اُردُو
Perspective

چینی کیمونسٹ پارٹی کی تاسیس کے سو سال

اس ماہ چینی کیمونسٹ پارٹی کی تاسیسی کانگریس کے سوسال مکمل ہوگئے، جو جولائی 1921 میں شنگھائی کے ایک گرلز سکول میں منعقد ہوئی۔ یہ عالمی سطح کا ایک اہم واقعہ تھا جسکی بدولت طبقاتی جبر اورسامراجی تسلط کے خلاف چینی عوام کی طویل جدوجہد میں ایک اہم موڑ آیا، جسکا محرک اگر چہ 1917 کاروسی انقلاب تھا۔

وہ انقلابی تصورات جو سوسال قبل چینی کیمونسٹ پارٹی کے قیام کی بنیاد بنے آج کے سرکاری صدسالہ جشن کی تقریبات کی منافقت اور جھوٹ سے بالکل متضاد تھے۔اس تماشے کا مقصد تو محض عوام کی نظر میں پارٹی اور با لخصوص صدر ژی پنگ کی ساکھ کو بہتر بنانا ہے۔ چینی ٹیلیوژن پر تو پارٹی کی تاریخ دکھاتے ڈراموں کا ایک سیلاب آیا ہوا ہے۔ملک بھر میں شہروں اور قصبات کے گلی محلوں میں سیمینار منعقد ہو رہے ہیں۔ ”سُرخ سیاحت“ کی ترویج ہورہی ہے، پارٹی کی مقامی شاخوں، یونٹس اور کلبوں کی حوصلہ افزائی کی جارہی ہے کہ وہ پارٹی کی تاریخ سے متعلق مقامات کے دورے کریں جن میں ماؤ زے تُنگ کی جائے پیدائش بھی شامل ہے، تھیٹرز میں نام نہاد انقلابی اُوپرا پیش کئے جارہے ہیں۔ آٹھ نئے نعرے جیساکہ ”ہمیشہ پارٹی کی تابعداری کرو“ اور ”دُنیا کی کوئی طاقت چینی عوام کی پیش قدمی نہیں روک سکتی“ ہر جگہ آویزاں ہیں۔

ایک سکرین میں دکھایاگیا ہے چینی صدر شی چن پنگ تیانمن اسکوائر پر یکم جولائی براسراقتدار چینی کمیونسٹ پارٹی کے قیام کی صد سالہ تقریب سے مخاطب ہے (اے پی فوٹو/این جی ہین گوان) [AP Photo/Ng Han Guan]

اور یہ فہرست بہت طویل ہے، یہ تمام نعرے چینی قوم پرستی کا اور کیمونسٹ پارٹی کا ڈھنڈورا پیٹتے ہیں کہ کس طرح اسنے انیسویں اور بیسویں صدی میں چین کو سامراجی طاقتوں کی ذلت آمیز غلامی سے نجات دلائی اور چینیوں کوایک قوم بنایا۔ بچوں سے کہا جاتا ہے کہ وہ صدر ژی کے چین کو عالمی سطح پر ایک عظیم طاقت بنانے کے خواب پر مضامین تحریر کریں جسے ”چینی خواب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ جبکہ بڑوں کوماؤسٹ آئیڈیالوجی اور ”نئے زمانے کیلئے چینی خصوصیات کی حامل سوشلزم پر ژی زنگ پنگ کی سوچ“ پر مضامین لکھنے پر رعایتیں دی جارہی ہیں۔

قوم پرستی کے اس موج میلے کے پیچھے سی سی پی کے نظم میں ایک واضح گھبراہٹ پائی جاتی ہے کہ پارٹی کی سرکاری تاریخ میں جو جھوٹ بولے گئے ہیں کہیں انکا پول نہ کھل جائے۔ 9 اپریل کو، غیرقانونی اور غلط معلومات کے رپورٹنگ سینٹر، جو چین کے انٹرنیٹ کی نگرانی کے نظام کا ایک حصہ ہے، کی کڑی سنسر شپ کے بندوبست میں ”ہسٹاریکل نا یا لزم“ کے خلاف نئے اقدامات کے اعلان سے ایک نئی پرت کا اضافہ کیا گیا۔ شہریوں سے کہا گیا ہے کہ وہ ایسی آن لائن پوسٹ کے متعلق اطلاع دیں جو مبینہ طور پر سی سی پی کی تاریخ کو مسخ کرتی ہو، اسکے نظریات یا اسکی قیادت کو نشانہ بناتی ہو، یا شہداء کو بدنام کرتی ہو۔

اس پریشانی کی کچھ وجہ بھی ہے، با لخصوص ان حالات میں جب پارٹی کی بدعنوان بیورو کریسی کے خلاف نفرت پائی جاتی ہو، جو کھلم کھلا آبادی کے دولتمند طبقات کے مفادات کی نمائندہ ہو۔ تمام سرکاری جشن اس آشکارہ جھوٹ پر مبنی ہے کہ پارٹی نے اپنے اساسی اصولوں سے کوئی روگردانی نہیں کی ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ سی سی پی نے کافی عرصہ پہلے ہی اس سوشلسٹ انٹرنیشنلزم کو ترک کر دیا تھا جس پر اسکی بنیاد رکھی گئی تھی۔

23 جولائی کو نہ کہ یکم جولائی کوچینی کیمونسٹ پارٹی کی اساسی کانگریس کا شنگھائی کے فرنچ کانسیشن کے علاقے میں واقع بووین وومن لائیسی کے ہاسٹل میں آغاز ہوا، جو بعداذاں ایک نجی رہائش گا منتقل ہوگئی۔ اس کانگر یس میں بارہ مندوبین شریک تھے جن میں شنگھائی،بیجنگ، ووہان،چنگشا،اورجینان سے دودو،اسی طرح تھرڈ انٹرنیشنل کے دومندوب،ایک ہنک سنیولٹ جنہیں مارنگ کہاجاتا تھا،اوردوسرے ولاڈمیر نائمن جنہیں چین میں نکولسکی کہا جاتا تھا۔ اس کانگریس میں چن ڈکسیوو کا ایک خصوصی نمائندہ بھی موجود تھا جو خود تو موجود نہیں تھے لیکن وہ سی سی پی کے بانی چیئر مین منتخب ہوگئے۔

سی سی پی کا موجودہ پرپیگنڈہ اس کانگریس کو ایک چینی معاملہ قرار دیتا ہے، دیگر ممالک کی طرح چین میں بھی کیمونسٹ پارٹی کاقیام، اکتوبر 1917 کے روسی انقلاب اور ولادمیر لینن اور ٹراٹسکی کے زیرقیادت اولین مزدور ریاست کے قیام کے بے پناہ عالمی اثرات کا عکاس تھا۔ مارچ 1919 میں تھرڈ انٹرنیشنل کی تاسیسی کانگریس کے آئین میں نوآبادیاتی ممالک کی عوام کو کچھ اس طرح مخاطب کیا گیا تھا، ”افریقا اور ایشیاء کے نوآبادیاتی غلاموں؛ پرولتاری آمریت کے قیام کا لمحہ ہی تمہاری نجات کا لمحہ ہوگا“۔

چین کے نوجوان اور دانشور جو ملک میں جاری نیم نوآبادیاتی جبر کے خلاف مزاحمت کیلئے کسی موقع کے انتظار میں تھے اُنہیں اس پیغام میں بے پناہ کشش محسوس ہوئی۔ 1911 کے چینی انقلاب نے سن یاتسن کو جس نے بورژوا نیشنلسٹ کیو من تا نگ بنایا تھا ”ریپبلک آف چائینہ“ کا عبوری صدر بنادیا،لیکن اس کے نتیجے میں نہ تو ملک متحد ہوسکا اور نہ سامراجی تسلط کا خاتمہ ممکن ہوا۔ مزید برآں پہلی عالمی کے بعد، 1919 میں ورسائی امن کانفرنس کے موقع پر بڑی فاتح طاقتوں نے شنڈوگ کے علاقے پر جاپانی دعوے کی توثیق کردی، جسے جرمنی کے قبضے سے چھڑایا گیا تھا۔ جب اس فیصلے کا اعلان کیا گیاتو بڑے پیمانے پر احتجاج اور مظاہرے شروع ہوگئے، 4 مئی 1919 جنکا نقطہئ آغاز تھا۔ بعد میں جو 4 مئی کی تحریک کہلائی اس کی شروعات سامراج مخالف جذبات سے ہوئی لیکن یہ ایک وسیع تر فکری اور سیاسی تحریک میں بدل گئی جس میں چن ڈکسیو و اور اس کے قریبی شریک کارلی ڈاز ہاؤ نے مرکزی کردار اداکیا۔

ریاست کی ملکیت نیوز ایجنسی ژن ہیو میں شائع شدہ ”سی سی پی کی صدسالہ تاریخ کے اسباق“ کے سلسلے کے ایک حالیہ آرٹیکل کے مطابق 1921 میں پارٹی کی تاسیس کا مقصد ”چینی قوم کا عظیم احیاء“ تھا۔ اخبارمزید لکھتا ہے، ”ملک کو بچانے، اس میں ایک نئی روح پھونکنے، اسے طاقتور اور توانا بنانے کی تاریخی ذمہ داری کو سی سی پی نے اپنے کندھوں پر اٹھا رکھا ہے، یہ ہمیشہ چینی قوم اور چینی عوام کا ہراول دستہ رہے گی؛ اور ایک ایسی تاریخی یادگار بنائے گی جس پر ہزاروں سال تک عظیم کارنامے لکھے جائینگے“۔

چینی قوم پرستی کی عظمت کے یہ گیت سی سی پی کے قیام کی بنیاد بننے والے ان تصورات سے جو روسی انقلاب اور چین میں تھرڈ انٹرنیشنل کی عملداری سے جڑے ہوئے تھے، بالکل برخلاف ہیں۔ وہ نوجوان اور دانشور جو 4 مئی کی تحریک کے نتیجے میں پارٹی قائم کرنے کیلئے سامنے آئے وہ اس سیاسی تفہیم کے قائل تھے کہ سامراج کے خلاف لڑائی کوسرمایہ داری کے خاتمے اور سوشلزم کے قیام کی عالمی جدوجہد سے علیحدہ نہیں کیا جا سکتا۔ اس جدوجہد کا مقصد عالمی سوشلسٹ انقلاب تھا، نہ کہ ایک رُجعتی قوم پرستانہ تصورجیساکہ ”چینی قوم کا احیاء“، جو صدر ژی کے ”خواب“ کا مرکزی خیال ہے۔

1921 میں پارٹی کی پہلی کانگریس کی دستاویزات سے پارٹی کے بنیادی اصولوں کی وضاحت ہو جاتی ہے: مزدور طبقے کے ہاتھوں سرمایہ داری کا خاتمہ اورپرولتاریہ کی آمریت کا قیام، جس کے نتیجے میں طبقات کا خاتمہ، ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کا خاتمہ، اورتیسری انٹرنیشنل سے اتحاد ویگانگت۔

آج کی سی سی پی کا کوئی بھی معروضی جائیزہ اس دعوے کی حقیقت کھول دیتاہے کہ وہ ان اصولوں کی خاطر لڑ رہی ہے۔ یہ سی سی پی کوئی پرولتاریہ جماعت نہیں بلکہ ایک نوکر شاہانہ بندوبست ہے جو چین پر حکمرانی کر رہا ہے۔ اسکے اپنے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، مزدور تو پارٹی اراکین کی تعداد کا صرف سات فیصد ہیں، جس پر واضح غلبہ ریاستی اہلکاروں کا ہے اور اس میں چین کے کچھ مالدار ترین ارب پتی افراد بھی شامل ہیں۔ ریاستی ماتحتی میں کام کرنے والی ٹریڈ یونینز مزدوروں کی نگرانی کرتی ہیں اور اپنے جابرانہ حالات کے خلاف ان کی کسی بھی مزاحمت کو دبا دیتی ہیں۔

یہ دعویٰ کہ اپنی بہت بڑی پرائیویٹ کارپوریشنز کے ساتھ، اسٹاک مارکیٹ اور کھرب پتی افراد کے ساتھ، جہاں ذاتی منافع اور منڈی کی معیشت ہی زندگی کے ہر شعبے پر غالب ہے، چین ”چینی خصوصیات سے معتصف سوشلزم“ کا نمائندہ ہے، محض ایک ڈھونگ ہے۔ صدر ژی کے ایک طاقتور چینی قوم کے ”خواب“ کا سوشلزم یا کیمونزم سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ تو صرف بے انتہا دولتمند حکمران ٹولے اور مالدار اشرافیہ کی خواہشات کو ظاہر کرتا ہے جو 1978 میں ڈنگ ژیاؤپنگ کی ذیر قیادت سرمایہ داری کی بحالی کے بعد پیدا ہوئی۔

چینی حکومت کی موجودہ پالیسی میں، اس بین الاقوامیت کا شائبہ تک نہیں جو 1921 میں سی سی پی کے قیام کا سبب بنا تھا۔ آ ج کی سی سی پی کا مقصد سامراجیت کا خاتمہ نہیں بلکہ اسکا مقصد دُنیا کے سرمایہ دارانہ نظام میں نمایاں مقام حا صل کرنا ہے۔ یہ دنیا میں کہیں بھی سوشلسٹ انقلاب کی حمایت یا معاونت نہیں کرتی، اور تو اور چین میں بھی نہیں، جہاں وہ اپنے ایک پولیس ریاست کے نظام کو معمولی اور محدود اختلاف کو دبانے کیلئے بے دریغ استعمال کرتی ہے۔

آج کے چین میں ان مزدوروں، نوجوانوں اور دانشوروں کو جو ایک حقیقی سوشلزم کیلئے جدوجہدکرنا چاہتے ہیں درپیش سوال یہ ہے کہ وہ اپنی اس جدوجہد کیلئے کہا ں سے رہنمائی حاصل کریں۔ اس سوال کا جواب دینے کیلئے پہلے ہمیں یہ سمجھنا پڑیگا کہ سی سی پی کیوں اور کیسے سرمایہ داری کے خاتمے کی جدوجہد کرتی ایک انقلابی پارٹی سے اسکا بالکل متضاد بن گئی۔
پارٹی کی طویل اور پیچیدہ تاریخ میں تین اہم موڑ آئے۔

دوسرا چینی انقلاب (1925-27)

پہلا موڑ دوسرا چینی انقلاب(1925-27) اور اسکی المناک ناکامی ہے۔ اس ہمہ گیر انقلابی تحریک کی ناکامی کی بڑی سیاسی ذمہ داری سٹالن کے دور میں ماسکو میں اُبھرتی بیوروکریسی پر عائد ہوتی ہے، جس نے یورپ میں انقلابوں کی پہ درپہ ناکامی کے بعداور مزدور ریاست کے مسلسل تنہائی کا شکار ہونے سے، سوشلسٹ بین الاقوامیت کا پرچار ترک کردیاجو روسی انقلاب کا ایک اہم رہنما اصول تھااور ”ایک ملک میں سوشلزم کے رُجعتی تصور“ کا پرچار کرنے لگی۔

ایسا کرتے ہوئے، سٹالنسٹ نظام نے تیسری انٹرنیشنل کو سوشلسٹ انقلاب کی عالمی سطح پر ترویج کے ایک وسیلے سے سویت فارن پالیسی کے ایک آلہء کار میں بدل دیا جس کے نتیجے میں یکے بعد دیگرے مختلف ملکوں میں مزدور طبقے کو نام نہاد بائیں بازو کی جماعتوں اور تنظیموں کے ساتھ مفاد پرستانہ اتحادوں کی بھینٹ چڑھا دیاگیا۔

شنگھائی میں مسلح مزدور1925-27کے انقلاب کے دوران

کم عمر اور غیر تجربہ کار چینی کیمونسٹ پارٹی پر اسکا فوری اثر ہوا۔ 1923 میں، کومنٹرن نے اس بات پر اصرار کیا، جس کی اگرچہ سی سی پی کے لیڈروں نے مخالفت کی، کہ پارٹی خود کو تحلیل کردے اورسب لوگ انفرادی طور پر بورژوا (kMT) کے ایم ٹی میں شامل ہوجائیں، اس دعوے کے ساتھ کہ یہ ”چین میں واحد سنجیدہ قومی انقلابی گروہ ہے“۔

یہ بات روسی انقلاب کے سارے تجربے کے سراسر خلاف تھی، جسے ”لبرل بورژوا“ کی شدید مخالفت میں برپا کیا گیا تھا۔ یہ تو منشویک کے دو مرحلوں کے نظریے کی جانب واپس جانا تھا، جن کا خیال تھا کہ روس میں زار آمریت کے خلاف جدوجہدمیں مزدور طبقہ صرف بورژوا جمہوریہ کے قیام میں لبرل کیڈٹس کی معاونت کر سکتا ہے، جبکہ سوشلزم کی خاطر لڑائی کو دوسرے مرحلے کے مستقبل کے کسے غیر معین وقت تک ملتوی کردیا جائے۔

جب 1923 کے آغاز میں کیمونسٹ پارٹی آف سویت یونین میں یہ موضوع ذِیر بحث آیا، تو ٹر اٹسکی وہ واحد ممبر تھا جس نے اسکی مخالفت کی اور کے ایم ٹی میں شامل ہونے کے خلاف ووٹ دیا۔ لینن فالج کے پہ در پہ حملوں سے بہت کمزور اور ضیعف ہوچکا تھا اُ سے پہلا اٹیک مئی 1922 میں ہوا۔ اپنے ”قومی اور کولونیل سوالوں پر ڈرافٹ تھیسس“ میں جو 1920 میں لکھا گیا، لینن نے اس بات پر اصرار کیا تھا کہ پرولتاریہ کو سامراج مخالف تحریکوں کی معاونت کرتے ہوئے ہر قسم کے بورژوا قومی محاذوں سے اپنی سیاسی آذادی کی حفاظت کرنی چاہیے اور اسے برقرار رکھنا چاہیے۔

مسلسل انقلاب کے اپنے نظریے میں، جو روسی انقلاب کا ایک رہنما اصول تھا، ٹراٹسکی نے یہ بات ثابت کی تھی کی قوم پرست بورژوازی بنیادی جمہوری اصلاحات کی اہل ہی نہیں ہوتی، یہ کام تو صرف پرولتاریہ ہی سر انجام دے سکتا ہے، جو سوشلزم کے قیام کی اسکی جدوجہد کا ایک حصہ ہوتا ہے۔

سوشلسٹ انٹر نیشنلز م کے ان اصولوں کے تحفظ کی خاطر جنہیں سٹالنسٹ بیوروکریسی مکمل طور پر چھوڑ چکی تھی ٹراٹسکی نے 1923 کے اواخرمیں حزب مخالف کی جماعت ’لیفٹ اپوزیشن‘ بنائی۔
سی سی پی اور چینی مزدور طبقے کی کے ایم ٹی کی ماتحتی میں چلے جانے کے احتجاجوں اور مظاہروں کی اس بڑی انقلابی تحریک کیلئے تباہ کن بتائج تو نکلنے ہی تھے، جس کا آغاز 1925میں اس وقت ہوا جب شنگھائی میں برٹش میونسپل پولیس نے مظاہرین پر 30 مئی کے روز گولی چلادی تھی۔ کے ایم ٹی کے اندر سی سی پی کے اراکین کی سیاسی سرگرمیوں پر بڑھتی ہوئی سخت پابندیوں کے باوجود، جسکی قیادت اب چنگ کائی شیک کر رہا تھا، سٹالن نے کے ایم ٹی سے کسی بھی علیحدگی کی مخالفت کی اور اس بورژوا جماعت کو روشن انقلابی رنگوں میں پیش کرتا رہا۔

1927میں، ٹراٹسکی نے سٹالن کے اس دعوے کی غلطی کو بے نقاب کیاکہ سامراجیت کے خلاف جدوجہد چینی عوام کو اانقلابی کردار ادا کرنے پر مجبور کردیگی، اُس نے اس امر کی کچھ یوں وضاحت کی:

سامراج کے خلاف سیاسی جدوجہد مختلف طبقات کے درمیان سیاسی امتیا زات کو کمزور نہیں بلکہ اور زیادہ نمایاں کر دیتی ہے۔۔۔۔مزدوروں اور کسانوں کو سامراج کے خلاف جدوجہد پر سچ مچ اُبھارنے کیلئے ان کے زندگی سے متعلق بہت بنیادی اور حقیقی مفادات کو ملک کی آزادی سے جوڑنا پڑتا ہے۔۔۔۔لیکن ہر وہ چیز جو مظلوم اور استحصال کا شکار عوام کو ان کے قدموں پر کھڑا کرنے کا سبب بنتی ہے بالآخر قومی بورژوازی کو کھلم کھلا سامراج کا ساتھی بنا دیتی ہے۔یو ں مزدور کسان عوام اور بورژوازی کے درمیان طبقاتی کشمکش کمزور نہیں ہوتی بلکہ اسکے برعکس سامراج کا جبر اسے اور بھی نمایاں کر دیتا ہے اور کسی بھی سنجیدہ کشمکش کی صورت میں خونی خانہ جنگی چھڑ جاتی ہے۔

چیانگ کے ٹھگوں میں سے ایک کمیونسٹ کارکن کو1927میں پھانسی دے رہا ہے۔

یہ انتباہ ا لمناک طور پر درست ثابت ہوا۔ سی سی پی کو کے ایم ٹی کے ماتحت کرنے سے، سٹالن خود ہی انقلاب کا گورکن بن گیا، جس نے شنگھائی میں اپریل 1927 میں چنگ کائی شیک اور اسکے فوجی دستوں کے ہاتھوں ہزاروں مزدوروں اورسی سی پی اراکین کے قتل عام اور اسکے بعد مئی 1927 کے مزدوروں اور کسانوں کی نام نہاد بائیں بازو کیو من تانگ کے ہاتھوں ہلاکت کی سہولت کاری کی۔ سٹالن نے پھر یکا یک پینترابدلا، اور انقلاب کی کمزور پڑتی لہر کے عین درمیان، شکست خوردہ سی سی پی کو تباہ کن مہمات کی نذر کر دیا۔

ان پُر آشوب شکستوں نے بیسویں صدی کی تاریخ پر بہت دور رس اثرات ڈالنے تھے، جو حقیقتاً سی سی پی کا جو چینی مزدور طبقے کی سب سے بڑی جماعت تھی کا خاتمہ ثابت ہوئے۔

اس المناک تجربے سے ضروری سیاسی سبق سیکھنے کے بجائے، سٹالن بضد تھا کہ اسکی پالیسیاں بالکل صحیح تھیں اور اس نے ان ناکامیوں کی بناء پر سی سی پی کے لیڈر چن ڈکسیو و کو قربانی کا بکرا بنا دیا۔ چن اور سی سی پی کے دیگربڑے لیڈر، دوسرے چینی انقلاب کے پیدا کردہ سوالوں کے جواب کی تلاش میں، ٹراٹسکی کی تحریروں کی جانب مائل ہوئے اور انہوں نے چینی لیفٹ اپوزیشن بنائی اور فورتھ انٹرنیشنل کا ایک دھڑا بھی، جسے ٹراٹسکی نے چین اور عالمی سطح پر سٹالنزم کی ناکامیوں کے جواب میں 1938 میں قائم کیا تھا۔

جولوگ سی سی پی میں رہ گئے انہوں نے سٹالن اور اسکے جرائم کا بھرپور ساتھ دیا، بشمول منشویک کے دو مرحلہ نظریے کے، اور نواحی علاقوں کی جانب پسپائی اختیار کی۔ ماؤ زے تنگ، جس نے1935 میں سی سی پی کی بلامقابلہ قیادت اختیار کرنا تھی، نے 1920 کے عشرے کی شکستوں سے یہ غیر مارکسی نتائج اخذ کیئے کہ چینی انقلاب کیلئے کسان نہ کہ پرولتاریہ اصل طاقت تھے۔

1949 کا تیسرا چینی انقلاب؛

ماؤ کے اس نتیجے کے 1949کے تیسرے چینی انقلاب کیلئے دور رس اثرات نکلنے تھے۔۔۔ جو سی سی پی کی تاریخ میں دوسرا اہم موڑ تھا۔

ٹراٹسکی چین میں کسانوں کی جدوجہد کی بے پایاں انقلابی اور جمہوری اہمیت سے بخوبی آ گاہ تھااور اسے اس امر کا بھی بخوبی ادراک تھا کہ مزدور طبقے کیلئے کسان عوام کی حمایت کس قدر ضروری ہے، اسکے باوصف اُسنے پرولتاریہ کے بجائے کسانوں کو سوشلسٹ انقلاب کی سماجی بنیاد بنانے کی کوشش کے حوالے سے مسقبل کو بھانپ لینے والا ایک بہت درست انتباہ کیا۔

ٹراٹسکی نے لیفٹ اپوزیشن کے چینی حامیوں کو 1932 میں لکھے جانیوالے اپنے ایک خط میں لکھا:

کسانوں کی تحریک ایک طاقتور انقلابی عامل ہے تاوقتیکہ اسکا نشانہ بڑے زمیندار، جاگیردار،سود خور اور وار لارڈز ہوں۔ لیکن خود کسان تحریک کے اندر رُجعت پسندی اور ملکیتی حقوق کے بہت طاقتور رُجحانات پائے جاتے ہیں، اور ایک خاص مرحلے پر یہ ایک مزدور دشمن رُخ اختیار کر سکتی ہے اور اسکے پہلے ہی سے مسلح ہونے کی صورت یہ دشمنی طول پکڑ سکتی ہے۔ بطور طبقہ کسانوں کی دوہری فطرت کو جو بھُلادے وہ مارکسسٹ نہیں۔ اگلی سطح کے کارکنوں کو یہ ضرور سکھایا جانا چاہیے کہ وہ ’کیمونسٹ‘ ہونے کے نعروں اور جھنڈوں اور حقیقی سماجی عوامل کے درمیان فرق کر سکیں۔

ٹراٹسکی نے خبردار کیا تھاکہ مزدوروں کے خلاف کسانوں کے جذبات کو مشتعل کرکے ماؤ کی ذیر قیادت کسان جتھوں کو پرولتاریہ کے کھلم کھلا مخالفین میں بدل دیا جائے گا اور اسی طرح چینی ٹراٹسکسٹ کے خلاف بھی جو ان مزدوروں کا مارکسسٹ ہراول دستہ ہیں۔

چینی کمیونسٹ پارٹی کی1949میں فاتح کسان فوج

کے ایم ٹی کی شکست، سی سی پی کا اقتدار پر قبضہ اور اکتوبر 1949 میں پیپلز ریپبلک آف چائینہ کے قیام کا اعلان دنیا کی سب سے ذیادہ آبادی والی قوم میں ایک بہت ہی اہم سماجی تبدیلی کا نتیجہ تھا۔ دوسری عالمی جنگ کے بعد یہ دنیا بھر میں برپا ہونیوالی انقلابی تحریکوں اور نوآبادیات کے ٖخلاف ہونیوالی جدوجہد کا حصہ تھا۔ جو مزدور عوام کے اس سرمایہ داری نظام کے خاتمے کے مصمم ارادے کا عکاس تھاجس نے دوعالمی جنگوں اور ایک عالمی کساد بازاری کو جنم دیا تھا۔

سی سی پی کے سیاسی غلبے کے نتیجے میں، چینی انقلاب باہم متضاد عوامل کا ایک ایسا مظہر تھا جسے اچھی طرح سمجھا ہی نہیں گیا۔ سٹالن کی ان ہدایات پر عمل کرتے ہوئے جو بالخصوص یورپ میں جنگ کے بعد کی سیاسی تحریکوں کی ناکامی کا سبب تھیں، ماؤ اور سی سی پی نے کے ایم ٹی کے ساتھ ایک موقع پرست قسم کا اتحاد برقرار رکھا، جسے 1937 میں جاپان کے چین پر حملے کے وقت قائم کیا گیا تھا، اورایک مخلوط حکومت بنانے کی کوشش کی۔ چنگ کائی شیک اور کے ایم ٹی نے جب سی سی پی کے خلاف فوجی کاروائی کا آغاز کیا تب کہیں جا کر 1947 میں ایک ”نئے چین“ کی تعمیر کی خاطر ماؤ نے اس اتحاد کو ختم کرنے کی بات کی۔

بعد کے صرف دو سالوں کے اندر کے ایم ٹی حکومت کا تیز رفتار ذوال اور خاتمہ اسکی داخلی بد حالی اور چینی سرمایہ داری کے دیوالیہ پن کا ثبوت تھا، جس نے بہت ذیادہ لوگوں کو اپنا مخالف بنایا اور مزدور طبقے میں مظاہروں کا ایک سلسلہ شروع ہوگیا۔ سی سی پی نے اگرچہ مزدور طبقے کو اپنا ساتھی بنانے کی کوئی کوشش نہ کی اور اس بات پر بضد رہی کہ وہ ماؤ کی کسان افواج کا شہروں میں داخل ہونے کا انتظار کرے۔ منشویک سٹالنسٹ دو مرحلہ تھیوری پر عمل کرتے ہوئے، ماؤ کا ”نئے چین“ کا تصور ایک بورژوا ریپبلک کا تھاجس میں سی سی پی نے چین کے سرمایہ دار طبقے کے ساتھ جس کی اکثریت اگرچہ تائیوان بھاگ گئی تھی سرمایہ دارانہ ملکیتی رشتے اور اتحاد برقرار رکھنے تھے۔

ماؤ کے پروگرام نے انقلاب کا حلیہ ہی بگاڑ دیا۔ سرمایہ داری ملکیتی رشتوں کو جاری رکھنے کا مطلب مزدوروں کے مطالبات اور انکی جدوجہد کو بیوروکریسی کے ذریعے دبانا تھا۔ سٹالنسٹ ریاستی ڈھانچہ جو کسان مصلح جتھوں کی قیادت سے برآمد ہوا، اور جس کا انحصار انہی پر تھا، وہ مزدور طبقے کا شدید مخالف تھا۔ سی سی پی میں مزدوروں کو اس لیئے شامل نہیں کیا گیا کہ انکو سیاسی آواز دی جائے بلکہ اس لیئے کہ ان پر اپنی گرفت کو مظبوط کیا جائے۔

ماؤ نے دعویٰ کیا تھا کہ انقلاب کا مبینہ ”جمہوری“ مرحلہ کئی سال جاری رہے گا۔ تاہم ایک سال سے بھی کم عرصے میں سی سی پی کو امریکی سامراج سے اسوقت حملے کا خطرہ لاحق ہو گیا، جب اسنے 1950 میں کوریا کی جنگ چھیڑ دی۔ اور جب جنگ نے طول پکڑی اور چین اس میں مداخلت پر مجبور ہوگیا، تو اسے سرمایہ دار طبقے کی ان پرتوں سے داخلی خلفشار کا خطرہ لاحق ہو گیا جنہیں کوریا میں امریکن افواج اپنی ممکنہ نجات دہندہ دکھائی دیتی تھیں۔ ایک ممکنہ امریکی حملے کا سامنا کرتے ہوئے، ماؤ حکومت نجی کاروبارِتجارت میں مداخلت پر مجبور ہوگئی اور اسنے نوکر شاہانہ سویت طرز کی اقتصادی منصوبہ بندی شروع کر دی۔

اسکے ساتھ ساتھ، مزدور طبقے کی کسی ممکنہ تحریک سے گھبرا کر، ماؤ حکومت نے چینی ٹراٹسکسٹ کے خلاف کاروائی شروع کر دی، سینکڑوں اراکین،انکے اہل خانہ اور ہمدردوں کو قومی سطح کی کاروائیوں میں 22 دسمبر 1952 اور 8 جنوری 1953کو گرفتار کیا گیا۔ کئی نمایاں ٹراٹسکسٹ بغیر کسی الزام کے عشروں تک جیلوں میں قید رہے۔

[1] 1955کی ایک قرار داد میں، سوشلسٹ ورکرز پارٹی کے امریکن ٹراٹسکسٹ نے چین کو ایک بھٹکی ہوئی مزدور ریاست قراردیا۔صنعت و بینکوں کا قومیا ئے جانے نے، بیوروکریٹک اقتصادی منصوبہ بندی کے ساتھ ملکر، ایک مزدور ریاست کی بنیاد تو رکھ دی تھی، لیکن پیدائش ہی سے اس نوزائیدہ ریاست کا حلیہ سٹالنزم نے بگاڑدیا تھا۔ فورتھ انٹر نیشنل نے غیر مشروط طور پر چین میں قائم قومی ملکیتی رشتوں کا دفاع کیا۔ تاہم اسکے ساتھ ہی اس نے ماؤسٹ حکومت کے آغاز ہی سے نوکر شاہی کے ہاتھوں بہت واضح بگڑے خدوخال کی نشاندہی بھی کی۔ عالمی سطح پر سوشلزم کے قیام کی جدوجہد کے ایک لازمی حصے کے طور پر، سیاسی انقلاب کے ذریعے ماؤ حکومت کا خاتمہ ہی چین میں سوشلزم کی تعمیر کا واحد راستہ تھا۔

1949کے چینی انقلاب کو بجا طور پر چینی مزدور اور نوجوان ایک بہت بڑی پیش رفت سمجھتے ہیں۔ اس نے بلاواسطہ سامراجی تسلط اور استحصال کا خاتمہ کر دیا، اور مزدوروں اور کسانوں کی انقلابی تحریکوں کی سماجی خواہشات کی تکمیل میں، سی سی پی اس امر پر مجبور ہوگئی کہ چینی معاشرے سے سماجی اور ثقافتی پسماندگی کا خاتمہ کرے، جیساکہ تعد اد ازواج، کم عمری کی شادی، پانوؤں کی جکڑ بندی اور حرم سرا۔ نا خواندگی کا بڑی حد تک خاتمہ کیا گیا، اور طبعی عمر میں نمایاں اضافہ ہوا۔

اس سب کے باوجود، سی سی پی کی ”ایک ملک میں سوشلزم“ کی سٹالنسٹ سوچ نے اسے بہت کم عرصے میں اقتصادی بند گلی میں پہنچادیااور 1961-63 کے درمیان چین کے سویت یونین سے قطع تعلق کے بعد چین عالمی سطح پر سفارتی تنہائی کا شکار ہوگیا۔ قومی آمریت کے محدود نظام میں، ماؤسٹ قیادت اسکی اہل نہ تھی کہ چین کے مسائل اور اسکی ترقی کی ضروریات کاحل فراہم کر سکے۔

اسکا نتیجہ بے یقینی کی کیفیت سے نبُرد آذما سی سی پی کی تلخ وتباہ کن اندرونی گرو ہی لڑائیوں کا دراز سلسلہ تھا۔ پارٹی کی قوم پرستانہ سوچ اور ماؤ کی چین کی ترقی کے مسائل پر قابو پانے کی کاوشوں کی موضوعی چالوں اورحقیقت پسندانہ حکمت عملیوں سے جڑی ایک کے بعد دوسری مصیبت آتی چلی گئی۔

ان میں ماؤ کی ”گریٹ لیپ فارورڈ“ بھی شامل تھی، جس نے ایک بڑا قحط، او ر عظیم پرولتاریہ ثقافتی انقلاب پیدا کیا، جو نہ عظیم تھا، نہ پرولتاریہ اور نہ انقلاب۔ ماؤ کی طالبعلموں، سماج کے غیر منظم اور غیر سیاسی نچلے طبقات اور کسانوں کو ریڈگارڈ میں متحرک کرنے کی کوشش جسکا مقصد اپنے حریفوں سے حساب برابر کرنا تھا بھی ایک بڑی ناکامی ثابت ہوئی۔ فوج بُلا کر اسکا خاتمہ کرنا پڑا ان مزدوروں کو دبانے کیلئے جنہوں نے ہڑتا ل کی تھی۔

1970 کے عشرے میں سرمایہ داری کی بحالی کی جانب موڑ

چینی مزدوروں کو 1949 کے ناگزیر اور جائز انقلاب اور ثقافتی انقلاب کے رُجعتی کردار کے درمیان ایک خط امتیاز کھینچنا چا ہیے، جسکی پیداکردہ شورش نے تیسرے اہم موڑ یعنی سرمایہ داری کی بحالی اور 1949 کے انقلاب کی کا میابیوں کے باضابطہ خاتمے کیلئے حالات کو سازگار کیا۔

مختلف نیوماؤسٹ رجحانات غلط طور پر ماؤ کو ایک حقیقی سوشلسٹ اور انقلابی کے طور پر پیش کرتے ہیں، جسکے نظریات سے دیگر لوگوں نے غداری کی، بالخصوص ڈنگ ژیاؤ پنگ نے، جس نے 1978 میں پہلے پہل پرومارکیٹ اصلاحات متعارف کرائیں۔

صدر رچڑ نکسن چینی وزیراعظم چو این لائی اور چیانگ جنگ چیئرمین ماوزے تنگ کی اہلیہ کے درمیان پیکنگ کے عظیم ہال آف دی پیپلز میں بیٹھے ہوئے ہیں 1972کے دو ممالک کے لیڈروں کے درمیان مذاکرات کے وقفے کے دوران ایک ثقافتی تقریب میں۔

درحقیقت، یہ ماؤ خود ہی تھا جس نے سرمایہ داری کی بحالی کیلئے راستے کھولے۔ بڑھتے ہوئے معاشی اور سماجی مسائل اور سویت یونین کے ساتھ جنگ کے خطرے جیسے مسائل کا سامنا کرتے ہوئے، بیجنگ نے امریکی سامراج کے ساتھ ملکر ایک سویت مخالف اتحاد بنایا جس نے چین کی عالمی سرمایہ داری میں شمولیت کی بنیا درکھی۔ ماؤ کی امریکی صدر رچرڈ نکسن کے ساتھ 1972 میں تجدید تعلقات بیرونی سرمایہ کاری اور مغرب کے ساتھ تجارت میں اضافے کی بنیادی شرط اولین تھی۔ خارجہ تعلقات میں، ماؤسٹ حکومت امریکی حمایت یافتہ انتہائی رجعتی آمروں کے ساتھ کھڑی نظر آئی جیسا کی چلی میں جنرل آگستو پنوشے اور ایران میں شاہ کی حکومت۔

1978 میں ڈنگ ”ریفارم اور اوپننگ“ کے اپنے وسیع تر ایجنڈے کو امریکہ کیساتھ تعلقات کے بغیر شروع نہ کرسکتاتھا جس نے بیرونی منڈیو ں تک رسائی کو ممکن بنایا، جس میں بیرونی سرمایہ کاروں کیلئے سپیشل ایکنامک زونز، نواحی علاقوں میں کمیونز کے بجائے نجی کاروبار تجارت اورمعاملات لین دین، اور اقتصادی منصوبہ بندی کے بجائے آزاد منڈی کی معیشت شامل تھے۔ جس کے نتیجے میں پرائیویٹ کاروبار نے تو بہت ترقی کی، بالخصوص قصبات میں، معاشی اور سماجی عدم مساوات تیزی سے بڑھی، پارٹی عہدداروں نے کرپشن اور لوٹ مار کی، بڑھتی بے روزگاری اور بڑھتی مہنگائی 1989 میں ہڑتالوں اور مظاہروں کی ایک قومی لہرکاسبب بن گئی۔ ڈنگ نے ان احتجاجی مظاہروں کو نہ صرف تیان من سکوائر میں بلکہ چین کے تمام شہروں میں جس بیدردی سے کچلا، اسنے بیرونی سرمایہ کاروں کے ایک سیلاب کا دروازہ کھول دیا، جنہیں یقین ہوگیا کہ مزدور طبقے کی سرکوبی کیلئے سی سی پی پر اعتماد کیا جاسکتا ہے۔

تیانمن اسکوائر میں مئی1989میں ایک بڑا احتجاجی مظاہرہ (اے ب بی فوٹو سدایوکی میکائی)

ماؤازم کے رجعتی کردار کا واضح ترین اظہار اسکے ”ایک ملک میں سوشلزم“ اور ”چار طبقات کا بلاک“ جیسے سٹالنسٹ نظریے کی پیروی کے عالمی سطح پرتباہ کن نتائج کی صورت ہوتا ہے، جب مزدور طبقے کو قومی بورژوازی کے ماتحت کر دیا جاتا ہے۔ انڈونیشیا میں اس قسم کی سیاست نے مزدور طبقے کو سیاسی طور پر غیر مسلح چھوڑ دیا جب فوج نے اقتدار پر قبضہ کیا تو اسکے نتیجے میں ایک اندازے کے مطابق ایک ملین مزدوروں کو ہلاک کر دیا گیا۔ ماؤازم جنوبی ایشیا، فلپائن اور لاطینی امریکہ میں بھی ایسی ہی شکستوں اور ناکامیوں کا سبب بنا ہے۔

ژی اور دوسرے چینی لیڈر معاشی کارناموں کی ڈینگیں مارتے ہیں جنہیں بڑے مہمل انداز سے ”چینی خصوصیات سے معتصف سوشلزم کہا جاتا ہے“۔

یہ بات کہ وہ اب بھی سوشلزم کا نام لینے پر مجبور ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کی سرمایہ دارانہ پالیسیاں مارکسزم سے رہنمائی حاصل کرتی ہیں چینی عوام میں 1949 کے انقلاب کی کامیابیوں کی ابھی تک مقبولیت کا ثبوت ہے۔ پچھلے تین عشروں میں چین کی حیرت انگیز معاشی ترقی ایک بڑے متضاد انداز سے چینی انقلاب کے اثرات کو ظاہر کرتی ہے۔اس انقلاب نے جو دور رس سماجی اصلاحات متعارف کرائیں انکے بغیر یہ ترقی ممکن نہ ہوتی۔

اس انقلاب کی اہمیت کو سمجھنے کیلئے آپ کو صرف یہ سوال پوچھنا ہے: انڈیا میں اس قسم کی ترقی کیوں نہ ہو سکی؟ ان دو ممالک میں جو فرق ہے اسکا واضح اظہار کوڈ 19 کی عالمی وبا کے دوران ہوا، چین نے جلد ہی اس پر قابو پا لیا جبکہ انڈیا میں یہ بے قابو ہوگیا، جہاں ہلاکتوں کی تعداد چار لاکھ سے بڑھ گئی۔

چین کی ناقابل تردید معاشی ترقی نے مزدور طبقے کے درجوں کو بہت وسیع کر دیا ہے، اور محنت کشوں کی بڑی تعداد کی سماجی حالت بہت بہتر ہوئی ہے۔

اس ترقی سے قطعہ نظر، چین کو آج سرمایہ داری کی جانب مڑنے کے تمام تر تضادات و عواقب کا سامنا ہے جنہیں نہ تو ماؤازم کی حدود کے اندر ہتے ہوئے حل کیا جا سکتا ہے اور نہ حکمران سی سی پی کی موجودہ پالیسیوں کے زریعے۔

عالمی سرمایہ دار معیشت میں اپنی شمولیت، اور چینی محنت کشوں کے استحصال کیلئے ملک میں آنیوالے کثیر بیرونی سرمائے اور ٹیکنالوجی کی چین کو ایک خوفناک قیمت چکانی ہے۔ معاشی نمو نے چینی سرمایہ داری کے تضادات کو مزید نمایاں کیا ہے، جس سے شدید سماجی اختلافات پیدا ہوئے ہیں اور سیاسی بحران مزید گہرا ہوا ہے۔

اگر چہ چین کی فی کس آمدنی میں اضافہ ہوا ہے مگریہ اب بھی دیگر کئی قوموں سے کافی پیچھے ہے اور دنیا میں اسکا درجہ 78 ہے۔ اس سال، جب ہر طرف صد سالہ تقریبات چھائی ہوئی تھیں، ژی نے تفاخر سے کہا کہ چین نے ”غربت مطلق“ کو ختم کر دیا ہے لیکن اس حوالے سے جو اعدادو شمار پیش کئے گئے ہیں وہ متنازع ہیں اور ایک بہت بنیادی نوعیت کے پیمانے پر مبنی ہیں اور غربت عام ہے۔ ٖٖ

چینگدو میں کوکا کولا کی فیکٹری میں 2016میں مزدوروں کا احتجاج (فوٹو ٹی انیا /ٹی)

مزید برآں، امیر اور غریب کے درمیان خلیج بہت وسیع ہو گئی ہے، چین کے کھرب پتیوں کی حیرت انگیز دولت میں تو کووڈ کی عالمی وبا ء کے دوران بھی اضافہ ہوا ہے جس نے عام لوگوں کو بری طرح متاثر کیا ہے۔

حتمی تجزیے میں، تاریخی اہمیت کے وہ سوالات جو چینی انقلاب کا محرک بنے جیساکہ سامراج سے آزادی،قومی یکجہتی، اور غیر حاضرسرمایہ داروں کے شکنجے سے نجات، یہ تمام سوالات آج بھی حل طلب ہیں۔

سچ تو یہ ہے، یہ سوالات آج ذیادہ شدت سے سامنے آرہے ہیں، جب چین کی سرمایہ دار معیشت کا انحصار سرمائے کی عالمی منڈی پر ہے اور اُسے امریکی قیادت میں سامراج کے ہاتھوں عسکری گھیراؤ کا سامنا ہے۔ تائیوان جو ایک حریف قومی ریاست کے طور پر سامنے آرہا ہے، وہ ایک ممکنہ عالمی جنگ کا نقطۂ آغاز بن سکتا ہے۔ ماؤ ازم نے انفرادی قومی ترقی کی جس سوچ کا پرچار کیا تھا وہ اپنی افادیت کھو چکی ہے۔

خود چین کے اندر، سی سی پی ہن اکثریت پر مبنی قوم پرستی کا پرچار کرتی ہے۔ سامراج کی جانب سے اویغور کی نسل کشی کا پروپیگنڈہ تو مضحکہ خیز ہے ہی، سی سی پی کا بھی ایک بڑے کثیر لسانی اور کثیر نسلی معاشرے میں قوم پرستانہ جذبات سے کھلواڑ کوئی ترقی پسند کردار ادا نہیں کرتا۔

اپنے تمام تر تضادات اور پیچیدگیوں کے ساتھ، چین کی تاریخ نے ٹراٹسکی کے مسلسل انقلاب کے نظریے کی اصابت کو ثابت کیا ہے کہ وہ ممالک جو تاخیر سے سرمایہ دارانہ ترقی کے عمل سے گزرے اور سا مراجی جورو جبر کا شکار رہے، ان میں بنیادی جمہوری اور قومی امور صرف ایک سوشلسٹ انقلاب کے زریعے ہی سر انجام دیے جا سکتے ہیں، کسانوں کی معاونت کے ساتھ جسکی قیادت مزدور طبقے کے ہاتھوں میں ہو، اور جو عالمی سوشلزم کے قیام کی جدوجہد کا حصہ ہو۔

عالمی سوشلسٹ انقلاب کا یہ راستہ سی سی پی اور جن سرمایہ دار طبقوں کی وہ نمائندہ ہے ان کیلئے ایک ناپسندیدہ چیز ہے۔

شدید تر ہوتے سیاسی اور سماجی اختلافات کے حل کیلئے سی سی پی کے پاس کوئی حکمت عملی نہیں سوائے سٹالنزم کے جابرانہ ہتھکنڈوں کے جیسے ہر قسم کی اختلافی آوازوں پر مکمل پابندی، بلاجواز گرفتاریاں، اور احتجاجوں اور مظاہروں کے خلاف طاقت کا بھرپور استعمال۔ سی سی پی خود کرپشن اور گروہی لڑائیوں کا شکار ہے جو کسی بھی وقت اسکے ٹکڑے کر سکتے ہیں۔ صدر ژی ایک بونا پارٹسٹ شخصیت کے طور پر سامنے آیا ہے، جسکا کام مخالف دھڑوں میں توازن قائم کرنا اور پارٹی کو اکٹھا رکھناہے۔ ژی کی عظمت کے گیت گائے جاتے ہیں، اسے مرکزومحور قرار دیا جاتا ہے اور ماؤ کے بعد دوسری بڑی شخصیت مانا جاتا ہے، یہ سب کچھ شخصی سیاسی طاقت کا مظہر نہیں بلکہ پارٹی کو لاحق ایک بہت گہرے بحران کا عکاس ہے۔

پچھلے ایک عشرے سے چین کے ساتھ امریکی سامراج کی بڑھتی ہوئی جارحانہ محاذ آرائی نے ان مسائل کو اور بھی گھمبیر بنا دیا ہے، جس کاآغاز صدر اُبامہ نے کیا،ٹرمپ نے اسے مزید تیز کیا اور اب یہ بائیڈن کے ہاتھ ہے۔چین کی معاشی ترقی کے عشروں کو ایندھن فراہم کرنے کے بعد، امریکی حکمران اشرافیہ کے تمام طبقے چین کو اب امریکہ کی عالمی قیادت کیلئے سب سے بڑا خطرہ سمجھتے ہیں اور اب وہ بشمول جنگ ہر طریقہ آزمانے کی تیاری کر رہے ہیں چین کو ”عالمی قوانین پر مبنی نظام“ کے ماتحت بنانے کیلئے جو واشنگٹن کا قائم کردہ سیکنڈ ورلڈ وار آرڈر ہے۔

سامراج کے ساتھ سی سی پی کا ”پُرامن بقائے باہمی“ اور عالمی سرمایہ دارانہ نظام میں پر امن طریقے سے نمایاں مقام حاصل کرنے کا خواب اب بکھر چکا ہے۔ بائیڈن، ڈیموکریٹس اور ریپبلکن دونوں کی حمایت سے، امریکی اتحادیوں کو جمع کر رہاہے اور چین کے ساتھ جنگ کی تیاری پر سینکڑوں ارب ڈالر انڈیل رہاہے۔اسکے ساتھ ہی سی سی پی نے نسلی علیحد گی پسندرجحانات کو جس طرح طاقت کے استعمال سے دبایاہے ان سے پیدا ہونیوالے اختلافات سے فائدہ اٹھاتے ہوئے، واشنگٹن چین کو کمزور اور شکستہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

ایک تباہ کن جنگ کے منڈلاتے خطرے کو سامنے پاکر، چین کے دفاع کیلئے سی سی پی کی قیادت کوملٹری اور خارجہ پالیسی کی ہی سوجھتی ہے، اپنی مسلح افواج کی طاقت میں اضافہ کرتی ہے اور ”بیلٹ اینڈ روڈانیشی ایٹو“ جیسے کام کرنے لگتی ہے۔ ایک جانب، وہ امریکی سامراج کو بھی منانے کی کوشش کرتی ہے اور ایک نیا سمجھوتہ کرتی ہے۔ دوسری جانب، اسلحہ جمع کرنے کی ایک بے سود دوڑ میں شامل ہوجاتی ہے اور قوم پرست اور فسطائی جذبات کو ابھارنے لگتی ہے جنکا نتیجہ صرف بربادی ہو سکتا ہے۔ سوشلسٹ بین الاقوامیت کے جس اصول پر اسکی بنیاد رکھی گئی مدت ہوئی اسے وہ چھوڑ چکی ہے، سی سی پی اب اسکی اہل ہی نہیں کہ عالمی مزدور طبقے سے یہ اپیل کر سکے کہ سوشلزم کی جدوجہد کیلئے ایک متحدہ جنگ مخالف تحریک شروع کی جائے۔

انسانیت کو درپیش کوئی بھی مسئلہ جیسا کہ جنگ، ماحولیاتی تباہ کاریاں،سماجی بحران یا کووڈ کی عالمی وباء کو سرمایہ داری یا اسکے دنیاکو باہم دست وگریباں قومی ریاستوں میں تقسیم کرنے کے پرانے نظام کے تحت حل نہیں کیا جا سکتا۔ چین میں ایسے محنت کش، نوجوان اور دانشور جو ان مسائل کا ترقی پسند حل چاہتے ہیں انکو چاہیے کہ سی سی پی کی گمراہ کن قوم پرستی کو ترک کریں اور سوشلسٹ بین الاقوامیت کی جانب واپس آئیں جو 1921 میں پارٹی کی تشکیل کی بنیا دتھا۔

اسکا مطلب چینی مزدور طبقے اور عالمی ٹراسکسٹ تحریک جسکی عملی صورت انٹرنیشنل کمیٹی آف فورتھ انٹرنیشنل ہے کے درمیان رابطوں کی بحالی ہے۔ہم مزدوروں اور نوجوانوں کو یہ تاکید کرتے ہیں کہ وہ فورتھ انٹرنیشنل کی تاریخ کے مطالعے اور سٹالنزم کے جھوٹ اور تاریخی غلط بیانیوں کے خلاف اور مارکسسٹ اصولوں کی پاسداری خاطر عشروں کی جدوجہد سے اسنے جو سبق سیکھے ہیں انکے مطالعے کی جانب آئیں۔ ہم آپ سے یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ آپ انٹرنیشنل کمیٹی آف فورتھ انٹرنیشنل سے رابطہ کریں اور اسکے انقلابی نظریے کی جدوجہد کی خاطر چین میں اسکی شاخ قائم کریں۔

اختتامی نوٹ

-1- ریاست متحدہ امریکہ میں سوشلسٹ ورکرز پارٹی (ایس ڈبلیو پی) نے1953میں چوتھی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی بنانے کی لڑائی کی قیادت کی ایک موقع پرست رحجان کے خلاف تھا جس کی قیادت مائیکل پابلو اور ارنیسٹ مینڈل نے کی تھی جس نے ٹراٹسکی کے سٹالنزم کے کردار کو ردانقلابی قراردیا تھا اس سے اختلاف کیا تھا اس رحجان نے دعویٰ کیا کہ ماسکو اور بیجنگ میں سٹالنسٹ بیوروکریسی پر نیچے سے دباؤ کے ذریعے وہ ایک انقلابی پروگرام پیش کرسکتے ہیں۔1963میں ایس ڈبلیو پی نے موقع پرستی کے خلاف جدوجہد تر ک کردی اور آئی سی ایف آئی سے علیحدگی اختیار کرلی اور1953میں سامنے آنے والے سیاسی اختلافات پر بغیر کسی بحث و مباحثے کے غیر اصولی بنیادوں پر پابلو آئٹس کے ساتھ متحد ہو گئے۔

Loading