اُردُو
Perspective

بڑی طاقتیں پہلی عالمی جنگ کی یاد مناتی ، اور اگلی جنگ کی منصوبہ بندی کرتی ہیں

پچھلے اختتامِ ہفتہ ، دُنیا کی بڑی طاقتوں کے سربراہ فرانس میں اکھٹے ہوئے ، پہلی عالمی جنگ کے باضابطہ خاتمے کی یاد منانے کیلئے۔جرمن چانسلر اینجلا مرکل ، فرنچ صدر میکرون اورامریکی صدر ڈونلڈٹرمپ نے افسردہ چہروں کے ساتھ ایک دوسرے کو گلے لگایا اور تقاریر کیں اُس جنگ کی ’’ خوفناکی ‘‘ اور ’’ المیے ‘‘ کا ماتم کرتے ہوئے جس میں ایک کروڑ ساٹھ لاکھ جانیں ضائع ہوئیں ۔

لیکن اُنکی ’’ٹریجیڈی‘‘ اور ’’خودکشی ‘‘ کی باتیں اس حقیقت کو نہیں چھپاسکیں کہ وہ سب سرگر می سے ایک نئی اور مہلک عالمگیر عسکری کشمکش کی تیاری میں مصروف ہیں ۔

ٹرمپ نے حسبِ معمول ، خونریزی کی اپنی محبت کو چھپانے کی کوئی کوشش نہیں کی ۔ پیرس سے باہر سوریسنز کے امریکی قبرستان میں اُسکی تقریر صرف جنگ کی حمایت میں ایک جذباتی بھاشن تھا ۔ ٹرمپ نے اُن ’’ عظیم جنگجوؤں ‘‘ کی تعریف کی جو جنگ کا پانسہ پلٹنے کیلئے جہنم سے گزرگئے اور اُن ’’ خونخوار‘‘ ا مریکی فوجیوں کی تعریف کی جنہیں خوف ذدہ جرمن سپاہی ’’ڈیول ڈاگز ‘‘ کہتے تھے ۔

مرکل اور میکرون کے برعکس ، امریکی صدر نے اس بات کا کوئی ذکر نہ کیا ، جسے تھرڈ ریخ کے خاتمے کے بعد سے ساری دُنیا میں تسلیم کیا جاتا ہے ، کہ پہلی عالمی جنگِ ایک تباہ کن غلطی تھی ،جس میں کروڑوں لوگوں کو قتل کیا گیا جنرلوں کی جہالت کی بدولت یا سیاستدانوں اورصنعت کاروں کے لالچ کی بدولت ۔ یہ ٹرمپ کے الفاظ میں ایک ’’ارفع واعلیٰ‘‘ جدوجہد تھی ، ’’امن ‘‘ قائم کرنے اور ’’تہذیب ‘‘کے دفاع کیلئے ۔

میکرون اور مرکل کی تقریروں نے بھی اُنہی خونی جذبات کا اظہار کیا جنہیں بدیانتی کی ایک گندی پرت سے تھوڑاسا ڈھانپا گیا تھا ۔ میکرون کی تقریر کا اسلوب ’’قوم پرستی ‘‘ کی مذمت تھا ،جبکہ مرکل نے جنگ پر افسوس کا اظہار کیا اُسے ’’بے رحم لڑائیوں کی مکروہ بھول بھلیاں ‘‘ اور ’’ناقابلِ فہم خون ریزی ‘‘ قرار دیتے ہوئے جسکا سبب ’’ قومی تکبر اور عسکری گھمنڈ ‘‘ تھا ۔

لیکن میکرون کی تقریر ، اپنے مندرجات میں ، اُس عظیم جھوٹ پر خوشی کا اظہار تھا جسے جرمینو فرنچ فاشسٹ تحریک بیچتی چلی آرہی ہے: کہ ’’عظیم جنگ ‘‘ قومی اتحاد کا ا یک ہمہ گیر موقع تھا ، جس میں سماجی اور طبقاتی تفریق کو مادرِ وطن کے دفاع کیلئے ایک طرف رکھ دیا گیا تھا ۔ لڑنے والوں کیلئے ، میکرون نے کہا ، ’’ فرانس ہی دُنیا کی ہر خوبصورتی کی علامت تھا ‘‘ ۔ خندوقوں میں موجود سپاہی ، ’’ ہمارا خاندان تھے وہ خاندان جوآج بھی ہمارا ہے ‘‘ جو ایک ’’پاپولر اور بورژوا ‘‘ فرانس بناتا ہے ۔

یہ بیان میکرون کے چند روز قبل کے اس اعلان سے بلکل ہم آہنگ تھاکہ وی شی فرانس کانازی اشتراک کار ڈکٹیٹر فیلپی پیٹائن جس نے لاکھوں یہودیوں اورفاشزم مخالف لوگوں کو قتل کرایا ، ایک ’’عظیم سپاہی ‘‘ تھا ۔

جہاں تک مرکل کا تعلق ہے ، اُ سکی پہلی عالمی جنگ کی ’’ تباکاریوں ‘‘ کی یاد میں یہ التجائیں بھی شامل تھیں کہ جرمنی ایک عظیم طاقت بن کر اپنی ’’تنہائی ‘‘ کو ختم کرے ۔چانسلر نے اعلان کیا : ’’ پہلی عالمی جنگ نے ہمیں یہ سبق دیا کہ دُنیا سے کٹ کر رہنا ہمیں کس قسم کی تباہی سے دو چار کر سکتا ہے ۔ اور اگر سو سال قبل یہ علیحدگی حل نہیں تھی تو آج یہ کیسے ایک حل ہو سکتی ہے ‘‘ ۔

کیا لغو جھوٹ ہے ۔ سالِ اول کے طلباء کی کوئی بھی تاریخ کی کتاب اس کو واضح کر دیتی ہے کہ جنگ جرمنی کی ’’ علیحدگی پسندی ‘‘ کی وجہ سے نہیں ہوئی تھی بلکہ قیصروچانسلر کی اس خواہش کی وجہ سے ہوئی تھی جسے وِل ہیلم دوئم نے ’’ پلیس ان دی سن‘‘(اچھا مقام) قرار دیا تھا ۔ ۔۔۔۔ اپنے مخالفین کو شکست دے کر سامراجی کالونیاں قائم کرناجو مقابلے کے اس میدان میں اُس سے پہلے داخل ہو چکے تھے ۔

ایک عالمگیر جرمن طاقت کا حصول تھا جیسا کہ مرکل کے پیشرؤ ، تھیؤبالڈوان بیتھ من ہالویگ نے ۱۹۱۴ ء میں کہا تھا کہ اُسکی حکومت کا مقصد ’’ یورپ میں جرمن تسلط کی بنیاد رکھنا ‘‘ تھا ۔

اسی نقطہ نظر کو بہت کم تبدیلیوں کے ساتھ ، یہی جذبات وفاقی جمہوریہ کی چانسلری میں موجزن ہیں ، جیسا کہ اس کے بڑے نظریہ سازوں نے بیان کیا ہے ۔ ہمبولٹ یونیورسٹی کے پروفیسر ہرفرائیڈ منکلر کے الفاظ میں ، جرمنی کو ہر صورت یورپ کا ’’نگران‘‘ بننا چاہیے ، سارے براعظم پر اپنی ’’ بھرپور سیاسی اور معاشی قیادت ‘‘ قائم کرتے ہوئے ۔

دریائے رائن کی دوسری طرف ، حکمران طبقات کے جذبات بھی اتنے ہی جنگجوآنہ ہیں ۔میکرون کی تقریر کے کچھ روز بعد ہی ، فرانس کے وزیرخزانہ برونو لے مائیر نے ایک ’’ یورپین سلطنت ‘‘ بنانے کا مطالبہ کیا امریکہ اور چائنہ سے اقتصادی اور عسکری لحاظ سے مقابلے کیلئے ۔ اگرچہ یورپ کے لوگوں کو ، دو عالمگیر جنگوں کے خوفناک تجربات کی بدولت ، سلطنت کے قیام کی ایسی باتیں ’’ غیر دلچسپ لگیں گی۔۔۔۔ لیکن کل کی دنیا میں ، طاقت ہی سب کچھ ہو گی ۔۔۔۔ اوریورپ اپنی طاقت کے استعمال سے مزید گریز نہیں کر سکتا ‘‘ ۔

لے مائیر نے اپنی بات کو ان الفاظ پر ختم کیا ، ’’ہر کوئی جانتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ کی انتظا میہ کا مقابلہ کرنے کیلئے ہمت چاہیے۔۔۔۔یورپ کے لوگ بے معنی باتیں بہت کر چکے ‘‘ ۔

یہ جرمن چانسلر بسمارک کے اس مقولے کا سوچا سمجھا اوربلقصد اظہارِنو ہے کہ قیادت کا تعین ’’ لبرلزم سے نہیں بلکہ طاقت ‘‘ سے ہو گا ، ’’تقریروں‘‘ سے نہیں بلکہ ’’خون اور اسلحے ‘‘ سے ہوگا ۔

ایسے جنگجوآنہ اور بنیادی طور پر فاشسٹ جذبات کا اظہار صرف الفاظ سے نہیں ہوتا بلکہ عمل سے بھی ۔

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ، ڈیموکریٹک حزبِ اختلاف کی معاونت سے جو کہ جمہوریت پر اُسکے حملے کیلئے ربر اسٹمپ کا کام کرتی ہے ، سرد جنگ کے بعد سے عسکری قؤت میں اضافے کی سب سے بڑی تیاری شروع کردی ہے ،روس کے ساتھ انٹر میڈیٹ رینج فورسز نیوکلیر ٹریٹی سے دست بردار ہو کرامریکہ کے نیوکلیئر اسلحے کے ذخیرے میں بہت ذیادہ اضافہ کرتے ہوئے ۔ اُس نے امریکی سرزمین پر 15ہزار فوجیوں کی تعیناتی شروع کردی ہے ، ایگزیکٹو حکمنامے کے ذریعے آئینی ترمیمات کو پسِ پشت ڈالتے ہوئے اور ایسے عقوبت خانو ں کی تعمیر شروع کردی ہے جہاں ہزاروں لوگوں کو رکھا جاسکتا ہے ۔

میکرون نے ، اپنے ملک کی دوبارہ تیزرفتار اسلحہ بندی کا جتن کرتے ہوئے ، ایک ’’یورپین آرمی ‘‘ کی تشکیل کی بھی بھر پور کوشش کی ہے امریکہ اور چائنہ کا مقابلہ کرنے کیلئے ، اور جس کیلئے پیسوں کی فراہمی اخراجات میں کمی جیسی مزدور مخالف پالیسیوں (اسٹیرٹی) سے کی جائیگی جنکا اِجراء اسکی حکومت کر رہی ہے ۔

مرکل ایک بڑی اتحادی حکومت کی قیادت کرہی ہے جسکا کام فوج کو دوبارہ مسلح کرنا اور دنیا بھر میں اپنی طاقت کا اظہار کرنا ہے ۔ وہ بھی ان عقوبت خانوں کی تعمیر کی نگرانی کر ہی ہے جہاں بیچارے مجبور پناہ گزینوں کو رکھا جائیگا ۔ اُسکی حکومت چھُپے ہوئے فاشسٹوں کی آماجگاہ ہے ، جسکی مثال حال ہی میں برطرف شُدہ خفیہ ایجنسی کے سربراہ کی ہے ، ہینز جارج میسن ،جس نے اُن نیو نازی بلوائیوں کا دفاع کیاجنہوں نے یہودیوں اور بیرونِ ملک سے آئے لوگوں پر حملے کیئے ۔

نیوفاشسٹ الٹرنیٹیوفارجرمنی (اے ایف ڈی) کے ساتھ اشتراک کاری کرتے ہوئے ، میسن نے ایک رپورٹ تحریر کی جس میں سرمایہ داری کے مخالف لوگوں کو ، بشمولِ سوشلسٹ ایکوئیلیٹی پارٹی کے ، بطور ’’انتہاپسندبائیں بازو ‘‘ کے ذِ یرنگرانی رکھا گیا تھا ۔ ذہریلے سانپوں کے رہنے کی جگہ جو ملٹری یا انٹیلی جنس کا شعبہ ہے کے حالیہ انکشاف کے مطابق ، ہفتہ وارا خبار فوکس میگزین نے رپورٹ کیا ہے کہ آرمی کی اپنی اندرونی تحقیقات میں بائیں بازو کے سیاستدانوں کو گرفتار کرنے اور قتل کرنے کی ایک بہت بڑی سازش کاپتہ لگایا گیاہے جس میں دو سو کے قریب ملٹری اہلکار ملوث تھے ۔

بڑی طاقتوں کی جانب سے فوجی لڑائی کی حالیہ مہم کی جڑیں سرمایہ داری کے بنیاد ی تضادات میں ہیں۔۔۔۔دنیا کی معیشت اورفرسودہ قومی ریاستوں کے نظام کے درمیان ، اورسماجی پیداوار اور ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت کے درمیان ۔۔۔۔ جو بیسویں صدی میں دو عالمی جنگوں کا سبب بنے ۔

بڑے سامراجی ممالک کے اندر جوسیاسی اور معاشی جھگڑے پائے جاتے ہیں وہ بھی اس مہم کو ایندہن فراہم کرتے ہیں ۔ میکرون ، ٹرمپ اور مرکل کی حکومتوں کو مالی طور پر بدعنوان اُمراء کی براہِ راست آلٰہء کار جانتے ہوئے اُن سے عمومی طورپر نفرت کی جاتی ہے ۔ یہ ریاستیں جنگ کو نہ صرف اپنے مخالفین کے خلاف پولیس اسٹیٹ جیسے تشدد کے بہانے کے طور پر دیکھتی ہیں، بلکہ انتہائی دائیں بازو کی قؤتوں کوپروان چڑہانے کیلئے بھی تاکہ اُن کی عسکریت پسندی اور اخراجات میں کمی جیسی پالیسیوں کیلئے حمایتی حلقے دستیاب ہوسکیں اور مزدور طبقے کی بڑھتی ہوئی جدوجہدکو دبانے اور اس کیخلاف فوج کو استعمال کرنے کیلئے ۔

جیساکہ ورلڈسوشلسٹ ویب سائیٹ کے ایڈیٹوریل بورڈ کے چیئرمین ڈیوڈ نارتھ نے کہا ہے کہ ہم ’’نامکمل بیسویں صدی ‘‘ میں رہتے ہیں ۔ وہ تمام عفر یت جنہوں نے پچھلی صدی کو بربادکیا ہماری اس صدی کو خراب کرنے کیلئے واپس آگئے ہیں ۔ لیکن اسکا مطلب ہے کہ انسانیت کو درپیش مشکل اب بھی وہی ہے ۔پہلی عالمی جنگ میں جو خون بہایا گیا اُسکے نتیجے میں روس اور جرمنی میں انقلاب آئے ۔ لیکن دونوں کا گلاگھونٹ دیا گیا ۔ جرمنی میں فریڈرک ایبرٹ کی فوج کی گولیوں سے تو ایسے جلد ہو گیا ۔ روس میں یہ عمل سست رو تھا ،سٹالنزم کی جیت کے ساتھ یہ عمل یوایس ا یس آر کی تحلیل پر ختم ہوا ۔ یہ ان انقلابات کی ناکامی ہے جو جنگ کے عفریت کو واپس لے آئی ہے۔

اس عالمگیر جنگ کاجواب ، تب کی طرح اب بھی، بین الاقوامی مزدور طبقہ ہے ، جو سوشلسٹ بین الاقوامیت کے پروگرام سے مسلح ہے ۔ یہ اس بڑی اور طاقتور سماجی قؤت کا خوف ہے جو بورژوا کو جنگ اورڈکٹیٹرشپ کی طرف لے جاتا ہے ، اور یہ وہ سماجی قؤت ہے جس کو حرکت میں لانا ضروری ہے تاکہ سامراجی وحشت وبربریت کی واپسی کو روکا جا سکے ۔

Loading