (CSIS)میں پینٹا گون کے حالیہ کمیشن ایشیا کے گرد"گھیرا" یا ری بیلنس کے ایک جائزے میں اپنی دشمنی کو چھپائے بغیر واضح انداز میں خبردار کیا ہے کہ خطے میں "امریکی فوجی توازن امریکہ کے حق کے خلاف تبدیل ہو رہا ہے"۔

.17 چین کے عروج کے جائزوں کو امریکی سامراج نے اپنے مفادات کو مد نظر رکھتے ہوئے کافی مبالغہ آرائی سے پیش کیا گیا ہے۔ چین میں سماجی تضادات دھماکہ خیز صورت حال کی عکاسی کرتے ہیں۔جدید شہروں اور جدید صنعتی کمپلیکسسز کے ساتھ ساتھ نیم پسماندہ زرعی نظام موجود ہے ۔ایک جانب حیرت انگیز دولت کے انبار ہیں اور دوسری جانب انتہائی غربت اور پسماندگی ہے۔جو کہ ڈیکنیشن(Dickensian) دور کی استحصالی کی یاد تاذہ کرتے ہیں۔امریکی انٹیلی جنس ایجنسیاں چین کے اندر گروہی اور علاقائی تقسیم سے خوب واقِف ہیں۔جنہیں وہ اپنے مفادات کے لئے استعمال کر رہی ہیں_جہاں اس وقت 55لِسانی اقلیتیں قانونی طور پر موجود ہیں_یہ نسلی اقلیتیں اور گروہ سرمایہ دار طبقے کے حریف حصوں کے درمیان دولت اور مراعات کی لوٹ کھسوٹ کے دوران تنازعات سے پیدا ہوئے ہیں۔چین میں سرمایہ داری کی بحالی اور اسکی اقتصادی ترقی کے باوجود اسے اور بھی امریکی اور یورپی سامراج کے زیر کردیا ہے۔

.18 ری بیلنس یا چین کے گرد"گھیرا"کی امریکی اور اس کے فوجی اتحادیوں کی پالیسی کا مرکز ی نقطہ فوجوں کی تعیناتی پر مرکوز ہے ۔ اس پالیسی کے تحت چین کو مستقل دھمکی دینا ہے اور تباہ کن ہوائی حملوں کے ذریعے وہ چین کے گنجان آبادی والے صنعتی مرکزوں کونشانہ بنانا ہے۔جو کہ پیسفک کوسٹ پر واقع ہے اور اس کے ساتھ ہی جنوبی چینی سمندر میں اہم سمندری راستوں کی ناکہ بندی ہے جس پر اسکی معیشت کا انحصار ہے۔"گھیرا" کا فوجی خاکہ پینٹاگون کے تصور میں جسکی تدوین"ہوائی سمندری جنگ" (Air Sea Battle) کا مقصد چین کو امریکی اقتصادی حکم کے آگے جُھکانے پر مجبور کرنا ہے۔جیسا کہ صدر اوباما نے اعلان کیا ہے کہ ٹرانس پیسفک پارٹنر شپ(TPP)کی شرائط کو اکیسویں صدی کے تجارتی قوانین کو ہم طے کریں گے نہ کہ چین جو جارحانہ طور پر وال سٹریٹ ، بینکوں اور کارپوریٹس کے مفادات کی ترجمانی کے سوا کچھ اور نہیں ہے۔

.19 امریکی سامراج کی"ایشیاکے گردگھیراتنگ" کرنے کی یہ فوجی حکمت عملی پورے خطے میں شدید عدم استحکام پیدا کریگی ۔اور امریکہ سے وسیع وسائل کا اخراج ہوگا۔امریکہ کے کئی سٹریٹجک حلقوں میں تاہم اسے ناکافی تصور کر کے مسترد کیا جاتا ہے۔چینی حکومت نے"ایک بیلٹ ایک روڈ"کے مالی معاونت کرنے کا وعدہ کیا ہے ۔اس وسیع پروجیکٹ میں نقل و حمل اور توانائی کے نیٹ ورکس کو سابقہ سوویت وسطی ایشیائی ریاستوں، مشرقی یورپ، روس، مشرقی وسطیٰ اور مغربی یورپی مارکیٹوں کے وسائل تک زمینی اور بحری رابطوں کوایک دوسرے کے ساتھ ملاکر ان کا قیام عمل میں لایا جائے گا۔جو کہ امریکی فوج کے رحم و کرم پر نہیں ہے ۔جبکہ ایسے حوصلہ مند عزائم کا احساس انتہائی غیر یقینی سیاسی مالیاتی اور تکنیکی عوامل پر میزبان ملکوں کے انحصار پر مبنی ہے ۔اس پروجیکٹ کے پلان کو و اشنگٹن میں خطرے کے طور پر دیکھا جاتا ہے۔

.20 حالیہ سی ایس آئی یس کے دستاویزات میں قیاس کیا گیا ہے کہ اگر اس معاشی ترقی سے روس اور چین کا فوجی اتحاد مضبوط ہوتا ہے جو کہ یوروایشیا پر غلبہ رکھتے ہیں ۔اور اس کے بعد دیگر طاقتیں ممکنہ طور پر ان کی طرف متوجہ ہو نگی۔سی ایس آئی ایس لکھتا ہے۔"کریمیلن"چاہے بالآخر چین کے ساتھ شامل ہو جاتا ہے۔یا وہ پھر زیادہ طاقتور پڑوسی کے خلاف توازن پیدا کرے گا۔ تو اس کے پھر دور رس مضمرات مرتب ہوں گے ۔امریکی حکمران اشرافیہ پہلے ہی سے ماسکو کی موجودہ انتظامیہ جسے فوجی طاقت سابقہ سوویت یونین سے وراثت میں ملی ہے کو امریکہ مشرقی یورپ ، سنٹرل ایشیاء اور مشرقی وسطیٰ میں اپنے مفادات کے حصول کی خاطر ایک بڑی رکاوٹ سمجھتا ہے۔

.21 برطانوی سامراج کے حکمت عملی کے ماہر(سٹریٹجسٹس) حال فور ڈ میکنڈر(1861-1948)جس نے امریکی خارجہ پالیسی کی تشکیل کی تھی اور جسے بڑے پیمانے پر عسکری تجزیہ نگاروں کے اندر زیادہ پزیرائی حاصل ہے۔حالیہ برسوں کے دوران اکیڈمک رسالوں اور کتابوں میں شائع ایک مضمون میں میکنڈر کے مطابق"قلب(Heart Land) " جو کہ جرمنی کے مشرقی سرحدوں سے چین کے مغربی سرحدوں تک کا علاقہ کہلاتا ہے _کو امریکہ اور اس کے مغربی یورپی اتحادیوں کے لئے فیصلہ کن سٹریٹجک اہمیت کا حامل تصور کیا جاتا ہے۔

.22 اسی طرح دیگر تصورات کو بھی دوبارہ زندہ کیا جا رہا ہے جیسا کہ انٹرمیریم یعنی کہ "سمندروں کے درمیان"کا منصوبہ جو دوسری عالمی جنگ سے پہلے پولینڈ کے دائیں بازو کے ڈکٹیٹر رہنما جوزف پلاسوڈاسکی (Joseph Pilsudski) نے دیا تھا۔انٹر میریم منصوبے کا مقصد سامراجی قیادت میں دائیں بازو کی ریاستوں کا اتحاد ہے۔جس میں(اسٹو نیا ، لٹویا ، لتوینیا، پولینڈ اور یوکرائن) جو کہ بالٹک سے لیکر بحیرہ اسود تک پھیلا ہو ا ہے۔اس منصوبے کا مقصد سوویت یونین کو غیر مستحکم کرنا تھا ۔ایک ہم عصر جو اس تھیوری کا پیروکار ہے اُس نے 2011 میں لکھا تھا کہ مغرب کو چاہیے کہ وہ یوروایشیا کے ساتھ خاص کر نئی مشرقی یورپی ریاستوں یوکرائن،بیلاروس ، کاکیشین ریاستوں اور سنٹرل ایشیا کی ریاستوں اور ساتھ میں چھوٹی یورو ایشین ریاستوں کو ملا کرایک بڑا تحاد تشکیل دیں۔ اس طرح مغرب بڑے یوروایشین طاقتوں کے خلاف ایک مضبوط دفاع بنانے کے قابل ہو جائے گا۔ جو روس کے کمزور نقطہ اور چین کے عقب کے درمیان ہو گا" (الیکزنڈروزپیٹرسن ___ عالمی جزیرہ___ یو روایشین جغرافیائی سیاست اور مغرب کی سیاست (سنٹایار براپیری جر" صفحہ نمبر114) (Alexandros Petersen.The world island: Euroasian Geopolitics and the fate of the west (Santa Barbara) Page No. 114)

.23 اس جیو سٹریٹجکمنصوبہ بندی کا پلان یورپ اور ایشیا ء میں واضح طور پر نظر آرہا ہے۔امریکہ اور اتحادی افواج انڈوپیسفک میں چین کے خلاف منظم انداز میں فوجی اضافہ کر رہے ہیں۔جبکہ روس کو مشرقی یو رپ میں نیٹوافواج کی تعیناتی کا سامنا ہے اور امریکہ انتہائی قوم پرست حکومتوں کی بالٹک ریاستوں اور یو کرائن میں فوجی امداد کر رہا ہے۔امریکی حکمران طبقے نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ جو ہری ہتھیاروں سے مسلح ماسکو اور بیجنگ کو جلد سے جلد گھنٹوں کے بل جھکا دے گا۔ واشنگٹن کا مقصد ہے کہ وہ روس اور چین کو نیم نو آبادیاتی طفیلی ریاستوں کے مقام تک پہنچا کر اور "قلب " (Heart Land) کا کنٹرول حاصل کر کے دنیا پر راج کر سکے۔

.24 ایشیاء اور بحر ہند پرکنٹرول امریکی سامراج کی حکمت عملی کا حصہ ہے۔جو یوروایشیاء اور دنیا پر کنٹرول کیلئے ضروری ہے۔ اس صدی کے آغاز سے امریکہ مسلسل اپنی فوجی سٹریٹجک موجودگی کو بر صغیر ہندوستان میں وسعت دے رہاہے جس میں افغانستان پر 15 سالہ قبضہ بھی شامل ہے اور ساتھ ہی انڈیا کے ساتھ ایک " عالمی سٹریٹجک شراکت دار ی " کو بھی آگے بڑھایا ہے اور اپنے فوجی طاقت کو مزید وسعت دے رہا ہے۔ اس سلسلے کی ایک کڑی 2015 میں سری لنکا میں حکومت کی تبدیلی ہے جو اب واشنگٹن کے زیادہ ماتحت ہے۔امریکہ کا پلان ہے کہ جنگ یا جنگی بحران کی صورت میں چین کی معیشت کو کمزور کر نے کیلئے سمندری راستوں کو استعمال کر تے ہوئے انہیں چین کیلئے بلاک کر ے ۔اس لئے بھی وہ اپنی بالا دستی کو بحر ہند پر قائم رکھنا ضروری سمجھتا ہے۔اس لئے وہ مشرقی افریقہ اور مشرق وسطیٰ میں امریکی فوجی پیش قدمی کی جانب بڑھ رہا ہے۔اس کے علاوہ بحر ہند پرواشنگٹن کا کنٹرول اس لئے بھی اہم سمجھا جاتا ہے۔ان سمندری راستوں پر جو مشرقی ایشیاء ، مشرقی وسطیٰ افریقہ اور یورپ کو آپس میں ملاتی ہیں۔امریکن سٹریٹجیٹس آر ۔ڈی ۔کپلن (R.D.Kaplan) "کے مطابق دنیا کی سب سے نمایاں توانائی اور تجارت کے انٹرسٹیٹ سمندری راستے" پر اس کی اجارہ داری ضروری ہے۔

.25 امریکہ کی انڈیا کو اپنے ساتھ ملانے کی کمپین اور پورے جنوبی ایشیاء میں اسکے غارت گرد اور جار حانہ سٹریٹجک عزائم نے پورے خطے کو ایک دھماکہ خیز قومی لسانی اور فرقہ وارانہ لڑ ائیوں کی جیو پو لیٹیکل صورت حال میں دھکیل دیا ہے جو کہ پہلے ہی سلگ رہا ہے۔سب سے برا شگون یہ ہے کہ اس نے انڈیا اور پاکستان کے درمیان طاقت کے توازن کا تختہ اُلٹ دیا ہے۔ان دونوں جو ہری ہتھیاروں سے لیس ریاستوں نے جنوبی ایشیاء میں ہتھیاروں کی دوڑ تیز کر دی ہے۔سی ایس آئی ایس کی جاری کردہ 2013 کی رپورٹ میں جنوبی ایشیاء میں ان جار حانہ اقدامات جو کہ آگ لگانے کے مترادف ہے۔واشنگٹن کی بے حسی کی واضح مثال ہے۔رپورٹ میں کہا گیاہے کہ انڈیا اور پاکستان کے درمیان ممکنہ ایٹمی جنگ جسکے نتیجے میں کروڑوں لوگ موت کے گھاٹ اتر جائینگے امریکہ کیلئے " گر ینڈ سٹریٹجک ضروری سنگین نتائج نہیں " بلکہ کہا گیا ہے کہ "وہ فائدہ مند ہو سکتے ہیں"۔

.26 امریکی سامراج عالمی جنگ کی منصونہ بندی کا مرکز ہے۔لیکن یہ عالمی سر مایہ داری نظام کے شدید بحران کا توجہ طلب اظہار بھی ہے۔یو رپی اور جاپانی سامراجیت کو بھی داخلی اور خارجی تضادات کا سامنا ہے جو اپنے حکمران طبقوں کے غارت گر اور جارحانہ مفادات میں پیچھے نہیں ہیں۔امریکہ کے جارحانہ اقدامات کی آڑ میں یہ تمام ان کوششوں میں مصروف ہیں کہ اپنے مفادات کو محفوظ کر نے کیلئے دنیا کی معاشی اور سیاسی دوبارہ تقسیم کی خونخوارجنگ میں کود پڑ یں۔کیا جرمنی امریکہ کا اتحادی رہے گا؟۔یا ایک بارپھر یو رپی براعظم پر اسکے اہم دشمن کے طور پر اُبھر کر سامنے آئے گا؟ کیا بر طانیہ اور امریکہ کے ہمیشہ کشیدگی کا شکار " خصوصی تعلقات" قائم رہیں گے؟ آنے والے عالمی تنازعات میں یہ پیش گوئی کر نا نا ممکن ہے کہ کون کس سامراجی حکومت کے ساتھ کھڑا ہو گا۔جس طرح لینن نے پہلی عالمی جنگ سے پہلے وضاحت کی تھی کہ " سامراجی طاقتیں ایک دوسرے کے ساتھ خفیہ معاہدوں میں ملوث ہیں۔ان کے اتحادیوں کے ساتھ اور اپنے اتحادیوں کے خلاف"

.27 ہٹلر کی حکومت کے 70 سال کے خاتمے کے بعد جر من کا حکمران طبقہ اپنی ریاست سے یورپ اور دنیا پر ایک طاقتور ریاست کے طور پر اپنی بالا دستی قائم کرنے کا مطالبہ کر رہاہے۔برلن نے مشرقی وسطیٰ اور افریقہ میں اپنے مفادات کے لیے فوجیوں کی تعنیاتی کی ہے اس کے باوجود کہ جرمن میں مخالف جذبات انتہائی گہرے ہیں۔جر من ریاست ہتھیاروں پر بڑے پیمانے پر پیسہ خرچ کر رہی ہے۔سیاسی اسٹیبلشمنٹ میڈیا اور تعلیمی اداروں میں نازی حکو مت کے جرائم کی وکالت زور شوور سے کی جارہی ہے۔تاکہ جر من سامراج کے عزائم کی بحالی کا جواز پیش کیا جاسکے۔

.28بر طانوی سامراج اس موقع کی تلاش میں ہے کہ امریکہ کا زوال اس کے بینکوں اور مالیاتی اداروں کو اہم عالمی مالیاتی معاملات میں آگے بڑھانے میں مو قعہ فراہم کرینگے ۔جو لندن شہر میں قائم ہیں۔فرانس شمالی اور مغربی افریقہ میں اپنے سابقہ نو آبادی حکمرانوں پر اپنی گر فت دوبارہ حاصل کرنے کی کو شش کر رہاہے۔اٹلی لیبیا میں دوبارہ اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کا منصوبہ بنا رہاہے۔بر طانیہ کی قیادت میں جوکہ بظاہر امریکہ کے " خصوصی" اتحادی ہے نے تمام بڑی یو رپی طاقتوں کے ہمراہ گزشتہ سال واشنگٹن سے سر کشی کرتے ہوئے چین کی جانب سے بنائے گئے ایشائی انفراسٹرکچر انوسٹمنٹ بینک میں شمولیت اختیا ر کی۔ یو رپی طاقتوں کے درمیان بھی اختلافات تیزی سے بڑھ رہے ہیں۔خاص کر بر طانیہ اور فرانس کے جرمنی کے ساتھ، جرمن کے بڑھتے ہو ئے جارحانہ اقدامات یو رپی یو نین کو ٹوٹنے کی طرف بڑھا رہے ہیں ۔یہ مغا لطہ کہ یو رپ کو سر مایہ دار انہ بنیادوں پر متحد کیا سکتا ہے۔یہ مفر و ضہ تیزی سے ٹو ٹ رہا ہے۔بر طانیہ میں اس سال یورپ سے نکلنے کا ریفر نڈم کے اقدام نے یورپی یونین کے مکمل خاتمے کے پراسِس کو تیزکر دیا ہے اور ان تمام اختلافات اور تضادات کو دوبارہ ابھار دیا ہے۔جو دو عالمی جنگوں کا سبب بنی تھیں۔

.29 جا پان امریکہ کی ناختم ہو نے والی ورلڈ آڈر کے غلبے کی اطاعت کر تارہا ہے۔ملک کی حکمران اشرافیہ بعد از جنگ کی پابندیوں سے دست بردار اور اپنے خود مختار سامراجی کردار اور اس کے اپنے پر تشدد عزائم کیلئے اپنی فوج کی دوبارہ تعمیر کر رہی ہے۔1941 میں جاپانی اور امریکی سامراجی کے درمیان آخر کار جنگ کا آغاز اس پر ہو ا تھا کہ ایشیاء پر کس کا راج ہوگا۔ چھوٹی سامراجی طاقتیں جیسا کہ کینیڈا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ جو امریکہ کی فوجی طا قت کیلئے فی الحال کرائے کے ٹٹو کے طور پر کام کر رہی ہے۔کیونکہ وہ اپنے معاشی اور سٹریٹجک مفادات کے تحفظ کو فی الوقت یہی اچھا ذریعہ سمجھتی ہیں۔امریکی سامراج کے ان ریاستوں میں بھی فوجی پو زیشنز اور فوجی اثاثوں میں اضافہ ہو اہے۔جو دوسری عالمی جنگ کے بعد بمشکل اس کے اکاؤنٹ میں نمودار ہو ئی تھیں۔جیسا کہ انڈیا ،برازیل، ایران اور انڈو نیشیا ء وغیرہ۔

سامراجی اور سرمایہ داری کا ٹوٹ جا نا

.30 حریف قومی ریاستوں کے درمیان تناؤ، تنازعات اور کشیدگی کی وجہ عالمی سر مایہ داری نظام کا ٹوٹ جا نا ہے۔یہ صرف اور صرف آئی ۔سی ۔ایف۔آئی نے تشخیص کی تھی۔کہ سو ویت یو نین کا انہدام جو سٹالن ازم نے کیا تھا۔ یہ سر مایہ دارانہ نظام کی فتح نہیں تھی بلکہ سو ویت یو نین کے تحلیل کے ساتھ ہی امریکہ کا معا شی زوال شروع ہو ا ۔اور واشنگٹن میں وہ صلاحیت نا گزیر طور پر باقی نہیں رہی کہ وہ پُر امن طریقے سے ان موروثی تضادات کو دبا سکے جو " بڑی عالمی جنگوں کا باعث بنی تھی"

.31 سو ویت یو نین کی تحلیل کے بعد آزاد منڈی کی آخری فتح کے دعووں کے بر عکس گزشتہ 25 سالوں کے بحران کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ جارہی ہے۔1997 اور 1998 کا ایشیائی اقتصادی بحران اور اس کے بعد روس کا ڈیفالٹ اور 1998 میں طویل مدتی کیپیٹیل مینجمنٹ کا دیوالیہ اور 2001 میں ڈاٹ کام کے بلبلے کا پھٹنا اور سب پرائم (Sub Prime) رہن کا ڈھیرہ ہو نا اور آخر کا ر2008 کا دنیا بھر میں مالیاتی بحران کا پیدا ہو نا تھا۔

.32 گزشتہ 7 سالوں میں دنیا کے مرکزی بینکوں جسکی قیادت فیڈرل رینرور کر تا ہے۔12 ٹریلین ڈالر سے زیادہ بینکوں اور مالیاتی اداروں میں انڈیلے گئے۔تاکہ ان کی پو زیشن کو مالیاتی طور پر مستحکم کیا جاسکے۔اس سے شیئر و یلیوز اور امیر ترین افراد کی دولت میں اضافہ ہو ا۔جبکہ پیداواری سر گر میاں ٹھہراو کا شکار ہیں۔اور عالمی قرضوں میں 57 ٹریلین کا اضافہ ہواہے۔چین میں معاشی ترقی کو برقرار رکھنے کیلئے قر ضوں کی پالسیوں کو بنیاد بنایا گیا۔اور قرضوں کو معاشی ترقی کے ایندھن کے طور پر استعمال کیا گیا۔لیکن اب معیشت اور جنس کی قیمتیں تیزی سے گر رہی ہیں۔جنس کی بر آمدات پر انحصار کر نے والے ممالک جیسا کہ سعودی عرب،روس ،جنوبی افریقہ ،برازیل ،میکسیکو اور یہاں تک کہ آسٹریلیا اور کنیڈا ڈپریشن کی جانب بڑھ رہے ہیں۔

.33 نیو یارک ٹائمز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ آنے والے وقت میں 2008 سے زیادہ تباہ کن عالمی مالیاتی بحران پیدا ہو نگے۔مالیاتی بحران کے بعد لمبے عر صے تک برا قرضہ اقتصادی سر گرمیوں میں جاری رہا۔اخبار نے خبردار کیا ہے کہ چین کے اند ر شو رش زدہ کر یڈٹ 5 ٹریلین ڈالر سے تجاوز کر جائے گاجو چین کی سالانہ اقتصادی پیداوار کا نصف حجم کے برابر ہے۔ٹائمز آگے لکھ کر انتباہ کر تاہے۔کہ چین میں " غیر منا فع بخش قر ضوں " نے 2008 سے عالمی معیشت کی ترقی میں ایک اہم انجن کے طور پر کام کیا تھااب اسے 4.4ٹریلین کے مالیاتی نقصان کا سامنا ہے۔دیگر تجزیہ کاروں نے بھی سنگین خطرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ہے کہ عالمی مالیاتی نظام کو بڑے پیمانے پر خسارے کا سامنا ہے ۔نا کام توانائی کے کا رپو یشنوں کو کھربوں ڈالرز کے قرضے فراہم کرنے سے اس کی شدت میں اضافہ ہوا ہے۔

.34 جس طرح 1929 میں وال سٹریٹ کر یش سے جیو پو لیٹیکل تناو اور کشیدگی شروع ہو ئی تھی جو ایک دہائی بعد دوسری عالمی جنگ میں تبدیل ہو گئی تھی۔ ۔2008 کے مالیاتی کریش نے سامراجی عسکریت پسندی کیلئے ایندھن کا کا م کیا ہے۔گزشتہ 7سال اس بات کے گواہ ہیں کہ حریف ٹرانس نیشنل کا نگلو مر یٹس (TNC) کے درمیان مارکیٹ شیرزاور منافوں میں کمی کے باعث تلخ جد وجہد میں تیزی کے ساتھ اضافہ ہوا ہے۔مکنسی گلوبل انسٹی ٹیوٹ کی ایک حالیہ رپورٹ جو کہ امریکہ کی ایک مشاورتی فرم ہے امریکی خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کارپوریٹ منافع کی"گولڈن ایج" کا خاتمہ ہو رہا ہے کیونکہ عالمی گراوٹ کی ہم کاری اور مزدوروں کی جانب سے اُجرتوں میں اضافے کے مطالبے نے مقابلے کی شدت میں تیزی سے اضافہ کیا ہے ۔1980سے لیکر2013تک دنیا کی جی ۔ڈی ۔پی میں منافع کی شرح7.6فیصد سے بڑھکر 10فیصد رہی۔مِکنسی زور دیتا ہے کہ یہ حالات اگلی دہائی یکسر تبدیل ہو جائیں گے۔تسلیم شدہ کارپوریشن کیلئے"ابھرتی ہوئی منڈیاں"کی کمپنیاں خاص کر چین میں قائم کمپنیاں سے چیلنج کا سامنا ہوگا۔محنت کش طبقے میں بڑھتی ہوئی مزاحمت لیبر کے اخراجات میں کئی دہائیوں سے جاری کمی پر اثرات مرتب کر رہی ہیں۔مکنسی اپنی رپورٹ کے اختتام میں لکھتا ہے ۔آنے والے وقت میں دنیا بھر میں تمام حکومتوں کو نئے سوالات کا سامنا ہوگا۔جسکا مطلب ہے کہ تیزی سے بدلتے ہوئے ماحول میں انہیں تقابلی برتری کیلئے تیار ہونا ہوگا۔حکمران طبقے اس"تقابلی برتری" کو فوجی طاقت کے ذریعے حاصل کرینگے۔

سامراج اجارہ داری اور مالیاتی اشرافیہ

.35 ولادیمر لینن کی سامراج پر لکھی گئی شاندار تحریروں کو اس سال یعنی 2016 میں 100سال پورے ہو جائیں گے۔جسے اُس نے پہلی عالمی جنگ کے قتل عام اور تباہیوں کے دوران تحریر کیں۔ لینن نے سامراج کی و ضاحت کرتے ہوئے کہا تھا۔کہ یہ صرف ایک پالیسی نہیں تھی ۔بلکہ عالمی سرمایہ دارانہ نظام کی ترقی میں ایک مخصوص مرحلہ تھا۔"سامراج،طفیلی یا تنزل پذیر ،قریب المرگ سرمایہ دارانہ" دور ہے ۔لینن اسکی خصوصیات پر زور دیتا ہے کہ "اجارہ داریوں نے آزاد تجارت کو بیدخل کر کے" معیشت پر بڑے بڑے سنڈیکٹوں اور بینکوں کا تسلط جسکے ہاتھوں میں"پوری دنیا کی منڈی کی کمان ہے۔جسے انہوں نے اپنے درمیان خوش اسلوبی سے تقسیم کیا ہوا ہے۔صرف اس وقت تک جب تک جنگ اسکی دوبارہ تقسیم نہیں کرتی"۔ لینن نے لکھا ہے "سامراج مالیاتی سرمایے کی آمریت ہے جو تسلط کی کوشش کرتا ہے نہ کہ آزادی کی۔

.36 لینن کا سامراج پر یہ کام گذشتہ صدی کے دوران ابتدائی دور میں لکھے گئے تھے اور یہ عمل آج تیزی سے عروج پرپہنچ چکا ہے۔سرمایہ دارانہ پیدوار کے گلوبلائیزیشن کے ساتھ ٹرانس نیشنل کارپوریشنز نے پورے سیارے پر اپنا غلبہ حاصل کر لیا ہے ۔پیدوار کے وسیع نیٹ ورک اور رسد کے ذرائع تشکیل دےئے ہیں ۔جو پوری دنیا کے محنت کشوں کا استحصال کرتی ہیں ۔مالیاتی سرمائے کی آمریت بڑے پیمانے پر دنیا کے تمام طول و عرض تک پہنچ گئی ہے۔سوئیس فیڈرل انسٹی ٹیوٹ آف ٹیکنالوجی کے ماہرین کی 2011 کی ایک تحقیق کے مطابق پتہ چلا ہے کہ 4306بڑی ٹرانس نیشنل کمپنیوں میں صرف 1318اجتماعی طور پر دنیا کی بڑی مینوفیکچرنگ فرموں کے مالک ہیں۔جو عالمی آمدنی کے 60فیصد کی نمائندگی کرتی ہیں۔صرف147کمپنیاں بڑے بینکوں اور سرمایہ کاری کرنے والے اداروں کی شکل میں قائم ہیں ۔جنکے مالیاتی ہیڈ کوارٹرز امریکہ ،مغربی یورپ اور جاپان میں ہیں۔جو40فیصد دولت کو اس پورے نیٹ ورک میں کنڑول کرتے ہیں۔

.37 کارپوریٹس کے مجتمع ہونے کے عمل میں زیادہ تیزی 2008 کے اقتصادی بحران کے بعد میں آئی ہے ۔کمپنیوں کے ایک دوسرے میں ادغام اور دوسری کمپنیوں کو حاصل کرنے کے عمل میں تیزی واقع ہوئی ۔سال 2015 میں 4.9ٹریلین کی سرگرمی اس کاروباری عمل میں آئی جو 2007 کے سابقہ ریکارڈ میں 4.6ٹریلین تھی۔

.38 لینن نے لکھا ہے کہ سامراج کے تحت"مالیاتی سرمائے کا دوسرے تمام سرمایوں پر بالادستی کا مطلب سرمائے سے منافع حاصل کرنے والوں اور مالیاتی اشرافیہ کی فوقیت ہے۔جس کا مطلب ہے کہ تھوڑی تعداد میں طاقتور ریاستیں دوسری تمام ریاستوں پر غالب ہیں اور اپنی من مانی کرتی ہے"۔فنانشلا ئزیشن کی جانب رجحان اور سرمائے پر منافع حاصل کرنے والوں (سٹے بازوں) کا غلبہ سماجی اور اقتصادی زندگی کے تمام پہلوؤں پر محیط ہوتا ہے جسے وسیع تناسب فرض کیا جاتا ہے۔یہ رُجحان امریکہ کے مقابلے میں اور اس سے زیادہ کہاں دیکھنے کو ملتا ہے ۔1980 میں امریکہ میں کارپوریٹ منافع کا صرف6فیصد حصہ فنانس کی صنعت میں منتقل ہوتا تھاجبکہ اسکا تناسب اب40فیصد تک بڑھ چکا ہے۔

.39 دنیا کی مٹھی بھر آبادی کے پاس جو دولت موجود ہے۔اگراسے اس طرح سے دیکھا جائے ۔دنیا کے امیر ترین62افراد سماج کے غریب ترین50فیصد آبادی)جو 3.7ارب افراد پر مشتمل ہے( سے زائد دولت رکھتے ہیں۔امریکہ میں"معاشی بحالی"سے صرف سرمایہ دار طبقے کا فائدہ ہوا ہے۔سماج کے امیر ترین 0.1فیصد کے پاس دولت جو 2007 میں17فیصد تھی۔بڑھ کر 2012 میں 22فیصد تک جا پہنچی ہے۔جبکہ اسی دوران عام گھرانوں کی آمدنی 12فیصد گر گئی ہے۔اس سال پیش کئے گئے ایک سروے کے مطابق دنیا کی آبادی کے ایک فیصد امیر ترین افراد کی دولت99فیصد آبادی سے زیادہ ہے۔

.40 عسکریت پسند ی کی جانب بڑھتے ہوئے اقدامات سماجی عدم مساوات کو مزید وسعت دے رہے ہیں ۔اور ساتھ ہی طبقاتی جدوجہد میں شدت آرہی ہے۔نہ ختم ہونے والے فوجی اخراجات کی مالی اعانت براہ راست محنت کش طبقے سے وصول کی جارہی ہے۔عالمی عسکری اخراجات جو بڑھکر 1.7ٹریلین ڈالر ہو چکے ہیں۔جس میں سے600بلین ڈالر صرف امریکی ریاست ہڑپ کر جاتی ہے۔

محنت کش طبقہ اور سامراج کے خلاف لڑائی

.41 سرمایہ دارانہ قومی ریاستی نظام کا بحران دو متضاد تناظر کو جنم دیتا ہے سامراج کوشاں رہتا ہے کہ سرمایہ دارانہ قومی ریاست کے معاشی جو پولیٹیکل مفادات کے تصادم جو کہ موروثی ہے پر قابو پائے ایسا کرنے کیلئے اُسے ایک عالمی بالادست طاقت کو قابل عمل بنانے کیلئے دوسری مخالف طاقتوں پر سبقت و فتح ضروری ہے ۔سامراج کی جیو سٹریٹجک اعداد و شمار کا مقصد بھی یہی ہے جسکا ناگزیر نتیجہ عالمی جنگ پر منتج ہوتا ہے۔

.42 سرمایہ دار طبقے کی جیو پولیٹکس کو رد کرتے ہوئے عالمی محنت کش طبقہ ہی معروضی طور پر وہ سماجی قوت ہے جس کی سماجی طاقت کے ذریعے عالمی سوشلسٹ انقلاب برپا کیا جا سکتا ہے ۔جو قومی ریاست کے نظام کو مکمل طور پر ختم کرتے ہوئے عالمی معیشت کو مساوات اور سائنٹیفیک منصوبہ بندی پر تعمیر کرتا ہے۔سامراج سرمایہ دارانہ نظام کو جنگ کے ذریعے بچانے کی راہ اختیار کرتا ہے۔جبکہ محنت کش طبقہ عالمی بحران کو سماجی انقلاب کے ذریعے حل کرتا ہے ۔ایک انقلابی پارٹی کی حکمت عملی سامراجی قومی ریاست کی جیو پولیٹکل کی نفی پر تشکیل پاتی ہے ۔جیسا کہ ٹراٹسکی نے وضاحت کی تھی کہ "انقلابی پارٹی جنگ کے نقشے کے پیچھے نہیں چلتی بلکہ طبقاتی جدوجہد کے نقشے پر چلتی ہے"۔

.43 سرمایہ داری جیسا کہ مارکس نے وضاحت کی تھی کہ اپنی قبر کھودنے والوں کو پیدا کر دیا ہے پیداوار کی گلوبلائیزیشن جس نے سرمایہ داری کے بحران کو شدید کر دیا ہے۔اور بہت بڑی تعداد میں عالمی محنت کش طبقے میں اضافہ ہوا ہے۔1980سے لیکر 2010 تک دنیا میں محنت طبقے کی تعداد میں 1.2بلین سے تقریباََ2.9بلین اضافہ ہوا ہے۔جس میں 500ملین نیا محنت کش طبقہ بھی شامل ہے جو چین اور انڈیا میں تیز ی سے بڑھا ہے۔محنت کش طبقے کی بڑھوتری ایشیاء،لاطینی امریکہ ،افریقہ میں ملین کی تعداد میں نئے مزدوروں پر مشتمل ہے ۔بلکہ سامراجی ممالک کے آبادی کے وسیع حلقے پر ولتاری بنتے جا رہے ہیں ۔پوری دنیا میں مٹھی بھر افراد جو ذرائع پیداوار کو کنٹرول کرتے ہیں دوسری جانب اُسکے مد مقابل آبادی کی وسیع اکثریت مارکیٹ میں اپنی قوت محنت بیچنے پر مجبور ہے۔

.44 محنت کش طبقے کی جدوجہد پر زور دیا جا رہا ہے جو ناگزیر طور پر انقلابی سمت اختیار کریگا۔حکمران طبقات ہر جگہ مجبور ہیں کہ اپنے مفادات کا دفاع کرتے ہوتے محنت کشوں کو بڑے پیمانے پر بیروزگار کریں ان کے اپنے"گھروں"میں یعنی قومی ریاستوں میں ، انہیں اسٹیرٹی (کٹوتیوں) اور اُن کے معیاد زندگی کو تباہ کرنے کی ناختم ہونے والی "قربانی"کیلئے سُولی پر چڑھاتے رہے۔اسی طرح نوجوانوں کی ایک پوری نسل کو مستقبل سے محروم کر دیا گیا ہے۔وسائل اور اخراجات کا بڑا حصہ فوجوں پر خرچ کیا جا رہا ہے۔جبکہ ضروری سماجی ڈھانچے زوال پذیر ہیں۔غربت تیزی سے بڑھ رہی ہے اور پیچیدہ ماحولیاتی مسائل کو بس یونہی چھوڑ دیا گیا ہے۔

.45 اس بات کے واضح اشارے ملتے ہیں کہ دہائیوں کے دوران تیار ہونے والا سماجی تناؤ (سالماتی عمل) سطح سے نیچے پھٹنے کے قریب ہے۔مصر میں محنت کشوں اور نوجوانوں کی 2011 میں بڑی عوامی تحریک اس بات کا اظہار تھی کہ عالمی محنت کش طبقہ انقلابی جدوجہد کے نئے عہد میں داخل ہو گیا ہے۔اسکے بعد یک بعد دیگر ممالک میں عدم مساوات اور کارپوریٹس کے استحصال کے خلاف محنت کشوں کے طاقتور مظاہروں کا آغاز ہوا۔یورپ میں کٹوتیوں (اسٹیرٹی) کے خلاف سرگرم مظاہرے چین،روس اور جنوبی افریقہ میں بڑھتے ہوئے ہڑتالوں کا سلسلہ اور امریکہ میں آٹوورکرز اور دیگر شعبوں کے مزدوروں میں سرکشی یہ صرف شروعات ہیں۔

جعلی بائیں بازو کی جماعتیں سامراجی کی ایجنسیاں ہیں۔

.46 بین الاقوامی سطح پر محنت کشوں اور نوجوانوں میں جنگ کے خلاف شدید اور گہری مخالفت پائی جاتی ہے۔2003 میں جب بُش انتظامیہ عراق پر حملہ کرنے کیلئے تیار ہوئی جو سراسر جھوٹ اور فراڈ پر مبنی تھا ۔دنیا بھر میں جنگ کے خلاف لاکھوں کی تعداد میں بڑے عوامی مظاہرے ہوئے ۔یہ جذبات ختم نہیں ہوئے ہیں حقیقت یہ ہے کہ گذشتہ دہائی کے دوران جنگ کے خلاف احتجاجوں کی تمام شکلوں کو دبا دیا گیا ؟

.47 اس سوال کا جواب"بائیں بازو"کی سرمایہ دار اور سامراج نواز سیاست میں پوشیدہ ہے جو کہ "بائیں بازو"کے نام پر دھوکہ دہی ہے۔ویت نام کی جنگ میں ریڈیکل مڈکل کلاس کے حلقوں نے جنگ مخالف تحریک میں حصہ لیا تھا۔گذشتہ 4دہائیوں کے دوران ان سماجی پرتوں(مڈل کلاس) میں گہری سماجی اور سیاسی تبدیلیاں آئی ہیں۔شےئرز کی ویلیوز میں بڑی تعداد میں اضافہ جس میں اُجرت میں مسلسل کٹوتیاں اور محنت کشوں کی مراعات کو کم سے کم کرنے کے ساتھ اور استحصال کی شرح میں شدت نے قدرزائدکو زیادہ بڑے پیمانے پر پیدا کیا ۔جس کی وجہ سے مراعات یافتہ درمیانے طبقے نے ایک حد تک دولت حاصل کرنے میں رسائی کی۔جو وہ اپنے پیشہ یا کاروبار کے آغاز میں تصور بھی نہیں کر سکتے تھے۔اسٹاک مارکیٹ کے طویل اُبھار نے سامراج کو یہ موقعہ فراہم کیا کہ وہ ان مراعارت یافتہ درمیانے طبقے کے پرتوں سے نئے اور اپنے لئے مخلص حلقے کو بھرتی کرئے یہ قوتیں اور سیاسی تنظیمیں جنہیں اپنے مفادات زیادہ عزیز ہوتے ہیں ۔جنکے لئے وہ کچھ بھی کر سکتے ہیں۔نہ صرف یہ کہ وہ جنگ مخالف تحریک کو دبائیں بلکہ سامراج کی خوشنودی کیلئے سب کچھ کر سکتے ہیں۔جیسا کہ انہوں نے سامراج کی مداخلتوں اور لوٹ مار کی کاروائیوں کیلئے جواز فراہم کیئے ۔

.48 جعلی بائیں بازو کی تنظیموں اور انکے رفیقوں کا خاص سیا سی کام یہ ہے کہ وہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے جھوٹ پر پردہ ڈالے ۔جیسا کہ انہوں نے بلقان ،لیبیااور شام میں سامراجی مداخلت کا جواز اُنہوں نے "انسانی حقوق"کی جھوٹی دلیلوں سے دیا تھا جعلی بائیں بازو کے لیڈرز سامراج مخالف ردِ عمل (Knee -Jerk anti Imperialism) کی مخالفت کرتے ہیں تاکہ کسی نہ کسی طرح پینٹا گون کے آپریشن پلانز کا دفاع کر سکیں۔جعلی بائیں بازو کے ممتاز رہنماؤں میں سے ایک گلبرٹ ایچکر (Gilbert Achcar)سامراجی خوشنودی کیلئے اس حد تک آگے بڑھ گیا کہ اُس نے سامراجی حکمت عملی کے سیشن میں شرکت کی ۔خود ساختہ اپنی خدمت پیش کرنے والا پروفیسرجوان کول (Juan Cole)نے الاعلان لیبیا میں سامراجی سپاہی کے طور پر اپنی خدمات پیش کی ۔پیٹی بورژ وا دانشوروں اور اکیڈمکس جن میں روکا پن جو ہروقت التجا کرنے خود کو زیادہ سمجھ دار سمجھنے کی غلط فہمیوں میں مبتلا ہیں ان کے لئے یہ نئی بات نہیں ہے۔جو مذہبی لیڈروں کی طرح سامراج کی کٹھ پتلیاں ہیں جو اپنے ممالک کے جرائم کی کاروائیوں کے آپریشنز کا ہر سطح پر دفاع کرتے ہیں۔بیسویں صدی کے آغاز میں سامراج کے لبرل نکات جان اے ہوپسن (John-A-Hobson)نے بہت شدید انداز میں انسانیت سے اپیل کرتے ہوئے ان کی توجہ کو سامراجی حملوں قبضوں اور الحاق کی جانب متوجہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ان جھوٹی وکالتوں کے نتیجے میں قوم کی اخلاقی قدریں بُری طرح مجروح ہوئیں

۔ .49 جعلی بائیں بازو کی تنظیموں کی اکثریت پینٹاگون کے سٹریٹجسٹ کے ساتھ اتحاد بنانے کیلئے جو نظریاتی اور سیاسی جواز فراہم کرتی ہیں۔ان میں سے ان کی جانب سے روس اور چین کو سامراجی طاقت کہنا ہے۔روس اور چین کو سامراجی طاقت کہنے کی یہ تعریف اُنھوں نے شاید خلا سے ڈھونڈی ہے یہ سوچے سمجھے اور کوئی کوشش کئے بغیر کہ 25سالوں کے دوران روس اور چین زوال پذیر بیورو کر یٹک اور مسخ شدہ مزدور ریاست سے کونسے تاریخی عوامل کے ذریعے سامراجی طاقت میں تبدیل ہو گئی ہیں۔

.50 یا یہ محض ماسکو اور بیجنگ کی حکومتوں کے خلاف سیاسی مخالفت کے اظہار کے طور پر اس تعریف کو اس کے ساتھ مربوط نہیں کیا گیا ۔انٹرنیشنل کمیٹی آف فورتھ انٹرنیشنل نے روس اور چین کی سرمایہ دار ریاستوں کے خاتمے کا مطالبہ محنت کش طبقے کے توسط سے کیا ہے۔جو کہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کی اجزائے ترکیبی کا ایک ضروری اور اہم جز و ہے اور اسکی وضاحت کی ہے۔کہ دونوں ریاستیں سٹالن از م کی بیسویں صدی کے سوشلسٹ انقلابوں سے غداری کی پیدوار ہیں جس کا حتماََ نتیجہ سرمایہ داری کی بحالی پر ہوا ہے۔روسی حکمران طبقہ مالیاتی اشرافیہ کا نمائندہ ہے جس نے سٹالنسٹ بیورو کریسی کے بطن سے جنم لیا ہے نے سوویت ریاست کا قلع قمع کر کے قومیائے گئے ملکیتی رشتوں کا خاتمہ کر دیا"عظیم روسی قوم پرستی"کا فروغ سٹالن ازم ہی کا نتیجہ ہے ۔جو انتہائی رد انقلابی اور بین الاقوامی مارکس ازم کے پروگرام کی نفی پر مبنی ہے۔چین کی کیمونسٹ پارٹی کی حکومت سرمایہ دارانہ اشرافیہ، پولیس سٹیٹ اور بیورو کریسی کی نمائندگی کرتی ہے۔جو 1980 میں کارپوریٹس کے سہولت کاروں اور چین عوام کے استحصال کے طور پر ظہور میں آئی۔

.51 اگر پوچھا جائے کہ روس اور چین کے ساتھ لفظ"سامراج"لکھنے سے ان کے کیا سیاسی مقاصد ہیں ؟ عملی سیاسی لحاظ سے یہ بہت خاص افعال کی خدمت کرتے ہیں۔ اول: یہ نسبتاََامریکی ،یورپی اور جاپانی سامراجیت کے مرکزی اور فیصلہ کن رد انقلابی کردار کو کم کرنا ہے جس سے جعلی بائیں بازو کو یہ سہولت فراہم ہوتی ہے کہ وہ امریکہ کے ساتھ سرگرم تعاون کرتے ہوئے حکومتوں کی تبدیلی کیلئے امریکی سامراجی فوجی مداخلتوں اور آپریشنز میں ان کی حمایت کریں۔جیسا کہ شام میں حکومت کی تبدیلی جیسے روس کی حمایت حاصل ہے۔ دوئم: اور اس سے بھی زیادہ اہم یہ ہے کہ چین اور روس کو سامراج کا درجہ دینے سے اور اس طرح نو آبادیاتی طاقتوں کی طرف سے نسلی ،قومی ،لسانی اور مذہبی اقلیتوں کو دبانے سے جعلی بائیں باز و والی تنظیموں کو جواز ملتا ہے۔کہ ان ریاستوں کی سرحدوں کے اندر "قومی آزادی"سرکشیوں اور کلر ریولوشنز جیسی سامراجی پشت پناہی میں چلائی جانے والی شورشوں کی حمایت کر سکے۔

.52 سامراج کی بیرونی حمایت داخلی طور پر مالیاتی اشرافیہ کی آمرانہ احکامات کے مساوی ہے۔سریزہ (ریڈیکل لیفٹ کولیشن) کے2015میں یونان میں اقتدار میں آنے کے بعد جس نے غیر معمولی رفتار سے کٹوتیوں(اسٹیرٹی) کی پالیسیوں کو اپنایا جسکا انھوں نے مخالفت کا دعویٰ کیا تھا جس سے بین الاقوامی طور پر جعلی بائیں بازو کے نوعیت اور کردار واضح طور پر بے نقاب ہوتا ہے۔اور اس طرح کا کردار دوسرے گروپوں نے بھی ادا کیا ہے۔جیسا کہ جرمن کی لیفٹ پارٹی ،فرانس کی نیوانٹی کیپٹلیسٹ پارٹی،برطانیہ کی سوشلسٹ ورکرز پارٹی اور امریکہ میں انٹرنیشنل سوشلسٹ آرگنائیز یشن اور سوشلسٹ الٹرنیٹیو وغیرہ ۔خواہ جیرمی کوربین لیبر پارٹی کی برطانیہ میں مہم کی حمایت ہو یا امریکہ میں برنی سنیڈرز کی ڈیموکریٹک پارٹی کی مہم ہوان تنظیموں کا کام محنت کش طبقے کی آزاد سیاسی موبلائیزیشن کو روکنا ہے۔ان کا کام نسلی اور تشخص، جنسی اور جنسی رُجحانات کی سیاست کو فروغ دینا ہے۔جسکے ذریعے وہ مراعات یافتہ پوزیشنز ، اعلیٰ پیشوں، اکیڈمیز،ٹریڈیونینز اور ریاستی بیورو کریسی میں حاصل کرتے ہوئے زیادہ آمدنی پاتے ہیں۔یہ ہزاروں دھاگوں سے مالیاتی اشرافیہ سے بندھے ہوئے ہیں اور محنت کشوں کے دل کی گہرائیوں سے دشمن ہیں۔

چوتھی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی کی تعمیر کرو

.53 ہم اکتوبر1917 کے انقلاب کے 100سال مکمل ہونے کے قریب ہیں۔عالمی تاریخ میں یہ عہد ساز واقعہ جس میں پہلا سوشلسٹ انقلاب اور مزدور ریاست کا قیام عمل میں آیا۔اس عظیم سوشلسٹ انقلاب کی رہنمائی مارکسسٹ انٹرنیشنل جس کی قیادت لینن اور ٹراٹسکی کر رہے تھے ۔جنہوں نے پہلی عالمی سامراجی جنگ کی سخت ترین شکل میں مخالفت کی تھی۔اسکے بعد اکتوبر انقلاب کے بین الاقوامی پروگرام اور اصولوں سے سٹالنسٹ بیورو کریسی کی طرف سے غداری اور بالآخر سوویت یونین کے انہدام پر اختتام پذیر ہوئی ۔سوویت یونین کے اَلمناک انجام کے باوجود تین تاریخی حقائق جو مستقل رہے ہیں جنہیں نہیں مٹایا جا سکتا ۔ اول: سب سے پہلے 1917کے اکتوبر انقلاب مارکسسٹوں کی تشخیص کی تصدیق ہے کہ محنت کش طبقے کا انقلابی کردار انقلابی پارٹی ،قیادت اور اُن کے پاس شعوری تناظر کا ہونا ضروری اور لازم ہے۔ دوئم: ٹراٹرسکائیٹ تحریک کی جانب سے سوویت یونین کے اندر اور باہر شروع کی گئی جدوجہد یہ بتاتی ہے کہ سوشلسٹ اور انٹرنیشنلسٹ پروگرام کی بنیاد پر سٹالنسٹ حکومت کی بیورو کریٹک زوال پذیری کے طور پر متبادل موجود تھا ۔لہٰذا سوویت یونین کا انہدام ضروری اور ناگزیر نہیں تھا۔ سوئم: سرمایہ دارانہ نظام کے معاشی ،سماجی اور جیوپولیٹیکل بنیادی تضادات جو پہلی عالمی سامراجی جنگ 1914ء کی وجہ بنے تھے ۔جس سے 1917ء کے اکتوبر انقلاب نے جنم لیا تھا اس پر قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔

.54 گذشتہ صدی بے کار نہیں رہی محنت کشوں اور نوجوانوں کے شعور کو پوری دنیا میں دہائیوں سے جاری نہ ختم ہونے والی جنگ اقتصادی اور معاشی بحران نے متاثر کیا ہے۔گرتی ہوئی معیار زندگی کے خلاف جدوجہد ، ماضی کے حاصل کردہ مراعات پر مسلسل حملوں ،سماجی عدم مساوات میں سنگین اضافہ اور "دہشت گردی" کے خلاف جنگ کی آڑ میں جمہوری حقوق کا خاتمہ شامل ہے۔اہم کام ان جدوجہدوں میں سرمایہ داری کے بحران کو مجموعی طور پر سمجھنے کی ضرورت ہے جسکا زیادہ خطرنا ک اظہار ہمیں سامراجی جنگ کی جانب پڑھتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔اس لیے ضروری ہے کہ محنت کش طبقے میں سیاسی قیادت کو تیار کیا جائے۔جو علیحدہ علیحدہ جدوجہد کو ایک متحدہ جدوجہد میں پروتے ہوئے اس سماجی اور معاشی نظام کو جڑ سے اُکھاڑ کر ایک سوشلسٹ انقلاب برپا کرے۔

.55 عالمی معیشت اور سیاست ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے ۔سرمایہ داری کی فتح کا جشن کا پریڈ جو مشرقی یورپ میں سرمایہ داری کی بحالی سے شروع ہوا تھا اور جوبعد میں پر جوش انداز میں سٹالنِسٹ سوویت یونین کے انہدام کے بعد ختم ہو گیا ہے۔ قیاس آرائی اور سٹے بازی پر قائم عمارت جو حکمران طبقوں کی طفیلی دولت حاصل کرنے کا بڑا ذریعہ تھی ٹوٹ کر بکھر رہی ہے۔سٹاک مارکیٹ کے زوال نے کمپنیوں کے بھرم کو بھی توڑ دیا ہے اور ساتھ میں سرمایہ دار نظریہ دانوں اور لیڈروں کی وقار اور ساکھ بھی بکھر رہی ہے۔

.56 حکمران اشرافیہ کی حیرانی ،تذبذ ب اور خوف، نوجوانوں اور محنت کش طبقے میں بڑھتی ہوئی سیاسی ریڈیکلائیزیشن تیزی کے ساتھ سوشلسٹ رجحان کا رخ اختیار کر رہی ہے اس ابتدائی سوشلزم کی جانب رُجحان کو ایک ترقی یافتہ سیاسی سوشلسٹ انقلابی شعور کے ساتھ بر ابر سمجھنا مکمل طور پر غلط ہوگا۔لیکن سیاسی ترقی کے عمل کی ابتدائی توضیحات جو سرمایہ دارانہ نا انصافی کے مقبول غصے کے خلاف اُبھر رہا ہے اور سرمایہ داری کے خاتمے اور اسکے عالمی سوشلزم میں تبدیل ہونے تک جو شعور درکار ہے وہ عمل ابھی جاری ہے۔

.57 وہ جما عتیں اور شخصیات جو ابتدائی طور پر اس سیاسی عدم اطمینان سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ابھر کر سامنے آئینگی انہیں جلد ہی بڑے پیمانے پر سماجی قوتوں کے دباؤ کا سامنا ہوگا۔ جو عالمی بحران کی شدت سے بڑھ رہا ہے۔سریزہ اور اس کے لیڈر سائپرس کی قسمت کا فیصلہ صرف جنوری2015 سے شروع ہو کر جولائی 2015ء میں اختتام پذیر ہوا۔جو حقارت کی علامت بن گیا ۔اس طرح کے اور سیاسی دھوکے بازوں اور گمراہ کنوں کا اس سے بھی بدتر انجام ہوگا۔ یہ کافی نہیں ہے کہ ہم خاموشی سے ان غداروں کے بے نقاب ہونے کے واقعات کا انتظار کریں۔بلکہ ہمیں واقعات سے پہلے انہیں بے نقاب کرنے کی فوری ضرورت ہے۔اس کے لئے ضروری ہے کہ ہمیں ایک حقیقی انقلابی پارٹی کی تعمیر شروع کرنے کی فوری ضرورت ہے۔جو محنت کشوں کو درپیش فریضے کی رہنمائی کر سکے۔

.58 یہ چھوتی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی کا سیاسی مشن ہے ۔ہمارے تمام سیاسی مخالفین انٹرنیشنل کمیٹی کو "فرقہ پرست"کہہ کر مزاحمت کرتے ہیں۔گذشتہ کئی دہائیوں سے یہ لقب پیٹی بورژوا موقعہ پرستوں اور دوسرے تمام قسم کے لفنگوں نے مارکسسٹوں کے خلاف لگایا ہے(جیسا کہ لبرل سوشل ڈیموکریٹ ،لیبر کیرریسٹ،ٹریڈ یونینز کے کارکن، جعلی بائیں بازو کی تنظیمیں ،اصلاح پسند اور ان کے وہ تمام حصے جو اپنے سایوں سے ڈرتے ہیں)۔ "فرقہ وارانہ"سے انکی حقیقت میں یہ مراد ہے کہ جو سوشلسٹ اصولوں کے ساتھ پکی وابستگی رکھتے ہوں۔اور جو حکمران طبقے کے کسی بھی دھڑے کے ساتھ سیاسی اتحاد کے مخالف ہوں۔اور عالمی محنت کش طبقے کی سیاسی آزادی کے مسلسل اور کٹر علمبرادار ہوں ۔جیسا کہ ٹراٹسکی اسطرح کے تمام مخالفت کرنے والوں سے اچھی طرح واقف تھے۔وہ لکھتا ہے۔ "چوتھی انٹرنیشنل جو پہلے ہی آج سٹالنسٹ ،سوشل ڈیموکریٹ، بورژوالبرل اور فاشسٹوں کے نفرت کا نشانہ ہے__جو بغیر سمجھوتہ کئے ہوئے ان تمام سیاسی گروپوں کے خلاف جنگ کر رہی ہے جو بورژواکے زیر اثر ہیں ۔اس کا فریضہ سرمایہ دار ی کے تسلط کا خاتمہ __اسکا مقصد __سوشلزم__ اسکا طریقہ کار__پرولتاری انقلاب"(سرمایہ داری کی اذیت ناک موت اور چوتھی انٹرنیشنل کا فریضہ (عبوری پروگرام)۔

.59 چوتھی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی اس بیان کے ذریعے تمام پڑھنے والوں کو وسیع بحث و مباحثے کی دعوت دیتی ہے۔جو اس تجزیے میں پیش کیا گیا ہے۔ ہم اُن تمام قارئین جو لاکھوں کی تعداد میں ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کو پڑھتے ہیں اس بیان کا مطالعہ کریں اور اسے وسیع پیمانے پر سرکولیٹ کرنے میں جدوجہد کو تیز کریں۔اس بیان میں پیش کردہ مذکورہ اصول نئی بین الاقوامی جنگ مخالف تحریک کو بنیاد فراہم کرینگے۔یہ اصول ہم دوبارہ لکھ رہے ہیں جو کہ ۔

  • جنگ کے خلاف جدوجہد کی بنیاد محنت کش طبقے پر ہونی چاہیے ۔جو سماج کی عظیم انقلابی قوت ہے اور اسکی قیادت میں سماج کے تمام ترقی پسند عناصر کو متحد کیا جائے۔
  • نئی جنگ مخالف تحریک کا سرمایہ دار مخالف اور سوشلسٹ ہونا ضروری ہے کیونکہ جنگ کے خلاف جدوجہد صرف اُس وقت ہی سنجیدہ ہو سکتی ہے جو مالیاتی سرمائے کی آمریت اور معاشی نظام کے خاتمے پر ہو۔جو کہ عسکریت پسندی اور جنگ کی بنیادی وجہ ہے۔
  • نئی جنگ مخالف تحریک کی بنیاد سرمایہ طبقے کی پارٹیوں اور تنظیموں کی مخالفت پر ہواور اسکا آزاد اور خود مختار ہونا ضروری ہے۔
  • نئی جنگ مخالف تحریک کو سب سے بڑھ کر بین الاقوامی کردار کا حامل ہونا چاہیے اور محنت کش طبقے کی وسیع طاقت کو عالمی سطح پر سامراج کے خلاف جدوجہد میں متحرک کیا جائے۔

.60 موجودہ عالمی صورت حال سے پیدا ہونے والے مندرجہ ذیل عظیم تاریخی سوالا ت یو ں ہیں:- عالمی سرمایہ داری نظام کا بحران کس طرح حل ہوگا؟____کیا تضادات نظام کو تباہ کرتے ہوئے جنگ یا عالمی سوشلسٹ انقلاب پر منتج ہوں گے؟ کیا مستقبل فاشزم ،نیوکلےئر جنگ یا دوبارہ بربریت کی جانب بڑھے گا یا عالمی محنت کش طبقہ انقلاب کا راستہ اختیار کرتے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینکتے ہوئے اسے عالمی سوشلسٹ بنیادوں پر استوار کرے گا؟

.61 انٹرنیشنل کمیٹی آف فورتھ انٹرنیشنل اور اس کے سیکشنز ان اصولوں پر جو اس بیان میں پیش کئے گئے ہیں برادرانہ بحث و مباحثے کا خیر مقدم کرتے ہوئے دنیا میں موجود سیاسی رجحانات اور افراد جو ا س بات پر قائل ہیں اور تسلیم کرتے ہیں کہ انہیں فی الفور بین الاقوامی سطح پر جنگ کے خلاف تحریک کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

  • بین الاقوامی محنت کش طبقے کے اتحاد کیلئے۔
  • جمہوری حقوق کے دفاع کیلئے۔
  • سماجی مساوات اور سوشلزم کیلئے۔
  • عالمی سوشلسٹ انقلاب کے پروگرام کی بنیاد پر عالمی سامراجی جنگ کو روکنے کیلئے۔
  • ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کے قارئین کو بڑھائیں۔
  • نوجوانوں اور محنت کشوں کی نئی نسل کو انقلابی سوشلسٹ انٹرنیشلزم کے اصولوں پر نظریاتی طور پر مسلح کریں۔
  • چوتھی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی کے نئے سیکشنز کی تعمیر کیلئے ۔