اُردُو
Perspective

بائیڈن انتظامیہ‘ حقیقت یا سراب

ڈیموکریٹک پارٹی کا حامی میڈیا پوری کوشش کر رہا ہے کہ کسی طرح صدر جو بائیڈن اور نائب صدر کملا ہیرس کی حلف برداری کو امریکی سیاست میں ایک بڑی تبدیلی بنا کر پیش کرے۔

اس بات میں کوئی شک نہیں کہ امریکہ میں لاکھوں لوگوں نے فاشسٹ ٹرمپ کو واشنگٹن چھوڑتے دیکھ کر سُکھ کا سانس لیا ہے، اس عمل کے صرف دو ہفتے بعد جب اس نے عوام کو بغاوت پر اکسایا کہ وہ کانگریس کی بائیڈن کی جیت کی توثیق کے عمل کو روک دیں۔

لیکن وائیٹ ہاؤس کی ریپبلکن سے ڈیمو کریٹ کو منتقلی کے ساتھ اس فریب کا خاتمہ بھی ضروری ہے کہ یہ حکومت کیا کر ے گی یا کیا کر سکتی ہے۔اسکی تمام تر کارکردگی حکمران طبقے کو لاحق سماجی،معاشی اور عالمی بحران کے تابع ہی ہوگی۔تاہم اس بات کی بھرپور کوشش ہو رہی ہے، کہ جس تباہ کن سماجی اورمعاشی حالات میں بائیڈن کو اقتدار ملا ہے اوراس حکومت کے سامراجی اور سرمایہ داری کی حمایت کے حوالے سے جو حقائق ہیں عوام کو ان سے غافل کر دیا جائے۔

نیویارک ٹائمز کے ایڈیٹورئل بورڈ کے ایک رکن جیس ویگمن نے بدھ کے روز اپنے ایک مضمون میں لکھا کہ ”ٹرمپ نے جو توڑا ہے بائیڈن اسکی مرمت کر سکتاہے“۔ ویگمن نے مزید کہا کہ ”امریکہ کی قیادت اب ایک مہذب اور تجربہ کا ر شخص کے پاس ہے جو اپنے ملک کی لوگوں کی حالت بہتر بنانا چاہتا ہے“۔

گارڈین اخبار میں اپنے ایک مضمون میں سینیٹر برنی سینڈرز نے لکھا کہ بائیڈن اور ڈیموکریٹس کو اب ایک موقع ملا ہے کہ روایتی کام چلاؤ طریقہ کار کو ختم کر دیں اور معاشی عدم مساوات سے لیکر کورونا کی عالمی وباء سے نمٹنے میں میں ٹرمپ انتظامیہ کی ناکامی اور نااہلی تک ملک کو جن بیشمار مسائل کا سامنا ہے ان کو حل کریں۔

وائیٹ ہاؤس، سینٹ اور ایوان زیریں سب پر اختیار حاصل کر لینے کے بعد ”ڈیمو کریٹس کو اب ہمت کرنی چا ہیے او ر امریکن عوام کے سامنے یہ ثابت کر دینا چاہیے کہ حکومت ان کی پریشانی اور تکالیف کا مداواکر سکتی ہے“۔سینڈرز نے اس بات کا بھی عہد کیا کہ سینٹ کی بجٹ کمیٹی کے مسقبل کے چیئر مین کے طور پر وہ اپنے طرز عمل سے کا نگریس کے اپنے ساتھیوں اور صدر بائیڈن کیلئے ایک مثبت قابل تقلید مثال قائم کریگا۔

امریکہ میں پہلے بھی یہ سب کئی مرتبہ ہو چکا ہے۔ 1993 میں ”امید کا اظہار مجسم“ بل کلنٹن جب اقتدار میں آیا تو اس با ت کا اعلان کیا گیا کہ اب دائیں بازو کے ریگن اور بش کے عہد کا خاتمہ ہوگیا ہے۔ کلنٹن نے ملک کے اندر عوام کو جو تھوڑی بہت مراعات حاصل تھیں انکا خاتمہ کردیا جبکہ بیرون ملک بالکنز میں جنگ لڑی اور عراق پر بم برسائے۔ابامہ جو ”امید اور تبدیلی“ کی علامت تھا اسنے جارج ڈبلیو بش کی شروع کردہ جنگ کو اور وسعت دی، وال اسٹریٹ کو اربوں ڈالر دان کئے جس کے نتیجے میں دولت سماج کے نچلے طبقات سے بالائی طبقے کو منتقل ہوئی۔

اور یہ بات صرف امریکہ تک محدود نہیں ہے۔ آپ یونان میں سریزہ کی حکومت کے تجربات پر نگاہ ڈالیں،سپین میں پوڈیموس کے ا ور یوکے میں جیریمی کوربن اور لیبر پارٹی کی، جہاں بائیڈن کے وعدوں سے کہیں بڑھ کر انقلابی تبدیلیوں کے تمام وعدے، اقتدار میں آتے ہی بھلا دئیے گئے اور کاربن کے ہاتھوں سے تو قیادت بھی گئی۔

بائیڈن نے اپنے پہلے دن آفس سنبھالتے ہی جو پے در پے صدارتی حکمنامے جاری کئے، جن میں ٹرمپ کی سرحدی دیوار کی تعمیر کا روکنا،مسلمانوں پر سفری پابندی کا خاتمہ اور پیرس کے ماحولیاتی معاہدے میں دوبارہ شمولیت ان تمام کو بڑا دور رس اور پالیسی تبدیلیوں کا آئینہ دار قرار دیتے ہوئے ان کی بڑی د ھوم مچائی گئی۔ اگر ان کا جائزہ لیا جائے تو ان میں ایسا کچھ نہیں ہے جس سے وسیع تر عوام کی حالت میں کوئی بنیادی تبدیلی واقع ہو۔ گھروں سے بیدخلی کے قومی استثنیٰ میں توسیع کا نہ تو قرضوں پر کوئی اطلاق ہوتا ہے اور نہ گھروں کے کرائیوں کے بقایاجات پر یہ کوئی رعایت دیتا ہے، بالکل جس طرح طلباء کے قرضوں پر سود کی ادائیگی میں دئیے گئے ”وقفے“ میں توسیع سے لاکھوں افراد پر جو کھربوں ڈالر کا قرض ہے اس میں کوئی نرمی یا تخفیف نہیں ہوتی۔

بائیڈن کے کورونا سے نبٹنے کے منصوبے میں ماسک کے استعمال کو ضروری قرار دیا گیا ہے، اور پہلے ایک سو دن میں ایک سو ملین ویکسین انجیکشن کی فراہمی کا وعدہ بھی کیا گیا ہے۔ بائیڈن کے مشیر پہلے ہی اس بات کا اعتراف کر چکے ہیں کہ عوام کی اکثریت کو ویکسین کی فراہمی میں کئی ماہ لگ سکتے ہیں،تمام پرگراموں پر بروقت عمل درآمد کے باوجود بھی۔بائیڈن نے کرونا کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے غیر ضروری پیداوار بند کرنے سے پہلے ہی انکار کر دیاہے اور اس بات کا بھی اعلان کیا ہے تمام پرائمری اور مڈل سکول تین ما کے اندر کھول دئیے جائینگے۔اور یہ سب ان حالات میں ہوگا جب روزانہ تین ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو رہے ہیں اورہسپتال کووڈکی وباء کے مریضوں سے بھرے پڑے ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ پہلے ہی اپنے تقریباًدو کھرب ڈالر کے ناکافی پین ڈیمک ریلیف پیکج پر عملدرآمد میں سست روی کا شکار ہے۔ کانگریس پر ڈیمو کریٹک کنٹرول کے باوجود، بائیڈن نے اس بات پر ذور دیا ہے کہ بل کو ریپبلکن کی تائید بھی حاصل ہونی چاہیے،جس کے معنی یہ ہونگے کہ گفتو شنید کے بعد مختص رقم میں مزید کمی کر دی جائے۔پچھلے ہفتے نو لاکھ مزید امریکیوں کے بیروزگار ہونے کے اندراج کے بعد، سی بی ایس نیوز کا کہناہے کہ چودہ سو ڈالر کی امدادی رقوم کی فراہمی میں بھی کئی ماہ لگ سکتے ہیں، یہ وہ پیسے ہیں جن کی بابت ریاست جارجیہ میں سینٹ انتخابات کے وقت بائیڈن اور ڈیموکریٹس نے امریکیوں کیلئے دو ہزار ڈالر کی فوری منظوری اور ادائیگی کا کہا تھا۔

جو کچھ بھی یہ انتظامیہ کریگی وہ ان دو حدود کے اندر ہوگا، ایک وہ جو مالیاتی سربراہوں اور وال اسٹریٹ کو منظور ہو اوردوئم، جو امریکہ کے عالمی سامراجی جیو اسٹریٹجک مفادات کے تابع ہو۔ ڈیموکریٹس نے اس کو واضح کردیا ہے کہ جہاں تک کرونا کی وباء سے نمٹنے کا تعلق ہے، وہ ٹرمپ کی

”ہرڈ امیونٹی“ کی مہلک اورخونی پالیسی کو ہی جاری رکھیں گے، مارکیٹ جس سے بہت خوش ہے۔ جہاں تک فارن پالیسی کا تعلق ہے، بائیڈن کی کابینہ کے نامزد افراد کی سینٹ میں توثیق کی کاروائی سے تو یہ پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں اسکی خارجہ پالیسی کئی حوالوں سے ٹرمپ کی پالیسی کا تسلسل ہوگی، جس میں روس کے ساتھ محاذآرائی میں اضافہ ہوگا۔مرکزی نکتہ جس پر ڈیموکریٹس نے ٹرمپ کی مخالفت کی تھی وہ امریکہ کے روس کے ساتھ تعلقات تھے۔بائیڈن انتظامیہ اُبامہ حکومت کے ان سابقہ اہلکاروں سے بھری پڑی ہے جنہوں نے لیبیا کے خلاف جنگ کی حمایت کی،شام میں خانہ جنگی کو بھڑکایااور امریکہ کے ڈرون حملوں کی تعداد میں بہت ذیادہ اضافہ کیا۔

ساؤتھ کیرولینا سے سینیٹر لنڈسے گراہم کے ایک سوال کے جواب میں، سیکرٹری آف اسٹیٹ کے عہدے کیلئے نامزد امیدواراینتھونی بلینکن نے کہاکہ ایران دہشت گردی کو پھیلاتا ہے، اس بات سے انکار کیا کہ اسرائیل ایک نسل پرست ریاست ہے، افغانستان سے امریکیوں کے فوری انخلاء کی مخالفت کی،اورکہا کہ جولوگ وسطی امریکہ سے غربت اور تشدد کی وجہ سے بھاگ رہے ہیں وہ امریکہ نہ آئیں۔ایورل ہائینز، جسے بدھ کے روز بہ عجلت نیشنل انٹیلی جنس کا ڈاریکٹر تعینات کیا گیا نے کہا کہ وہ چائینہ کے خلاف ٹرمپ کے اختیار کردہ جارحانہ مؤقف کی تائید کرتی ہے۔

بائیڈن انتطامیہ کی خصوصیت ”اتحاد“ ہوگا، اور یہ اتحاد ریپبلکن کے ساتھ دائیں بازو کی سامراج نواز پالیسی پر ہوگا۔

نصف صدی تک قومی سیاست میں کردار اداکرنے کے بعد بائیڈن ریاست ہی کی ایک تخلیق ہے۔جیسا کہ ہم نے دیکھا ہے وہ اسی دنیا میں رہتا ہے۔اسے زیادہ فکر اس بات کی ہے کہ ریاستی مشینری کو مضبوظ بنائے اور ریپبلکن پارٹی کے ساتھ ملکر کا م کرے، اور قومی اتحاد کی ایسی حکومت بنائے جو محنت کش طبقے کی مخالف ہو۔حکومتی سیاست کا رُخ دائیں جانب کو جھک رہا ہے بائیں کو نہیں، ٹرمپ کی پروردہ فسطائی قؤتوں کو ریاستی ڈھانچے کا باضابطہ حصہ بنانے کی بدولت۔

کووڈ 19 کی عالمی وباء کے پہلے مریض کے سامنے آنے کہ ایک سال کے اندر ہی اس بیماری نے امریکی معاشرے کو تباہ کر کے رکھ دیا ہے، بے روز گاری، بھوک اور بے گھری میں بے پناہ اضافہ ہو اہے۔ چار لاکھ سے ذیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ ڈھائی کروڑ اس بیماری سے متاثر ہوئے ہیں۔ لاکھوں چھوٹے کاروبار بند ہوچکے ہیں، جبکہ مالدار افراد کی دولت سٹاک مارکیٹ کے ساتھ آسمانوں کی بلندی تک پہنچ گئی ہے۔

بڑے پیمانے پر طبقاتی لڑائی کیلئے حالات سازگار ہیں۔ اس ہفتے برونکس میں 1400 مزدوروں نے جو ہڑتال کی ہے وہ وسیع تر سماجی غصے کا محض ابتدائی اظہار ہے۔اس غصے کو سرمایہ داری کی مخالفت میں تبدیل کرنا ضروری ہے۔

کوروناوائرس کے تباہ کن وبائی مرض سے لیکر بڑھتی ہوئی سماجی اور معاشی ناانصافی تک، محنت کش طبقے کو جن مسائل کا سامنا ہے، مالیاتی حکمرانوں کی سماج پر مضبوط گرفت کو توڑے بغیر انکا خاتمہ ممکن نہیں۔ ڈیموکریٹک پارٹی کے ساتھ اپنے تعلقات سے مزدوروں کو سبق سیکھ لینا چاہیے اور ایک آذاد وخود مختار، سوشلسٹ انقلابی راستہ اختیار کرنا چاہیے جس کا مقصد انسانی جانوں کو بچانا اور جنگ اور ناانصافی کا خاتمہ ہو۔ وہ تمام لوگ جو سماج کو نئے سرے سے ترتیب دینا چاہتے ہیں تاکہ انسانی ضروریات کی تکمیل ہو نہ کہ وال سٹریٹ کے مطالبات کی اُنہیں آج ہی سوشلسٹ ایکوئیلٹی پارٹی میں شمولیت اختیار کرنی چاہیے۔

Loading