اُردُو

یوکرائن کا بحران ایٹمی جنگ کیلئے خطرہ ہے ----روسی صدر پوٹن

روسی عوامی ٹیلی وژن پر گذشتہ اتوار کو ٹیلی کارسٹ ہونے والی ایک دستاویزی فلم کے مطابق روسی صدر ولاد لمیر پوٹن کے ساتھ ایک انٹرویو میں بیان کیا گیا کہ یوکرائن کے دارلحکومت کیف میں گذشتہ سال 21اور 22فروری کو مغرب نواز کو دیتا کے بعد روس ایٹمی جنگ کے لئے تیار ہے۔

تمام رات روسی سیکورٹی حکام سے اجلاس کے بعد 23فروری کی صبح پوٹن نے فیصلہ کیا کہ کریمیا روس کا حصہ رہے گا۔ کریمیا کے زیادہ تر روسی نثرادآبادی پر یوکرائن قوم پر ستوں کے انتہائی دائیں بازوکے ملیشیا کے ڈر سے کہ اُن پر حملہ کرے گا اور روس کیلئے سیوسٹوپول میں روسی بحری اڈے کی اسٹریٹجک اہمیت کے پیش نظر روس نے کریمیا میں تعینات اپنی فورسز کو سیوسٹوپول بیس میں متحرک کیا جو لیز کے معاہدے کی شراط کے تحت تھی۔ 

کریمیا کی آبادی نے بالا آخر روس میں دوبارہ شامل ہونے کے حق میں ووٹ دیا اور کریمیا میں کیف نواز افواج نے کوئی بھی مزاحمت نہیں کی تھی لہٰذاانہیں فرار ہونے کی اجازت دے دی گئی ۔ پوٹن نے کہا " ہم نے صورت حال کی بغور نگرانی کی اور ہمیں اسکے لئے اپنے فوجی سامان لانے پڑے اس نے مزید کہا" اگر مزاحمت ہوتی تو اسکا پہلے ہی حملے میں صفایا کردیاگیا ہوتا"۔پوٹن کے مطابق تاہم کریملن اور روسی فوج نے منصوبہ بندی شروع کردی تھی وہ نہیں جانتے تھے کے نیٹوکاجنگ پر کیا رد عمل ہوگا، اور منصوبہ بندی کے شروع کے پہلے مراحلے پر اسے سمجھا بھی نہیں جاسکتا تھا۔ صورت حال کے مطابق مجھ پر دباؤ تھا کہ میں اپنی مسلح افواج کو رہنمائی فراہم کروں۔ اور صرف رہنمائی مہیا نہ کروں بلکہ براہ راست ہدایت اور احکامات، تاکہ ہماری مسلح افواج کو کسی بھی ممکنہ صورت حال سے نمٹنے کے حوالے سے چوکس رہیں۔

پوٹن نے مزید کہا کہ ہم کسی بھی خراب ترین صوت حال سے نمٹنے کیلئے تیار تھے جن سے اسکی صاف طور پر مراد نیٹوکے ساتھ نیوکلیئر جنگ کی تھی۔ پوٹن نے کہا کہ "ہم جنگ کے لئے تیار ہیں میں نے مغرب کے اہلکاروں سے کہا کریمیا ہمارا تاریخی علاقہ ہے جہاں پر روسی لوگ رہتے ہیں جو وہاں خطرے میں ہیں اور انہیں ہم اس خطرے میں اکیلا نہیں چھوڑسکتے "اس نے آخر میں مزید کہا "جہاں تک ہماری نیوکلیئر فورسز کا تعلق ہے ہمیشہ کی طرح وہ جنگ کیلئے تیار ہیں"اگر پوتن کے بیان کے مفہوم کو سمجھا جائے کہ وہ کسی بھی ممکنہ صورت حال کیلئے تیار ہیں۔

واشنگٹن ہمیشہ سے یہ انکار کرتا آیا ہے کہ وہ نام نہاد "پہلے استعمال نہیں کرے گا"(No First Use) وعدہ نہیں کرتایعنی کہ وہ پہلا نیوکلیئر حملہ نہیں کرے گا (جبکہ اسکے بر عکس سابقہ سودیت یونین نے نیوکلیئرحملہ نہ کرنے کا وعدہ کیا)اگر یہ بالکل تسلیم کرلیا جائے کہ روسی نیوکلیئر فورسز نہایت حساس طریقے سے چوکس ہیں اور امریکہ کی قیادت میں نیٹو کے روس پرنیوکلیئر حملے کیلئے پوری طرح سے جواب کیلئے تیار ہیں۔ تو اس کی فطری وضاحت کی درجہ بندی یوں کی جاسکتی ہے اگر جیسے ہی نیٹو کے میزائیل روس پر داغے جائیں گے جو ابھی تک زمین پر نہیں گرے ہونگے تو روس بھی اس کے جواب میں میزائیلوں کو ان پر داغ دے گا یہ ہزاروں میزائیل اور ہرمیزائیل زیادہ طاقت ور تباہ کن ہے بمقابلہ ان امریکی بمبوں سے جو ہیروشیما اور ناگاساکی پر 1945میں امریکہ نے گرائے تھے جس سے لاکھوں افراد لقمااجل ہوئے۔ اور جب یہ مزائیل شمالی امریکہ اور یورپ کے فوجی اڈوں صنعتی انفراسٹریکچر اور مواصلات کے کنٹرول کے مرکزوں پر برسائیں گے توکیا صورت حال ہوگی? پوٹن کے ریمارکس نے ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کی وارنگ جو یوکرائن کے بحران کے دوران دی تھی اس کی تصدیق ہوئی ہے ۔

ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے ملیشیاء کی ایئر لائنز کی پرواز MH-17کے حادثے پرامریکہ کی اشتعال انگیزی کے دوران لکھا تھا "اور کیاتم جنگ کیلئے تیار ہو"اور اس کے ساتھ ہی یورپ ، امریکہ اور روس کے درمیان نیوکلیئر جنگ یہ سوال ہر ایک کہہ رہا ہے۔

یوکرائن کے بحران کی ذمہ داری شروع دن سے واشنگٹن اور برلن کی وہ مداخلت تھی جس نے روسی حمایت یافتہ صدر ویلٹر ینکوچ کی حکومت کا تختہ الٹ کر انتہائی دائیں بازو کی حکومت کیف پر مسلط کی تھی۔ یہ وہ بڑاجارحانہ ایجنڈہ ہے اور اس اقدام کے زریعے امریکہ اپنی بالادستی کو یوروایشیا پر مسلط کرنا چاہتا ہے جس سے نیوکلیئر جنگ کا خطرہ بڑھ گیا ہے جس سے انسانیت کی بقا کو سنگین خطرہ لاحق ہے۔

پوٹن حکومت کا سامراجی حملے پر جواب کی بنیاد قوم سرپرستی اور سرمایہ درانہ ملکیت کی دفاع پر ہے جو ایک ریکشنری اور سیاسی دلیوایہ پن ہے۔ بدعنوان روسی کاروباری اشرافیہ جوکہ 1991میں سودیت یونین میں سرمایہ داری کی بحالی کے بعد ابھر کر سامنے آیا اس میں یہ اہلیت نہیں ہے کہ وہ عالمی سطح پر اجتماعی طور پر اپیل کرتے ہوئے جنگ کی مخالفت کریں یہ صرف ایٹمی جنگ کے دھمکی اور سامراج سے سمجھوتے کی تلاش کے درمیان کلا بازیاں لگارہی ہے۔ ٹی وی کے انٹرویو میں بتایاگیا کہ پوٹن کو روس کی فوجی قیادت کی جانب سے دباؤ تھا کہ وہ زیادہ سخت اقدامات اٹھائے۔ اور روسی وزیر دفاع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا کہ "فوجی ماہرین"نے یہ کہا تھا کہ تمام دستیاب وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے روس کو یہ بتاناچاہئے کہ وہ اپنا دفاع کرسکتا ہے۔

تاہم انٹرویو میں پوٹن نے بحران کوکم اہمیت دیتے ہوئے کہا "کہ صورت حال کی ڈرامائی نوعیت کی پیچید گی کے باوجود سرد جنگ کا خاتمہ ہوا۔ اور ہم عالمی سطح پر 1962کی طرح کا"کیوبا میں میزائیل کا بحران "کی طرح کا بحران نہیں دیکھنا چاہتے اور موجودہ صوت حال اس ضمن میں ہمیں اسکی اجازت نہیں دیتی کیونکہ یہ خود ہمارے مفادات کے متصادم ہے" پوٹن کا یہ بیان مضحکہ خیز ہے کہ ایک جانب وہ واشگٹن پر یہ الزام لگار رہا ہے کہ اس کے کیف میں حکومت کا تختہ الٹا یا اور اس کونیٹو کے ہاتھوں نیوکلیئر جنگ کی تباہی کے خوف میں مبتلا کردیا ہے اور دوسری جانب وہ امریکن حکام کو ہمارے امریکن پارٹنرز کے نام سے کہہ کرپکار رہا ہے۔

حقیقت میں صورت حال سرد جنگ کے دور سے زیادہ خطرناک ہے ۔ پچھلے سال لندن کے ایک تھنک ٹینک نے ایک رپورٹ شائع کی تھی جس میں کہا گیا تھا کہ یوکرائن میں کودیتا کے بعد جب مشرقی یورپ میں نیٹو اپنی افواج میں اضافہ کررہا تھا تو اس وقت 40مرتبہ ایسے واقعات رونما ہوئے جب نیٹو اور روسی جنگی طیارے براہ راست ایک دوسرے کے ساتھ لڑتے ہوئے بال بال بچے۔

جرمنی کے ایک اخبار ڈیر سپیگل اور روس کے سابقہ وزیر اعظم میخائل گوربا چوف بھی عالمی جنگ کے خطرے کے بارے میں انتبا کرچکے ہیں ۔ سامراجی جارہانہ کردار کو امریکی حکمران حلقوں کی اس گفت وشنید کی روشنی کے زریعے پرکھا جاسکتاہے جس میں انہوں نے جارحانہ نیوکلیئر جنگ کی پالیسی کو اپنایا تھا۔ اس پالیسی کا خلاصہ 2006میں امریکی سیاسی ا سٹیبلشمنٹ کے معروف دوپروفیسروں گیدلی بر اور ڈپرل پریس نے فارن افیئر کے رسالے جو کہ امریکہ کی سیاسی سٹیبلشمنٹ کی معروف خارجہ پالیسی کے جریدے میں پیش کیا ہے۔ اس میں لکھا گیا ہے "کہ امریکہ کیلئے یہ جلد ممکن ہوجائے گا کہ وہ ایک ہی حملے میں روس اورچین کے طویل فاصلے کے نیوکلیئر ہتھیاروں کو تباہ کردے گا۔ "کیونکہ روس میں سرمایہ داری کی بحالی کے بعد ان کا بنیادی انفراسکٹچرکا شیرازہ بکھر گیا ہے اور روس کے پاس اب صرف چند ہی بمبار اڈے یا موبائل میزائیل لانچرز رہ گئے ہیں اور اس کے آبدوز بلیسٹک میزائیل زیادہ تر وقت جام رہتے ہیں۔ اور ان سب کو پیش بندیPreemptive))کے حملے کے طور پر ایک ہی نیوکلیئر حملے میں تباہ کیا جاسکتا ہے ۔

لی براور پریس کے مطابق واشنگٹن اب اس قابل ہوگیا ہے کہ وہ پیش بندی کے نیوکلیئر حملے کے زریعے روس اور چین کو اسلحے سے پاک کرسکتا ہے۔انہوں نے کمپیوٹر کے ماڈل کی نیوکلیئر جنگ کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا ہے کہ "غیر متوقع نیوکلیئر"حملہ روس کے بمبار اڈوں آبدوزوں اور اینٹرکانٹی نینٹل بلاسٹک مزائیل (ICBM) کو تباہ کرنے کا اچھا موقع ثابت ہوگا۔ انہوں نے مزید کہا ہے کہ چین کے نیوکلیئر ہتھیاروں میں موبائل زمینی اڈوں میں نیوکلیئر مزائیل کی کمی اور ناقص بلیسٹک مزائیل آبدوزیں امریکہ کیلئے اور بھی آسان ہیں جن پر حملہ کرکے انہیں آسانی سے تباہ کیا جاسکتا ہے۔ تاہم انہوں نے کچھ امریکی خارجہ پالیسی کے حلقوں میں اس پالیسی کے خدشات کو بھی نوٹ کیا ہے ۔ کہ "روس اور چین پھر زیادہ تیزی کے ساتھ اپنے نیوکلیئر ہتھیاروں سے متعلق کمی بیشی پر کام کرتے ہوئے زیادہ میزائلوں آبدوزوں اور بم باروں کو بڑھائیں گے اور زیادہ سے زیادہ وار ہیڈز ہتھیاروں پر نصب کریں گے اور اپنی نیوکلیئر فورس کو زیادہ الرٹ رکھیں گے اور پھر زیادہ حساس اور چوکس انداز میں جوابی کاروائی کریں گے۔جس سے حادثاتی ، بلاجواز اور جان بوجھ کر نیوکلیئر جنگ خاص کر بحران کی صورت حال میں اس سطح تک جاسکتی ہے جو دہائیوں میں نہیں دیکھی گئی ہوگی ۔

پوٹن کے یوکرائن کے بحران پر ریمارکس میں واضح طور پر اس خطرے کے بارے میں کہا گیا نیوکلیئر ہتھیاروں کی دوڈ میں شدت جنگ کے خطرے کے ساتھ بڑھتی جائے گی امریکہ اور روس نے رسمی طور پر جنوری میں نیوکلیئر ہتھیاروں کے خاتمے پر ان کے تعاون کو ختم کرنے کے اعلان سے پہلے ہی اوبامہ انتظامیہ نے امریکہ نیوکلیئر ہتھیاروں کی اپ گریڈنگ پر ایک ٹریلین ڈالر سے زیادہ کی رقم خرچ کرنے کے پلان کو گذشتہ سال بے نقاب کیا۔

روس اور چین بھی اپنے نیوکلیئر اسلحوں میں بلین ڈالرز صرف کررہے ہیں۔ اس کوشش کے ساتھ کہ اگر امریکہ نیوکلیئر حملہ کرتا ہے تو اسے روکنے کے صلاحیت پیدا کرسکیں ۔ روس جدید اور جامع نیوکلیئر ہتھیار بنا رہا ہے جو توقع ہے کہ اگلی دھائی کے شرو ع میں سامنے آجائیں گے جس میں نیوکلیرمیزائیل کا تناسب 15سے 70فیصد موبائل لانچرز میں منتقل کیا جائے گا۔ اور روس ایک نئی نیوکلیئر آبدوز بھی بنارہا ہے جسے ((Boreiکلا س کا نام دیا گیا ہے ۔

چین ڈی ایف 13بلیسٹک میزائیل کو متعارف کر رہاہے جوموبائل لانچرز پر ہوگا جس میں زیادہ تیزی سے نکلنے کی صلاحیت موجو د ہے ۔ وہ یولین(Yulin) نیول اڈا بھی بنا رہا ہے جس میں نئے قسم کے 094بلاسٹک میزائیل آبدوزیں ہیں جوچین کے جنوبی سمندرکے حینانہHainan))جزیرے پر واقع ہے اور وہ اس منصوبے پر تیزی سے کام کررہا ہے تاکہ آبدوزوں میں نیوکلیئر مزائیلوں کی دورمار کی صلاحیت میں قابل قدر اضافہ کرے تاکہ وہ جنوبی چین کے سمندر سے امریکہ کو نشانہ بناسکے جو ابھی تک اس قابل نہیں ہے کہ وہ اس سے امریکہ کے خلاف جوابی کاروائی کرسکے۔

یہ حالات اور واقعات نمایا طور پر دنیا کی تمام آبادی کیلئے ایک سنگین خطرہ ہیں۔ جو امریکی سامراج کے بے دھڑک اشتعال انگیز اور جارہانہ آپریشن کے زریعے پید اہوئے ہیں ۔ نیوکلیئر جنگ کا سوال صرف تھیورایٹیکل ممکنات نہیں ہے۔ بلکہ بڑھتا ہوا فوری خطرہ ہے اس خطرے کا جواب ہمیں عالمی مزدور طبقے کی مضبوط تحریک کے زریعے دینا چاہئے ۔ جو عالمی سوشلزم کے پراسپیکٹو پر استوار ہو۔

Loading