اُردُو
Perspective

امریکہ نے افغانستان پر غیر ایٹمی بم پھینک کر انسانیت کے خلاف بڑ ے جرم کا ارتکاب کیا ہے

امریکہ نے جمعرات کو ہتھیاروں کے زخیرے سے افغانستان اور پاکستان کے سرحدی علا قے پر جو غیر ایٹمی بم پھینکا ہے یہ پورے انسانیت کے خلاف ایک بڑا جرم ہے ۔نہ صرف یہ کہ امریکی حکومت اور اسکے میڈیا نے ایک جھوٹی پروپیگنڈا کمپےئن رو س اور شام کے خلاف شروع کر رکھی ہے کہ انہوں نے زہریلی گیس کا استعمال شام میں کیا ہے جبکہ خود امریکی افواج نے انتہائی تباہ کن ہتھیار میسیو آرڈیننس اےئر بلا سٹ (MOAB)بم کو افغانستان پر استعمال کیا ہے ۔

جبکہ پینٹاگون نے ابھی تک بم کے اثرات کے حوالے سے محدود تفصیلات شائع کی ہیں۔ لیکن کوئی بھی بخوبی یہ اندازہ لگا سکتا ہے کہ یہ میسیو آرڈیننس بلا سٹ بم کے نتائج میں کتنی ہلاکتیں ہوئی ہونگی جو شام کے کیمیائی ہتھیار (زہریلی گیس) کے گرانے سے کہیں زیاد ہ ہیں اور جس کا ابھی تک یقین سے نہیں کہا جاسکتا ہے کہ زہریلی کیمیائی ہتھیار یوں کا حملہ ہوا بھی ہے یا نہیں ۔

ہیرو شیما اور نا گا ساکی کی تباہی کے 72سالوں کے بعد امریکی سامراج نے ایک بار پھر ثابت کر دیا ہے کہ وہ اس کرۂ ارض پر ایک انتہائی ظالمانہ جرائم کی ایک مرتکب طاقت ہے ۔

میسیو آرڈیننس اےئر بلا سٹ کو افغانستان کی حدود کے اندرا ستعمال کیا گیا لیکن اس کا اشارہ باہر کی دنیا کو انتباہ کر نا ہے اس نے جو اظہار کیا ہے حقیقت پر مبنی ہے۔ اس کے حملے کا اصل مقصد یہ ہے کہ اس کی فوجی طاقت اس کی راہ میں کوئی بھی رکاوٹ کو برداشت نہیں کرتی جو امریکی سامراج کے مفادات کے حصول کے حوالے سے ہو ۔

ایک ایسے وقت میں جہاں کوریا کے جزائر ،شام سے لیکر مشرقی یورپ تک فوجی تناؤ شدید کشیدہ حالات میں ہیں افغانستان پر انتہائی بھاری اور تباہ کن بم کا استعمال روس ،ایران اور شمالی کوریا کو ایک وارننگ ہے کہ اگر کسی بھی ملک نے امریکہ کے مفادات کو چیلنج کیا گیا تو اس کے تباہی اور بربادی کیلئے امریکی سامراج تیار ہے ۔

اس ہتھیار کو جو نام دیا گیا ہے وہ جی پی یو B/43میسیو آرڈیننس بلاسٹ جس سے پینٹاگون میں ایم او اے بی کا نام دیا گیا ہے یا ’’مدر آف آل بمز ‘‘( تمام بموں کی ماں ) بھی کہا جاتاہے جس کا وزن تقریباً20ہزار پونڈ ہے جس سے خلاء کے درمیان میں پھاڑا جاتا ہے جو زوردار جھٹکوں سے فضاء میں بڑھک کر ایک ہزار گز کے قطر میں تمام اشیا ء کو نیست ونابو د کر دیتا ہے ۔ اس کی شاک ویویز میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ 1.7میل پر محیط قطر میں انسان اور جاندار اشیاء ختم ہو جاتی ہیں ۔ اس بم کے پھٹنے سے جو تباہی ہو تی ہے وہ نیوکلیائی بم کے استعمال کے برابر ہے جواس کے ٹارگٹ زون کے حدود میں واقعہ ہو تے ہیں ۔

اس بم کو 2003میں عراق پر امریکی حملے کے دوران بنایا گیا تھا جس کا مقصدتھاتاکہ فوری طورپر اور تیزی کے ساتھ حملہ کر کے متحارب قوت کو مفلوج کر دیں تاکہ وہ جوابی کارروائی نہ کر سکیں ۔لیکن اس سے گزشتہ 14سالوں کے دوران کبھی بھی استعمال نہیں کیا گیا نہ صرف یہ کہ پینٹاگون نے جو عراق پر قبضے کیلئے جو جنگ کی تھی جس کے نتیجے میں 10لاکھ افراد ہلاک ہوئے ان ہتھیاروں کو اس لےئے استعمال نہیں کیا گیا کہ کیونکہ یہ امریکی اسٹیٹجک مقصد کیلئے انتہائی مہلک اور تباہ کن سمجھے جاتے تھے ۔

ان مہلک اور تباہ کن بمز کو افغانستان پر استعمال کرنے کا پلان اوباما انتظامیہ کے دورمیں تیار کیا گیا تھا ۔ پینٹاگون کے کمانڈ کے بقول اس اصلی ’’تباہی کے بم ‘‘ کو پہلی مرتبہ افغانستان کے دور دراز کے ضلعے مشرقی نگرہار میں پھینکا گیا ہے تاکہ افغانستان کے داعش سے منسلک افراد جو زیر زمین سرنگیں اور غاریں استعمال کر رہے ہیں انہیں تباہ کیا جائے ۔

اس بم کو ایک چھوٹے اور بہ نسبتاً کم مسلح اسلامی گوریلا ز جو پاکستان افراد پر مبنی دھڑے ہیں جو داعش سے اپنے کو منسوب کرتے ہیں پر استعمال کرنا کوئی فوری اسٹیٹجک ضرورت کا جواز نہیں بنتی۔ بجائے اس کے کہ حملے کا مخصوص مقصددراصل امریکی فوجی طاقت کی نمائش تھی جس کا خوفناک پہلو مستقبل قریب میں نیوکلےئر حملہ ہو سکتا ہے ۔

افغانستا ن پر یہ حملہ صرف ایک ہفتے بعد کیا گیا جب واشنگٹن نے انتہائی جارحانہ انداز میں شام پرحملہ کیا جس میں 59کروز میزائل شام کے ہوائی آڈے پر داغے گئے جس میں 15افرا د ہلاک ہو ئے جو زیا دہ تر سویلین تھے ۔ شام پر حملے کا جو جواز فراہم کیا گیا کہ اس نے کیمیائی ہتھیار استعمال کےئے ہیں ۔۔۔۔ جبکہ شام کی حکومت نے ان کیمیائی ہتھیاروں کو استعمال کرنے کی تردید کی ہے جبکہ مغربی میڈیا نہ ختم ہونے والا جھوٹ اگلتا رہا جبکہ ٹھوس معروضی حقیقت یہ ہے کہ ان کیمیائی ہتھیاروں کو القاعدہ جس سے سی آئی اے کی حمایت حاصل ہے انہوں نے شام کی حکومت کے خلاف اشتعال انگیزی کو ہوا دینے کیلئے استعمال کیاہے ۔

جب کہ امریکی حکومت اور میڈیا ایک جعلساز اور جھوٹی ’’کیمیائی ہتھیاروں ‘‘کے شام میں استعمال کرنے پر بے شمار جنگی پروپیگنڈ ے میں مصروف تھے ۔ اس دوران واشنگٹن افغانستان پر تباہ کن غیر ایٹمی بم کو گرانے کی تیاری میں مصروف تھا۔

پینٹاگون نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ حملوں میں ’’ تمام تر احتیاط کی تدابیر کو بروئے کا ر لائے گا جس سے شہریوں کو تباہی اور اموات سے بچایا جاسکیں ‘‘ اس طرح کے وعدے وہ بار بار کر چکا ہے جس کی کوئی اہمیت اور افادیت نہیں رہی ہے ۔ جس نے مشرق وسطہ میں لاکھوں افراد کو موت کے گاٹ اتار دیا ہے ابھی تک ابتدائی اطلاعات کے مطابق بہت سے گاؤں جو بم کے ٹارگٹ کے ارد گردواقع تھے تباہ ہوگئے ہیں جن میں سویلین افراد کی اموات اور زخمیوں کی شرح تعداد زیا دہ ہے ۔

ابھی تک کوئی بھی نہیں جانتا کہ اس حملے میں کتنا جانی نقصان ہو ا ہے اگر اسے امریکی میڈیا پر چھوڑ دیا جائے جو کبھی بھی حقائق نہیں بتائے گا وہ تمام ایڈیٹوریلز جو سی آئی اے کے اخبار نیویارک ٹائمز اور ٹیلی ویژن کے سربراہان جو امریکی حکومتی پروپیگنڈے کے گن گارہے ہیں اور بشار االسدے کی حکومت کی کیمیائی ہتھیاروں کے استعمال کی کھلی مزاحمت کر رہے ہیں وہ افغانستان پر امریکی انتہائی تباہ کن حملے کے نتائج میں سویلین کے ہلاکتوں پر باالکل خاموش ہیں۔

اسی ہی طرح مغربی میڈیا عراق اور شام میں امریکہ کے برسائے ہوئے بموں اورمیزائیلوں سے تباہی اور بربادی اور انسانی ہلاکتوں پر بھی خامو ش ہے۔ بدھ کے روز مغربی موسل میں امریکی ہوائی حملوں میں 13سویلین ہلاک اور 17شدید زخمی ہو ئے جن میں زیا دہ تر موت اور زندگی کے کشمکش میں مبتلا ہیں ۔اُسی دن اقوام متحدہ کے ادارے نے امریکہ کے عراق کے شہر کے محاصرے کی وجہ سے تباہی کو بیان کرتے ہوئے کہا کہ ہزاروں نہیں تو سینکڑوں افراد جن میں مرد ،عورتیں اور بچے شامل تھے ہلاک ہوئے ’’ گھروں کو تباہ کر دیا گیا سکول اور صحت کے مرکزوں کو اور پبلک انفراسٹیکچرجس میں بجلی اور پینے کی پانی کے اسٹیشنز تباہ کر دیئے گئے ‘‘ رپورٹ کے مطابق تین لاکھ افراد کو بے گھر کر دیا گیا ہے جو کہ اب مہاجرین بن چکے ہیں ۔

اسی طرح شمالی شام میں امریکہ نے اپنے اتحادیوں کرد جنگجوؤں پر اور القاعدہ کے ہتھیاروں کے ڈپو پر دوستانہ حملہ کیا جس میں 18 کردجنگجو مارے گئے اور القاعدہ کے ہتھیاروں کے ڈپو پر حملے سے زہریلی گیس کے اخراج سے سینکڑوں ہلاکتوں کا خدشہ ہے ۔

ان تمام سنگین واقعات کو کوئی خاطر خواہ کوریج نہیں دی گئی اس کے برعکس شام کے حکومت کے خلاف جعلی اور جھوٹی ہتھیاروں کے حملے پر مگرمچھ کے آنسو بہائے جارہے ہیں ۔ یہ لوگ کون ہے جو ہر کسی کو ’’انسانی حقوق ‘‘پر لیکچر دیتے ہیں اور اپنے کو دہشتگری کے مخالف ظاہر کرتے ہیں ۔ ایک بار پھر امریکی سامراج نے عملاً دنیا کو بتا دیا ہے کہ وہ عالمی قوانین ، اخلاقیات کی پاسدار ی اور اس کی پابندی نہیں کر تا ۔ عالمی سطح پر غارت گر اور جارحانہ اقدامات امریکہ کے سرمایہ دار حکمران طبقے کے مجرمانہ اور طفیلی وجود کے کردا ر کے برائے راست عکاسی کرتے ہیں جس کی مثالی صورت نفرت انگریز امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ ہے ۔

افغانستان پر حملے کے ساڑھے پندرہ سال بعد امریکہ نے اس بم کے ذریعے انتہائی وحشیانہ اقدام کیا ہے جس نے طالبان کے حکومت کو گراکر اپنی کٹ پتلی حکومت بنائی اورقبضے سے اب تک اس خو ن ریز جنگ کو جاری رکھا ہوا ہے ۔ ایک سادہ تخمیے کے مطابق 2001سے اب تک تقریباً 2لاکھ افغان ہلاک ہو چکے ہیں اور لاکھوں کی تعداد میں زخمی ،اپاہج اور بے گھر ہو کر تاریکین وطن ہو چکے ہیں ۔ افغانستان پر حملے کا مقصد شروع ہی سے یہ تھا کہ انہیں ماتحت کرتے ہوئے ایک نیم نو آبادیات میں تبدیل کر کے سینٹرل اشیاء کے توانائی سے مالا مال خطے پر قابض ہو کر امریکی بالا دستی کو آگے بڑھایا جا سکے۔

افغانستان پر بم حملے کی افادیت اس وقت کے لحاظ سے اس لےئے بھی زیا دہ اہمیت کی حامل ہے کیونکہ یہ اس وقت کیا گیا ہے جب ماسکو نے 14اپریل کو افغانستان میں امن کے قیام کیلئے ایک اجلاس طلب کیا ہے۔ روس نے چین اورپاکستان کے علاوہ دوسرے 9 ممالک جن میں انڈیا اور ایران بھی شامل ہیں اس کانفرنس میں مدعو کیا گیا ہے ۔ جبکہ واشنگٹن کو مدعو کیا گیا لیکن اس نے اجلاس میں آنے کاکوئی عندیہ نہیں دیا بلکہ اس کے فوجی کمانڈر ز نے با ر بار روس پر الزامات عائد کئے ہیں کہ وہ طالبان کی حمایت کر رہے ہیں ۔

امریکہ اور روس کے درمیان فوجی تصادم خواہ شام کے فضائی حدود میں دونوں ممالک کے جنگی جہازوں کے زریعے ہو یا شمالی کو ریا پر امریکی حملے کی صورت میں یا پھر روس کے مغربی سرحدوں پر روس کو اکسانے پر امریکہ کا دوسرا قدام افغانستان پر نیوکلےئر میزائیلوں کو گرانے پر ہو گا۔

محنت کشوں اور نوجوانوں کو امریکہ میں اور عالمی سطح پر ان بد شگون واقعات کے رد عمل میں بڑی ثابت قدمی اور سنجیدہ انداز سے امریکی سامراج اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام کو لگام دینی ہو گی جو اس کرۂ عرض کو تیسری نیو کلےئر عالمی جنگ کی جانب نگل رہی ہے۔

امریکہ اور پوری دنیا میں امریکہ کے اس ظالمانہ اقدامات کے خلاف جو افغانستان ،شام اور عراق میں جاری ہے جنگ مخالف تحریک کو جدوجہد کے ذریعے منظم کیا جائے جس کی بنیاد محنت کش طبقہ پر ہو اور جس کا پروگرام سوشلسٹ انٹرنیشنلزم پر ہو۔۔۔۔ ۔اور اس جدوجہد کا مرکزی نقطہ سوشلسٹ ایکویلٹی پارٹی اور انٹرنیشنل کمیٹی آف فورتھ انٹرنیشنل کی تعمیر پر ہو ۔۔۔۔ ۔جوکہ صرف اور صرف عالمی سامراج کی ایک مستقل سیا سی حریف ہے ۔۔۔۔ ۔اور محنت کشوں کی ایک ہراول انقلابی قیا دت ہے۔

Loading