اُردُو

کوویڈ 19 وبا پر مزدوروں کی عالمی تفتیش

ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کوویڈ 19 وبا پر مزدوروں کی عالمی تفتیش کا قدم اٹھا رہی ہے۔
سائنس دانوں کی تحقیق، صحت عامہ کے ماہرین کے علم اور محنت کش عوام و طلبہ کے حقیقی تجربات کی روشنی میں یہ تفتیش کوویڈ 19 کا سبب بننے والے وائرس سارس کوو 2، حکومتوں، کارپوریشنوں اور ذرائع ابلاغ کے تباہ کن ردعمل کی چھان بین کرے گی اور انہیں دستاویزی شکل دے گی۔ یہ وائرس کی بے لگام منتقلی اور عالمی سطح پر لاکھوں انسان ہلاک کرنے والی تباہ کن وبا کو پھیلانے والی پالیسیوں کا سبب بننے والی سیاسی اور معاشی قوتوں اور مفادات کو بے نقاب کرے گی۔

یہ وبا تاریخی اہمیت کا واقعہ ہے۔ اکیسویں صدی میں اس کے اثرات اتنے ہی دور رس ثابت ہو سکتے جتنے بیسویں صدی کی دو عالمی جنگوں کے ہوئے۔ اسی لیے اس وبا کے ماخذ، وجوہات اور نتائج کی چھان بین پوری طرح ہونی چاہیے۔ اس بربادی نہ 'خدا نے' کی اور نہ ہی کسی چینی لیبارٹری میں تیارکردہ بدخواہ سازش کا نتیجہ تھی۔ وقت آ چکا ہے کہ ان جھوٹوں کو قطعی طور پر رد کیا جائے جن میں حکومتوں اور کارپوریٹ ذرائع ابلاغ نے وبا کے بیانیے کو ڈھانپا ہے۔

سارس کوو 2 کی ابتدائی انکشاف کے بعد لاکھوں قابل گریز اموات کی ذمہ داروں پالیسیوں کے جواز کے لیے ڈھانپنے، جعل سازی کرنے اور جھوٹی خبریں پھیلانے کا توڑ کرنے کے لیے یہ تفتیش ضروری ہے ۔ یہ تفتیش سماج کو نقصان پہنچانے والی، بلکہ انسانی زندگی سے برتی جانے والی مجرمانہ لاپروائی پر موجود کثیر شواہد کو اکٹھا کرے گی اور انہیں عوام کے سامنے لائے گی۔

اس تفیش میں تاخیر نہیں کی جا سکتی۔ دنیا وبا کے تیسرے برس میں داخل ہو رہی ہے لیکن عالمی پھیلاؤ میں کمی نہیں آ رہی۔ ایسا ہونا بہت دور ہے۔ وبا کی چھٹی لہر آ رہی ہے اور شمالی کرے میں سرما کی آمد کے ساتھ ایک بار پھر مریضوں، ہسپتالوں میں داخل ہونے والوں اور اموات کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔

17 اکتوبر 2021 کو روزانہ نئے کیسز کی عالمی اوسط کی نچلی سطح 402548 تک پہنچ چکی ہے، سرکاری اعدادوشمار کے مطابق نومبر کے وسط میں نئے مریضوں کی اوسط پانچ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے اور پورے یورپ اور شمالی امریکا میں ان میں قابل ذکر اضافہ ہو رہا ہے۔

اگرچہ مؤثر ویکسینیں بنائی جا چکی ہیں، لیکن دنیا کی صرف 41 فیصد آبادی کو ویکسین کی دو ڈوزیں لگی ہیں جن میں افریقیوں کی تعداد سات فیصد سے کم ہے اور کم آمدنی والے ممالک میں تین فیصد ہے۔ دنیا کی آبادی کے محض 2.6 فیصد کو ویکسین کی لازمی تیسری ڈوز لگی ہے۔ سائنس دان بارہا خبردار کر چکے ہیں کہ بڑے پیمانے پر کم رفتار سے ویکسین لگانا ایسے ارتقائی دباؤ پیدا کرتا ہے جس سے ویکسین سے مزاحمت رکھنے والی اقسام پیدا ہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

اس کے باوجود کہ گنتی خاصی کم کی گئی ہے سرکاری اعدادوشمار کے مطابق دنیا بھر میں مرنے والوں کی تعداد 50 لاکھ سے تجاوز کر چکی ہے۔ یونیورسٹی آف واشنگٹن کے انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ میٹرکس اینڈ ایوالوایشن (آئی ایچ ایم ای) کے تخمینے کے مطابق عالمی سطح پر ایک کروڑ 21 لاکھ افراد افراد کوویڈ 19 سے ہلاک ہوئے جبکہ اس وقت دنیا بھر میں 13300 کے قریب افراد کی روزانہ موت واقع ہو رہی ہے۔ سماج پر پڑنے والے طویل المدت اثرات، جن میں 'لانگ کوویڈ' کے شکار کروڑوں افراد شامل ہیں، کے بارے میں پوری طرح معلوم نہیں۔

'اکانومسٹ' کے مطابق وبا کے دوران حد سے زیادہ یعنی مختلف وجوہات کے باعث عام حالات کی نسبت اضافی اموات، ایک کروڑ 70 لاکھ ہیں۔ بی ایم جے (سابقہ برٹش میڈیکل جرنل) کے مطابق جن ممالک نے وائرس کا پھیلاؤ ہونے دیا ان میں 2020 کے دوران اوسط عمر میں قابل ذکر کمی ہوئی، خاص طور پر روس (2.32 سال) اور امریکا (2 سال) میں.

وبا کی پیش بینی ہو چکی تھی:

تفتیش اس فرضی داستان کی قلعی کھولے گی کہ وبا اچانک اور نہ رکنے والا سانحہ تھی۔ چین کے شہر ووہان میں سارس کوو 2 کی شروعات، جسے بیشتر ماہرین جانوروں سے انسان کو ہونے والی منتقلی قرار دیتے ہیں اور قوی امکان ہے کہ یہ جانوروں کی منڈی میں چمگادڑوں سے ہوئی، سے کئی دہائیاں قبل ایسی متوقع وبا کی ابتدا کے بارے میں بہت سا سائنسی لٹریچر، کتابیں، یہاں تک کہ فلمیں موجود تھیں۔

2002 تا 2004 میں سارس کی ابتدا، 2003 میں ایچ5 این 1 'برڈ فلو' کی وبا، 2009 میں 'سوائن فلو' کی وبا، 2012 میں ایم ای آر ایس کی ابتدا اور 2013 تا 2016 میں ایبلولا وائرس کی وبا نے دنیا بھر کے سائنس دانوں کو خبردار کر دیا تھا کہ ایک وبا آنے کو ہے۔

جولائی 2005 میں ماہر وبائیات ڈاکٹر میخائیل اوسٹرہولم نے جریدے فارن افیئر میں 'آئندہ وبا کی تیاری' کے عنوان سے ایک تفصیلی مضمون لکھا۔ اس میں انتہائی خراب حالات کا نقشہ کھینچا گیا جو درحقیقت جنوری 2020 میں عالمی سطح پر رونما ہوئے۔

یہ خبردار کرتے ہوئے کہ آنے والی وبا سے 'اجتناب نہیں کیا جا سکتا' ڈاکٹر اوسٹرہولم نے ہر ملک سے کہا کہ وہ 'وبا کے ایک سے تین برس کے دوران آبادی کو بچانے کے تفصیلی عملی خاکہ' تیار کرے، نیز 'پوری دنیا کو ویکسین کی فراہمی کی جانب قدم' اٹھایا جائے۔ انہوں نے یہ بھی خبردار کیا کہ اگلی وبا شروع ہو گی تو 'فی الحقیقت ہر طبی یا حفاظتی آلہ وبا کے تسلیم کیے جانے کے بعد چند دنوں کے اندر کمیاب ہو جائے گا۔' انہوں نے یہ بھی بتایا کہ فراہمی کا عالمی سلسلہ بری طرح ٹوٹے گا۔ اپنے مضمون کے آخر میں وہ کہتے ہیں کہ 'یہ تاریخ کا اہم موڑ ہے۔ آنے والی وبا کی تیاری کا وقت ہاتھ سے نکلا جا رہا ہے۔ ہمیں ابھی فیصلہ کن اور بامقصد اقدام اٹھانا ہو گا۔'

نیویارک شہر میں مارچ 2020 میں اضافے کے دوران بروکلین کے میمونائیڈس ہسپتال کے باہر مردہ COVID-19 مریضوں کی لاشیں۔ اس تصویر کو ہسپتال کی ایک نرس نے پریس کے ساتھ شیئر کیا تھا۔

اس کے بعد 14 برسوں کے دوران اسی طرح کی دیگر درجنوں تحاریر، مضامین اور تحقیقی مقالوں میں ڈاکٹر اوسٹرہولم کی پیش بینی کی تائید کی گئی اور اس میں اضافے کیے گئے۔ لیکن ان انتباہوں کو کم و بیش تمام حکومتوں نے نظرانداز کیا اور سماج کو ایسے واقعے کے لیے کسی تیاری کے بغیر چھوڑ دیا۔ اس خطرے سے نپٹنے کے لیے ضروری مالی وسائل فراہم نہیں کیے گئے۔ اس کے بجائے کھربوں ڈالر مالیاتی منڈی اور ہر وقت بڑھتے عسکری بجٹ میں ٹھونس دیے گئے۔ اہم ماحولیاتی نظام کی بے لگام تباہی نے سماج کو جانوروں سے لگنے والی بیماریوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ اس دوران ذاتی حفاظتی سامان کے ذخیروں کو قائم نہ کیا گیا۔ غیر منافع بخش سمجھے جانے پر ایم آر این اے ویکسینوں کی تحقیق اور دیگر ٹیکنالوجیوں پر کام روک دیا گیا۔ ہسپتال کے نظاموں میں سٹاف اور وسائل کی کمی رہی۔

سارس کوو 2 پر 2020 کے اوائل میں قابو پایا جا سکتا تھا:

یہ تفتیش اس کمزور دعوے کی چھان بین اور اسے رد کرے گی کہ ایک بار سارس کوو 2 کے پھیلاؤ کی ابتدا ہونے کے بعد اسے روکنے کے لیے کچھ زیادہ نہیں کیا جا سکتا تھا۔ ایک ارب 40 کروڑ افراد پر مشتمل چینی سماج کا تجربہ اس امر کی نفی کرتا ہے جہاں وائرس کے خاتمے کے لیے ہنگامی اقدامات کیے گئے۔ ان میں ماسک پہننا، انفرادی فاصلہ، ٹیسٹ کرنا، میل جول کا سراغ لگانا، کام کی غیرضروری جگہوں کی بندش اور صحت کے الگ تھلگ مراکز اور سہولیات شامل ہیں۔

14 مارچ 2020 تک چین روزانہ کیسز کی تعداد صرف 25 تک لے آیا جبکہ ایک ماہ قبل یہ تعداد 14 فروری کو سب سے زیادہ 4602 تک پہنچی تھی۔ جلد وائرس کا خاتمہ کر دیا گیا البتہ چھوٹے پیمانے پر وبائیں پھوٹتی رہی جس میں سے صرف ایک بار 200 سے زائد کیسز ہوئے۔ چین میں اب تک کوویڈ 19 سے صرف 4636 اموات ہوئی ہیں جن میں سے چار کے علاوہ باقی تمام 17 اپریل 2020 سے قبل ہوئیں۔ اسی طرح کے اقدامات نیوزی لینڈ، ویت نام، تائیوان اور ایشیا پیسیفک کے دیگر ممالک میں کامیابی کے ساتھ اٹھائے گئے۔

اس دعوے کی نفی کہ وائرس کو روکا نہیں جا سکتا تھا خالصتا تاریخی دلچسپی کا معاملہ ہے۔ اب بھی ویکسینوں کو دنیا بھر میں پہنچانے کے ساتھ ساتھ ایسی پالیسیوں کا نفاذ ممکن ہے جس سے کوویڈ 19 کا خاتمہ اور صفایا ہو جائے۔

خاتمہ بمقابلہ 'اجتماعی مدافعت':

یہ تفتیش ان اہم سوالات کا سامنا کرے گی: چین، نیوزی لینڈ اور ایشیا پیسیفک کے دیگر ممالک میں کامیاب ہونے والے اقدامات کو ریاست ہائے متحدہ امریکا، برازیل، جرمنی، انڈیا اور دنیا بھر میں کیوں نہیں اٹھایا گیا؟ بالکل مختلف ردعمل کے پس پشت کون سے معاشی، سیاسی اور سماجی مفادات کارفرما ہیں؟ وبا کے تناظر میں فوجداری قانون کا قدیم سوال۔۔۔کوئی بونو؟ یعنی کس کے فائدے کے لیے؟۔۔۔۔ اٹھایا جانا چاہیے۔

ناگزیر جواب، جیسا کہ اس تفتیش سے ظاہر ہو گا، یہ ہے کہ مالیاتی منڈیوں کی کارکردگی اور کارپوریٹ کے منافعوں کو انسانی زندگیاں بچانے پر ترجیح دی گئی۔ حقائق خود بتاتے ہیں۔ جب کوویڈ 19 سے لاکھوں محنت کش مر رہے تھے، کارپوریٹ سی ای اوز اور بڑے شراکت داروں کی دولت میں بہت اضافہ ہوا۔ وبا کے ابتدائی 19 ماہ کے دوران صرف امریکی ارب پتیوں نے اپنی دولت میں 2۔1 ٹریلین ڈالر، یا 70 فیصد اضافہ کیا۔

جنوری 2020 میں سارس کوو 2 پر خفیہ بریفنگ کے ایک راز دان کے مطابق امیر امریکی سینیٹروں نے لاکھوں ڈالر مالیت کا سامان ذخیرہ کیا مگر وائرس کے خطرے پر خاموش رہے۔ 19 مارچ 2020 کو امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے رازداری سے صحافی بوب وڈورڈ کو بتایا کہ منڈیوں پر دھاوا روکنے کے لیے انہوں عوام کو جان بوجھ کر گمراہ کیا، انہوں نے کہا 'میں نے ہمیشہ اس کی اہمیت کو گھٹایا، میں اب بھی اس کی اہمیت کو گھٹا کر پیش کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میں خوف پیدا نہیں کرنا چاہتا۔' دنیا بھر کے ممالک میں ایسے متعدد واقعات ہوئے۔

خاتمے یا 'صفر کوویڈ' کی پالیسی اپنانے کے بجائے حکومتوں نے 'اجتماعی مدافعت' یا 'ہرڈ ایمونٹی' کی مجرمانہ سماجی پالیسی کو اپنایا۔۔۔۔ یعنی وائرس کو سماج میں اس وقت تک پھیلنے دیا جائے جب تک زیادہ تر لوگ اس کا شکار نہیں ہو جاتے۔ اسے سب سے پہلے سویڈن میں نافذ کیا گیا۔ نیویارک ٹائمز کے کالم نگار تھامس فریڈمین نے اس کی پُرجوش دلالی کی۔ ٹرمپ انتظامیہ اور عالمی سطح اس کے ہم خیالوں نے اس کی ترویج کی اور گریٹ برینگٹن ڈکلیئریشن میں جان بوجھ کر اسے ملایا گیا۔ خاتمے کے برخلاف فریڈمین کا تخلیق کردہ 'اجتماعی مدافعت' کا ترانہ گایا گیا کہ 'علاج بیماری سے زیادہ برا نہیں ہو سکتا'۔۔۔ یعنی صحت عامہ کارپوریٹ کے منافع کے ماتحت ہو۔

'اجتماعی مدافعت' کی پالیسی کا جواز پیش کرنے کے لیے کوویڈ 19 کے متعلق بنیادی سائنسی سچائیوں کو دبایا اور جھٹلایا گیا۔ اداروں، جن میں عالمی ادارہ صحت اور سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پری وینشن شامل ہیں، نے ایک سال تک وائرس کے فضا کے ذریعے منتقل ہونے کی خاصیت سے انکار کیا۔ بالآخر انہوں نے اقرار کیا کہ فضا میں معلق ذرات انتقال کا غالب ذریعہ ہیں، انہوں نے عوام کو آگاہی دینے، ماسک لازمی کرنے یا عوامی مقامات بشمول سکولوں میں ہوا کے گزر کو منظم انداز میں بہتر بنانے کی کوئی کوشش نہیں کی۔

ہر طرح کے سیاست دانوں بشمول سرمایہ دار نواز لیبر یونینز نے بچوں پر کوویڈ 19 کے اثرات اور وائرس کی منتقلی میں سکولوں کے کردار کو غلط طور پر پیش کیا۔ ریاست ہائے متحدہ امریکا میں امریکن فیڈریشن آف ٹیچرز کے صدر نے بچوں کو سکول واپس لانے کے لیے بیڈن انتظامیہ کے واسطے ناعاقبت اندیش مجرمانہ مہم چلائی۔ طلبہ کی ذہنی صحت پر فکرمند ہونے کے مکر کے پیچھے کارپوریشنوں کے منافع کو جاری رکھنے کے لیے والدین کو کام پر بھیجنا مقصود تھا۔

وسیع پیمانے پر مزاحمت کے جواب میں بالائی طبقوں نے جابرانہ اقدامات کیے۔ برطانیہ میں سکولوں کو غیرمحفوظ طور پر دوبارہ کھولنے کے خلاف عوامی مہم کی رہنما اور والدہ لیزا ڈیاز کو پریس میں جرمانے کی دھمکیاں دی گئیں اور انہیں بدنام کیا گیا۔ لندن کے بس ڈرائیور ڈیوڈ او سلیوان کو، جس نے اپنے ساتھ کام کرنے والوں کو کوویڈ 19 کے خطرے پر خبردار کیا، ردعمل میں اسے ملازمت سے نکال دیا گیا۔

صحت عامہ کی پالیسیوں کی ساکھ ختم کرنے کے عمل میں 'اجتماعی مدافعت' کے حامیوں نے لاک ڈاؤن کے رد اور ماسک اور ویکسینوں کی مخالفت میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے دائیں بازو کے جنونیوں کی حوصلہ افزائی کی جس سے خطرناک حد تک عوامی ابہام نے جنم لیا۔

ستمبر 2020 کی اس تصویر میں، اس وقت کے صدر ڈونلڈ ٹرمپ وائٹ ہاؤس کے کورونا وائرس کے مشیر ڈاکٹر سکاٹ اٹلس وبائی مرض پر ایک نیوز کانفرنس کے دوران خطاب کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں (اے پی فوٹو/ایلکس برینڈن) [AP Photo/Alex Brandon]

اسی دوران میں سارس کوو 2 کے ماخذ کے بارے میں جھوٹی کہانیاں تراشی گئیں جن میں دعویٰ کیا گیا کہ وائرس کو ووہان کی ایک لیبارٹری میں تیار کیا گیا۔ سازشی نظریے کو انتہاپسند دائیں بازو نے گھڑا اور بعدازاں ہیئت مقتدرہ کے ذرائع ابلاغ بالخصوص واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز نے اپنا لیا۔ اس سے ناصرف وبا کی حقیقی وجوہ سے توجہ ہٹی بلکہ اسے چین کے خلاف عسکری اور جغرافیائی سیاسی ایجنڈے کو بڑھانے کے لیے برتا گیا۔

2021 میں امیر ترین ممالک میں ویکسینوں کے متعارف ہونے کے بعد 'اجتماعی مدافعت' کے حامی ایک حصے نے یہ جھوٹا دعویٰ تخلیق کیا کہ محض ویکسینیں اور ماسک وبا کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ امریکا میں بیڈن انتظامیہ کی جانب سے، جس نے 13 مئی 2021 کو ویکسین لگوانے والے افراد کو مشورہ دیا کہ ماسک پہننا چھوڑ دیں اور 4 جولائی کو قبل از وقت وبا سے آزادی کا اعلان کیا، اس کا سب سے واضح اظہار ہوا۔ اس تاریخ کے بعد کوویڈ 19 سے 170000 امریکی ہلاک ہوئے۔

ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے وبا کے خلاف تین حکمت عملیوں کا جائزہ لیا: 'اجتماعی مدافعت'، تخفیف کے محدود اقدامات کے ساتھ ویکسینیشن اور سارس کوو 2 کا عالمی سطح پر خاتمہ۔ پہلی دو حکمت عملیوں کی بنیاد صحت عامہ کو نجی منافع کے ماتحت کرنے پر ہے جبکہ صرف آخری وبا کے خاتمے اور زندگیاں بچانے کی جانب راہنمائی کرتی ہے۔

'اجتماعی مدافعت' کی تباہ کن پالیسیوں کے ذمہ دار مالی مفادات کے تحت ایشیا پیسیفک کے ممالک کو اپنی حکمت عملی ترک کرنے اور بڑے پیمانے پر اسے پھیلنے دینے کے لیے انتہائی دباؤ میں لایا گیا۔ 18 ماہ تک وائرس کو کامیابی سے دبانے والی نیوزی لینڈ کی حکومت بالآخر بین الاقوامی دباؤ کے سامنے ڈھیر ہو گئی۔ اکتوبر میں اس نے سائنس دانوں کی تیار کردہ 'صفر کوویڈ' پالیسی کو ترک کر دیا۔ کوویڈ کے خاتمے کے لیے چین کے ارادے کو بدلنے کے لیے بھی دباؤ ڈالا گیا۔

یہ تفتیش کارپوریٹ منافع کے لیے ممالک کو مرض کے بڑے پیمانے پر پھیلاؤ کی قبولیت پر مجبور کرنے کی بھی چھان بین کرے گی۔

کوویڈ 19 کی وبا پر مزدوروں کی عالمی تفتیش کی وسعت اور مقاصد:

سزا کے حق دار کے سوال کے بغیر لاکھوں افراد کی ہلاکت کے بارے بات نہیں کی جا سکتی۔ ایک طرف ڈونلڈ ٹرمپ نے عوام سے کھلم کھلا جھوٹ بولا اور بورس جانسن نے سوچے سمجھے بغیر 'لاشوں کو ہزاروں میں جمع ہونے دیں!' کہا تو دوسری طرف جو بائیڈن، جسٹن ٹروڈو، انجیلا مرکل، ایمانوئیل مارکون اور دیگر درجنوں عالمی رہنماؤں کے اقدامات کا نتیجہ بلاضرورت مصائب اور اموات کی صورت میں نکلا۔ اپریل 2021 میں جب ملک میں ڈیلٹا قسم نے تباہی مچا رکھی تھی نریندر مودی نے انڈیا کے عوام کو'وائرس' کے بجائے 'لاک ڈاؤن' سے بچانے کا عزم ظاہر کیا۔ مصدقہ تحقیقات کے مطابق اس کے نتیجے میں کوویڈ 19 نے کم از کم 30 لاکھ اور ممکنہ طور پر 50 لاکھ بھارتیوں ہلاک ہوئے۔

امریکا میں سیاست اور ذرائع ابلاغ پر مشتمل ہیئت مقتدرہ کے بعض حصوں بشمول واشنگٹن پوسٹ اور نیویارک ٹائمز نے وبا کی چھان بین کے لیے 'نائن الیون طرز کے کمیشن' کا مطالبہ کیا۔ ایسی چھان بین جو ہو چکا اسے چھپائے گی۔ کوئی بھی حکومت کسی سنجیدہ چھان بین کو برداشت نہیں کرے گی کیونکہ وہ خود بڑے پیمانے کے اس سماجی جرم میں شریک ہے۔

کوویڈ 19 وبا پر مزدوروں کی عالمی تفتیش حکومتی پابندیوں کی خواہش یا مطالبہ نہیں کرتی۔ ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کے پاس اس تفتیش کے لوازمات پوری طرح موجود ہیں۔ سارس کوو 2 کی ابتدائی رپورٹ کے منظر عام پر آنے کے ساتھ ہی اس نے عالمی وبا کے خطرے کو پہچان لیا۔ 24 جنوری 2020 سے، جب اس نے کورونا وائرس کے پھوٹنے کو پہلی بار رپورٹ کیا، ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے اس موضوع پر 4000 سے زائد مضامین لکھے ہیں۔ 2020 کے اوائل سے اس نے وبا کو روکنے کے لیے مربوط عالمی منصوبے کے نفاذ کا مطالبہ کر رکھا ہے۔ اس نے بڑے پیمانے پر اموات کی ذمہ دار حکومتی پالیسیوں کو رد کیا ہے۔

28 فروری 2020 کو شائع ہونے والے بیان میں ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے وبا روکنے کے لیے عالمی اقدام کی ضرورت پر زور دیا، اس نے لکھا:

کورونا وائرس پر ردعمل کو دو ریاستوں کی سطح پر مربوط نہیں کیا جا سکتا۔ وائرس سرحدوں یا ویزا اور ہجرت کی پابندیوں کو نہیں مانتا۔ نقل و حمل کے عالمی نیٹ ورک اور معاشی انضمام نے وائرس کو ساری دنیا کا مسئلہ بنا دیا ہے۔

اس کا حل عالمی ہی ہو گا۔ دنیا بھر کے سائنس دانوں کو اپنی تحقیق اور ٹیکنالوجی سامنے لانے کی اجازت دی جائے جس میں 'قومی مفادات' اور جغرافیائی سیاسی تنازعات رکاوٹ ہیں، اس کے نتیجے میں کورونا وائرس کے علاج اور بالآخر اسے ختم کرنے کے مؤثر اقدامات میں تاخیر ہو رہی ہے۔

6 مارچ 2020 کو ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے کہا: 'آبادی کی صحت سے ٹرمپ انتظامیہ کی لاپروائی غالبا قدیم مصر کے فرعونوں کے غلاموں سے سلوک سے بھی بدتر ہے۔ ذرائع ابلاغ وال سٹریٹ میں شیئر کی قدر میں گراوٹ کا شکوہ انسانی زندگی کے ضیاع سے کہیں زیادہ کرتے ہیں۔'

ان پالیسیوں کی مخالفت کرتے ہوئے ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے 17 مارچ 2020 کو ایک بیان جاری کیا جس میں کہا گیا: 'اس بحران کے ردعمل کو جس بنیادی اصول کے تحت ہونا چاہیے وہ کارپوریٹ منافع اور نجی دولت پر محنت کش عوام کی ضروریات کو قطعی اور بلاشرط ترجیح دینا ہے۔'

ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے وبا کے اثرات ہی کو رپورٹ نہیں کیا۔ اس نے محنت کشوں اور نوجوانوں میں وبا پر سائنسی سمجھ بوجھ پیدا کرنے اور کیا کیا جا سکتا ہے، بتانے کی کوشش کی۔ اس مقصد کے لیے ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے 22 اگست اور 24 اکتوبر 2021 کو انٹرنیشنل ورکرز الائنس آف رینک اینڈ فائل کمیٹیز کے اشتراک سے دو عالمی ویبینار منعقد کیے۔ ان میں وبا کے خاتمے کی پالیسی کی جدوجہد کرنے والے رہنما سائنس دانوں نے شرکت کی۔

کولمبو، سری لنکا میں جمعہ، 8 اکتوبر 2021 کو ہڑتال کی کارروائی کے دوران سری لنکا کے ہیلتھ ورکرز بہتر تنخواہ اور ذاتی حفاظتی سامان کا مطالبہ کرتے ہوئے نعرے لگا رہے ہیں۔ (اے پی فوٹو/ایرانگا جے وردنا

24 اکتوبر کو ہونے والے ویبینار میں وبا کے خاتمے کی جدوجہد کی بنیاد پر مندرجہ ذیل تجاویز دی گئیں:

  1. کوویڈ 19 کا سبب بننے والے سارس کوو 2 وائرس کا ہدف افراد نہیں بلکہ پورا سماج ہے۔ وائرس کا منتقلی کا طریقہ ایسا ہے کہ یہ بڑے پیمانے پر متاثر کرتا ہے۔ حیاتیاتی طور پر سارس کوو 2 اربوں انسانوں پر حملہ آور ہونے کی صلاحیت رکھتا ہے اور ایسا کرتے ہوئے یہ لاکھوں افراد کو ہلاک کر سکتا ہے۔
  2. لہٰذا ہر براعظم، خطے اور ملک میں اس وائرس کو ختم کرنے کے لیے عالمی سطح پر مربوط مہم ہی مؤثر حکمت عملی کی بنیاد ہو سکتی ہے۔ ملکی سطح پر وبا کا مؤثر تدارک نہیں کیا جا سکتا۔ تمام نسلوں، گروہوں اور قوموں پر مشتمل بنی نوع انسانیت کو وسیع اجتماعی اور حقیقتا بے غرض عالمی کوشش سے اس چیلنج کا مقابلہ کرنا ہے اور اس پر قابو پانا ہے۔
  3. وبا پھوٹنے کے بعد تمام تر حکومتوں کی اختیار کردہ پالیسیوں کو رد کرنا ہے۔ یہی بلاشبہ سماجی پالیسی کی ترجیح ہونی چاہیے، یعنی انسانی زندگی کا تحفظ اور کارپوریٹ منافع اور نجی دولت کے ارتکاز کو جاری رکھنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔
  4. عالمی خاتمے کی جانب فیصلہ کن موڑ کی حکمت عملی کی ابتدا سماجی طور پر باشعور لاکھوں افراد کی تحریک سے ہو۔
  5. یہ عالمی تحریک سائنسی تحقیق سے استفادہ کرے۔ سائنس دانوں کے خلاف کارروائی۔۔۔ جن میں سے بہت سے روزگار اور زندگی چھننے کے ڈر تلے کام کرتے ہیں۔۔۔ ختم ہو۔ وائرس کے عالمی خاتمے کے لیے سماج کی اکثریت پر مشتمل محنت کش طبقے اور سائنس دان برادری کے مابین عملی اتحاد کی ضرورت ہے۔

ان اصولوں اور گزشتہ دو برسوں کے کام کی بنیاد پر ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ عالمی سطح کی تفتیش کرے گی۔ یہ دنیا بھر سے سائنس دانوں اور ماہرین صحت عامہ کے انٹرویو کرے گی۔ یہ تفتیش دنیا کے مختلف حصوں میں وبا کے پھوٹنے، پھیلنے اور سنبھالنے سے متعلق اہم معاملات کی جانچ کرے گی۔

عام انسانوں کی زندگیوں پر پڑنے والے اثرات کو دستاویزی شکل دینے کے لیے یہ مزدوروں اور طالب علموں تک پہنچے گی۔

انٹرنیشنل کمیٹی آف فورتھ انٹرنیشنل کی اشاعت اور سوشلسٹ ایکویلٹی پارٹیوں سے منسلک ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس اس تفتیش کی تنظیمی مچان اور قوت محرکہ ہو گی۔ لیکن اس وسیع منصوبے کے لیے وبا کے خلاف جدوجہد کرنے والے مختلف شعبوں کے ماہرین کی سرگرم معاونت کی ضرورت ہو گی۔

اس تفتیش کی عملی معاونت کی خاطر شرکا کا ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس کے سوشلسٹ پروگرام سے متفق ہونا ضروری نہیں۔ مستقبل کے سماج کی بہترین سیاسی، سماجی اور معاشی تنظیم کیسی ہو گی، اس سوال پر تفتیش میں شامل ہونے والوں میں اختلاف ہو گا۔ لیکن یہ معاونت شرکا کے ہاں سائنسی سچائی، کوویڈ 19 کے خاتمے اور زندگی، ثقافت اور انسانیت کے مستقبل کے تحفظ کے لیے پختہ عزم کا تقاضا کرتی ہے۔

تفتیش کے اس کام میں معاونت کے خواہش مند افراد سے اپیل ہے کہ وہ مندرجہ ذیل فارم کو پُر کریں۔
میں 'تفتیش' کے کام میں حصہ لینا چاہتا ہوں۔