اُردُو
Perspective

وبا کے سیاسی اسباق اور 2021 میں سوشلزم کی جدوجہد

1۔ نئے سال کے آغاز کے ساتھ کووڈ 19 کی وبا کا پھیلاؤ دنیا بھر میں جاری ہے۔ یہ وسیع تاریخی اہمیت کا حامل عالمی بحران ہے۔ یہ وبا انتہائی مرتکز شکل میں عالمی سرمایہ دارانہ نظام کے تضادات کو آشکار اور سماجی تبدیلی کی طویل عرصے سے دبی قوتوں کو بے لگام کرنے والا ”کلیدی واقعہ“ ثابت ہوئی ہے۔

2۔ اس وبا کو محض طبی بحران قرار نہیں دیا جا سکتا۔ گزشتہ برس کے دوران عالمی سرمایہ داری کا کامل رجعتی کردار بے نقاب ہو چکا ہے۔ سماجی قیمت سے بے نیاز منافع کی دوڑ، نجی دولت کے لیے اولیگارشی کی بے ہودہ لالچ، دنیا بھر کی آبادی کی زندگی اور فلاح سے سنگ دلانہ بے اعتنائی نے عالمی سماجی تباہی کو جنم دیا ہے۔

3۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف دی فورتھ انٹرنیشنل (آئی سی ایف آئی) نے تسلسل سے اس وبا کا تقابل پہلی عالمی جنگ سے کیا ہے۔ 1914ء اور جنگ کے بعد کے واقعات نے دنیا میں بھر میں پھیل جانے والی سیاسی اتھل پتھل تحریک دی۔ محنت کش طبقہ اور عوام سیاسی لحاظ سے ریڈیکلائز ہوئے۔ 1914ء کے آغاز پر انتہائی طاقت ور اور ناقابل شکست سمجھی جانے والی روس، آسٹریا ہنگری اور پروشیا جیسی سلطنتوں کا تختہ سماجی انقلاب کی قوتوں نے چند ہی برس میں الٹ دیا۔ ایشیا، افریقہ، مشرق وسطیٰ اور لاطینی امریکا میں نوآبادیاتی غلبے کے خلاف سامراج مخالف تحریک ابھری جس میں میں کروڑوں افراد نے شمولیت اختیار کی۔

4۔ گزشتہ برس شروع ہونے والا المیہ جو نئے برس بھی جاری ہے، بین الاقوامی محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے شعور میں گہری تبدیلی لا رہا ہے۔ سال 2020…… جس کی پہچان بے وقت موت، معاشی بدحالی، روایتی سیاسی ڈھانچوں، چاہے وہ نام نہاد جمہوری ہوں یا کھلے آمرانہ، کی توڑ پھوڑ اور واضح بحران بن چکے ہیں …… اکیسویں صدی میں تاریخ کا وہی موڑ ثابت ہو گا جو بیسویں صدی میں 1914 ہوا تھا۔ امرا اور عام سماج کے مابین مفادات کا تضاد اتنا نمایاں ہے کہ اس سے سماجی احتجاج اور غیر مصالحانہ سیاسی مخالفت لازماًابھرے گی۔

5۔ گزشتہ برس کے آغاز پر انٹرنیشنل کمیٹی نے سالِ نو کے بیان میں کہا تھا کہ 2020 کی دہائی سماجی انقلاب کی دہائی ہو گی۔ یہ پیش گوئی پہلے ہی سے اگلے مرحلے پر پہنچے ہوئے عالمی جغرافیائی سیاسی اور سماجی معاشی بحران کے تجزیے کی بنیاد پر کی گئی تھی۔ 2020 کے واقعات نے نہ صرف اس تجزیے کی تصدیق کی بلکہ فوری توجہ کی ضرورت کو اجاگر کیا۔

6۔ وبا کے اثرات کم ہونے کے بجائے بڑھ رہے ہیں۔ نئے اور زیادہ پھیلاؤ کی صلاحیت رکھنے والے وائرس کی قسم کی آمد سے قبل ہی دنیا بھر کی آبادی میں کووڈ 19 کے پھیلنے کی رفتار تیز تر ہو چکی تھی۔ نئے سال کے آغاز سے قبل ہی 20 لاکھ اموات ہو چکی ہیں۔ ایشیا میں 305000 اموات کی اطلاعات آ چکی ہیں۔ افریقہ میں سرکاری سطح پر 63000 اموات بتائی گئی ہیں۔ یورپ میں 55200 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ دونوں امریکی براعظموں میں 848000 افراد موت کے منہ میں جا چکے ہیں۔

7۔ مختلف ملکوں میں ہونے والی اموات کی کل تعداد ہیبت ناک ہے۔ برازیل میں 200000 کے قریب افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔ برطانیہ میں یہ تعداد 71000 سے قدرے زیادہ ہے۔ اٹلی میں 72000 اموات ہوئی ہیں۔ فرانس میں 63000 جانیں گئیں۔ سپین میں 50000 مرے۔ جرمنی میں مرنے والوں کی تعداد 30000 ہے۔

8۔ دنیا میں سب سے خطرناک صورت حال ریاست ہائے متحدہ امریکا کی ہے جہاں وبا کنٹرول سے باہر ہو چکی ہے۔ 2020ء میں کووڈ 19 سے ہلاک ہونے والوں کی کل تعداد 340000 تک جا پہنچی۔ دسمبر میں تقریباً 70000 امریکی اس وائرس سے مرے اور اس دوران روزانہ ہلاکتیں 3500 تک بھی ہوئیں۔ اب تخمینہ لگایا گیا ہے کہ جنوری میں مزید 115000 امریکیوں کی ہلاکت ہو گی۔ ذرائع ابلاغ نے کووڈ ویکسین کی تیاری پرتوجہ مرکوز کر کے لوگوں کا دھیان جاری وحشت سے ہٹانے کی کوشش کی لیکن حقیقت یہی ہے کہ امریکیوں کی ہلاکت کی سالانہ شرح ان کی خونیں جنگوں سے بھی زیادہ ہے۔

9۔ فائزر اور موڈرنا ویکسینوں کے اجرا کی ذرائع ابلاغ پر خوب تشہیر کی گئی مگر تقسیم کی بدانتظامی نے اس کا اثر زائل کر دیا ہے۔ دسمبر کے اختتام تک دو کروڑ میں سے صرف 30 لاکھ کو یہ لگائی گئی تھی۔ آنے والے مہینوں میں اگر بدنظمی اور نااہلی پر کسی طرح قابو پا لیا جاتا ہے …… منافع کمانے پر استوار صحت کی امریکی صنعت میں اس کا امکان انتہائی کم ہے…… تو بھی ہلاکت کی شرح پر محدود اثر پڑے گا۔ دسمبر میں انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوالویشن نے خبردار کیا کہ ”ویکسین کے باوجودبھی اگر ریاستوں نے وبا کی موجودہ لہر کو قابو نہ کیا تو مرنے والوں کی تعداد یکم اپریل تک 770000 ہو سکتی ہے۔ لیکن وائرس کے موجودہ تباہ کن پھیلاؤ کے خلاف انسدادی اقدامات تو کیا، لہر کو قابو میں رکھنے کے لیے لازمی اقدامات نہ ریاستیں اور نہ ہی وفاقی حکومت کریں گے۔

10۔ نو منتخب صدر جو بائیڈن ”انتہائی تاریک سرما“ کی پیش گوئی کر چکے ہیں۔ لیکن غیر معمولی سماجی تباہی کے ہوتے اپنی مدت کے پہلے 100 دنوں میں وہ جو واحد قدم تجویز کرتے ہیں وہ امریکیوں سے ماسک پہننے کی استدعا ہے۔ وبا کے اس مرحلے پر بائیڈن کی پالیسی کو سمندری طوفان کی ہواؤں کو تتلی پکڑنے کے جال سے روکنے کی کوشش کہا جا سکتا ہے۔ بائیڈن کی حقیر تجویز سرمایہ دار اولیگارشی کی طرف سے انسانی زندگی کی توہین کی ایک ہے۔

11۔ حکمران طبقہ ان پالیسیوں کے نفاذ سے انکار کر رہا ہے جنہیں کووڈ 19 کے وائرس کو روکنے کے لیے لازماً اپنایا جانا چاہیے: وہ ہیں، کام کی تمام غیرضروری جگہوں کو بند کر دیا جائے، سکولوں کو بند کر دیا جائے اور بحران کے خاتمے تک آبادی کی ضرورت کے لیے ہنگامی امداد دی جائے۔ اس خود غرضانہ دعوے کی تردید کہ کچھ نہیں کیا جا سکتا،وائرس کے پھیلاؤ کو …… ٹیسٹ کر کے، سراغ لگا کر اور منتخب لاک ڈاؤن کے سخت پروگرام سے …… تیزی سے محدود اور ہلاکتوں کو 5000 سے کم رکھ کر چین نے کر دی ہے۔

12۔ یہ حقیقت کہ وبا کا اثر مغربی یورپ کے ترقی یافتہ سرمایہ دارانہ ممالک اور بالخصوص ریاست ہائے متحدہ امریکا …… جو امیرترین سرمایہ دار طبقے کا گھر اور عالمی سامراج کا مرکز ہے…… میں سب سے زیادہ پڑا، قومی ریاست، نجی ملکیت اور انسانی محنت کے استحصال کے ذریعے منافع پر قائم سماجی معاشی نظام کے متروک ہونے کی گواہی دیتی ہے۔ وبا کے شروعاتی مراحلے ہی سے حکمران طبقات نے ان تمام اقدامات کو رد کیا جو انسانی زندگی بچانے کے لیے ضروری تھے کیونکہ وہ ذاتی دولت جمع کرنے یا ان کی ریاستوں کے عالمی جغرافیائی سیاسی مفادات کی راہ میں رکاوٹ تھے۔

13۔ قومی سلامتی، سامراجیوں کے باہمی تنازعات، طاقت کے عالمی توازن اور سبقت کے لیے کثیرقومی کارپوریشنوں (جو موجودہ قومی ریاستوں سے نتھی ہیں) کی رقابت نے عالمی سطح پر تعاون اور سائنس سے رہنمائی لینے سے باز رکھا۔ انسانی زندگی کو لاحق مشترکہ خطرے نے اتحاد کی حوصلہ افزائی کے بجائے وبا سے سرمایہ دارانہ قومی ریاستوں کے درمیان عداوت کو تقویت ملی۔ انٹرنیشنل انسٹی ٹیوٹ آف سٹریٹجک سٹڈیز کے جاری کردہ ”سٹریٹجک سروے آف 2020“ میں تسلیم کیا گیا ہے کہ ”وائرس کے دنیا کے تقریباً تمام ممالک میں پہنچنے کے باوجود ان ممالک میں تقسیم گہری ہوئی ہے۔ آئی آئی ایس ایس کی رپورٹ میں مزید کہا گیا ہے:

2020ء کے وسط تک ریاست ہائے متحدہ امریکا، یورپ اور چین کے مابین تعلقات دہائی میں سب سے نچلی سطح پر پہنچے۔ روس اور مغرب کے تعلقات پر شک کے بادل چھا گئے۔ ہلاک خیز سرحدی تصادم نے چین اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو بڑھا دیا۔ باہمی تعاون کے اداروں، قوانین اور روایات کو کئی دھچکے لگے۔ امریکا نے عالمی ادارہ صحت سمیت کئی تنظیموں اور معاہدوں کو برا بھلا کہا یا ان سے الگ ہو گیا۔ برطانیہ نے یورپی یونین چھوڑ دی۔ چین نے ہانگ کانگ کی حیثیت بدل دی۔

14۔ عالمی صورت حال کا غیرمعمولی مایوس کن جائزہ پیش کرتے ہوئے سٹریٹجک سروے وضاحت کرتا ہے:

ہم ”برداشت کی لڑائی“ میں داخل ہو رہے ہیں جو آئی آئی ایس ایس کے مطابق ”طے شدہ ریاستوں کے خلاف مداخلت کی مختلف شکلوں کو روا رکھنے کا مسلسل امتحان ہے۔“ بعض اوقات برداشت کی لڑائی کھلے عام کی جاتی ہے اور یوں یہ ”علانیہ“ ہوتی ہے۔ لیکن عام طور پر اسے بیرونی نیٹ ورکس یا نجی شراکت داروں کے ذریعے عملی جامہ پہنایا جاتا ہے، بالخصوص وہاں جہاں ایسی کارروائی کرنے والی قوت ہمسایہ ہو۔ جوں کے توں حالات کو بدلنے کے خواہش مند کرداروں کو یہ طریقہ پسند ہے کیونکہ اس سے تنازع میں روایتی جنگ کی نوبت نہیں آتی، یہ کارروائی عدم استحکام پیدا کرنے کے باوجود نافذ قوانین کی دسترس سے باہر رہتی ہے۔

کووڈ 19 کی وبا نے ان رجحانات میں بمشکل سٹریٹجک وقفہ ڈالا ہے۔ قومی مضبوطی اور خود انحصاری کو کلیدی مقاصد کہا جانے لگا ہے۔ ساکھ کو قومی طاقت کے اہم عنصر کے طور پر استوار کیا گیا ہے۔

15۔ اس انتہائی اندیش ناک صورت حال میں آئی آئی ایس ایس خبردار کرتی ہے ”اکثر لگتا ہے کہ انارکی چند خطاؤں کی دوری پر ہے۔“

حرب کی خصوصیات، تنازعات کی شکل، لاگو سٹریٹجی، شامل کردار اور استعمال ہونے والے ہتھیار، یہ سب تیزی سے بدل رہے ہیں۔ ریاستوں، کمپنیوں اور کثیر قومی کرداروں کی جانب کی ڈیجیٹل اور معاشی طاقت کا استعمال تیزی سے تبدیل ہو رہا ہے۔ علاقائی نظم میں تغیر آ رہا ہے۔ عالمی سماج کی روایات، رہنما اصول، معیارات، قواعد اور قانون کے مابین تعامل میں بدلاؤ آ رہا ہے۔ عالمی سماج پر ناکافی قواعد و ضوابط لاگو ہیں اور یہ کم و بیش ”ناقابل حکمرانی علاقہ“ بن رہا ہے۔

16۔ آئی آئی ایس نے جسے ”برداشت کی لڑائی“ کہا ہے وہ بآسانی ایسی بھرپور جنگ کی شکل اختیار کر سکتی ہے جس میں نیوکلیئر ہتھیاروں کے استعمال کا حقیقی خطرہ موجود ہو۔ روس اور چین پر امریکا کی لگاتار الزام تراشیوں کے ساتھ ساتھ اس کی بڑھتی ہوئی عسکری اشتعال انگیزیاں ہلاکت خیز سیاسی نتائج لا سکتی ہیں۔ ملک کے اندر سماجی دباؤ کا رخ بیرونی جانب موڑنے کی حکمران طبقے کی ضرورت اس خطرے کو مزید بڑھا رہی ہے۔

17۔ بے رحمی سے عالمی جغرافیائی سیاسی مفادات کے تعاقب میں لگی سرمایہ دار بالائی پرت نے وبا کے خلاف ان اقدامات کو رد کر دیا ہے جو کارپوریٹ منافع اور نجی دولت کے ارتکاز سے متصادم ہیں۔ مارچ اور دسمبر 2020ء کے درمیان وال سٹریٹ میں حصص کی قدر میں جتناحیران کن اضافہ اور اموات بھی اسی تناسب سے ہوئیں۔ جن پالیسیوں نے سرمایہ داروں کی دولت کو ممکن بنایا انہوں نے وسیع اموات کو ناگزیر کر دیا۔ جنوری 2020ء ہی میں ریاست ہائے متحدہ امریکا اور یورپ کے حکمران طبقات نے زندگیاں بچانے کے بجائے مالیاتی منڈی کے مفادات کو ترجیح دے دی تھی۔ جیسا کہ ڈونلڈ ٹرمپ نے بعدازاں صحافی بوب وڈورڈ سے انٹرویو میں تسلیم کیا کہ وبا سے پیداشدہ خطرے کو عوام سے چھپایا گیا جبکہ منظر کے پیچھے کیئرز ایکٹ کے تحت وال سٹریٹ اور بڑی کارپوریشنوں کو کئی ٹریلین ڈالر کا بیل آؤٹ دیا گیا۔

18۔ 2020ء کے آغاز سے دنیا کے 500 امیر ترین افراد کی دولت میں تقریباً 1.8 ٹریلین ڈالر کا اضافہ ہوا اور یہ 7.6 ٹریلین ڈالر ہو گئی۔ ان میں سے وبا سے مستفید ہونے والے پانچ منافع خوروں میں سے ہر ایک کے پاس اب 100 ارب ڈالر سے زیادہ ہیں جن میں ایمازون کے سی ای او جیف بیزوس (190 ارب ڈالر) اور ٹیسلا کے سی ای او ایلون مسک (170 ارب ڈالر) شامل ہیں۔ ان دو افراد کی کل دولت میں 217 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔

19۔ حکمران پرت کی دولت میں تیزی سے اضافے کا مکمل انحصار فیڈرل ریزرو کی جانب سے ڈیجیٹل طور پر تیار کردہ رقم …… یہ ایک ”فرضی سرمایہ“ ہے جو حقیقی قدر کی پیداوار سے بالکل بے تعلق ہے……کی مالیاتی منڈی کو لامحدود منتقلی پر ہے۔ اس نے سٹے بازی کو بے لگام کر دیا جس نے فرضی اثاثوں کی قیمتوں اور ان کے مالکوں کی دولت کو حددرجہ بڑٖھا دیا۔ کرپٹو کرنسی بٹ کوائن ……ایسی رقم جس کا سائبر سپیس سے باہر کوئی وجود نہیں …… 2020 میں 360 فیصد بڑھ کر 7194 ڈالر سے 34000 ڈالر تک جا پہنچی۔ کرسمس اور نیوائیر کی چھٹیوں میں مارکیٹ میں اس کی قیمت تقریباً دگنی ہو گئی۔ نئے سال کے آخری ہفتے شائع ہونے والے کالم میں ایڈورڈ لوس نے مزاح کے انداز میں تبصرہ کیا ہے کہ ایسے تحفے ”امریکی فیڈرل ریزرو کی مہربانی سے آتے ہیں …… رقم کے آزادانہ بہاؤ نے تمام اثاثوں کی قیمتیں بڑھا دی ہیں۔“

20۔ البتہ فیڈرل ریزرو کی پالیسی کا بوجھ محنت کش طبقے پر پڑتا ہے۔ ریاستی خساروں اور کارپوریٹ قرض کا بڑا اجتماع، جس کا پیٹ بیل آؤٹ کے مال سے بھرتا ہے، کارپوریٹ ریونیو کی مسلسل درآمد اور منافع کی اعلیٰ سطحوں کا تقاضا کرتا ہے۔ اس درآمد کے بغیر سٹے بازازنہ غبارے اور اس پر منحصر دولت کو استحکام نہیں مل سکتا۔ معاشیات کی اس ضرورت کو قوت محنت کے بلاروک استحصال ہی سے پورا کیا جا سکتا ہے۔ جس طرح پہلی عالمی جنگ میں سپاہیوں کو خندقوں میں رکھنے اور مشین گن کی گولیوں اور زہریلی گیسوں کا سامنا کرنے پر مجبور کرنے کی ضرورت تھی، اسی طرح وائرس کے بے قابو پھیلاؤ کے باوجود آج کے محنت کشوں کو فیکٹریوں اور کام کی جگہوں پر رکھنے کی ضرورت ہے۔ نیز والدین کو ملازمتوں پر جانے کے قابل بنانے کے لیے سکولوں کو کھلا رکھنا ضروری ہے باوجود اس کے کہ بالغوں میں کووڈ 19 کے وائرس کی منتقلی کا اہم ترین ذریعہ بچے ہیں۔

21۔ سماجی طور پر کئے گئے یہ وہ مجرمانہ حساب کتاب ہیں جو ”ہرڈ امیونٹی“ یا اجتماعی مدافعت کے پروگرام کے نفاذ اجازت کی راہ ہموار کرتے ہیں، جس کا مطلب وائرس کے بے قابو پھیلاؤ کی وکالت کرنا ہے۔ اس پالیسی کے حامیوں کے مطابق اس سے بالآخر آبادی کا بڑا حصہ کووڈ 19 کے وائرس میں مبتلا ہو جائے گا اور یوں اجتماعی مدافعت کو حاصل کر لیا جائے گا۔

22۔ اس پالیسی کو شہنائیوں کی آوازوں میں سویڈن میں فوری طور پر لاگو کیا گیا …… مارچ 2020کے اواخر میں بیل آؤٹ دینے کے بعد…… پھر یہ پالیسی باقی یورپ اور ریاست ہائے متحدہ امریکا منتقل ہوئی۔ اس سماج دشمن پالیسی کو اس دعوے کہ ساتھ لاگو کیا گیا کہ وائرس کے پھیلاؤ کو روکنے کے لیے لاک ڈاؤنز اور سکولوں کی بندش کی مالی قیمت ناقابل برداشت ہو گی۔ نیویارک ٹائمز کے تھامس فریڈمین نے اپنے کالم میں سویڈن کی تعریف کی، اس نعرے کو عام کیا ”علاج بیماری سے بدتر نہیں ہو سکتا۔“ اس بد خو سطر کا حقیقی معنی یہ ہے کہ کارپوریٹ کے منافع اور وال سٹریٹ کی مشترکہ اقدار کی قیمت پر انسانی زندگیاں نہ بچائی جائیں۔

23۔فاشسٹ تحریکوں کی جانب مزید جھکاؤ، بورژوا جمہوریت کے روایتی اداروں کے انہدام اور مطلق العنان حکومتوں کے قیام کی کوششیں حکمران طبقے کی اس سیاسی پالیسی کا منطقی نتیجہ ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی آئین کو اکھاڑ پھینکنے اور صدارتی آمریت نافذ کرنے کی کوشش اپنی جابرانہ خصلت کی تکمیل کے لیے کسی سماج دشمن فرد کی الگ تھلک کوشش نہیں۔ یہ حقیقت کہ 2020 کے انتخابات کے نتائج سے انکار کی ری پبلیکن پارٹی کے بڑے حصے، بشمول ارکان کانگرس نے کھلی حمایت کی، ظاہر کرتی ہے کہ حکمران طبقے کے طاقت ور عناصر آئین توڑنے اور مطلق العنان حکومت کی مدد کے لیے کس قدر تیار ہیں۔

24۔ ٹرمپ کی ”ریڈیکل بائیں بازو“ اور سوشلزم کو رد کرنے کے ساتھ ساتھ فاشسٹ گینگز کی حوصلہ افزائی کرنا، سماجی عدم مساوات کے خلاف عوامی تحریک کی ناگزیر نمو اور بڑھنے کا خوف اولیگارشی کو اس کی جانب متوجہ کرتا ہے۔ ٹرمپ کے جذباتی خطابات اور اعمال اس سیاسی سٹریٹجی سے میل کھاتے ہیں جسے بائیں بازو کے ممتاز تاریخ دان ارنو جے میئر نے ردانقلاب کے لیے پیش بندی کہا ہے۔

شک، غیریقینی اور تشدد کے عارضی التوا میں ردانقلابی رہنما لڑتے ہوئے اور صدمے سے دوچار بالائی طبقے کو یقین دلاتے ہیں کہ انقلابی ان حالات سے جلد دوبارہ فائدہ اٹھائیں گے۔ لیکن پہلے سے گرم ماحول کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرنے کے بجائے وہ خوب بھڑکاتے ہیں۔ وہ اپنے دعوے، کہ انقلاب آنے کو ہے، کی تائید کے لیے ایسا کرتے ہیں، اسی کے ساتھ ہی ختم نہ سہی، ان حقیقی یا مبینہ انقلابیوں کو روکنے کی صلاحیت رکھنے والے کے طور پر پیش کرتے ہیں۔ ]ڈائنامکس آف کاؤنٹر ریولوشن ان یورپ، 1870-1956: این انالٹیکل فریم ورک (نیویارک: ہارپر اینڈ رو، 1971)، ص 86

25۔ یہ تجزیہ گزشتہ برس پولیس تشدد کے خلاف ہونے والے احتجاج پر ٹرمپ کے حملے اور تین ستمبر 2020 کو اینٹی فا کے مبینہ حمایتی میچل رین وحل کی ریاستی ہلاکت کے لیے بے رحمانہ اشتعال کا ضروری تاریخی پیش منظر مہیا کرتا ہے۔

26۔ ٹرمپ حکومت کے افعال انٹرنیشنل کمیٹی کی تنبیہ کی تصدیق کرتے ہیں، جس نے اس کے اقتدار میں آنے کی سیاسی اہمیت کی جانچ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں سرمایہ دارانہ اقتدار کی سماجی بنیادوں کے مارکسی تجزیے پر کی تھی۔ ٹھیک چار سال قبل، تین جنوری 2017 کو سال نو پر جاری کردہ بیان میں، جو اس کی صدارت کے باقاعدہ آغاز سے صرف دو ہفتے قبل دیا گیا، ورڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے خبردار کیا:

ڈونلڈ ٹرمپ کے انتخاب نے ریاست ہائے متحدہ امریکا میں اولیگارشی کے اقتدار کی مکروہ حقیقت عریاں کر دی ہے۔ البتہ اس امر پر زور دیا جانا چاہیے کہ ٹرمپ ایسا عفریت نہیں جو 2016 کے انتخابی دن نقص کے باوجود ایک سلجھے ہوئے سماج میں وارد ہوا۔ ٹرمپ…… جو رئیل سٹیٹ، مالیات، جوا اور تفریح کی صنعتوں کے مجرمانہ اور روگی ملاپ کی پیداوار ہے…… امریکی حکمران طبقے کا حقیقی چہرہ ہے۔

آنے والی ٹرمپ انتظامیہ کا کردار اپنے مقاصد اور افراد کے لحاظ سے سرکش اولیگارشی کاہے۔ تباہ ہوتا سماجی طبقہ اپنے اختتام کو پہنچ رہا ہے، وہ تاریخ کی لہروں کے سامنے کھڑا ہونے کی بار بار کوششیں کر رہا ہے تاکہ طویل عرصے سے حاصل اپنے اقتدار اور مراعات کے خاتمے کو روکے۔ وہ ماضی کے حالات (یا جیسے اس کے تصور میں ہیں)کی طرف لوٹنا چاہتا ہے لیکن معاشی اور سماجی تبدیلی کی بے مہر قوتوں نے اس کے اقتدار کی بنیادوں کو تحلیل کرنا شروع کردیا ہے۔

27۔ کودیتا کی ٹرمپ کی کوششوں کی ناکامی کی صورت میں جوزف بائیڈن 20 جنوری کو اپنے عہدے کا حلف اٹھائے گا لیکن اس سے امریکی جمہوریت کی واپسی تو کجا، ٹوٹ پھوٹ بھی قابل ذکر طور پر نہیں رکے گی۔ مطلق العنانیت کی جانب سفر کا تحرک شخصیات نہیں بلکہ 1) امریکی سرمایہ داری کے سماجی معاشی تضادات ہیں جن کا خطرناک اظہار انتہا درجے کی سماجی عدم مساوات ہے۔ نیز 2) گھٹتی جغرافیائی سیاسی حیثیت اور عالمی غلبے کو دوبارہ قائم کرنے کی امریکی سامراج کی جبلی اور بے قابو خواہشات ہیں، اگرچہ ان کے نتائج خوفناک ہوتے ہیں۔

28۔ امریکی سرمایہ دارانہ اقتدار کے یہ اساسی عناصر ……پہلے سے زیادہ سماجی عدم مساوات اور بالادست سامراجی طاقت کے طور پر امریکی مفادات کا دنیا میں بلاروک تحفظ …… جمہوریت سے میل نہیں کھاتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے اندرونی احتجاج اور طبقاتی جدوجہد کی نمو پولیس ریاست بننے کا تقاضا کرتے ہیں۔ عالمی غلبے کو برقرار رکھنے کی کوشش کے لیے جنگ اور اس کی تیاری کی خاطر معاشی وسائل کا رخ اندھا دھند اس طرف موڑنا پڑتا ہے۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا کے اندر اور بین الاقوامی سطح پر یہی بائیڈن حکومت کی پالیسوں کا تعین کرے گا۔

29۔ لیکن سماجی ضرورت کا اظہار محض حکمران طبقے کی پالیسیوں میں نہیں ہوتا۔ اس سے عوامی شعور میں وسیع تبدیلیاں آتی ہیں۔ 2020 کا المیہ جو 2021 میں جاری رہے گا، نے سرمایہ دارانہ نظم پر محنت کش طبقے کے اعتماد کو جامع اور اٹل زد پہنچائی ہے۔ وبا کا بنیادی سبق یہ ہے کہ محنت کش طبقے کے مفادات کا تحفظ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدوجہد ہی سے ممکن ہے۔ نہ صرف اجتماعی مدافعت کی پالیسیوں کے خلاف مزاحمت بڑھے گی بلکہ سماج کے موجودہ ڈھانچوں کو بدلنے کے مطالبات میں بھی اضافہ ہو گا۔ عوامی شعور کی بائیں جانب منتقلی اور طبقاتی جدوجہد کی شدت انقلاب سے قبل کی صورت حال کی نمو کی واضح علامت ہو گی۔

30۔ محنت کش طبقہ یہ جاننے میں ناکام نہیں ہوا کہ موت کی شرح بڑھنے کے ساتھ وال سٹریٹ اور دیگر بڑی سٹاک ایکسچینجوں میں حصص میں غیر معمولی اضافہ ہوا۔ جب ہزاروں منہ کھولے سانس لینے کے جتن کر رہے ہیں اوراٹے ہوئے انتہائی نگہداشت کے یونٹوں میں لوگ تنہا مر رہے ہیں، جہاں ان کے پیارے ان سے آخری بار نہ مل سکتے ہیں اور نہ بات کر سکتے ہیں، ایسے میں وبا سے منافع کمانے والوں کا طبقہ سماجی تباہی کے باوجود اپنی افزودگی کا جشن منا رہاہے۔اس طرح نجی دولت کے بے انتہا اجتماع کے ساتھ ساتھ سماجی غصہ اکٹھا ہو رہا ہے۔

31۔ اس غصہ سے طبقاتی جدوجہد پھوٹے گی۔ انٹرنیشنل کمیٹی آف دی فورتھ انٹرنیشنل سے منسلک سوشلسٹ ایکویلٹی پارٹیز کی کوششوں سے اس تبدیلی کی پیش بینی اور حوصلہ افزائی کی گئی ہے تاکہ نچلی سطح پر خودمختار کمیٹیاں بنائی جا سکیں جو کارپوریٹ انتظامیہ کا ضمیمہ بننے والی روایتی ٹریڈیونینز کے کنٹرول سے باہر ہوں کیونکہ ان کا مقصد سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف مزدوروں کی ہر کوشش کو دبانا ہوتا ہے۔

32۔ محنت کش طبقے کو انقلابی جدوجہد کے طوفان میں لاکھڑا کیا گیا ہے۔ جس طرح یورپی اشرافیہ اور شمالی امریکا کے غلام دار مالکان کی دولت اور مراعات ان معاشی اور سماجی تعلقات کو اکھاڑنے کے مطالبے کی پیش خیمہ بنی جن پر یہ قائم تھیں، اسی طرح جدید عالم گیر دنیا مختصر سرمایہ دارانہ بالائی طبقے کے ہاتھوں میں سماجی دولت کے ارتکاز کو ہمیشہ برداشت نہیں کرے گی۔ اولیگارشی کی دولت کی ضبطی اور انسانیت کے مفاد میں عالمی معیشت کی سوشلسٹ تنظیم نو اس بحران کا لازمی نتیجہ ہو گا۔ اس سماجی عمل کی معروضی منطق کی شناخت عالمی ٹراٹسکیٹ تحریک کے سیاسی پیش منظر اور عمل کی حقیقی بنیاد ہے۔

33.۔محنت کش طبقے میں سوشلسٹ تحریک کی نمو اپنی اساس میں بین الاقوامی جدوجہد ہے۔ وبا نے بلاواسطہ اس حقیقت کو عیاں کر دیا ہے کہ انسانیت کو درپیش ہر بڑا مسئلہ عالمی ہے اور اس کا حل بھی عالمی ہو گا۔ زندگی سے یہ بے اعتنائی، نااہلی اور بے نظمی، نجی دولت اور جغرافیائی سیاسی مفادات کے سامنے سماجی ضروریات کی یہ بے رحمانہ قربانی ہر معاملے میں دکھائی دیتی ہے، چاہے موسمیاتی تبدیلی ہو، عالمی جنگ یا وسیع غربت۔

34۔ سرمایہ داری کے خلاف محنت کش طبقے کے عالمی اتحاد کے لیے انہیں تقسیم کرنے کی ہر کوشش کی مخالفت کی ضرورت ہے، چاہے یہ انتہائی دائیں بازو کی قوم پرستی ہو یا نام نہاد بائیں بازو کی نسل پر قائم شناخت کی سیاست۔ گزشتہ برس ڈیموکریٹک پارٹی اور نیویارک ٹائمز نے نسلی تقسیم کے فروغ کے لیے انتھک مہم چلائی اور دعویٰ کیا کہ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں بنیادی تقسیم محنت کش اور سرمایہ دار طبقے کے بجائے ”سفید فام امریکا“ اور ”سیاہ فام امریکا“ کی ہے۔ یہ بالائی درمیانے طبقے کی رجعتی سیاست ہے جو سماجی مساوات نہیں بلکہ اوپری 10 فیصد آبادی میں دولت کی زیادہ موافق تقسیم کے لیے لڑ رہاہے۔

35۔ نسلی سیاست حکمران طبقے کے ان طریقوں میں سے ایک ہے جن کے ذریعے وہ سماجی حزب مخالف کو ڈیموکریٹک پارٹی کے ڈھانچے کے اندر رکھتا ہے۔ 2020 کے موسم بہار میں پولیس کے ہاتھوں قتل کے بعد ریاست ہائے متحدہ امریکا اور بین الاقوامی سطح پر شروع ہونے والے عوامی احتجاج سے اخذ ہونے والا مرکزی سیاسی نتیجہ یہی ہے۔ ڈیموکریٹس اور جعلی بائیں بازو میں ان کی معاون تنظیمیں پولیس کے لگاتار تشدد، جو ہر نسل کے مزدوروں اور نوجوانوں کو متاثر کرتا ہے، کے خلاف غصے کو”سفید فام رعایت“ کی مخالفت کے پیچھے چھپا دیتی ہیں۔ نسلی تاریخ میں جعل سازی، جس کا آغاز نیویارک ٹائمز کے 1619 پراجیکٹ سے ہوا، میں شدت ریاست ہائے متحدہ امریکا کے بورژوا جمہوری انقلابوں: امریکی انقلاب اور خانہ جنگی، کے دو رہنماؤں کے مجسموں کے انہدام کی رجعتی مہم سے آئی۔

36۔ ورمونٹ کے سینیٹر برنی سینڈرز، جسے ڈیموکریٹک سوشلسٹس آف امریکا اور جعلی بائیں بازو کی تنظیموں کی حمایت حاصل تھی، نے سرمایہ داری کی مخالفت کو ڈیموکریٹک پارٹی کی پشت پر لا کر ایک بار پھر رجعتی اور فریبی کردار ادا کیا۔ 2016 کے انتخابات کی طرح 2020 کے انتخابات میں سینڈرز نے کہا کہ وہ ”سیاسی انقلاب“ کی قیادت کر رہا ہے لیکن اس نے اپنی حمایت ڈیموکریٹک پارٹی اسٹبلشمنٹ کے دائیں بازو کے امیدوار کی جھولی میں ڈال دی۔ سینڈرز اور دوسروں کا یہ دعویٰ کہ بائیڈن انتظامیہ سماجی اصلاحات کے نفاذ کے لیے ”جگہ“ بنائے گی، بائیڈن کے عہدہ سنبھالنے سے قبل ہی رد ہو گیا ہے۔ اس نے دائیں بازو سے تعلق رکھنے والوں کی کابینہ بنائی ہے، مسلسل ”اتحاد“ قائم کرنے کا کہا ہے اور ”ری پبلیکن ساتھیوں“ کے ساتھ کام کرنے کا وعدہ کیا ہے۔ یہ وہی افراد ہیں جنہوں نے انتخابی چوری اور غیرآئینی صدارتی آمریت قائم کرنے کی حمایت کی تھی۔

37۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں اور بین الاقوامی سطح پر جمہوری حقوق کا دفاع اورفاشزم کے خلاف لڑائی سوشلزم کے لیے محنت کش طبقے کی آزاد سرگرمی سے جڑی ہے۔ 2020 کا ایک مرکزی سبق یہ ہے کہ سرمایہ داری کے بحران کا جواب دینے کے لیے کوئی حقیقی ترقی پسند راستہ نہ نکلا تو بیسویں صدی کی تمام ہیب ناکیاں زیادہ خونیں اور جابرانہ شکل میں دہرائی جائیں گی۔

38۔ گزشتہ برس کے دوران ٹراٹسکیٹ تحریک کی قیادت، انٹرنیشنل کمیٹی آف دی فورتھ انٹرنیشنل نے مارکسی طریقہ کار کی تاریخی بنیادوں کی مضبوطی و طاقت کا عملی مظاہرہ پیش کیا ہے۔ وبا کے ابتدائی مراحل ہی سے آئی سی ایف آئی نے عالمی خطرے سے خبردار کیا، اس نے حکمران بالائی طبقے کی سازشوں کو بے نقاب کیا، اور مہلک وائرس کو روکنے کے لیے محنت کش طبقے کا جدید پروگرام اور پیش منظر دیا۔ دنیا میں وبا پر ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کی نشرواشاعت کا مقابلہ کوئی بھی دوسرا نہیں کر سکتا۔

39۔ 28 فروری کو جب عالمی اموات 3000 سے کم تھیں اور امریکا میں کوئی ہلاکت ریکارڈ نہیں ہوئی تھی، آئی سی ایف آئی نے وبا کے سے نپٹنے کے لیے فوری عالمی ایمرجنسی کے نفاذ کا کہا۔ جہاں حکمران طبقہ خطرے کی شدت کو کم کر کے پیش اور اقدامات میں تاخیر کر رہا تھا، آئی سی ایف آئی نے دنیا کے سائنسی، تکنیکی اور سماجی وسائل کو اس مہلک خطرے سے لڑنے کے لیے بروئے کار لانے کا کہا۔ 17 مارچ کو جب امریکا میں اموات 100 سے کچھ ہی زیادہ ہوئی تھیں، امریکا میں سوشلسٹ ایکویلٹی پارٹی کی نیشنل کمیٹی نے ”محنت کش طبقے کے لیے عملی پروگرام“ شائع کیا جس میں متاثرہ محنت کشوں کو پوری اجرت دینے کے ساتھ سکولوں اور غیرضروری پیداوار کو فوراً بند کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ یہ ان بے شمار بیانات اور مضامین میں سے ایک ہے جو حکمران طبقے کی وسیع اموات اور سماجی تباہی پر مبنی پالیسی کے مقابل سوشلسٹ پروگرام اور سیاسی متبادل کے تاریخی ریکارڈ میں شامل ہو چکا ہے۔

40۔ جیسا کہ پہلی عالمی جنگ نے بالشوویک پارٹی کی پیش بینی کا اظہار کیا، اسی طرح موجودہ بحران نے ہم عصر ٹراٹسکیٹ تحریک کے تاریخی مقام کا اظہار کیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی سی ایف آئی نے جن پالیسیوں کے لیے جدوجہد کی، اگر انہیں نافذ کیا جاتا تو لاکھوں زندگیوں کو بچایا جا سکتا تھا۔

41۔ انقلاب سے پہلے کی صورت حال …… یعنی اقتدار کے لیے براہ راست جدوجہد کی جانب عبور کا دور……کے بارے میں قبل از وقت نہیں بتایا جا سکتا۔ محنت کش طبقے کی جدوجہد میں شمولیت کے علاوہ واقعات کی رفتار کے بارے میں قیاس کا کردار محض تجریدی اور مابعدالطبیعیاتی ہوتا ہے۔ سرمایہ داری کے معروضی بحران اور طبقاتی جدوجہد کی بڑھوتری کے سیاق و سباق میں سوشلسٹ تحریک کے سامنے چیلنج مزدوروں کے طبقاتی شعور کو بڑھانا اور ان کی تحریک کو سوشلسٹ رخ دینا ہے۔

42۔ لیکن یہ کام باہر رہ کرمزدوروں کو صرف نصیحت کرنے پر مشتمل نہیں۔ سوشلزم کی جدوجہد کی کامیابی کا انحصار فیکٹریوں، سکولوں اور کام کی جگہوں پر محنت کش طبقے کے ہر شعبے میں مضبوط سوشلسٹ ایکویلٹی پارٹی کے قیام پر ہے۔ انٹرنیشنل یوتھ اینڈ سٹوڈنٹس فار سوشل ایکویلٹی کے نوجوان ایس ای پی کے محنت کش طبقے میں پھیلاؤ میں کلید کردار ادا کریں گے۔

43۔ سماجی اور سیاسی حالات محنت کش طبقے کی طاقت ور بین الاقوامی تحریک کے لیے تیار ہیں۔ ہم ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کے قارئین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ سوشلزم کی جدوجہد میں متحرک ہوں، سوشلسٹ ایکویلٹی پارٹی میں شامل ہوں اور سوشلسٹ انقلاب کی عالمی جماعت کے طور پر فورتھ انٹرنیشنل کی تعمیر کریں۔

Loading