اُردُو

انڈیا نے پاکستان کے خلاف فوجی کاروائی شروع کردی

انڈیا نے بدھ کی رات پانچ گھنٹوں کے دوران پاکستان کے اندر کئی سرجیکل اسٹرائیک کیں ہیں۔ جن سے جنوبی ایشیاء خطرناک حد تک جنگ کی سمت بڑھ گیا ہے۔ اور جس کے انتہائی تباہ کن اثرات مرتب ہوں گے۔ 

انڈیا اور پاکستان کے درمیان جنگ نہ صرف ان دو نیوکلئیرممالک کے درمیان پہلی جنگ ہوگی بلکہ یہ جنگ تیزی کے ساتھ چین اور امریکہ کو بھی اس میں ملوث کردے گی۔

پاکستان کے جوابی حملے کے پیش نظر (یا پھر انڈیا کی اپنی فوجی تیاریوں کے نقطہ نظر سے) انڈیا کی سرکار نے جمووکشمیر وپنجاب کے پاکستانی بارڈر سے منسلک آس پاس کے دس کلو میٹر کا علاقہ خالی کرنے کا حکم صادر کیا ہے۔ پاکستانی وزیراعظم نوازشریف نے بدھ کی شب ہونے والے حملے کو اشتعال انگیز اور ننگی جارحیت کہا ہے اور اس واقعے پر اپنے کیبنیٹ کی ایمرجنسی میٹنگ بلائی ہے تاکہ اس واقعے کا اسلام آباد جواب دے سکے۔

انڈیا نے دعویٰ کیا ہے کہ اس نے لائن آف کنٹرول کے اس پار پاکستان کے اندر تین کلومیڑ اندر گھس کر سات لانچنگ پیڈز کو نشانہ بنایا ہے اور اس نے دہشت گردوں اور ان کو پناہ دینے والوں کو بھاری جانی نقصان پہنچایا ہے۔ تاہم فوج اس واقعے پر لب بستہ ہے لیکن انڈین میڈیا کی رپوٹوں کے مطابق جو سرکاری ذرائع پر مبنی ہیں میں کہاگیا ہے کہ انڈیا کے کمانڈوز نے آزاد کشمیر کو زمینی اور ہیلی کاپٹر گن شپ کے ذریعے کراس کرکے دہشت گردوں کو مارا ہے جن کی تعداد ڈبل ڈی جٹ ہے۔

گزشتہ پندرہ برسوں سے انڈیا اور پاکستان جنگی بحران سے دوچار ہیں۔ اور 1999ء میں انڈیا کے زیرانتظام کشمیر کے دور دراز کے علاقے کارگل میں غیراعلانیہ جنگ کی تھی۔ لیکن نئی دہلی نے دہائیوں سے عوامی سطح پر یہ بات تسلیم نہیں کی تھی کہ اس نے پاکستان کے اندر کوئی فوجی کاروائی کی ہے۔ اس خوف کی بنیاد پر کہ کہیں یہ اقدام تیزی سے جنگ اور یہاں تک کہ نیوکلئیر جنگ میں تبدیل ہوسکتا ہے۔

گزشتہ روز کے حملے کا تعلق دس روز قبل جمووکشمیر کی ہمالیہ ریاست کے علاقے اُڑی کے فوجی بیس پر انڈیا مخالف اسلامک شدت پسندوں نے حملہ کرکے 18 فوجوں کو ماردیا تھا۔ اس حملے کی ذمہ داری انڈیا نے تحقیقات کئے بغیر فوراً پاکستان پر عائد کردی تھی۔ انڈیا کی ہندو سپرمسٹ بھارتیہ جنتا پارٹی کی سرکار نے عزم کیا تھا کہ اس کی سزا ضرورپاکستان کو دی جائے گی۔

انڈیا کے میڈیا اپوزیشن پارٹیوں اور بے شمار ریٹائرڈ فوجی آفیسروں نے بھی پرُزور اندازمیں پاکستان سے بدلہ لینے کا مطالبہ کیا تھا۔

انڈیا کے فوجی ڈائریکٹر لیفٹیننٹ جنرل رانبیر سنگھ نے ایک دھوم دھام پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’سرجیکل سٹرائیک‘‘ کا مقصد یہ ہے کہ ’’دہشت گرد ٹیم ‘‘ جو لائن آف کنٹرول کے اُس پار تھی جو انڈیا کے اوپر حملوں میں ملوث تھے۔جنرل سنگھ نے دعویٰ کیا کہ مزید سرحدی لائن کے اُس پار کوئی ایکشن نہیں کریں گے۔ تاہم اس نے کہا کہ بدقسمتی سے انڈین آرمڈ فورسز مکمل طور پر کسی بھی ممکنہ صورت حال سے نمٹنے کے لئے تیار ہیں۔

دوسری جانب پاکستان کی فوج نے انڈیا کی اس سرجیکل سٹرائیک کے دعوے کو یکسر مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ یہ سراسر جھوٹ اور غلط بیانی پر مبنی ہے اور مزید یہ کہ سرحد پار کوئی بھی آپریشن نہیں ہواہے۔

تاہم پاکستان کی فوج نے یہ تسلیم کیا ہے کہ لائن آف کنٹرول پر ایک بار پھر انڈیا نے بلا اشتعال گولہ باری اور فائرنگ کی ہے جس کے نتیجے میں پاک فوج کے بدھ کی رات دو جوان شہید اور نو افراد زخمی ہوئے ہیں اور اس واقعے کو لائن آف کنٹرول پر کراس فائرنگ کو معمول کا واقعہ قرار دیا۔ اپنے ایک بیان میں پاکستانی فوج نے انڈیا کو چیلنج کیا ہے کہ اگر پاکستانی علاقے میں انڈیا کی جانب سے سرجیکل سٹرائیک ہوئی تو اس کا منہ توڑ جواب دیا جائے گا۔ دونوں اطراف سے واضح طور پر غلط بیانی اور غلط انفارمیشن پھیلائی جارہی ہیں جو کہ ایک خطرناک صورت حال کی عکاسی کرتی ہے۔

نئی دہلی کو ہی لیجئے جس نے گزشتہ روز کہا تھا کہ فوجی حملے کا مقصد دراصل سرحدی لائن کے اُس پار دہشت گردوں کی انڈیا میں داخلے کو روکنا تھا۔جو کہ ایک کھلم کھلا جھوٹ ہے جو جارحیت کے لئے ایک بہانہ ہے۔

ورلڈسوشلسٹ ویب سائٹ پاکستان کے ری ایکشنری فرقہ وارانہ حکمران طبقے اور فوج کے بارے میں کوئی ابہام نہیں رکھتی جنہوں نے ہربار اور ہروقت پاکستانی عوام کے جمہوری سیاسی حقوق پر ڈاکہ ڈالا اور امریکی سامراج کا ایک طابعدار اورا چھا خدمت گزار رہا ہے۔ سی آئی اے کے سکول سے وابسطہ ہونے کے ناطے جس نے پاکستان کو جونیئرپارٹنرشپ اور فرنٹ لائن کے طورپر سوویت یونین کے خلاف افغانستان میں خفیہ جنگ لڑی ۔ پاکستان نے اسلامک دہشت گردوں کو اپنے مخالف ملک انڈیا کے خلاف اپنے فوجی سٹریٹیجک عزائم کے حصول کے لئے استعمال کیا۔ خاص کر کشمیر میں اس نے انڈیا کی حکمرانی کے خلاف پاپولر اپوزیشن کو سیاسی طور پر ایک جانب دباتے ہوئے اور پھر اس کو فرقہ ورانہ لائن پر بھٹکانے کی پالیسی پر گامزن رہا۔

پاکستان کیونکر جس نے باربار انتباہ کیا ہے کہ اس کے اور انڈیا کے درمیان فوجی سٹریٹیجک گیپ بڑھ گیا ہے جو اس کے مقابلے میں چھ گنا آبادی اور سات گنا معیشت میں بڑا ہے ۔۔۔۔ پر پھر بھی دہشت گردوں کے حملے جو پہلے ہی سے جنگ کے لئے تیار ہے؟

انڈیا میں 2010ء کی گرتی ہوئی گروتھ ریٹ کی وجہ سے انڈیا کی بورژوازی نے نریندر مودی اور اس کی شدت پسند دائیں بازو کی جماعت بی جی پی کو اقتدار میں لایا گیا۔ تاکہ محنت کش طبقے کا شدید استحصال کرسکے اور دوسری جانب عالمی سطح پر اپنے کو بڑی طاقت منوانے کے خواہش کی تکمیل کرسکے۔ اپنی اس خواہش کی تکمیل کی خاطر انڈیا نے اپنے کو پوری طرح واشنگٹن سے جوڑتے ہوئے چین کے خلاف جنگ میں امریکہ کی پالیسی کا حصہ بنتے ہوئے اور اس کی حمایت کے بل بوتے پر اپنے آپ کو علاقائی بالادست طاقت کے طور پرمنوا رہا ہے۔

انڈیا کے معتبر طبقے اپنے ملک کو پاکستانی دہشت گردی کا ’’معصوم شکار‘‘ کے طور پر پیش کررہے ہیں۔ پی جے پی کی حکومت پاکستان کے خلاف مقابلے کی پالیسی پر گامزن ہے۔ پی جے پی کے اقتدار میں آنے کے بعد نریندر مودی نے فوجیوں کو جواحکامات جاری کیے تھے ان میں سے ایک لائن آف کنٹرول پر ایک جارحانہ پالیسی کا اختیار کرنا تھا۔ جس کے نتیجے میں 2015ء میں سب سے طویل کراس بارڈر شیلنگ کا آغاز کیا گیا۔ جو کہ دہائیوں میں نہیں ہوئی تھی۔اڑی کے حملے سے ایک ماہ قبل مودی نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان کے جنوب مغربی صوبے بلوچستان میں جاری نسلی قوم پرست بغاوت کی اسلام آباد کے خلاف حمایت کرتے ہوئے اور ساتھ ہی پاکستان کو توڑنے کی دھمکی دی تھی ۔

گزشتہ روز کے حملے سے نئی دہلی یہ باور کرانا چاہتا ہے کہ اپنی سٹریٹیجک مفادات کو بڑھانے کی خاطر برے خطرات کے لئے رسک لینے کو تیار ہے۔ اور پاکستان اور اس خطے کے حوالے سے وہ نام نہاد سٹریٹیجک ریسٹرین (ضبط) کا پابند نہیں ہے۔

پاکستان کی جانب سے موقت اختیار کیا گیا ہے اُس میں کہا گیا کہ کراس بارڈر حملے نہیں ہوئے ہیں۔ اس پر پوری طرح سے یقین نہیں کیا جاسکتا۔ بہت سے پاکستان حکومتی افسران اور سیاسی لیڈروں نے ڈھکے چھپے انداز میں جوبیانات دیئے ہیں وہ فوج کے بیان سے تضاد رکھتے ہیں۔ ان میں وزیردفاع خواجہ محمدآصف بھی ہیں جنہوں نے کہا ہے کہ ’’اگر انڈیادوبارہ ایساکرے گا تو ہم اس کا منہ توڑ جواب دیں گے۔

‘‘ انڈیا کے پاکستان کے اندر اس فوجی حملے کی جو تردید پاکستان سے کی جارہی ہے اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ اسلام آباد مزید اس جنگی حالات کو بڑھانا نہیں چاہتا وہ اپنی ری ایکشنری جیوپولیٹیکل نکتہ نظر کے تحت ان حملوں کا عوام کے سامنے اقرار نہیں کرنا چاہتا۔ جو اس کے لئے اپنی جانب سے کوئی حملہ نہ کرنے سے اس کی ذلت آمیز توہین ہے۔ وہ اس وجہ سے اسے اچھانہیں سمجھتا ۔

پاکستان کا یہ نکتہ نظر تاہم صر ف مودی حکومت اور زیادہ جنگجوانہ انڈیا کے بالادست طبقوں کا مزید حوصلہ بڑھانے کا سبب بنے گا۔ جو کہتے رہے ہیں کہ پاکستان کتنا کمزور ہے۔گزشتہ روز بی جے پی کی جانب سے بلائی گئی آل پارٹی کانفرنس کی میٹنگ میں انڈیا کے تمام سیاسی اسٹیبلشمنٹ بشمول کانگریس پارٹی اور سٹالنسٹ پارٹی آف انڈیا (مارکسسٹ) نے شمولیت کی تاکہ پاکستان کے خلاف جارحیت کا جشن منایا جائے میڈیا نے اس فوجی کاروائی کی بہت ستائش کی اور خصوصی طور پر اسے انڈیا کا ایک طاقت ور اور جرأت مندانہ اقدام قرار دیا اور مزید کہا گیا کہ اس مؤثر فوجی چال نے انہیں صحیح معنوں میں ہیرو بنادیا ہے۔

انڈیا اور پاکستان کے درمیان سٹریٹیجک محاذ آرائی نے اس پورے جنوبی ایشیاء کے عوام کو نیوکلیئر ہالوکاسٹ کے بڑے خطرے میں داخل کردیا ہے جو کہ بورژوازی کی ناکامی کا کھلا اور حقیقی ثبوت ہے۔ جنوبی ایشیاء میں اس محاذ آرائی کی بنیادیں 1947ء کی فرقہ ورانہ تقسیم کا نتیجہ ہے۔ جس کا انجام مسلم پاکستان اور ہندو انڈیا میں ہوا۔ یہ عمل جنوبی ایشیاء کی بورژوازی کی مدمقابل پارٹیوں یعنی کانگریس اور مسلم لیگ نے برطانوی سامراج کی گھٹ جوڑ سے کیا۔ جب وہ اس کالونی سے جارہے تھے۔

اس جنگ کو بڑھکانے کا ایک بہت بڑا سبب واشنگٹن ہے جس نے گزشتہ ایک دہائی سے انڈیا کو ایک فرنٹ لائن اسٹیٹ کے طور پر چین کو تنہا اور اس کے گرد گھیرہ تنگ کرنے اور چین کے خلاف جنگ کی جانب بڑھایا ہے۔ مودی کے دور میں انڈیا چین کے جنوبی سمندر کے تنازعے میں امریکہ کے ساتھ منسلک ہوگیا ہے جس نے امریکہ کے ایشیاء پیسفک اتحادیوں جاپان اور آسٹریلیا سے دو طرفہ اورتین طرفہ سٹریٹیجک معاہدے کئے ہیں۔ گزشتہ ماہ مودی نے امریکی جنگی جہازوں اور جنگی آبدوزوں کو انڈیا کی فوجی بیس کو استعمال کرنے کے معاہدے کئے ہیں۔

ڈبلیو بش اور ابامہ کے ماتحت انڈیا کو بھرپور ’’سٹریٹیجک گفٹ‘‘ سے نوازا گیا ہے اور اسے انتہائی ایڈوانس ہتھیاروں تک رسائی دی گئی ہے اور دنیا کے نیوکلیئر ریجم میں اس کو خاص رتبہ دیا گیا ہے تاکہ نئی دہلی مقامی نیوکلیئروسائل کو استعمال کرتے ہوئے جدید نیوکلیئر ہتھیار استعمال کرسکے۔

انڈیا اور امریکہ کے اتحاد کے استحکام نے امریکہ اور پاکستان کے تعلقات کو سرد مہری میں تبدیل کردیا ہے۔ جو کہ سرد جنگ کے تمام زمانے میں انتہائی قریبی تھے جو جنوبی ایشیاء میں پاکستان کا بنیادی اتحادی تھا۔

اسلام آباد پہلے ہی سے انتباہ کرچکا ہے کہ واشنگٹن نے جنوبی ایشیاء میں طاقت کا توازن بدل دیا ہے۔ نئی دہلی اور واشنگٹن کے درمیان نزدیک سٹریٹیجک پارٹنرشپ نے اسلحے اور نیوکلیئر ہتھیاروں کی دوڑ میں اضافہ کردیا ہے جس کا کوئی بھی اثر امریکہ پر نہیں ہوا۔

پاکستان اپنی تنہائی کے خوف سے اپنے لمبے عرصے کے اتحادی چین کے اور بھی قریب ہوگیاہے۔ لیکن واشنگٹن سے اس کی بے تعلقی نے انڈیا کے ساتھ اس کی مخاصمت میں مزید اضافہ کردیا ہے۔

نئی دہلی کو مزید مطمئن اور راضی کرنے کے غرض سے واشنگٹن نے پاکستان کو سزا دینے کے لئے اس کو گرین سگنل دے دیا ہے۔ اس کے باوجود کہ اوبامہ انتظامیہ اب تک افغانستان پر اپنے قبضے کو قائم رکھنے کے لئے ابھی تک لاجسٹک سپلائی کے لئے پاکستان پر انحصار کرتی ہے۔اس فیکٹر کو نظر انداز کردیا گیا ہے۔

اوبامہ انتظامیہ کی قومی سلامتی کے ایڈوائزر سوسن رائس نے انڈیاکے ہم منصب کو سرجیکل سٹرائیک سے کچھ گھنٹوں پہلے رابطہ کرتے ہوئے اُڑی کے واقعے پر افسوس کا اظہار کیا اور اسے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں مکمل یقین دہانی کرائی۔ انڈین پریس رپورٹ کے مطابق رائس کی یہ کال دراصل اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ واشنگٹن ناکافی طور پر انڈیا کی حمایت کررہا ہے کہ وہ اڑی کے واقعے میں پاکستان کو پوری طرح ذمہ دار نہیں کہہ رہا ہے۔

لیکن اس بات میں کوئی شک و شبہہ نہیں ہے کہ بدھ کی شب سرجیکل سٹرائیک حملے کی امریکی حکومت نے مخالفت نہیں کی جو کہ واضح طور پر غیرقانونی اور اشتعال انگیز تھی۔ تاہم امریکی حکومت نے روایتی انداز میں دونوں ملکوں کو تحمل اور باہمی بات چیت کے ذریعے مسئلے کے حل کی تلقین کی ہے۔

امریکہ ایک انتہائی خطرناک گیم کھیل رہا ہے جو کہ آگ بڑھکانے کے متراد ف ہے اور چین کے خلاف نئی دہلی کے ساتھ جو اتحاد بڑھا رہاہے اوربی جے پی کی فرقہ ورانہ پارٹی جو اس وقت اقتدار میں ہے اس کی حوصل افزائی کررہا ہے۔تاکہ وہ اور جارحانہ انداز میں اپنی سفارتی پالیسی معاشی اور فوجی ایکشن کو پاکستان کے خلاف استعمال کرے۔ اس ملک کے خلاف جس کے ساتھ وہ پہلے ہی چار جنگیں لڑ چکا ہے۔ جس سے خطرات اور بڑھ گئے ہیں اور وہ اپنے جنگی سازوسامان یا پھر نیوکلیئرہتھیاروں کے استعمال کے لئے مزید دھمکیوں اور حملوں کی جانب بڑھ سکتا ہے۔

Loading