اُردُو
Perspective

تناظر بائیڈن نے یوکرین میں روس کے خلاف " لمبی جنگ کیلیے" مزید اربوں کا وعدہ کیا ہے۔

یہ ترجمہ 24  اگست 2022 کو شائع ہونے والے Biden pledges billions more for the“forever war”against Russia in Ukraine کا ہے۔

بدھ کے روز امریکی صدر جو بائیڈن نے یوکرین کو مزید 3 بلین ڈالر کے ہتھیار دینے کا وعدہ کیا جو چھ ماہ قبل جنگ کے آغاز کے بعد سے سب سے بڑی واحد فنڈنگ ​​ہے۔ اب تک امریکہ نے یوکرین کو 50 بلین ڈالر سے زیادہ کے ہتھیار اور دیگر فنڈز فراہم کیے ہیں جن میں طویل فاصلے تک مار کرنے والے میزائل سسٹم، اعلیٰ درجے کے اینٹی شپ میزائل، ہیلی کاپٹر اور دیگر طیارے شامل ہیں۔

جنگ کے آغاز کے چھ ماہ بعد بائیڈن کا پیغام واضح ہے: جو تنازعہ کو ختم کرنے کی کوشش سے کوسوں دور ہے امریکہ یوکرین میں روس کے خلاف اپنی نئی ' مستقل جنگ کے لئے ' اس کو بڑھانے اور طول دینے کے لیے سب کچھ کر رہا ہے۔

بدھ  کے روز کا یہ اعلان ہفتوں کی غیر معمولی اشتعال انگیزیوں کے بعد سامنے آیا جو کریملن کو تنازعہ کی توسیع کی طرف راغب کرنے کے لیے ڈیزائن کیا گیا تھا۔ کریمیا میں متعدد روسی فوجی اڈے یوکرین کے بڑے حملوں کا نشانہ بنے۔اور پھر ہفتے کے روز انتہائی دائیں بازو کے مہا قوم پرست الیگزینڈر ڈوگین کی بیٹی ڈاریا ڈوگینا کو وسطی ماسکو میں قتل کر دیا گیا۔ یہ تمام کارروائیوں 'واشنگٹن میں بنائی گی'  حکمت عملی کی عکاسی کرتے ہیں۔

ان اشتعال انگیز کاروائیوں کے ذریعے امریکہ روسی ریاستی اداروں اور مالیتی اشرافیہ کے اندر ان قوتوں کو مضبوط کرنے کی کوشش کر رہا ہے جو روسی صدر ولادیمیر پوٹن سے جوابی کارروائی کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد کریملن کو ایک فوجی ردعمل پر مجبور کرنا ہے جو جنگ کو مزید بڑھانے کے لیے ضروری جواز پیدا کرے۔

منگل کے روز یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے اس بات کی تصدیق کی کہ جنگ میں ان کے ملک کی شمولیت کا مقصد جزیرہ نما کریمیا پر دوبارہ قبضہ کرنا ہے اور یہ اعلان کیا کہ، 'جنگ کریمیا سے شروع ہوئی تھی اور یہ کریمیا میں ختم ہوگی۔'

زیلنسکی کے بیان نے اس کے ارادے سے کہیں زیادہ انکشاف کر دیا ہے۔ درحقیقت روس کے ساتھ جنگ ​​فروری 2022 میں نہیں بلکہ فروری 2014 میں شروع ہوئی تھی۔ تاہم  اس کا آغاز مارچ میں روس کے کریمیا کے الحاق سے نہیں ہوا تھا بلکہ فروری 2014 کی بغاوت سے ہوا تھا جسے سامراجی طاقتوں نے منظم اور فنڈ فراہم کیا تھا۔ اس بغاوت نے نہ صرف روس کو بحیرہ اسود کے جزیرہ نما کے الحاق پر اکسایا بلکہ آٹھ سالہ طویل خانہ جنگی کو بھی بھڑکا دیا جس میں روس کے حمایت یافتہ علیحدگی پسند سامراجی حمایت یافتہ مسلح یوکرینی فوج کے خلاف لڑتے ہوئے مشرقی یوکرین کے اہم حصوں پر قابض ہو گئے۔

خاص کر 2014 کے کودیتا نے روس کے خلاف یوکرین کو کھلے طور پر فوجی آڈیے میں تبدیل کر کے سامراجی جنگ کے آغاز کے لیے بنیاد فراہم کی۔ فروری 2014 اور فروری 2022 کے درمیان آٹھ سالوں میں سامراجی طاقتوں نے یوکرین کی فوج کی تربیت، مسلح کرنے اور اسکی توسیع اور تنظیم نو کے لیے دسیوں ارب ڈالر خرچ کیے۔ یوکرین کے ریاستی اداروں اور فوج میں نیو نازی افواج کو روس اور خطے میں محنت کش طبقے دونوں کے خلاف جنگ کے لیے سامراج کے اہم مفادات کی تکمیل کرنے والے فوجیوں کے طور پر تیار اور مسلح کیا گیا۔

6 جنوری کو واشنگٹن ڈی سی میں فاشسٹ کودیتا  کی کوشش کے بعد اور وسیع پیمانے پر ہونے والی وبائی بیماری سے ہونے والی ہلاکتوں کے دوران روس کے ساتھ ایک مکمل جنگ کو منظم طریقے سے اکسانے کا فیصلہ کیا گیا۔ مارچ 2021 میں یوکرین کی حکومت نے کریمیا اور مشرقی یوکرین کے علیحدگی پسندوں کے زیر کنٹرول حصوں کی 'بازیافت' کے لیے فوجی حکمت عملی اپنائی۔ آٹھ ماہ بعد نومبر 2021 میں امریکہ اور یوکرین نے ایک 'اسٹریٹجک پارٹنرشپ' دستاویز پر دستخط کیے جس نے واضح کیا کہ دونوں ممالک مؤثر طریقے سے روس کو نشانہ بناتے ہوئے جارحانہ فوجی اتحاد میں یکجا ہیں۔

2021 کے دوران  کریملن نے مزید کھلے غصے اور مایوسی کے ساتھ  یوکرین اور بحیرہ اسود میں اپنے قومی سلامتی کے مفادات کے لیے 'ریڈ لاینز'  کی پاسداری پر اصرار کیا، لیکن ان 'ریڈ لاینز ' کو واشنگٹن نے ڈھٹائی اور حقارت کے ساتھ مسترد کر دیا۔ امریکی سامراج اور  سامراجی کٹھ پتلی یوکرائنی  اشرافیہ کا مقصد جنگ کو روکنا نہیں تھا بلکہ جنگ کو ہوا دینا تھا۔

24 فروری کو یوکرین پر حملے کے بعد  پوتن حکومت نے خود کو تنہا کردیا اور وہ اس جال میں پھنس گی جس جنگ کے لئے سامراجی طاقتیں بہت بے چین تھیں۔ پیوٹن کی طرف سے عظیم روسی شاونزم کی یلغار اور فروغ سامراجی طاقتوں کے جنگی پروپیگنڈے  کے لئے کارآمد ثابت ہوا جس سے یوکرین کے اندر زیادہ تر سیاسی رجعت پسند اور قوم پرست قوتوں کو ہی تقویت ملی ہے۔

رد انقلابی سٹالنسٹ بیوروکریسی کی طرف سے سوویت یونین کی تباہی سے ابھرنے والے روسی اشرافیہ کے تمام حساب کتاب تباہ کن طور پر غلط ثابت ہوئے ہیں۔  یوکرین پر حملے کو'مذاکرات'  کی میز پر لا نے کی تعوقع کی بجائے  سامراجی طاقتوں نے اس بہانے جنگ کے اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لیے طویل انتظار کے بعد اس پر عمل کرنا شروع کر دیا۔

ان کا حتمی مقصد کیف کی 'فتح'  کے لئینہیں ہے بلکہ خود روس کی عدم استحکام اور اسکی تقسیم  جو بالآخر اسے نوآبادیات میں بدلنے کیلئے ہے چاہے اس کے لئے کچھ بھی کرنا پڑے۔

سامراجی جنگ کے پجاریوں کے درمیان پھیلنے والی بدگمانی، بے راہ روی اور لاپرواہی کی سطح کو کسی طور بھی نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔ بدھ کے روز برطانیہ کی وزیر خارجہ لز ٹرس نے کہا کہ اگر وہ اگلے ماہ وزیر اعظم بنتی ہیں تو وہ جوہری بٹن دبانے کے لیے 'تیار' ہیں، چاہے اس کا مطلب 'عالمی تباہی' ہو۔ برٹش انڈیپنڈنٹ کے مطابق، ٹرس سے 'جب یہ پوچھا گیا کہ 'فنا'  یا تباہی انہیں کیسا محسوس کرئے گی تو وہ  جذباتی نظر آئیں۔' دریں اثنا، واشنگٹن، دیوانہ وار لاپرواہی کے ساتھ تائیوان پر چین کے ساتھ ایک اور اس سے بھی بڑی جنگ کو ہوا دینے کی کوشش کر رہا ہے۔

بیرون ملک جنگ کے ساتھ ساتھ اندرون ملک محنت کش طبقے کے خلاف جنگ جاری ہے۔ ’’قومی سلامتی‘‘ اور ’’پیوتن کے خلاف لڑائی‘‘ کے نام پر سامراجی مراکز میں محنت کشوں سے کہا جا رہا ہے کہ وہ فاقے اور بھوکے مرنے کی تیاری کریں۔ یورپ اور امریکہ دونوں میں حکمران طبقے نے جنگ کو بڑے پیمانے پر دوبارہ اسلحہ سازی کے پروگراموں اور طبقاتی تعلقات کی بنیادی تنظیم نو کے بہانے کے طور پر استعمال کر رہا ہے۔

جب کہ یوکرین میں قتل عام کرنے کے لیے دسیوں ارب ڈالرز دستیاب ہیں لیکن   ویکسین کویڈ-19 کے علاج اور ٹیسٹنگ کے لیے کوئی رقم نہیں ہے وبا کے دوران دسیوں لاکھوں اساتذہ اور بچوں کو واپس غیر محفوظ کلاس رومز میں جانے پر مجبور کیا جا رہا ہے۔ دنیا بھر میں جنگ کی وجہ سے شدید مہنگائی میں اضافہ ہوا ہے۔ خوراک اور ایندھن کی بڑھتی ہوئی قیمتوں نے اربوں نہیں تو کروڑوں مزدوروں کے پہلے سے ہی غیر یقینی معیار زندگی کو بری طرح مجروح کر دیا ہے۔

جنگ کے شروع ہونے کے بارے میں 24 فروری کے اپنے بیان میں انٹرنیشنل کیمٹی آف فورتھ انٹرنیشنل   نے تاکید کی تھی جنگ کے خلاف لڑائی اور 1991 میں سوویت یونین کی سٹالنسٹ تباہی کے نتیجے میں شروع ہونے والی سرمایہ دارانہ تباہی کے لیے”سوشلسٹ بین الاقوامیت کی روس سمیت  پوری دنیا میں بحالی کی ضرورت ہے۔”جس نے 1917 کے اکتوبر انقلاب سے جنم لیا اور سوویت یونین کو ایک مزدور ریاست کے طور پر تشکیل دیا۔

ان سطور کے لکھے جانے کے چھ مہینوں کے دوران سری لنکا، برطانیہ، جرمنی، ترکی، برازیل، امریکہ اور کینیڈا سمیت بین الاقوامی محنت کش طبقے کی جانب سے بڑی جدوجہد شروع ہو چکی ہے۔ محنت کش طبقے کی یہ ابھرتی ہوئی عالمی تحریک ایک طاقتور سوشلسٹ اور جنگ مخالف تحریک کی تعمیر اور عالمی سوشلسٹ انقلاب کے تناظر کو سمجھنے کی بنیاد بنائے گی۔

Loading