اُردُو
Perspective

جنگ کے بادل جنوبی ایشیاء پر منڈ لارہے ہیں

جبکہ مغربی ذرائع ابلاغ کی توجہ ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے دورے پر مرکوز ہے جسے اس نے ایران کو دھمکی دینے کیلئے استعمال کیا اور اپنے دورے میں کے نیٹو کے سربراہی اجلاس میں اس نے جرمنی کو نشانہ بنایا جنوبی ایشیاء میں پاکستان اور بھارت حریف جوہری فوجی طاقتوں کے درمیان تعلقات بد سے بدترے ہورہے ہیں

نئی دہلی اور اسلام آباد نے اس ہفتے ایک دوسرے کے خلاف اشتعال انگیز فوجی کارروائی کی ڈینگ ماری ہیں۔ منگل کے روز بھارتی فوج نے اپنے اس دعوے کی حمایت کیلئے ایک ویڈیو جاری کی اور جس میں دیکھایاگیا کہ اس نے متنازعہ کشمیر کے علاقے میں’’ تادیبی آگ کے حملے ‘‘ سے پاکستان کی فاروڈ پوزیشنوں کو تباہ کردیا ہے پاکستان نے اس دعوے کی تردید کی اور اپنی ویڈیو جاری کی ہے جس میں کہا اور دیکھایاگیا ہے کہ اس نے توپ خانے کی گولہ باری کی بوچھاڑ سے لائن آف کنٹرول (ایل او سی) کے اس پار جو بھارت اور پاکستانی مقبوضہ کشمیر کو تقسیم کرتی ہے انڈیا کو زیادہ نقصان پہنچایا ہے ۔

جمعہ کے روز انڈیا نے کہا تھا کہ اس نے پاکستان کے دو فوجیوں کو ہلاک کیا تھا جب وہ لائن آف کنٹرول کے اس پر دراندازی کررہے تھے اسلام آباد نے اس واقع کی تردید کی ہے ۔

دونوں ممالک کے دعوؤں اور جواب دعوؤں کے دوران یہ جنگ کی جانب گامزن ہیں۔ پاکستان نے’’عملی طور پر‘‘ اپنی تمام فاروڈ ائیر بیس کو چوکس کردیا ہے اس خط کے جواب میں جو انڈین فوجی ہائی کمان نے ’’بہت مختصر نوٹس‘‘ پر12000انڈین ائیر فورس کے افسران کو کارروائیوں کیلئے تیار رہنے کی ہدایت جاری کی تھیں۔

گزشتہ روز پاکستان کے اخبار ڈیلی ٹائمز کے ادارے کا عنوان ’’ایٹمی جنگ کی جانب‘‘ اس نے خبردار کیا کہ نئی دہلی کولڈ اسٹارٹ فوجی حکمت عملی پر عمل پیرا ہے جس کی روح سے انڈیا پاکستان کے مرکز اسلام آباد پر بڑے پیمانے پر چھوٹے حملوں کا ہدف ہے کیونکہ پاکستان کے پاس محددو روایتی طاقت ہے اور رصرف ایک آپشن رہ جاتا ہے جو ظاہر ہے کہ ’’جوہری ہتھیاروں کا استعمال‘‘ ہے ۔پاکستان کے وزیر دفاع نے بار بار اس عزم کا اظہار کیاہے کہ بھارت کے حملے کا جواب ٹیکنیکل جوہری ہتھیاروں سے دیا جائیگا۔

بھارت کے تعلقات اپنے شمالی پڑوسی چین کے ساتھ بھی سخت پریشان کن ہیں۔ دونوں ممالک اپنی متنازعہ سرحد کے جانب فوجی قوتوں اور انفراسٹریکچر کی تعمیر کررہے ہیں جنوبی اور جنوب مشرقی ایشیاء ،افریقہ اور مشرق وسطیٰ کے وسائل اور مارکٹیوں تک رسائی کیلئے تلخ سٹرائیجک مقابلہ بازی اور جویو پولٹیکل اثرورسوخ برسرپیکار یہ دونوں کشمکش میں الجھ گئے ہیں۔

بھارت کی حکمران اشرافیہ اپنے روایتی حریف پاکستان کو بیجنگ کی اقتصادی اور فوجی حمایت پر تحفظات رکھتی ہے۔

چین کو اس بات کا بخوبی ادارک تھا کہ امریکی سامراج بھارت کو بروئے کار لاتے ہوئے کوششیں کریگا کہ اس کے گرد گھیراتنگ کرئے اور اگر ضرورت پڑھی تو ابھرتے ہوئے چین کو ناکام کرنے کے غرض سے فوجی کارروائی کریگا لہٰذا بیجنگ ایک طویل عرصے سے بھارت کے ساتھ اچھے تعلقات کو فروغ دینے کی کوششیں کرتا رہا ہے ۔

جاپان کی جانب سے گستاخی اور اشتعال انگیزی کے پر اسے کھرا جواب ملتارہا ہے جبکہ انڈیا کے ساتھ متنازعہ ایشوز پراس نے نرم رویہ اپنائے رکھا۔

لیکن وزیراعظم نریندرمودی کے تحت بھارت اور اسکی بھارتیہ جتنا پارٹی(بی جے پی) کی حکومت نے ملک کو مکمل طور پر واشنگٹن کی جارحانہ چین کیخلاف جارحانہ فوجی سٹرٹیجی میں شامل کرلیا ہے جس کی وجہ سے چین کے رویہ میں ایک واضح تبدیلی آئی ہے ۔

گزشتہ دو سالوں سے بھارت اور چین ایک سفارتی تنازعہ سے دوسرے سفارتی تنازعہ میں برسرپیکار ہیں اور عوامی سطح پر ضمنی اور واضح طور پر فوجی دھمکیوں کا تبادلہ شروع کردیا ہے ۔بھارت کے حالیہ آگنی بلسٹیک مزائیل کے تجربے پر بیجنگ نے سخت غصے کا اظہار کیا جس کی رینج5,500سے 8000کلو میٹر ہے اور جس میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ وہ جوہری ہتھیاروں سے چین کے کسی بھی آبادی والے شہر کو نشانہ بناسکتا ہے ۔پچھلے سال جنوری میں بھارت کی فوج کے سربراہ بننے کے بعد جنرل بپن راوت نے شیخی مارتے ہوئے کہا تھا کہ وہ’’دومحاذ جنگ‘‘ یعنی ایک ہی ساتھ پاکستان اور چین کے خلاف جنگ کیلئے تیار ہے ۔

چین ،انڈیا اور پاکستان ، انڈیا کی محاذ آرائی دہائیوں پر محیط ہے ۔لیکن امریکی سامراج اپنی معاشی تنزل کو روکنے اور یورشیا پر اپنی بالادستی کو قائم کرنے کیلئے جارحیت اور جنگ کے ذریعے مسلط کرنے کی مہم نے جنوبی ایشیاء میں جوپولٹیکل تناؤمیں شدید اضافہ کردیا ہے ۔

پندرہ سالہ قبل جب امریکہ نے نام نہاد’’دہشت گردی‘‘ کے خلاف جنگ کو استعمال کرتے ہوئے اور مشرق وسطی میں حکومتوں کی تبدیلی اور افغانستان میں اپنے سٹرائیجک قدم جمائے تو پنٹا گون اور سی آئی اے پہلے ہی سے بھارت کو ایک’’ اسٹیٹیجک انعام‘‘ کے طور پر فروغ دے رہے تھے ۔

بھارت کو ایک منفرد مقام دیاگیا اور انہوں نے دعویٰ کیا اس کی بڑی فوج اور بڑھتی ہوئی معیشت کا وزن امریکی طاقت کو ایشیاء اور افریقہ میں بڑھے گی اس کے علاوہ اس میں یہ فوقیت بھی ہے کہ اس کے ذریعے بحرہند پر بالادستی قائم رکھے جو کہ دنیا کا اہم ترین تجارتی سمندری راستہ ہے ۔

اس کے بعد سے واشنگٹن نے چین کیخلاف اپنی جارحانہ فوجی اسٹرٹیجک میں بھارت کو ’’ فرنٹ لائن‘‘ ریاست بنانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی، ڈیموکریٹک اور یپبلکن کے انتظامیہ دونوں کے تحت بھارت کو اسٹرئیجک حمایت سے نواز اگیا ۔انڈیا امریکہ کے عالمی اسٹرٹیجک پارٹنر شپ کو مزید مستحکم کرنے کیلئے بش انتظامیہ نے عالمی جوہری تجارت میں اسے خاص مقام دیا اوبامہ انتظامیہ کے تحت اسے ’’اہم دفاعی پارٹنر‘‘ قراردیاگیا اور امریکہ نے اس اتحادی کو جدید ترین ہتھیار فراہم کیے۔

انڈیا امریکہ کے اس اتحاد نے نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان ’’طاقت کے توازن‘‘ کا تختہ الٹ دیا ہے ۔سردجنگ کے دور میں پاکستان امریکہ کا خطے میں کلیدی اتحادی تھا۔لیکن گزشتہ دہائی سے اس کے تعلقات سرد مہری کا شکار ہوتے ہوئے ایک غریب کزن کی حیثیت کے ماند ہوچکے ہیں۔

مودی اور اسکی ہندو سپرمسٹ بی جے پی انڈیا کی بڑھتی ہوئی اسٹرئیجک فوقیت کے حصول مقصد کی جستجو میں اور واشنگٹن کی خواہش کہ وہ چین مخالف اتحاد کو وسعت دے پاکستان کی طرف ایک جنگجوانہ پالیسی اختیار کی ہے ۔گزشتہ ستمبر کو انڈیا کی سپیشل فورسز کو غیر قانونی سرحد پار حملے کا حکم دیتے ہوئے مودی نے اعلان کیا کہ انڈیا کے پاکستان کی جانب ’’اسٹرٹیجک تحمل ‘‘کے دن خاتمہ ہو گئے ہیں ۔

بھارت امریکہ اتحاد چین کیلئے بھی ایک بڑھتا ہوا واضح خطرہ بن گیا ہے ۔مودی نے امریکہ کی چین کیخلاف مہم میں اپنے کو سفارتی اور فوجی لہٰذا سے مکمل طور پر اسکا اتحادی بنادیا ہے ۔انڈیا بحیرہ جنوبی چین میں امریکہ کی پالیسی پر گامزن ہے اس نے امریکہ کے اعلیٰ اتحادیوں ،جاپان اور آسٹریلیا سے دو طرفہ اور تین طرفہ اتحادوں کو بڑے پیمانے پر وسعت دی ہے اور اپنی بندرگاہوں اور ائیر بیس کو پنٹا گون اور بحری جہازوں کو دوبارہ سپلائی اور مرمت کیلئے استعمال کیلئے کھول دیا ہے ۔حال ہی میں امریکہ کے پیسفک کمانڈ کے ایڈمرل ہیری حارس نے انکشاف کیا ہے کہ انڈیا اور امریکہ کے افواج چینی جہازوں اور ابدزوں کی نقل و حرکت پر خفیہ معلومات پر تبادل کررہے ہیں۔

بھارت امریکہ اتحاد کی جانب سے مشترکہ خطرے کے پیش نظر سے چین اور پاکستان بھی دیرینہ ،معاشی اور فوجی تعلقات کو مضبوط بنانے کی طرف بڑھے ہیں۔ جس کی ایک مثال پچاس ملین ڈالر کی چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) ہے جس سے بحیرہ عرب میں گوادر کی بندر گاہ کو مغربی چین سے لنک کیا جائیگا جس سے بیجنگ کو جزوی طور پر متبادل راستہ ملے گا خاص کر اس وقت جب پنٹاگون حکمت عملی کے طور پر بحیرہ ہنداور بحیرہ جنوبی چین کے راستوں کو چینی پر معاشی اور اقتصادی پابندیاں لگانے کیلئے بند کریگا ۔

انڈیا پاکستان ،انڈیا چین کی اسٹرٹیجک مخاصمت ایک دوسرے میں پھنس جانے کی وجہ امریکی سامراج اور چین کے درمیان مقابلہ بازی ہے جس نے خطرناک حد تک جوہری طاقتوں کے درمیان لڑائی کو نئی سمت دی ہے جو کہ پہلے ہی سے دھماکہ خیز صورتحال میں واقعہ تھیں ۔

ماضی میں واشنگٹن نئی دہلی اور اسلام آباد کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے کیلئے مداخلت کرتا رہا ہے لیکن اب اس کی خواہش اور صلاحیت ایسا کرنے پر تیزی سے مشکوک ہو گئی ہے ۔

امریکہ جوچین کیخلاف اتحاد کے بارے میں حساس ہے نے گزشتہ ستمبر کو انڈیا کی پاکستان کے اندر ’’سرجیکل اسٹرئیکس‘‘ کی پہلے خاموشی سے اور بعد میں واضح طور پر حمایت کی ۔اس کے علاوہ واشنگٹن اسٹبلشمنٹ کے پاکستان کی جانب دشمنی بڑھ رہی ہے جس کی وجہ پاکستان کے طالبان کے ان حصوں کے ساتھ تعلقات ہیں ’’انشورنس پالیسی‘‘ جو کہ انڈیا امریکہ کے پارٹنر شپ کے خلاف ہے اور پاکستان کے بیجنگ کے ساتھ بڑھتے ہوئے تعلقات ہیں ۔

امریکی حکمران اشرافیہ کو اپنے ملک میں بہت سے جویو پولٹیکل بحرانوں اور سماجی کشیدگیوں کا سامنا ہے ۔ٹرمپ انتظامیہ جو کہ ایک چوتھائی صدی پر محیط جنگ کی پیدوار ہے اور دہائیوں پر مشتمل سماجی ردعمل تشدد اور تاریخی پیش منظر کے نہ ہونے کا نتیجہ ہے ۔چاہئے ٹرمپ یا اس کے معاونین اس دھماکہ خیز اور باہمی تنازعات جو کہ جنوبی ایشیاء پر منڈلارہے ہیں شاید اس سے واقف ہوپاکستان اور انڈیا کے درمیان چھوٹے پیمانے کی لڑائی ایک بڑی جنگ میں تبدیل ہوسکتی ہے اور جس میں دوسری بڑی طاقتیں بشمول امریکہ بھی شامل ہوسکتا ہے یہ ایک حقیقی سوال ہے ۔

یہ مسلمہ ہے کہ امریکہ کی عالمی بالادستی کی مہم دنیا کے ہر کونے میں لڑائیوں اور کشیدگی کو ابھارا ہے اور یہ عمل دوسری سامراجی طاقتوں کو بمشول جرمنی اور جاپان کو بھی مجبور کررہی ہیں کہ وہ جارحانہ انداز میں اپنے مفادات کا اطلاق کریں۔

اگر سامراجی بڑھکتی ہوئی آگ سے بچنا ہے جو دنیا کو ایک تباہ کن جنگ میں دھکیل رہی ہے جس کے سامنے پچھلی صدی کی دو عالمی جنگیں کچھ نہیں تھی تو عالمی محنت کش طبقے کو ضروری طور پر متحرک ہو کر سرمایہ داری کے بحران کیلئے اپنا حل دینا ہوگا جو کہ سوشلسٹ انقلاب ہے ۔

محنت کش طبقے کی قیادت میں جنگ مخالف تحریک کی ترقی کی بنیاد بورژوازی کے ان تمام دھڑوں کیخلاف ہونی چاہئے جو کہ ایک دوسرے کے مخالف ہیں اور ان کی قوم پرست اور شاونسٹ اپیلوں کو مسترد کرتے ہوئے محنت کش طبقے کو ایک آزاد اور خود مختار سیاسی طاقت کو بروئے کارلاتے ہوئے سماجی اور جمہوری حقوق کیلئے لڑاجاسکے ۔

Loading