اُردُو
Perspective

واشنگٹن کی سنسر شپ کی حکومت گلوبل ہورہی ہے

فیس بک کا ڈبلیو ایس ڈبلیوایس کی سری لنکاہ پر پوسٹ کا ڈیلیٹ کر دینا :۔

سوموار کے روز ، فیس بک نے سری لنکاہ سے متعلق ورلڈ سوشلسٹ ویب سائیٹ کے آفیشیل تامل زبان کے فیس بک پیج سے ایک تحریر ہٹا دی ۔ مبینہ وجہ فیس بک کی ’’ کمیو نٹی اسٹینڈرڈ ‘‘ کی غیر واضح پابندیوں کی خلاف ورزی تھی ، جو بلکل کوئی وجہ نہیں ہے ۔

تامل زبان ، جسے ۷۴ ملیئن لوگ بولتے ہیں ، یہ سری لنکاہ اور انڈیا میں تامل نسلی اقلیت کی زبان ہے ، اور دُنیا بھر میں رہنے والے تامل لوگ یہی زبان بولتے ہیں ۔

یہ بلکل تازہ حرکت ہے ، ٹیکنالوجی پر امریکی اجارہ داریوں جیسا کہ گوگل ، فیس بک اور ٹوئیٹر کی جانب سے بائیں بازو ، جنگ مخالف اور سوشلسٹ تنظیموں کے خلاف ۔ جتناذیادہ یہ کمپنیاں خود کو امریکی ریاستی جبر کے ساتھ جوڑتی چلی جارہی ہیں ، اُتنا ہی اُ ن کو امریکی سامراجی عزائم کو پروان چڑھانے کیلئے استعمال کیا جارہا ہے ۔

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ فیس بک نے ورلڈ سوشلسٹ ویب سائیٹ کے تامل زبان کے فیس بک پیج کو نشانہ بنایا ہے ۔ دو مختلف موقعوں پر ، فیس بک نے اس صفحے کی جانب سے جن عوامی اجتماعات کی ترویج کی گئی تھی اُن کو ’’ شیئر ‘‘ کرنے کے اختیار کو ختم کر دیا تھا ۔

ورلڈ سوشلسٹ ویب سائیٹ اکثر انٹرنیٹ کی سنسرشپ کا نشانہ رہی ہے ، اور اسکی سرچ ٹریفک میں ۷۵ فیصد کمی آگئی جب گوگل نے اسکے سرچ لوگریتھم میں تبدیلی کا اعلان کیا جسکا مقصد ’’ متبادل خیالات ‘‘ کو محدود کرنا تھا ۔

سری لنکاہ میں گہرے ہوتے سیاسی بحران کے دوران ، امریکہ ایک جزیرے پر قائم اس ملک میں جو برصغیر ہند کے جنوبی ساحل سے ذرا ہٹ کے واقع ہے ، چائنہ کے اثر کو ختم کرنے کی کوشش کر رہا ہے ۔ ۲۱ ملئین لوگو ں کا یہ ملک دُنیا کے سب سے مصروف تجارتی راستے جہاں سے مغرب کو جانیوالی ٹریفک گزرتی ہے کے درمیان واقع ہے اور اسکی بندرگاہ کسی بھی امریکی بندرگاہ سے ذیادہ مصروف رہتی ہے ۔

۲۶ اکتوبر کو ،سری لنکاہ کے صدر مائیتھری پالا سریسینا نے رانیل وکرمہ سنگھے کو وزیراعظم کے عہدے سے ہٹا دیااور اسکی جگہ پر سابقہ صدر مہندرا راجہ پاکسے کو تعینات کر دیا ۔ واشنگٹن نے یہ واضح کر دیا ہے کہ راجہ پاکسے کی تعیناتی ناقابلِ قبول ہے ، اُنکے نیو یارک ٹائمز کے الفاظ کے مطابق ’’چائنہ سے بیحد قریبی تعلقات کی وجہ سے ‘‘ ۔

سری لنکاہ کی جدید تاریخ میں حکمران طبقے کے تمام دھڑوں کی جانب سے ملک کی سنہالی اکثریت او ر اسکی تامل اقلیت کے درمیان تفرقات کو بڑھانے کیلئے فرقہ وارانہ سیاست کے استعمال کا غلبہ رہا ہے ۔ کولمبو کی مختلف حکومتوں کی جانب سے تامل مخالف امتیازی سلوک نے اس کشیدگی کو ایندھن فراہم کیا جو ۱۹۸۳ سے ۲۰۰۹ تک لڑی جانیوالی خانہ جنگی کی صورت میں پھٹ پڑی ، جس میں ۰۰۰،۱۰۰ سے ذائد جانیں ضائع ہوئیں ۔

جبکہ ملک کی ہر سیاسی جماعت نے خود کو ایک یا دوسرے نسلی دھڑے پر قائم کرنے کی کوشش کی ہے ، سری لنکاہ کی ٹراٹسکیسٹ تحریک نے سنہالی اور تامل مزدوروں کوایک مشتر کہ سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر اکٹھا کرنے کیلئے عشروں پر محیط ایک سیاسی لڑائی لڑی ہے ۔ اس جدوجہد کی وجہ سے سری لنکاہ کی سوشلسٹ ایکوئیلیٹی پارٹی کووسیع تر حمایت حاصل ہوئی ہے ۔ اور سری لنکاہ میں ورلڈ سوشلسٹ ویب سائیٹ کے پڑھنے والوں کی تعداد دُنیا بھر میں سب سے ذیادہ ہے ۔

ڈبلیو ایس ڈبلیوایس نے متنبہ کیا ہے کہ ۲۰۰۹ ء میں علیحدگی پسند تامل ٹائیگرز آف تامل ایلام کے وحشیانہ خاتمے کے بعد سے ، تامل قوم پرست جماعتوں نے ملک میں امریکی سامراجی مفادات کے ساتھ ذیادہ براہِ راست گٹھ جوڑ کرلیا ہے ۔ جس مضمون کو فیس بک نے سنسر کیا ہے وہ اس بات کی توضیح کرتا ہے کہ تامل نیشنل الائنس (ٹی این اے ) نے راجہ پاکسے کی تعیناتی کی مخالفت اپنے امریکی اتحادیوں کی ہمدردی حاصل کرنے کیلئے کی ہے ۔ وہ کہتا ہے : ’’ ٹی این اے کا وکرِمہ سنگھے کی حمایت کے فیصلے کا جمہوریت کے دفاع سے کوئی تعلق نہیں ہے ۔ بلکہ ، یہ تنظیم سامراج نوازی کے اُسی راستے پر چل رہی ہے جسکی وجہ سے اُس نے امریکہ کی معاونت سے حکومت کی تبدیلی کے عمل کی حمایت کی جس کی وجہ سے سری سینا اور وکرمہ سنگھے کو 2015 ء میں اقتدار ملا ۔ اس کاروائی کا مقصدکولمبو میں امریکہ نواز حکومت کو اقتدارمیں لانا تھاجو چائنہ کے خلاف واشنگٹن کی جنگی تیاریوں کے ساتھ ہو ‘‘ ۔

اس مضمون میں ’’ سری لنکاہ کی تمام نسلی اکائیوں کے مزدوروں کے درمیان ‘‘ پھیلتی ہوئی ہڑتالی تحریک کا ذکر کیا گیا تھا ، اور وکرمہ سنگھے کی حکومت کی برخاستگی سے قبل کے دنوں میں ہونیوالے چائے کے باغات میں کام کرنے والے مزدوروں کے احتجاج کا بھی ۔ اس مضمون میں دلائل دئیے گئے تھے کہ ’’ آگے بڑھنے کا واحد راستہ اُس جدوجہد کی بنیاد پر ہے جوتمام قومیتوں کے مزدوروں کو ایک سوشلسٹ اورانقلابی نقطہ نظر پر متحد کرنے کیلئے ( سوشلسٹ ایکوئیلیٹی پارٹی )کر رہی ہے ‘‘ ۔

اگرچہ فیس بک نے اس مضمون کو ہٹانے کی کوئی وضاحت نہیں دی ہے ، اسکے محرکات بلکل واضح ہیں ۔ نہ صرف یہ کہ اس کمپنی کا امریکی خفیہ اداروں کے ساتھ تعلق بڑھتا جا رہا ہے ، بلکہ اس میں خفیہ اداروں کے موجودہ اور سابقہ اہلکاروں کو ذیادہ سے ذیادہ بھرتی بھی کیا جا رہا ہے ۔ یہ ریاستی ادارے عالمی سوشلزم میں عوام کی بڑھتی ہوئی دلچسپی کوترقی پزیر ممالک میں امریکی سامراج کے جیو پو لیٹکل مقاصد کو آگے بڑھانے کیلئے نسلی اختلافات کے استحصال کی اپنی کوششوں میں ایک رکاوٹ سمجھتے ہیں ۔

اس میں کوئی شُبہ نہیں ہو سکتا کہ گزشتہ ماہ ڈبلیوایس ڈبلیوایس کے ادارتی بورڈ کے سربراہ ڈیوڈنارتھ کا سری لنکاہ کا تقریری دورہ ، جسے ملک کے بڑے میڈیا اداروں نے اپنے پرائم ٹائم میں دکھایا ، اور جسے مزدوروں نے بڑی توجہ سے دیکھا ، واشنگٹن میں شرمندگی کا باعث بنا ہے ۔

فیس بک کا یہ عمل مغربی پریس میں بڑھتے ہوئے اس مطالبے کے درمیان آیا ہے کہ سوشل میڈیا کے بڑے ادارے ترقی پزیر ممالک میں سیاسی سنسر شپ قائم کریں ، جن میں سری لنکاہ کا بلخصوص ذکر کیا گیا ہے ۔

اس مہم میں بڑا کردار نیویارک ٹائمز نے ادا کیا ہے ، جس نے مضامین کا ایک سلسلہ شائع کیا ہے جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ ترقی پزیر ممالک بشمولِ سری لنکاہ میں انٹرنیٹ پر آ ذادئ اظہار فرقہ وارانہ تشدد کا باعث ہے ۔

ٹائمز نے 21 اپریل کے صفحہ اول پر ایک تحریر میں شکایت کی ہے کہ ’’ فیس بک کے ترقی پزیر ممالک میں اپنے تیزی سے پھیلاؤ ‘‘ کے دوران یہ کمپنی ’’ ہر اس مواد کو پیش کرتی جو دیر تک صارف کو اس سائیٹ پر مصروف رکھے ۔۔۔۔کمزور اداروں والے ممالک میں یہ ایک خطرناک حرکت ہے ‘‘ ۔

ایک تحریر میں جو صرف اورصرف سری لنکاہ سے متعلق ہے ، ’’کمزور اداروں والے ممالک ‘‘ کے حوالہ کے معنٰی سابقہ کالونی ہے ۔

ٹائمز حقیقت میں یہ کہہ رہا ہے کہ اگر ایسے ممالک میں فیس بک آذادئ اظہار پر پابندی عائد نہ کرے ، تو یہاں کے لوگ ، جو اسکے بقول خود پر قابو نہیں رکھتے ، فرقہ وارانہ نفرت کے ہاتھوں ایک دوسرے کاقتلِ عام کر دینگے ۔ ٹائمز ، امریکی خفیہ اداروں کے ’’ خاموش امریکیؤں ‘‘ کی طرف سے بولتے ہوئے ، دعویٰ کرتا ہے کہ ترقی پزیر ممالک کے لوگوں کو خاموش کر دینا چاہیے اور امریکن کارپوریشنز اُن کو یہ بتائیں کہ وہ ایسا کیا سوچیں جو اُنہیں جرائم کرنے سے روکے ۔ ایسی تاویلیں کھلم کھلا نسل پرستی کے قریب ہیں : ’’ سفید فام کی ذمہ داری ‘‘ کی اکیسویں صدی کی دُہائی ۔ اس نئے سامراجی کوڑاکرکٹ کیلئے مناسب جواب اسکے کرائے کے لکھاریوں کیلئے جو یہ سب لکھتے ہیں حقارت ہے ۔

جب گزشتہ ماہ سری لنکاہ کی سری سینا حکومت نے فیس بک ، وٹس ایپ اور انسٹاگرام کو عارضی طور پر بند کیا تو ٹائمز نے یہ کہتے ہوئے اس عمل کی تعریف کی کہ ’’ بلوائیوں کے تشدد سے اسکی مسلم اقلیت کو بچانے کیلئے ‘‘ یہ ضروری تھا ۔ یہ ایک اور جھوٹ ہے ، جس میں سری لنکن حکومت کی اپنی مطلب براری کیلئے سنسر شپ کا جواز فراہم کرنے کی گونج سنائی دیتی ہے ۔

سری سینا حکومت کا فیس بک کو بند کرنے کا مقصد نسلی تشدد کی روک تھام نہ تھا ، بلکہ اس کو چھپانے کیلئے تھا ۔ سری لنکاہ کی حکومت تشدد سے متاثرہ علاقوں میں سوشل میڈیا کو بند کرنا چاہتی تھی جسکا بڑا مقصد ان واقعات میں امریکی حمایت یافتہ حکومت کی پولیس اور مسلح افواج کے ملوث ہونے کی اطلاعات کو روکنا تھا ۔

فسطائی بلوائیوں کے ساتھ پولیس اور فوج کی مشہور زمانہ ملی بھگت سوشلسٹ ایکوئیلیٹی پارٹی کے ۱۰مارچ کے جاری کردہ بیان کا مرکزی نکتہ تھا ، ’’سری لنکاہ میں مسلم لوگوں کے خلاف سنہالی نسلی تشدد کی مخالفت کرو ‘‘ ۔ اس بیان میں کہا گیا تھا :

’’سینئر حکومتی وزیر سارتھ امونوگما ، بدھ کے روز یہ تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا تھا کہ بلوائیوں کو دوسرے علاقوں سے لایا گیا تھا اوریہ کی اس میں ریٹائیرڈ اور حاضر سروس سیکیوریٹی اہلکاروں کے ملوث ہونے کے ثبوت بھی موجود تھے ۔ سوشل میڈیا پر لگائی جانیوالی ویڈیوز اور تصاویر میں یہ دکھایا گیا تھا کہ اسپیشل پولیس ٹاسک فورس(ایس ٹی ایف) کے اہلکار تماشہ دیکھ رہے تھے جب بلوائی دکانوں اور گھروں پر حملے کرہے تھے‘‘ ۔

واحد نظریہ جو فرقہ واریت کی مخالفت اورہر قومیت کے مزدوروں کو متحد کرنے کا اہل ہے وہ عالمی سوشلزم کا ہے ۔ یہ وہی نظریہ ہے جس کو دبانے پر فیس بک ،گو گل ا ورٹیکنالوجی کی دیگر بڑی کمپنیاں بہ ضد ہیں کیونکہ یہ امریکی سامراج کی واشنگٹن کے عالمگیر تسلط کو مزید مظبوط بنانے کی فرقہ ورانہ استحصال کی کوششوں کو بیکار کر دیتا ہے ۔

ریاستی سنسر شپ کی ان کوششوں کی بھر پور مخالفت کی جانی چاہیے ! ورلڈ سوشلسٹ ویب سائیٹ اپنے پڑھنے والوں سے یہ مطالبہ کرتی ہے کہ وہ انٹرنیٹ سنسر شپ کے خلاف امریکہ میں ، سری لنکاہ میں اورساری دُنیا میں جدوجہد کریں !

Loading