اُردُو

پاکستان: فرقہ وارانہ حملے میں ہلاک گیارہ کانکنوں کی ہفتہ بھر کے احتجاج کے بعد تدفین

پاکستان کی ہزارہ شیعہ اقلیت کے گیارہ کانکنوں کو ایک فرقہ وارانہ حملے میں بیدردی سے ہلاک کر دیا گیا، یہ افسوسناک واقعہ جنور ی کی تین تاریخ کو اتوار کے روز پیش آیا۔

اس مظلوم اقلیت کے خلاف اس تازہ ترین ظلم کے ردعمل میں کوئٹہ اور کراچی میں احتجاج ہوا، جبکہ کانکنوں کے اہل خانہ نے پورے ایک ہفتہ تک انکی تدفین کو روکے رکھا۔ انکا مطالبہ تھا کہ وذیراعظم عمران خان ان سے ملیں تاکہ اس بے اعتنائی کا خاتمہ ہو سکے جو کہ ہزارہ کمیونٹی کے خلاف جاری تشدد کے واقعات کے حوالے سے ناکافی حکومتی اقدامات سے ظاہر ہوتی ہے۔

غم وغصے کے دبے ہوئے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے، ہزارہ مظاہرین نے چوبیس گھنٹوں کے اندر تدفین کی مسلم روایت کے برعکس کانکنوں کے تابوت قومی شاہراہ پر رکھ دیئے۔ شدید سردی میں ہفتہ بھر کے احتجاج کے بعد، بروزہفتہ انکی تدفین کی گئی جب وزیر اعظم عمران خان نے ان سے ملنے پر آمادگی ظاہر کی۔

یہ بہیمانہ ظلم مچ میں ہوا، جو صوبائی دارالحکومت کو ئٹہ کے جنوب مشرق میں پینسٹھ کلو میٹر کے فاصلے پر کانکنی کا ایک قصبہ کا ہے۔

تین جنوری کو صبح سویرے، حملہ آوروں نے کوئلے کی کان کے قریب ایک کمرے میں سوئے مزدوروں کو جگایا، ان میں شیعہ ہزارہ مزدوروں کی باقائدہ شناخت کرکے ان کو دوسروں سے علیحدہ کیا، آنکھوں پر پٹی باندھ کر انکے ہاتھ پاؤں باندھ دیئے، ان کے گلے کاٹے اور ان پر گولیاں برسائیں۔ ان میں چھ تو موقع پر دم توڑ گئے اور باقی ماندہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے مقامی ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی ہلاک ہوگئے۔

داعش نے اس حملے کی ذمہ داری قبول کی ہے، جس کا مقصد اہل تشیع ہزارہ کمیونٹی کو دہشت زدہ کرنا اور پاکستان کی دیگر اقلیتوں کو ڈرانا ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ داعش اس حملے کی اکیلی مجرم نہیں ہے۔ فرقہ وارانہ حملے پاکستان کا ایک ایسا معمول ہے جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہوچکے ہیں بشمول خواتین اور بچوں کے۔ یہ در اصل طویل عرصے سے ملک کی ضمیر فروش اشرافیہ کے ہاتھوں فرقہ وارانہ منافرت اور مذہبی رجعت پرستی کو باقائدہ پھیلانے کا نتیجہ ہے۔ مزید برآں، پاکستان کا امریکہ کے ساتھ جو گٹھ جوڑ ہے یہ پوری طرح اس جڑاہوا ہے۔

ہزارہ پاکستان اور افغانستان دونوں جگہ ایک مفلوک الحال اور مظلوم اقلیت ہے۔ بلوچستان میں، بار بار کے خوفناک حملوں کی بدولت یہ کوئٹہ کے دو علاقوں میں محصور ہیں۔

کانکنوں کے قتل عام پر اسلام آباد کی سیاسی سٹبلشمنٹ کی جانب سے اسلامی دہشت گردی کی معمول کی مذمت تو یقیناہونا ہی تھی۔عمران خان نے اپنے ٹوئٹر میسج میں اسکی مذمت کی اوراسے ”غیر انسانی اوربزدلانہ دہشت گردی کی ایک اور کاروائی قرار دیا“۔ بلوچستان کے وزیراعلیٰ جام کمال کواس وقت غصے بھری شکایات کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے ایک مختصر میسج میں جس میں الفاظ کا استعمال درست نہ تھااس واقعے کی مذمت تو کی لیکن ہزارہ کو تحفظ فراہم کرنے کی حکومتی ذمہ داری کی ناکامی تسلیم کرنے سے انکار کردیا۔جس پر کئی لوگوں نے ان سے استعفیٰ کا مطالبہ کیا۔

جمعہ کے روز جب مظاہرین ابھی تک سڑک پر دھرنا دئیے ہوئے تھے اور تدفین ابھی نہیں ہوئی تھی، عمران خان نے تنک مزاجی سے خبردار کیا کہ مظاہرین انہیں بلیک میل نہ کریں۔

عمران خان کے متکبرانہ الفاظ کا جواب دیتے ہوئے، آمنہ بی بی، جس کے دو بیٹے اور ایک بھائی اس حملے میں ہلاک ہوئے، نے الجزیرہ کو بتایا، ”ہم تو صرف یہ چاہتے ہیں کہ وہ آئیں اورہمارے شہداء کو دیکھیں تاکہ انہیں اندازہ ہو کہ ہر سال ہمارے شہداء کی تعداد میں اضافہ ہوجاتا ہے، صرف اس وجہ سے ہم چاہتے ہیں کہ وہ آئیں، ہم نے انکو ووٹ دئیے ہیں، یہ ہمارا حق ہے“۔

ہفتہ کے روزجب عمران خان کوئٹہ پہنچے، مقتولین کے اہل خانہ اور ہزارہ برادری کے رہنماؤں نے ان کے سامنے اپنی مشکلات بیان کیں کہ وہ کس طرح مسلسل حملوں کی زد میں رہتے ہیں۔ عمران خان نے ان کو یقین دلایا کہ آئندہ ایسانہ ہوگا۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ انکی حکومت متاثرہ خاندانوں کی ”دیکھ بھال“ کریگی اور ہزارہ برادری کو تحفظ فراہم کریگی۔

ماضی میں بھی ایسے حملوں کے ذمہ دار افراد کے خلاف کوئی کاروائی نہیں ہوئی۔ اس حملے کے بعد بھی کسی کو گرفتار نہیں کیا گیا۔ مئی 2018میں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے کوئٹہ میں ہزارہ کمیونٹی کی سیکیوریٹی بڑھانے کا وعدہ کیا تھا۔ باجوہ اس مسلسل پانچ روزہ احتجاج کی ناراضگی دور کرنے کی کوشش کر رہے تھے جو ہزارہ کی ٹارگٹ کلنگ کے ایک سلسلے کے بعد ہواتھا۔ تاہم نہ ٹارگٹ کلنگ کا خاتمہ ہو سکا اور نہ اس وسیع پیمانے کے قتل عام کا۔مثال کے طور پراپریل 2019 میں، ایک بم دھماکے میں جس میں ہزارہ کمیونٹی کو نشانہ بنایا گیا تھابیس افراد ہلاک ہوئے اور پچاس کے قریب زخمی۔

پاکستان کی اپوزیشن کی دو بڑی جماعتوں، پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون، کے لیڈروں نے بھی صرف رسمی مذمت ہی کی۔ انہوں نے عمران خان کے ”بلیک میل“ والے الفاظ کو پکڑ کر اپنا سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش کی اور دعویٰ کر دیا کہ اگر انکی حکومت ہوتی تو حالات مختلف ہوتے۔ حقیقت یہ ہے، کہ پاکستان پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ پاکستان کی بورژوازی کی پُرانی نمائندہ جماعتیں ہیں، اورعمران خان کی تحریک انصاف کے 2018 میں اقتدار میں آنے سے قبل یہ کئی مرتبہ حکومت میں رہ چکی ہیں۔ فرقہ پرست قوتوں کے ساتھ الحاق اور جانبداری کی انکی طویل تاریخ ہے اور فوج اور واشنگٹن کے درمیان تعلقات کے یہ لوگ بڑے کٹر حمایتی ہیں، اور یوں یہ ملک میں ہزارہ اور دیگر اقلیتوں کی حالت زار کے پوری طرح ذمہ دار ہیں۔

پاکستان کے ہیومن رائٹس کمیشن کی 2018 کی ایک رپوٹ کے مطابق جنوری 2012 اور دسمبر 2017 کے درمیان فرقہ ورانہ حملوں میں 509 ہزارہ افراد کو قتل کیا گیاجبکہ دیگر 627 افراد زخمی ہوئے۔ مسلم لیگ نون اور پیپلز پارٹی کو ہزارہ کمیو نٹی کی جوتازہ محبت جاگی ہے اسکا واحد مقصد عمران خان کو اقتدار سے ہٹانا اور نئے انتخابات کا انعقاد ہے۔

عمران خان خود دائیں بازو کا اسلامسٹ ہے۔ وہ توہین مذہب کے قانون اورکئی لاکھ افراد پر مشتمل احمدی اقلیت کو انکے مساوی شہری حقوق سے محروم کرنے والے قوانین کا بھی حامی ہے۔ اقتدار میں آنے کے کچھ عرصہ بعد، اسکی حکومت تحریک لبیک پاکستان کے سامنے جھک گئی جن کا مطالبہ تھاکہ ایک غریب عیسائی خاتون آسیہ بی بی کو توہین مذہب کے نام پر دی جانیوالی موت کی سزاسے بریت کو کالعدم قرار دیا جائے، حکومت نے ملک کی سب سے بڑی عدالت میں اس بریت کے خلاف اپیل دائر کر دی۔

تحریک لبیک پاکستان نے، فوج کی درپردہ حمایت سے،مسلم لیگ نون کی سابقہ حکومت کے وزیر قانون ذاہد حامد سے بڑی کامیابی سے استعفیٰ حاصل کیاجب اس نے انتخاب میں حصہ لینے والے افراد کے مذہبی حلف کو بدلنے کی کوشش کی۔

بلوچستان پر تو عملاً فوج کی حکومت ہے جس کا مقصد علیحدگی پسند بلوچ مزاحمت کاروں کی سرکوبی ہے۔ اس حکمرانی کی جو بھی مخالفت کرتا ہے اسکا انجام جبری گمشدگی،تشدد اور ماورائے عدالت قتل کی صورت میں ہوتا ہے۔

ایک معین قبطی روایت کا اتباع کرتے، ریاست ہزارہ کی نسل کشی سے چشم پوشی کر رہی ہے جب تک یہ خونی گروہ بلوچ بغاوت کے خلاف بھی سرگرم رہیں جسکا آغاز مشرف حکومت میں ہوا“۔

ڈان کو مجبوراً ہزارہ اہل تشیع کی جانب اسلام آباد کی مجرمانہ غفلت اور اسکی اتنی ہی مجرمانہ سیکیوریٹی پالیسیوں کا زکر تو کرنا پڑا، تاہم ملک میں فرقہ وارانہ تشدد کے پھیلاؤ کی اسلام آباد پر جو بنیادی ذمہ داری عائد ہوتی ہے اس پر پردہ ڈال دیا۔ فرقہ واریت کا یہ پھیلاؤ دراصل اسکے امریکہ کے ساتھ رجعت پرستانہ تعلقات کا نتیجہ ہے۔

اتوار کے روز، عمران خان نے کانکنوں پر حملے کی ذمہ داری کوپاکستان کی اشرافیہ کی اسلامی رجعت پرستی اورفرقہ واریت کی ترویج سے ہٹانے کی کوشش کرتے ہوئے پاکستان کے بڑے حریف انڈیا پر الزام عائد کردیا۔ واشنگٹن کے ساتھ اپنے بڑھتے عالمی تزویراتی تعلقات سے شہ پاکر، نیو دہلی نے حالیہ برسوں میں پاکستان پر اپنے عسکری دباؤ میں اضافہ کر دیا ہے،جن میں پاکستان کے اندر دو مرتبہ بلااشتعال سرجیکل سٹرائیک بھی شامل ہے۔

عمران خان نے کہا ہے کے انکی حکومت اور ریاست کے سیکیوریٹی اداروں کی رائے یہی ہے کہ داعش کی اسلامی ریاست کو انڈیا کی سپورٹ حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ پچھلے مارچ میں انکو یہ خفیہ اطلاعات مل چکی تھیں کہ انڈیا پاکستان میں فرقہ واریت کو ہوا دے رہا ہے۔

پاکستانی بورژوا نے ہمیشہ اپنے مالی مفادات اورعلاقائی اثرورسوخ کی خاطرسامراجی مفادات کی نوکری کی ہے،اسکے ساتھ ساتھ مذہبی بنیاد پرستی اور فرقہ واریت کوپروان چڑھایا ہے تاکہ مزدوروں اور محنت کشوں کی بنیادی ضروریات کی فراہمی میں اسکی ناکامی پر عوامی غیض وغضب کو رجعتی راستوں پر ڈال دیاجائے۔ اس سلسلے کی جڑیں جنوبی ایشیا کی فرقہ وارانہ بنیادوں پر تقسیم اور پاکستان کے بطور ایک مسلم تشخص کی ریاست کی 1947 میں تخلیق میں پیوستہ ہیں۔

1977 میں امریکی حمایت یافتہ آمر ضیاء الحق کے اقتدار میں آنے سے حالات کارخ یکسر بدل گیا، کیونکہ اس نے بڑی تیزی سے اپنی اسلامائیزیشن کی پالیسی کے تحت سیاست کو دائیں بازو کی طرف موڑ دیا، اور امریکہ کی ہدایت پر افغانستان میں مجاہدین کو سیاسی اور عسکری معاونت فراہم کی۔ دائیں طرف کا یہ رجحان اس بنیاد پر استوار ہو جو ذو ا لفقارعلی بھٹوکی پیپلز پارٹی کی حکومت نے رکھی۔ اس کے 1973 کے آئین نے مذہبی دائیں بازو کو بہت ذیادہ مراعات دیں، جیساکہ قادیانیوں کو غیر مسلم قرار دینا، جمعہ کے دن کی عام تعطیل، اور شراب پر پابندی۔

امریکی سامراج کے ایک ادنیٰ آلہء کار کے طور پر، ضیاء نے پاکستان کو واشنگٹن اور ریاض کی ان کوششوں کا مرکز بنادیا جن کا مقصد مجاہدین کی تربیت اور اسلحہ کی فراہمی تھا تاکہ وہ افغانستان میں روسی حمایت یافتہ حکومت کے خلاف لڑ سکیں۔ اسکے نتیجے میں نہ صرف القائدہ اور طالبان پیدا ہوئے، بلکہ پاکستان کے اندر بھی،اسلام آباد کی سرپرستی میں، بنیاد پرست گروہ اور انکی عسکری تنظیمیں وجود میں آئیں، جن کو بعد اذاں اسنے اپنے علاقائی سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کیا اور ملک کے اندر سیاست کو اور بھی ذیادہ دائیں بازوکی جانب دھکیل دیا۔ یہ اسلام پرست گروہ مزدوروں کی پرائیویٹایزیشن کی مخالفت اور دیگر معاشی اصلاحات کی راہ میں رکاوٹ بنے، اور خواتین کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے اور اقلیت مخالف توہین مذہب کے قوانین کو منظور کرانے کیلئے بھی انہی کو بروئے کار لایا گیا۔

اکتوبر 2001 میں شروع ہونے والے امریکہ کے افغانستان پر حملے اور قبضے، اور اسکے ساتھ پاکستان کے نیم خودمختارعلاقے فاٹا میں فوجی آپریشن نے فرقہ واریت کی آگ کو بھڑکا دیا۔ افغانستان میں امریکہ اور اسکے اتحادیوں کی طرز پہ، پاکستانی ریاست نے بھی طالبان کے حامی عناصر کو کچلنے کیلئے کارپٹ بامنگ،نوآبادیاتی طرز کی اجتماعی سزائیں، اغوا اور ماورائے عدالت ہلاکتوں کا طریقہ استعمال کیا، جبکہ امریکی افواج فاٹا میں ڈرون حملوں سے لوگوں کو دہشت ذدہ کرتی رہیں۔

اسلامی بنیاد پرستوں نے اقلیتوں کو نشانہ بنا کر اپنا بدلہ لیابالخصوص اہل تشیع ہزارہ اور عیسائیوں کو۔ ان جنگوں کے نتیجے میں فاٹا میں تحریک طالبان پاکستان بنی، جو آج بھی فوج کے خلا ف لڑ رہی ہے۔ اس نے اقلیتوں پر کچھ خوفناک ترین حملے کئے ہیں۔

بلوچستان میں فرقہ وارانہ تشدد میں اسوقت نمایاں اضافہ ہوا جب ساٹھ ارب امریکی ڈالر کی لاگت والے چائنہ پاکستان اکنامک کوریڈور کے آغاذ سے اسکی جغرافیائی سٹریٹجک اہمیت بہت بڑھ گئی، بحیرۂ عرب پر واقع گوادر کی بندرگاہ جسکا محور ہے۔ بلوچ قوم پرست جنگجو، جو اپنی علیحدہ رجعتی قوم پرست ریاست کے قیام کیلئے امریکی سامراج اور انڈین بورژواکی حمایت کے طلبگار ہیں، وہ بھی پشتون مزدوروں اور بلوچستان کے غیر بلوچ آبادکاروں پر حملوں میں ملوث ہیں۔

مقتول ہزارہ مزدور بلوچستان کے دیگر لاکھوں مزدوروں اور کانکنوں کی طرح شدید محنت مشقت کرتے تھے۔ صرف مچ میں کانوں میں کام کرنے والے دس سے بیس ہزار مزدور رہتے ہیں، جن میں کئی کم عمر بچے ہیں جو شدید غربت کے ہاتھوں کانوں میں کام کرنے پر مجبور ہیں۔ فروری 2020 کی گارڈئین اخبار کی رپورٹ کے مطابق، ایک نوجوان مزدور تقریباً سات امریکی ڈالر یومیہ کماتا ہے جبکہ بچوں کوصرف ڈھائی امریکی ڈالر یومیہ ملتے ہیں۔ کانوں میں مزدوروں کی حفاظت کا بھی کوئی خاطرخواہ انتظام نہیں ہوتا۔ پاکستان میں سالانہ ایک سو سے دو سو کے درمیان مزدور کانوں میں ہونے والے حادثات کا شکار ہو جاتے ہیں۔

Loading