اُردُو

سری لنکا کے وزیر اعظم نے امریکی اتحادیوں کے ساتھ تعلقات کو مزید تقویت دی ہے

سری لنکا کے وزیراعظم رینیل ویکر مسنگھی نے گزشتہ ماہ جاپان ویت نام اور انڈیا کا سرکاری دورہ کیا ویکر م سنگھی نے ’’ہند کے سمندری علاقے کی سیکورٹی‘‘ کو محفوظ بنانے کے بہانے وعدہ کیا کہ وہ معاشی اور فوجی تعاون کو مضبوط بنائیگا ۔

انڈیا ،جاپان اور ویت نام ان ممالک کے ساتھ امریکہ کے اسٹرٹیجک رشتے ہیں جس کی وجہ امریکہ کی چین کیخلاف جنگ کی تیاریاں ہیں،یہ دورہ اس دوران کیا گیا جبکہ ٹوکیو،نئی دہلی اور واشنگٹن میں سری لنکا کے چین پر معاشی انحصار پر تشویش پائی جاتی ہے

امریکہ نے انڈیا کی مدد سے2015میں سری لنکا کے صدر مہنداراج پکشا کی حکومت کو سیاسی آپریشن کے ذریعے تبدیل کیا تھا جس کے چین کے ساتھ قریبی روابط تھے اور اس کی جگہ مہتری پالہ سری سینا کو صدر بنایا تھا ،سری سینا نے اقتدار میں آتے ساتھ ہی چین کے ساتھ وہ تمام پروجیکٹس منسوخ کردئیے جیسے چین کے فنڈز سے چلایا جارہا تھا لیکن پیسوں کی قلت کے بحث اور قرضوں میں جکڑی ہوئی حکومت دوبارہ چین کی طرف سرمایہ کاری کی جانب راغب ہوئی ہے۔

چین کے ساتھ سب سے متنازعہ تجویز چائنا مرچینٹ ہولڈنگز(CMPH)کی ایک بلین ڈالر کی ڈیل تھی جو سری لنکا کی بندرگاہ ہمبنٹوٹا کی تعمیر کے حوالے سے تھی اور اس بندرگاہ کو99سال کیلئے چین کو پٹے پر دیدیاگیا اپنے دورے کے دوران ویکرم سنگھی نے اپنے مقابل کو بڑے احتیاط کے ساتھ الفاظوں کو استعمال کرتے ہوئے اسے یہ یقین دلایا کہ اسکے باوجو د کہ سری لنکا کو چین کی سرمایہ کاری کی اشد ضرورت ہے لیکن وہ ابھی تک ایشیاء میں امریکی قیادت میں فوجی اقدامات کا اتحادی ہے ۔

ویکرم سنگھی نے ٹوکیو کے ساتھ طویل معاشی اور جیوپولٹیکل معاملات پر مذاکرات کئے اس کے باوجود کے جاپان امریکہ کا اتحادی ہے لیکن اسکے اپنے بھی سامراجی عزائم ہیں اور جنہیں وہ اسٹرٹیجک رشتوں کے ذریعے ایشیاء اور عالمی سطح پر وسعت دیکر حاصل کررہا ہے ۔

ویکر م سنگھی نے جاپان کے آفیسروں کو یہ باور کریا کہ اس کے چین کے ساتھ تجویز شدہ پروجیکٹس ماحذ معاشی نوعیت کے ہیں اس نے ہمبنٹوٹا بندرگاہ کا حوالہ دیتے ہوئے کہاکہ یہ صرف’’کمرشل آپریشن تک محدود ہے اور ہم سری لنکا کے کسی بندرگاہ کو کسی دوسرے ملک کے فوجیوں کے لئے استعمال نہیں کرنا چاہتے جو کہ صرف سری لنکا کو نیوی کیلئے مخصوص ہیں‘‘۔

لیکن حقیقت اس کے برعکس ہے اس سارے عمل میں صرف چین ہی کو باہر رکھاگیا ہے رواں سال مارچ میں امریکی پیسفک فلیٹ کے نقل و حمل کے جہاز (یو ایس این ایس فال ریور) نے ہمبنٹوٹا بندرگاہ کا12دن کا دورہ کیا اور اس نے سری لنکا،آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مشترکہ بحری مشقیں کیں۔

ویکر م سنگھی اور جاپان کے شینوابی نے اپنے مشترکہ بیان میں اتفاق کیا کہ وہ قریبی معاشی اور فوجی تعاون کرینگے۔ ٹوکیو سری لنکا کو44بلین ین(387ملین ڈالر) کی امداد کے علاوہ ایک بلین ین ترینکو مالی کی بندرگاہ کی مینجمنٹ کو بہتر بنائے کیلئے دے گا جوانڈیا کے ساتھ مشترکہ پروجیکٹ ہے ۔

دونوں ممالک نے اس پر بھی اتفاق کیا کہ آپس میں میری ٹائم کے دفاعی تعلقات کو بڑھائینگے۔ سری لنکا انڈیا میں منعقد ہونے والی جاپان انڈیا کی کوسٹ گارڈ مشکوں میں بطور مبصر شامل ہوگا اور ممکنہ طور پر اگلے سال وہ ایک مکمل ممبر کی حیثیت سے اس میں شامل ہوگا۔ مشترکہ بیان میں ان بڑھتے ہوئے فوجی تبادلہ خیال کو ویل کم کیاگیا اور یہ وعدہ کیا کہ جاپان سری لنکا کی کوسٹ گارڈ کی مدد کریگا جو کہ پہلے ہی سے زیر عمل ہے یعنی جاپان کے دو پی تھری سی(P-3C)پیٹرول جہازوں کو آپریٹ کررہا ہے اور عنقریب دو اور پیٹرولم سمندری جہازوں کو بنانے کا کام بھی حاصل کریگا جو جاپان کی مالیتی اور تکنیکی امداد سے ہوگی ۔

سڈنی کے لوئی انسٹیٹیوٹ انٹرپرائز کے مطابق ابی نے سری لنکا کو مال بار کی مشکوں جو کہ جولائی کے مہینے میں منعقد ہو گی جس میں انڈیا امریکہ اور جاپان کی بحریہ شامل ہونگیں اس میں شامل ہونے کی تجویز دی ہے انڈیا بھی اس تجویز کا حامی ہے کہ سری لنکا کے بحری آفیسروں کو اس میں شامل کیا جائے۔

واشنگٹن کے نقشے قدم پر چلتے ہوئے شمالی کوریا کے نیو کلےئر اور بلسٹیک میزائل کے تجربے کی پرزور مخالفت کی گئی انہوں نے مزید کہاکہ دونوں ممالک جنوبی چین کے سمندر میں امن اور استحکام کا عہد کرتے ہیں اور سمندری راستوں پر گذرداری کے حقوق اور ہوائی جہازوں کی سمندری حدود سے پروازوں کے حق کے علاوہ بحری سفری(میری ٹائم) کو بغیر کسی روک ٹوک کے حقوق کا احترام اور دفاع کرتے ہیں۔

ویت نام میں سری لنکا نے ویت نام کے وزیراعظم نیگ یو ین ژوان سے معاشی معاملات میں کاروباری ٹرانس سیکشن کو اگلے سال تک بڑھا کر ایک سوبلین ڈالر تک لے جایا جائیگا اس کے علاوہ دونوں نے اس بات پر اتفاق رائے کیا کہ ویت نام کی ڈیفنس اکیڈمی اور سری لنکا کی کوٹ لا والا ڈیفنس اکیڈمی کے درمیان تعاون اور اشتراک کو بڑھایا جائیگا جیسا کہ جاپان میں ویکر م سنگھی نے رضا مندی ظاہر کی اسی طرح اس نے ویت نام کے ساتھ بھی انڈیا کے سمندری حدود کے تحفظ کےئے بحری سفر کی آزادی کے حقوق کی ضمانت کے ساتھ اور غیر واضح الفاظ میں ویت نام کی جنوبی چین کے سمندر میں علاقائی دعوے کی حمایت کی ۔

ویکر م سنگھی نے اس ماہ27اپریل کو نریندرمودی کے ساتھ ملاقات کی تھی اپنے دورے کے دوران دونوں ملکوں نے معاشی پروجیکٹوں کے تعاون کی یاداشت پر باہمی دستخط کیے اس میٹنگ کے دوران انہوں نے ترینکو مالی بندرگاہ میں تیل کے ذخیرے کے سٹور کی تعمیر اور ٹیکنالوجی کے تعاون کے فروغ پر بھی بحث کی۔ یہ دنوں معاملات سری لنکا میں داخلی طور پرمتنازعہ ہیں پہلے معاملے پر ویکر م سنگھی کے نئی دہلی سے روانہ ہونے سے پہلے ہی پیٹرولیم انڈسٹری میں اسے بڑی ہڑتال کا سامنا کرنا پڑا۔

دوسرے پروجیکٹ میں500میگاؤاٹ مائع قدرتی گیس پلانٹ اور فلویٹنگ سٹوریج یونٹ کے علاوہ 50میگاواٹ کا سولر پلانٹ کو لمبو کے نزدیک شمالی صوبے سمپور میں تعمیر کیا جائیگا۔ مزید یہ کہ بندرگاہ میں تعمیر پیٹرولیم کی صفائی کے کارخانے اور دوسری انڈسٹریزی ترنیکو مالی میں بنائی جائیں گی اور کولمبو بندرگاہ میں کنٹینر ٹرمینل کی تعمیر میں انڈیا کی کمپنیوں کی حوصلہ افزائی کریگا تاکہ وہ سرمایہ کاری کریں۔

مودی آنیوالے ہفتے میں سری لنکا میں بدھ مت کے انٹرنیشنل تہوار وی سک میں شرکت کیلئے تیاری کررہا ہے۔

انڈیا کے ذرائع ابلاغ ان خبروں کو نمایاں کرکے پیش کررہے ہیں کہ سری لنکا میں چین اور انڈیا اپنے اثررسوخ حاصل کرنے کی دوڑ میں تیزی سے لڑائی ابھررہی ہے۔ انڈین ایکسپریس نے لکھا ہے کہ ترنیکو مالی بندرگاہ مشترکہ سرمایہ کاری کولمبو کی جانب سے بیجنگ اور نئی دہلی کے درمیان بیلسبن کرنے کے مترادف ہے اس نے لکھا ہے کہ سری لنکا نے کولمبو اور ہمبنٹوٹا کے پروجیکٹس چین کو دے کر اخبار مزید لکھتا ہے کہ اب وہ ناخوش انڈیا کو راضی کرنے کے غرض سے ائیر لینڈ کے دوسرے حصوں میں انفرسٹرکچر کی تعمیر اور سرمایہ کاری کیلئے انڈیا کو دے رہا ہے ۔

سری لنکا کی حکومت چینی سرمایہ کاری کی جو حمایت چاہتی ہے اسکا یہ ہر گز مطلب نہیں ہے کہ وہ بیجنگ کے جیو پولٹیکل مفادات کی جانب بڑھے بلکہ اسکی چینی سرمائے کی چاہتا اس کی معاشی تباہ کن اور مایوس صورتحال ہے۔ سری لنکا اس وقت 64بلین ڈالر کا مقروض ہے اور وہ بے تابی کے ساتھ بیرونی سرمایہ کاری کا منتظر ہے راج پکشا کے دورے حکومت میں چین سری لنکا کو قرضہ دینے میں جاپان سے فوقیت لے گیا تھا۔

کولمبو حکومت جو اس وقت سوچے سمجھے اقدامات کررہی ہے وہ ٹرمپ انتظامیہ کے شمالی کوریا کے ساتھ بڑھتی ہوئی محاذ آرائی کے سیاق و سباق میں ہے جسکا مقصد یہ بھی ہے کہ چین کی اسٹرٹیجک پوزیشن کو ایشیاء میں کمزور کرنا ہے ، ویکر م سنگھی کے ان دوروں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس کی حکومت اس خطے میں واشنگٹن کی اشتعال انگیزی کی پشت پناہی کرتی ہے ۔

Loading