اُردُو

ایران کے صدر نے دوبارا انتخابات جیت لیے

حسن روحانی نے4سالہ دور پر محیط انتخابات جیت کر بحیثیت صدر دوسری مرتبہ منتخب ہوگیا ہے اس نے41ملین ووٹ جو کاسٹ ہوئے 57.1فیصد ووٹ حاصل کرکے کامیابی حاصل کرلی اور جس کی وجہ سے26مئی کو دوسرے راؤنڈ کیلئے انتخاب کے امکان کو ختم کردیا ہے۔

روحانی جو کہ اسلامک ریپبلک کے حکمران جتھا کا حصہ ہے جس کی تخلیق1979کے انقلاب کے بعد ہوئی جس میں شاہ ایران کی امریکی حمایت یافتہ ڈکٹیٹر شپ کا خاتمہ ہوا نے ووٹروں کو اپنے حق میں ووٹ کاسٹ کرنے کیلئے خود کو امن کا حامی اور متعدل کے طور پر پیش کیا۔

درحقیقت وہ ایرانی بورژوازی کے ان حصوں کی نمائندگی کرتا ہے جو بڑے اشتیاق سے یورپی سامراجی طاقتوں اور واشنگٹن سے مصالت چاہتے ہیں ۔

اپنی الیکشن مہم کے دوران روحانی نے ایران کے جوہری معاہدے کو ایک کارڈ کے طور پر استعمال کرتے ہوئے کہاکہ اس کے دور حکومت میں یہ معاہدہ سب سے بڑی کامیابی تھی ایران کا جوہری معاہدہ جو کہ امریکہ ، روس،چین ،برطانیہ ،فرانس اور جرمنی کے درمیان طے پایا تھا ۔

معاہدے کی روح کے تحت جیسے جنوری2016سے لاگو ہونا تھا ۔اس معاہدے کے تحت ایران نے اپنے سویلین جوہری پروگرام ختم کرتے ہوئے اسکے بنیادی حصوں کو رول بیک کیا اس کے بدلے میں امریکہ اور یورپی طاقتوں نے جو مشترکہ معاشی پابندیاں سزا کے طور پر ایران پر عائد کی تھیں انہیں یورپی طاقتوں نے تمام اور امریکہ نے جزوی طور پر ختم کردیا ۔

روحانی اور ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے گفت وشنید کے دوران اور بعد میں اصرا ر کیا تھا کہ ایران ’’ کاروبار کے لئے کھل‘‘ گیا ہے اور وہ مشرق وسطیٰ میں استحکام کے خاطر سامراجی طاقتوں کے ساتھ پارٹنر شپ کے لیے تیار ہے ۔

مغربی سرمایہ کاروں کی حمایت حاصل کرنے کی غرض سے روحانی کی انتظامیہ نے آئی ایم ایف کی تلقین کرتے ہوئے ایران کے توانائی کے شعبے میں حکومتی قواعد اور ضابطوں میں ردوبدل کرتے ہوئے اور ایسے غیر ملکی کمپنیوں کیلئے حوصلہ افزا بناتے ہوئے نجی کاری کے عمل کو تیز کیا ۔اس نے سماجی اخرات کی تضحیک کرتے ہوئے روحانی کے الفاظ میں’’غیر پیداواری اورفضول خرچ‘‘ کہہ کر اور ایسے ختم کرتے ہوئے کہاکہ وہ غریبوں کو بھکاری نہیں بنانا چاہتا ۔اس نے روزمرہ خوراک کی اشیاء تیل اور گھریلو گیس پر سبسیڈی کا خاتمہ کرتے ہوئے اسے20ڈالر سے کم ماہانہ فی گھرانہ میں تبدیل کیاگیا اور اس کے فوراً بعد ہی اس نے توانائی کی قیمتوں میں 30فیصد اضافہ کردیا ۔

روحانی انتظامیہ دوسری مرتبہ اقتدار میں آنے کے بعد محنت کش طبقے کے خلاف دائیں بازو کی پالیسیوں کو تیز کریگی اور اپنی حمایت کو بڑھانے کے لئے شیعہ ریکشنری اسٹبلشمنٹ کی لباس اور مرد اور عورتوں کے اشتراک پر جو پابندیاں عائد کی گئی تھیں انہیں ریلکس کیاجائیگا تاکہ غیر ملکی ثقافت اور میڈیا تک رسائی حاصل کی جاسکے۔

ہفتے کی شام اپنی کامیابی پر تقریر کرتے ہوئے روحانی نے اپنی حکومتی کوششوں پر زور دیتے ہوئے کہا کہ وہ بے تابی کے ساتھ مغربی طاقتوں کے ساتھ معاشی اور اسٹرٹیجک تعاون چاہتے ہیں اس نے کہاکہ’’ایران اپنے قومی مفادات اور باہمی احترام کی بنیاد پر عالمی سطح پر تعلقات استوار کرنے کیلئے تیار ہے ‘‘۔اس نے مزید اضافہ کرتے ہوئے کہاکہ’’آج دنیا کو معلوم ہوگیا ہے کہ ایرانیوں نے دنیا کے ساتھ ملکر(باہمی تعامل) کے راستے کا انتخاب کیا ہے جو کہ انتہاء پسندی اور تشدد سے دور ہے‘‘۔

روحانی کے ایک قریبی اسسٹنٹ فریددھدی لانی جو کہ نجکاری کی تنظیم میں کلیدی حیثیت کا حامل ہے اتوار کے روز فرانسیسی پریس کو اپنے ایک انٹرویو میں کہاکہ میں انتہائی پرجوش انداز سے منتظر ہوں کہ صدر کے دوباہ انتخاب کے بعد وہ معاشی ایجنڈے کے حوالے سے جارحانہ انداز میں اقدامات اٹھائے گا تاکہ غیر ملکی پیداواری سرمائے کو اپنی جانب راغب کرسکے۔

فرید دھدی لانی نے کہاکہ گزشتہ تین ماہ کے دوران وہ سرمایہ دار جو کہ رابطے میں نہیں تھے آج صبح اچانک انکے مجھے ٹیلی فون موصل ہوئے اس نے مزید کہاکہ’’ ان میں سے کچھ نے اپنے ٹکٹ بھی ایران کیلئے بک کرلیے ہیں،،۔

جمعہ کے روز انتخابات میں روحانی کو معاشرے کے تمام حلقوں کی حمایت حاصل رہی اور اس نے اپنے گزشتہ الیکشن میں حاصل کیے گئے ووٹوں کی نسبت اس مرتبہ5ملین کے مقابلے میں23.5ملین ووٹ حاصل کیے ہیں ۔2014کے الیکشن میں مقابلتاً اسے انتہائی مراعات یافتہ حلقوں کی حمایت حاصل رہی تھی۔ یہ تمام تر دولت مند حلقے اور دھڑے تھچریٹ نسخہ کے اثرات کی خصوصیت سے عاری اور بے نیازرہے اور انہوں نے پرجوش انداز میں حکومت کے محنت کش طبقے اور دیہی غریبوں کی مراعات جو انہیں 1979کے انقلاب کے بعد ملی تھیں کے خاتمے کے اقدامات کی حمایت کی۔

وہ سمجھتے( سرمایہ دار) تھے کہ یورپی اور شمالی امریکہ کے ساتھ زیادہ معاشی بندھن ان کیلئے سود مند ثابت ہوگا اور وہ بہتر اشیاء صارف، پروفیشنل نوکریوں میں بڑی بڑی تنخواہ اور انہیں کاروبار میں اچھے مواقعے دستیاب ہونگے۔

الیکشن میں روحانی کے مدمقابل ابراہیم رائیسی تھا جو کہ سابقہ پراسیکیوٹر جنرل اور موجودہ بڑے مذہبی اداروں کا سربراہ ہے جس نے15.7ملین ووٹ یا38.3فیصد ووٹ جمعہ کے روز الیکشن میں حاصل کیے بقایا دوسرے دو امیدواروں نے صرف 2فی صد ووٹ حاصل کیے

رائیسی کی مولویوں کی سیاسی اسٹبلشمنٹ کی امارات کے ان دھڑوں کے سربراہی یا نمائندگی کرتا ہے جو سماجی طور پر قدامت پسند حصے ہیں اور انہیں ایران کی انقلابی گارڈز کی بھی حمایت حاصل ہے

رائیسی نے سماجی معاشی بے چینی کو اپنی الیکشن مہم میں اجاگر کیا اور 4فی صد لوگوں کو آڑے ہاتھوں لیا جن کے پاس ایران کی متجمع دولت اور اجاراداری ہے ۔اس نے وعدہ کیا کہ وہ امیروں پر ٹیکس بڑھے گا اور اس وقت جو نقدرقم سبسیٹی کے طور پر30فیصد غریب ترین حلقوں کی ایرانی گھریلوں آبادی کو دی جارہی ہے اس میں تین گنا اضافہ کریگا۔

رائیسی نے یہ بھی اقرار کیا کہ وہ جوہری معاہدے کو قائم رکھے گا لیکن اس نے کہاکہ حکومت اپنے مدمقابل کو معاہدے میں بہت زیادہ چھوٹ دے رکھی ہے ۔اس نے ایران کے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق شرح بے روزگاری جو کہ12.5فیصد ہے اور27فیصد نوجوان بے روزگار ہیں اس نے روحانی اور ظریف پر طنز کرتے ہوئے کہا کہ جوہری معاہدے نے ایران میں سرمایہ کاری کے بلند ترقی پیدا کی ہے۔

تاہم سیاسی نابرابری خاص کر دیہی علاقوں میں بڑھتی ہوئی غربت اور بڑے پیمانے پر پھیلی ہوئی ،بے روزگاری کے خلاف شدید غصہ پایا جاتا ہے ۔رائیسی نے خود کو ان غریبوں اور بدحال عوامی حصوں میں مسیحا کے طور پر پیش کرنے کی بڑی حد تک کوشش کی ۔ایران کے محنت کش طبقہ اور غریب اسلامک ریبپلک کے مختلف دھڑوں کے سیاسی نمائندوں کے ’’سماجی انصاف‘‘ کے دعو وں کا ایک طویل اور تلخ تجربہ رکھتے ہیں ۔

یہ لیڈرز اور قدامت پرست تمام نجکاری کے عمل میں شریک رہے ہیں اور منافوں سے مستفید ہوتے رہے ہیں’’اصلاح پسند‘‘ کیمپ روحانی رفسنجانی سے لیکر انتہاء پسندوں کے محمد احمد نژاد تک سب ہی نے غریبوں کو دی جانیوالی سبسیٹی کا خاتمہ کیا اور انہوں نے محنت کش طبقے کی ہر آزاد جدوجہد کی کوششوں کو بڑی بے رحمی سے دبایا۔

جمعہ کے روز منعقد کیے گئے الیکشن میں لوگوں کی بڑی تعداد میں شرکت کی اور حق رائے دیہی کیلئے 73.5فیصد ووٹ کاسٹ کیے۔ ابھی تک انگریزی میں تفصیل سے ووٹوں کے نتائج پر تجربہ نہیں آیا ہے لیکن یہ صاف ظاہر ہے کہ روحانی نے تہران میں بڑی کامیابی حاصل کی ہے ۔ لوکل الیکشن جو کہ صدارتی انتخابات کے ایک ہی ساتھ ہوتے ہیں روحانی کے حامیوں نے تہران شہر کی کونسل کی تمام21نشستوں کو جیت لیا ہے ایران کے سب سے بڑے شہر کی میونسپل کمیٹی کی حکومت جو کہ گزشتہ14برسوں سے انتہاء پسندوں کے کنٹرول میں رہی ہے۔

جمعہ کے روز الیکشن کے دوران ایران کے تھیوکریٹک سپریم لیڈر آیت اللہ خمینی نے قومی یکجہتی پر ضرور دیا اور اعلان کیا کہ الیکشن کے نتائج کو تمام ایرانیوں کو تسلیم کرنا ہوگا۔ عوام سے یہ اپیل بذات خود یہ ثابت کرتی ہے کہ ایران کا حکمران طبقہ بحران کا شکار اور تقسیم ہے خاص کر کہ سماجی حالات میں بڑھتا ہوا تنزول اور جس جیوپولیٹکل صورت حال کاانکو سامنا ہے۔

دہائیوں سے خمینی حکمران طبقوں کے دددھڑوں کے درمیان بونا پارٹسٹ کا کردار ادا کررہا ہے۔اس نے بار بار واشنگٹن کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کرنے کی حمایت کی ہے۔2003میں اس کے کہنے پر بش انتظامیہ کے ساتھ خفیہ سفارت کاری کے ذریعے اس نے ’’بڑی بارگینگ‘‘ کی پیشکش کی تھی کہ وہ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے ساتھ ساتھ حماس اور حزب اللہ کی فوجی امداد روک دیگا اور اس کے بدلے میں اسے یقین دلایا جائے کہ وہ ایرانی حکومت کو تبدیل نہیں کریگا ۔

روحانی بھی دہائیوں سے سپریم لیڈر کا قریبی ایڈویز رہا ہے اور اسے جوہری معاہدے کو عملی جامعہ پہنانے میں سپریم لیڈر کی آشرباد حاصل رہی تھی جس نے تمام ریاستی اداروں او ر سیاسی اسٹبلشمنٹ کو اسکی حمایت کے اردگرداکھٹا رکھا۔

خمینی کا امریکہ پر بڑھتا ہوا غصہ معاشی پابندیوں کے خلاف ہے جو کہ دراصل دوسرے بہانوں سے جاری ہیں۔ یہ پابندیاں اور امریکہ کی شام میں حکومتی تبدیلی کیلئے اقدامات ممکنہ طور پر ایک بڑی لڑائی میں بڑھ سکتے ہیں اس لئے یورپ کے بڑے کاروباری حلقے ایران کے اندر کوئی بڑی سرمایہ کاری کرنے سے ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔

روحانی نے الیکشن مہم کے دوران یہ وعدہ کیا تھا کہ وہ امریکہ کی جانب سے عائد باقی ماندہ پابندیوں کو ختم کردیگا لیکن اس نے اسکی کوئی وضاحت نہیں کی کہ یہ کس طرح ممکن ہوگا ۔

ایران کیخلاف معاشی پابندیاں اور جنگ کی تیاریاں کو ریپبلکن اور ڈیموکریٹس پارٹیوں کی لیڈرشپ اور پنٹا گون کی مکمل حمایت حاصل ہے ۔امریکہ کے سیکرٹری آف سٹیٹ اور ایگزون موبیل کے سابقہ سی ای او ریکس ٹیلرسن ہفتے کے روز سعودی عرب سے ایران کے انتخابات پر دشنامی سے ایران کی مخالفت کرتے ہوئے تبصرہ کیا اور ایران پر الزام لگایا کہ وہ ریاستی دہشت گردی کی سرپرستی اور انسانی حقوق کی پامالی کررہا ہے ۔

ٹیلرسن بھی ٹرمپ کے ہمراہ ریاض کے دورے پر ہے تاکہ امریکی سامراج کی سعودی مطلق العنان حکومت کے ساتھ جو دہائیوں پر محیط پارٹنر شپ کی تجدید کرتے ہوئے اس نے دس بلین ڈالر کے ہتھیاروں کا معائدہ کیا ہے اور ایران کیخلاف نیٹو کے طرز پر عرب اتحاد کی تجویز پر بات چیت کی ہے۔

آج صدر ٹرمپ اسرائیل کیلئے روانہ ہو نگے جہاں انکی ملاقات وزیراعظم بین جمین نتین یاہو سے ہوگی جو ٹرمپ کو اس لئے زیادہ پسند کرتا ہے کہ ایران کے ساتھ جوہری معاہدہ اوماہ انتظامیہ نے کیا تھا وہ اسکی سختی سے مخالفت کرتا ہے

ٹرمپ کے تحت امریکہ اب تک جوہری معاہدے پر قائم ہے اور گزشتہ ہفتے اس نے عارضی طور پر کچھ امریکی پابندیوں سے دست کشی کی ہے ۔لیکن امریکہ کی نئی حکومت نے اشارہ دیا ہے کہ وہ مناسب موقعے اور وقت پر واشنگٹن اس معاہدے کو ختم کردیگا یا پھر کسی دوسرے بہانے پر جیسا کہ ایران کے بلاسٹک مزائل کے پروگرام یا پھر شام میں جنگ یایمن میں جنگ کے حوالے سے ایران کے ساتھ تناؤ میں تیزی سے اضافہ بڑھ جائیگا۔

ایران کی جانب واشنگٹن کا جارحانہ اور دھمکی آمیز رویہ کا انداز اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ امریکہ کے حکومتی عہدیداروں نے شیخی مارتے ہوئے کہاکہ گزشتہ ہفتے جنوبی شام میں امریکی جنگی جہازوں نے شام کی حمایت یافتہ ملیشیا جیسے ایران کی لوجسیٹکل اور فوجی حمایت حاصل ہے اسے بموں سے اڑادیا ہے۔

Loading