اُردُو

اکتوبر کے اسباق

تعارف۔۔ ڈاکٹر زیار

دیباچہ۔۔کیتھ جان

ابتدائیہ۔۔ماروس سپیکٹر

باب1۔۔ہمیں لازماً اکتوبر انقلاب کا مطالعہ کرنا چاہئے

باب2۔۔’’پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت‘‘ فروری اور اکتوبر میں

باب3۔۔جنگ کیخلاف جدوجہد اور عذردایت

باب4۔۔اپریل کانفرنس

باب5۔۔جولائی کے دن ;کارنیلوف والد واقعہ;ڈیموکریٹک کانفرنس اور قبل از پارلیمنٹ

باب6۔۔اکتوبر انقلاب سے ذرا پہلے۔۔۔۔۔۔نتائج

باب7۔۔اکتوبر کی سرکشی اور سوویت ضابطہ پرستی

باب8۔۔پرولتاری انقلاب میں سوویتس اور پارٹی ذکر ایک مرتبہ پھر

باب9۔۔اس کتاب پر ایک مختصر بیان

باب10 ۔۔ وضاحتی نوٹس

تعارف

اکتوبر کے اسباق

روسی انقلاب 20صدی اور عالمی تاریخ میں سب سے اہم اور شاندار واقع ہے جس کے اثرات پوری دنیا پر مرتب ہوئے۔روسی انقلاب اپنے عروج کو اس وقت پہنچا جب اکتوبر1917میں بالشویک پارٹی نے سیاسی اقتدار حاصل کیا جس سے عالمی تاریخ ایک نئے دور میں داخل ہو گئی عارضی بورژوا حکومت کے اکھاڑ پھینکنے سے یہ بات حقیقی طور پر تسلیم ہوتی ہے کہ سرمایہ داری کے متبادل سوشلسٹ انقلاب کوئی یوٹوپیا خواب نہیں تھا بلکہ ایک حقیقی امکان جیسے محنت کش طبقہ نے اپنی شعوری سیاسی جدوجہد سے حاصل کیا ۔اکتوبر انقلاب نے عملی طور پر یہ حقیقت واضح کی کہ کارل مارکس اور اینگلز نے کمیونسٹ مینی فیسٹو میں جو تاریخی مادیت کا نظریہ پیش کیا تھا اس کی تصدیق کی۔

اکتوبر انقلاب کا آغاز 23فروری1917میں (جو لیین کلینڈر جو کہ گیر گورین سے13دن پیچھے ہے ) یورپی کلینڈر کے مطابق 8مارچ ہے کو شروع ہوا ۔پیٹروگراڈ میں خواتین کے عالمی دن پر مظاہروں اور ہڑتالوں کا سلسلہ شروع ہوا۔ نیکولوس سوکانو (Nicholos Sakhanov)جو کہ ایک لیفٹ مینشویک تھا جس نے1917کے واقعات کی اپنی یاداشتوں میں لکھا ہے کہ اس کی کام کرنے کی جگہ میں دو ٹائپسٹ نوجوان لڑکیوں کے درمیان شدید بحث ہورہی تھی ایک نے کہاکہ ’’ کیا آپ جانتی ہیں اگر آپ مجھ سے پوچھیں‘یہ انقلاب کی شروعات ہیں ‘‘ سوکانو نے اپنے آپ سے دل ہی دل میں کہا کہ یہ بے قوف نوجوان لڑکیاں انقلاب کے بارے میں کیا جانتی ہیں انقلاب تو صرف ایک خواب ہے۔ اورہماری نسلیں انقلاب کے سہراب میں بٹھک کربرباد ہو گئی ہیں۔میں نے ان کی نادانی کی لاج رکھتے ہوئے کہاہاں! یہ انقلاب شروعات ہے ۔ روسی انقلاب کی آغاز سے لینن اورٹراٹسکی دونوں روس سے باہر سیاسی طورپر جلاوطن تھے لینن 1905ء کے انقلاب کے بعد طویل عرصے تک جلا وطن رہے۔ لینن3اپریل کو 1917ء کو زوریچ سے فین لینڈ سٹیشن روس پہنچا اور 4اپریل 1917ء کو اس نے پیٹروگراڈ سویتس اور فوجی سپاہیوں کے ڈپٹیز میں ’’اپریل تھسیز‘‘ پیش کیا۔

لیون ٹراٹسکی4مئی1917ء کو نیویارک سے روس پہنچا جسے برطانوی سامراج نے روس جانے سے پہلے نظر بند کررکھا تھا ۔بالشویک پارٹی میں معروضی صورتحال کے تیزی کے ساتھ بدلنے پر شدید اختلافات نے جنم لیا۔جو آخر کار لینن اور ٹراٹسکی کی قیادت میں پارٹی میں فیصلہ کن جنگ کرتے ہوئے انقلاب برپا کرنے میں کامیاب ہوئے۔ایک انقلابی پارٹی اپنے نشوونما کے ہر دور میں اس پر دیگر طبقات کے اثرات مرتب ہوتے رہتے ہیں اور ان اثرات کو روکنے اور زائل کرنے کی غرض سے پارٹی اپنے طریقہ کار واضح کرتی ہے ۔طریقہ کار کا موڑ پارٹی کے اندر اختلافات کو جنم دیتا ہے اور جس سے اس کی قوت مدافعت میں کمی واقع ہوتی ہے اس سے ہمیشہ یہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ پارٹی کی داخلی گروپنگ جو طریقہ کار کا موڑ لینے کی ضرورت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے کہیں وجہ اختلاف کے نقطے سے آگے بڑھ جائے اور دوسرے طبقوں کی نمائندگی کرنیوالے رحجانات کی خدمت کرنے لگے ۔ٹراٹسکی کے مطابق اگر طریقہ کار کے ہر سنجیدہ موڑ پر یہ سچ ہوتا ہے تو حکمت عملی میں تبدیلی سے یہ اس سے بھی زیادہ سچ ثابت ہوتا ہے۔

اس کتاب میں جسے 1923ء کے خزاں میں جرمنی میں کمیونسٹ پارٹی کے اقتدار پر قبضہ کرنے میں ناکامی کے چند ماہ بعد لکھی گئی ، ٹراٹسکی نے بالشویک پارٹی کے اندر فروری 1917ء سے 1917ء کے اکتوبر انقلاب تک ہونے والی جدوجہد کا تجزیہ کیا۔ جیسا کہ اکتوبر انقلاب کے رہنما عظیم فرانسیسی انقلاب، 1848ء کے انقلاب، اور 1905ء کے روسی انقلاب کے تجربات سے سرشار تھے، اسی طرح ٹراٹسکی نے زور دیا کہ مزدوروں کی عالمی تحریک اکتوبر 1917ء کے انقلاب کا سنجیدہ مطالعہ کرے۔ یہ تاریخ بتاتی ہے کہ پرولتاری انقلاب کا بنیادی آلہ پارٹی ہے، اور ٹراٹسکی اس بحران کا تجزیہ کرتا ہے جو انقلابی جماعت میں تیاری کے مرحلے کی انقلابی سرگرمی سے براہ راست طاقت کے حصول کی جدوجہد تک کے عرصے میں کم و بیش لازماً پیدا ہوتا ہے۔ اس تحریر پر سٹالن، زینوویف ، کامنیف اور ان دیگر بالشوویکوں سے بے حد تنقید کی جو ٹراٹسکی کی رہنمائی میں کام کرنے والی لیفٹ اپوزیشن کے خلاف لڑ رہے تھے۔

اس کتاب کا مطالعہ مزدوروں ‘نوجوانوں اور مارکسی رجحان رکھنے والے دانشوروں کیلئے انتہائی اہم ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ اس کے مطالعے سے سیاسی ورکرز کے شعور میں گہرائی اور وسعت آئے گی‘جس سے اس خطے میں انقلابی پارٹی کی تعمیر میں دو رس نتائج مرتب ہونگے ۔

آخر میں ‘میں اپنے انقلابی دوست کیتھ جان جو کہ دہائیوں سے انٹرنیشنل کمیٹی آف فورتھ انٹرنیشنل سے منسلک ہے اور ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کے ایڈ یٹوریل بورڈ کا ممبر ہے کا انتہائی شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اس نے اپنا قیمتی وقت نکال کر اکتوبر انقلاب کے اسباق کا دیباچہ لکھا۔اور میں اپنے دوسرے محترم ساتھیوں کا بھی مشکور ہوں کہ انہوں نے اس کتاب کے ترجمے میں میرا ہاتھ بٹھایا۔

ڈاکٹر زیار
لورالائی
12اکتوبر1917ء


دیبا چہ

ٹراٹسکی کے ’’ لیسنز آف اکتوبر ‘‘ کا اُردو زبان میں پہلی مرتبہ تعارف کرانا ایک اعزاز ہے ، کیونکہ اپنی اشاعت کی نو دہایؤں بعد بھی یہ ایک انتہائی اہم اور ایک ایسی کتاب ہے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ یہ اکتوبر ۱۹۱۷ء کے روسی انقلاب کو سمجھنے اور سوشلسٹ انقلاب میں قیادت کردار کو سمجھنے کیلئے یہ انتہائی نا گزیر ہے ۔

’’اکتوبر کے اسباق ‘‘ کو ٹراٹسکی نے اپنی تحریروں اور تقریروں پر مشتمل ایک کتاب کے دیباچے کے طور پر 1924ء میں تحریر کیا تھا ۔ جسے سویت یونین کے ایک ریاستی اشاعتی ادارے نے شائع کیا تھا ۔ اسطرح یہ انقلاب کی تاریخ تو نہیں ۔ کیونکہ 1929ء میں سٹالنسٹ حکومت کے ہا تھوں سویت یونین سے نکالے جانے کے بعد ، ٹراٹسکی نے ایک انتہائی اہم تین جلدوں پر مشتمل روسی انقلاب کی تاریخ لکھی ، جو آج بھی انقلاب کی وجوہات ، واقعات اور محرکات کا ایک مستند حوالہ گردانا جاتا ہے ۔ لیسنز آف اکتوبر یا اسباقِ اکتوبر ، جو کے آ نے والے ’’ اکتوبر ز ‘‘ یعنی سوشلسٹ انقلابات کیلئے سیاسی طور پر تیاری کرنے کے عمل کو ذہن میں رکھ کر لکھی گئی ایک ایسی کتاب ہے ، جو بیک وقت دونو ں یعنی یورپ اور شمالی امریکہ کے ترقی یافتہ سرمایہ دار ممالک اور مشرق کے محکوم ممالک میں بالشویک پارٹی (بعد اذاں کیمونسٹ پارٹی) کے فروری میں زار کے اقتدار کے خاتمے اور اکتوبر میں روسی مزدور طبقے بالشویک کے ذیرِ قیادت اقتدار حاصل کرنے کے عرصے میں بالشویک پارٹی کے اندرونی خلفشار کی کہانی بیان کرتی ہے ۔

ٹراٹسکی یہ بتاتا ہے کہ بالشویک کی فتح کی راہ انقلاب کی نمو وارتقا کے ادوار میں اندرونی سیاسی جدوجہد سے ، اسکے طبقاتی تحرکات اور افعال سے ، اور یورپ کا مزدور طبقہ پہلی عالمی جنگ کے سرمایہ دارانہ قتلِ عام کی جو آئے دن بڑھتی ہوئی مخالفت کر رہا تھا اُس سے ہموار ہوئی ۔

سوشلسٹ انقلاب ایک معروضی عمل ہے جسکی جڑیں سرمایہ داری کے تضادات میں پیوستہ ہیں ۔ یہ تضاد ہے پیداوار کے وسیع تر سماج میں پھیلے ہوئے کردار اور ہر قسم کی سماجی اقتصادی زندگی کے سرمایہ دارانہ نجی منفعت کی ماتحتی کے درمیان ، اور دنیا میں معاشی نشوونما اور سرمایہ دارانہ قومی ریاستوں کے نضام کے درمیان ، لیکن جیسا کہ ٹراٹسکی نے وضاحت کی ہے ، انقلاب کے ایک مخصوص مرحلے میں ، انقلاب کی فتح میں سب سے اہم کردار انقلابی جماعت کا ہوتا ہے ، جو عملی طور پر انقلاب کے لمحے کا تعین کرتی ہے ، جو مزدور طبقے کے سب سے ذیادہ طبقاتی شعور کے حامل اور اپنی ذات کی قربانیاں دینے والے دھڑوں کو منظم کرنے کے بعد مزدور طبقے کیلئے اقتدار پر قبضہ کرنے کا ایک ایسا ذریعہ بن جاتی ہے کہ وہ اقتدار پر قبضہ کرے اور معاشرے کی سوشلسٹ تنظیم نو شروع کرے ۔

اگر پارٹی انقلاب کی آمد کی پہچان کرنے اور اُس کیلئے درکار اقدامات اٹھانے میں ناکام ہو جائے ، تو یہ انقلابی جماعت دِنوں ہفتوں میں ختم ہو جاتی ہے ، اور حکمران طبقوں کو دوبارہ منظم ہونے اور اپنے اقتدار کو دوبارہ مستحکم کرنے کا موقع فراہم کر دیتی ہے ۔

جیسا کہ ٹراٹسکی ثابت کرتا ہے ، کہ لینن نے ۱۹۱۷ء میں بالشویک کے بنیادی تشخص کی توضیح و صراحت میں بنیادی کردار ادا کیا ، پہلی بات تو یہ ہے کہ اگر انقلاب نے سرمایہ داری کا خاتمہ نہ کیا ہو ، تو مزدوروں کسانوں کی ضروریات کو پورا نہیں کیا جا سکتا ، تو اسکے لیئے کرنے کا کام یہ ہے کہ مزدوروں کے اقتدار کی ضرورت کو صبروتحمل سے سمجھایا جائے ، اور دوسرا ۱۹۱۷ ء کے موسم خزاں میں ، بورژوا کی عبوری حکومت کی ساکھ کے مکمل خاتمے کے بعد ، اور اسکے مینشویک اور سوشلسٹ رولوشنری (ایس ، آرز) حامیوں اور بالشویک کی مزدور طبقے کی ایک عوامی جماعت کی صورت ظہور پزیری کے بعد، بالشویک مزدور طبقے کو سیاسی طور اقتدار حاصل کرنے کی جدوجہد کرنے سے ، خود بغاوت برپا کرنے پر آنا پڑا ۔ اس کیلئے اہم پارٹی کی تنظیم نو تھی جو لینن نے سر انجام دی جب وہ ۱۹۱۷ ء میں جلاوطنی سے واپس آیا ۔ چند ہی ہفتوں کے دوران ، لینن پارٹی کا اُس پالیسی سے ہٹانے میں کامیاب ہو گیا جس پر وہ ’’ اولڈ بالشویک ‘‘ کمینوف اور سٹالن کے ذیرِ ہدایت عبوری حکومت کی مشروط حمایت پر عمل پیرا تھی ۔ اپنے مشہور ’’اپریل تھیسسز‘‘ کے ساتھ ہی ، لینن نے بالشویک کو نئی سوچ دی وہ ایک سیاسی نعرے کہ ’’تمام طاقت سویت کی ہے ‘‘ کے ما تحت سوشلسٹ انقلاب کی سیاسی تیاری کریں۔۔۔۔۔اور یہی سوچ اس نے مزدوروں ، سپاہیوں اور کسانوں کی ان کونسلز کو بھی دی جو فروری کے انقلاب کے نتیجے میں بنی تھیں اور جنہیں عوام انقلابِ مجسم اور انقلاب کا ضامن سمجھتے تھے ، لیکن جو مینشویک اور ایس آرز کی ذیرِ قیادت اقتدار بورژوا اور اسکی عبوری حکومت کو سونپ چکے تھے ۔

اپریل ۱۹۱۷ ء کے اختلافات اکتوبر ۱۹۱۷ ء کی بغاوت تک اور بشمول اس بغاوت کے ہر اہم موڑ پر نمودار ہوئے ۔ جب اولڈ بالشویک کا ایک دھڑا یہ کہہ رہا تھا کہ اقتصادی پسماندگی کے تناظر میں روس میں سوشلسٹ انقلاب ابھی قبل ازوقت ہے ۔ وہ اس خیال یا اس نقطۂ نظر کو بالشویک کے ۱۹۱۷ ء سے قبل کے ’’ مزدوروں کسانوں کی جمہوری آمریت ‘‘ کے مطالبے کا حوالہ دیتے ہوئے جواز فراہم کرتے تھے ۔

جہاں تک لینن کا تعلق ہے ، اُس نے اس تصور کو ازکار رفتہ اور تر میم شُدہ کہہ کر رد کر دیا اور جیسا کہ اس وقت ٹراٹسکی کے دائمی انقلاب کی بابت بھی اکثریت کا یہی خیال تھا ۔ ٹراٹسکی کی اس سوچ کے مطابق روس میں بورژوا جمہوری انقلاب کے بنیادی کام۔۔۔۔۔بشمولِ زارازم کا خاتمہ ،کاشتکاروں کے درمیان زمین کی ازسر نو تقسیم ، اور ’’ گریٹ رشین ‘‘ قسم کے قومی جبر کا خاتمہ ۔۔۔۔ صرف سوشلسٹ انقلاب کے ذریعے ہی کیا جا سکے گا ۔ یہ انقلاب شروع تو روس میں ہو گا ، لیکن اسکا مقدر نہ صرف جُڑا ہو گا بلکہ اس کے مقدر کا تعین ہی انقلاب کے یورپ کے ذیادہ ترقی یافتہ ممالک تک پھیلاؤ سے ہو گا ، اور عالمگیر سوشلسٹ انقلاب اسی صورت منزل سے ہمکنار ہوگا ۔

جبکہ ٹراٹسکی کی ۱۹۱۷ ء کی تقریروں اور تحریروں کی دوبارہ اشاعت اسکے لیسنز آف اکتوبر کی رسمی وجہ بنی، اسکی تحریر اتنی ہی جرمن کیمونسٹ پارٹی (کے پی ڈی) کے انقلابی موقع سے فائدہ اٹھانے میں ناکامی کا جواب بھی تھی ، جو انہیں ۱۹۲۳ ء کے موسم خزاں اور گرمیوں میں حاصل ہوا تھا ۔ جب جرمن بورژوا حکومت کو سیاسی اور اقتصادی ذوال کا سامنا تھا اور کے ڈی پی کی حمایت میں اضافہ ہو رہا تھا ، جرمن کیمونسٹوں نے مزدوروں کی بغاوت کے دن کا بھی تعین کر لیا تھا ، لیکن وہ ہمت ہار گئے اور آخری لمحے اسے منسوخ کر دیا ۔

اکتوبر کے اسباق کی ایک اہمیت یہ بھی تھی کہ یہ ایک ذوردار وار تھا اس مراعات یافتہ بیوروکریسی پر جو مزدوروں کی ریاست اور کیمونسٹ پارٹی کے کل پُرزوں میں نمودار ہوئی ، ایک ایسے حالات میں جب انقلاب ایک پسماندہ اور کسانوں کی اکثریت والے ملک میں جو جنگوں سے تباہ حال بھی تھا اور پھر سامراجیوں کی حمایت یافتہ وائٹس نے بھی انقلاب کے بعد کی خانہ جنگیوں میں ملک کا ستیا ناس کیا تھا ۔

۱۹۲۳ ء کا جرمن انقلاب جو نہ ہو سکا ، سویت یونین کی علیحدگی اور تنہائی کو اور بھی گھمبیر کر دیا اور یوں اس بیوروکریسی کو مزید مضبوط کر دیا جو اب کھلم کھلا مزدور طبقے کے اقتدار کو غصب کر رہی تھی ۔

اسباقِ اکتوبر کی اشاعت کے چند ہفتے بعد ہی ، جوزف سٹالن جو کیمونسٹ پارٹی کے سیکر ٹری جنرل تھے ، وہ بیوروکریسی کے ایک سیاسی رہنما کے طور پر اُبھر رہے تھے ، اُنہوں نے اس بین ولا قوامی تناظر کو کھلم کھلا ترک کر دیا جس نے روسی انقلاب میں جان ڈال رکھی تھی ایک نئی تزویراتی تعبیر و تشریح کرتے ہوئے ۔۔۔۔’’ اپنے ملک میں سوشلزم ‘‘ ۔

عالمگیر سوشلسٹ پروگرام سے یہ علیحدگی ناگزیر طور پر ہر قسم کی موقع پرستانہ چالبازیوں کے ہمرکاب ہو گئی ۔ اس میں کیمونسٹ انٹرنیشنل کا میشنویک کے دو مرحلوں والے انقلاب کی تھیوری کا احیاء بھی شامل ہے ۔ جس نے ۱۹۱۷ ء کی بورژوا عبوری حکومت کیلئے مینشویک کی حمایت کا نظریاتی جواز فراہم کیا تھا اور اس حکومت کے عالمگیر جنگ میں روس کی شرکت کے جاری رکھنے کے عمل کو بھی اس دعوے کے ساتھ کہ وہ ممالک جہاں سرمایہ دارانہ ترقی بہت تاخیر سے ہوئی ہے مزدور طبقے کو جمہوری (جاگیردار مخالف، سامراج مخالف ، قومی ) انقلاب کے عمل میں اپنے آپ کو ایک قومی بورژوا کے ایک ماتحت اتحادی کے طور پر محدود رکھنا پڑتا ہے ۔

سٹالن کے اس امر پر اصرار کے کہ مزدور طبقہ خود کو ’’ترقی پسند ‘‘ قومی بورژوا کے ماتحت کرے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ۔ پہلے چائنہ میں ، جہاں ۲۷۔۱۹۲۵ ء کے چینی انقلاب کو سٹالن کے زیر اثر کچل دیا گیا کیمونسٹ انٹرنیشنل کے اس اصرار کی بناء پر کہ چائنہ کی کیمونسٹ پارٹی خود کو چیان کائی شیک کے بورژوا کومنٹینگ میں ضم کر دے ۔

۱۹۳۰ اور ۱۹۴۰ کے عشروں کے دوران ، سویت کی سٹالنسٹ بیوروکریسی اور اسکے جنوب ایشیائی پیروکار ، جو کیمونسٹ پارٹی آف انڈ یا کی صورت منظم تھے ، اُنہوں نے بھی برصغیر میں اُسی طریقہ کار کی حما یت کی ، اور نتائج بھی ویسے ہی بھیانک تھے ۔ اکتوبر ۱۹۱۷ ء کے انقلاب کی بنیادی تعلیمات کو دانستہ نظر انداز کرتے ہوئے ، سٹالنسٹ نے ایک ایسی راہ اختیار کی جس نے ہر قدم سامراج مخالف جدوجہد پر قومی بورژوازی کے کنٹرول کو مضبوط کیا اور مزدور طبقے کو اسے چیلنج کرنے اور عام کسانوں کی قیادت اپنے ہاتھ میں لینے سے روکا ۔ اس میں بورژوا کانگریس کو بطور کثیر الاطبقاتی محاذ سراہنا بھی شامل ہے ، ۱۹۴۲ ء کی کوئٹ انڈیا موومنٹ کو دبانے میں اس بنیاد پر برطانوی حکام کی معاونت کرنا کہ اس سے اتحادیوں کو نقصان پہنچتا ہے ، اور علیحدہ پاکستان کیلئے مسلم لیگ کے رُجعتی مطالبے کی حمایت بھی شامل ہے ۔

پاکستانی اور انڈین بورژوا کے ہاتھوں تقسیم جمہوری انقلاب کو دبانے کا ایک فوری اور مؤثر طریقہ تھا ، اور یہ دوسری عالمی جنگ کے بعد عالمی سرمایہ داری کے دوبارہ استحکام میں ایک بڑا عنصر تھا ۔

جیسا کہ ٹراٹسکی نے متنبہ کیا تھا ، کہ سٹالنسٹ بیوروکریسی کی سیاسی فتح سرمایہ دارانہ ردِانقلاب کا پہلا مرحلہ ہے ، اب ۱۹۸۵ ء اور ۱۹۹۱ ء کے درمیان ، سرمایہ دارانہ نجی ملکیت کو بحال کرتے ہوئے اور سویت یونین کو تحلیل کرتے ہوئے ، اس بیوروکریسی نے غداری کی آخری حد بھی عبور کر لی ہے ۔

لیکن سرمایہ داری کیلئے یہ مُہلت بہت تھوڑی ثابت ہوئی ہے ۔ آج ، روسی انقلاب کے سوسال بعد ، سرمایہ داری کو ۱۹۳۰ ء کے گریٹ ڈپریشن اور اسکے نتیجے میں ہونے والی دوسری عالمی جنگ کے بعد ، سب سے بڑا معاشی اور جیو پولیٹیکل بحران درپیش ہے ، جیسا کہ متحارب بورژوازی رجعت پرستی ، مطلق العنانی اور جنگ کی جانب بڑھ رہا ہے ۔

جیسا کہ ٹراٹسکی اسباقِ اکتوبر میں اصرار کرتا ہے ، ’’ پارٹی کے بغیر ، پارٹی کے علاوہ ، پارٹی سے بالا بالا ، یا پارٹی کے کسی نعم البدل سے ‘‘ سوشلسٹ انقلاب فتح حاصل نہیں کر سکتا ۔ ہر ملک میں اہم سوال ایک انقلابی مزدور جماعت بنانے کا ہے ۔۔۔۔۔وہ جماعتیں جنہوں نے پچھلی صدی کے ا نتہائی اہم تجربا ت سے سبق سیکھ لیا ہے ، بشمولِ سٹالنسٹ سی پی آی کے تباہ کن کردار سے ، اور ا س کے کئی ذیلی شاخوں سے بھی ، اور سب سے بڑھ کر روسی انقلاب کے سبق اور افسر شاہی کی بدولت اس کے تنزل کے خلاف جدوجہد ۔۔۔۔اور فورتھ انٹرنیشنل کی انٹرنیشنل کمیٹی کے مختلف دھڑوں نے جو مختلف سبق سیکھے ہیں ۔

کیتھ جان
شمالی امریکہ ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ ایڈیٹوریل بورڈ
(wsws.org) 9اکتوبر2017ء

ابتدائیہ

اگرحالات اور مقاصد کو نگاہ میں رکھا جائے تو ’’اکتوبر کے اسباق‘‘ تاریخ پر تحقیق کے ایک مضمون سے بڑھ کرہے۔ اگر اس کی حیثیت ایسے کسی مضمون کی بھی ہوتی تو بھی یہ قابلِ قدر ہوتا۔ وقوع پذیر واقعات، جو سوویت بغاوت کے دوران کمال عروج کو پہنچے، کا علم ٹراٹسکی کی بے مثال تحریروں کے ذریعے ہم تک پہنچا۔ لیکن یہ تحریر جب 1924ء میں سامنے آئی تو اکتوبر کے ایام پر غبار چڑھا ہوا تھا۔ صرف دو باتیں بتانا کافی ہوں گی۔ بورژوا دنیا نے بالشویکوں کی جیت کو بغیر منصوبے اچھی قسمت کے سبب ہونے والی کامیابی قرار دیا۔ کمیونسٹوں، بالخصوص مغرب سے تعلق رکھنے والوں نے، پرُاسرار انداز میں سوچا کہ تھوڑے استثنا کے علاوہ بالشویکوں نے انقلابی بحران سے یک جان ہوکر سیاسی بصیرت کے بل پر نپٹا۔

خود روسی اس ابہام کو دور کرنے میں ناکام رہے کیونکہ انہیں سماجی تعمیرِنو کا کام سرانجام دینا تھا۔ شاید پھر بھی پارٹی کی اکتوبر سے قبل کی تاریخ یوں نظرانداز نہ ہوتی۔دراصل کہ اکتوبر کا تجزیاتی مطالعہ ’وابستہ مفادات‘ کو زد پہنچاتا تھا۔ لینن کی وفات کے بعد مورچہ بند بیوروکریٹک رجیم ریکارڈ کے بغور مطالعے سے گریزاں تھا۔ لینن کی وصیت میں زینوویو اور کامنیو کے بارے میں کہا گیا تھا کہ ’اکتوبر میں ان کی پسپائی اتفاقی نہیں تھی‘۔ نہ ہی یہ حادثاتی تھا کہ لینن کی غیرموجودگی میں ’تجربہ کار‘ بالشوویک 1917ء کے انقلاب کی خاصیت کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ اسی وجہ سے ارادی یا غیر ارادی طور پر انہوں نے اکتوبر کے تجربے کو پارٹی کے دوسرے واقعات سے اہم نہ بتایا۔ دوسری طرف ٹراٹسکی کے لیے اکتوبر کے کٹھن امتحان نے مارکسی حکمت عملی (سٹریٹجی ) اور لیڈرشب کی صلاحیت کو واضح کردیا۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل کو اکتوبر کے تجربے کو لازماً سمو لینا چاہیے تھاورنہ تباہی اس کی منتظر تھی۔البتہ پہلے ہی رجعت پیدا ہوچکی تھی اور پارٹی بیوروکریسی اپنی قومی طاقت کو مستحکم کرنے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ ٹراٹسکی، جس کی بقول سٹالن ’’براہِ راست رہنمائی میں بغاوت کا عملی کام ہوئے‘‘، بے نظیر زہریلی مہم کا نشانہ بن گیا۔ انقلابی تاریخ کو نظروں سے اوچھل نہ کرسکنے پر بیوروکریسی نے اسے جھٹلانا شروع کردیا۔ ’اکتوبر کے اسباق‘ پر تنقید ، جسے مکارانہ طور پر ’علمی بحث‘ کہا گیا، سٹالینسٹ قوم پرستی اور لیننسٹ (ٹراٹسکایٹ) بین الاقوامیت کے مابین جدوجہد کا ایک اہم مرحلہ تھی۔

’اکتوبر کے اسباق‘ ،جو ٹراٹسکی کی 1917ء کی مجموعہ تحریروں کا ابتدائیہ تھا، اس وقت سامنے آیا جب جرمن کمیونسٹ تحریک زوال پذیر ہو چکی تھی۔ جنگ کے بعد کے دور میں مغربی انقلاب کی کنجی یقیناًجرمنی کے ہاتھ میں تھی۔ ورسیلز (Versailles) کی مزاحمت میں پھنسی، یورپ کی سب سے زیادہ صنعت یافتہ اور مرکوز معیشت میں بار بار طبقاتی تضادات پھٹ پڑنے کی نوبت تک آئے۔ 1923ء میں دوبارہ مرضی سے عمل کرنے کے لیے بے تاب جرمن بورژوازی نے اصلاح کی ’تکمیل‘ کی پالیسی غیر متحرک مزاحمت کے بدلے ترک کردی۔ جب کونو حکومت بعض ادائیگیاں بالجنس کرنے میں ناکام رہی توپوان کیئرنے روہر پر قبضے کا حکم دے دیا۔ مزاحمت کی لاگت ادا کرنے کے لیے مرکزی حکومت، زرمبادلہ اور کریڈٹ سب چلتے بنے اور اس سے تاریخ میں افراطِ زر کی بدترین مثال سامنے آئی۔ لیکن اس کی قیمت جنہوں نے ادا کی وہ نہ تو سبسڈی لینے والے روہر کے صنعت کار تھے، نہ سٹنز جیسے بیش بہا مال بنانے والے سرمایہ کار۔ اس کا شکار درمیانے طبقات ہوئے جن کی مقررہ آمدن پر بے رحمی سے ہاتھ ڈالا گیا اور محنت کش طبقہ ہوا جس کی اجرتوں کو اس قدر کم کردیا گیا کہ بسراوقات مشکل ہوگئی۔ سماجی ڈھانچے کی بنیادوں میں دراڑ پڑ گئی؛ بورژوا جمہوریت پر اعتماد، جو تب پہلے سے کہیں زیادہ مضبوط تھا، ڈگمگا گیا؛ ورسیلز معاہدے کے خلاف نفرت امنڈ آئی۔

حل کے لیے لوگ کمیونزم کی طرف آئے۔ زوال پذیری کے بعد اگر کمیونسٹ پارٹی 37 لاکھ ووٹ لے سکتی ہے اور اپنی Reichstag (جرمن پارلیمنٹ) کی نمائندگی بڑھا سکتی ہے تو 1923ء میں واضح اشارے تھے کہ وہ عوام کی اکثریت کی نمائندگی کرتی تھی۔ لیکن اس کے عمل کی حد صرف یہ تھی کہ ’سرخ‘ سیکسونی کے سوشل ڈیموکریٹس سے مل کر وزارت قائم کرے، ایسی وزارت جو اپنے قیام کے مختصر وقت میں ایک بھی ایسا انقلابی قدم اٹھانے میں ناکام رہی جو سیکسونی کے بادشاہ سے اختلاف میں ہو۔ بالآخرایک موقع پر پارٹی کی قیادت نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے بغاوت کی تاریخ طے کی۔ لیکن برانڈلر نے جلدی سے حساب کتاب کرکے یہ ظاہر کیا کہ بورژوازی کے پاس بہتر فوجی طاقت ہے اور مرکزی کمیٹی نے اپنا فیصلہ واپس لے لیا۔ ایمرجنسی پاور ایکٹ (Belagerungszustand) کے تحت عمل کرتے ہوئے وان سیکٹ کے ریخسویہر نے موقع سے فائدہ اٹھایا، ’سرخ‘ سیکسون حکومت کو نکالا اور کمیونسٹوں کو ممنوع قرار دے دیا۔ برانڈلر، تھلہیمر اور دیگر پارٹی عہدیدار ماسکو بھاگ گئے، ڈیویز پلان کے ساتھ امریکی سرمایہ داری منظرِعام پر آئی اور صورتِ حال کو پھر مستحکم کرلیا گیا۔

پارٹی کی طرف سے بِلامزاحمت ہتھیار ڈالنے کے آٹھ ماہ بعد جائزے کے لیے کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پانچویں کانگرس منعقد ہوئی۔ بدقسمتی سے دلائل لینن کی تنقیدی روح سے کم اور والٹیئر کے ڈاکٹر بین گلاس کی خوش امیدی سے زیادہ مماثل تھے۔ ’پارلیمانی سیکسونی کامیڈی‘ کی سخت مذمت کی گئی۔ ’بائیں بازو‘ کے سوشل ڈیموکریٹس کے ساتھ دوبارہ اتحاد میں شامل نہ ہونے کے لیے بہت آواز اٹھائی۔ ’رفتار‘ (tempo) کا درست اندازہ نہ کرنے پر خاصی بات ہوئی، دائیں بازو کے خطرے کو رد کردیا گیا، اور ’بالشویکائزیشن‘کے حق میں بہت ہاہو ہوئی۔ سب سے بڑھ کر، کانگریس برانڈلر پر ذمہ داری ڈالنے اور معصومیت کی دعوے دار ماسکو ایگزیکٹو کو بری الذمہ قرار دینے کے لیے بے تاب تھی۔ کانگرس جس بات کو سمجھنے میں ناکام رہی ۔۔۔ جو اس مسئلے کی بنیاد تھی۔۔۔ جیسا کہ ٹراٹسکی نے کہاتھا’آج کے عہد کے میں انقلابی صورتِ حال کو چند دنوں میں کئی سالوں کے لیے کھویا جاسکتا ہے۔‘

اپنے سارے سیاسی کیریئر میں ٹراٹسکی نے روسی پرولتاریہ کے نصب العین کو یورپی انقلاب کے امکانات سے جوڑا۔ بہت پہلے، 1905ء میں وہ اس نتیجے پر پہنچ چکا تھا کہ انقلاب روس جیسے پسماندہ ملک میں سرمایہ دارانہ لحاظ سے آگے ممالک سے پہلے پرولتاریہ کو اقتدار پر قبضہ کرنے کے حالات پیدا کرسکتا ہے۔ اس کے مطابق فتح مند پرولتاریہ بورژوا جمہوریت کے پروگرام پر اکتفا نہیں کرے گا؛ زرعی مسئلے کو حل کرنے کی کوشش سے سرمایہ دارانہ اور جاگیردارانہ ملکیت سے تصادم ہوگا جو سوشلسٹ پروگرام کی طرف لے جائے گا۔ کسی دوسرے سے بڑھ کر، ٹراٹسکی نے موجود واحد آمریت مضبوط کرنے کے لیے فوری اور عملی داخلی اقدامات کی ضرورت کو پہچانا۔ اس کی تحریر ’نیا راستہ‘ (New Course) سوویت یونین میں 1923ء کے معاشی بحران میں ہر ممکن حد تک مزدور جمہوریت کی بنیاد پر معاشی منصوبہ بندی کی پُرزور استدعا تھی۔ لیکن لینن کی طرح ٹراٹسکی نے یہ جان لیا کہ آخری تجزیے میں سوویت یونین میں سوشلزم کی فتح کی یقین دہانی یورپی انقلاب ہے۔ پیداواری قوتیں ملکی سرحدوں سے باہر جاچکی ہیں اور چاہے ایک مزدور ریاست کی کامیابیاں کتنی ہی زیادہ کیوں نہ ہوں ’ایک ملک میں سوشلزم‘ ایک پیٹی بورژوا خام خیالی تھی۔ بیرونِ ملک انقلاب کی ناکامیاں بالآخر سوویت یونین کے گرد سرمایہ دارانہ گھیرے کی صورت میں اسے خطرے سے دوچار کرے گا۔ تنزلی کا شکار ہونے والے سابق انقلابی لیڈرشپ کی طرح ’تجربہ کار بالشویک محافظ‘منفی سماجی قوتوں کے اثر سے مبرا نہیں رہے۔ انقلاب کے بچاؤ کے لیے ضروری تھا کہ اس کی سرحدیں پھیلائی جائیں۔

پس عملاً اس کے لیے کمیونسٹ پارٹیوں کی بڑھوتری کی ضرورت تھی جن کی جڑیں عوام میں ہوں اور وہ اتنی مضبوط ہوں کہ کسی انقلابی بحران کا فائدہ اٹھا کرسیاسی اقتدار پر قبضہ کرلیں۔ جنگ کے بعد اگر انقلابی لہر نے بورژوا ریاست کو نہیں گھیرا تو اس کی وجہ ایسی کمیونسٹ پارٹیوں کی غیرموجودگی تھی جو عوامی تحریک کی رہنمائی رجعت پسند سوشل ڈیموکریسی سے چھین لے۔ لیڈر شپ کے کردار پر ٹراٹسکی کا زور سازش پسندبلانکی ازم سے کس قدر مختلف ہے اس کا اندازہ تیسری کانگرس میں putschist (اچانک اٹھنے والی شورش کے عنصر )عناصر کو لینن کے ساتھ مل کر شکست دینے میں فیصلہ کن کردار سے بخوبی ہوتا ہے۔ 1921ء میں جرمن کمیونسٹ پارٹی کے رہنماؤں نے اپنے ’’نظریۂ جارحیت‘‘(تھیوری آف اوفینسوو) پر عمل کرتے ہوئے ایسے وقت میں مسلح بغاوت کی ابتدا کی جب پارٹی کو مطلوبہ حمایت حاصل نہیں تھی اور انقلابی لہر اُتر چکی تھی۔ پارٹی کو اقتدار پر قبضے کی پوزیشن میں لانے کے لیے ٹراٹسکی نے زور دیا کہ ان کی روزمرہ کی جدوجہد میں حقیقت پسندانہ اپروچ کے ذریعے نفوذ کیا جائے، اور متحدہ محاذ کی پالیسی کے ذریعے ایسا کیا جائے۔ لیکن 1923ء میں مسئلہ بالکل مختلف تھا۔ اس وقت سرمایہ دارانہ انتشار اور ایک انقلابی صورتِ حال تھی، ایک کمیونسٹ ’ماس‘ پارٹی اس وقت مفلوج رہی۔ انقلابی بحران جتنا قریب ہوگاانقلابی جنرل سٹاف میں بحران اتنا واضح ہوگا۔دایاں بازو اپنی غیریقینی کا جواز تراشتے طلوع ہو گا اور کسی بھی انقلابی صورتِ حال سے انکار پر غروب ہوگا۔ یہ زور دے گا کہ ’موقع ہمارے ہاتھ ہے‘ ، حالات بگڑیں گے اور آخری فتح کے امکانات کہیں زیادہ روشن ہوں گے۔

پانچویں کانگریس کا کام انقلابی بحران کے اس پہلو پر روشنی ڈالنا ہونا چاہیے تھا۔ لیکن کمنٹرن کی بدنصیبی کہ کانگریس کی لیڈرشپ کا کردار ایسا تھا کہ جرمنوں کے بارے فیصلہ کرنے کی صلاحیت مشکوک ہوگئی۔ سامراج کا عہد مارکسی لیڈرشپ سے دو لازمی صلاحیتوں کا مطالبہ کرتا ہے؛ پرولتاری انقلاب کی اہمیت کو سمجھنا اور انقلابی بحران کے فیصلہ کن موقع کو جانچتے ہوئے احتجاج کو بغاوت میں بدلنا۔ 1917ء میں لینن کی بیرونِ ملک سے واپسی تک ’تجربہ کار‘ بالشویک رہنماؤں میں سے کسی ایک نے بھی اقتدار پر قبضے یا سوشلسٹ انقلاب پر غور نہیں کیا تھا۔ درحقیقت ان کا کردار بائیں بازو کے سوشل ڈیموکریٹس سے مختلف نہیں تھا۔مارچ1917ء میں کامنیو و اور سٹالن کی زیرِادارت شائع ہونے والے ’پراودا‘ میں لکھا گیا ’بلاشبہ ہمارے درمیان سرمایہ داری کے خاتمے کا کوئی سوال نہیں بلکہ صرف آٹوکریسی اور جاگیرداری کے خاتمے کا ہے۔‘ اگر روس کو ابھی اپنا جمہوری انقلاب مکمل کرنا تھاتو پرولتاریہ کی آمریت کی بجائے ’پرانے بالشو یک‘نعرے جمہوری آمریت تک محدود رہنا پڑتا۔ عبوری حکومت کو مشروط حمایت دینی پڑتی اور ’جب تک‘ وہ[علاقوں کے] جبری الحاق سے دست بردارہونے اور امن لانے کی شراط ماننے پر راضی رہتی، حمایت جاری رہتی۔ صرف لینن کی سیسہ پلائی لیڈرشپ اور پرانے بالشوویک فارمولے پر تند تنقید سے پارٹی نے اپنی سمت ازسرِنو متعین کی۔ بورژوا رجیم سے مکمل قطع تعلق کے مطالبے کے ساتھ اپریل تھیسس نے عوام کو بغاوت اور سوویت اقتدار کی راہ پر ڈالا۔

اگر 1917ء میں پارٹی کے نئے نظریاتی رخ کا تعین لینن کی عظیم کامیابی تھی تو 1924ء کے بعد اس سے علیحدگی سٹالن کی دین کہی جاسکتی ہے۔ ’اکتوبر کے اسباق‘ تحریر کرتے وقت ٹراٹسکی پوری طرح اس بات سے آگاہ نہیں تھا کی بیوروکریسی کے لیے سٹالن محور بن چکا ہے۔ تاہم لینن کی وصیت میں واضح طور پر خبردار کیا گیا تھا ۔ بلاشبہ اس نے نہیں سوچا ہوگا کہ سٹالن پر ذرا سی تنقید زار کے روس میں غداری پرہونے والی سزاؤں سے بھی بڑی سزا بن جائے گی۔ یا یہ کہ کامنیوو اور زینوویوو جو بالترتیب ماسکو اور لینن گراڈ سوویت کے صدر تھے، سٹالن کے فائرنگ سکواڈ کے ہاتھوں موت کے منہ میں چلے جائیں گے۔1935ء میں جاکر ٹراٹسکی نے پہچاناکہ تھرمیڈور (Thermidor) دس سال پہلے ہی سوویت یونین پر قبضہ کرچکاہے۔ اجرتوں، مراعات اور عہدوں میں بڑھتے ہوئے امتیازنے ایک ایسی ارسٹوکریسی پیدا کی جو ظاہراً قوم پرست تھی اور سوویت جمہوریت سے اس کا کوئی میل نہیں تھا۔ نہ صرف لیفٹ اپوزیشن، جو مراعات سے محروم محنت کش طبقے کے سوشلسٹ مفادات کا اظہار کررہی تھی، کو کچل دیا گیا بلکہ ’تجربہ کار رہنماؤں‘ کے انٹرنیشنلسٹ (لینن گراڈ) ونگ کو بھی نگل لیا گیا۔ پولٹ بیورو، مرکزی کمیٹی اور پارٹی کانگریس کی اتھارٹی کو باری باری قادرِ مطلق جنرل سیکریٹری کھاگیا۔

اس رجعت کی بنیادی وجہ عالمی پرولتاریہ کی کئی شکستوں میں پوشیدہ ہے؛ بہرحال یہ سٹالنسٹ کمنٹرن تھی جس نے ان شکستوں میں سب سے زیادہ حصہ ڈالا۔ الٹرا لیفٹ ازم کے شدید وقفوں کے باوجود سٹالن کی عمومی لائن کا اظہار 1923ء کے جرمن واقعات پر موقع پرستانہ رویے سے ہوتا ہے۔ اگرچہ سٹالن نے برانڈلر اور تھہلیمز پر شور مچایالیکن اس نے پوشیدہ ویسی ہی پوزیشن اختیارکی۔ زینوویوو اور بخارن کو لکھے خط میں ، جسے 1927ء میں اول الذکر منظرِعام پر لایا، سٹالن نے لکھا: ۔۔۔ اگر جرمنی میں فرض کریں اقتدار کا خاتمہ ہوتاہے اور یہ کمیونسٹوں کے ہاتھ لگتا ہے تو وہ دھڑام سے جاگریں گے۔ اگر ’بہترین‘ ہوا تو ایسا ہو گا۔ اگر بدترین ہوا تو انہیں کچل کر ٹکڑے ٹکڑے کرکے پھینک دیا جائے گا۔ اصل معاملہ یہ نہیں کہ برانڈلر’عوام کو تعلیم‘ دینا چاہتا ہے بلکہ بورژوازی اور اسکے ساتھ جمع دائیں بازو کی سوشل ڈیموکریسی اسباق کو۔۔۔ مظاہروں کو۔۔۔ ایک عمومی جنگ میں بدل دیں گے (اس لمحے تمام مواقع ان کی جانب ہیں) اور انہیں ختم کردیں گے۔ بلاشبہ فسطائی (فاشسٹ) سوئے ہوئے نہیں لیکن یہ ہمارے مفاد میں ہے کہ وہ پہلے حملہ کریں؛ وہ سارے محنت کش طبقے کو کمیونسٹوں کے پیچھے کھڑا کردیں گے(جرمنی بلغاریہ نہیں) علاوہ ازیں تمام تر معلومات کے مطابق جرمنی میں فسطائی کمزور ہیں۔ میری رائے میں جرمنوں کولازماً روکنا چاہیے، تحریک نہیں دینی چاہیے۔

’اکتوبر کے اسباق‘ کا یہ کھلا اینٹی تھیسس، یہ مکمل موقع پرستانہ بیان تقریباً سارا غلط ہے۔ واقعات کی روشنی میں ’جرمنی بلغاریہ نہیں‘پرلاشعوری طور پر یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ یہ بے ہودگی تھی۔ فسطائی پہلے حملہ کریں کیونکہ اس سے مزدور کمیونسٹوں کے گرد اکٹھے ہوجائیں گے، لیکن فسطائی کمزور ہیں، پس ۔۔۔ جرمنوں کو روکا جائے۔ چاہے یہ جرمنی ہو فرانس ہو یا سپین ۔۔۔1923ء کے بعد انقلابی صورتِ حال میں۔۔۔ سٹالن ازم کی سٹرٹیجک دانش یہی رہی کہ عوام کو روکا جائے۔ یہ دلیل ’تجربہ کار بالشویکوں‘کی 1917ء میں مخالفت سے مماثلت رکھتی ہے۔ نظریہ مسلسل انقلاب (تھیوری آف پرماننٹ ریولوشن) کے خلاف جدوجہد میں بیوروکریسی نظریاتی طور پر 1905ء کے بالشویک ازم کے بوسیدہ فارمولے کی طرف لوٹ گئی، یعنی ’پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت‘۔ کسی ایک یا دوسری شکل میں یہ 1925ء تا 1927ء کے چینی انقلاب میں ’چار طبقوں کے اتحاد‘ کے نظریے کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ مشرق کی مزدوروں اور کسانوں کی جماعتیں (Workers and Peasants' Parties of the East) اور اب پیپلز فرنٹ۔

مزدوروں اور کسانوں کے اتحاد کے لیے سٹالنسٹوں کی کوشش، جس میں سوشلزم نہیں بلکہ آٹوکریسی اور جاگیرداری کی تحلیل مقصد تھا، تباہ کن ثابت ہوئی۔ چینی انقلاب کی طرح جہاں کومن تانگ سے اتحاد کی خاطر کمنٹرن نے زرعی بغاوتوں اور مزدوروں کی ہڑتالوں پر روک لگائی۔ ٹراٹسکایٹ مخالف ’نظریہ دان‘ یہ سادہ حقیقت نہیں سمجھ سکتے یا نہیں سمجھیں گے کہ پرانا ریاستی ڈھانچہ کچلا گیا اور زرعی انقلاب کی تکمیل کرنسکی نے نہیں بلکہ پرولتاریہ رجیم نے کی۔ ’جمہوری آمریت‘ کا فارمولانوآبادیاتی مشرق پر بظاہر ’جاگیرداری کی باقیات کے خاتمے‘ کے لیے لاگو کیا گیا تھا۔ سرمایہ دارانہ مغرب جہاں سٹالن ازم ’بورژوا جمہوریت کے شائبے‘ تک کو بچانے کے لیے وقف تھا، اس نے پیپلز فرنٹ جیسا اکسیرِعظیم بنایا۔ اگردنیا میں کوئی ملک ایسا تھا جس میں پیپلز فرنٹ کی توجیح پیش کی جاسکتی تھی تو وہ کسانوں کی اکثریت والا روس تھا جو ابھی جمہوری انقلاب کے مرحلے سے نہیں گزرا تھا۔ پیپلز فرنٹ کی ایک شکل دراصل وہاں موجود تھی ۔۔۔ کیڈٹس (لبرلز)، سوشل انقلابی اور مینشویکس، جنہیں سٹالن اور کامنیوو کی خاموش حمایت حاصل تھی۔ جبکہ لینن کی ساری حکمت عملی لبرل بورژوازی سے اتحادکی مخالفت اور پیپلز فرنٹ کو اکھاڑنے کی جانب تھی۔ لینن ازم کبھی عملی مقاصد کے لیے وقتی معاہدوں اور مصالحتوں سے نہیں شرمایا، مگر ایک بالکل مختلف مشترکہ(کامن) پالیسی اور پروگرام کے ساتھ۔ طبقاتی جدوجہد میں پرولتاریہ کا آزادانہ کرداراور فوقیت لازمی تھی۔ لینن کے مارکس ازم میں بورژوازی کی آمریت اور پرولتاریہ کی آمریت کے درمیان کوئی عبوری رجیم نہیں تھا۔ اس کے مطابق ریاستی اقتدار کسی بھی انقلاب میں بنیادی سوال تھا۔ ایک ’مشترکہ‘ قسم کی ریاست جس میں سوویتیں پرولتاریہ کی نمائندہ ہوں اور آئین ساز اسمبلی بورژوازی کے اقتدار کی ، لینن کے نزدیک مارکس ازم اور سوشل ازم کا رَدتھا۔

چینی انقلاب میں ’چارطبقات کے اتحاد‘ کی طرح پیپلز فرنٹ کا اس بنیادپر دفاع کیا گیا کہ یہ پرولتاریہ اور درمیانے طبقات یا کسانوں سے اتحاد کی نمائندگی کرتا ہے۔ لیکن دراصل پیپلز فرنٹ کو بورژوازی محض اس لیے برداشت کرتی ہے کیونکہ یہ موجود سرمایہ دارانہ جمہوریت سے پرولتاریہ کا اتحاد کرتا ہے۔ پیپلز فرنٹ بورژوا امن وامان کے ساتھ ہے۔یہ زمینوں پر قبضہ کرنے والے کسانوں اور مزدوروں کے فیکٹریوں پرقبضے کے خلاف پولیس کو کارروائی کرنے کے احکامات صادرکرتا ہے؛ یہ فوجی بجٹ کے حق میں ووٹ دیتا ہے۔ درمیانے طبقات سے اتحاد پیٹی بورژوازی کی جماعتوں کے ذریعے نہیں ہوا جن کا انحصار مالیاتی سرمایے پر تھا جیسے Azanas، Daladiers اور Herriots۔ سرمایہ دارانہ بحران کے شدید تھپیڑوں کے سبب سابق درمیانے طبقات کا اصلاح پسندی پر ایمان وسیع ہوتا ہے اور انتہاپسندانہ حل کی طرف رخ کر لیتا ہے۔ اگر پرولتاریہ ایک انقلابی پروگرام پیش کرتا ہے اور اپنی لیڈر شپ کی صلاحیت کا مظاہرہ کرتا ہے تو وہ درمیانے طبقات کو اپنی طرف کرے گا، اگر پرولتاریہ ناکام ہوتا ہے تو فاشزم کا فتنہ پیدا ہوگا۔ فاشزم کے خلاف جدوجہد بدعنوانی اور دیوالیہ بورژوا جمہوری رجیم کے دفاع کے ذریعے حاصل نہیں کی جاسکتی۔ انقلابی حکمتِ عملی کا سنگِ میل آج سپین ہے۔ یہ وہ ملک ہے جہاں روسی انقلاب کے بنیادی حالات میں حیران کن مماثلت ہے۔ ۔۔ ایک تاخیر زدہ بورژوازی جو علاقے کے جاگیردارانہ استحصال سے جڑی ہے، جبر کا شکار کسان جو بے ترتیب ہونے کے سبب قومی رہنمائی نہیں کرسکتا، بے مثال جرأت والا اور قربانی دینے والا پرولتاریہ ہے۔ Azanas اور Companys نے تھوڑا سا عندیہ بھی نہیں دیا کہ وہ کرنسکی سے بڑھ کر انقلاب کا جمہوری مرحلہ طے کرسکتے ہیں۔ لیکن سٹالنسٹ بیوروکریسی نے سپین کو ’جمہوریت بمقابلہ فسطائیت بنا دیا اور La Pasionarias اور دوسرے اپنی استطاعت کے مطابق پرولتاری انقلاب کا گلہ گھونٹنے کی کوشش کر رہے ہیں۔

شاید کچھ لوگ سوچیں کہ ’اکتوبر کے اسباق‘ یورپ کے لیے ہی بہت اہم ہے لیکن امریکی محنت کشوں کے مسائل کے لیے زیادہ اہم نہیں۔ اس سے بڑی غلطی نہیں ہو سکتی۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کے ڈھانچے میں بنیادی تبدیلیاں پہلے ہی ہو چکی ہیں۔ 1930ء کی دہائی کا بحران امریکی سرمایہ داری کو انحطاط کے دہانے پر لے آیا۔ حکمران طبقات کے حوصلے بہت پست ہو چکے تھے۔ اس کا نتیجہ سوشلسٹ تعمیرِنو کی بجائے ’نیوڈیل‘ کی صورت ظاہر ہوا، تاہم اس کی وجہ یہ تھی کہ پرولتاریہ کی کوئی پارٹی منظر پر نہیں تھی جو عوام میں اس قدر جڑیں رکھتی ہو کہ انقلابی لیڈرشپ فراہم کرسکتی۔ ’نیوڈیل‘ کی حدود کو مدِنظر رکھتے ہوئے بحران کی دوبارہ آمد ضروری ہے۔ جب تک امریکی محنت کش طبقے کا ہراول دستہ اسے واضح طور پر نہیں دیکھتا اور اسی مناسبت سے اقدامات نہیں کرتا تو تاریخ اس سے ویسا ہی سلوک کرے گی جیسا جرمن اور آسٹرین پرولتاریہ سے کیا۔ ہمارا عہد مرکوز طبقاتی جدوجہد کا ہے؛ ایک کے بعد دوسرا ملک سماجی تغیرِ عظیم کی گردش میں ہے۔ جرمن انقلاب کے بعد1919ء میں ہنگری کا انقلاب آیا۔ اٹلی کے مزدوروں نے دھات کارخانوں پر قبضے کیے۔ 1923ء کا جرمن بحران آیا تودوسری طرف 1926ء میں برطانیہ میں عام ہڑتال ہوئی۔ 1927ء میں ویانا بھڑک اٹھا۔ پھر 1925ء تا 1927ء کا چینی انقلاب۔ 1933ء میں جرمنی میں ہونے والا حادثۂ عظیم؛ آسٹریا میں مورچہ بندی؛ 1934ء میں فرانسیسی عام ہڑتال اور 1936ء میں فیکٹریوں پر قبضے۔ سپین خانہ جنگی کی جکڑ میں۔ کل یہ ریاست ہائے متحدہ امریکہ ہوسکتا ہے۔ شکست سے بچنے کے لیے پرولتاریہ کو تیاری کرنا ہوگی۔ فیبیئن اور لیبرائٹ، جو سوشلزم کو 51 فیصد ووٹ لینے کے لیے اچھل کود کا کھیل سمجھتے ہیں، یہ نہیں سمجھ سکتے۔۔۔ اقتدار پر قبضہ ایک نئے بِل کی حمایت سے مختلف ہوتاہے۔ آج کل سیاسی سستی کی سزا دھیرے دھیرے اور ہولناک ہے۔ برطانوی سامراج کی طرح پرولتاریہ تُکے سے کامیاب نہیں ہو سکتا۔ بالشویک تنظیم کسی کھڑی کی طرزکا میکانزم نہیں ہے جو کمنٹرن کے پارٹی کی تعمیر پر 50 پیراگراف کے بالکل ہوبہو ہو۔ اس میں تجربہ، پہل قدمی، ذاتی قربانی شامل ہے۔یہ منظم مزدور بالشویکوں کا دباؤ تھا جس سے مرکزی کمیٹی میں لینن کی فتح ہوئی۔ نتائج سے آنکھیں بند نہیں کی جاسکتیں۔ ایک انقلابی جماعت کے بغیر جو مارکسی طریقہ کار میں تربیت یافتہ ہو، خود رو(سپان ٹینیئس) ماس تحریکیں اندھی رہتی ہیں۔

اقتدار کے موضوع کو حال ہی میں مسٹر جان سٹریچے کے مکتب نے اٹھایا ہے۔لیکن ان کی سوچ ’اکتوبر کے اسباق‘ سے حیران کن طور پر مختلف ہے۔ ٹراٹسکی سمجھتا ہے کہ پرولتاریہ کو نہ صرف سوشل ڈیموکریٹ اصلاح پسندی سے بلکہ اسی سٹالنسٹ کمنٹرن کی تباہ کن پالیسیوں سے بھی خبردار ہونا چاہیے۔ ’کمنگ سٹرگل فار پاور‘ میں مسٹر سٹریچے نے سوشل ڈیموکریسی پر شدید تنقید کی ہے، لیکن چالاکی سے یہاں تک کہ کمال کرتے ہوئے ’کمیونزم کی اصلیت‘ پر ایک باب لکھا ہے جس میں کمنٹرن کے اصل ریکارڈ پر کوئی حوالہ نہیں۔ یہاں وہ اقتدار کے مسئلے پر کسی دوسرے ماہر کی طرح ہیں،ان کا ہم وطن مسٹر پالے دت، جو ہر ماہ لیبر پارٹی اور دوسری انٹرنیشنل کے جرائم پر ان کی کھال کھینچتا ہے، اپنے قارئین کو یہ تاثر دیتا ہے کہ صرف کمیونسٹ پارٹی ہی برتر، سچی اور خوب صورت ہے۔ ٹراٹسکی نے ایسی سیاسی تنگ خیالی کو انقلابی نصب العین کے لیے قطعاً نقصان دہ کہہ کر ٹھوکر ماری۔ اسی وجہ سے وہ آج پھر اقلیت میں ہے اور جب یہ سطور لکھی جارہی تھیں اسے میکسیکو میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا گیاہے۔ یہاں ایسے بھی ہیں جوسمجھتے ہیں کہ چونکہ سٹالن کے پاس جبر کرنے کی استطاعت ہے اس لئے ٹراٹسکی غلط ہوگا۔ ان کے لیے لینن نے ایک مرتبہ جواب دیا تھا: ’’ہم ڈھونگیئے نہیں ہیں ۔۔۔ہماری بنیاد لازماً عوامی شعور پر ہونی چاہیے۔ اس لیے اگر ہمیں اقلیت بننے سے نہیں ڈرنا چاہیے۔ ہم عوام کو فریب سے بچانے کے لیے تنقید کا کام جاری رکھیں گے۔۔۔ ہماری لائن درست ثابت ہو گی ۔۔۔ تمام مظلوم ہماری طرف آئیں گے۔ ان کے پاس کوئی دوسرا راستہ نہیں۔۔۔‘‘

ماورس سپیکٹر
نیویارک، 11جنوری1937ء

1 - باب

ہمیں لازماً اکتوبر انقلاب کا مطالعہ کرنا چاہیے(1)

ہم اکتوبر انقلاب میں کامیاب ہوئے لیکن اکتوبر انقلاب ہمارے پریس میں زیادہ کامیاب نہ ہوا۔ ابھی تک کوئی ایک بھی تحریر نہیں جو ہمیں اکتوبر میں ہونے والے عظیم تغیر کی جامع تصویر پیش کرے یا جو گہرائی سے سیاسی اور تنظیمی معاملات پر روشنی ڈال سکے۔ مزید برآں، دستیاب بلاواسطہ مواد۔۔۔ بشمول اہم ترین ڈاکومنٹس۔۔۔ جو انقلاب کی تیاری کے مختلف پہلوؤں یا خود انقلاب سے براہِ راست تعلق رکھتے ہیں ابھی تک شائع نہیں ہوئے۔ اکتوبر سے قبل انقلاب اور پارٹی کی تاریخ پر بہت سے ڈاکومنٹس اور اہم مواد جاری کر دیا گیا ہے; ہم نے اکتوبر انقلاب کے بعد دور کا بہت سا مواد اور ڈاکومنٹس بھی جاری کر دیے ہیں، لیکن بذات خود اکتوبر انقلاب نے بہت کم توجہ حاصل کی ہے۔ انقلاب کی کامیابی کے بعد شاید ہم نے یہ نتیجہ اخذ کر لیا ہے کہ اسے پھر کبھی دہرایا نہیں جا سکتا۔ یہ ایسا ہی ہے جیسے ہم یہ سوچ لیں کہ مستقبل کے تعمیری کام کے لیے اکتوبر انقلاب کا مطالعہ کوئی فوری اور براہ راست فائدہ نہیں دے گا، یعنی اس وقت کا مطالعہ جب اسکی براہ راست تیاری کے حقیقی حالات موجود تھے، جب اس انقلاب کی تکمیل ہوئی، اور جب پہلے چند ہفتوں میں اسے مضبوط کرنے کا کام ہوا۔

البتہ یہ سوچ۔۔۔ جو شاید شعوری نہ ہو۔۔۔ بالکل غلط ہے، مزید برآں تنگ نظر اور قوم پرستانہ ہے۔ ہم خود شاید اکتوبر انقلاب کے تجربے کو کبھی نہ دہرا سکیں لیکن اس سے یہ نتیجہ اخذ نہیں ہوتا کہ ہم اس تجربے سے کچھ نہیں سیکھ سکتے۔ ہم انٹرنیشنل کا ایک حصہ ہیں اور دیگر تمام ممالک کے مزدوروں کو اپنا ’’اکتوبر‘‘ لانے کے مسئلے کا ابھی حل نکالنا ہے۔ گزشتہ سال ہمیں واضح ثبوت مل گیا کہ مغرب کی سب سے زیادہ ترقی یافتہ کمیونسٹ پارٹیاں اکتوبر انقلاب کے تجربے کو نہ صرف جذب کرنے میں ناکام ہوئی ہیں بلکہ اصل حقائق سے بالکل ناواقف ہیں۔

یقیناً یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ پرانے اختلافات بھڑکنے کا خطرہ مول لیے بغیر اکتوبر کا مطالعہ یا اکتوبر سے متعلق ڈاکومنٹس کی اشاعت ناممکن ہے۔ لیکن اس سوال پر ایسی سوچ گھٹیا ہو گی۔ 1917ء کے اختلافات دراصل بہت گہرے تھے، اور یہ اتفاقیہ بالکل نہیں تھے۔ البتہ اس سے حقیر کام کوئی نہیں ہو گا کہ کئی سالوں بعد انہیں ان لوگوں کے خلاف استعمال کیا جائے جو اس وقت غلطی پر تھے۔ تاہم بین الاقوامی اہمیت کے حامل اکتوبر انقلاب پر چھوٹے سے ذاتی معاملات کی وجہ سے خاموش رہنے کو ہرگز تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔

گزشتہ برس* ہمیں بلغاریہ میں دو فاش شکستیں ہوئیں(2) اول، پارٹی نے تقدیر پر بھروسے اور نظریاتی مسائل کی وجہ سے انقلابی سرگرمی کے انتہائی غیر معمولی موقع کو ضائع کر دیا (یہ موقع سانکوف کے جون میں ہونے والے کودیتا کے بعد کسانوں کی سرکشی تھا)۔ اپنی غلطی کو درست کرنے کی کوشش میں پارٹی ستمبر کی بغاوت میں لازمی سیاسی اور تنظیمی تیاری کے بغیر کود پڑی۔ بلغاریہ کے انقلاب کو جرمن انقلاب کی تمہید ہونا چاہیے تھا۔ بدقسمتی سے بلغاریہ میں بری تمہید کے بعد جرمنی میں اس سے بھی برا معاملہ ہوا۔ گزشتہ سال کے اواخر میں ہم نے جرمنی میں واضح طور پر دیکھا کہ کس طرح بین الاقوامی اہمیت کی حامل مثالی انقلابی صورت حال رائیگاں چلی جاتی ہے(3)۔ ایک بار پھر نہ تو بلغاریہ اور نہ ہی جرمنی کے گزشتہ سال کے تجربات کی مناسب یا قابلِ تسلی جانچ کی گئی۔ راقم نے گزشتہ سال جرمنی میں ہونے والے واقعات کی ایک عمومی آؤٹ لائن بنائی تھی۔ اس کے بعد جو ظاہر ہوا وہ اس آؤٹ لائن کے مطابق تھا۔ کسی دوسرے نے کوئی اور تشریح پیش کرنے کی کوشش نہیں کی۔ لیکن ہمیں ایک آؤٹ لائن سے زیادہ کی ضرورت ہے۔ ہمیں پورے ڈیٹا کے ساتھ جامع توجیہہ کی ضرورت ہے جو جرمنی میں ہونے والے گزشتہ واقعات کا احاطہ کرے۔ ہمیں ایسی توجیہہ کی ضرورت ہے جو اس بے رحم تاریخی شکست کی ٹھوس وجوہات بیان کرے۔ تاہم بلغاریہ اور جرمنی کے واقعات کا تجزیہ کرنا اس وقت مشکل ہے کیونکہ ہم نے ابھی تک اکتوبر انقلاب کی سیاست اور حکمت عملی پر تفصیلی توجیہہ پیش نہیں کی۔ ہم نے اپنے اوپر یہ واضح نہیں کیا کہ ہم نے کیا کچھ حاصل کیا اور اسے کیسے حاصل کیا۔ اکتوبر کے بعد، انقلاب کی چمک دمک میں، شاید ایسا لگا کہ جیسے یورپ اپنی راہ خود تلاش کر لے گا اور مزید برآں اتنی جلد کہ اکتوبر کے اسباق کے نظریاتی موازنے کے لیے وقت ہی نہیں ملے گا۔

لیکن واقعات نے یہ ثابت کیا کہ پرولتاری انقلاب کی رہنمائی کے قابل جماعت کی موجودگی کے بغیر انقلاب ناممکن ہے۔ پرولتاریہ اچانک ابھار کے ذریعے اقتدار پر قابض نہیں ہو سکتا۔ یہاں تک کہ انتہائی صنعت یافتہ اور مہذب ملک جرمنی میں نومبر 1918ء میں یکایک پیدا ہونے والے ابھارنے اقتدار بورژوازی کے ہاتھوں میں دے دیا۔ ملکیت کا حامل ایک طبقہ ملکیت رکھنے والے کسی دوسرے طبقے سے اقتدار چھین کر حکومت کر سکتا ہے کیونکہ وہ اپنی دولت، ثقافتی سطح اور ریاست کے پرانے ڈھانچے سے، بے پناہ تعلقات کو بنیاد بنانے کے قابل ہوتا ہے۔ لیکن پرولتاریہ کے لیے ایسا متبادل صرف جماعت ہوتی ہے۔

1921ء کے وسط میں ہی کمیونسٹ پارٹیوں کے قیام کا کام بھرپور انداز سے (’’عوام کو جیتو‘‘، ’’متحدہ محاد‘‘ وغیرہ جیسے نعروں کے تحت) شروع ہوا(4)۔ اکتوبر کے مسائل پیچھے چلے گئے اور اسی کے ساتھ اکتوبر کا مطالعہ پسِ منظر میں چلا گیا۔ گزشتہ سال پھر ہمارا واسطہ پرولتاری انقلاب سے پڑا۔ یہ اس وقت بہت ضروری ہے کہ ہم تمام دستاویزات اکٹھی کریں، تمام موجود مواد کو شائع کریں اور خود اس کا مطالعہ کریں!

بلاشبہ ہم جانتے ہیں کہ ہر قوم، ہر طبقہ اور یہاں تک کہ ہر پارٹی اپنے تلخ تجربات سے سیکھتی ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ دیگر ملکوں، طبقوں اور پارٹیوں کے تجربات کی کم اہمیت ہے۔ 1905ء کے تجربے سے گزرنے کے باوجود ہم کبھی اکتوبر انقلاب نہیں لا سکتے تھے اگر ہم نے عظیم فرانسیسی انقلاب، 1848ء کے انقلاب اور پیرس کمیون کا مطالعہ نہ کیا ہوتا۔ آخر ہم بھی سابقہ انقلابوں سے سیکھتے ہوئے اور اس کی تاریخی لائن کو بڑھاتے ہوئے اپنے ’’قومی‘‘ تجربے سے گزرے۔ علاوہ ازیں ردِانقلاب کا سارا دور 1905ء کے اسباق سیکھ کر اور اس سے نتائج نکال کر گزارا گیا(5

لیکن 1917ء کے کامیاب انقلاب پر ایسا کوئی کام نہیں ہوا۔۔۔ اس کام کا دسواں حصہ بھی نہیں۔ بلاشبہ ہم ری ایکشن کے دور سے نہیں گزر رہے، نہ ہی ہم جلاوطن ہیں۔ دوسری طرف ہمارے ہاتھ میں جتنی قوتیں اور ذرائع آج ہیں ان کا مقابلہ مشکل کے سالوں سے نہیں کیا جا سکتا۔ ہمیں ضرورت ہے کہ ہم انہماک سے اکتوبر انقلاب کے مطالعے کا کام کریں۔ پارٹی اور بین الاقوامی دونوں سطحوں پر۔ پوری پارٹی کے لیے یہ ضروری ہے اور خاص طور پر اس کی نوجوان نسل کے لیے کہ وہ اکتوبر انقلاب کے تجربے کا قدم بہ قدم مطالعہ کرے اور سمجھ بوجھ پیدا کرے، اس انقلاب کا جو ماضی کا اعلیٰ ترین، بے مثال اور ناقابلِ تنسیخ امتحان تھا اور جو مستقبل کے لیے روشن مثال ہے۔ گزشتہ سال جرمنی میں حاصل ہونے والا سبق نہ صرف سنجیدہ یاددہانی ہے بلکہ شدید تنبیہہ بھی ہے۔ یہ اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ اکتوبر انقلاب کا چاہے جتنا جامع علم حاصل کر لیا جائے اس سے جرمنی کے انقلاب کی کامیابی کی گارنٹی نہیں دی جا سکتی۔ لیکن اس طرح کی کثیر (ہول سیل) اور عامیانہ عقلیت پسندی ہمیں کوئی راہ نہیں سمجھائے گی۔ یقین رکھیے کہ صرف اکتوبر انقلاب کا مطالعہ دوسرے ملکوں میں انقلاب کو یقینی نہیں بنا سکتا; لیکن ایسے حالات پیدا ہو سکتے ہیں جن میں انقلاب آنے کی تمام شرائط پوری ہوئی ہوں سوائے دور اندیش اور مصمم ارادے والی اس لیڈر شپ کے جو انقلاب کے قوانین اور طریقہ کار سے آگاہ ہو۔ جرمنی میں گزشتہ سال بالکل یہی صورتِ حال تھی۔ یہی صورتِ حال دوسرے ملکوں میں پیدا ہو سکتی ہے۔ لیکن پرولتاری انقلاب کے قوانین اور طریقۂ کار کو جاننے کے لیے ابھی تک اکتوبر انقلاب سے زیادہ اہم اور جامع ذریعہ موجود نہیں۔ یورپی کمیونسٹ پارٹیوں کے وہ رہنما جو اکتوبر انقلاب کی تاریخ سے نتائج اخذ کرنے میں ناکام ہوتے ہیں وہ اس سپاہ سالار کی طرح ہیں جو نئے حالات میں جنگ کی تیاری کر رہا ہے لیکن سابقہ سامراجی جنگوں کے طریقہ کار، حکمت عملی اور تیکنیکی تجربے کا مطالعہ نہیں کرتا۔ ایسا سپاہ سالار آئندہ اپنی فوجوں کو شکست سے دوچار کرے گا۔

پرولتاری انقلاب کا بنیادی آلہ پارٹی ہے۔ ہمارے تجربے کی بنیاد پر۔۔۔ اگر ہم فروری 1917ء سے فروری 1918ء کے ایک سال کو بھی لیں۔۔۔ اور فن لینڈ، ہنگری، اٹلی، بلغاریہ اور جرمنی کے تجربے سے اخذ ہونے والے ضمنی مواد کو لیں تو اس کی بنیاد پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ انقلاب کی تیاری کے مرحلے سے اقتدار پر قبضہ کرنے کے وقت کے دوران پارٹی کے اندر بحران کا پیدا ہونا تقریباً لازم ہوتا ہے۔ عام الفاظ میں پارٹی نے جب کوئی بڑا موڑ لینا ہوتا ہے تو بحران پیدا ہوتا ہے، یا تو موڑ کے آغاز کے وقت یا اس کے نتیجے کے طور پر۔ اس کی وضاحت اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ پارٹی کی نشوونما میں ہر دور کی اپنی مخصوص خصوصیات ہوتی ہیں جس میں خاص قسم کی عادتیں اور طریقہ کار اپنانے ضروری ہوتے ہیں۔ حکمت عملی میں تبدیلی کا مطلب ہوتا ہے کہ ان عادتوں اور طریقوں کو زیادہ یا کم بدلا جائے۔ یہیں پارٹی کی اندرونی توڑ پھوڑ اور اندرونی بحران پیدا ہونے کی وجوہ پوشیدہ ہیں۔

لینن نے جولائی 1917ء میں لکھا ’’ایسا کئی بار ہوا کہ جب تاریخ نے ایک تیز موڑ لیا تو ترقی پسند جماعتیں بھی اس نئی صورت حال کے مطابق خو دکو بدلنے میں ناکام رہیں اور ان نعروں کو دہراتی رہیں جو پہلے تو درست تھے مگر اب بے معنی ہو چکے تھے۔ وہ اتنی ہی ’’تیزی‘‘ سے بے معنی ہوئے جتنی تیزی سے تاریخ نے موڑ لیا تھا۔ ]’’آن سلوگنز‘‘[ * پس یہ خطرہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ اگر موڑ بے ربط اور اچانک ہو اور پچھلے عرصے میں بہت سے جامد اور رجعت پسند عناصر پارٹی کے لیڈنگ آرگنز میں جمع ہو گئے ہوں، تو پھر پارٹی جس اہم اور نازک موقع کے لیے سالوں یا دہائیوں سے تیاری کر رہی ہے وہ اس میں رہنمائی کی صلاحیت کھو دے گی۔ یوں پارٹی بحران کا شکار ہو جائے، اور وہ لمحہ پارٹی کے سامنے گزر جائے اور نتیجہ شکست نکلے۔

ایک انقلابی جماعت پر دیگر سیاسی قوتیں اثر انداز ہوتی ہیں۔ اپنی نشوونما کے ہر دورمیں اس دباؤ سے نپٹنے اوراس کی مزاحمت کرنے کے لیے پارٹی اپنے طریقہ کار وضع کرتی ہے۔ طریقہ کار کا موڑ(tactical turn) لیتے وقت داخلی اتھل پتھل اور اختلاف کی وجہ سے پارٹی میں اس دباؤ کی مزاحمت کرنے کی سکت کم رہ جاتی ہے۔ اس سے ہمیشہ امکان پیدا ہو جاتا ہے کہ پارٹی کی داخلی گروپنگ، جو طریقہ کار کا موڑ لینے کی ضرورت کی وجہ سے پیدا ہوتی ہے، وجۂ اختلاف کے نکتے سے کہیں آگے بڑھ جائے اور مختلف طبقوں کی نمائندگی کرنے والے رجحانات کی خدمت کرنے لگے۔ اگر ہم اس بات کو زیادہ سادگی سے بیان کریں تو: وہ جماعت جو اپنے طبقے کے تاریخی کام کے ساتھ قدم سے قدم نہیں ملاتی وہ دیگر طبقوں کا بلاواسطہ آلہ بن سکتی ہے، یا اسے ایسا آلہ بننے کا خطرہ ہوتا ہے۔

ہم نے اوپر جو بیان کیا اگر وہ طریقہ کار میں ہر سنجیدہ موڑ میں سچ ہوتا ہے توحکمت عملی (strategy)میں تبدیلی پر یہ اس سے بھی زیادہ سچ ثابت ہوتا ہے۔ سیاست میں طریقہ کارسے مراد... ملٹری سائنس کی مثالیں سامنے رکھتے ہوئے... الگ تھلگ (Isolated) آپریشنز سرانجام دینے کا فن ہے۔ حکمت عملی سے ہماری مراد جیت حاصل کرنے کا فن ہے، یعنی اقتدار کا حصول۔ جنگ سے قبل ہم اس تفریق کو بطور اصول نہیں مانتے۔ دوسری انٹرنیشنل کے دور میں ہم نے خود کو صرف سوشل ڈیموکریٹک طریقہ کار تک محدود رکھا۔ ایسا حادثاتی طور پر نہیں ہوا۔ سوشل ڈیمو کریسی نے پارلیمانی طریقہ کار اپنایا، جیسے ٹریڈ یونین، میونسپل اور کوآپریٹو (وغیرہ) کے کام۔ لیکن تمام قوتوں اور وسائل کو۔۔۔ تمام فوج کو۔۔۔ استعمال میں لاتے ہوئے دشمن پر فتح حاصل کرنے کا سوال دوسری انٹرنیشنل میں دراصل نہیں اٹھایا گیا۔ یہ صرف 1905ء کا انقلاب تھا جس نے، ایک بڑے وقفے کے بعد، پرولتاری جدوجہد کا بنیادی سوال یا حکمت عملی کا سوال اٹھایا۔ اس وجہ سے روس کے سوشل ڈیمو کریٹک انقلابیوں یعنی بالشوویکوں کے لیے ایسا ہونا بہت سود مند ثابت ہوا۔ انقلابی حکمت عملی کا عظیم دور 1917ء میں شروع ہوا، پہلے روس اور پھر بقیہ یورپ کے لیے۔حکمت عملی اپنانے کا مطلب بلاشبہ یہ نہیں کہ طریقہ کار کی ضرورت نہیں۔ ٹریڈ یونین تحریک، پارلیمانی سرگرمی اور دیگر ایسے سوالات ختم نہیں ہوتے، بلکہ ان کے نئے معانی سامنے آتے ہیں جن کے مطابق وہ اقتدار کے حصول کی مجموعی(6) (Combined) جدوجہد کے تابع ہوتے ہیں۔طریقہ کار حکمت عملی کے ماتحت ہوتا ہے ۔

اگرطریقہ کار میں موڑ پارٹی کے اندرعام اختلاف پیدا کرتا ہے توحکمت عملی میں موڑ پر کس قدر گہرے اور تند اختلاف پیدا ہوتے ہوں گے! پرولتاری پارٹی میں موڑوں میں سب سے یکایک موڑ تیاری اور پراپیگنڈہ، یا تنظیم اور احتجاج کے کام سے اقتدار کے حصول کی فوری جدوجہد، بورژوازی کے خلاف مسلح سرکشی ہوتاہے۔ پارٹی میں جو بچ کھچ جاتا ہے وہ بے حوصلہ، متشکک (Skeptical)، صلح جو اور ہتھیار ڈالنے والا ہوتا ہے...مختصراً منشوویک۔۔۔ یہ سرکشی کرنے کے وقت سامنے آ جاتا ہے، یہ اپنے اختلاف کی توضیح کے لیے نظریاتی فارمولے تلاش کرتا ہے اور اسے یہ کل کے موقع پرست مخالفوں کے پاس سے بنے بنائے مل جاتے ہیں۔ ہم مستقبل میں اس مظہر کو ایک سے زیادہ مرتبہ دیکھیں گے۔ عوام کے درمیان وسیع تر احتجاجی اور تنظیمی کام کی بنیاد پر فیصلہ کن جدوجہد کے لیے پارٹی کے ہتھیاروں کا ازسرِنوجائزہ اور انتخاب فروری سے اکتوبر 1917)ء( کے دوران ہوا۔ اکتوبر کے دوران اور اس کے بعد ان ہتھیاروں کا عظیم تاریخی عمل میں ٹیسٹ ہوا۔ اکتوبر کے کئی سال بعد، بالعموم انقلاب اور بالخصوص روسی انقلاب پر، مختلف نقطہ ہائے نظر کی جانچ 1917ء کے تجربے کو ایک طرف رکھ کر کرنے کا مطلب ہے کہ خود کو روایت کی اندھی تقلید کی بنجر سوچ کا شکار کر دیا جائے۔ یہ یقیناً مارکسی سیاسی تجزیہ نہیں ہو گا۔ اس کی مثال یوں ہو گی جیسے کہ ہم تیراکی کے مختلف طریقوں کے فوائد پرالجھتے رہیں اور اس دریا کی طرف نظر اٹھا کر بھی نہ دیکھیں جس میں پیراکوں نے اس طریقوں کو آزمانا ہے۔ انقلاب پر مختلف نقطۂ نظر کا اس سے بہتر ٹیسٹ کوئی نہیں کہ یہ جانا جائے کہ انقلاب کے دوران انہوں نے کیسے کام کیا، ایسے ہی جیسے پیراکی کے طریقے کا بہترین ٹیسٹ اسی وقت ہوتا ہے جب پیراک پانی میں چھلانگ لگاتا ہے۔

باب 2 -

پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت ... فروری اور اکتوبر میں

اکتوبر انقلاب کے دوران اور اس کے بعد مارکسزم کی اندھی تقلید، جو روسی سوشل ڈیمو کریٹس میں عام تھی، کو بڑا دھچکا پہنچایا۔ ایسی تقلید جزوی طور پر ایمانسی پیشن آف لیبر گروپ(7)(مزدوروں کی نجات کا گروپ) سے شروع ہوتی ہے اور مینشوویکوں پر ختم۔ اس جعلی مارکسزم کی اساس مارکس کے اس مشروط اور محدود تصور کی بگڑی ہوئی شکل تھی، جس کے مطابق ’’وہ ملک جو صنعتی طور پر زیادہ ترقی یافتہ ہے، کم ترقی یافتہ کو اس کے مستقبل کا آئینہ دکھاتا ہے‘‘، کو ایک مطلق اور بالائے تاریخ (Supra-historical) قانون بناکر رکھ دیا; اور پھر اس قانون کی بنیاد پر پرولتاری پارٹی کی حکمت عملی کی راہ تلاش کی۔ اس فارمولا میں ترقی یافتہ ممالک کی ’’پہل‘‘ سے قبل روسی پرولتاریہ کی اقتدار کے حصول کے لیے جدوجہدبے معنی تھی۔

بلاشبہ اس بات پر کوئی اختلاف نہیں کہ ہر پسماندہ ملک ترقی یافتہ ملک میں اپنے مستقبل کی کچھ جھلک پاتا ہے، لیکن (ایک ملک کی)ساری ترقی کا عمل (دوسرے ملک میں) دہرایا نہیں جا سکتا۔ بلکہ سرمایہ دار معیشت جس قدر عالمی حیثیت اختیار کرتی جاتی ہے، پسماندہ ممالک کی ترقی اتنی جدت اختیار کرتی جاتی ہے، اسے اپنے پسماندہ عناصر کو سرمایہ دارانہ ترقی کی نئی کامیابیوں سے جوڑنا پڑتا ہے(8)۔ جرمنی میں کسانوں کی جنگ کے ابتدائیے میں اینگلز لکھتا ہے: ’’ایک خاص موڑ پر، جو لازم نہیں کہ ایک ہی وقت میں اور ہر جگہ ترقی کے ایک ہی مرحلے پر آئے۔ ] بورژوازی[ یہ محسوس کرنے لگتی ہے کہ اس کا وجود ثانی ] پرولتاریہ[ اس کی نسبت زیادہ تیزی سے بڑھ گیا ہے۔‘‘ دیگر تمام ممالک کے برخلاف تاریخی عمل نے روسی بورژوازی کو ایسا جلد اور پوری طرح محسوس کرانے میں رکاوٹ ڈالی۔ لینن نے 1905ء سے پہلے ہی روسی انقلاب کی خصوصیت کے بارے میں اس فارمولے کے تحت اظہار کیا۔اس معاملے پر لینن کا فارمولا ’’پرولتاریہ اورکسانوں کی جمہوری آمریت‘‘(9) ، جو انقلابی اور متنوع تھا، مینشویکوں کے طرز کے برخلاف تھا۔ اُن کے مطابق روس ترقی یافتہ قوتوں کی تاریخ کی محض نقالی ہی کر سکتا ہے، یعنی بورژوازی برسرِ اقتدار ہو اور سوشل ڈیمو کریٹس حزب اختلاف میں ہوں۔ ہماری جماعت کے کچھ حلقے البتہ پرولتاریہ اور کسانوں کی آمریت کے لیننی فارمولے کی بجائے سوشلسٹ کے برخلاف جمہوری خصوصیت پر زور دے رہے تھے۔ ان کا بھی یہی مطلب تھا کہ روس پسماندہ ملک ہے اور ایک جمہوری انقلاب ہی ممکن ہے۔ سوشلسٹ انقلاب نے مغرب سے شروع ہونا ہے، اور ہم انگلستان، فرانس اور جرمنی کے بعد سوشلزم کی راہ اختیار کر سکتے ہیں۔ لیکن اس طرح کا فارمولا منیشویک ازم کی طرف پھسل جاتا ہے، اور یہ بات 1917ء میں اس وقت ہمارے اوپر پوری طرح عیاں ہو گئی جب انقلاب کا کام، پیش گوئی نہیں بلکہ فیصلہ کن عمل کی حیثیت سے، ہمارے سر آن کھڑا ہوا۔ انقلاب کی صورت حال پیدا ہونے کے بعد جمہوریت کی حمایت والی پوزیشن لینا، جس کا منطقی نتیجہ سوشلزم کو ’’قبل از وقت‘‘ قرار دے کر اس کی مخالفت تھا۔۔۔ کا سیاسی مطلب تھا کہ پرولتاریہ سے پیٹی بورژوازی کے نقطۂ نظر کی طرف مڑا جائے۔ اس کا مطلب قومی انقلاب کے حامیوں کے اندر رہتے ہوئے بائیں بازو کا نقطۂ نظر اپنانا تھا۔

فروری انقلاب بذاتِ خود ایک بورژوازی انقلاب تھا لیکن بطور بورژوازی انقلاب یہ بہت تاخیر سے آیا اور یہ استحکام سے عاری تھا۔ تضادات کے شکار اس انقلاب نے اپنا اظہار دہری قوت(10) کی صورت میں کیا کہ یا تو یہ پرولتاری انقلاب کا پیش خیمہ بن جائے۔۔۔ اور عموماً ایسا ہوتا ہے۔۔۔ یا روس کو نیم نو آبادیاتی وجود بنا دے جس میں بورژوازی اولیگارشی کی کوئی شکل اقتدار میں ہو۔ اسی لیے فروری انقلاب کے بعد کے دور کو دو نقطۂ ہائے نظر سے بیان کیا جا سکتا ہے، ’’جمہوری انقلاب‘‘ کو استوار کرنے، ترقی دینے اور پختہ کرنے کے دور کے طور پر، یا پرولتاری انقلاب کی تیاری کے دور کے طور پر۔ پہلا نقطۂ نظر نہ صرف مینشویکوں (11)اور سوشلسٹ انقلابیوں(12) کا تھا بلکہ ہماری اپنی جماعت کی لیڈر شپ کے بعض حصوں کا بھی تھا۔ان حصوں نے جمہوری انقلاب کو، جس حد تک ممکن ہوا بائیں بازو کی طرف دھکیلنے کی کوشش کی، لیکن ان سب کا طریقہ کار ایک تھا۔۔۔ حکمران بورژوازی پر ’’دباؤ ڈالا جائے‘‘، ایسا محتاط ’’دباؤ‘‘ جو بورژوازی ڈیمو کریٹک رجیم کے ڈھانچے کے اندر ہو۔ اگر یہ پالیسی جیت جاتی تو انقلاب ہماری پارٹی سے سر کے اوپرسے گزر جاتا اور آخر کار مزدوروں اور کسانوں کی سرکشی پارٹی لیڈر شپ کے بغیر ہوتی; دوسرے الفاظ میں جولائی کے دنوں (July days) کو بڑے پیمانے پر دہرایا جاتا، یعنی اس مرتبہ چھوٹے موٹے نقصانات کی بجائے بڑی تباہی ہوتی۔

یہ بالکل واضح ہے کہ اس بڑی تباہی کا نتیجہ ہماری پارٹی کے وجود کے خاتمے کی صورت میں نکلتا۔ اس سے ہم ناپ سکتے ہیں کہ ہماری آرأمیں اختلاف کس قدر شدید تھے۔

انقلاب کے پہلے دور میں مینشویکوں اور سوشل انقلابیوں کا اثر محض حادثہ نہیں تھا۔ یہ آبادی میں۔۔۔ جس میں اکثریت کسانوں کی تھی... پیٹی بورژوا عوام کی حیثیت اور خود انقلاب کے ادھورے پن کا اظہار تھا۔ جنگ کی وجہ سے پیدا ہونے والے انتہائی غیر معمولی حالات کے دوران پیدا ہونے والا یہی ادھورا تھا جس نے پیٹی بورژوا انقلابیوں کے ہاتھ میں لیڈر شپ دے دی یا لیڈر شپ کی ایک شکل دے دی جو اقتدار میں بورژوازی کے حق کو تاریخی قرار دے کر اس کا دفاع کرنے لگی۔ لیکن اس کا کم از کم یہ مطلب نہیں کہ روسی انقلاب نے فروری سے اکتوبر 1917ء تک اس کے علاوہ کوئی اور راہ نہیں اپنائی۔ آخر الذکر راستہ نہ صرف طبقات کے درمیان تعلقات سے پیدا ہوا بلکہ جنگ سے پیدا ہونے والے عارضی حالات سے بھی۔ جنگ کی وجہ سے کسان لاکھوں پر مشتمل منظم اور مسلح فوج بن گئے۔ اس سے پہلے کہ پرولتاریہ اپنے جھنڈے تلے منظم ہونے میں کامیاب ہوتا اور دیہی عوام کی رہنمائی کرتا، پیٹی بورژوا انقلابیوں نے کسانوں کی فوج، جو جنگ کے خلاف اُٹھ کھڑی ہوئی تھی، میں فطری طور پر اپنی حمایت حاصل کر لی۔ لاکھوں پر مشتمل فوج کے بھاری وزن تلے، جس پر بہرحال ہر چیز کا انحصار تھا، پیٹی بورژوا انقلابیوں نے مزدوروں پر دباؤ ڈالا اور پہلے دور میں انہیں اپنے ساتھ لے گئے۔

آیاانہی طبقاتی بنیاد پرانقلاب کوئی مختلف راہ اپناسکتا تھا، اس کا سب سے بہتر مظاہرہ جنگ کے فوری بعد ہونے والے واقعات سے ہوا۔ جولائی 1914ء میں انقلابی ہڑتالوں نے پیٹرو گراڈ کو ہلا دیاتھا۔ معاملہ اتنا آگے چلا گیا کہ بات گلیوں میں کھلی لڑائی تک آن پہنچی۔ اس تحریک کی اصل لیڈر شپ زیر زمین تنظیم اور ہماری پارٹی کے قانون (Legal) پریس کے ہاتھ میں تھی۔ بالشویک ازم تحلیل پسندی (Liquidationism) اور پیٹی بورژوا پارٹیوں کے خلاف براہ راست جدوجہد کے ذریعے اپنا اثر بڑھا رہا تھا۔ تحریک کی مزید نشوونما کا مطلب سب سے بڑھ کر بالشویک پارٹی کی ترقی ہوتا۔ 1914ء میں ورکرز ڈپٹیز کی سوویتیں۔۔۔ اگر وہ ترقی کرتے سوویتوں کے درجے تک پہنچ چکی ہوتی۔۔۔ شاید ابتدا سے بالشویک ہوتیں۔ اس کا یہ مطلب نہ ہوتا کہ سوشل انقلابی دیہاتوں سے فوراً غائب ہو جاتے، نہیں۔ امکان یہی تھا کہ کسان انقلاب کا پہلا مرحلہ ناروڈنکس(13) (Narodniks) کے جھنڈے تلے طے ہوتا۔ لیکن حالات و واقعات کے ساتھ، جیسا کہ ہم نے خاکہ بنا رکھاتھا، ناروڈنکس بذات خود اپنے بائیں بازو کے دھڑے کو آگے لانے پر مجبور ہو جاتے تاکہ شہروں میں بالشویک سوویتوں سے اتحاد کیا جا سکے۔

بلاشبہ یہاں بھی سرکشی کا فوری نتیجہ ، اولاً فوج کے موڈ اور کردار پر منحصر ہوتا، جو کہ کسانوں سے جڑی تھی۔ اب یہ اندازہ لگانا ناممکن اور فضول ہے کہ اگر جنگ نے آگے بڑھتے حالات کی کڑیوں میں ایک نئے اور عظیم تعلق کا اضافہ نہ کر دیا ہوتاتو کیا 1914-15ء کی تحریک فتح سے ہم کنار ہوتی۔ تاہم بہت سے شواہد پیش کیے جا سکتے ہیں کہ اگر جولائی 1914ء کے واقعات کے ساتھ کامیاب انقلاب پھیلتا تو اس بات کا پورا امکان تھا کہ زار شاہی کو اکھاڑنے کے بعد مزدوروں کی انقلابی سوویتوں کے پاس فوری اقتدار آ جاتا، اور اس کے بعد ناروڈنکس کے اندر بائیں بازو والوں کے ذریعے (ابتداء ہی سے!) کسان عوام بھی اسی حلقے میں آجاتے۔

جنگ نے انقلابی تحریک میں رخنہ ڈالا۔ شروع میں یہ باعثِ تاخیر بنی مگر بعد میں بہت زیادہ تیزی لانے کی وجہ بنی۔ لاکھوں کی فوج کے باعث جنگ نے سماجی اورتنظیمی دونوں طرح پیٹی بورژوا پارٹیوں کو غیر معمولی بنیاد فراہم کی۔ کسانوں کے مخصوص حالات کی وجہ سے، زیادہ تعداد میں ہونے کے باوجود، انہیں منظم کرنا مشکل ہوتا ہے، یہاں تک کہ اس وقت بھی جب وہ انقلابی جذبے سے سرشار ہوں۔ بنی بنائی تنظیم یعنی فوج کے کاندھوں پر بیٹھ کر پیٹی بورژوا پارٹیوں نے پرولتاریہ پر رعب جھاڑا اور انہیں عذرداریت(14) (Defensism) پر مجبور کر دیا۔ یہی وجہ ہے کہ ایک بارلینن پرانے نعرے ’’پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت‘‘ کے سختی سے خلاف ہو گیا، جس کا نئے حالات میں مطلب بالشویک پارٹی کو عذرداروں کے بائیں بازو کے دھڑے میں بدل دینا تھا۔ لینن کے نزدیک بنیادی کام پرولتاریہ کے وین گارڈ کا ابہام دور کر کے اسے عذرداریت کی دلدل سے نکالنا تھا۔ صرف اسی صورت میں پرولتاریہ نئے مرحلے میں وہ محور بن سکتا تھا جس کے گرد دیہات کے محنت کش عوام اکٹھے ہوتے۔ لیکن اس معاملے میں جمہوری انقلاب کی طرف ہمارا رویہ کیا ہونا چاہیے، یا پھر پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت پر؟ لینن نے سختی سے ان ’’پرانے بالشویکوں‘‘ کو رد کیا ’’جنہوں نے پہلے ہی ایک سے زیادہ مرتبہ ہماری پارٹی کی تاریخ میں،نئے زمینی حقائق کی خصوصیات کا مطالعہ کیے بغیر، رٹے گئے فارمولوں کو لاگو کیا ۔۔۔‘‘ لیکن نہ صرف پرانے فارمولوں کوجانچنا چاہیے بلکہ نئے حقائق کی چھان پھٹک بھی کرنی چاہیے۔ کیا کامریڈ کامنیف کے پرانے بالشوویکوں والے فارمولے میں نئے حقائق کو مدنظر رکھا گیا ہے جس کے مطابق کہا گیا کہ’’بورژوازی جمہوری انقلاب مکمل نہیں ہوا؟‘‘ لینن جواب دیتا ہے ’’یہ مکمل نہیں، یہ فارمولابالکل بے کار ہے۔ یہ مر چکا ہے اور اسے زندہ کرنے کی کوشش کا کوئی فائدہ نہیں۔‘‘ *

بلاشبہ لینن نے وقتاً فوقتاً کہا کہ فروری انقلاب کے پہلے دور میں مزدوروں، سپاہیوں اور کسانوں کے ڈپٹیز کی سوویتیں کسی حد تک پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت کا انقلابی اظہار تھیں۔ جہاں تک سوویتوں میں طاقت کی تجسم کی بات تھی تو یہ سچ تھا۔ لیکن جیسا کہ لینن نے کئی بار وضاحت کی، فروری کے دور کی سوویتیں ادھورے اقتدار کا اظہار تھیں۔ انہوں نے بورژوازی کے اقتدار کی حمایت کی جبکہ اس پر نیم موقع پرستانہ ’’دباؤ‘‘ بنائے رکھا اور یہی درمیانی پوزیشن تھی جو انہیں مزدوروں، کسانوں اور سپاہیوں کے جمہوری اتحاد کے ڈھانچے سے باہر نہیں جانے دیتی تھی۔ اپنی اصل میں یہ اتحاد اس حد تک (پرولتاریہ کی)آمریت کی طرف راغب تھا کہ یہ حکومت کے وضع کردہ نظام کی بجائے مسلح افواج اور براہ راست انقلابی نگرانی پر انحصار کرتا تھا۔ البتہ ایک حقیقی آمریت سے یہ کوسوں دور تھا۔

صلح جو سوویتوں کے متزلزل ہونے کی اصل وجہ ادھورے اقتدار والے مزدوروں، کسانوں اور سپاہیوں کے اتحاد کی جمہوری کھچڑی تھی۔ سوویتوں کو یا تو بالکل ختم ہونا تھا یا اصل اقتدار اپنے ہاتھ میں لینا تھا۔ لیکن وہ مختلف پارٹیوں کی نمائندگی کرنے والے مزدوروں اور کسانوں کے جمہوری اتحاد کی حیثیت سے یہ حاصل نہیں کر سکتی تھیں، بلکہ ایک پارٹی کی رہنمائی میں پرولتاریہ کی آمریت نیم پرولتاریہ کو اپنے ساتھ ملانے کے بعد کسانوں کو ملانے کے ذریعے ایسا کر سکتی تھیں۔ دوسرے الفاظ میں مزدوروں اور کسانوں کا جمہوری اتحاد اقتدار کی نابالغ شکل بن سکتا تھا جو حقیقی طاقت حاصل کرنے کی صلاحیت نہ رکھتا ہو۔۔۔ یہ صرف ایک رجحان کے طور پر متشکل ہو سکتا تھا مگر ٹھوس حقیقت نہیں بن سکتا تھا۔ طاقت کے حصول کے لیے آگے بڑھنے سے اس کا جمہوری لبادہ اتر جاتا، جس سے کسانوں پر یہ واضح ہو جاتا کہ مزدوروں کے پیچھے چلنا ضروری ہے۔ اس سے پرولتاریہ کو طبقاتی آمریت لانے کا موقع ملتا، اور اس سے مزدور ریاست کو ملکیت کے سرمایہ دارانہ حقوق میں خالصتاً سوشلسٹ مداخلت کا راستہ ملتا۔ اس سے سماجی تعلقات کو انتہائی ریڈیکل انداز سے جمہوری بنایا جاتا۔ ان حالات میں جو کوئی بھی ’’جمہوری آمریت‘‘ کے پرانے فارمولے سے چمٹا رہتا وہ اقتدار سے دست بردار ہو جاتا اور انقلاب کو تاریکی میں دھکیل دیتا۔ بنیادی متنازعہ سوال جس کے گرد دیگر تمام معاملے مرکوز تھے یہ تھا; ہمیں طاقت (اقتدار) کے حصول کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے یا نہیں; ہمیں اقتدار حاصل کرنا چاہیے یا نہیں۔ پہلا اور اہم ترین رجحان پرولتاری تھا جو عالمی انقلاب کی طرف لے جاتا تھا۔ دوسرا ’’جمہوری‘‘ تھا یعنی پیٹی بورژوازی، اور آخری تجزیے میں پرولتاریہ کی پالیسیوں کو اصلاحات کے ذریعے بورژوا سماج کی ضروریات پوری کرنے کی طرف لے جاتا تھا۔ 1917ء کے دوران ہر اہم سوال پر یہ دونوں رجحان متصادم ہوئے۔ یہی وہ انقلابی دورہوتا ہے... یعنی وہ دور جب پارٹی کے جمع شدہ سرمایہ کو سیدھا گردش میں ڈال دیا جاتا ہے۔۔۔ جب دوران عمل لازماً اختلاف ہوتا۔ یہ دونوں رجحانات کم یا زیادہ، تھوڑے بہت رد و بدل کے ساتھ، انقلابی دور میں ایک سے زیادہ مرتبہ ہر ملک میں دکھائی دیں گے۔ اگر بالشویک ازم۔۔۔ اور ہم یہاں اس کے اہم پہلوؤں پر زور دے رہے ہیں۔۔۔ پرولتاریہ کے وین گارڈ کی ایسی تربیت، امتزاج اور تنظیم کا نام ہے جو اسے اقتدار پر قبضہ کرنے کی اور ہتھیار اٹھانے کے قابل کرتا ہے اور اگر سوشل ڈیمو کریسی سے ہماری مراد اصلاح پسند سرگرمی ہے جو بورژوا سماج کے ڈھانچے کے اندر اور قانونی تقاضوں کے مطابق ہو، یعنی عوام کو یہ باور کرانا کہ بورژوا ریاست کو توڑنا نہیں; تو پھر دراصل یہ واضح ہے کہ کمیونسٹ پارٹی کے اندر بھی سوشل ڈیمو کریٹک رجحانات اور بالشویک ازم نے لازماً خود کو واضح، کھلے، اور کسی بناوٹ کے بغیر کو ایک دوسرے کے مدمقابل ہوناہے، اس وقت جب اقتدار کے حصول کا سوال بالکل سامنے کھڑا ہو۔

4 اپریل کے بعد ہی اقتدار پر قبضے کا سوال پارٹی کے سامنے پیش ہوا۔ یعنی لینن کی پیٹرو گراڈ آمد کے بعد۔ لیکن اس وقت تک بھی پارٹی کی سیاسی لائن ایسی نہیں تھی کہ جو ایک ہو اور اسے چیلنج کرنے والا کوئی نہ ہو۔ 1917ء کی اپریل کانگریس (15)کے فیصلے کے باوجود بھی انقلابی راہ کی مخالفین نے۔۔۔ کبھی چھپ کر اور کبھی کھلے عام۔۔۔ تیاری کے سارے مرحلے پر اثر ڈالا۔

فروری کے دوران اختلافات کے رجحانات اور اکتوبر انقلاب کی استواری کا مطالعہ نہ صرف انتہائی نظریاتی اہمیت رکھتا ہے بلکہ اس کی انتہائی عملی اہمیت ہے۔ 1910ء میں دوسری پارٹی کانگرس کے موقع پر لینن نے 1903ء میں ہونے والے اختلافات پر بات کرتے ہوئے انہیں ’’متوقع‘‘ دوسرے لفظوں میں متنبہ کرنے والے قرار دیا۔ یہ بہت اہم ہے کہ ان اختلافات کو ان کی اساس میں تلاش کیا جائے یعنی 1903ء یا اس سے بھی پہلے کے وقتوں میں۔ اس کا آغاز اکانومزم(16) (Economism) سے ہو سکتا ہے، لیکن ایسی تلاش اسی وقت بامعنی ہو سکتی ہے جب اس کو منطقی انجام تک پہنچایا جائے اور اس میں اس دور کو شامل کیا جائے جب یہ اختلافات فیصلہ کن امتحان میں آزمائے گئے، جس کا مطلب ہے اکتوبر کے دنوں میں۔

اس ابتدایئے کی حدود میں رہتے ہوئے ہم جدوجہد کے ہر مرحلے پر تفصیلاً بات نہیں کر سکتے۔ لیکن ہم یہ ضروری سمجھتے ہیں کہ ان کمیوں کو کم از کم جزوی طور پر پورا کیا جائے جو ہماری جماعت کی نشوونما کے سب سے اہم دور سے متعلق لٹریچر نہ ہونے کی وجہ سے ہیں۔

جیسا کہ پہلے کہا گیا، اختلاف اقتدار کے سوال کے گرد تھے۔ عام الفاظ میں یہ سوال وہ کسوٹی ہوتی ہے جس سے انقلابی پارٹی (اور دیگرپارٹیوں کے بھی) کردار کو پرکھا جا سکتا ہے۔

اقتدار کے سوال اور جنگ کے سوال کا، جو اس دور میں اٹھائے گئے اور جن پر فیصلہ کیا گیا، آپس میں گہرا تعلق ہے۔ اہم واقعات کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم اس سوالات کو تاریخ وار دیکھنے کی صلاح دیتے ہیں: زار ازم کا تختہ الٹنے کے بعد اور لینن کی آمد سے پہلے کے دور میں پارٹی اور پارٹی کے پریس کی پوزیشن، لینن کے تھیسس پر اختلاف; اپریل کانفرنس; جولائی کے دنوں کے نتائج; کارنیلوف کا دور; ڈیمو کریٹک کانفرنس اور قبل از پارلیمنٹ ; مسلح سرکشی کا سوال اور اقتدار پر قبضہ (ستمبر سے اکتوبر) ; اور ’’ہم نوع سوشلسٹ‘‘ حکومت کا سوال۔ ہمیں یقین ہے کہ ان اختلافات کا مطالعہ ہمیں کمیونسٹ انٹرنیشنل کی دیگر جماعتوں کے بارے میں اہم نتائج اخذ کرنے میں مدد دے گا۔

باب 3

جنگ کے خلاف جدوجہد اور عذرداریت

فروری 1917ء میں زار ازم کا خاتمہ بلاشبہ آگے کی طرف بہت بڑا قدم تھا۔ لیکن اگر ہم فروری کو فروری تک محدود کر کے دیکھیں یعنی اگر ہم اسے اکتوبر کی طرف بڑھتے قدم کے طور پر نہ دیکھیں تو اس کا مطلب اس سے زیادہ کچھ نہیں : روس ایک بورژوازی جمہوریہ تھا مثلاً جیسے فرانس تھا۔ پیٹی بورژوا انقلابی پارٹیوں اپنی روایت کے مطابق نہ تو فروری انقلاب کو بورژوازی سمجھا اور نہ ہی سوشلسٹ انقلاب کی طرف بڑھتا ہوا قدم بلکہ اسے ایک طرح کا خود مختار ’’جمہوری‘‘ وجود جانا اور اسی پر انہوں نے انقلابی عذرداریت (Defensism) کے نظریے کو تعمیر کیا۔ وہ کسی ایک طبقے کے اقتدار کا نہیں بلکہ ’’انقلاب‘‘ اور ’’جمہوریت‘‘ کا دفاع کر رہے تھے۔ لیکن ہماری اپنی پارٹی میں فروری کے انقلاب کے زور نے سیاسی پرسپکٹیو کی کنفیوژن کو پیدا کر دیا۔ درحقیقت مارچ کے دنوں میں پراودا (17)نے ایسی پوزیشن لی جو لینن کی بجائے انقلابی عذرداریت کے قریب تھی۔

ایک ادارتی مضمون میں لکھا تھا ’’جب ایک فوج دوسری فوج کے مقابل کھڑی ہوتی ہے تو اس سے زیادہ فضول پالیسی کوئی اور نہیں ہو سکتی کہ ان میں سے ایک کو کہا جائے کہ وہ ہتھیار ڈال دے اور گھر چلی جائے۔ ایسی پالیسی امن کی نہیں بلکہ غلامی کی پالیسی ہو گی، ایسی پالیسی کو آزاد عوام حقارت سے رد کر دیں گے۔ نہیں۔ عوام بہادری سے اپنی چوکی پر موجود رہیں گے اور گولی کا جواب گولی اور گولے کا جواب گولے سے دیں گے۔ اس پر اختلاف ہے ہی نہیں۔ ہمیں انقلاب کی مسلح افواج کو کسی بھی طرح تحلیل کرنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔‘‘ *

ہمیں یہاں طبقوں کا کوئی ذکر نہیں ملتا اور نہ ہی استحصال کرنے والے اور برداشت کرنے والے کا; اس کی بجائے ’’آزاد عوام‘‘ کی بات کی گئی ہے; جیسے اقتدار کے لیے طبقے جدوجہد نہیں کر رہے بلکہ آزاد عوام ’’اپنی چوکیوں پر موجود‘‘ ہیں۔ یہاں خیالات اور فارمولے عذرداریت پر مبنی ہیں۔ اسی مضمون میں مزید کہا گیا ہے: ’’ہمارا نعرہ خالی خولی چیخ پکار نہیں کہ ’جنگ نامنظور!‘ جس کا مطلب ہے کہ انقلابی فوج کو تحلیل کر دیا جائے اوروہ بھی اس فوج کو جو پہلے سے زیادہ انقلابی بن رہی ہے۔ پہلا نعرہ ہے کہ پروونشل گورنمنٹ پر دباؤ ڈالا تاکہ وہ ناکام ہوئے بغیر مجبور ہو کر کھلے عام اور عالمی جمہوریت کی آنکھوں کے سامنے جنگ کرنے والے تمام ممالک کو جنگ کے فوری خاتمے کے لیے مذاکرات شروع کرنے کی طرف راغب کرے۔ اس وقت تک ہر کوئی اپنی چوکیوں پر قائم رہے‘‘ ایک سامراجی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا یہ پروگرام جس کے تحت وہ نیک راہ کی جانب ’’راغب‘‘ ہو، جرمنی میں کاوٹسکی اور لیڈیبور، فرانس میں یاں لونگے، انگلستان میں میکڈونڈکا تھا، مگر یہ پروگرام بالشوویک ازم کا کبھی نہیں تھا۔ نتیجہ اخذ کرتے ہوئے یہ مضمون پیٹرو گراڈ سوویت کے بدنام زمانہ مینی فیسٹو، ٹو دی پیپلز آف دی ورلڈ‘ (18)(ایسا مینی فیسٹو جو اول سے آخر تک انقلابی عذرداریت کی روح کے مطابق ہے) کو ’’گرم جوشی سے خوش آمدید‘‘ کہتا ہے بلکہ پیٹرو گراڈ کی میٹنگوں میں کھلی عذرداریت والی قرارداد سے ادارتی بورڈ کی یکجہتی پر ’’اظہار مسرت‘‘ بھی کرتا ہے۔ ان قراردادوں میں موجود یہ الفاظ بخوبی پتا دیتے ہیں: ’’اگر جرمنی اور آسٹریا میں جمہوری قوتوں نے ہماری آواز پرکان نہ دھرے، تو پھر ہم اپنی سرزمین کا خون کے آخری قطرے تک دفاع کریں گے۔‘‘ *

اوپر بیان کیا گیا مضمون واحد مثال نہیں تھا بلکہ لینن کی روس آمد سے قبل پراودا کی پوزیشن کا خاصا درست اظہار تھا۔ پس اخبار کے اگلے شمارے میں ’آن دی وار‘ کے عنوان سے چھپنے والے مضمون میں اگرچہ ’مینی فیسٹو ٹو دی پیپلز آف دی ورلڈ‘ پر قدرے تنقید کی گئی مگر ساتھ ہی کہا گیا: ’’پرسوں پیٹرو گراڈ سوویت آف ورکرز اینڈ سولجرز ڈیپوٹیز کی طرف سے دنیا کے عوام کو کیے گئے اعلان کو خوش آمدید کہنا ناممکنات میں سے نہیں، جس میں اپنی حکومتوں سے قتلِ عام بند کرنے کا مطالبہ کرنے کا کہا گیا ہے (پراودا، نمبر 10، 16مارچ، 1917ء)۔‘‘ جنگ سے کیسے نکلا جائے؟ مضمون یہ جواب دیتا ہے: ’’راستہ یہی ہے کہ پرونشل حکومت(19) پر اس مطالبے کے ساتھ دباؤ ڈالا جائے کہ وہ امن کے لیے فوری مذاکرات کے لیے تیار ہونے کا اعلان کرے۔‘‘

ہم اس طرح کی کئی دیگر مثالیں پیش کر سکتے ہیں جو پوشیدہ طور پر عذرداری اور صلح جوئی پر مبنی کردار کی حامل ہیں، اس دوران، یہاں تک کہ ہفتوں بعد تک، لینن جو ابھی تک اپنے زیورخ کے پنجرے سے نہیں نکلا تھا، اپنے ’’لیٹرز فرام افار‘‘ (20)(ان میں سے زیادہ تر خطوط پراودا تک نہیں پہنچے) میں عذرداری اور صلح جوئی کو کوئی رعایت دینے کے خلاف چیخ چیخ کر کہہ رہا تھا۔ 9 مارچ کو سرمایہ داری کے آئینے میں بگاڑ دیے گئے انقلابی واقعات کا درست ادراک کرتے ہوئے لینن کہتا ہے ’’ہمارے لیے خود سے اور عوام سے یہ چھپانا ناجائز ہے کہ دراصل یہ حکومت سامراجی جنگ کو جاری رکھنا چاہتی ہے، کہ یہ برطانوی سرمایے کی ایجنٹ ہے، کہ یہ بادشاہت بحال کرنا چاہتی ہے اور جاگیرداروں اور سرمایہ داروں کو مضبوط کرنا چاہتی ہے‘‘ * اوربعدازاں 12 مارچ کو اس نے کہا : ’’حکومت سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ جمہوری امن لائے ایسا ہی ہے جیسے چکلہ چلانے والے کو نیکی کی دعوت دینا۔‘‘** اس وقت جب پراودا پروونشل گورنمنٹ پر ’’دباؤ ڈالنے‘‘ کی وکالت کر رہا تھا تاکہ ’’عالمی جمہوریت کی آنکھوں کے سامنے‘‘ وہ امن کے حق میں چلی جائے، لینن لکھ رہا تھا : ’’خو چکووف، میلیکووف حکومت سے یہ مطالبہ کرنا کہ وہ جلد، ایماندارانہ، جمہوری اور ہمسائیوں جیسا دوستانہ امن لائے ایسا ہی ہے جیسے دیہات کا اچھا پادری جاگیرداروں اور تاجروں سے خدا کی راہ پر چلتے ہوئے ہمسایوں سے محبت کرنے کا درس دے اور(ایک پر تھپڑ کے بعد) دوسری گال بھی پیش کرنے کا کہے‘‘ ***

4 اپریل کو، پیٹرو گراڈ(21) آمد کے ایک دن بعد لینن فیصلہ کن انداز میں، جنگ اور امن پر پراودا کی پالیسی کے خلاف ہو گیا۔ اس نے لکھا: ’’پروونشل گورنمنٹ کے لیے کوئی حمایت نہیں; اس کے وعدوں کے بالکل جھوٹے ہونے کو واضح کیا جانا چاہیے، بالخصوص وہ جو مقبوضہ علاقوں سے دست برداری کے متعلق ہیں۔ یہ ’مطالبہ‘ کہ اس حکومت کو، سرمایہ داروں کی اس حکومت کو، سامراجی حکومت نہیں ہونا چاہیے خود کو دھوکہ دینے والاہے۔(حکومت کے کاموں کو)ناقابلِ منظوری سمجھنے کی بجائے بے نقاب کرنا چاہیے۔‘‘ * اس پر مزید کچھ کہنے کی کیا ضرورت ہے کہ 14 مارچ کو صلح جوؤں کی طرف سے جاری کردہ جس اعلان کو پراودا میں پسندکرنے والے اتنے زیادہ تھے، لینن نے اسے ’’بدنام‘‘ اور ’’ابتر‘‘ قرار دیا۔ یہ منافقت کی انتہا ہے کہ دوسری اقوام کو کہا جائے کہ وہ اپنے بنکاروں سے علیحدہ ہو جائیں جبکہ اسی وقت اپنے ملک کے بینکاروں سے مل کر حکومت بنائی ہوئی ہو۔

’’مرکز‘‘ وثوق سے کہتا ہے اور اعلان کرتا ہے کہ وہ مارکسسٹ اور انٹرنیشنلسٹ ہیں، کہ وہ امن چاہتے ہیں، وہ حکومت پر ہر قسم کا ’دباؤ‘ ڈالنا چاہتے ہیں، ہر طرح سے ’مطالبہ‘ کرنا چاہتے ہیں کہ ان حکومت امن کے لیے عوام کی حواہش کو ’’یقینی‘‘ بنائے۔**

لیکن یہاں پہلی نظر میں ہی کوئی اعتراض کر سکتا ہے: کیا ایک انقلابی جماعت کو بورژوازی اور اس کی حکومت پر ’’دباؤ ڈالنے‘‘ سے انکار کرنا چاہیے؟ یقیناً نہیں۔ بورژوا حکومت پر دباؤ ڈالنا اصلاح کا راستہ ہے۔ ایک انقلابی مارکسسٹ پارٹی اصلاحات کو رد نہیں کرتی۔ لیکن اصلاحات کا راستہ ضمنی طور پر مفید ہوتا ہے، یہ بنیادی سوال نہیں ہوتا۔ اصلاحات کے ذریعے ریاستی اقتدار حاصل نہیں کیا جا سکتا۔ ’’دباؤ‘‘ ڈالنے سے بورژوازی کی ان سوالات پر پالیسی نہیں بدلتی جن پر اس کے مستقبل کا دارو مدار ہوتا ہے۔ جنگ نے صرف اس لیے انقلابی حالات پیدا کر دیے کیونکہ اس سے اصلاح پسندانہ ’’دباؤ‘‘ کے لیے کوئی جگہ نہ رہی۔ واحد راستہ یہ تھا کہ یا تو بورژوازی کے ساتھ پوری طرح جایا جائے یا عوام کو اس کے خلاف کھڑا کر کے اس کے ہاتھوں سے اقتدار چھین لیا جائے۔ پہلی صورت میں ممکن تھا کہ خارجی سامراجی پالیسی کی غیر مشروط حمایت کر کے بورژوازی سے داخلی پالیسی میں کوئی رعایت لے لی جائے۔ اسی وجہ سے سماجی اصلاح پسندی نے جنگ کے آغاز پرخود کو کھلے عام سوشل سامراج میں بدل دیا۔ اسی وجہ سے ہی حقیقی انقلابی عناصر ایک نئی انٹرنیشنل بنانے پر مجبور ہوئے۔

پراودا کا نقطۂ نظر پرولتاری اور انقلابی نہیں تھا بلکہ جمہوری اور عذرداری پر مشتمل تھا، اگرچہ اس کی عذرداریت متذبذب تھی۔ (یعنی)ہم نے زار ازم کو اکھاڑدیا، ہمیں اپنی حکومت کو دباؤ میں نہیں لانا چاہیے۔ حکومت کو دنیا کے عوام سے امن کی خواہش کا اظہار کرنا چاہیے۔ اگر جرمن سوشل ڈیمو کریسی اپنی حکومت پر ضروری دباؤ ڈالنے میں ناکام ثابت ہوتی ہے تو خون کے آخری قطرے تک ہمیں اپنی ’’سرزمین‘‘ کا دفاع کرنا چاہیے۔ آئندہ کے امن کو مزدور طبقے کے ایسے آزادانہ کام کے طور پر سامنے نہیں لایا گیا جو مزدور پروونشل حکومت کی قیمت پر سرانجام دیں، کیونکہ پرولتاریہ کے اقتدار پر قبضہ کو ایک عملی انقلابی کام کے طور پر سامنے نہیں لایا گیا۔ حالانکہ یہ دونوں کام ایک دوسرے سے پوری طرح جڑے ہوئے ہیں۔

باب 4 -

اپریل کانفرنس

فن لینڈ ریلوے سٹیشن پر روسی انقلاب کی سوشلسٹ خصوصیات پر لینن نے جو تقریر کی وہ پارٹی کے بہت سے لیڈروں کے لیے ایک دھماکہ تھی۔ لینن اور ’’جمہوری انقلاب کی تکمیل‘‘ کے خیر خواہوں کے درمیان بحث و مباحثہ پہلے دن سے ہی شروع ہو گیا۔ اپریل کے مسلح مظاہرے (22)سے، جس میں ’’پروونشل گورنمنٹ مردہ باد‘‘ کا نعرہ لگایا گیا، بڑا متنازعہ پیدا ہو گیا۔ اس واقعے سے دائیں بازو کے بعض نمائندوں کو لینن پر بلانکو ازم(23) (Blanquism) کی تہمت لگانے کا موقع ہاتھ آیا۔ (بقول ان کے) پروونشل گورنمنٹ جسے اس وقت سوویت کی اکثریت کی حمایت حاصل تھی، کو اکھاڑنا اسی صورت ممکن تھا جب تم محنت کشوں کی اکثریت کی توہین کرو۔

رسمی نقطۂ نظر سے ایسا الزام درست معلوم ہوتا ہے، لیکن حقیقت میں لینن کی اپریل پالیسی میں بلانکو ازم کا ہلکا سا بھی شائبہ نہیں تھا۔ لینن کے لیے سارا سوال یہ تھا کہ سوویتیں نے کس حد تک عوام کے حقیقی موڈ کی نمائندگی کی، اور کیا سوویت اکثریت سے رہنمائی لینے سے پارٹی نے کوئی غلطی تو نہیں کی۔ اپریل کا مظاہرہ، جو خیال سے زیادہ ’’بائیں بازو کی طرف‘‘ چلا گیا، عوام کے مزاج کا ایک طرح سے جائزہ تھا اور ان کے اور سوویت اکثریت کے باہمی تعلق کا بھی۔ اس جائزے سے یہ نتیجہ اخذ ہوا کہ تیاری کا ایک طویل عرصہ درکار ہے۔ اور ہم نے دیکھا کہ مئی کے شروع میں لینن نے Kronstadt کے ان ارکان کو سختی سے روکا جو پروونشل حکومت کے خلاف اتنا آگے چلے گئے کہ انہوں نے اسے تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔۔۔

اقتدار پر قبضے کے مخالفین کی اس سوال پر سوچ بالکل مختلف تھی۔ اپریل پارٹی کانفرنس میں کامریڈ کامنیف نے مندرجہ ذیل شکایت کی: ’’پراودا کے نمبر 19 میں کامریڈز ] یہاں واضح اشارہ لینن کی طرف ہے، ٹراٹسکی[ نے پہلے ایک قرارداد تجویز کی جس کے مطابق ہمیں پروونشل گورنمنٹ کو اکھاڑ پھینکنا چاہیے۔ گزشتہ بحران سے قبل یہ شائع ہوئی، اور اس نعرے کو ممکنہ طور پر نقصان دہ سمجھ کر رد کر دیا گیا; اور اسے مہم جوئی قرار دیا گیا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمارے کامریڈز نے بحران کے دوران کچھ سیکھا ہے لیکن جو قرارداد اب ]لینن کی طرف سے، ٹراٹسکی[ پیش کی گئی ہے، یہی غلطی دہراتی ہے۔۔۔‘‘ مسئلے کی اس انداز میں تشکیل انتہائی اہم ہے۔ جائزے کے تجربے کے بعد لینن پروونشل گورنمنٹ کو اکھاڑنے کے نعرے سے دست بردار ہو گیا۔ لیکن وہ کسی مخصوص مدت۔ کچھ ہفتوں یا کچھ مہینوں کے لیے اس سے دست بردار نہیں ہوا، بلکہ وہ صلح پسندوں کے خلاف عوام کی بغاوت شروع ہونے تک کے عرصے کے لیے اس سے دست بردار ہوا تھا۔ اس کے برخلاف حزب احتلاف نے یہ سمجھا کہ بذاتِ خود نعرہ غلط تھا۔ لینن کی اس عارضی پسپائی کے دوران اس کی سیاسی لائن میں تبدیلی کا اشارہ تک نہیں ملتا۔ وہ بات یہاں سے شروع نہیں کرتا کہ جمہوری انقلاب ابھی ختم نہیں ہوا۔ اس کا سارا زور اس نکتے پر تھا کہ عوام اس وقت پروونشل گورنمنٹ کو اکھاڑنے کی پوزیشن میں نہیں اس لیے ہر وہ کام کیا جانا چاہیے جو مزدور طبقے کو پروونشل حکومت گرانے کے قابل کرے۔

ساری اپریل پارٹی کانفرنس مندرجہ ذیل بنیادی سوال کے گرد تھی: کیا ہم سوشلسٹ انقلاب کے نام پر اقتدار حاصل کرنے کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ یا ہم (کسی کو یا ہر کسی کو) مدد فراہم کر رہے ہیں کہ جمہوری انقلاب مکمل کرے۔ بدقسمتی سے اپریل کانفرنس کی رپورٹ آج تک شائع نہیں ہو سکی حالانکہ ہماری پارٹی کی تاریخ میں کوئی دوسری ایسی کانگرس نہیں ہو گی جس پر انقلاب کی منزل پر پہنچنے کی اتنی بڑی ذمہ داری عائد ہو جتنا کہ اپریل 1917ء کی کانفرنس پر تھی۔

لینن کی پوزیشن یہ تھی: عذرداریت اور اس کے حامیوں کے خلاف ناقابل مصالحت جدوجہد; سوویت اکثریت کا حصول; پروونشل گورنمنٹ کو اکھاڑنا ; سوویتوں کے ذریعے اقتدار کا حصول; ملک کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر انقلابی امن پالیسی اور سوشلسٹ انقلاب کا پروگرام۔ حزبِ اختلاف کا نقطۂ نظر اس سے مختلف تھا ، وہ یہ کہ پروونشل گورنمنٹ پر دباؤ ڈال کر جمہوری انقلاب کی تکمیل ضروری ہے، اور اس دوران سوویتیں بورژوازی پر ’’کنٹرول‘‘ کا آلہ کار رہیں گی۔ یوں یہ نقطۂ نظر خاصا مختلف اور عذرداریت کی طرف زیادہ راغب تھا۔ لینن کی پوزیشن کے مخالفین سے ایک نے اپریل کانفرنس میں کچھ اس طرح دلائل دیے: ’’ہم مزدوروں اور سپاہیوں کے ڈپٹیز کی سوویتوں پر ایسے بات کرتے ہیں جیسے وہ ہماری اپنی قوتوں اور ریاستی طاقت کو منظم کرنے کا مرکز ہوں... یہ ان کے نام سے ہی ظاہر ہوجاتا ہے کہ وہ پیٹی بورژوا اور پرولتاری قوتوں کے ایک بلاک سے بنی ہیں جسے نامکمل بورژوا جمہوری انقلاب کا کام کرنا ہے۔ اگر بورژوا جمہوری انقلاب کا کام مکمل ہو گیا تو یہ بلاک قائم نہیں رہے گا... اور پرولتاریہ اس بلاک کے خلاف جدوجہد کر رہا ہوگا... اور بہرحال ہم ان سوویتوں کو (مختلف)قوتوں کو منظم کرنے کا مرکز مانتے ہیں... نتیجتاً بورژوا انقلاب ابھی مکمل نہیں ہوا؛ اس کا عرصہ پورا نہیں ہوا؛ اور میرا خیال ہے کہ ہم سب کو یہ مان لینا چاہیے کہ اس انقلاب کی تکمیل کے بعد طاقت دراصل پرولتاریہ کے ہاتھوں میں چلی جائے گی۔‘‘ (کامنیف کی تقریر)

اس دلیل میں پائی جانے والی مایوسانہ قیاس آرائی واضح ہے۔ اس معاملے کا اصل اس حقیقت میں پوشیدہ ہے کہ ’’انقلاب کی تکمیل‘‘ اس وقت تک ممکن نہیں جب تک اقتدار رکھنے والوں کو بدل نہ دیا جائے۔ مندرجہ بالا تقریر انقلاب کے طبقاتی رخ کو نظرانداز کرتی ہے۔ طبقاتی قوتوں کی حقیقی گروپنگ کی بجائے انقلاب کی رسمی تعریف بطور بورژوا یا بورژوا ڈیموکریٹک کر کے یہ پارٹی کا کام متعین کرتی ہے۔ (یعنی) ہم پیٹی بورژوازی کے ساتھ ایک بلاک کا حصہ بنیں اور اس وقت تک بورژوازی کے اقتدار پر کنٹرول کرتے رہیں جب تک بورژوا انقلاب مکمل نہیں ہوجاتا۔ یہ انداز صاف مینشویکوں والا ہے۔ ڈیموکریٹک انقلاب سے یہ سمجھا گیا کہ آئین ساز اسمبلی(24) کے ذریعے بہت سی اصلاحات ہوں گی! علاوہ ازیں آئین ساز اسمبلی کے اندر بالشویک پارٹی کے بائیں بازو کے کردارکی ادائیگی مراد لی گئی۔ اس طرح کے منظرنامے میں ’’طاقت کا سرچشمہ سوویتیں ہوں‘‘ کا نعرہ بے معنی ہو جاتا ہے۔ اپریل کانفرنس میں آنجہانی نوگن نے، جس کا تعلق حزب اختلاف سے تھا، بہت منطقی اور جامع انداز میں اس کا اظہار کیا: ’’نشوونما کے عمل میں سوویتوں کا سب سے اہم فعل ختم ہوجائے گا۔ بہت سے انتظامی افعال میونسپل، ضلع اور دیگر اداروں کو منتقل ہو جائیں گے۔ اگر ہم ریاست کے ڈھانچے کی مزید چھان بین کریں تو ہم اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ پہلے آئین ساز اسمبلی کواور پھر پارلیمنٹ کودعوت دی جائے گی ... پس اس کا مطلب ہے کہ سوویتوں کے سب سے اہم افعال درجہ بدرجہ ختم ہوجائیں گے۔ البتہ اس کا یہ مطلب نہیں کہ سوویتوں کا خاتمہ رسوائی کے ساتھ ہوگا۔ وہ صرف اپنے افعال منتقل کردیں گی۔ پھر انہی سوویتوں کے ذریعے ہم اپنے ملک میں اشتراکی جمہوریہ حاصل کرسکیں گے۔‘‘

آخرکار ایک تیسرے مخالف نے اس مسئلے کو یوں بیان کیا کہ روس سوشلزم کے لیے تیار نہیں: ’’اگر ہم پرولتاری انقلاب کا نعرہ لگائیں تو کیا ہم عوام کی حمایت حاصل کرسکتے ہیں؟ روس یورپ میں سب سے زیادہ پیٹی بورژوا ملک ہے۔ سوشلسٹ انقلاب کے لیے عوامی ہمدردی پر بھروسا ناممکن ہے؛ اور نتیجتاً پارٹی جتنا سوشلسٹ انقلاب کا مؤقف اپنائے گی یہ اتنی پراپیگنڈا کرنے والاایک حلقہ بنتی جائے گی۔سوشلسٹ انقلاب کی قوتِ محرکہ کو لازماً مغرب سے آنا چاہیے۔

مزید برآں: ’’سوشلسٹ انقلاب کا سورج کہا طلوع ہوگا؟میرے خیال میں حالات اور عمومی ثقافتی سطح کے پیشِ نظر یہ ہمارا کام نہیں کہ ہم سوشلسٹ انقلاب کا آغاز کریں۔ ہمارے پاس ضروری قوتوں کی کمی ہے؛ ہمارے ملک میں اس کے معروضی حالات نہیں۔ لیکن مغرب کے لیے یہ ایسا ہی ہے جیسا ہمارے ملک میں زار کو اکھاڑنے کا سوال ہے۔‘‘

اپریل کانفرنس میں لینن کے مخالفین نے وہی نتائج تو نہ نکالے جو نوگن نے نکالے... لیکن ان تمام کو کئی ماہ بعد، اکتوبر کے آغاز پر،ان نتائج کو ماننا پڑا۔ پارٹی میں سوال یوں اٹھایا گیا تھا، یا تو ہمیں پرولتاری انقلاب کا رہنما بننا چاہیے یابورژوازی پارلیمنٹ میں حز بِ اختلاف کا کردار قبول کرنا چاہیے۔ یہ پوری طرح واضح تھا کہ آخرالذکر مؤقف مینشویکوں والا تھا، یا وہ مؤقف تھا جوفروری انقلاب کے بعد مینشوویک اختیار کرنے پر مجبور ہوئے۔ حقیقت یہ کہ مینشویک کئی سالوں سے اس خیال کی دھیرے دھیرے ترویج کررہے تھے کہ آئندہ کا انقلاب بورژوازی ہوگا؛ یہ کہ سوشل ڈیموکریسی کو بورژوا جمہوریت کا ذمہ خود نہیں لینا چاہیے بلکہ حزبِ اختلاف میں رہتے ہوئے ’’ بورژوازی کو بائیں بازو کی طرف دھکیلنے کی کوشش‘‘ کرنی چاہیے۔ یہ خیال مارٹینوف کی بیزار کرنے والی علمیت کے ساتھ ہی پروان چڑھا۔ 1917ء میں بورژوازی انقلاب کی ابتدا کے ساتھ ہی مینشویکوں نے خود کو حکومت کے سٹاف کے طور پر دیکھا۔ ان کے سارے ’’اصولی‘‘ مؤقف کو سامنے رکھ کر ایک ہی سیاسی نتیجہ نکلتا ہے، وہ یہ کہ پرولتاریہ کو اقتدار حاصل کرنے کی جرأت نہیں کرنی چاہیے۔ لیکن یہ بھی واضح ہے کہ جن بالشویکوں نے مینشویکوں کے وزارتیں لینے پر تنقید کی مگر اسی کے ساتھ پرولتاریہ کے اقتدار پر قبضہ کرنے کی مخالفت کی ، انہوں نے وہی مؤقف اپنایا جو انقلاب سے قبل مینشوویکوں کا تھا۔

انقلاب سے دو سمتوں میں سیاسی تبدیلی ہوئی۔رجعتی کیڈٹ ( Cadet) بن گئے اور کیڈٹ اپنی تمناؤں کے برخلاف ری پبلیکنز بن گئے... جو کہ خالصتاً بائیں بازو کی طرف ایک تبدیلی تھی ؛ سوشل انقلابی اور مینشویک حکمران بورژوازی پارٹی بن گئے... جوکہ دائیں بازو کی طرف ایک تبدیلی تھی۔ یہی وہ ذرائع ہیں جن کے ذریعے بورژوا سماج ریاست طاقت، استحکام، اور نظم پیدا کرتا ہے۔ لیکن اسی دوران جب مینشویک رسمی سوشلسٹ مؤقف سے بے ہودہ جمہوری مؤقف کی طرف سفر سے گزررہے تھے، بالشویکوں کا بایاں بازو رسمی سوشلسٹ مؤقف کی طرف جارہاتھا، یعنی کل کی مینشوک پوزیشن کی طرف۔ اس طرح کی ازسرِنو ترتیب جنگ کے سوال پربھی ہوئی۔ سوائے چند اصول پرستوں کے، بورژوازی نے وہی تھکا ہارا راگ الاپا: کوئی الحاق بذریعہ قبضہ نہیں ہوگا، کوئی تاوان نہیں ہوگا... اس لیے کہ قبضے کے بعدشمولیت کا امکان بہت کم تھا۔زمروالڈین (Zimmerwaldian) مینشویک اور سوشل انقلابی جنہوں نے فرانسسی سوشلسٹوں پر اس لیے تنقید کی تھی کیونکہ انہوں نے اپنی بورژوا جمہوری سرزمین کا دفاع کیا تھا خود اس وقت عذردار بن گئے جب انہوں نے خود کو بورژواجمہوریہ کا حصہ محسوس کیا۔ بین الاقوامیت پر مبنی ایک جامدمؤقف سے وہ حب الوطنی پر مبنی مستعدمؤقف کی طرف آگئے۔ اس دوران میں بالشویکوں کا دایاں بازو بین الاقوامیت پر مبنی ایک جامدمؤقف کی طرف آگیا ،(جمہوری امن کے لیے پروونشل گورنمنٹ پر ’’دباؤ‘‘ ڈالنا، ’’الحاق بذریعہ قبضہ اور تاوان‘‘کی مخالفت)۔ اس لیے اپریل کانفرنس میں پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت کے فارمولے نے نظریاتی اور سیاسی سطح پر الگ الگ رخ اختیار کیا، اور اسی سے دو مختلف نقطہ ہائے نظر وجود میں آئے۔ ایک جمہوری نقطۂ نظر، جو پرانے سوشلسٹ لبادے میں چھپا کر پیش کیا گیاتھا۔ اور دوسرا سوشلسٹ نقطۂ نظر جو بالشویک اور لیننی تھا۔

باب 5

جولائی کے دن ; کارنیلوف والا واقعہ ; ڈیمو کریٹک کانفرنس اور قبل از پارلیمنٹ

اپریل کانفرنس کے فیصلوں نے پارٹی کو درست اصولی راستہ دیا لیکن انہوں نے پارٹی کے رہنماؤں کے درمیان اختلافات کو تحلیل نہیں کیا۔ اس کے برعکس نئے واقعات کے ساتھ ان اختلافات نے ٹھوس شکل اختیار کر لی، اور انقلاب کے سب سے فیصلہ کن لمحے یعنی اکتوبر انقلاب کے دوران ان کا سب سے تند اظہارہوا۔

10 جون کو (لینن کی پہل پر) مظاہرہ منظم کرنے کی کوشش کو انہیں کامریڈز نے مہم جوئی قرار دے کر رد کیا جو اپریل کے مظاہرے کے کردارسے بھی مطمئن نہیں تھے۔ 10 جون کا مظاہرہ نہیں ہوا کیونکہ کانگرس آف سوویتس نے اسے ممنوع قرار دے دیا لیکن 18 جون کو پارٹی نے اپنا بدلہ لیا۔ پیٹرو گراڈ میں عام مظاہرہ، جس کی صلح جووں نے خلاف احتیاط پہل کی، تقریباً سارا کا سارا بالشویک نعروں کے تحت ہوا۔ بہرحال، حکومت نے اپنی راہ پکڑنے کی کوشش کی۔ اس نے بے فکری سے محاذِ جنگ پر احمقانہ جارحیت کرنے کاحکم دیا۔ وقت فیصلہ کن تھا۔ لینن پارٹی کو خلافِ احتیاط اٹھائے گئے قدموں پر خبردار کرتا رہا۔ 21 جون کو اس نے پراودا میں لکھا: ’’کامریڈز، اس موقع پر عملی اظہار بے موقع ہو گا۔ ہم اپنے انقلاب کے ایک بالکل نئے مرحلے میں داخل ہونے پر مجبور ہوئے ہیں‘‘۔* لیکن جولائی کے دن اسے (نئے مرحلے) نزدیک لے آئے۔۔۔ یہ راہِ انقلاب میں ایک اہم سنگ میل بنے، اسی کے ساتھ پارٹی کے اندرونی اختلافات کی راہ ہموار ہوئی۔

جولائی تحریک میں فیصلہ کن لمحہ اس وقت آیا جب پیٹرو گراڈ کے عوام نے اچانک دھاوا بول دیا۔ یہ بات یقینی ہے کہ جولائی میں لینن اپنے ذہن میں سوالوں پر یوں غور کر رہا تھا: کیا وقت آ چکا ہے؟ کیا عوام کا موڈ سوویت کے بالائی ڈھانچے سے آگے نکل چکا ہے؟ سوویت ضابطہ پرستی (soviet legality)سے کہیں ہمیں ہپناٹائز ہونے اور عوام کے موڈ سے پیچھے رہ جانے، اور ان سے کٹ جانے کا خطرہ تو نہیں؟ اس کا خاصا امکان ہے کہ جولائی کے دنوں میں الگ تھلگ اور خالصتاً عسکری آپریشنز ان کامریڈ نے شروع کیے ہوں جو یہ سمجھ رہے ہوں کہ وہ صورتِ حال پر لینن کے اندازوں سے انحراف نہیں کر رہے۔ لینن نے بعد ازاں کہا: ’’ہم نے جولائی میں بہت سے احمقانہ کام کیے‘‘۔ لیکن جولائی کے دنوں کا خلاصہ یہ تھا کہ ہم نے تحریک کا ایک اور، ایک نیا اور زیادہ جامع معائنہ نئے اور زیادہ اعلیٰ درجے پر کیا۔ مشکل حالات کی وجہ سے ہمیں پسپا ہونا پڑا۔ پارٹی نے، جس حد تک وہ سرکشی اور اقتدار پر قبضے کی تیاری کا سوال تھا۔۔۔ لینن کی طرح یہی سمجھا کہ جولائی کا مظاہرہ صرف سلسلے کی ایک قسط تھا جس پر ہمیں توجہ دینی چاہیے تاکہ ہم اپنی اور دشمن کی قوت کا اندازہ لگا سکیں،تاہم اس سے ہماری پارٹی کی سرگرمی کی بنیادی لائن تبدیل نہیں ہو سکتی۔ دوسری طرف وہ کامریڈز جو اقتدار پر قبضے کی پالیسی کے خلاف تھے انہیں جولائی کے واقعے میں تباہ کن مہم جوئی دکھائی دینا لازم تھا۔ پارٹی کے اندر دائیں بازو کے عناصر کی حرکت بہت بڑھ گئی ; ان کی تنقید زیادہ شدید ہو گئی۔ اسی طرح تردید کے انداز میں تبدیلی آئی۔ لینن نے لکھا: ’’زور و شور سے یہ سب شکایتیں، یہ ساری دلیلیں کہ ہمیں ’حصہ نہیں لینا چاہیے تھا‘ (تاکہ جائز عوامی عدم اطمینان اور غصے کو ’پرامن اور منظم‘ شکل دی جاسکے) یا تو محض انحراف کے برابرہے بشرطیکہ یہ بالشوویکوں کی طرف سے پیش کی جائیں، یا پیٹی بورژوازی کی عام طور پر رہنے والی بزدلانہ اورگومگو حالت کا اظہار ہے۔* اس وقت ’’انحراف‘‘ جیسے لفظ کا استعمال شدید اختلافات پر روشنی ڈالتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ اس منحوس الفاظ کا استعمال بھی زیادہ ہوتا گیا۔

بلاشبہ موقع پرستوں کے اقتدار اور جنگ کے سوال پر رویے کا اظہار انٹرنیشنل کے بارے میں رویے پر منعکس ہوا۔ دائیں بازو نے کوشش کی کہ پارٹی کو سماجی حب الوطنوں کی سٹاک ہوم کانفرنس میں لے جایا جائے۔ لینن نے 16 اگست کو لکھا:(25) ’’6 اگست کو سٹاک ہوم کانفرنس پر کامریڈ کامنیف کی سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی میں تقریر کو ان تمام بالشوویکوں کی ملامت کا سامنا کرنا پڑے گا جو اپنی پارٹی اور اس کے اصولوں سے وفادار ہیں۔‘‘*

علاوہ ازیں ان بیانات کے حوالے سے، جن کے مطابق سٹاک ہوم میں عظیم انقلابی جھنڈا لہرایا جا رہا ہے، لینن نے کہا: چرنوف اور سریٹلی کی روح کے مطابق یہ بے معنی جوشیلی تقریر ہے۔ یہ بالکل جھوٹ ہے۔ درحقیقت یہ انقلابی جھنڈا نہیں جو سٹاک ہوم پر لہرایا جا رہا ہے بلکہ سماجی سامراجیوں (Social Imperialists) کی طرف سے لین دین، معاہدوں اور تجاہل کار اور بینکروں کے درمیان مقبوضہ علاقے کو بانٹنے کے مذاکرات کا جھنڈا ہے۔**

سٹاک ہوم کا راستہ دراصل دوسری انٹرنیشنل کا راستہ تھا، اسی طرح جیسے قبل از پارلیمنٹ (Pre-Parliament) کا راستہ بورژوا جمہوریہ کا راستہ تھا۔ لینن سٹاک ہوم کانفرنس کے بائیکاٹ کے حق میں تھا، اسی طرح جیسے بعدازاں وہ قبل از پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کے حق میں تھا۔ اس کشمکش کی شدت کے باوجود ایک لمحے کے لیے بھی اس نے کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تخلیق کے کام کو نہیں بھلایا۔

یہاں تک کہ 10 اپریل کو لینن نے پارٹی کا نام تبدیل کرنے کی تجویز دے دی۔ نئے نام کے خلاف تمام اعتراضات کی خاصیتوں کو اس نے یوں بیان کیا: یہ لکیر کا فقیر ہونے کی دلیل ہے، یہ کاہلی کی دلیل ہے، یہ جمود کی دلیل ہے۔۔۔ یہ میلی کچیلی شرٹ اتار کر صاف ستھری پہننے کا وقت ہے۔

بہرحال پارٹی کے رہنماؤں کی مخالفت اتنی شدید تھی کہ نئے نام کو قبول کرنے اور مارکس اور اینگلز کی راہ پر آنے تک پورے سال کو گزرنا پڑا۔ یہ وقت ہے جس میں تمام روسیوں نے بورژوازی غلبے کے نجس کپڑوں کو اتار دیا۔ پارٹی کا نیا نام رکھنے کا کام 1917ء کے دوران لینن کے کردار کا علامتی اظہار ہے: تاریخ کے تیز ترین موڑ کے دوران وہ پارٹی کے اندر مستقبل کے لیے ماضی کی باتوں کے خلاف سخت جدوجہد کر رہا تھا اور حزب اختلاف، جس کا تعلق گزرے ہوئے دنوں سے تھا اور جو ’’روایت‘‘ کے جھنڈے تلے مارچ کر رہی تھی، سے اس وقت تعلقات انتہائی خراب ہو گئے۔ کورنیلوف کے (26) واقعات، جن سے صورت حال میں اچانک مثبت تبدیلی آئی، سے اختلافات وقتاً کم ہو گئے; وہ کم تو ہوئے مگر ختم نہیں ہوئے۔ ان دنوں میں دائیں بازو کے اندر ایک رجحان نے اپنا انقلاب کے دفاع اور جزوی طور پر وطن کے دفاع کو بنیاد بنا کر سوویت اکثریت کے قریب ہونے کی کوشش کی۔ اس پر لینن کے ردعمل کا اظہار ستمبر کے شروع میں لکھے گئے خط سے ہوتا ہے: میرا یقین یہ ہے کہ جو لوگ بے اصول ہو گئے ہیں۔۔۔ وہ ہیں جو یا عذرداریت کی جانب چلے گئے ہیں یا جنہوں نے (دیگر بالشویکوں کی طرح) سوشل انقلابیوں سے اتحاد بنا لیا ہے تاکہ پروونژل حکومت کی حمایت کی جا سکے۔ ان کا رویہ بالکل غلط اور بے اصولی پر مبنی ہے۔ ہم صرف پرولتاریہ کے ہاتھوں میں اقتدار آنے کے بعد عذرداریت پسند ہو سکتے ہیں۔۔۔ یہاں تک کہ ہم اب بھی کرنسکی حکومت کی حمایت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ بے اصولی ہے۔ ہم سے پوچھا جا سکتا ہے: ’کیا ہم کورنیلوف کے خلاف لڑنے جا رہے ہیں؟ بلاشبہ ہمیں ایسا ضرورکرنا چاہیے، لیکن یہ ایک جیسی بات نہیں; انہیں ایک لکیر تقسیم کرتی ہے جسے ان بالشویکوں نے نظر انداز کر دیا ہے جو صلح جوئی کا شکار ہوئے اور جنہیں حالات کا بہاؤ اپنے ساتھ لے گیا۔‘‘* منحرفانہ خیالات کے ارتکاز کا اگلا مرحلہ ڈیمو کریٹک کانفرنس 14) تا 22 ستمبر) اور اس کے بعد ہونے والی قبل از پارلیمنٹ 7) اکتوبر) (27) تھی۔ مینشویکوں اور سوشل انقلابیوں کا مقصد بالشویکوں کو سوویت ضابطہ پرستی اور پھر آہستہ آہستہ موخر الذکر کو بورژوا پارلیمانی ضابطہ پرستی کی جانب لے جانا تھا۔ دایاں بازو اسے خوش آمدید کہنے کے لیے تیار تھا۔ انقلاب آئندہ کیسے آگے بڑھے گا، اس پر ہم ان کے خیالات سے پہلے آگاہ ہو چکے ہیں: (یعنی) سوویتیں درجہ بدرجہ دیگر متبادل اداروں کو اپنے افعال منتقل کر دیں گی۔۔۔ ڈوما، زمستوس، ٹریڈ یونینز، اور بالآخر آئین ساز اسمبلی کو۔۔۔ اور پھر وہ از خود منظر سے غائب ہو جائیں گی۔ قبل از پارلیمنٹ کے ذریعے عوام کی سیاسی سوجھ بوجھ کو سوویتوں سے دور کرنا تھا، انہیں یہ سمجھا کر یہ ’’عارضی‘‘ اور مرتا ہوا ادارہ ہیں، اور آئین ساز اسمبلی کے بارے میں یہی خیال عام کرنا تھا کہ اس نے جمہوری انقلاب کا اعلیٰ کام سرانجام دینا ہے۔ اسی دوران میں بالشویک، جو پہلے ہی پیٹروگراڈ اور ماسکو سوویتوں میں اکثریت بن چکے تھے، فوج میں ان کا اثر و نفوذ دنوں نہیں بلکہ گھنٹوں کے حساب سے بڑھ رہا تھا۔ یہ اب پیش گوئی یا پیش منظر کا سوال نہیں تھا; اب سوال تھا کہ اگلے روز ہم نے عمل کیا کرنا ہے۔

ڈیمو کریٹک کانفرنس کے دوران کھوکھلی صلح جو پارٹیوں کا عمل گھٹیا کمینے پن پر مبنی تھا۔ ڈیموکریٹک کانفرنس کو ترک کرنے کی تجویز پر دائیں بازو کے ان عناصر نے شدید تنقید کی جو اعلیٰ سطح پر ابھی تک بااثر تھے۔ اس سوال پر جھگڑا قبل از پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کے سوال پر ہونے والی کشمکش کی تمہید تھا۔ 24 ستمبر کو یعنی ڈیمو کریٹک کانفرنس کے بعد لینن نے لکھا: ’’بالشویکوں کو احتجاجاً اجلاس سے باہر آ جانا چاہیے تھا اور سنجیدہ سوالات سے عوام کی توجہ ہٹانے کے لیے اس کانفرنس کے پھیلائے گئے جال میں نہیں پھنسنا چاہیے تھا۔‘‘ *

ڈیمو کریٹک کانفرنس میں قبل از پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کے سوال پر بالشویکوں کے ایک حصے کا بحث و مباحثہ محدود نوعیت کا ہونے کے باوجود غیر معمولی اہمیت رکھتا تھا۔ درحقیقت دائیں بازو کی طرف سے یہ سب سے بڑی اور بظاہر سب سے کامیاب کوشش تھی تاکہ پارٹی کو ’’جمہوری انقلاب کی تعمیل‘‘ کی جانب موڑا جا سکے۔ بظاہر ان مباحث کے منیٹس نہیں لیے گئے ; نہ کوئی ریکارڈ رکھا گیا; میرے علم کے مطابق ابھی تک سیکرٹری کی طرف سے لیے گئے نوٹس کا بھی پتا نہیں چل سکا۔ اس جلد (Volume) کے مدیروں کو میرے کاغذات میں تھوڑی سی دستاویزات ملیں۔ کامریڈ کامنیف نے ایک ایسی لائن پر تفصیلاً دلائل دیے جو بعدازاں زیادہ شدید اور واضح شکل میں تقسیم پارٹی کے نام کامنیف اور زینوویف کے معروف خط (بمورخہ 11 اکتوبر) میں ظاہر ہوئی۔ اس سوال کی سب سے اصولی فارمولیشن نوگن نے کی: قبل از پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کا مطلب سرکشی کو دعوت دینا ہے۔ یعنی جولائی دنوں کو دہرانا ہے۔ دیگر کامریڈز نے سوشل ڈیمو کریٹک پارلیمانی حکمتِ عملی پر ساری توجہ دی۔ کوئی پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کی تجویز پیش کرنے کی ہمت نہیں کر سکا; بہرحال ایک یہ تجویز آئی کہ ہمیں قبل از پارلیمنٹ کا بائیکاٹ کرنا چاہیے کیونکہ یہ نام ایک اور ادارے (پارلیمنٹ) سے مماثلت رکھتا ہے۔

دائیں بازو کے بنیادی خیالات یوں تھے: انقلاب لازماً سوویتوں سے ہوتا ہوا بورژوا پارلیمنٹیرین ازم کی طرف آتا ہے ; قبل از پارلیمنٹ اس عمل کی ایک فطری کڑی ہے; اس لیے پارلیمنٹ کی بائیں بنچوں (بطور حزب اختلاف) پر بیٹھنے کے لیے ہماری آمادگی کے بعد قبل از پارلیمنٹ میں حصہ لینے سے انکار بے وقوفی ہو گا۔ جمہوری انقلاب کو مکمل کرنا اور سوشلسٹ انقلاب کی ’’تیاری‘‘ کرنا ضروری ہے۔ ہمیں کیسے تیاری کرنی چاہیے؟ بورژوازی پارلیمنٹیرین ازم کے سکول سے پاس ہونے کے بعد; کیونکہ جیسے آپ جانتے ہیں ترقی یافتہ ملک پسماندہ ملک کو اس کے مستقبل کی شبیہہ دکھاتا ہے۔ یوں زاربادشاہت کے خاتمے کو انقلابی عمل سمجھا گیا مگر پرولتاریہ کے اقتدار پر قبضے کے لیے پارلیمانی راستہ سجھائی دیا کہ جو مکمل جمہوریت کے حصول بعد ممکن تھا۔ بورژوا انقلاب اور پرولتاری انقلاب کے درمیان سالوں پر محیط جمہوری حکومت کا عرصہ گزرنا ضروری تھا۔ قبل از پارلیمنٹ میں ہماری شمولیت کی جدوجہد مزدور طبقے کی تحریک کی ’’یورپینائزیشن‘‘ کے لیے تھی، یہ اسے جمہوری ’’جدوجہد برائے انقلاب‘‘ کی راہ پر یعنی سوشل ڈیمو کریسی کی راہ پر جتنا جلد ممکن ہو، لانے کے لیے تھی۔ ڈیمو کریٹک کانفرنس میں ہمارا حصہ، جو 100 سے زائد افراد پر مشتمل تھا، نے ان دنوں کی ایک پارٹی کانگرس جتنا تھا۔ زیادہ تر حصے نے قبل از پارلیمنٹ میں شرکت کے حق میں اظہار خیال کیا۔ یہ حقیقت بذاتِ خود خطرے کی گھنٹی بجنے کے لیے کافی تھی; اور اس وقت کے بعد لینن نے خطرے کی گھنٹی بجانا شروع کر دی۔

جب ڈیمو کریٹک کانفرنس کی کارروائی جاری تھی، لینن نے لکھا: ’’ہماری طرف سے یہ بہت بڑی غلطی ہو گی، محض پارلیمانی فتور عقل ہو گا کہ ہم ڈیمو کریٹک کانفرنس کو پارلیمنٹ قرار دیں; اگر وہ خود کو انقلاب کی مستقل اور خود مختار پارلیمنٹ ہونے کا دعویٰ کرے تب بھی نہیں، فیصلوں کی قوت ان سے باہر پیٹرو گراڈ اور ماسکو میں مزدور طبقے کے محلوں میں ہے۔*

قبل از پارلیمان میں شرکت یا عدم پر لینن کی جانچ کا اندازہ اس کے بہت سے اعلانات اور بالخصوص 29 ستمبر کو سنٹرل کمیٹی کو لکھے گئے اس کے خط سے کیا جا سکتا ہے جس میں وہ کہتا ہے ’’بالشویکوں سے اتنی فاش غلطیاں ہوئیں جیسے قبل از پارلیمنٹ میں شرکت کا شرمناک فیصلہ۔‘‘ اس کے مطابق یہ فیصلہ اسی جمہوری سراب اور پیٹی بورژوا تذبذب کا اظہار تھا جس کے خلاف لڑتے ہوئے اس نے پرولتاری انقلاب کے تصور کی تشکیل کی اور اسے نتھارا۔ یہ درست نہیں کہ بورژوا اور پرولتاری انقلاب کے درمیان کئی سالوں کا فاصلہ ہے۔ یہ درست نہیں کہ پارلیمنٹیرین ازم کا سکول اقتدار پر قبضے کے لیے واحد، بنیادی اور لازمی سکول ہے۔ یہ درست نہیں کہ اقتدار کا راستہ بورژوا جمہوریت سے ہو کر جاتا ہے۔ یہ سب محض تجریدی، نظریہ پرستی کے ڈھنگ ہیں، اور یہ صرف ایک سیاسی کردار ادا کرتے ہیں جو یہ ہے کہ پرولتاریہ کو اندھا کریں، اور ’’جمہوری‘‘ ریاستی مشینری کے ذریعہ سوشل ڈیمو کریسی کے نام پر بورژوازی کے تحت ایک حزب اختلاف بنا دیں۔ پرولتاریہ کی پالیسی کو ایسے نہیں بتایا جانا چاہیے تھا جیسے سکول کے بچے کو بتایا جاتا ہے بلکہ اسے حقیقی طبقاتی جدوجہد میں سے اخذ ہونا چاہیے۔ ہمارا کام قبل از پارلیمنٹ میں جانا نہیں بلکہ سرکشی منظم کرنا اور اقتدار پر قبضہ کرنا ہے۔ یہاں تک کہ لینن نے ایک ہنگامی پارٹی کانگرس کی تجویز دی تاکہ قبل از پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کے لیے اسے بطور پلیٹ فارم استعمال کیا جا سکے۔ اسی لیے اس کے تمام خطوط اور مضامین ایک نکتے پر تھے: ہمیں صلح جوؤں کی ’’انقلابی‘‘ دُم بن کر قبل از پارلیمنٹ میں نہیں جانا چاہیے، بلکہ باہر گلیوں میں جانا چاہیے اور اقتدار کے لیے جدوجہد کرنی چاہیے!

باب۔ 6

اکتوبر انقلاب سے ذرا پہلے ۔۔۔ نتائج

ہنگامی کانگریس غیر ضروری ثابت ہوئی۔ لینن کی طرف سے ڈالا گیا دباؤ سنٹرل کمیٹی کے اندر کو قبل از پارلیمنٹ میں ہمارے حصے کو بائیں جانب دھکیلنے کا باعث بنا۔ بالشوویک 10 اکتوبر کو اس سے دست بردار ہو گئے۔ بالشویکوں کی ہمدرد محافظ فوج کے ایک حصے کو محاذِ جنگ پر بھیجنے پر پیٹرو گراڈ میں سوویت حکومت سے ٹکرا گئی۔ 16 اکتوبر کو انقلابی ملٹری کمیٹی تشکیل دی گئی جو سرکشی کے لیے سوویت کا باضابطہ بازو تھی۔ پارٹی کے اندر دائیں بازو نے ان اقدامات کی مخالفت کی۔ پارٹی کے اندر مختلف رجحانات کی آپس میں کشمکش اور ملک میں طبقاتی جدوجہد فیصلہ کن مرحلے میں داخل ہو گئی۔ بنیادی پہلوؤں کو مدنظر رکھتے ہوئے دائیں بازو کے مؤقف کا بہترین اظہار زینوویف اور کامنیف کے دستخطوں والے اس ایک خط سے ہوتا ہے جس کا عنوان تھا ’ہماری موجودہ صورتِ حال‘۔ خط 11 اکتوبر کو لکھا گیا، یعنی سرکشی سے دو ہفتے قبل، اور اسے پارٹی کی سب سے اہم تنظیموں کو بھیجا گیا۔ خط مسلح سرکشی کے حق میں سنٹرل کمیٹی کی قرارداد کی بالکل مخالفت میں لکھا گیا۔ یہ دشمن کی طاقت کا کم اندازہ لگانے پر خط خبردار کرتا ہے لیکن دراصل اس میں انقلاب کی طاقت کا کم اندازہ لگایا گیا ہے بلکہ اس بات کو بھی نہیں مانا گیا کہ عوام لڑائی کے موڈ میں ہیں 25) اکتوبر سے دو ہفتے پہلے!) خط میں کہا گیا: ’’ہمیں پورا یقین ہے کہ مسلح سرکشی کا مطلب یہ ہے کہ نہ صرف ہماری پارٹی بلکہ روس اور عالمی انقلاب کے مستقبل کو ایک بات پر داؤ پر لگا دیا جائے۔‘‘

لیکن اگر سرکشی اور اقتدار کے حصول سے انکار کیا جائے تو اس کے علاوہ کیا کیا جائے؟ اس کے جواب میں خط سیدھا اور واضح ہے: ’’فوج کے ذریعے، مزدوروں کے ذریعے ہم نے بورژوازی کی کنپٹی پر پستول رکھا ہوا ہے۔‘‘ اور اس پستول کی وجہ سے بورژوازی آئین ساز اسمبلی کو ختم کرنے کے قابل نہیں ہو گی۔

’’آئین ساز اسمبلی میں ہماری پارٹی کی جیت کے شاندار مواقع ہیں۔۔۔ بالشویکوں کا اثر بڑھ رہا ہے۔۔۔ درست حکمت عملی سے ہم قانون ساز اسمبلی میں ایک تہائی یا اس سے بھی زیادہ نشستیں جیت سکتے ہیں۔‘‘

پس یہ خط واضح طور پر بورژوا آئین ساز اسمبلی میں ’’مؤثر‘‘ حزب اختلاف کے کردار کا مطالبہ کرتا ہے۔ یہ خالصتاً سوشل ڈیمو کریٹک راستہ اِن باتوں کو سامنے لا کر حقیقت چھپانے کی کوشش تھی: ’’سوویتوں، جن کی جڑیں عوام کی زندگی میں ہیں، کو ختم نہیں کیا جا سکتا۔ آئین ساز اسمبلی کو اپنے انقلابی کام کے لیے صرف سوویتوں پر انحصار کرنا پڑے گا۔ آئین ساز اسمبلی جمع سوویت، یہ وہ مشترکہ قسم کا ریاستی ادارہ ہو گا جس کی جانب ہم گامزن ہوں گے۔‘‘ دائیں بازو کی طرف ریاست کی ’’مشترکہ‘‘ شکلیں، آئین ساز اسمبلی سے سوویت کے تعلق کا بیان غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے کیونکہ ڈیڑھ یا دو سال بعد روڈالف بلفرڈنگ(28)، جو پرولتاریہ کے اقتدار پر قبضے کے خلاف لڑ رہا تھا، نے اسے دہرایا۔ آسٹرو، جرمن موقع پرستی ناواقف تھی کہ ان کی نقالی کی جا رہی ہے۔

’موجودہ صورتِ حال پر‘ کے عنوان سے لکھا گیا خط یہ ماننے سے انکار کرتا ہے کہ روس کے عوام کی اکثریت پہلے ہی ہماری حمایت کر رہی ہے اور اس انکارکی بنیاد پارلیمانی طریقے سے اکثریت کے اندازے لگاناتھی۔

خط میں لکھا گیا ہے ’’روس میں مزدوروں کی اکثریت اور سپاہیوں کا ایک معقول حصہ ہمارے ساتھ ہے۔ لیکن باقی سب گومگو کی حالت میں ہیں۔ ہمیں یقین ہے کہ اگر مثال کے طور پر آئین ساز اسمبلی کے انتخابات ہوں تو کسانوں کی اکثریت سوشل انقلابیوں کو ووٹ دے گی۔ کیا ایسا محض حادثاتی طور پر ہو گا؟‘‘

سوال کی مندرجہ بالا تشکیل اصولی اور بنیادی غلطی کی حامل ہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ سمجھنے میں غلطی کی گئی ہے کہ کسانوں کے مضبوط انقلابی مفادات ہو سکتے ہیں اور وہ ان کا حصول چاہ سکتے ہیں، لیکن ان کی آزادانہ سیاسی پوزیشن نہیں ہو سکتی۔ وہ یا سوشل انقلابیوں کو ووٹ دے کر بالواسطہ بورژوازی کو ووٹ دے سکتے ہیں یا میدان عمل میں پرولتاریہ کے ساتھ ہوں گے۔ ان دونوں میں سے وہ کون سی راہ لیں گے ان کا پورا دار و مدار ہماری پالیسی پر ہی ہے۔ اگر ہم قبل از پارلیمنٹ میں جا کر مؤثر حزب اختلاف کا کردار ادا کرتے (’’دو تہائی یا اس سے بھی زیادہ نشستیں جیت کر‘‘) تو ہم انہیں مجبور کرتے کہ وہ اپنی ضروریات پوری کرنے کے لیے آئین ساز اسمبلی پر انحصار کریں اور اس کا نتیجہ یہ نکلتا کہ وہ حزب اختلاف کی بجائے اکثریت کی طرف دیکھتے۔

دوسری طرف پرولتاریہ کے اقتدار پر فوری قبضے نے بڑے زمینداروں اور حکام کے خلاف کسانوں کی جدوجہد کے لیے انقلابی ڈھانچہ فراہم کر دیا۔ اس خط پر جو الفاظ ابھی تک تازہ ہیں وہ ہیں کسانوں کے بارے میں بیک وقت کم اندازہ اور زیادہ اندازہ۔ یہ کسانوں کے انقلابی امکانات (پرولتاریہ کی رہنمائی میں!) کا کم اندازہ لگاتا ہے اور ان کی سیاسی خود مختاری کا زیادہ اندازہ لگاتا ہے۔ کسانوں کے بارے میں بیک وقت کم اور زیادہ اندازہ لگانے کی وجہ اپنے طبقے اور اس کی پارٹی کا کم اندازہ لگانا ہے، یعنی سوشل ڈیمو کریٹک نظر سے پرولتاریہ کو دیکھنا۔ یہ باعثِ حیرت بالکل نہیں۔ موقع پرستی کے تمام رنگ، آخری تجزیے میں، انقلابی قوتوں اور پرولتاریہ میں پوشیدہ امکانات کی غلط جانچ کا نتیجہ ہیں۔

اقتدار پر قبضے پر اعتراض کرتے ہوئے خط پارٹی کو انقلابی جنگ سے ڈرانے کی کوشش کرتا ہے۔ ’’سپاہیوں کی اکثریت ہماری حمایت جنگ کے نعرے کی نہیں بلکہ امن کے نعرے کی وجہ سے کرتی ہے۔۔۔ اگر ہم نے اب اقتدار اپنے ہاتھ میں لے لیا تو پھر ہم اس نتیجے پر بھی پہنچ جائیں گے (عالمی صورت حال کو مدنظر رکھتے ہوئے) کہ انقلابی جنگ ناگزیر ہو گئی ہے، یوں سپاہیوں کی اکثریت ہم سے دور بھاگ جائے گی۔ بہترین نوجوان فوجی بے شک ہمارے ساتھ رہیں گے، لیکن سپاہیوں کی اکثریت دور بھاگ جائے گی۔‘‘ اس طرح کی سوچ سبق آموز ہے۔ ہمارے یہاں سامنے بریسٹ، لٹوسک امن معاہدے (29)پر دستخط کے حق میں پیش کیے گئے بنیادی دلائل ہیں مگر موجودہ موقع پر انہیں اقتدار پر قبضے کے خلاف استعمال کیا جا رہا ہے۔ خط بعنوان ’موجودہ صورتِ حال پر‘ میں جس مؤقف کا اظہار کیا گیا اس نے بعض ازاں بریسٹ، لٹووسک میں دی گئی خصوصی مراعات کو ایک الگ تھلگ حقیقت کے طور پر نہیں لیا بلکہ بریسٹ، لٹووسک کو اکتوبر سے جوڑا۔ یہ بات ہمیشہ ذہن میں رہنی چاہیے۔

مزدور طبقہ اس ان مٹ شعور کے ساتھ جدوجہدیں کرتا ہے اور بالغ ہوتا ہے کہ طاقتور قوتیں دشمن کی طرف ہیں۔ یہ طاقتور اس کی روزمرہ کی زندگی میں، ہر لمحہ اپنا اظہار کرتے ہیں۔ دشمن کے پاس دولت اور ریاستی طاقت ہے، نظریاتی دباؤ ڈالنے کے تمام ذرائع ہیں اور جبر کے تمام آلات ہیں۔ ہم اس خیال کے عادی ہو جاتے ہیں کہ اہم قوتیں دشمن کی طرف ہیں اور تیاری کے مرحلے میں انقلابی پارٹی کی ساری اندرونی زندگی اور سرگرمی کا یہ لازمی جز بن جاتا ہے۔ کسی ایک یا دوسری بے احتیاطی یا غلطی کے نتائج بھگتتے وقت دشمن کی طاقت بُری طرح یاد آنے لگتی ہے۔

لیکن ایک لمحہ آتا ہے جب دشمن کو طاقتور قرار دینے کی عادت فتح کی راہ میں حائل ہو جاتی ہے۔ آج بورژوازی کی کمزوری پر کل کی مضبوطی کی پر چھائی پڑ جاتی ہے۔ ’’آپ دشمن کی طاقت کا کم اندازہ لگاتے ہیں!‘‘ یہ پکار مسلح سرکشی کے مخالف تمام عناصر کا محور بن جاتی ہے۔

ہمارے اپنے ملک میں سرکشی کے مخالفین نے ہماری فتح سے دو ہفتے قبل لکھا ’’لیکن ہر فرد جو ابھار پر محض باتیں نہیں کرنا چاہتا اسے احتیاط کے ساتھ اس کے امکانات کو جانچنا چاہیے اور یہاں یہ کہنا اپنا فرض سمجھتے ہیں کہ اس لمحے اپنے دشمن کی قوتوں کا کم اندازہ لگانا اور اپنی قوتوں کا زیادہ اندازہ لگانا سب سے زیادہ نقصان دہ ہو گا۔ مخالفین کی قوتیں اس سے زیادہ ہیں جتنی کو دکھائی دیتی ہیں۔ پیٹرو گراڈ فیصلہ کن ہے، اور پیٹرو گراڈ میں پرولتاری پارٹی کے دشمنوں نے خاصی قوتوں کو جمع کر رکھا ہے: 5000 ملٹری کیڈٹس جو اچھی طرح مسلح، منظم اور بے تاب (اپنی طبقاتی پوزیشن کی وجہ سے) ہیں، اور لڑائی کی صلاحیت رکھتے ہیں; اس کے علاوہ سٹاف، شاک ٹروپس، کوساکس، گیریژن کا خاصا حصہ اور معقول آرٹلری، جس نے پیٹرو گراڈ کے گرد گھیرا ڈالا ہوا ہے۔ پھر ہمارے بدخواہ بلاشبہ سوویتوں کی آل رشین سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی کی مدد سے محاذِ جنگ سے فوجیں واپس لانے کی کوشش کریں گے۔‘‘ *

خانہ جنگی میں، اگر سوال صرف بٹالینز کی پہلے ہی سے گنتی کرنے کا نہ ہو بلکہ ان کے شعور کی حالت کے توازن کا اندازہ لگانے کا ہو تو بلاشبہ ایسا تخمینہ کبھی بھی مکمل تسلی بخش کافی نہیں ہوتا۔ یہاں تک کہ لینن نے اندازہ لگایا کہ دشمن کے پاس پیٹرو گراڈ میں زیادہ طاقت ہے، اور اس نے تجویز کیا کہ سرکشی ماسکو سے شروع ہو جہاں اس کے خیال میں یہ تقریباً بغیر خون بہائے ہو سکتی ہے۔ پیش بینی میں اس جزوی غلطی سے انتہائی سازگار حالت میں بھی گریز ممکن نہیں ہوتا اور ناسازگار حالات کے مطابق منصوبے بنانا ہمیشہ ٹھیک ہوتا ہے۔ لیکن یہاں ہماری دلچسپی کا امر یہ ہے کہ دشمن کی قوتوں کا بہت زیادہ اندازہ لگایا گیا تھا اور اس وقت جب دشمن کسی مسلح قوت سے محروم تھا سارے معاملے کو پوری طرح مسخ کیا گیا۔ یہ سوال۔۔۔ جیسا کہ جرمنی کے تجربے نے ثابت کیا۔۔۔ بہت زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ متحرک کرنے کے نقطۂ نظر سے جب سرکشی کے سلوگن تک جرمن کمیونسٹ پارٹی کے رہنما پہنچے انہوں نے دشمن کے پاس موجود مسلح افواج کے سوال کو بالکل نظر انداز کر دیا Reichswehr) ، فاشسٹ جتھے، پولیس وغیرہ)۔ انہیں یوں لگا کہ انقلاب کا بڑھتا ہوا طوفان فوج کے سوال کو از خود حل کر دے گا۔ لیکن جب کام سر پر سوار ہو گیا تو وہی کامریڈز جنہوں نے دشمن کی افواج کو غیر موجود سمجھا تھا، دوسری انتہا کی طرف چلے گئے۔ انہوں نے بورژوازی کی مسلح قوت کے اعداد و شمار پر کامل یقین کیا، اس میں Reichswehr اور پولیس کی طاقت کو بڑی احتیاط کے ساتھ شامل کیا; اور پھر انہوں نے اس کا شمار کیا 5) لاکھ اور کچھ مزید( اور سمجھا کہ ان کے سامنے ایک بڑی فوج آ گئی جو سر تا پا مسلح ہے اور ان کی کوششوں کو ناکارہ بنانے کے لیے کافی ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ جرمن ردِانقلابی قوتیں ہمارے کورنیلووائٹس اور نیم کورنیلووائٹس سے زیادہ منظم اور تیار تھیں۔ لیکن اتنی ہی مؤثر جرمن انقلاب کی قوتیں تھیں۔ پرولتاریہ جرمنی میں واضح اکثریت میں تھا۔ ہمارے ملک میں یہ سوال۔۔۔ کم از کم ابتدائی درجے پر۔۔۔ پیٹروگراڈامو ماسکو نے طے کیا۔ جرمن میں سرکشی پرولتاریہ کے کئی بڑے مراکز میں پھیل جاتی۔ ان حالات میں دشمن کی مسلح افواج اتنی ہولناک نہ ہوتی جتنی وہ اعداد و شمار میں نظر آتی تھیں۔ بہر طور جرمنی کے اکتوبر کی شکست کے بعد ان شکست کے جواز کے لیے مقصد کے تحت پیش کیے جانے والے اعداد و شمار کو بالکل رد کرنا چاہیے۔

اس حوالے سے ہماری روسی مثال کی بہت اہمیت ہے۔ پیٹرو گراڈ میں کسی خون خرابے کے بغیر ہماری فتح سے دو ہفتے قبل۔۔۔ اور ہم اسے دو ہفتے قبل بھی حاصل کر سکتے تھے۔۔۔ پارٹی کے تجربہ کار سیاست دانوں کو ملٹری کیڈٹس جو لڑائی کے لیے تیار اور اس کے قابل تھے، شاک ٹروپس، آرٹلری، گھیرا ڈالتے ہوئے اور محاذ جنگ سے آتے ہوئے دکھائی دے رہے تھے۔ لیکن حقیقت میں یہ کچھ نہیں تھے، ان کا کُل صفر تھا۔ اب ایک لمحے کے لیے یہ تصور کریں کہ سرکشی کے مخالف ہماری پارٹی اور سنٹرل کمیٹی میں جیت جاتے تو کیا ہوتا۔خانہ جنگی میں لیڈر شپ نے جو کردار اد اکیا وہ بہت ہی واضح ہے ورنہ اس طرح کی حالت میں انقلاب پہلے ہی سے تباہی سے دوچار ہو جاتا ۔۔۔اگر لینن مرکزی کمیٹی کیخلاف پارٹی سے اپیل نہیں کرتا جسکے کیلئے وہ تیاری کررہا تھا اور اس میں شک کی کوئی گنجائش نہیں تھی کہ وہ کامیاب نہ ہوتا ۔لیکن اس طرح کی ملتی جلتی صورتحال میں ہر پارٹی کے پاس اپنا لینن نہیں ہوتا اس خیال کو سمجھنا مشکل نہیں کہ مرکزی کمیٹی میں لڑائی کی تاریخ کو مٹادیا جاتا۔ سرکاری تاریخ دان بلاشبہ یہ وضاحت کرتے کہ اکتوبر 1917ء کی سرکشی صرف پاگل پن ہوتی; اور وہ قاری کو چونکا دیتے۔۔۔ ملٹری کیڈٹس، کوساکس، شاک ٹروپس اور آرٹلری کے متاثر کن اعداد و شمار اور محاذِ جنگ سے فوج کی آمد کے امکان سے سرکشی کے امتحان سے گزرے بغیر یہ فورسز اصل سے کہیں زیادہ ہولناک دکھائی دیتیں۔ یہاں ایک سبق ہے جو ہر انقلابی کے ذہن میں ہونا چاہیے!

پورے ستمبر اور اکتوبر میں لینن کی طرف سے۔۔۔ سینٹرل کمیٹی پر مسلسل، ان تھک اور لگاتار دباؤ اس خوف سے تھا کہ کہیں ہم مناسب موقع گنوا نہ دیں۔ دائیں بازو نے کہا کہ یہ سب فضول بات ہے، ہمارا اثر بڑھتا رہے گا۔ دایاں بازو کون تھا؟ اور مناسب مواقع گنوانے سے کیا مراد ہوتی ہے؟ اس سوال کا براہ راست تعلق اس ایک معاملے سے ہے جس پر انقلاب کے لیے بالشویکوں کی راہیں اور ذرائع سوشل ڈیمو کریٹ اور مینشویک اندازوں سے تیز اور واضح تضاد میں آ گئیں۔ اول الذکر پورے عمل میں فعال، سٹریٹیجک اور عملی تھے جبکہ آخر الذکر میں تقدیر پرستی پوری طرح سرایت کیے ہوئے تھی۔

مناسب مواقع گنوانے سے کیا مراد ہوتی ہے؟ ظاہر ہے سرکشی کے لیے سب سے موافق حالات دہ ہوتے ہیں جب طاقت کا توازن ہمارے حق میں ہو جائے۔ بلاشبہ ہم طاقت کے توازن کو شعور کے حوالے سے بیان کر رہے ہیں یعنی سیاسی بالائی ڈھانچے کی حدود میں، نہ کہ معاشی بنیادوں کی حدود میں، جو پورے انقلابی دور میں کم و بیش ایک جیسی رہ سکتی ہیں۔ ایک ہی معاشی بنیادوں، سماج کی وہی ایک طبقاتی تقسیم میں طاقت کے توازن میں تبدیلی کا انحصار پرولتاری عوام کے موڈ پر ہوتا ہے، اس حد جس تک ان کے فریب نظر کو چوٹ لگتی ہے اور ان کا سیاسی تجربہ بڑھتا ہے، اس حد جس تک ریاستی قوت میں درمیانی طبقات اور گروہوں کے اعتماد کو چوٹ پہنچتی ہے اور آخر کار اس حد جس تک آخر الذکر اپنے اوپر اعتماد کھوتا ہے۔

انقلاب کے دوران یہ تمام اعمال برق رفتاری سے ہوتے ہیں۔ حکمت عملی کا فن یہ ہوتا ہے: کہ ہم اس لمحے کا فائدہ اٹھائیں جب حالات کا مجموعہ سب سے زیادہ ہمارے حق میں ہو۔ کورنیلوف ابھار نے ایسے مجموعے کو تیار کر دیا۔ عوام، جو سوویتوں میں اکثریت رکھنے والی جماعتوں پر اعتماد کھو چکے تھے، نے اپنی آنکھوں سے ردِ انقلاب کے خطرے کو دیکھا۔ وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ اس صورتِ حال سے نکلنے کی راہ بالشوویکوں کے پاس ہے۔ نہ تو ریاستی طاقت کا انحطاط نہ ہی عوام کی بڑھتی ہوئی بے قراری اور بالشوویکوں پر اعتماد لامحدود وقت تک رہ سکتی تھی۔ اس بحران نے کسی ایک یا دوسری طرح حل ہونا تھا۔ لینن بار بار کہتا رہا ابھی نہیں تو کبھی نہیں! دائیں بازو نے رد کرتے ہوئے کہا: ’’پرولتاریہ کی پارٹی کے ہاتھوں میں طاقت منتقل کرنے کے سوال کو یوں پیش کرنا سنجیدہ تاریخی جھوٹ ہو گا:ابھی نہیں تو کبھی نہیں۔ جی نہیں۔ پرولتاریہ کی پارٹی بڑھے گی، اس کا پروگرام زیادہ سے زیادہ عوام تک پہنچے گا۔۔۔ اور صرف ایک راستہ ہے جس سے پرولتاری پارٹی اپنی کامیابی میں رکاوٹ ڈال سکتی ہے، اور وہ یہ ہے کہ موجودہ حالات میں وہ سرکشی کی ابتدا کا کام اپنے ذمہ لے۔۔۔ اس خطرناک پالیسی پر ہم خبردار کرتے ہیں۔‘‘*

تقدیر پرستی میں یہ امید انتہائی مطالعے کا تقاضہ کرتی ہے۔ اس میں نہ کچھ قومی ہے اور نہ ہی کچھ انفرادی ہے۔ گزشتہ سال ہم نے جرمنی میں اسی رجحان کا مشاہدہ کیا۔ یہ صلح جو تقدیر پرستی صرف عمل پر متذبذب ہونے یا اسے کرنے کے قابل نہ ہونے پر پردہ ڈالنے کے لیے ہے، یہ خود کو تسلی بخش پیش منظر میں چھپانے کے لیے ہے کہ ہمارا اثر زیادہ سے زیادہ بڑھ رہا ہے; وقت کے ساتھ ہماری قوتیں مزید بڑھ جائیں گی۔ کتنا بڑا مغالطہ! انقلابی پارٹی کی طاقت ایک مخصوص لمحے کے لیے بڑھتی ہے، اس کے بعد الٹ عمل شروع ہوتا ہے۔ عوام کی اُمیدیں پارٹی کے غیر فعال ہونے سے مایوسی میں بدل جاتی ہیں، جبکہ دشمن اپنے خوف سے نکل آتا ہے۔ اس مایوسی کا فائدہ اٹھاتا ہے۔ اکتوبر 1923ء میں ہم نے جرمنی میں ایسا فیصلہ کن موڑ دیکھا۔ 1917ء کے خزاں میں روس کے حالات کچھ اسی طرح تھے۔ چند ہفتوں کی مزید تاخیر کافی ہوتی۔ لینن درست کہہ رہا تھا۔ ابھی نہیں تو کبھی نہیں!

اور پھر سرکشی کے مخالفین اپنی آخری اور مضبوط ترین دلیل لائے ’’لیکن فیصلہ کن سوال دارالحکومت کے مزدوروں اور سپاہیوں کے جذبات کا ہے کہ آیا وہ گلیوں میں لڑنے ہی کو نجات سمجھتے ہیں، اور وہ اس کے لیے گلیوں میں جانے کے لیے بے تاب ہیں؟ جی نہیں۔ ایسے کوئی جذبات نہیں۔ اگر دارالحکومت میں غریب عوام میں گلیوں میں جانے کا جذبہ موجودہے تو اس سے یہ گارنٹی دی جا سکتی ہے کہ ان کی طرف سے شروع کی گئی سرکشی بڑی تنظیموں (ریلوے ورکرز یونینز، پوسٹل اور ٹیلی گراف مزدوروں کی یونین وغیرہ) کوساتھ کرلے گی کہ جہاں ہماری پارٹی کا اثر کمزور ہے لیکن یہاں تک کہ ایسا کوئی جذبہ فیکٹریوں اور بیرکوں میں بھی موجود نہیں، پس ایسا کوئی منصوبہ بنانا خودکو دھوکہ دینا ہو گا۔‘‘ **

11 اکتوبر کو لکھی گئی ان لائنوں کی غیر معمولی اور بروقت اہمیت اس وقت ہو جاتی ہے جب جرمن پارٹی کے رہنما کامریڈز کی طرف سے گزشتہ برس ایک ہڑتال کو ختم کرنے کی بات یاد کی جائے جس میں لڑائی کے لیے عوام کے تذبذب کو وجہ بتایا گیا۔ لیکن اس معاملے کی اساس اس حقیقت پر مبنی ہے کہ ایک کامیاب سرکشی عام طور پر اس وقت یقینی ہوتی ہے جب عوام کا خاطر خواہ تجربہ ہوتا ہے کہ جدوجہد میں جانے کی بجائے ثابت قدم اور باصلاحیت لیڈر شپ کا مطالبہ کیا جائے اور اس کا انتظار کیا جائے۔ اکتوبر 1917ء میں مزدور عوام یا کم از کم ان کے زیادہ شعوری حصے پہلے ہی یہ یقین کر چکے تھے۔۔۔ اپریل کے مظاہروں کے تجربے، جولائی دنوں اور کانیلوف کے واقعات کے تجربوں کی بنیاد پر۔۔۔ کہ نہ تو پچھڑے ہوئے عناصر کا احتجاج اور نہ ہی ابتدائی آپریشنز اب ایجنڈے کا حصہ ہیں۔۔۔ بلکہ اقتدار پر قبضے کے لیے فیصلہ کن سرکشی ہے۔ اسی حساب سے عوام کا موڈ زیادہ مرتکز، تنقیدی اور عمیق ہو گیا۔ فریب نظر والے، جوشیلے اور اساسی سے زیادہ تنقیدی اور شعوری موڈ کی جانب عبور کے لیے انقلابی تسلسل میں وقفہ چاہیے ہوتا ہے۔ عوام کے موڈ میں ایسے ترقی پسندانہ بحران پر صرف درست پارٹی پالیسی کے ذریعے قابو پایا جا سکتا ہے، جس کا مطلب ہے کہ پرولتاریہ کی سرکشی کی رہنمائی کے لیے پارٹی کی آمادگی اور صلاحیت۔ ایک طرف پارٹی جو طویل انقلابی احتجاج جاری رکھتی ہے، صلح جوؤں کے اثر سے عوام کو دور رکھتی ہے، اور پھر عوام کا بھرپور اعتماد حاصل کرنے کے بعد ڈگمگانا، بال کی کھال اتارنا، ذمہ داری سے بچنا، اور ابن الوقتی شروع کر دیتی ہے۔۔۔ ایسی پارٹی عوام کی سرگرمی روک دیتی ہے، ان میں فریبِ نظر اور تفرقہ پیدا کرتی ہے اور انقلاب کو خاک میں ملا دیتی ہے; لیکن اس کے پاس بنے بنائے جواب ہوتے ہیں۔ جیسے ناکامی کے بعد، عوام کی سرگرمی کافی نہیں تھی (وغیرہ) یہی کچھ خط بعنوان ’’موجودہ صورت حال پر‘‘ میں کیا گیا۔ خوش قسمتی سے لینن کی قیادت میں ہماری پارٹی ایسے رہنماؤں کے موڈ کو تحلیل کرنے میں کامیاب ہوئی۔ صرف اسی وجہ سے یہ کامیاب انقلاب کی رہنمائی کے قابل ہوئی۔

ہم نے سیاسی سوالات کی نوعیت کو اکتوبر انقلاب کی تیاری سے ساتھ جوڑ کر دیکھا، اور ہم نے ان اختلاف کے ماخذ تلاش کرنے کی کوشش کی جو اس وقت اٹھے; اور اب آخری فیصلہ کن ہفتوں میں پارٹی کے اندر ہونے والی جدوجہد پر مختصراً نگاہ ڈالنے کا کام باقی ہے۔

مسلح سرکشی کی قرارداد 10 اکتوبر کو سنٹرل کمیٹی نے منظور کی۔ 11 اکتوبر کو خط بعنوان ’موجودہ صورتِ حال پر‘ جس کا پہلے تجزیہ کیا گیا ہے، پارٹی کی زیادہ تر اہم تنظیموں کو بھیجا گیا۔ 18 اکتوبر کو جو کہ انقلاب سے پہلے کا ہفتہ ہے، میں Novaya Zhizn (نئی زندگی) میں کامنیف کا خط شائع کیا۔

اس خط میں کہا گیا کہ ’’نہ صرف کامریڈ زینوویف اور میں بلکہ بہت سے عملی کامریڈز یہ سمجھتے ہیں کہ قوتوں کے موجودہ توازن کے پیش نظر اور کانگرس آف سوویتس سے کئی دن قبل اور ان کی مرضی کے بغیر موجودہ لمحے میں مسلح سرکشی کا قدم ناقابل قبول ہے جو پرولتاریہ اور انقلاب کی برباد کر دے گا۔‘‘ *

25 اکتوبر کو پیٹرو گراڈ میں اقتدار پر قبضہ ہوا اور سوویت حکومت کا قیام عمل میں آیا۔

4 نومبر کو پارٹی کے بہت سے ذمہ دار ممبران نے سنٹرل کمیٹی اور کونسل آف پیپلز کمیسارز سے استعفیٰ دے دیا اور ایک الٹی میٹم دیا جس میں تمام سوویت پارٹیوں پر مشتمل اتحادی حکومت بنانے کا مطالبہ کیا گیا۔

انہوں نے لکھا ’’ورنہ واحد راستہ یہی ہو گا کہ خالص بالشویک حکومت کو قائم رکھنے کیلئے بنیاد سیاسی دہشت پر ہوگی‘‘ اور اسی وقت ایک اور ڈاکومنٹ میں کہا گیا: ’’ہم سنٹرل کمیٹی کی اس تباہ کن پالیسی کی ذمہ داری قبول نہیں کرتے جسے پرولتاریہ اور سپاہیوں کی اس واضح اکثریت کے خلاف اختیار کیا گیا ہے، جو جمہوریت کے مختلف حصوں کے درمیان جاری خون خرابے کو جلد از جلد ختم کرنا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے ہم سنٹرل کمیٹی سے مستعفی ہوتے ہیں تاکہ محنت کش عوام اور سپاہیوں تک اپنی رائے آزادی سے پہنچا سکیں اور انہیں اپنی پکار پر اکٹھا کر سکیں: ’تمام سوویت پارٹیوں کی حکومت زندہ باد! ’اس بات پر فوری اتفاق!‘ **

پس جنہوں نے مسلح سرکشی کی مخالفت کی اور اقتدار پر قبضے کو مہم جوئی قرار دیا، وہ سرکشی کی کامیابی کے بعد اقتداران جماعتوں کے حوالے کرنا چاہتے تھے جن سے لڑ کر پرولتاریہ نے اقتدار حاصل کیا۔ بالشویک پارٹی کو مینشویکوں اور سوشل انقلابیوں کو اقتدار دینے کی ضرورت تھی ہی کیوں؟ (سارا سوال تو اقتدار کا تھا!) اس پر حزب اختلاف کا جواب تھا: ’’ہمارے خیال میں ایسی حکومت کا قیام مزید خون خرابے، قحط، کالیڈین اور اس سے فوجی دستوں کے ذریعے انقلاب کو کچلنے کے لیے ضروری ہے; اور آئین ساز اسمبلی کے کانووکیشن اور آل رشین کانگریس آف سوویتس آف سولجرز اینڈ ورکرز ڈیپوٹیز کے منظور شدہ امن کے پروگرام پر عمل درآمد کرنے کے لیے ضروری ہے۔‘‘*

دوسرے الفاظ میں بورژوازی پارلیمنٹیرین ازم کی راہ ہموار کرنے کے لیے سوویتوں کا دروازہ استعمال کرنے کا سوال تھا۔ انقلاب نے قبل از انقلاب (Pre-Parliament) سے گزرنے سے انکار کیا، اور اکتوبر کے ذریعے اپنی راہ نکالی; حزب اختلاف کے فارمولے کے مطابق منشویکوں اور سوشل انقلابیوں کی مدد سے انقلاب کو آمریت سے بچانے کے لیے اسے بورژوازی حکومت کے دروازے سے گزارنا مقصود تھا۔ یہاں سوال اکتوبر کو تحلیل کرنا تھا۔ نہ اس سے زیادہ اور نہ اس سے کم۔ یہ فطری ہے کہ ان حالات میں مصالحت کی کوئی بات نہیں ہو سکتی تھی۔

اگلے دن 5 اکتوبر کو انہیں پیغامات پر مبنی ایک اور خط شائع ہوا۔ ’’میں پارٹی ڈسپلن کے نام پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ جب عقل سلیم اور عوامی تحریک کی اہم گھڑی تقاضا کر رہی ہے۔ مارکسی ان معروضی حالات کو توجہ نہیں دے رہے جو ہمیں بتا رہی ہیں کہ تباہی کے خطرے سے بچنے کے لیے تمام سوشلسٹ پارٹیوں سے مصالحت کی جائے۔۔۔ میں پارٹی ڈسپلن کے نام پر شخصیات کی پرستش نہیں کر سکتا کہ ان تمام سوشلسٹ پارٹیوں سے مصالحت کو داؤ پر لگا دوں جو ہمارے بنیادی مطالبات سے متفق ہیں۔ نہ ہی میں ایک لمحے کے لیے خون خرابے کو طول دینا چاہتا ہوں۔‘‘**

اس خط کا مصنف (لوزووسکی) اس بات پر اختتام کرتا ہے کہ ایک ہنگامی پارٹی کانگریس کی ضرورت ہے تاکہ اس سوال کا فیصلہ کیا جا سکہ ’’آیا رشین سوشل ڈیمو کریٹک لیبر پارٹی (بالشویک) مزدور طبقے کی مارکسی جماعت رہیں گے یا وہ بالآخر ایسا راستہ اختیار کریں گے جس کا انقلابی مارکسزم سے کوئی واسطہ نہ ہو۔‘‘***

بالکل ناامیدی کی صورتِ حال محسوس ہوتی تھی۔ نہ صرف بورژوازی اور جاگیردار، نہ صرف ’’انقلابی جمہوریت‘‘ جو بہت سی لیڈنگ باڈیز پر حاوی (جیسے آل رشین سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی آف ریلوے مین، آرمی کمیٹی، حکومت کے ملازمین، وغیرہ) بلکہ ہماری اپنی پارٹی کے چند اہم ترین ممبران سنٹرل ایگزیکٹو کمیٹی اور کونسل آف پیپلز کمیسارز کے ممبران پر بھی، جو اپنے پروگرام پر عمل درآمد کے لیے پارٹی کے اقتدار پر قبضے کی کھلم کھلا مخالفت کرتے تھے۔ اگر واقعات کو سطحی انداز میں کوئی دیکھے توبالکل ناامیدی کی صورت حال محسوس ہوتی تھی۔ حزب اختلاف کے مطالبات ماننے کا مطلب تھا کہ اکتوبر (انقلاب) کا خاتمہ کر دیا جائے۔ یوں ہم اسے حاصل نہ کر پاتے۔ پھر صرف ایک راستہ رہ گیا تھا: عوام کے انقلابی ارادے پر بھروسہ کیا جائے۔

7 نومبر کو پروادا میں ہماری پارٹی کی سنٹرل کمیٹی کی فیصلہ کن قرارداد شائع ہوئی جسے لکھنے والا لینن تھا، اور یہ انقلابی جذبے سے سرشار، واضح، سادہ اور بغیر کسی غلطی کے ضابطہ سازی کی گئی تھی اور پارٹی کے نچلے ارکان سے مخاطب ہوا تھا۔ اس اعلان نے پارٹی اور اس کی سنٹرل کمیٹی کی مستقبل کی پالیسی کے بارے میں کسی ابہام کو ختم کر دیا: ’’تمام بزدلوں، ضعیف الارادہ اور شکی افراد پر لعنت، اوران تمام پر بھی جو بورژوازی سے متاثر ہوئے، یا اس کے بالواسطہ حمایتیوں کے آگے گھٹنے ٹیکے! پیٹرو گراڈ، ماسکو اور دیگر مقامات کے مزدوروں اور سپاہیوں میں ذرہ برابر ہچکچاہٹ نہیں ہے۔ ہماری پارٹی سوویت پاور کے دفاع، مزدور عوام کے مفادات کے دفاع اور سب سے بڑھ کر مزدوروں اور غریب کسانوں کے دفاع کے لیے یک جان ہوکراور مضبوطی سے کھڑی ہے۔‘‘*

پارٹی کے انتہائی شدید بحران پر قابو پا لیا گیا۔ البتہ پارٹی کے اندر کی کشمکش ابھی تک ختم نہ ہوئی۔ آپس کی کشمکش کی بنیادی لائن وہی تھی لیکن اس کی سیاسی اہمیت ختم ہو گئی۔ ہم اس کا سب سے دلچسپ ثبوت یوریٹسکی کی اس رپورٹ میں ملتا ہے جو 12 دسمبر کو ہماری پارٹی پیٹرو گراڈ کمیٹی کے ایک سیشن میں پیش کی گئی، جس کا موضوع ’آئین ساز اسمبلی‘ کا اجلاس طلب کرنا تھا۔

’’ہماری پارٹی میں اختلافات نئے نہیں۔ ہم یہاں وہی رجحان ہیں جس نے پہلے سرکشی کے سوال پر اپنا اظہار کیا۔ کچھ کامریڈز کا اب خیال یہ ہے کہ ’آئین ساز اسمبلی‘ کا تاج انقلاب کی وجہ سے ہے۔ وہ اپنے مؤقف کی بنیاد مراسمِ دربار کی کھونٹی پر رکھتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں ہمیں حکمت عملی کے بغیر عمل نہیں کرنا چاہیے، وغیرہ وغیرہ۔ بطور ممبر آئین ساز اسمبلی وہ بالشویکوں پر اعتراض کرتے ہیں، اسے بلانے کی تاریخ رکھتے ہیں، اس میں طاقت کے توازن پر بات کرتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔ وہ چیزوں کو خالصتاً رسمی انداز میں لکھتے ہیں اور اس حقیقت کو نظر انداز کر دیتے ہیں کہ اس کنٹرول کی ایکسرسائز ان واقعات کا عکس ہے جو آئین ساز اسمبلی سے باہر ہو رہے ہیں۔۔۔ موجودہ وقت میں ہمارا مؤقف یہ ہے کہ ہم پرولتاریہ اور غریب کسانوں کے مفادات کے لیے لڑ رہے ہیں، جب کہ چند ایک کامریڈز کا خیال ہے کہ ہم بورژوا جمہوری انقلاب لا رہے ہیں جس کا سہرا لازماً آئین ساز اسمبلی کے سر ہونا چاہیے۔‘‘

آئین ساز اسمبلی کی تحلیل کو نہ صرف روس کی تاریخ میں ایک عظیم باب کے خاتمے کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے بلکہ ہماری پارٹی میں اتنے ہی اہم باب کے خاتمے کے طور پر بھی۔ اندرونی اختلاف پر قابو پا کر پرولتاریہ کی پارٹی نے نہ صرف اقتدار پر قبضہ کیا بلکہ اسے برقرار بھی رکھا۔

باب 7

اکتوبر کی سرکشی اور سوویت ضابطہ پرستی

ستمبر میں، جب ’ڈیمو کریٹک کانفرنس‘ جاری تھی، لینن نے مطالبہ کیا کہ ہمیں فوراً سرکشی کی جانب بڑھنا چاہیے۔ ’’سرکشی کو مارکسی طریقے سے سرانجام دینے کے لیے، یعنی بطور فن، وقت ضائع کیے بغیر ہمیں باغی دستے بھیجنے کے لیے ہیڈ کوارٹرز منظم کرنا ہیں، اپنی قوتوں کو پھیلانے، سب سے اہم مقامات پر قابل بھروسہ رجمنٹوں کو روانہ کرے، الیگزینڈری تھیٹر کو گھیرنے، پیٹر اور پال قلعوں پر قبضہ کرنے، جنرل سٹاف اور حکومت کو گرفتار کرنے اور آفیسر کیڈٹس اور سیویج ڈویژن میں وہ دستے بھیجنے کے لیے کہ جو دشمن کو شہر کے اہم مقامات پر داخل ہونے سے روکنے کے لیے مر مٹنے کو تیار ہوں ہمیں لازماً مسلح مزدوروں کو متحرک کرنا چاہیے اور انہیں جان پر کھیلنے والی آخری لڑائی لڑنے کا کہنا چاہیے، ٹیلی گراف اور ٹیلی فون ایکسچینج پر بیک وقت قبضہ کرنا چاہیے، ہمارے سرکشی کے ہیڈ کوارٹرز کو سنٹرل ٹیلی فون ایکسچینج میں لے آنا چاہیے اور اسے فون کے ذریعے تمام فیکٹریوں، تمام رجمنٹوں، مسلح لڑائی کے تمام مقامات وغیرہ سے منسلک کرنا چاہیے۔ بلاشبہ یہ سب مثال کے طور پر ہے، صرف یہ حقیقت بتانے کے لیے کہ موجودہ لمحے میں اس وقت تک مارکس ازم سے وفاداری قائم رکھنا اور انقلاب سے وفاداری قائم رکھنا ممکن نہیں جب تک ہم سرکشی کو ایک فن کے طور پر نہ لیں۔*

سوال کی مندرجہ بالا فارمولیشن سے یہ مفروضہ قائم ہوتا ہے کہ سرکشی کی تیاری اور تکمیل پارٹی کے چینلز کے ذریعے اور پارٹی کے نام پر ہوئی، اور پھر فتح پر کامیابی کی مہر کانگریس اور سوویتس نے ثبت کی۔ سنٹرل کمیٹی نے اس تجویز کی حمایت نہ کی۔ سرکشی کی قیادت سوویت چینلز کے اندر ہوئی اور ہمارے تحریک سے اس کارشتہ دوسری سوویت کانگریس سے بنا۔ رائے میں اس اختلاف کی تفصیلی وضاحت سے یہ واضح ہو گا کہ سوال اصولوں کا نہیں تھا بلکہ تکنیکی معاملات کا تھا جو عملی لحاظ سے بہت اہمیت کے حامل تھے۔

ہم پہلے یہ نکتہ اٹھا چکے ہیں کہ کس شدت کے ساتھ لینن نے سرکشی کو مؤثر کرنے پر بات کی۔ پارٹی رہنماؤں کے پس و پیش کے باعث کوئی بھی اظہارجو مؤثر سرکشی کا مؤخر ’سوویت کانگریس‘ سے رسمی رابطہ قائم کرے، بہت زیادہ تاخیر کرنے، پس و پیش کرنے والوں کو رعایت دینے، تذبذب کے باعث وقت ضائع کرنے، اور ایک جرم کرنے کے مترادف تھا۔ لینن ستمبر کے اواخر کے بعد سے اس خیال کو دہراتا رہا۔ اس نے 29 ستمبر کو لکھا ’’ہماری سنٹرل کمیٹی میں اور ہماری پارٹی کے رہنماؤں میں ایک رجحان یا رائے پائی جاتی ہے جو ’کانگریس آف سوویتس‘ تک انتظار کرنے کی حامی ہے اور یہ اقتدار پر فوری قبضے کی مخالف ہے، یہ فوری سرکشی کی مخالف ہے، اس رجحان یا رائے پر لازماً قابو پانا چاہیے۔‘‘ اکتوبر کے آغاز پر لینن نے لکھا ’’تاخیر جرم ہے، کانگریس آف سوویتس کے لیے انتظار رسمی باتوں میں پڑنے والا بچگانہ عمل، اور انقلاب سے غداری ہو گا۔‘‘

8 اکتوبر کو پیٹرو گراڈ کانفرنس میں اپنے تھیسس میں لینن نے کہا: ’’یہ ضروری ہے کہ کانگریس آف سوویتس میں پائے جانے والی خوش فہمیوں اور امیدوں کے خلاف جدوجہد کی جائے تاکہ اس تصور کی نفی کی جا سکے کہ ہمیں لازماً اس کے انعقاد کا ’انتظار‘ کرنا ہے۔‘‘

آخر کار 24 اکتوبر کو لینن نے لکھا: ’’یہ بالکل واضح ہے کہ بغاوت میں تاخیر مہلک ہو گی۔۔۔ تاریخ اس بات پر انقلابیوں کو معاف نہیں کرے گی کہ جب آج وہ فتح یاب ہو سکتے تھے تو انہوں نے لیت و لعل سے کام لیا (اور آج یقیناً وہ کامیاب ہوں گے)، جبکہ کل ان کی ہار ہو گی، دراصل وہ سب کچھ لٹا بیٹھیں گے۔‘‘

یہ تمام خطوط، جن کے تمام جملے تشکیل انقلاب کے لیے تھے، غیر معمولی اہمیت کے حامل ہیں کیونکہ یہ لینن کی خصوصیات بیان کرتے ہیں اور اس وقت کے حالات کا اندازہ پیش کرتے ہیں۔ ان میں جن بنیادی اور واضح خیالات کا اظہار کیا گیا تھا۔۔۔ وہ انقلاب پر تقدیر پرستانہ، ابن الوقتی، سوشل ڈیمو کریٹک، مینشویک رویے، جو کہ نہ ختم ہونے والی کسی فلم کی طرح تھے، پر غصّہ، احتجاج اور برہمی پر مبنی تھے۔ اگر عمومی طور پر وقت سیاست میں بنیادی عنصر ہے تو اس کی اہمیت جنگ اور انقلاب کے دوران سینکڑوں گنا بڑھ جاتی ہے۔ یہ بالکل ممکن نہیں ہوتا کہ کل ان کاموں کو مکمل کیا جائے جنہیں آج کرنا ہے۔ ہتھیار اٹھانا، دشمن پر قابو پانا، اقتدار پر قبضہ کرنا یہ سب ہو سکتا ہے آج ممکن ہو لیکن کل ناممکن۔

لیکن اقتدار پر قبضے کا مطلب ہے کہ تاریخ کے رُخ کو موڑ دیا جائے۔ کیا یہ واقعی سچ ہے کہ ایسے تاریخی واقعات کا انحصار 24 گھنٹے کے دورانیے پر ہوتا ہے؟ جی ہاں ایسا ہو سکتا ہے۔ جب معاملات مسلح سرکشی تک پہنچ جائیں تو واقعات کو سیاست کے طویل پیمانے سے نہیں ناپنا چاہیے بلکہ جنگ کے مختصر پیمانے سے ماپنا چاہیے۔ ان حالات میں کئی ہفتے، کئی دن، اور بعض اوقات صرف ایک دن ضائع کرنے کا مطلب انقلاب کی ہار یا ہتھیار ڈالنا ہوتا ہے۔ اگر لینن نے خبردار نہ کیا ہوتا، اگر اس کی طرف سے یہ سب دباؤ نہ ڈالا گیا ہوتا اور تنقید نہ کی گئی ہوتی، اگر اس نے انقلابی جذبے اور شدت کے ساتھ اپنے عدم اعتماد کا اظہار نہ کیا ہوتا تو پارٹی فیصلہ کن لمحے کے لیے صف آراء نہ ہوئی ہوتی، کیونکہ پارٹی کے اپوزیشن کے لیڈروں میں شدید مزاحمت تھی۔ جبکہ عہدے دار، بشمول خانہ جنگی کے، تمام جنگوں میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔

البتہ اسی کے ساتھ یہ بالکل واضح تھا کہ دوسری سوویت کانگریس کی تیاری کے اور اس کے دفاع کے پردے میں سرکشی کی تیاری اور اس پر عمل درآمد ہمارے لیے انتہائی مفید تھا۔ اس وقت جب ہم نے، بطور پیٹرو گراڈ سوویت، دو تہائی گیریژن کو محاذ جنگ پر بھیجنے کے کرنسکی کے احکامات کو رد کر دیا تو دراصل ہم مسلح سرکشی کی حالت میں داخل ہو گئے۔ لینن، جو اس وقت پیٹرو گراڈ میں نہیں تھا، اس حقیقت کی اہمیت کا مکمل اندازہ نہ لگا سکا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے اس دوران لکھے گئے تمام خطوط میں اس بات کا تذکرہ نہیں ہے۔ تاہم 25 اکتوبر کی سرکشی کا زیادہ نہیں تو کم از کم تین چوتھائی نتیجہ اس وقت برآمد ہو چکا تھا جب ہم نے پیٹرو گراڈ گیریژن کی منتقلی کی مخالفت کی; انقلابی فوجی کمیٹی (16اکتوبر) تشکیل دی; فوج کے تمام ڈویژنوں اور اداروں میں اپنے کمیسار نامزد کیے; اور نہ صرف پیٹرو گراڈ کے عمومی سٹاف بلکہ حکومت کو مکمل طور پر مفلوج کر دیا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے یہاں مسلح سرکشی تھی۔ پیٹرو گراڈ کی رجمنٹس،جو انقلابی کمیٹی کی رہنمائی میں اور ’دوسری سوویت کانگریس‘ کے دفاع کے نعرے کے تلے تھیں، کے ذریعے کسی مسلح خون خرابے کے بغیر ریاستی اقتدار کی قسمت کی حتمی فیصلہ ہونا تھا۔

لینن نے ماسکو میں سرکشی کے لیے مشاورت کی جہاں اس کے مفروضے کے مطابق ہم خون بہائے بغیر فتح حاصل کر سکتے تھے۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ زیر زمین رہنے کی وجہ سے وہ اکتوبر کے وسط میں دارالحکومت میں ہونے والی اس ’’پُرامن‘‘ سرکشی کے بعد فوج کے نچلے حصے اور فوج کے ڈھانچے میں ہونے والی موڈ کی بہت بڑی تبدیلی کو نہ دیکھ سکا۔ جس لمحے انقلابی فوجی کمیٹی کی ہدایت پر رجمنٹوں نے شہر سے جانے سے انکار کیا تو دارالحکومت میں ایک کامیاب سرکشی ہو گئی جسے بورژوازی ڈیمو کریٹک ریاست کے بالائی حصے پر بچے کھچے لوگ کم ہی دیکھ پائے۔ 25 اکتوبر کی سرکشی اپنی خاصیت میں ضمنی تھی، باوجود اس کے کہ پیٹرو گراڈ میں کونسل آف پیپلز کمیسارز کا اقتدار قائم ہو چکا تھا۔ یہ بات بھی واضح ہے کہ اگر ماسکو میں پیٹرو گراڈ سے قبل سرکشی شروع ہوتی تو یہ زیادہ عرصہ جاری رہتی اور وہ زیادہ خونر یز ہوتی ۔ ماسکو میں ناکامی کا اثر پیٹرو گراڈ پر ہوتا۔ اگر ایسا ہوتا تو پھر بھی کامیابی حاصل ہونے کے امکانات تھے لیکن جس طرح واقعات دراصل ہوئے اس سے زیادہ بچت ہوئی، وہ زیادہ موافق رہے اور ان سے زیادہ کامیابی ہوئی۔

ہم ’دوسری سوویت کانگریس‘ کی شروعات اور اقتدار پر قبضہ کم و بیش ایک ہی وقت میں کرنے میں کامیاب ہوئے کیونکہ مسلح سرکشی جو پرامن اور تقریباً ’’جائز‘‘ (لیگل) تھی۔۔۔ کم از کم پیٹرو گراڈ میں ۔۔۔ تین چوتھائی یا9یا10کی نسبت سے ...... کو زیادہ تر سرانجام دے چکے تھے۔ اس سرکشی کو ’’جائز‘‘ کہنے کا حوالہ اس زاویے سے دیا جا رہا ہے کہ یہ دوہری قوت (dual power)کے ’’حسبِ قاعدہ‘‘ (نارمل) حالات کا نتیجہ تھی۔ یہاں تک کہ جب صلح جوؤں کا پیٹرو گراڈ سوویت پر غلبہ تھا تو اس وقت بھی مسلسل یہ ہوتا تھا کہ سوویت نے حکومت کے فیصلوں کا ازسر نو جائزہ لے یا اس میں ترمیم کرے۔ یہ اس دور کی حکومت میں،جسے تاریخ میں ’’کرنسکی دور‘‘ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، ایک طرح سے اصول و ضوابط کا حصہ تھا ۔ جب ہم بالشویکوں پیٹرو گراڈ سوویت پر مقتدر ہوئے تو ہم نے دوہری قوت کے طریقوں کو جاری رکھا اور انہیں مزید کہا گیا۔ ہم نے خود ہی محاذ جنگ پر جانے کے احکامات پر ازسر نو غور کیا۔ اسی عمل ہی سے ہم نے پیٹرو گراڈ گیریژن کی حقیقی سرکشی کو جائز دوہری قوت کی روایتوں اور طریقوں سے ڈھانپ دیا۔ بات یہی ختم نہیں ہوتی۔ ہم نے سوویت کانگریس کی شروعات میں اقتدار پر قبضہ کے سوال پر اپنا مطالبہ جاری رکھا، ساتھ ہی ہم نے پہلے سے موجود دوہری قوت کو آگے بڑھایا اور مزید گہرا کیا، اور پورے روس میں بالشویک سرکشی کے لیے سوویت ضابطہ پرستی( legality) کا ڈھانچہ تیار کیا۔

ہم نے عوام کو سوویت کے آئینی واہموں میں مبتلا نہیں کیا، دوسری سوویت کانگریس کے لیے جدوجہد کرتے ہوئے ہم نے انقلابی فوج کو اپنی طرف کر لیا اور تنظیمی طور پر اپنی حاصلات کو استحکام بخشا۔ علاوہ ازیں ہم اپنی توقع سے بھی زیادہ دشمن اور صلح پسندوں کو کھینچنے میں کامیاب ہوئے۔ سیاست میں فریب، خطرناک ہوتا ہے اور انقلاب میں اس سے بھی زیادہ۔ زیادہ امکان ہے کہ آپ دشمن کو اُلّو بنانے میں ناکام ہو جائیں۔ اس کی بجائے جو آپ کی پیروی کر رہے ہیں وہ عوام بھی دھوکا کھا سکتے ہیں۔ ہمارا ’’فریب‘‘ 100 فیصد کامیاب رہا۔ اس لیے نہیں کہ یہ مکاروں کا تیار کردہ شاندار منصوبہ تھا جو خانہ جنگی سے بچنا چاہتی تھی بلکہ اس لیے کہ یہ صلح جو حکومت کے اپنے تضادات کی وجہ سے ہونے والے انحطاط سے برآمد ہوا تھا۔ عبوری حکومت (پروویژنل گورنمنٹ) گیریژن سے چھٹکارا چاہتی تھی۔ سپاہی محاذ جنگ پر نہیں جانا چاہتے تھے۔ ہم نے اس فطری نارضامندی کو سیاسی اظہار دیا; ہم نے اسے انقلابی مقصد اور ’’قانونی‘‘ جواز فراہم کیا۔ اسی لیے ہم نے گیریژن سے غیر معمولی ہم آہنگی بنا لی اور اسے پیٹرو گراڈ کے مزدوروں سے جوڑ دیا۔ اس کے برخلاف ہمارے مخالفین اپنی لاچار پوزیشن اور اپنی ڈگمگاتی ذہنیت کی وجہ سے سوویت کی آڑ (Soveit Cover) کو اس ظاہری طور پر لیا۔ وہ دھوکہ کھانے کے آرزومند تھے اور ہم نے ان کی آرزو پوری کرنے کا موقع فراہم کر دیا۔

صلح جوؤں اور ہمارے درمیان سوویت ضابطہ پرستی کے لیے کشمکش ہوئی، عوام کے ذہن میں تھا کہ ساری قوت کا ذریعہ سوویت ہیں۔ سوویتوں کے اندر سے کرنسکی، تسیرتیلی اور سکوبیلوف برآمد ہوئے۔ ہم اپنے بنیادی نعرے ’’تمام طاقت سوویتوں کے پاس‘‘ (All powers to the Soviets) سے پوری طرح جڑے رہے۔ بورژوازی نے ریاستی ڈوما کے ذریعے اقتدار حاصل کیا۔ صلح جوؤں کو کامیابی سوویتوں سے ملی; اور اسی طرح ہمیں بھی۔ لیکن صلح جو سوویت کو بے اثر کر دینا چاہتے تھے جبکہ ہم سوویتوں کو ساری طاقت منتقل کرنا چاہتے تھے۔ لیکن صلح جو ابھی سوویت کی روایت سے ناطہ نہیں توڑ سکتے تھے اور اس میں اور پارلیمنٹیرین ازم میں پل بنانے کی جلدی میں تھے۔ اسی ذہن کے ساتھ انہوں نے ’’ڈمو کریٹک کانفرنس‘‘ اور ’’قبل از پارلیمنٹ‘‘ بلائی۔ قبل از پارلیمنٹ میں سوویتوں کی شمولیت نے اسے جواز سا فراہم کر دیا۔ صلح جو سوویت ضابطہ پرستی کے دانے سے انقلاب کو پکڑنا چاہتے تھے اور پکڑنے کے بعد بورژوازی پارلیمنٹیرین ازم کی راہوں میں اسے گھسیٹنا چاہتے تھے۔

لیکن ہم بھی سوویت ضابطہ پرستی کو استعمال کرنے میں دلچسپی رکھتے تھے۔ ڈیمو کریٹک کانفرنس کے اختتام پر ہم نے صلح جوؤں سے منوا لیا کہ دوسری سوویت کانگریس بلائی جائے۔ اس کانگریس نے انہیں بہت مشکل پوزیشن میں ڈال دیا۔ ایک طرف وہ سوویت جواز سے منحرف ہوئے بغیر اس کی مخالفت نہیں کر سکتے تھے۔ دوسری طرف انہیں نظر آتا تھا کہ اپنی ترکیب کی وجہ سے کانگریس ان کے زیادہ کام کی نہیں۔ نتیجتاً جتنا ہم نے دوسری کانگریس کو ملک کا مالک بتانے کی سعی کی; اور اتنا ہم نے رد انقلاب کے ناگزیر حملوں کے مقابلے کے لیے کانگریس آف سوویتس کی حمایت اور دفاع کے لیے تیاری کی۔ اگر صلح جوؤں نے سوویت کی بنیاد پر براستہ قبل از پارلیمنٹ، سوویت جواز کے ذریعے ہمیں پکڑنے کی کوشش کی تو ہم نے اسی سوویت ضابطہ پرستی کے تحت دوسری کانگریس کے ذریعے انہیں اُلّو بنایا۔

اقتدار پر قبضے کے محض نعرے کی بنیاد پر مسلح سرکشی کی تیاری ایک بات ہے اور کانگریس آف سوویتس کے حقوق کے تحفظ کے نعرے کے تحت سرکشی کرنا دوسری بات ہے۔ پس اقتدار پر قبضے کے سوال پر دوسری کانگریس میں بات کا مطلب یہ نہیں تھا کہ کانگریس خود اس سوال کا حل پیش کرے گی۔ سوویت کی ایسی فیشن پرستی سے ہم بالکل بیگانہ تھے۔ اقتدار پر قبضے کا سارا ضروری کام، نہ صرف سیاسی، بلکہ اقتدار پر قبضے کا تنظیمی اور فوجی و تیکنیکی کام پوری رفتار سے ہوا لیکن اس کام کے لیے قانونی جواز ہمیشہ آئندہ کانگریس کے تحت فراہم ہو گیا کہ اقتدار کا سوال یہ کانگریس حل کرے گی۔ حملہ ایسے کیا گیا جیسے ہم دفاع کر رہے ہیں۔

دوسری طرف اگر پرویژنل گورنمنٹ کے ذہن میں خیال آتا کہ اسے اپنا دفاع سنجیدگی سے کرنا ہے تو وہ کانگریس اور سوویتس پر حملہ کر دیتی، اس کے کانووکیشن پر پابندی لگا دیتی اور اس طرح مخالفین کو ایک محرک مل جاتا، جو حکومت کے لیے بہت نقصان دہ ہوتا یعنی مسلح سرکشی کا۔ علاوہ ازیں ہم نے نہ صرف پرویژنل حکومت کو سیاسی مشکل میں ڈال دیا بلکہ ان کے پہلے ہی سے کاہل اور بے اختیار ذہنوں کو مزید لوری دی۔ یہ لوگ سنجیدگی سے یہ سمجھتے تھے کہ ہم صرف سوویت پارلیمنٹیرین ازم، اور اس نئی کانگریس کے لیے فکر مند ہیں جو اقتدار کے سوال پر نئی قرارداد لائے گی۔ اسی طرح کی قراردادوں۔۔۔ جیسی پیٹرو گراڈ اور ماسکو نے اختیار۔۔۔ کو قبل از پارلیمنٹ اور کیں اور نئی آئین ساز اسمبلی کابہانہ بنا کروہ نظر انداز کر دیں گے، اس طرح ہم مضحکہ خیز پوزیشن میں آ جائیں گے۔

ہمارے پاس کرنسکی کی ناقابل تردید شہادت تھی جس کا مطلب تھی کہ درمیانے طبقے کے دانا بالکل اسی جانب جھک چکے تھے۔ اپنی یادداشتوں میں کرنسکی بتاتا ہے کہ 25 اکتوبر کو آدھی رات کے وقت کس طرح دوران مطالعہ اس کے اور ڈان ودیگر کے درمیان مسلح سرکشی پر، جو اس وقت بھرپور طریقے سے جاری تھی، تنازعے شروع ہو گئے۔ کرنسکی کہتا ہے۔ ’’ڈان نے دعویٰ کیا کہ پہلی بات یہ ہے کہ وہ مجھ سے زیادہ باخبر ہیں، اور یہ کہ اپنے ’رجعتی سٹاف‘ کی وجہ سے میں واقعات کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہوں۔ اس نے پھر مجھے مطلع کیا کہ جمہوریہ کی سوویتس کی اکثریت نے جو قرارداد منظور کی ہے، اور جس سے ’حکومت کی عزت نفس‘ کو اتنی ٹھیس پہنچی ہے، (دراصل) بہت گراں قدر ہے اور ’عوام کے موڈ میں تبدیلی‘ لانے کے لیے لازمی ہے; یہ کہ اس کا ’اثر ‘ شروع ہو گیا ہے، اب اب بالشوویک پراپیگنڈہ کا اثر تیزی سے انحطاط، کا شکار ہو گا۔ دوسری طرف، ڈان کے اپنے الفاظ میں، بالشوویکوں نے سوویت اکثریت کے رہنماؤں سے مذاکرات میں خود یہ ’سوویت اکثریت کی خواہش کے سامنے جھکنے‘ کے لیے تیار ہونے کا اعلان کیا ہے; اور یہ کہ وہ اس سرکشی کو خاموش کرنے کے لیے ’کل‘ ہی تمام اقدامات کے لیے تیار ہیں جو ان کی خواہش اور اجازت کے بغیر شروع ہوئی! بالشویکوں کے بارے ذکر کرتے ہوئے یہ نتیجہ نکالا کہ وہ اپنے عسکری سٹاف پر ’کل‘ پابندی لگا دیں گے اور کہا کہ سرکشی کو کچلنے کے لیے میں نے جو بھی اقدامات کیے اس سے ’عوام برہم ہوئے‘ اور یہ کہ میری مداخلت سے عموماً ’’بالشویک اکثریت کے نمائندوں کو‘‘ سرکشی کی تحلیل کے لیے بالشوویکوں سے مذاکرات میں ’رکاوٹ‘ ہوئی۔

’’تصویر کو مکمل کرتے ہوئے میں (کرنسکی) یہ اضافہ کرتا چلوں کہ جس لمحے ڈان یہ شاندار معلومات مجھ تک پہنچا رہا تھاسرخ فوج کے مسلح دستے ایک کے بعد دوسری سرکاری عمارت پر قبضہ کر رہے تھے اور ڈان اور اس کے ساتھیوں کے ونٹر پیلس کے جاتے ہی پرویژنل گورنمنٹ سے سیشن سے فارغ ہو کر گھر جاتے ہوئے وزیر کارٹاشیف کومیلونی سٹریٹ سے گرفتار کر کے فوراً سمولنے (Smolny) لے جایا گیا جہاں ڈان بالشوویکوں سے پرامن مذاکرات کرنے گیا تھا۔ مجھے لازماً یہ اقرار کرنا چاہیے کہ اس وقت بالشویکوں نے بہت توانائی اور ہنر کا مظاہر کیا۔ اس لمحے جب سرکشی عروج پر تھی اور جب ’سرخ فوجیں‘ پورے شہر میں عمل کر رہی تھیں تو بہت سے بالشویک رہنماؤں، جنہیں یہ کام سونپا گیا تھا، کامیابی سے ’انقلابی جمہوریت‘ کے نمائندوں کو ایسے بنا دیا کہ وہ دیکھتے ہوئے نابینا رہے اور سننے کی قوت کے باوجود بہرے، ساری رات یہ مکار لوگ ان مختلف فارمولوں پر تکرار کرتے رہے جن کے بارے میں خیال تھا کہ وہ مفاہمت اور سرکشی کی تحلیل کی بنیاد ہوں گے۔ ’مذاکرات‘ کے اس طریقے کے ذریعے بالشویکوں نے بہت سا وقت حاصل کیا لیکن مینشویکوں اور سوشل انقلابیوں کی جنگجو قوتوں کو بروقت متحرک نہ کیا جا سکا۔ لیکن بلاشبہ یہ وہ تھا جسے کیا جانا چاہیے تھا!‘‘*

اچھا کہا! یہ وہ تھا جسے کیا جانا چاہیے تھا! صلح جو، جیسا کہ مندرجہ بالا تذکرے سے اخذ کرتے ہیں۔ سوویت جواز میں پھنسے ہوئے تھے۔ کرنسکی کا یہ مفروضہ کہ مینشویکوں اور سوشل انقلابیوں کو سرکشی کی تحصیل کے امکانات پر بعض بالشویکوں نے دھوکہ دیا دراصل سچ نہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ مذاکرات میں سب سے زیادہ وہ بالشویک سرگرم تھے جو واقعی سرکشی کو تحلیل کرنا چاہتے تھے، اور جو اس فارمولے پر یقین کرتے تھے کہ تمام جماعتوں کے صلح جوؤں کے ساتھ مل کر سوشلسٹ حکومت قائم کی جائے۔ البتہ معروضی طور پر ان پارلیمنٹیرینز نے بلاشبہ سرکشی کی کچھ خدمت ضرور سرانجام دی۔یوں کہ اپنے واہموں سے دشمن کے واہموں کو تقویت دی۔ لیکن وہ یہ خدمت صرف اس لیے سرانجام دینے میں کامیاب ہوئے کیونکہ ان کے مشوروں اور خبردار کرنے کے باوجود پارٹی نے سرکشی پر پرزور اصرار کیا اور اسے انجام تک پہنچایا۔

غیر معمولی حالات، بڑے اور چھوٹے دونوں، کا ملاپ اس وسیع کام کی کامیابی کے لیے ضروری تھا۔ اس سے بڑھ کر ایسی فوج کی ضرورت تھی جو مزید لڑنا نہ چاہتی ہو۔ انقلاب کا راستہ بالخصوص ابتدائی درجوں کے دوران۔۔۔ فروری سے اکتوبر تک، جیسا کہ ہم نے پہلے کہا، بالکل مختلف ہوتا اگر ملک میں انقلاب کے وقت لاکھوں پر مشتمل ایک ٹوٹی پھوٹی اور مایوس کسان فوج نہ ہوتی۔ان حالات ہی نے پیٹرو گراڈ گیریژن سے کیے گئے تجربے کو کامیابی سے ہمکنار کیا جس کا نتیجہ کامیاب اکتوبر انقلاب کی صورت میں نکلا۔

اس ’خشک‘ اور تقریباً غیر محسوس سرکشی اور کارنیلوف اور اس کے ساتھیوں کے خلاف سوویت ضابطہ پرستی کے دفاع کے اس مخصوص ملاپ پر کسی مقدس قانون کے اطلاق کی بات نہیں کی جا سکتی۔ اس کے برخلاف، ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ یہ تجربہ پھر کہیں اس شکل میں کبھی نہیں دہرایا جائے گا۔ لیکن اس کا فکر و احتیاط سے مطالعہ بہت ضروری ہے۔ یہ ہر انقلابی کو وسعتِ نظر دینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ یہ اس کے سامنے ان راہوں اور ذرائع کی پیچیدگی اور تنوع کو لاتا ہے جنہیں بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ بشرطیکہ مقصد ذہن میں ہو، صورتِ حال کا صحیح ادراک ہو اور جدوجہد کو انجام تک پہنچانے کا مصمم عزم ہو۔

ماسکو میں سرکشی لمبی رہی اور اس میں زیادہ قربانی دینا پڑی۔ اس کی جزوی وضاحت اس حقیقت میں پنہاں ہے کہ محاذِ جنگ کی طرف منتقلی کے حوالے سے ماسکو گیریژن اس طرح کی انقلابی تیاریوں سے نہیں گزرا جس طرح پیٹرو گراڈ گیریژن گزرا۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں اور اسے دہراتے ہیں کہ پیٹرو گراڈ میں مسلح سرکشی قسطوں میں ہوئی: پہلی ماہ اکتوبر کے ابتدائی حصے میں، جب پیٹرو گراڈ کے دستوں نے سوویت کا فیصلہ مانتے ہوئے، جو ان کی اپنی خواہش سے پوری طرح مطابقت رکھتا تھا، ہیڈ کوارٹر سے آنے والے احکامات کو ماننے سے انکار کر دیا۔۔۔ اور ایسا دھڑلے سے کیا۔ اور دوم 25 اکتوبر کو، جب ایک چھوٹی اور ضمنی سرکشی کی ضرورت تھی تاکہ فروری میں پیدا ہونے والے ریاستی اقتدار کی نال(Umblical Card) کو کاٹا جا سکے۔ لیکن ماسکو میں سرکشی ایک ہی مرحلے میں ہوئی، اور یہ یہی بنیادی وجہ تھی کہ یہ اتنی طویل تھی۔

لیکن ایک اوروجہ بھی تھی: لیڈر شپ اتنی فیصلہ کن نہیں تھی جتنی ہونی چاہیے۔ ماسکو میں عسکری کارروائی سے مذاکرات کی طرف جھول ہوا اور فوری بعد مذاکرات سے عسکری کارروائی کی طرف۔ رہنماؤں کا متذبذب ہونا، جو ان کے پیروکاروں کی طرف منتقل ہوتا ہے، سیاست میں عموماً نقصان دہ ہوتا ہے، اور پھر مسلح سرکشی کے حالات میں یہ جان لیوا حد تک خطرناک ہوتا ہے۔ حکمران طبقہ پہلے ہی اپنی قوت پر اعتماد کھو چکا ہوتا ہے (ورنہ فتح کی عموماً کوئی امید نہ ہوتی) لیکن ڈھانچہ (ریاستی) اس کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔ انقلابی طبقے کا کام ریاستی ڈھانچے پر فتح حاصل کرنا ہے۔ ایسا کرنے کے لیے اس کا اپنی قوتوں پر اعتماد ضروری ہے۔ ایک بار جب پارٹی مسلح سرکشی کی رہنمائی کرتی ہے تو پھر اس سے اسے تمام لازمی نتائج اخذ کرنے چاہئیں۔ A la guerre comme a laguerre (جنگ جنگ ہوتی ہے) جنگ کے حالات میں ڈگمگاہٹ یا تاخیر کا شکار ہونا کسی دوسرے وقت کے مقابلے میں کم بجا ہوتا ہے۔ جنگ کی پیمائش کی چھڑی چھوٹی ہوتی ہے۔ خاموشی سے وقت گزارنا، چاہے چند گھنٹوں کے لیے ہی، حکمران طبقے کے اعتماد میں اضافہ کرنے والا جبکہ باغیوں کے اعتماد میں کمی کرنے والا قدم ہوتا ہے۔ لیکن اسی سے قوتوں کا توازن طے ہوتا ہے، جو سرکشی کا نتیجہ طے کرتی ہے۔ اس نقطۂ نگاہ سے ماسکو میں عسکری کارروائی اور اس کے سیاسی لیڈر شپ سے تعلق کا قدم بقدم مطالعہ کرنا ضروری ہے۔

ان کئی مواقع کی طرف اشارہ کرنا بہت اہمیت کا حامل ہو گا۔ جہاں خصوصی حالات کی وجہ سے صورت حال پیچیدہ ہو گئی مثلاً قومی عناصر کی بے جا مداخلت سے۔ ایسی تحقیق جو احتیاط سے اکٹھے کیے گئے مبنی بر حقیقت ڈیٹا پر مشتمل ہو، خانہ جنگی کی حرکیات کے متعلق ہمارے علم میں بہت اضافہ کرے گی۔ اس طرح یہ بعض ایسے طریقوں، اصولوں اور تراکیب کی وضاحت کو آسان بنائے گی جن کی مد سے خانہ جنگی کی عمومی خصوصیات پر مشتمل ایک طرح کا ’مینوئل‘ تیار ہو سکے، لیکن ایسی تحقیق کے جزوی نتائج کی پیش بینی کرتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ صوبوں میں خانہ جنگی نے جو راہ اپنائی اس کا فیصلہ، ماسکو میں تاخیر کے باوجود پیٹرو گراڈ سے برآمد ہونے والے نتیجے سے ہوا۔ فروری انقلاب نے پرانے ڈھانچے میں دراڑ ڈال دی۔ پرویژنل گورنمنٹ کو یہ ورثے میں ملا اور وہ نہ اس کی تجدید کر سکی اور نہ اسے مضبوط بنا سکی۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ فروری اور اکتوبر کے دوران اس کا ریاستی ڈھانچہ بیورو کریٹک جمود کی ایک نشانی بن گیا۔ صوبائی بیورو کریسی وہ کچھ کرنے کی عادی ہو گئی جو پیٹرو گراڈ کرتا تھا; اس نے فروری میں یہی کیا، اور اکتوبر میں اسے دہرایا۔ ہمارے لیے یہ بہت سود مند تھا کہ ہم ایک ایسی حکومت کا تختہ الٹنے کی تیاری کر رہے تھے جسے مستحکم ہونے کا وقت نہیں ملا تھا۔ بہت زیادہ عدم استحکام اور فروری کے ریاستی ڈھانچے کی ضمانت کے مطالبے نے انقلابی عوام اور بذات خود پارٹی کو رفتہ رفتہ اپنے اوپر اعتماد کرنے میں بہت معاونت کی۔

اس طرح کی صورت حال 9 نومبر 1918ء کے بعد جرمنی آور آسٹریا میں رہی۔ البتہ وہاں سوشل ڈیمو کریسی نے ریاستی ڈھانچے کی دراڑوں کو بھرا اور ایک بورژوا جمہوری حکومت قائم کرنے میں مدد دی، اور اگرچہ اس حکومت کو استحکام کی اعلیٰ مثال نہیں سمجھا جا سکتا، بہرحال اس نے 6 سال گزار لیے ۔

فی الحال جہاں تک دیگر سرمایہ دارانہ ممالک کا تعلق ہے تو انہیں یہ سودمندی حاصل نہیں ہو گی یعنی بورژوازی اور پرولتاری انقلاب میں قربت۔ ان کا فروری کب کا گزر چکا۔ یقیناً برطانیہ میں جاگیرداری کی بہت سی اچھی نشانیاں موجود ہیں لیکن برطانیہ میں خود مختار بورژوازی انقلاب کی بات کرنے کی کوئی بنیاد نہیں رہی۔ ملک کو بادشاہت اور لارڈز سے پاک کرنے کا کام برطانوی پرولتاریہ اقتدار میں آنے کے بعد پہلے جھاڑو سے کر دیں گے۔ مغرب میں پرولتاری انقلاب کو مستحکم بورژوازی ریاست سے نمٹنا ہو گا۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ اسے مستحکم ریاستی ڈھانچے سے نمٹنا ہو گا; پرولتاری سرکشی کے امکان ہی کا مطلب سرمایہ دارانہ ریاست کی اعلیٰ عمل کے ذریعے تحلیل ہے۔ اگر ہمارے ملک میں اکتوبر انقلاب ایک ایسے ریاستی ڈھانچے سے جدوجہد میں وجود میں آیا جو فروری کے بعد خود کو مستحکم نہ کر سکتی تھی، تو پھر دیگر ممالک میں سرکشی کا سامنا ایسے ریاستی ڈھانچے سے ہو گا جو تیزی سے انحطاط پذیر ہو گی۔

اس بات کو عمومی اصول مانا جا سکتا ہے۔ ہم نے یہ نکتہ بہت پہلے کمنٹرن کی چوتھی عالمی کانفرنس میں اٹھایا۔۔۔ کہ پرانے سرمایہ دارانہ ممالک میں عمومی طور پر ہمارے ملک کے مقابلے میں بورژوازی کی مزاحمت بہت زیادہ ہو گی; پرولتاریہ کے لیے جیت زیادہ مشکل ہو گی; لیکن دوسری طرف اقتدار پر قبضہ انہیں ہمارے اکتوبر کی نسبت زیادہ مستحکم اور مضبوط حیثیت میں لے آئے گا۔ ہمارے ملک میں خانہ جنگی بڑے پیمانے پر پرولتاریہ کے بڑے شہروں اور صنعتی مراکز پر قبضے کے بعد پھیلی اور سوویت اقتدار کے پہلے تین سالوں تک جاری رہی۔ تمام اشارے یہی بتاتے ہیں کہ وسطی اور مغربی یورپ میں پرولتاریہ کے لیے اقتدار پر قبضہ مشکل ہو گا لیکن اقتدار پر قبضے کے بعد وہ زیادہ آزادی سے اقدامات کر سکیں گے۔ فطری بات ہے، یہ مستقبل کے بارے میں مفروضے ہیں۔ بہت انحصار اس بات پر ہو گا کہ یورپ کے مختلف ممالک میں انقلاب کس ترتیب سے آتا ہے، فوجی مداخلت کے امکانات کیا ہیں اور سوویت یونین کی عسکری و معاشی طاقت کتنی ہے وغیرہ۔ لیکن جو بھی ہو ہماری بنیادی بات یہ ہے کہ روس کی نسبت یورپ اور امریکہ میں اقتدار پر قبضے کا حقیقی عمل زیادہ سنجیدہ، ضدّی ہو گا۔ وہاں مزاحمت کے لیے حکمران طبقے کی تیاری زیادہ ہو گی اور اسی لیے ہم پر لازم ہے کہ ہم مسلح سرکشی کو بالخصوص اور خانہ جنگی کو بالعموم ایک فن کے طور پر دیکھیں۔

باب 8

پرولتاری انقلاب میں سوویتس اور پارٹی ذکر، ایک مرتبہ پھر

ہمارے ملک میں 1905ء اور 1917ء دونوں مواقع پر ورکرز ڈپٹیز کی سوویتیں جدوجہد کے ایک خاص مرحلے پر تحریک سے فطری طور پر برآمد ہوئیں۔ لیکن کم عمر یورپی پارٹیاں جنہوں نے سوویتس کو کم و بیش ایک ’’نظریہ‘‘ یا ’’اصول‘‘ کے طور پر مان لیا ہمیشہ سوویت کو اندھا دھند ماننے کے مسئلے کا شکار ہو سکتے ہیں، یہ کہ یہی انقلاب کے لیے کافی ہیں۔ اقتدار پر قبضے کے لیے سوویتوں کے بطور آرگن بے پناہ فوائد ہونے کے باوجود یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جدوجہد تنظیم کی دیگر اشکال (فیکٹری کمیٹی، ٹریڈ یونینز وغیرہ) کی بنیاد پر سامنے آئے اور سوویتیں سرکشی کے دوران، یہاں تک کہ کامیابی کے بطور ریاستی آرگنز کے طور پر وجود میں آئیں۔

اس نقطۂ نظر سے سب سے مفید لینن کی وہ جدوجہد ہے جو اس نے جولائی کے دنوں میں سوویتوں کی تنظیمی شکل پر فیشن پرستی کے خلاف کی۔ جولائی میں سوشلسٹ انقلابیوں اور مینشویکوں کی طرح سوویتوں نے کھلے عام سپاہیوں کو بالشویکوں پر حملہ کرنے اور انہیں کچلنے کی کوشش کی۔ انہوں نے ایسا اس حد تک کیا کہ پرولتاری عوام کی تحریک دوسرے راستے تلاش کرنے پر مجبور ہو گئی۔ لیکن لینن نے اشارہ دیا کہ فیکٹری کمیٹیاں اقتدار کی جدوجہد کی تنظیمیں ہو سکتی ہیں (مثال کے طور پر کامریڈ Ordzhoni Kidze کی یادداشتوں کا مطالعہ کیجیے) یہ بہت ممکن تھا کہ کامریڈز اسی لائن کو اپناتے مگر کارنیلوف کے ابھارنے صلح جو سوویتوں کو مجبور کر دیا کہ وہ اپنا دفاع کریں اور اس سے بالشویکوں کے لیے یہ ممکن ہوا کہ نئے انقلابی ماحول میں عوام کو بائیں بازو یعنی بالشویک دھڑے سے جوڑ سکیں۔

جیسا کہ حالیہ جرمن مثال سے عیاں ہے، یہ سوال انتہائی بین الاقوامی اہمیت کا حامل ہے۔ جرمنی میں سوویتس کسی سرکشی کے بغیر کئی مرتبہ وجود میں آئیں۔ یہ کسی ریاستی اقتدار کے بغیر ریاستی اقتدارکے آرگنز کے طور پر وجود میں آئیں۔ اس سے مندرجہ ذیل سفر ہوا: 1923ء میں وسیع پرولتاریہ اور نیم پرولتاریہ عوام فیکٹری کمیٹیوں کے گرد اکٹھا ہونا شروع ہو گئے جنہوں نے وہ سارے افعال سرانجام دینا شروع کر دیے جو اقتدار پر قبضے سے قبل ہماری سوویتوں نے دیے تھے۔ پھر بھی 1923ء کے اگست اور ستمبر میں بہت سے کامریڈز نے یہ تجویز دی کہ جرمنی میں ہمیں فوراً سوویتس بنانے کی طرف جانا چاہیے۔ شدید مباحثے کے بعد اس تجویز کو رد کر دیا گیا اور ایسا درست طور پر ہوا۔ اس حقیقت کے پیش نظر کہ انقلابی عوام کے عمل کے لیے فیکٹری کمیٹیاں مرکز بن گئیں ہیں، سوویتیں تنظیم کی محض متوازی شکل ہوتیں جو تیاری کے مرحلے میں بے کار ہوتیں۔ از خود ختم ہونے والی تنظیمی شکلوں سے سرکشی کو نتھی کر کے وہ اس کے مادی اہداف (فوج، پولیس، مسلح گروہ، ریلویز وغیرہ) سے توجہ ہٹاتے۔

اور دوسری طرف، سرکشی سے قبل اور سرکشی کے فوری امور کے علاوہ سوویتوں کی تخلیق کا مطلب یہ اعلان کرنا ہوتا ’’ہم آپ پر حملہ کرنا جانتے ہیں‘‘ حکومت فیکٹری کمیٹیوں کو اس وقت تک برداشت کرتی جب تک وہ عوام کو اکٹھا کرنے کا مرکز نہ بن جاتیں لیکن سوویت بننے پر وہ اس خیال پر جم جاتی کہ یہ اقتدار پر قبضے کا رسمی آرگن ہے۔ کمیونسٹوں کو سوویت کے دفاع میں سامنے آنا پڑتا جو خالصتاً تنظیمی وجود ہوتیں۔ فیصلہ کن لڑائی کسی مادی پوزیشن کے حصول یا اس کے دفاع کے لیے نہ پھوٹتی، نہ اس لمحے جب ہم چاہتے۔۔۔ اس لمحے جب سرکشی عوامی تحریک کے حالات سے جنم لیتی ہے; جی نہیں لڑائی سوویت کے ’’بینر‘‘ تلے اس وقت شروع ہوتی جب دشمن چاہتا۔

اسی دوران یہ بالکل واضح تھا کہ سرکشی کا سارا کام فیکٹری اور شاپ کمیٹیوں کے احکامات تک کامیابی سے ہوتا، جو پہلے ہی عوامی تنظیمیں بن چکی تھیں اور ان کی تعداد اور طاقت مسلسل بڑھ رہی تھی اور اس سے پارٹی کو موقع مل سکتا تھا کہ وہ سرکشی کی تاریخ نسبتاً آزادی سے طے کرتے۔ بلاشبہ کسی ایک مقام پر سوویتیں ابھر آئیں۔ یہ بات مشکوک ہے کہ مندرجہ بالا حالات میں آیا وہ سرکشی کی بلاواسطہ آرگنز ہوتیں، کیونکہ اس سے اہم ترین لمحے میں دو انقلابی مراکز کے وجود میں آنے کا خطرہ ہوتا۔ ایک انگریزی محاورے کے مطابق ندی پار کرتے ہوئے گھوڑوں کو نہیں بدلنا چاہیے۔ یہ ممکن ہے کہ ملک کے تمام فیصلہ کن علاقوں میں فتح کے بعد سوویتیں بنائی جائیں۔ بہرحال ایک کامیاب سرکشی کا نتیجہ یہی نکلا کہ ریاستی قوت کے طور پر سوویتیں وجود میں آتیں۔

یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ہمارے ملک میں سوویتوں نے انقلاب کے ’’جمہوری‘‘ مرحلے میں ترقی کی اور اس مرحلے پر ہم اس کے وارث بنے اور انہیں استعمال میں لائے۔ مغرب کے پرولتاری انقلاب میں اسے دہرایا نہیں جا سکے گا۔ یہاں زیادہ تر کمیونسٹوں کے کہنے پر سوویتیں وجود میں آئیں گی اور پرولتاری سرکشی کی بلاواسطہ آرگنز ہوں گی۔ اس بات سے قطعی انکار نہیں کیا جا سکتا کہ پرولتاریہ کے اقتدار پر قبضے سے قبل بورژوازی ریاستی ڈھانچے کی ٹوٹ پھوٹ کا بحران بہت زیادہ شدت اختیار کر جاتا اور اس سے سوویتیں سرکشی کی تیاری کی کھلی آرگنز بن جاتیں۔ لیکن اسے عمومی اصول نہیں مانا جا سکتا۔ زیادہ امکان یہ ہے کہ بالکل آخری دنوں میں سوویتیں سرکش عوام کے بلاواسطہ آرگنز کے طور پر وجود میں آئیں۔ آخر میں، ایسا بھی بالکل ممکن ہے کہ سرکشی کا اہم ترین مرحلہ گزرنے کے بعد سوویتیں نئے ریاستی اقتدار کے بلاواسطہ آرگنز کے طور پر وجود میں آئیں یا اس وقت جب یہ مرحلہ اختتام پذیر ہو چکا ہو۔

ان تمام اقسام کو ذہن میں رکھنا چاہیے تاکہ ہم تنظیمی فیشن پرستی کا شکار ہونے سے بچ سکیں، اور سوویتوں کو جدوجہد کی زندہ شکل کے طور پر دیکھنے کی بجائے اسے ایسا تنظیمی ’اصول‘ مان لیں جو باہر سے نافذ کیا جاتا ہے اور جو اس کی قدرتی نشوونما کو روک دے۔

پریس میں ایسی باتیں ہوئی ہیں کہ ہم یہ بتانے کی پوزیشن میں نہیں کہ برطانیہ میں انقلاب کس چینل کے ذریعے آئے گا۔ کیا یہ کمیونسٹ پارٹی کے چینل سے آئے گا یہ ٹریڈ یونین سے۔ اس سوال پر ایسی فارمولیشن مصنوعی انداز سے تاریخ کو دیکھتی ہے; یہ بہت خطرناک ہے کیونکہ اس سے گزشتہ چند سالوں کے بنیادی اسباق کو بھلا دیا جاتا ہے۔ اگر جنگ کے اختتام پر انقلاب کی فتح نہیں ہوئی تو اس کی وجہ یہ تھی کہ پارٹی نہیں تھی۔ یہ نتیجہ پورے یورپ پر لاگو ہوتا ہے۔ اسے دوسرے ملکوں کی انقلابی تحریکوں کے انجام میں بھی تلاش کیا جا سکتا ہے۔

جرمنی کے حوالے سے معاملہ بالکل واضح ہے۔ جرمن انقلاب 1918ء اور 1919ء دونوں میں کامیاب ہو گیا ہوتا اگر پارٹی لیڈر شپ کو بچا لیا گیا ہوتا۔ 1917ء میں فن لینڈ میں بھی ایسا ہوا۔ وہ بہت سازگار حالات میں انقلابی تحریک انقلابی روس کے بازو اور عسکری مدد کے تحت پروان چڑھی۔ لیکن فن لینڈ کی پارٹی کی لیڈر شپ سوشل ڈیمو کریٹک ثابت ہوئی اور انہوں نے انقلاب کو برباد کر دیا۔ ہنگری کے تجربے سے بھی یہی سبق ملتا ہے۔ وہاں بائیں بازو والے سوشل ڈیمو کریٹس سے مل کر کمیونسٹوں نے اقتدار پر قبضہ نہ کیا بلکہ اسے پریشان بورژوازی کے حوالے کر دیا۔ ہنگری کے انقلاب کو جو کسی لڑائی اور فتح کے بعد کامیاب تھا، آپس میں جھگڑتی لیڈر شپ کے حوالے کر دیا گیا۔ کمیونسٹ پارٹی سوشل ڈیمو کریٹک پارٹی میں اس طرح ضم ہوئی کہ یہ خود کمیونسٹ پارٹی نہ رہی۔ نتیجتاً ہنگری کے مزدوروں کے جدوجہد کے عزم کے باوجود وہ اس اقتدار پر قبضہ نہ کر سکی جسے اس نے اتنی آسانی سے حاصل کیا تھا۔ پارٹی کے بغیر ، پارٹی سے ہٹ کر ، پارٹی سے بالا بالا یا پارٹی کے کسی بھی متبادل طریقے سے پرولتاری انقلاب فتح حاصل نہیں کر سکتا ۔ پچھلے عشرے کا یہ سب سے بڑا سبق ہے ۔ یہ درست ہے کہ انگریزوں کی مزدور تنظیمیں پرولتاری انقلاب کا ایک مؤثر ذریعہ بن جا ئیں اور یہ بھی ہوسکتا ہے ، مثال کے طور پہ کہ مخصوص حالات میں ایک خاص مدت کیلئے وہ ’ ورکرز سویت ‘ کی جگہ بھی لے لیں ، لیکن وہ کیمونسٹ پارٹی سے ہٹ کر ایسا کردار ادا نہیں کر سکتیں اور پارٹی کی مخالفت میں تو وہ ایسا کردار بلکل بھی ادا نہیں کر سکتیں ، یہ کردار یہ تنظیمیں صرف اُس صورت میں ادا کر سکتیں ہیں کہ اِن مزدور تنظیموں پر کیمو نسٹ اثرات ہی فیصلہ کُن اثرات ہوں ۔ اور اس نتیجے تک پہنچنے کیلئے ہم نے بہت بڑی قیمت ادا کی ہے کہ پرولتاری انقلاب میں پارٹی کی اہمیت سے انکار کریں یا اُ سکو کم کریں ۔ شعورواِدراک ، سوچ بچار اور منصوبہ بندی ایک بورژوا انقلاب میں بہت محدود کردار ادا کرتے ہیں بہ نسبت اُس کردار کے جو درحقیقت اُنکا بنتا ہے اور جو کردار وہ پرولتاری انقلاب میں ہمیشہ ادا کرتے آئے ہیں ۔ اوالذکر مثال ( بورژوا انقلاب ) میں بھی قوتِ محرکہ عوام ہی فراہم کرتے ہیں ، لیکن مؤ خرالذکر یعنی ( پرولتاری انقلاب) موجودہ عہد کی نسبت بہت کم منظم اور بہت کم شعوری تھے ۔ قیادت بورژوا کے مختلف طبقوں کے ہاتھوں میں تھی ، بورژوا کے پاس دولت بھی تھی اور تعلیم بھی ، اور وہ تمام انتظامی سہولیات بھی جو اُن سے وابستہ ہوتی ہیں ( یعنی شہر ، یو نیورسٹیاں اور پریس وغیرہ )۔ بیورو کریسی کی بیساکھیوں پر قائم بادشاہت نے تو بڑی کسمپرسی کی حالت میں اپنا دفاع کیا تھا ، وہ چوری چھپے تحقیقات کرتے اور پھر اُن پر عمل ۔ لیکن بورژوا اُس مناسب موقع کا انتظار کرینگے جب وہ ادنیٰ طبقات کی تحریک سے فائدہ اُٹھا سکیں اور اپنا سماجی وزن ترازو میں ڈال دیں اور ریاستی طاقت پر قبضہ جما لیں ۔ پرولتاری انقلاب اس حقیقت کی وجہ سے ممتاز ہوتا ہے کہ پرولتاریہ ۔۔اپنے ہراول دستے کی صورت میں ۔۔اس میں نہ صرف ایک حملہ آور قؤت کی صورت اپنا کردار ادا کرتا ہے بلکہ رہنمائی کا فریضہ بھی یہی پرولتاریہ ہی سرانجام دیتا ہے ۔ بورژوا انقلاب میں اس طبقے کی معاشی طاقت جو کردار ادا کرتی ہے ، اپنی تعلیم ، اپنی شہری حکومتوں اور اپنی یونیورسٹیوں کے ذریعے ، پرولتاری انقلاب میں یہ تمام کردار پرولتاریہ کی اپنی جماعت کا ہی ہوتا ہے ۔ پارٹی کا کردار اس حقیقت کی بدولت اور بھی اہمیت اختیار کر چکا ہے کہ دشمن بھی بہت ذیادہ خودآگاہ اور زیرک ہو چکا ہے ۔ بورژوازی صدیوں کے اقتدار کے دوران سیاسی تعلیم وتربیت میں وہ مہارتِ تامہ حاصل کر چکی ہے جو افسرشاہی کے ذریعے کام چلانے والی پُرانی بادشاہت کی سیاسی تعلیم سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ اگر پارلیمانی بندوبست نے پرولتاریہ کیلئے ایک تربیتی ادارے کا کام کیا ہے ، تو اُس نے بورژوازی کو بھی بہت بڑی حد تک ردِانقلاب حکمتِ عملی سکھلائی ہے ۔ اتنا کہنا ہی کافی ہے کہ پارلیمانی بندوبست کے ذریعے بورژوا نے سوشل ڈیموکریسی کی ایسی صورت گری یا تربیت کی ہے کہ آج وہ نجی ملکیت کا سب سے بڑا سہارا ہے ۔ یورپ میں سماجی انقلاب کا عہد ، جیسا کہ اس کے ابتدائی اقدامات سے پتہ چلتا ہے ، نہ صرف ایک مشقت بھری بے رحم جدوجہد کا عہد ہو گا بلکہ منصوبے کے مطابق اس میں کچھ طے شُدہ لڑائیاں بھی ہو نگی ۔۔اس سب صورتحال کی اس سے کہیں بڑھ کر منصوبہ بندی کی گئی ہے جتنی کہ ہم نے ۱۹۱۷ء میں کی تھی ۔ اس لیئے ہمیں خانہ جنگی سے متعلق سوالات کی بابت بلعموم اور مسلح بغاوت سے متعلق بلخصوص موجودہ سوچ کی نسبت ایک بلکل مختلف سوچ کی ضرورت ہوگی ۔ لینن کی پیروی میں ، ہم مارکس کے یہ الفاظ اکثر دُہراتے رہتے ہیں کہ بغاوت تو ایک فن ہے ۔ لیکن یہ تصور ایک کھوکھلے جُملے میں تبدیل ہو چکا ہے ، حالت یہ ہو گئی ہے کہ موجودہ زمانے کے وسیع تر تجربا ت کی بنیاد پر خانہ جنگی کے فن کے بنیادی عناصر کے مطالعے سے بھی مارکس کے اس فارمولے کی صحت کو ثابت نہیں کیا جاتا ۔ یہ بات صاف طور پر کہنا ضروری ہے کہ مسلح بغاوت کی بابت اُٹھنے والے سوالات کے متعلق سطحی رویہ اس بات کا غماز ہے کہ روایتی سوشل ڈیموکریسی کی قو ت پر غلبہ نہیں پایا جا سکا ۔ یہ بات آرام سے کی جا سکتی ہے کہ سوشل ڈیمو کریٹک روایت مسلح سرکشی پر مصنوعی رویے سے باہر نہیں آ سکی۔ ایسی پارٹی جو خانہ جنگی پر مصنوعی توجہ دے، اس امید کے ساتھ کہ اہم ترین لمحے میں سب کچھ از خود ٹھیک ہو جائے گا، خود کو پامال کرنے جیسا ہے۔ ہمیں 1917ء سے شروع ہونے والی پرولتاری جدوجہدوں کے تجربے کا اجتماعی انداز میں لازماً تجزیہ کرنا چاہیے۔ پارٹی کے اندر 1917ء کی گروہ بندی کی تاریخ جسے اوپر بیان کیا گیا ہے، خانہ جنگی کے تجزیے کا بھی جزو لاینفک ہے اور ہمارے خیال میں کمیونسٹ انٹرنیشنل کی پالیسیوں کے لیے فوری اہمیت کی حامل ہے۔ ہم پہلے کہہ چکے ہیں اور اسے دہراتے ہیں کہ اختلاف کو کسی بھی طرح ان کامریڈز کے خلاف حملے سے تعبیر نہیں کرنا چاہیے جنہوں نے غلط پالیسی اپنائی۔ لیکن اس کے ساتھ ہماری پارٹی کے اس عظیم ترین باب سے صرف اس لیے آنکھیں نہیں چرائی جا سکتیں کیونکہ چند کامریڈز پرولتاری انقلاب کے قدم سے قدم ملانے میں ناکام ہو گئے۔ ہمیں سارے ماضی کا پتہ ہونا چاہی تاکہ ہم اس کا درست اندازہ کر سکیں اور ہر واقعے کو اس کی مناسبت سے مقام دیں۔ انقلابی پارٹی کی روایت نظریں چرانے سے نہیں بلکہ تنقیدی وضاحت سے تعمیر ہوتی ہے۔

تاریخ نے ہماری پارٹی کو وہ سازگار حالات دیے جن کا شمار نہیں۔ زار شاہی کے خلاف شاندار جدوجہد کی روایات; انقلابی قربانی کی عادت جو زیر زمین سرگرمی سے جڑی تھی; انسانیت کے انقلابی تجربات کا وسیع نظریاتی مطالعہ اور اسے جذب کرنا، مینشوویکوں، ناروڈنکس اور صلح جوؤں کے خلاف جدوجہد; 1905ء کا عظیم تجربہ; ردِ انقلاب کے دور کے تجربے کا نظریاتی مطالعہ اور اسے جذب کرنا۔۔۔ یہ وہ چیزیں تھیں جنہوں نے مل کر ہماری پارٹی کو غیر معمولی انقلابی مزاج، اعلیٰ نظریاتی فہم اور بے مثال انقلابی فتح عطا کی۔ بہرحال اس پارٹی میں بھی فیصلہ کن عملی قدم اٹھانے کے موقع پر تجربہ کار اور ’پرانے بالشوویکوں‘ کا ایک گروہ پرولتاری انقلاب کی واضح مخالف میں کھڑا ہو گیا، اور انہوں نے فروری 1917ء کے انقلاب سے لے کر تقریباً فروری 1918ء تک ہر اہم موقع پر سوشل ڈیمو کریٹک پوزیشن اپنائی۔ یہ لینن اور پارٹی میں اس کے غیر معمولی اثر کی وجہ سے ممکن ہوا کہ انتہائی گھبراہٹ کی اس صورت حال سے پارٹی اور انقلاب کو بچا لے۔ اگر ہم چاہتے ہیں کہ دوسری کمیونسٹ پارٹیاں ہم سے کچھ سیکھیں تو انہیں یہ کبھی نہیں بھولنا چاہیے۔ مغربی یورپ کے لیے رہنمائی کرنے والے سٹاف کے انتخاب کا سوال غیر معمولی اہمیت کا حامل ہے۔ اکتوبر میں ناکام جرمن تجربہ اس کا افسوسناک ثبوت ہے لیکن اس انتخاب کو انقلابی عمل کی روشنی میں ہونا چاہیے۔ ان حالیہ سالوں میں جرمنی میں رہنما پارٹی ممبران کو جدوجہد کے میدان عمل میں پرکھنے کا شاندار موقع ملا۔ اس پیمانے میں ناکامی کا مطلب ہے سب ناکام۔ فرانس میں اس سالوں کے دوران کچھ زیادہ انقلابی ابھار دیکھنے میں نہ ملا۔۔۔ جزوی ابھار بھی نہیں، لیکن فرانس کی سیاسی زندگی میں خانہ جنگی کے مواقع آئے، یہ وہ وقت تھا جب پارٹی کی سنٹرل کمیٹی اور ٹریڈ یونین لیڈر شپ کو فوری اور اہم سوالات پر ردعمل ظاہر کرنا چاہیے تھا (جیسے 11 جنوری 1924ء کے خون خرابے کے بعد میٹنگ) ایسے واقعات کا سنجیدہ مطالعہ پارٹی لیڈر شپ، پارٹی کے مختلف آرگنز، اور انفرادی ممبران کی جانچ کا بے مثال موقع فراہم کرتا ہے۔ اس اسباق کو نظر انداز کرنا، افراد کے چناؤ کے لیے ضروری نتائج نہ نکالا، شکست کو دعوت دینے کے مترادف ہے; کیونکہ تیز فہم، مستقل مزاج اور بہادر پارٹی لیڈر شپ کے بغیر پرولتاری انقلاب کی جیت ناممکن ہے۔

یہ پارٹی یہاں تک کہ سب سے زیادہ انقلابی پارٹی لازماً اپنے اندر تنظیمی رجعت پرستی پیدا کرتی ہے; کیونکہ ایسا نہ کرنے سے اس کا اپنا استحکام برقرار نہیں رہتا۔ یہ سب درجے کا سوال ہے۔ انقلابی پارٹی میں رجعت پرستی کی لازمی خوراک کے ساتھ روزمرہ کے معمول سے مکمل آزادی، نئی جانب قدم اٹھانے اور عمل کرنے کی جرأت کا ملاپ ہونا چاہیے۔ تاریخ کے موڑوں پر ان صلاحیتوں کا کڑا امتحان ہوتا ہے۔ ہم پہلے لینن کے الفاظ کو بیان کر چکے ہیں جس سے مراد ہے کہ سب سے زیادہ انقلابی پارٹیاں بھی اچانک تبدیلیوں اور نئی مہمات کے دوران، گزری ہوئی سیاسی لائن پر تسلسل سے عمل کرتی ہیں، اور اس کے نتیجے میں انہیں انقلابی عمل سے خارج ہونے کا خطرہ درپیش ہوتا ہے۔ رجعت پرستی اور انقلابی قدم دونوں کا اظہار پارٹی کے اعلیٰ آرگنز میں ہوتا ہے۔ یورپ کی کمیونسٹ پارٹیوں کی اس تیز ’’موڑ‘‘ کا ابھی تجربہ نہیں ہوا یعنی تیاری کے کام سے اقتدار پر قبضے کی طرف مڑنے کا۔ یہ موڑ بہت مشقت طلب، فوری، ذمہ دارانہ اور خطرناک ہوتا ہے۔ اس موڑ کے لمحے کو گنوا دینا پارٹی کی سب سے بڑی شکست ہوتی ہے۔

یورپی جدوجہدوں کا تجربہ اور سب سے بڑھ کر جرمنی کی جدوجہدوں کو جب ہمارے تجربے کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ پتا چلتا ہے کہ دو طرح کے رہنما ہوتے ہیں۔ ایک وہ جو پارٹی کو پیچھے کی طرف لے جانا چاہتے ہیں جبکہ دوسرے اگلا قدم اٹھانا چاہتے ہیں۔ ان میں سے کچھ عموماً راہ انقلاب کی مشکلات اور رکاوٹوں کو دیکھنے کا رجحان رکھتے ہیں اور ہر صورت حال کا تخمینہ بنے بنائے ذہن سے کرتے ہیں، اگر وہ ہمیشہ ایسا شعوری طور پر نہیں کرتے، اور کسی عمل سے گریز کرتے ہیں۔ اس قسم کی خالص ترین شکل روسی مینشویک ہیں۔لیکن یہ قسم اپنی نوعیت میں صرف منشو یزم تک ہی محدود نہیں ، بلکہ انتہائی نازک مواقع پر ، ایک انتہائی انقلابی جماعت کے ذمہ دار عہدوں پر براجمان شخصیات میں بھی یہ اپنا اظہار کرتی ہے ۔ جبکہ دوسری قسم کے نمائندہ گان اپنے سطحی اور احتجاجی نقطۂ نظر کی بدولت نمایاں رہتے ہیں ۔ اُنہیں نہ تو کبھی کوئی رُکاوٹ دکھائی دیتی ہے اور نہ کوئی مشکل نظر آتی ہے تا وقتیکہ اُن کا اِن مشکلات اور رکاوٹوں سے سر کے بل تصادم نہ ہو جائے ، شاندار لفاظی کے ذریعے حقیقی رُکاوٹوں پر قابو پانے کی صلاحیت ، اور ہر قسم کے سوالات پر اعلیٰ درجے کی رجائیت (ازقسم سمندر تو صرف گھٹنوں تک ہی گہرا ہے) کا ثبوت دینے کا رُجحان ، جب فیصلہ کن عمل کا وقت آتا ہے تو ہمیشہ ہی اپنے قطبی تضاد یاسیت میں بدل جاتا ہے ۔

پہلی قسم کے انقلابی کیلئے جو ہمیشہ رائی کا پہاڑ بناتا ہے ، اقتدار حاصل کرنے کی راہ میں حائل مشکلات سینکڑوں ہزاروں گُنا بڑھتی رہتی ہیں بہ نسبت اُن مشکلات کے جن کا وہ اپنی زندگی میں خوگر ہوتا ہے ۔ دوسری قسم کیلئے جو ایک سطحی رجائیت پسند ہوتا ہے ، انقلابی عمل کی مشکلات ہمیشہ حیرت انگیز ہوتی ہیں ۔ تیاری کے دوران اِن دونوں کا رویہ مختلف ہوتا ہے ، اوالذکر ایسا متشکک ہو تا جس پر انقلابی معنوں میں بہت ذیادہ بھروسہ نہیں کیا جاسکتا ، جبکہ مؤخرالذکر ، اسکے برعکس ، ایک جنونی انقلابی دکھائی دیتا ہے ۔ لیکن فیصلہ کن لمحے میں ، یہ دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈالے ایک ساتھ چلتے نظر آتے ہیں ، یہ دونوں بغاوت کی مخالفت کرتے ہیں ۔ دریں اثناء ، تیاری کا سارا کام صرف اس حد تک ہی اہمیت کا حامل ہے کہ وہ پارٹی اور اس سے بڑھ کر اسکے رہنماؤں کو یہ صلا حیت عطا کر تا ہے کہ وہ بغاوت کے لمحے کا تعین کر سکیں ، کیونکہ کیمونسٹ پارٹی کا کام سماج کی تشکیل نو کیلئے اقتدار کا حصول ہے ۔

حال ہی میں کیمونسٹ انٹرنیشنل کو بالشویک کے رنگ میں رنگنے کی بابت بہت کچھ لکھا اور کہا گیا ہے ۔ یہ وہ کام ہے جس میں نہ تاخیر کی جا سکتی ہے اور نہ جس پر کوئی اعتراض کیا جا سکتا ہے ۔ بلغاریہ اور جرمنی نے ایک سال قبل جو سبق سکھایا ہے اُسکے بعد تو اب یہ اور بھی ضروری ہو گیا ہے ۔ بالشویزم صرف ایک نظریہ نہیں ہے ( یعنی محض نظریہ نہیں ہے ) بلکہ پرولتاری تبدیلی کیلئے یہ ایک انقلابی تربیت کا نظام ہے ۔ کیمونسٹ جماعتوں کی بالشوائیزیشن سے کیا مُراد ہے ؟ اُنہیں ایسی تربیت دینا اور رہنما کارکنوں کا ایسا انتخاب عمل میں لانا ، جو اُنہیں برگشتہ نہ ہونے دے جب اُن کے انقلاب کا لمحہ آ موجود ہو ۔ ہیگل کی تعلیمات کا خُلاصہ بھی یہی ہے ، کتابوں میں بند دانش کی حقیقت بھی یہی ہے ، بلکہ سارے کے سارے فلسفے کے یہی معنٰی ہیں ۔

لیکن صرف مینشویک ہی ایسا نہیں کرتے۔ ہم لمحوں میں ایسے افراد زیادہ انقلابی پارٹیوں کے اہم عہدوں پر اپنا اظہار کرنے لگتے ہیں۔

اس دوسری قسم کے نمائندے مصنوعی اور ہیجان انگیز سوچ سے اپنا اظہار کرتے ہیں۔ انہیں اس وقت تک کوئی رکاوٹ یا مشکل نہیں ہوتی جب تک اس سے کسی کا براہ راست ٹکراؤ نہ ہو جائے۔ حقیقی مشکلات پر یہ بڑے بڑے جملوں سے پاتے ہیں، ہر سوال پر لطیف امید اظہار کرتے ہیں (’’سمندر تو گھٹنوں جتنا ہے‘‘) اور جب فیصلہ کن عمل کرنے کا مرحلہ آتا ہے تو اس کی سخت مخالفت شروع کر دیتے ہیں۔ پہلی قسم کے انقلاب پرست جو چھوٹی باتوں کو بڑا بنا کر پیش کرتے ہیں ان کے لیے انقلابی موڑ ان مشکلات سے کئی گنا زیادہ مشکلات کا باعث ہوتا ہے جن سے وہ روزمرہ گزرتے ہیں۔ دوسری قسم مصنوعی پرستوں کے لیے انقلابی عمل کی مشکلات اچانک آنے والی شے ہوتی ہیں۔ تیاری کے مرحلے میں دونوں کا رویہ مختلف ہوتا ہے; اول اس بات پر متشکک ہوتا ہے کہ کس پر زیادہ اعتبار نہیں کیا جا سکتا، یعنی انقلابی فہم پر۔ اس کے برخلاف دوم ایک جنونی انقلابی لگتا ہے۔ لیکن فیصلہ کن لمحے میں دونوں ہاتھوں میں ہاتھ ڈال لیتے ہیں; یہ دونوں سرکشی کی مخالفت کرتے ہیں۔ کمیونسٹ پارٹی کام اقتدار پر قبضہ ہے تاکہ سماج کو ازسر نو ترتیب دیا جا سکے۔

کمینٹرن کو ’’بالشو وائز‘‘ کرنے پر بہت کہا اور لکھا گیا۔ یہ وہ کام ہے جس پر اختلاف اور دیر نہیں ہو سکتی; بلغاریہ اور جرمنی میں ایک سال قبل ہونے والے تلخ تجربے کے بعد یہ بہت ضروری ہے۔ بالشوویک ازم ایک نظریہ (ڈاکٹرائن) نہیں ہے (یعنی صرف نظریہ نہیں ہے) بلکہ ساری ابھار کے لیے انقلابی تربیت کا نظام ہے۔ کمیونسٹ پارٹی کی بالشووائزیشن کا کیا مطلب ہے؟ ایسی تربیت دینا اور ایسا رہنما سٹاف بنانا جو اکتوبر جیسی گھڑی میں نہ ڈگمگائے۔ ’’یہ ہیگل کا کل ہے، یہ کتابوں کی حکمت ہے، اور سارے فلسفے کا معانی ہے۔۔۔‘‘


اس کتاب پر ایک مختصر بیان

’’جمہوری‘‘ انقلاب کا ابتدائی مرحلہ فروری انقلاب سے اپریل بحران تک، اور 6 مئی کو مینشویکوں اور ناروڈنکس کی شمولیت کے ساتھ بننے والی اتحادی حکومت کی تشکیل کے نتیجے میں اس بحران کے حل تک پھیلا ہوا ہے۔ اس تمام تر ابتدائی مرحلے میں یہ مصنف براہِ راست شامل نہیں رہااور 5 مئی ہی کو پیٹروگراڈ پہنچا جب اتحادی حکومت بس بننے کو تھی۔ انقلاب کے ابتدائی مرحلہ اور انقلابی امکانات پر میں نے امریکا میں لکھے گئے مضامین میں بات کی ۔ میری رائے میں تمام بنیادی نقاط پر یہ مضامین لینن کے ’’دُور سے لکھے گئے خطوط‘‘ سے ہم آہنگ ہیں۔

میری پیٹروگراڈ آمد کے دن سے میرا کام بالشویکوں کی مرکزی کمیٹی سے ہم آہنگ تھا۔ پرولتاریہ کے حصولِ اقتدارکے راستے کی قدرتی طور پرمیں نے جزوی و کلی حمایت کی۔جہاں تک کسانوں کا تعلق ہے تو لینن اورمیرے درمیان اختلاف کا شائبہ تک نہ تھا۔ اس وقت لینن دائیں بازو کے بالشویک ساتھیوں اور ان کے نعرے ’’پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت‘‘ کے خلاف جدوجہد کے پہلے مرحلے کو مکمل کررہا تھا۔پارٹی میں اپنے رسمی داخلے سے پہلے میں نے بہت سی ایسی قراردادوں اور دستاویزات کی تیاری میں حصہ لیا جو پارٹی کے نام سے جاری ہوئیں۔ واحد وجہ جس نے مجھے پارٹی میں رسمی داخلے سے تین ماہ روکے رکھا وہ مزہرایونٹسی تنظیم(30) کے بہترین عناصر اور عمومی طور پرانقلابی انٹرنیشنلسٹوں کے بالشویکوں سے الحاق کو جلد ممکن بنانا تھا۔ میری جانب سے یہ پالیسی لینن کے مکمل اتفاق سے اپنائی گئی۔

اس جلد کے مدیروں نے میری توجہ اس امر کی طرف دلائی ہے کہ اس وقت اتحاد کے حق میں لکھے گے میرے ایک مضمون میں بالشویکوں کی تنظیمی ’’فرقہ بندی‘‘ کے بارے حوالہ موجود ہے۔کامریڈ سورن جیسے چند فاضل پنڈت بے شک اس سے کیسے براہِ راست اور جلدی سے پارٹی کے ایک مسطورآئین کے پہلے پیراگراف پراصل اختلافات سے قطع نظر نتائج اخذ کریں گے۔ میں اس پر کوئی بھی بحث کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا، بالخصوص یہ حقیقت مدِنظر رکھتے ہوئے کہ میں اپنی حقیقی اور بڑی تنظیمی غلطیوں کو زبانی اور عملی طور پر قبول کرچکاہوں۔ البتہ ایک تھوڑا کم بھٹکا ہواقاری متذکرہ بالا فقرے میں سے زیادہ سادہ اور فوری وضاحت تلاش کرلے گا۔ اس وقت کے زمینی حالات کو نظر میں رکھنا ضروری ہے۔ مزہرایونٹسی مزدوروں کے ہاں پیٹروگراڈ کمیٹی کی تنظیمی پالیسیوں پرعدم اعتماد پایا جاتا تھا۔ ’’فرقہ بندی‘‘ پر مبنی دلائل۔۔۔ایسے موقعوں پر ہر طرح کی ’’ناانصافی‘‘ کا حوالہ دینے کے لیے جن کا سہارا لیا جاتاہے۔ ۔۔ مزہرایونٹسی کے ہا ں عام تھے۔ میں اب دلائل کو یوں رد کرتا ہوں: ماضی کی میراث کے طور پرفرقہ بندی وجود رکھتی ہے، لیکن اگر اس کا خاتمہ کرنا ہے تو مزہرایونٹسی کو اپنی علیحدہ حیثیت ختم کرنا ہوگی۔

پہلی سوویت کانگریس کو خالصتاًمباحثے کے لیے دی گئی میری’’تجویز‘‘ کہ وہ بارہ پیشیخونووز کی حکومت قائم کرے،کی وضاحت چند لوگوں کی طرف سے اور شخانوونے یوں کی گئی کہ جس سے اشارہ ملے کہ میراذاتی جھکاؤ شخانوو کی طرف تھا، یا میں کوئی مخصوص سیاسی لائن کو آگے بڑھا رہا تھا جو لینن سے مختلف تھی۔بلاشبہ یہ بہت فضول بات ہے۔ جب ہماری پارٹی نے مطالبہ کیا کہ سوویتیں، جن کی قیادت مینشویکوں اور سوشل انقلابیوں کے پاس تھی ، کے پاس اقتدار ہو، تو اس نے پیشخانووزپر مشتمل ایک وزارت کا مطالبہ کیا۔ آخری تجزیے میں، پیشخانوو، چیرنوف، اور ڈان میں کوئی اصولی اختلاف نہیں تھا۔ وہ تمام بورژوازی سے پرولتاریہ کو اقتدار کی منتقلی کے لیے برابر مفید تھے۔ شاید پیشخانووشماریات سے زیادہ واقف تھا اور اسی لیے سیٹیریلی اور چرنوو سے زیادہ عملی شخص دکھائی دیتا ہے۔ ایک درجن پیشخانووز کا مطلب ہوتا کہ اتحاد کی بجائے ایسی حکومت جس کے پیٹی بورژوا جمہوریت کے ایک درجن کے توانا نمائندے ہوں۔ جب پیٹرزبرگ کے عوام نے ہماری جماعت کی رہنمائی میں نعرہ بلند کیا ’’دس سرمایہ دار وزیر مردہ باد‘‘ تو پس انہوں نے مطالبہ کیا کہ ان عہدوں پر مینشویک اور نارڈونکس براجمان ہوں۔ ’’محترم بورژوا ڈیموریٹس، کیڈٹس کو نکال باہر کریں! اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیں! حکومت میں دس (یا جتنے آپ کے پاس ہوں) پیشخانووز شامل کریں، اور ہم آپ سے وعدہ کرتے ہیں کہ جب ممکن ہوا، ہم ’پرامن طور پر‘ آپ کو ان عہدوں سے ہٹا دیں گے اور وہ وقت قریب ہے!‘‘ یہاں کوئی مخصوص سیاسی لائن نہیں تھی، یہ وہی لائن تھی جس کی تشکیل لینن نے بارہا کی۔

میں یہ ضروری سمجھتا ہوں کہ اس جلد کے مدیر کامریڈ لینٹسنر کی تنبیہہ کو نمایاں کروں۔جیسا کہ انہوں نے نکتہ اٹھایا ہے اس جلد میں شامل بہت ساری تقاریر سٹینوگرافک نوٹس سے دوبارہ شائع نہیں کی گئیں، اُن سے بھی نہیں جن میں خامیاں تھیں، بلکہ مصالحت پسند رپورٹروں کی بیان کردہ ہیں، جو آدھی ناواقفیت پر مبنی اور آدھی کینہ پرور ہیں۔ ان دستاویزات میں سے کئی کا سرسری مطالعہ کرنے کے بعد میں نے ان کی تصحیح اور ان کی ایک حد تک وضاحت کرنے کے پہلے منصوبے کو ترک کردیا۔ اپنے انداز میں وہ بھی اپنے عہد کی دستاویزات ہیں، اگرچہ ’’دوسری طرف سے‘‘ ان کاظہور ہوا۔

موجودہ جلدمنظر عام پر نہ آتی آگر کامریڈ لینٹسنرمحتاط اور ماہرانہ طریقے سے اسے یکجا کرنے کے طور پر کام نہ کر پاتا، ۔۔۔ اس میں ان کے معاونین کامریڈ ہیلر، کریزانووسکی، رووینسکی اور آئی رومر شامل ہیں۔

اس موقع پر میں ان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں۔ اس جلد اور ساتھ ہی دیگر کتابوں کے لیے بے بہا کام کرنے والے ایم ایس گلازمان * کا بھی خاص طور پر شکریہ ادا کرنا چاہوں گا۔ میں ان سطور کا اختتام اس شان دار کامریڈ، مزدور اور فرد کی انتہائی الم ناک موت پر گہرے افسوس کے ساتھ کررہا ہوں۔

15ستمبر1924 کیسلووڈسک (Kislovodsk)


وضاحتی نوٹس ان نوٹس میں تاریخیں جدید کیلنڈر کے مطابق ہیں۔ مثلاً پرانے روسی کیلنڈر میں 16 اپریل 3اپریل ہوگا، یعنی 13 دنوں کا فرق ہے۔

1۔ ’اکتوبر کے اسباق‘ اکتوبر 1924ء میں ٹراٹسکی کی مجموعہ تحریروں کی دو جلدوں کے ابتدائیہ کے طور پر لکھا گیا۔ یہ انقلاب کے پہلے سال میں لکھی گئی تھیں اور ان کا عنوان تھا’ 1917ء‘ ۔ اس ابتدایئے میں پیش کیے گئے خیالات کو 1917ء کے بعد کسی ایک یا دوسرے وقت میں بیان کیا جاچکا تھا، لیکن لینن کی زندگی میں ان کی بالشویک دیانت پر کبھی سوال نہیں اٹھایا گیا تھا۔تکون (سٹالن، زینوویوو، کامنیوو) نے ’ابتدائیہ‘کو جواز بنا کر ’ٹراٹسکی ازم‘ کا ہوّا کھڑا کردیا۔ بعدازاں جب زینوویوو سٹالن سے علیحدہ ہوا تو اس نے تسلیم کیا وہ’حصولِ اقتدار کی جدوجہد‘ کی ناگہانی ضروریات کی وجہ سے مائل ہوا کہ ٹراٹسکی کے ساتھ موجودہ اور ٹھوس اختلافات کوماضی کے اختلافات سے جوڑ دے۔ ٹراٹسکی پر الزام لگا کہ وہ نظریاتی طور پر لینن ازم کو بے دخل کررہا ہے۔ ’اکتوبر کے اسباق‘ پر حملوں (’علمی مباحثہ‘ کہنا)کے دوران ٹراٹسکی پر قنوطیت اور مہم جوئی، پیٹی بورژوا انحراف اور کسانوں کو غیراہم سمجھنے جیسے الزامات لگے۔ خفیہ طور پر زینوویوو اور کامنیوو نے تجویز کیا کہ ٹراٹسکی کو پارٹی سے نکال دیا جائے۔ تاہم وہ احتیاط کے ساتھ وقت کا انتظار کرتے رہے۔۔۔ اور مطلق طاقت رکھنے والے۔۔۔ سٹالن نے تب اس خیال کو ویٹو کردیا۔ البتہ ریاست کی تمام مشینری اور کمنٹرن کو ٹراٹسکی کو تنہا کرنے اور اس کے ہمدردوں کو دہشت زدہ کرنے کے کام پر لگا دیا گیا۔ اگرچہ ٹراٹسکی کو پولیٹیکل بیورو میں رہنے کی اجازت دی گئی لیکن اسے انقلابی جنگی کونسل سے علیحدہ (تیکنیکی لحاظ سے’ استعفیٰ‘) کردیا گیا۔ ’مباحثے‘ کے بعد آفیشل قرارداد میں کہا گیا کہ1903ء کے بعد ٹراٹسکی ازم کے ’پیٹی بورژوا‘ اور ’بالشویک مخالف‘ کردار پر تعلیم کے لیے پارٹی کے اندر مہم چلائی جائے گی۔

2۔ جون 1923ء میں ایک کسان رہنما سٹیمبولسکی کی حکومت کا بلغاریہ میں تختہ رجعتی مسلح بغاوت کے ذریعے الٹ دیا جس کی رہنما ئی قبل از جنگ فسطائی رہنما Tsankoff کررہا تھا۔ کمیونسٹ پارٹی نے صورتِ حال کو بورژوازی حلقوں کی آپس کی لڑائی قرار دے کر اور کسانوں اور ملک (میسی ڈونیا) کے مسائل کو نظرانداز کر کے غیر جانب دار رہنے کا فیصلہ کیا۔ کامیابی کے بعد قائم ہونے والے Tsankoff رجیم نے کمیونسٹوں پر مظالم کے پہاڑ ڈھائے جس سے وہ زیرِزمین جانے پر مجبور ہوئے۔ البتہ ماسکو میں بلغاریہ کے کمیونسٹوں کے سرکاری ترجمان کولاروو نے دھڑلے سے کہا کہ پارٹی کو کوئی شکست نہیں ہوئی۔ اسی سال جون میں غیر متحرک رہنے کی وجہ سے کمیونسٹوں نے صورتِ حال میں تبدیلی کا بالکل غلط اندازہ لگایا اور Putsch(کودیتا کے ذریعے) کے غلط مشورے پر خود کو بحال کرنے کی کوشش کی۔ اس مہم جوئی کو فطری طور پر ناکا می سے دوچار ہونا تھا۔

3۔ یہاں روہر پر قبضے کے بعد کے جرمن واقعات کی طرف اشارہ ہے، جب جرمن حکومت ورسیلز معاہدے کے مطابق بعض ادائیگیاں کرنے میں ناکام رہی۔ جرمن معیشت کی عمومی زبوں حالی سے دوررس سماجی اور سیاسی بحران پیدا ہوا۔*

4۔ کمیونسٹ انٹرنیشنل کی تیسری کانگرس جون 1921ء میں ہوئی۔ جرمن کمیونسٹ پارٹی کے ’مارچ ایکشن‘ پر تفصیلی مباحثے کے بعد کانگریس نے بالآخر’عوام کی پہلی کامیابیوں کے ذریعے اقتدار‘کے نعرے کو اختیار کیا جس نے متحدہ محاذ کی پالیسی کی بنیاد رکھی۔ حصولِ اقتدار کے سوال پر اس سوچ کی فتح ،جسے لینن اور ٹراٹسکی نے زور دار طریقے سے پیش کیا، کانگریس میں انتہاپسند بائیں بازو اور Putschist عناصر سے تندوتیز جدوجہد کے بغیر نہیں ہوئی۔ سوویت روس کی مدد کرنے کی مستحسن نیت کے ساتھ مگر جرمنی کے حالات کو قطعاً نظرانداز کرتے ہوئے کمیونسٹ پارٹی نے وسطی جرمنی کے محنت کشوں کے بعض گلے شکوؤں کو جواز بناتے ہوئے مسلح بغاوت کا اعلان کیا۔1921ء کو اس ’مارچ ایکشن‘ کو ’نظریۂ جارحیت‘ کے نام سے جانا جاتا ہے؛ یہ تصوّرکہ غیر متحرک عوام کو باغی انقلابیوں کے اقدام سے ’مشتعل‘کیا جاسکتا ہے۔ تاہم سوشل ڈیموکریٹک عوام اس سے علیحدہ رہے اور فوج نے کمیونسٹ بغاوت کو دبا دیا۔

5۔ 1905ء کے واقعات 1917ء کے فروری اور اکتوبر کے انقلابات کی تمہید تھے۔ روس جاپان جنگ کے دھچکے نے آٹوکریسی کو بری طرح نقصان پہنچایا تھا۔ جنگ کے پہلے سال 25,000 نے ہڑتال کی 1905ء میں سیاسی اورمعاشی ہڑتالوں میں 2,863,000 شریک ہوئے۔ زمینوں پر قبضے کے لیے کسانوں نے بغاوت کردی۔ عوامی تحریک کا فائدہ اٹھاتے ہوئے لبرل بورژوازی نے مطالبہ کیا کہ بادشاہت آئینی طرزِحکومت کو مان لے۔ محنت کش بورژوا لبرل ازم سے علیحدہ سوویتوں میں منظم ہوئے جو عام ہڑتال اور اقتدار کی جدوجہد کا آلہ بن گئیں۔ ایک مرحلے پر سوویتوں نے کھلے عام بادشاہت کی طاقت کو چیلنج کیا۔جب لبرلز نے محسوس کیا کہ زارازم کو جھنجوڑنا کافی نہیں ہوگا بلکہ اس جدوجہد میں اسے اکھاڑنا شامل ہوگا تو وہ عوام سے منقطع ہوگئے جس سے بادشاہت کے لیے مزدوروں اور کسانوں کے خون سے ہولی کھیلنا آسان ہوگیا۔

6۔ ’انقلابی سٹرٹیجی کے تصور نے جنگ کے بعد کے سالوں میں جڑ پکڑی اور بلاشبہ وہ بھی فوجی اصطلاحات کے زیرِاثر۔ لیکن اس کا جڑیں پکڑنا کسی طور حادثاتی نہیں تھا۔ جنگ سے قبل ہم صرف پرولتاری پارٹی کی حکمت عملی (ٹیکٹِکس) کے بارے میں بات کرتے تھے؛ یہ تصور اس وقت ٹریڈیونین اور پارلیمانی طریقہ کار سے مطابقت رکھتا تھاجس میں روزمرہ کے مطالبے اور کام شامل تھے۔ حکمت عملی کے تصور سے کسی واحد حالیہ کام یا طبقاتی جدوجہد کی کسی ایک شاخ کے لیے اٹھائے گئے اقدامات کا نظام مراد لیا جاتا تھا۔ اس کے برخلاف انقلابی تدبیر (سٹریٹجی) سے مراد اقدامات کا ایسا مجموعی نظام ہے جو اپنے ربط ، استقامت اور نشوونما سے لازماً پرولتاریہ کو اقتدار کی منزل پر پہنچائے۔ انقلابی تدبیر کے بنیادی اصول فطری طور پر اسی وقت ہی سامنے لائے گئے جب مارکس ازم نے طبقاتی جدوجہد کی بنیاد پر انقلابی جماعتوں کو اقتدار کے حصول کا کام سونپا۔۔۔‘ *

7- مزدوروں کے نجات کے گروپ کی تشکیل پلیخانوف نے کی تھی سوئیزر لینڈ میں اس کے ساتھ اور بھی روسی تارکین تھے جن میں ایکسل روڈ ‘ زاسولیچ ‘ Deutsch ‘ اور ایگنیٹو شامل تھے ۔ اس گروپ کا قیام1893میں پاپولزم سے علیحدگی کے بعد ہوا یہ روس کی پہلی واضح سوشل ڈیموکریٹک تنظیم تھی اور متحدہ سوشل ڈیموکریٹک پارٹی کے قیام میں آنے کے بعد اس میں ضم ہوگئی تھی۔

8۔ ’تاریخ کے قانون کا نظریہ پرستی سے کچھ لینا دینا نہیں۔ غیر ہمواریت، جو تاریخی عمل کا سب سے عمومی قانون ہے، خود کو سب سے زیادہ تند اور پیچیدہ انداز میں پسماندہ ممالک کی تقدیرکا فیصلہ کرتا ہے۔ خارجی ضروریات کے باعث ان کے پسماندہ کلچر کو جست لگانے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس لیے غیرہمواریت کے آفاقی قانون سے ایک اور قانون اخذ ہوتا ہے جسے ایک بہترنام کی غیرموجودگی میں ہم مشترکہ ترقی کا قانون کہہ سکتے ہیں۔۔۔ جس سے ہماری مراد سفرکے مختلف مراحل کو ایک ساتھ جوڑنا، علیحدہ مراحل کا اشتراک، زیادہ ہم عصر شکلوں کے ساتھ پرانے کا اختلاط ۔۔۔**

9۔ ’پرولتاریہ اور کسانوں کی جمہوری آمریت‘ کے نعرے کو ’پرولتاریہ کی آمریت‘ سے لازماً ممیز کیا جانا چاہیے۔ اول الذکرسے مراد مزدوروں کے تحت مزدوروں اور کسانوں کا انقلابی اتحاد تھاتاکہ آٹوکریسی اور بیگاری(سرفڈم) کا خاتمہ کیا جاسکے، اور عمومی طور پر جمہوری انقلاب حقیقت کا روپ دھار لے۔ دوسری طرف پرولتاریہ کی آمریت وہ سیاسی رجیم ہے جس میں مزدور کسانوں کی مدد سے سوشلسٹ نظام قائم کرتے ہیں۔ پلیخانوو کے خیالات کے برخلاف کہ بورژوازی کی مدد کے بغیر بورژوا ڈیموکریٹک انقلاب کا حصول ممکن نہیں، لینن اس بنیاد پر بورژوالبرل ازم سے اتحاد کا مخالف رہا کہ پرانے رجیم سے اس کے معاشی اور سماجی تعلق کی بنا پر اس کا کردار رجعتی ہے۔ دیگر تمام روسی مارکسیوں کی طرح ٹراٹسکی روسی انقلاب کے جمہوری مرحلے پر لینن سے اتفاق کرتا تھا، اور اس کا کسانوں کوبطور اتحادی متحرک کرنے پر کوئی حقیقی اختلاف نہیں تھا۔ ٹراٹسکی کا نظریہ انقلابِ دائم، جسے وہ بالشوویک ازم کی سٹریٹجی کے بنیادی طور پر مطابق سمجھتا تھا، اس بات پر زور دیتا ہے کہ وہ ممالک جہاں بورژوازی کی نشوونما تاخیر سے ہوئی ہے جمہوری اور قومی مرحلے سے عبور پرولتاریہ کی آمریت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اور اس کی وجہ یہ ہے کہ کسان بے ترتیب ہونے کے باعث آزادانہ کردار ادا نہیں کرسکتے۔

10۔ موازنہ کریں ’دہرے انقلاب پر لینن‘ ،’ کسی بھی انقلاب میں بنیادی کردار ریاستی اقتدار کا ہوتا ہے۔ جب تک اسے نہیں جانا جاتا انقلاب میں سمجھ داری کے ساتھ شمولیت اختیار نہیں کی جاسکتی، کجا کہ اس کی سمت کا تعین کیا جاسکے۔۔۔ دہرا انقلاب کیسے بنتا ہے؟ یہ حقیقت کہ عبوری حکومت، جو کہ بورژوا حکومت تھی، کے پہلو میں ایک اور، اگرچہ کمزور، ابتدائی اور بلاشبہ حقیقی حکومت نے نشوونما پائی۔ ۔۔۔ مزدوروں اور کسانوں کے ڈیپوٹیزکی سوویتیں ۔۔۔ یہ اقتدار 1871ء کے پیرس کمیون کی طرح کا ہے۔ اس طرح کے اقتدار کی بنیادی خصوصیات ہیں: (1) اس کی بنیاد وہ قوانین نہیں جنہیں پارلیمنٹ پہلے زیرِبحث لائی ہو اور منظور کیا ہو، بلکہ نیچے سے عوام کی براہِ راست پہل قدمی ہے، چار سو:عوامی امنگوں کے اظہار کے لیے سیدھا ’’قبضہ‘‘۔ (2) پولیس اور فوج کے اداروں کی بجائے، جو عوام سے علیحدہ اور ان کے مخالف ہیں، تمام لوگوں کو براہِ راست مسلح کیا جاتا ہے؛ سو یہی مسلح مزدور اور کسان حکومت کا انتظام یقینی بناتے ہیں، مسلح عوام خود؛ (3) عوام کے براہِ راست اقتدار سے سرکاری اہلکار، بیوروکریٹس خارج ہو جاتے ہیں یا ان کی کڑی نگرانی شروع ہوجاتی ہے؛ وہ نہ صرف عوام کے نمائندے بن جاتے ہیں بلکہ انہیں وہ انہیں کسی بھی وقت نکال سکتے ہیں؛ ان حیثیت مراعات یافتہ سماجی پرت، جوآرام دہ اور بہت زیادہ معاوضہ لینے کا ’’مناسب مقام‘‘ سنبھالے ہوتی ہے، کی بجائے محض ایک نمائندے کی ہوجاتی ہے۔ وہ بعض ’’آلات‘‘چلانے والے باہنر مزدوروں میں تبدیل ہوجاتے ہیں جنہیں باہنر مزدوروں کی اوسط سے زیادہ اجرت نہیں ملتی نہیں ملتی۔‘

11۔ مینشویک روسی سوشل ڈیموکریسی کا اصلاح پسند دھڑا تھے جو 1898ء میں منظم ہوئے۔ وہ پارٹی کی تنظیم اور انقلابی پالیسی کے سوال پر 1903ء میں بالشویکوں سے علیحدہ ہوئے۔ مینشوویکوں نے لینن کے انقلابی جماعت، جو پرولتاریہ کا ہراول دستہ ہو، اور جمہوری مرکزیت پر قائم ہو، کی مخالفت کی ۔ وہ مغربی یورپ کی سوشل ڈیموکریسی کے لیے ڈھیلا ڈھالا اور کم نظم و ضبط چاہتے تھے۔ روسی انقلاب کی خاصیت کو بورژوا ڈیموکریٹک قرار دیتے ہوئے مینشوویکوں نے لبرل بورژوازی کے ساتھ اتحاد کی وکالت کی۔ 1917ء میں انہوں نے عبوری حکومت کی وکالت کی اور اکتوبر بغاوت کی اس بنا پر سخت مخالفت کی کہ روس ’ابھی سوشلزم کے لیے تیاز نہیں۔‘‘

12۔ سوشل انقلابیوں نے اپنی بنیاد کسانوں کی آزادی کے پروگرام پر رکھی۔ غیر مارکسی سوچ کے ساتھ ابتدا ہی سے انہوں نے خود ان کے بقول ’’روسی سوشلسٹوں کی اس اعتقادی سوچ (ڈاگما) کی مخالفت کی کہ شہری پرولتاریہ سے باہر کوئی انقلابی قوت وجود نہیں رکھ سکتی۔‘‘ ان کے پروگرام میں ’آزاد عوامی اقتدار‘، زمین اور بڑی صنعتوں کو قومیانہ شامل تھا۔ زارازم سے لڑنے کا ان کا ایک بنیادی طریقہ دہشت گردی تھا۔ 1917ء میں مینشویکوں کی طرح انہوں نے کرنسکی رجیم برقرار رکھنے کے لیے سوویتوں میں اپنے اثرورسوخ کو استعمال کیا اور پرولتاریہ کے حصولِ اقتدار کی سخت مخالفت کی۔ البتہ ان کے اندر موجود بائیں بازو نے ’بریسٹ۔لیٹووسک امن‘ تک بالشویکوں سے تعاون کیا، اور پھر اس معاہدے کو انقلاب سے’ غداری‘ کہہ کر مخالفت شروع کردی۔

13۔ ناروڈنکس روس کے عوامی سوشلسٹ تھے جن کے نظریات نے صدی کے اختتام پر خاصے لوگوں کو متاثر کیا۔ انہوں نے اس مارکسی خیال کی مخالفت کی کہ روس سرمایہ دارانہ مرحلے سے گزرے گا۔ وہ اب تک باقی رہ جانے والے کسانوں کے کمیونزکو کمیونزم کی ابتدائی شکل قرار دیتے تھے۔ وہ ’عوام سے رجوع‘ کے ذریعے اپنے خیالات پھیلانے کی کوشش کرتے تھے اور ’پروپیگنڈہ بذریعہ کارِنمایاں‘ یا دہشت گردی سے زارازم کے خلاف جدوجہد کرتے تھے۔

14۔ ’دفاع پسندی‘ (’ڈیفنسزم‘) یہ تصور تھا کی جب تک جرمن فوج Kaiser کی اطاعت کرتی ہے روسی فوج کو لازماً جنگ جاری رکھنی چاہیے۔ بطور پالیسی اسے لینن کی ’شکست پسندی‘ کی مخالفت کاسامنا تھا، جس کے مطابق ’روس کی شکست کم درجے کی برائی ہے‘۔ لینن کی واپسی سے قبل پراودا نے دعویٰ کیا تھا کہ ’ساری ’’شکست پسندی‘‘ اس لمحے مر گئی جب پہلی انقلابی رجمنٹ پیٹروگراڈ کی گلیوں میں آئی‘۔ پراودا نے یہ پوزیشن اس لیے لی کیونکہ جیسا کہ اس نے لکھا، ’’ہمارا نعرہ ہے عبوری حکومت پر دباؤ ڈالناجس سے وہ مجبور ہو۔۔۔ کہ جنگ میں شامل تمام ممالک کو مذاکرات کے لیے آمادہ کرے ۔۔۔‘ البتہ لینن نے دوٹوک انداز میں عبوری حکومت کو سرمایہ دارانہ و سامراجی اور وطن پرستی میں اس کے ’دفاع‘ کو سوشلزم سے دغا قرار دیا۔

15۔ بالشویکوں کی کل روس اپریل کانفرنس 24 تا 29 اپریل پیٹروگراڈ میں منعقد ہوئی۔ اس کا ایجنڈہ یہ تھا:سیاسی صورتِ حال (روسی انقلاب کا پیش منظر)، جنگ، تیسری انٹرنیشنل کی تشکیل کے لیے تیاری، زرعی سوال، پروگرام کا سوال، اور قومی سوال۔ اس کے مباحث مختصراً رپورٹ ہوئے مگر شاید یہ پارٹی کی تاریخ میں سب سے زیادہ فیصلہ کن کانفرنس تھی۔ لینن کی آمد سے قبل سٹالن اور کامنیوو کی لائن کی جگہ حصولِ اقتدار کی تدبیر نے لے لی۔ سٹالن نے سوویت اور عبوری حکومت کے درمیان فرق کو محض محنت کی ایک تقسیم قرار دیاتھا۔ اس کے اپنے الفاظ میں عبوری حکومت ’انقلابی عوام کی فتح کوقوی کرنے والی‘ تھی۔وہ مینشویکوں سے اتحاد کے حق میں تھا۔ ’ہمیں لازماً ایسا کرنا چاہیے، اتحاد کے لیے ہماری تجویز کی توضیح ضروری ہے؛رمزوالڈ۔کیس تھال کی بنیاد پر اتحاد ممکن ہے۔۔۔ ہم پارٹی کے اندر گھٹیا اختلافات کو دور کرکے اپنی اصلاح کریں گے۔ ‘ لینن کے اپریل تھیسس نے اس سے زیادہ شدید اختلاف کیا۔ لینن نے کہا ’صرف انقلاب کا دھواں اس کی وضاحت کرسکتا ہے۔ یہ سوشلزم کی موت ہے ۔۔۔ اگر یہ آپ کی پوزیشن ہے تو ہمارے راستے علیحدہ ہیں۔ میں اقلیت میں رہنے کو ترجیح دوں گا۔‘‘

16۔ معیشت پسندی (اکانومزم)سنڈیکلزم کی روسی شکل تھی۔ اس کے مطابق عوامی تحریک، سیاسی شعور اور متحرک لیڈرشپ کے لیے صرف معاشی جدوجہد کافی ہے۔ اپنے کتابچے ’کیا کیا جائے‘ میں لینن نے معیشت پسندی کے خلاف خاصا لکھااور اسے محنت کش طبقے کی پسماندگی کی بے جا تعریف کرنے والا، سیاسی تحریک اور انقلابی جماعت کی ضرورت کے معاملے کو کم تر سمجھنے والا خطرناک رجحان قرار دیا۔

17۔ پراودا بالشویکوں کی مرکزی کمیٹی کا آرگن تھا۔ فروری انقلاب کے بعد اس کی اشاعت دوبارہ شروع ہوئی۔

14-18 مارچ کو سوویتوں کی ایگزیکٹو کمیٹی نے ایک مینی فیسٹو جاری کیا جس میں جبری الحاق یا ہرجانے کے بغیر جمہوری امن کی پکار دی گئی۔ اس کے مطابق ’وہ لمحہ آچکا ہے جب عوام جنگ اور امن کے متعلق فیصلہ اپنے ہاتھوں میں لیں۔‘ لیکن مینی فیسٹو دراصل Lloyd Georgeکوخاصا قابلِ قبول تھا۔ اور وڈروولسن کی بھڑک بازی سے کسی طرح مختلف نہیں تھا۔ خارجہ پالیسی کا حقیقی کنٹرول میلیوکوو کے ہاتھ میں تھا جس نے پہلے والے روسی سامراجی مقاصد کی تکمیل کو جاری رکھا۔

19۔ زارکو 15 مارچ 1917ء کو گرفتار کیا گیا، وہ گرینڈڈوک میخائل کے حق میں مستعفی ہو گیا لیکن اس نے دانائی کا مظاہرہ کرتے ہوئے معذرت کر لی۔ پیٹروگراڈ سوویت کی ایگریکٹو کمیٹی کی رضامندی سے سامراجی دور کی ڈوما کی پروویژنل کمیٹی نے پروویژنل گورنمنٹ، جس کی سربراہی پرنس لواوو بطور وزیرِاعظم کررہا تھا، کی وزارتیں کی نامزد کیں۔ پروفیسر میلیوکوو کے پاس امورِخارجہ، اے ایف کٹچکوف وزیرِجنگ، کرنسکی انصاف ۔ پروویژنل گورنمنٹ (عبوری حکومت) نے سامراجی زار کی پالیسیاں جاری رکھیں۔ میلیوکوو نے قسطنطنیہ کے جبری الحاق کی حمایت کا اعلان کیا اور جنگ میں فیصلہ کن فتح کے لیے قوم کی مبینہ خواہش کو بیان کیا۔ عوام کی بے چینی کا اظہار اپریل کے مظاہروں میں ہوا جس میں میلیوکوو کے استعفے کا مطالبہ کیا گیا۔ لیکن مینشوویکوں اور سوشل انقلابیوں کی رضامندی سے سوویت نے عوام کو روکے رکھا۔البتہ عدم تحفظ کے احساس کے باعث پروویژنل گورنمنٹ نے سوویت کی ایگریکٹو کمیٹی کو اتحادی حکومت بنانے کی دعوت دی۔ بالشوویکوں کی مخالفت کے باوجود ایگریکٹو کمیٹی مان گئی۔ میلیوکوو اور دیگر نے استعفیٰ دے دیا۔ 18 مئی کو دوسری پروویژنل گورنمنٹ قائم کی گئی (پہلی اتحادی)جس میں کرنسکی جنگ کا وزیر تھا۔ سوشل انقلابی وکٹر چرنوو وزیرِزراعت تھا، مینشوویک سکوبیلیو وزیرِصحت، مینشوویک Tseretelli ڈاک اور ٹیلی گراف کا وزیر، پاپولسٹ سوشلسٹ پیشی کونوو فوڈ اینڈ سپلائی کا وزیر تھا۔ سوویت ایگزیکٹو نے اس بنیاد پر اتحاد کی حمایت کی کہ اس سے امن ہوگا اور جمہوریت کو استحکام ملے گا۔ حقیقت میں اتحاد نے جنگ جاری رکھی اور رجعت کی حمایت کی۔ حکومت دراصل متصادم طبقاتی مفادات کی نمائندگی نہیں کرسکتی تھی۔ بحران تیز تر ہوتا گیا اور بورژوازی پیداوار سبوتاژ کرنے لگی۔ کیڈٹ وزیرِتجارت کونووالوو مستعفی ہوگیا۔ یوکرینی Rada کے ساتھ Tseretti کے معاہدے پر پانچ کیڈٹ وزیر مستعفی ہوگئے۔ آئین ساز اسمبلی کے علاوہ سب روک دیا گیا اور اسے بھی مسلسل مؤخر کیا گیا۔ 20 جولائی کو پرنس لواونے استعفیٰ دے دیا اور کرنسکی نے جنگ کی وزارت جاری رکھتے ہوئے بطور وزیرِاعظم اس کی جگہ لے لی۔

شروع ہی سے پروویژنل گورنمنٹ پر لینن کا نقطۂ نظر بہت درست تھا۔ بطور سرمایہ دار حکومت اے لازماً اکھاڑنا چاہیے۔ لیکن چونکہ یہ سوویتوں کے ساتھ معاہدے کے نتیجے میں وجود میں آئی تھی اس لیے یک لخت ایسا نہیں کیا جاسکتا۔ چونکہ عوام کے خلاف طاقت کے استعمال کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور مارکسی اقلیت کے زور پر اقتدار پر قبضہ کرنے پر یقین نہیں رکھتے اس لیے انقلابی ہراول دستے کو پہلے مزدوروں اور کسانوں کی اکثریت کو جیتنا چاہیے۔ تمام طاقت سوویتوں کے حوالے ہو۔ وہ بورژوا۔پارلیمانی ریاست کے ساتھ قائم نہیں رہ سکتیں۔ یا تو پرولتاریہ کی آمریت ہوگی یا ملکیت رکھنے والے طبقات کا اقتدار رہے گا۔

20۔ لینن نے ’لیٹر فرام افار‘ سوئٹزرلینڈ سے 2 اور 8 اپریل کے درمیان لکھے۔ صرف پہلا سلسلہ پیٹروگراڈ پہنچا اور 14اور15 نومبر کو پراودا میں شائع ہوا (’پہلے انقلاب کا پہلا مرحلہ‘) دیگر 1924ء میں لینن کی منتخب تصانیف (روسی زبان میں) میں پہلی بار شائع ہوئے۔ پانچواں (’ریاست کی انقلابی پرولتاریہ تنظیم کے مسائل‘) 8 اپریل کو جب لینن سوئٹزرلینڈ چھوڑ رہا تھا، شروع ہوا لیکن کبھی مکمل نہ ہوا۔

21۔ لینن 16 اپریل 1917ء کو پیٹروگراڈ پہنچا۔ اگلے دن زینوویوو نے بذریعہ جرمنی سوئٹزرلینڈ سے ہونے والے سفر، جو معروف ’سیل ٹرین‘ میں ہوا، کے حالات پر پیٹروگراڈ ایگزیکٹو کمیٹی کو رپورٹ پیش کی۔ مختلف سیاسی جماعتوں سے منسلک 32 سیاسی مہاجرین نے یہ سفر کیا۔ سوئس سوشلسٹ Fritz Platten نے اس کے انتظامات کیے۔ اس نے سوئٹزرلینڈ میں جرمن سفیر سے تحریری معاہدہ کیاجس کے بنیادی نکات یہ تھے: (1) تمام مہاجرین، جن کے جنگ پر جو بھی خیالات ہوں، کو گزرنے کی اجازت ہے۔ (2) ریلوے کار جو یہ مہاجرین استعمال کررہے ہیں صرف انہیں کے تصرف کا علاقہ ہوگی؛ اس میں Platten کی مرضی کے بغیر کوئی داخل نہیں ہوسکتا؛ پاسپورٹس اور سامان پرکسی قسم کا کنٹرول نہیں ہوگا۔ (3) مسافر اتفاق کرتے ہیں کہ اتنی ہی تعداد میں روس میں نظربند آسٹروجرمنز کو جرمنی آنے کی اجازت دلوانے کے لیے احتجاج کریں گے۔

22۔ 25,000 سے 30,000 کے درمیان سپاہیوں کا خودرو مظاہرہ، جسے مزدوروں کی حمایت حاصل تھی، ’میلیوکوو کوہٹاؤ‘ کے نعرے کے ساتھ گلیوں میں امنڈ آیا کیونکہ وہ جنگ کو طول دینے کاذمہ دارتھا۔ 21 اپریل کو بالشوویکوں کی پیٹروگراڈ کمیٹی نے ایک اور مظاہرے کی پکاردی۔ اس کی بجائے کیڈٹس کی مرکزی کمیٹی نے ’پروویژنل گورنمنٹ کے گرد متحد ہونے اور اس کی حمایت کرنے‘کے لیے اپنے ساتھیوں کو بلاوا دیا۔ بورژوا کے وفادار عناصر مزدوروں سے لڑے اور ان کے خونی لڑائی جھگڑے ہوئے۔ ٹراٹسکی کے مطابق پارٹی کی سنٹرل کمیٹی نے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے دھڑے کی باگوں کو کھینچا اور اعلان کیاکہ وہ مظاہروں کو ویٹو کرنے کے سوویتوں کے فیصلے کو بالکل درست سمجھتی ہے اور اسے غیر مشروط طور پر مانتی ہے۔ ’اس وقت ’’پروویژنل گورنمنٹ مردہ باد‘‘ کا نعرہ غلط ہے۔ کیونکہ عوام کی ٹھوس (یعنی باشعور اور منظم) اکثریت کے بغیر، جو انقلابی پرولتاریہ کے ساتھ کھڑی ہو، ایسا نعرہ کھوکھلا ہے، یا یہ مہم جوئی کی خاصیت کا حامل ہے۔‘ اس قرارداد میں کہا گیا کہ تحریک کا مقصد سوویتوں میں اکثریت حاصل کرنے کے لیے تنقید، پراپیگنڈہ ہے تاکہ اقتدار کے حصول کی راہ ہموار کی جاسکے۔

23۔ آگست بلانکی (1805ء تا1881ء) معروف فرانسیسی انقلابی تھاجو پرولتاریہ کی سازشی بغاوت کے ذریعے حصولِ اقتدار کی وکالت کرتا تھا۔ مارکس ازم بغاوت کو فن سمجھنے میں بلانکی ازم سے مختلف نہیں۔ لینن نے لکھا ’’بغاوت کی کامیابی کی بنیاد نہ سازش اور نہ ہی پارٹی پر بلکہ پیش قدم (ایڈوانسڈ)طبقے پر ہونی چاہیے۔یہ پہلا نکتہ ہے۔ بغاوت کی بنیاد لازماً عوام کے انقلابی ابھار پر ہونی چاہیے۔ یہ دوسرا نکتہ ہے۔ بغاوت کو لازماً تاریخ میں انقلاب کی بلوغت کے فیصلہ کن موڑ پر ہونا چاہیے، تب جب پیش قدم عوام کی سرگرمیاں عروج پر ہوں، جب دشمنوں کی صفوں میں اور جب انقلاب کے کمزور، نیم دل، متزلزل دوست بالکل واضح ہوتے ہیں۔ یہ تیسرا نکتہ ہے۔ بغاوت کے سوال پر یہ تین شرائط ہیں جو مارکس ازم کو بلانکی ازم سے مختلف کرتی ہیں۔

24۔ 8 جنوری 1918ء کو آئین ساز اسمبلی سے متعلق تھیسس میں لینن نے لکھا ’’ماضی میں تشکیل دی گئی آئین ساز اسمبلی کی طلبی کا مطالبہ انقلابی سوشل ڈیموکریسی کے پروگرام کا بالکل جائز حصہ ہے تھا، کیونکہ بورژوا جمہوریہ میں آئین ساز اسمبلی جمہوریت کی اعلیٰ ترین شکل ہوتی ہے۔۔۔‘‘، لیکن 1917ء میں جہاں بالشوویکوں نے آئین ساز اسمبلی کا مطالبہ کیا وہیں یہ زور دیتے رہے کہ عام بورژوا جمہوریت کی نسبت سوویت جمہوریہ زیادہ اعلیٰ شکل ہے۔ اکتوبر انقلاب میں جب سوویتوں نے اقتدار لے لیا تو آئین ساز اسمبلی کی اہمیت نہ رہی۔ جب 18 جنوری 1918ء کو آئین ساز اسمبلی کو اجلاس ہوا تو یہ ایک روزہ سیشن تھا۔ اس کی ترکیب میں دائیں بازو کے سوشل انقلابی غالب تھے، اس کی بنیاد ان انتخابی فہرستوں پر تھی جنہیں عوام کے بالشوویک ازم کی طرف جھکاؤ سے قبل ترتیب دیا گیا تھا۔ ایک اعلان کے بعد،جس میں آئین ساز اسمبلی کی اکثریت کو ردِانقلابی کہہ کر رد کردیا گیا، بالشویک اور بائیں بازو کے سوشل انقلابی اس سے علیحدہ ہوگئے۔ اسی دن اسمبلی منتشر ہوگئی اور19 جنوری کو سوویت حکومت نے اسے باقاعدہ تحلیل کردیا۔

25۔ سکینڈی نیوین سوشلسٹ پارٹیز کی جوائنٹ کمیٹی کی طرف سے ڈینش Social-Demokraten کے ایڈیٹر Borgbjerg نے سوویتوں کی ایگزیکٹوکمیٹی کو ایک دعوت نامہ بھیجا کہ وہ سٹاک ہوم میں ایک بین الاقوامی امن کانفرنس میں شریک ہوں۔ مینشوویکوں اور سوشل انقلابیوں نے اسے قبول کرلیا، اسی طرح جرمن سنٹرسٹ Haase، کاوتسکی اور Ledebour نے۔ برطانوی اور فرانسیسی سوشلسٹوں نے وطن پرستانہ وجوہ کی بنا پر اسے رد کردیا۔ بالشویکوں کی اپریل کانفرنس نے لینن کی پیش کردہ وجوہ، کہ یہ جرمن سامراج کی ایک سیاسی چال ہے تاکہ حکومتی سوشلسٹوں کو استعمال کرتے ہوئے امن کے لیے بہتر شرائط کی چھان پھٹک کی جاسکے، اسے رد کیا۔ صرف کانیوو نے شرکت کے خیال کی حمایت کی۔

26۔26 اگست 1917ء کی ماسکو سٹیٹ کانفرنس کے بعد ملک میں سب سے زیادہ رجعتی عناصر نے سوویتوں کے خلاف کودیتا کی تیاری کا آغاز کیا۔ کرنسکی نے پروویژنل گورنمنٹ کی ’بنیاد میں توسیع‘ کی اپنی بوناپارٹسٹ پالیسی کے مطابق کانفرنس کی پکاردی تھی۔ اپنی ترکیب میں کانفرنس کلیتاً ردِانقلابی تھی۔ اس کی عمومی شکایت یہ تھی کہ پروویژنل گورنمنٹ کے پاس بہت کم اختیارات ہیں، جس کا مطلب تھا کہ سوویتوں کے پاس بہت زیادہ ہیں۔معاملہ تب تیزتر ہوگیا جب 2 ستمبر کو جرمنوں نے ڈوینا کے محاذ پر چڑھائی کی اور ریگا پر قبضہ کرلیا۔ اس کا ثبوت موجود تھا کہ کارنیلوونے دھوکہ دہی سے روسی محاذ کھولا تاکہ تشویش ناک صورتِ حال کو پیدا کیا جاسکے، جس کی فوجی کُو کے لیے ضرورت تھی۔ کرنسکی اور کارنیلوو حالات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے پیٹروگراڈ کے عوام کے خلاف سازش میں شریک ہوئے۔ ان کا منصوبہ تھا کہ کارنیلوو پیٹروگراڈ آئے اوراپنے کوساکس کے ذریعے سوویت عوام کو غیر مسلح کرے، لیکن اس دوران سوویتوں نے کرنسکی کو مجبور کیا کہ وہ کارنیلوو کی گرفتاری کے احکامات جاری کرے۔ آخرالذکر نے پیٹروگراڈ کی جانب سفر شروع کیا تاکہ اپنی فوجی آمریت قائم کرسکے۔ عوام انقلابی جذبے کے ساتھ متحرک ہوئے اورکارنیلوو کو شکست ہوئی۔ بالشوویکوں کی ساکھ فوراً بہتر ہوئی اور ٹراٹسکی کو پیٹروگراڈ سوویت کا صدر چن لیا گیا۔

27۔ کارنیلوو کی بغاوت کے دنوں میں ’ڈیموکریٹک کانفرنس‘ کا فیصلہ کیا گیا تاکہ ’جمہوریت‘ کی کمزور ہوتی گرفت کو سہارا دیا جاسکے اور کرنسکی پر روک لگائی جا سکے۔ اصولی طور پر یہ Tseretelli کا اپنایاگیا طریقہ تھا تاکہ بالشوویکوں کی سوویتوں میں جگہ بنانے کی کوششوں کو روکا جاسکے، اور اسے تھی کہ کانفرنس سوویتوں کے مقابل قوت بنے گی۔ کانفرنس میں بالشویک اقلیت میں تھے کیونکہ zemstvos اور دیگر بورژوا اداروں کو سوویت ڈیلی گیٹس پر فوقیت دی گئی تھی۔ ۔آخرالذکر کے کاکس (caucus)میں ٹراٹسکی نے سوویتوں کو اقتدار کی منتقلی کی حمایت میں بات کی مگر بذریعہ ووٹ اسے شکست ہوئی۔ خود کانفرنس کے دوران بالشویکوں کی طرف سے پیش کردہ اعلان میں اس نے رائے دی کہ سوویت اکثریت بننے پر وہ اقتدار لینے کے لیے تیار ہیں۔ کانفرنس اتحاد (بشمول کیڈٹس) کے سوال پر یک سو نہ ہوسکی۔ اختتام سے قبل اس نے ہر گروپ کی ممبرشپ کے 15 فیصد پرمشتمل ایک مستقل باڈی بنائی تاکہ آئین ساز اسمبلی بلانے سے پہلے کونسل آف دی ریپبلک یا قبل از پارلیمنٹ (پری پارلیمنٹ) کا قیام عمل میں لایا جاسکے۔ بالشویک ڈیلی گیٹس کی کانفرنس میں ٹراٹسکی نے اس بنا پر قبل از پارلیمنٹ کے بائیکاٹ کی تجویز دی کہ یہ قوتوں کے حقیقی باہمی رشتوں کی نمائندگی نہیں کرتی اور سوویتوں کے پاؤں باندھنے کا ذریعہ تھی۔ وہ اقلیت میں تھا لیکن لینن، جو غیر حاضر تھا، نے انہیں خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ قبل از پارلیمنٹ ’جعلی‘ ہے۔ تب اس نے لکھا تھا ’ٹراٹسکی بائیکاٹ کے حق میں تھا، شاباش کامریڈ ٹراٹسکی!‘

قبل از پارلیمنٹ کے پہلے سیشن کے موقع پر ٹراٹسکی نے اعلان کیا کہ یہ ملکیت رکھنے والے طبقات سے بھری ہوئی ہے اور انقلاب کے خلاف ہے۔ بالآخربالشویک ایک اعلان پڑھنے کے بعد اس سے علیحدہ ہوگئے اور کل روس کانگریس آف سوویت بلانے کا پکا ارادہ کیا۔

28۔ روڈالف ہلفرڈنگ (1877ء تا 1941ء) جرمن سوشل ڈیموکریسی کا ایک معروف رہنما تھا، اور ’آسٹرومارکسسٹ‘ سکول کا نمایاں نمائندہ تھا۔ وہ پہلے آسٹرین سوشل ڈیموکریسی میں سرگرم تھا لیکن 1906ء میں جرمن تحریک میں شامل ہوگیا۔ اس کی خاص تحریر Finanzkapital ہے۔ ایک کاؤتسکی نواز سنٹرسٹ کی حیثیت سے دورانِ جنگ اس نے 1917ء میں انڈی پینڈنٹ سوشلسٹس میں شمولیت اختیار کی اور کمیونسٹ انٹرنیشنل کی مخالفت کی۔ اس نے دوبارہ سوشل ڈیموکریسی میں شمولیت اختیار کی اور Stresemann اور مُلر کی اتحادی کابینہ میں وزیر رہا۔*

29۔ دی پیس آف بریسٹ۔لٹووسک سے انقلابی روس اور سامراجی جرمنی کے درمیان جنگ کا خاتمہ ہوا۔ اگرچہ اس امن کی کل روس سوویت کانگریس کے آدھے سے زیادہ ڈیلی گیٹس نے شدید مخالفت کی تاہم لینن کی مضبوط منطق نے بالآخر کام کردکھایا اور جنرل ہوف مان کی ’Tilsit‘ شرائط کو مان لیا گیا جن میں روس کو بہت زیادہ ہرجانہ دینا تھا اور بہت بڑے علاقے سے دست بردار ہونا تھا۔ ٹراٹسکی نے ہرممکن حد تک مذاکرات کو طول دیا تاکہ جرمنی میں ہڑتالی تحریک کو انقلابی رخ اختیار کرنے کا وقت مل سکے لیکن جرمن سوشل ڈیموکریٹس نے باغی تحریک کو دبا دیا۔ ان حالات میں لینن نے کہا کہ روس انقلابی جنگ لڑنے کی پوزیشن میں قطعاً نہیں انقلاب کو مستحکم ہونے اور اپنی افواج تیار کرنے کے لیے سانس لینے کا موقع چاہیے۔

30۔1917ء میں Mezhrayontsi (انٹرڈسٹرکٹ آرگنائزیشن آف یونائیٹڈ سوشل ڈیموکریسی) کی پیٹروگراڈ میں تعداد 4,000 تھی اور فوجی تنظیم میں 1,000تھی۔ ٹراٹسکی کے علاوہ ان کے نمایاں ارکان میں لوناچارسکی، وولڈارسکی، یوریٹسکی، جوفی، میلوئی لسکی، کاراخان، ریاضانوو، پوکرووسکی اور یورین شامل تھے۔ ان کا غیرقانونی آرگن Vperyod (آگے) شائع ہوتا تھا۔ آخرالذکر کی 8 تا16 اگست 1917ء کو منعقد ہونے والی چھٹی کانگریس کے موقع پر وہ بالشویکوں سے ضم ہو گئے۔سورڈلووکی رپورٹ کی مطابق ٹراٹسکی پہلے ہی پراودا کے ادارتی سٹاف میں شامل ہوچکا تھالیکن قید کی وجہ سے عملی شرکت نہیں کرسکتا تھا۔ کانگریس میں سنٹرل کمیٹی کے لیے سب سے زیادہ ووٹ لینے والوں میں ٹراٹسکی شامل تھا