اُردُو
Perspective

افغانستان میں جنگ کے پندرہ سال

امریکہ نے 7اکتوبر 2001ء میں افغانستان میں اسلامک طالبان کی حکومت اور القاعدہ کے ٹھکانوں پر بھرپور فوجی حملوں کا آغاز کیا تھا۔

افغانستان میں حملے جنگ سے زیادہ ایک مربوط اور مسلسل قتل عام کا سلسلہ رہا ہے۔ جسے ان فوجی دستوں نے مختلف اقسام کے قاتلانہ ہتھیاروں اور طریقہ کار کو استعمال کرنے کے امتحان کا موقع ملا۔ 

مشتبہ زمین دوز پناہ گاہوں اورغاروں کے بڑے نیٹ ورکس کو جو سات میٹر تک مضبوط کنکریٹ سے بنے ہوئے تھے ۔انہیں بموں سے تباہ کردیا گیا۔ ان علاقوں میں جہاں یہ سمجھا جاتا تھا کہ طالبان زیادہ طور پر کثرت میں مقیم تھے انہیں ڈیسی کٹر سے جلا کر خاک کردیا۔ جہاں یہ استعمال کئے گئے وہاں پر سترہ سو میڑ کے دائرے میں ہرطرف آگ کے شعلے بھڑک اٹھے ۔ تمام علاقوں کو کلسٹر بموں سے شدید طریقے سے کارپٹ بمبارٹمنٹ کی اور جلاکر راکھ میں بدل دیا۔ امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کی سپیشل فورسز نے القاعدہ اور طالبان کے ارکان کا شکارکی طرح تعاقب کرتے ہوئے ان کا قتل عام کیا۔

ہزاروں طالبان قیدیوں کو امریکی حمایت یافتہ شمالی اتحاد کی ملیشیاء نے مزار شریف اور قندوز میں قتل کردیا گیا۔ سینکڑوں کی تعداد میں ان افراد کو جن کا القاعدہ کے ساتھ کوئی تعلق نہیں تھا انہیں ٹارچرکی غرض سے کیوبا میں گوانتا ناموبے یا پھر سی آئی اے کے ’’بلیک سائیٹ‘‘بھیج دیا گیا۔ بُش انتظامیہ نے اپنی جنگی جرائم کا دفاع کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ جنگ کے متأثرین ’’غیرقانونی دشمن جنگجوؤں‘‘ پر جینوا کنونشن کا اطلاق نہیں ہوتا۔

افغانستان میں بدترین خون ریزی کے بعد پاکستانی فوج نے شمال مغربی سرحدی علاقوں میں واشنگٹن کے اصرار پر حملے شروع کئے۔ ان حملوں میں ہزاروں کی تعداد میں لوگوں کا قتل عام کیا گیا اور لاکھوں افراد کو گھروں سے بے دخل کیا گیا۔ اس کے بعد امریکی افواج نے ڈرون اور میزائل کے حملوں کے ذریعے افغانستان اور شمال مغربی پاکستانی علاقوں کو نشانہ بنائے رکھا اور عوام کو مسلسل دہشت زدہ حالات میں رکھاگیا۔

افغانستان پر حملے کے لئے امریکہ نے پاکستان کی رضامندی کو انتہائی اکڑپن اور ناشائستہ طریقے سے حاصل کیا جو طالبان کا بنیادی سپانسر تھا۔ امریکہ کے ڈپٹی سیکرٹری آف سٹیٹ رچرڈ آرمٹیج نے ستمبر 2001ء میں پاکستانی حکام کو کہا : ’’اگر تم ہمارے خلاف ہو ہم تم جیسے گھٹیا چھوٹے ملک کو واپس پتھر کے دور میں بھیج دیں گے۔‘‘

امریکی سامراج کے نمائندوں اور حمایتی ابھی تک یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ افغانستان اور پاکستان میں ان کی کاروائیوں کا مقصد گیارہ ستمبر کی دہشت گردی کی وحشیانہ کاروائیوں میں ملوث القاعدہ کو انصاف کے کٹھہرے میں کھڑا کرنا تھا۔ صدر جارج ڈبلیو بُش نے حملوں کے بارے میں اعلان کیا کہ ’’دہشت گردی کے خلاف‘‘ یہ پہلی لڑائی ہے۔ بش انتظامیہ نے اس حملے کے بارے میں جو بہانہ تلاش کیا وہ یہ تھا کہ طالبان نے اسامہ بن لادن کو پناہ دے رکھی تھی اوراس مجرم کو ان کے حوالے کرنے سے انکار کردیا تھا۔

یہ جواز سراسر جھوٹ اور فریب پر مبنی ہے۔ طالبان اور القاعدہ کی اکثریت افغانستان میں 9/11 کے حملوں میں ملوث نہیں تھی بلکہ ان دہشت گرد حملوں میں امریکہ کے اندر موجود سرگرم دہشت گرد سیل نے کیے جن کی سرپرستی سعودی عرب کے حکمران ایلیٹس (اشرافیہ) کررہے تھے جو کہ مشرق وسطیٰ میں اسرائیل کے ہمراہ امریکہ کے بنیادی اتحادی ہیں۔ 9/11 کے یہ حملے دراصل اس لئے کامیاب ہوئے کہ امریکہ کے انٹیلی جنس کے ادارے درحقیقت القاعدہ سے منسلک افراد کی جومانیٹرنگ پر مامور تھے اور ان کی سرگرمیوں کے بارے میں بخوبی واقف تھے انہوں نے طیاروں کو اغوا اور روکنے کے لئے کوئی اقدام نہیں کیا دوسرے الفاظ میں وہ اس پورے معاملے میں دستبردار تھے۔ 9/11 کے اس قاتلانہ اقدام نے امریکہ کو اپنے پہلے سے تیار کردہ اپنے پلان کو افغانستان میں حملے کے حوالے سے عملی جامہ پہنانے کے لئے ایک بہانے کے طور پر استعمال کیا جس کے اٹھارہ ماہ بعد عراق پر حملہ کردیا۔

ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے نو اکتوبر 2001ء میں اپنے ادارتی بیان میں لکھا تھا ’’ ہم کیوں افغانستان میں جنگ کی مخالفت کرتے ہیں۔‘‘ ایک مارکسی نکتہ نظر کی صاف اور واضح سیاست و سماجی ترقی کی بصیرت کا نمایاں ثبوت ہے۔ جو بورژوازی کے تبصرہ نگاروں کے 9/11کے واقعے کے بعد انتہائی سطحی اور جنونی تبصروں کے برعکس تھا۔ جب ان کے سروں پر خون سوار تھا۔ اس ادارتی بیان میں شروع ہی سے زور دیا گیا ہے کہ امریکہ کے حکمرانوں نے جو جنگ شروع کی ہے اس کے دور رس بین الاقوامی مفادات اس سے وابسطہ ہیں۔ جنگ کا بنیادی مقصد کیا ہے؟ بیان میں زور دے کر کہا گیا ہے کہ سوویت یونین کی ایک دہائی پہلے انہدام کے بعد اور سنٹرل ایشیاء میں جو سیاسی خلا پیدا ہوا ہے جوکہ دنیا میں تیل و قدرتی گیس کا ثابت شدہ بڑے ذخیروں کا مرکز ہے۔ ورلڈسوشلسٹ ویب سائٹ کی تشخیص کی شروعات انٹرنیشنل کمیٹی آف فورتھ انٹرنیشنل (آئی سی ایف آئی) کی مشرقی یورپ ، سوویت یونین اور چین میں سٹالنسٹ حکومتوں کی جانب سے سرمایہ دارانہ ملکیتی رشتوں کی بحالی کے تجزیئے سے شروع ہوتا ہے۔ جس میں کہا گیا تھا کہ ان کے عالمی تاریخی مضمرات ہوں گے۔ جو کہ 1991ء میں خود سوویت یونین کے انہدام پر منتج ہوئے۔

9/11 کی پانچویں برسی پر ورلڈسوشلسٹ ویب سائٹ کے چیئرمین ڈیوڈ نارتھ نے 2006ء میں اپنی تقریر میں کہا : کہ سوویت یونین کے انہدام کو امریکی حکمران طبقے کے بڑے حصے اس طرح بیان کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں کہ ان کے لئے یہ ایک بے مثال موقع ہے کہ وہ عالمی سطح پر بغیر کسی رکاوٹ کے اپنی (امریکہ) کی بالادستی قائم کرسکے۔ سوویت یونین کے بغیر دنیا میں کوئی اور طاقت امریکہ کی بالادستی کو موزوں طور پر روک نہیں سکتی۔ امریکی حکمران اشرافیہ سمجھتی ہے کہ امریکہ کی غالب فوجی طاقت اور خام فوجی طاقت کو تعینات کرکے وہ امریکہ کی دنیا میں معاشی پوزیشن کو زوال پزیری سے روک سکتی ہے۔ (’’ ایک چوتھائی صدی کی جنگ‘‘ تحری ڈیوڈ نارتھ مہرین بکس صفحہ نمبر375 سال، 2006ء)

افغانستان پر امریکی حملے کو اس وقت تک درست طور پر نہیں سمجھا جاسکتا جب تک ایک دوسرے کے ساتھ منسلک واقعات جو 1990-91 کی عراق کے خلاف خلیجی جنگ اور مشرق وسطیٰ میں امریکہ کی مستقل فوجی اڈوں کی تعمیر اور امریکہ کی افریقہ میں مداخلت بلقان، میں اور سربیاکے خلاف 1999ء میں جنگ اور ابھی تک 9/11 کے نامعلوم واقعات شامل ہیں، کو ایک دوسرے کے ساتھ جوڑ کر نہ دیکھا جائے۔

القاعدہ اور طالبان کے ظہور کی بنیادیں امریکی سامراج کی ان سازشوں کا نتیجہ ہے جو اس نے سوویت یونین کو غیرمستحکم اور کمزور کرنے کی غرض سے اور سٹالنسٹ حکومتوں کے اپنے مراعات یافتہ بیوروکریٹ دھڑوں نے اپنے مفادات کے تحفظات کو قائم کرنے کی غرض سے سرمایہ داری کی بحالی جلد باز فیصلوں سے کی۔

1978ء سے کارٹر انتظامیہ کے احکامات سے سی آئی اے نے پاکستان اور سعودی عرب کے اشتراک سے اسلامی بنیاد پرستوں کی مالیاتی اور مالی امداد کرتے ہوئے انہیں کابل کی سوویت حمایت یافتہ حکومت کے خلاف جنگ کے لیے تیار کیا جس سے سوویت یونین کی قوتیں ایک لمبے عرصے تک جوابی سرکشی میں پھنستی گئی۔

اسلامی بنیاد پرستوں میں سے ایک اسامہ بن لادن تھا جو کہ ایک سعودی ارب پتی تھا جسے امریکہ کی حمایت حاصل تھی اس طرح وہابی مسلک کے شدت پسندوں کو پوری دنیا سے اکھٹا کرکے ٹریننگ کے لئے پاکستان لایا گیا۔ جس کیمپ میں انہیں ٹریننگ دی گئی اسے القاعدہ کا نام دیا گیا جس کا مطلب ’’دی بیس‘‘ تھا۔

1980ء کے تمام عشرے کے دوران ریگن انتظامیہ اسلامی مجاہدین کی تعریف کرتے ہوئے انہیں آزادی کے علمبردار اور آزادی کے محافظوں کا لقب دیا اور سوویت یونین کی افغانستان میں مداخلت کی مزاحمت کرتے ہوئے اس اقدام کو افغانستان کے عوام کے خلاف جرم قرار دیا اور انہیں کابل حکومت کے خلاف اکسایا۔ ان پندرہ برسوں میں امریکہ نے جتنے بڑے پیمانے پر افغانستان میں بربادی اورجرائم کا ارتکاب کیا ہے جو سوویت یونین کے مقابلے میں کئی گنا زیادہ ہیں۔ افغانستان میں بربادی اور اس سنگین سانحے کا بنیادی طور پر ذمہ دار امریکی سامراج ہے جو گزشتہ اڑتیس سالوں پر محیط ہے۔ ایک ملین افراد سے زیادہ افراد زخمی اور ہلاک ہوئے ہیں۔ چھ ملین سے زیادہ افراد ملک سے ہجرت کرچکے ہیں اور افغانستان کو دنیا کا سب سے بڑا مہاجر پیدا کرنے والا ملک بنا دیا گیاہے۔

’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ نے خود امریکہ میں وسیع مضمرات مرتب کئے ہیں جس میں 2001ء کا پیٹریٹ ایکٹ کے اطلاق کا بہانہ ، حکومت کی جانب سے عملی طور پر جاسوسی ، غیرمعینہ حراست، فوجی ٹریبونل، پولیس ایجنسیوں کی ناروا کاروائیاں اور امریکہ میں مقیم مسلم پس منظر سے تعلق رکھنے والوں کی ستم رانی شامل ہے۔ ان تمام اقدامات کا مقصد دہشت گردوں کو روکنا نہیں ہے بلکہ بڑھتے ہوئے سماجی اور طبقانی مخاصمت اور ٹکراؤ کو دبانا ہے۔اس کے لئے انہیں ریاستی اداروں کو اور شدت کے ساتھ استعمال کرنا ہے۔

امریکہ میں جمہوری حقوق پر حملے کو ماڈل کے طور پر پوری دنیا میں مسلط کیا جارہا ہے۔ افغانستان میں پندرہ سالوں کے حملوں کے بعد امریکی حکمران طبقے کے ظالمانہ مقاصد بہت ہی کم حد تک یا پھر کچھ بھی نہیں حاصل کرسکے۔ امریکہ افغانستان میں سب سے لمبی جنگ لڑ رہا ہے۔ اب تک وہ آٹھ سو بلین ڈالرز خرچ کرچکا ہے۔ ہزاروں امریکی اور اتحادی افواج زخمی اور مارے گئے ہیں لیکن اب تک اس کے ختم ہونے کے کوئی آثار دکھائی نہیں دے رہے ہیں۔ اب تک طالبان اور دوسری قبضہ مخالف ملیشیا کو شکست نہیں دی جاسکی جو اب تک کابل کی کٹھ پتلی اور غیرملکی افواج کے خلاف سرکشی اور جنگ میں برسر پیکار ہیں۔ جنوبی افغانستان کا تمام علاقہ ان کے کنٹرول میں ہے۔ حالیہ ہفتوں میں قندوز کے شمالی شہر میں شدید لڑائی جاری ہے۔

افغانستان کی حکومت دنیا میں سب سے زیادہ کرپٹ حکومت ہے۔ حکمرانوں کے دھڑے نسلی اور فرقہ ورانہ بنیادوں پر اپنی مراعات کا تحفظ بین الاقوامی امداد اور ہیروئین کی تجارت سے کرتے ہیں۔ یہ عام طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ کابل کی امریکی حمایت یافتہ حکومت جس کی افغان عوام میں ان کے خلاف شدید نفرت پائی جاتی ہے ۔ اگر وہ امریکی اور یورپ کی پندرہ ہزار افواج سے محروم ہوجائیں تو وہ قائم نہیں رہ سکتی ۔

جہاں تک سنٹرل ایشیاء کے تیل اور گیس کے وسائل کے لوٹنے کا تعلق ہے تو ابھی تک اس پر روس کا غلبہ ہے اور اب تیزی کے ساتھ چین کے توانائی کی کمپنیوں کے زیراثر آرہا ہے جو ایک نئی پائپ لائن تعمیرکررہا ہے۔ حال ہی میں ڈپلومیٹ نے تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ اگر موجودہ رجحان اسی طرح جاری رہا تو انٹرنیشنل توانائی ایجنسی نے تخمینہ لگایا ہے کہ 2020ء تک چین پچاس فیصد تیل اور گیس کو برآمد کرے گا جو کہ سنٹرل ایشیاء میں فیصلہ کن تبدیلی ہوگی اور توانائی کا بہاؤ مغرب کے مقابلے میں مشرق کی جانب ہوجائے گا۔

امریکی حکمران طبقہ افغانستان پر اپنی گرفت ڈھیلی کرنے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا۔ وہ اس وقت تیزی کے ساتھ اپنی توجہ نیوکلیئرہتھیاروں سے یس چین اور روس پر دے رہا ہے جو سمجھتا ہے کہ امریکہ کی عالمی بالادستی کے لئے بڑا خطرہ ہے۔ امریکی سامراج کے سٹیٹجسٹس نے عزم کررکھا ہے کہ اگر وہ یوریشیا پر اپنا کنٹرول حاصل کرلیتا ہے تو وہ دونوں ریاستوں میں کلائنٹ سٹیٹس بنا کراس وسیع اور عریض علاقے اور جیوپولیٹیکل جغرافیائی اہمیت کے حامل علاقے پر اپنا غلبہ قائم کر لے گا۔ہر جگہ کشیدگی بڑھ رہی ہے خواہ وہ بڑی یا چھوٹی طاقتیں ہو جو اپنی بالادست طبقوں کی مفادات کے لئے ان حالات میں اقدامات اٹھا رہے ہیں۔

تیسری عالمی جنگ کے امکانات انسانیت پر منڈلارہے ہیں ۔ مستقبل کا تعین ایک عالمی جنگ مخالف تحریک سے منسلک ہے جس کی بنیاد محنت کش طبقے پر مبنی ہو۔ جس کی قیادت اور رہنمائی انقلابی سوشلسٹ نکتہ نظر سے کی جائے۔ ’’سرمایہ داری اور جنگ کے مقابلے میں سوشلزم‘‘ کی کانفرنس جس کا انعقاد 5 نومبر کو سوشلسٹ ایکولٹی پارٹی (امریکہ) نے امریکی شہر ڈیٹرائیٹ میں منعقد کیا ہے اس تحریک کے حوالے سے ایک فیصلہ کن قدم ہوگا۔ وہ تمام افراد جو جنگ اسٹراٹی ، جبر تشدد اور سامراج کے خلاف ہیں اپنے کو رجسٹر کریں۔

Loading