اُردُو

ایران اور سعودی عرب کے درمیان چینی ثالثی کے معاہدے نے واشنگٹن میں خطرے کی گھنٹی بجا دی ہے

ہ 15 مارچ 2023 کو انگریزی میں شائع 'Chinese-brokered deal between Iran and Saudi Arabia raises alarm bells in Washington' ہونے وال اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

چین کی یہ ثالثی سفارتی کودیتا سے کم نہیں ہے۔سعودی عرب اور ایران کے درمیان کشیدگی کو کم کرنے اور سفارتی تعلقات کی بحالی کے لیے گزشتہ جمعے کو بیجنگ میں ایک معاہدے کا اعلان کیا گیا۔ دونوں حریف طاقتیں پورے مشرق وسطیٰ میں اثر و رسوخ کے لیے سخت مقابلے میں مصروف ہیں جو کہ خطے کے تنازعات اور عدم استحکام کو بگڑنے کا ایک اہم عنصر رہا ہے۔

ایران کی سپریم نیشنل سکیورٹی کونسل کے سیکرٹری علی شمخانی دائیں طرف چین کے سب سے سینئر سفارت کار وانگ یی سے مصافحہ کر رہے ہیں جب کہ سعودی عرب کے قومی سلامتی کے مشیر مصدق بن محمد العیبان بیجنگ میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدے پر دستخط کی تقریب کے دوران اسکو دیکھ رہے ہیں۔ [اے پی فوٹو/نورنیوز] [AP Photo/Nournews]

ان دونوں ممالک کے درمیان رسمی سفارتی تعلقات اس وقت ختم ہو گئے تھے جب سعودی حکومت  جو کہ سنی بنیاد پرستی کی ایک انتہائی شکل پر مبنی ہے نے ممتاز شیعہ عالم اور حکومت کے ناقد نمر باقر النمر کو 2016 میں پھانسی دے دی تھی۔ اس کا سر قلم کرنے کے بعد ایران کے اندر احتجاجی مظاہرے شروع ہو گئے تھے جس کے نتیجے میں سعودی سفارتی مشن  کے خلاف مشتعل عوام ایک طوفان امڈ اٹھا جس سے تعلقات کو شدید نقصان پہنچا۔ یہ تعلقات اور بھی   خراب ہوتے گے کیونکہ ان ممالک نے یمن اور شام کی جنگوں میں مخالف فریقوں کی حمایت کی۔

گزشتہ جمعے کے معاہدے کے تحت سعودی عرب اور ایران کے پاس سفارتی تعلقات کی بحالی اور سفارتخانوں کو دوبارہ کھولنے کے ساتھ ساتھ سیکیورٹی تعاون کے انتظامات کو فعال کرنے کے لیے دو ماہ کا وقت درکار ہوگا۔ کچھ تفصیلات منظر عام پر لائی گئی ہیں لیکن مبینہ طور پر اس معاہدے میں باہمی پروپیگنڈہ کو ختم کرنے اور جنگ کو کم کرنے کے ساتھ ساتھ خطے میں ایک دوسرے کے مفادات پر براہ راست اور بالواسطہ حملے نہ کرنے کا اندیا دیا گیا ہے۔

وال سٹریٹ جرنل کے مطابق، سعودی عرب نے ایران انٹرنیشنل کو لگام دینے پر رضامندی ظاہر کی، جو کہ سعودی فنڈ سے چلنے والا  فارسی زبان کے سیٹلائٹ نیوز چینل ہے جس پر تہران نے ایران میں کئی مہینوں سے جاری حکومت مخالف مظاہروں کو ہوا دینے کا الزام لگایا ہے۔ ایران کی انٹیلی جنس ایجنسی کے سربراہ نے چینل کو دہشت گرد ادارہ  قرار دیا ہے۔

اس کے بدلے میں ایران نے یمن میں حوثی باغیوں کی جانب سے سعودی عرب پر سرحد پار حملوں کو روکنے پر اتفاق کیا ہے جو ملک کے بڑے علاقوں پر قابض ہیں اور 2015 سے سعودی زیرقیادت فوجی اتحاد کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔  پچھلے سال  حوثیوں اور سعودیوں نے تنازع کے خاتمے کے لیے مذاکرات کیے جو  اب تک نافد العمل ہیں۔

جب کہ عراق اور عمان نے ثالثی  کے طور پر کئی سالوں سے کشیدگی کو کم کرنے کی کوششیں جاری رکھی ہوئی ہیں البتہ چین نے اس معاہدے کو محفوظ بنانے میں اہم اور کلیدی  کردار ادا کیا۔ گزشتہ جمعہ کو بیجنگ کے اعلیٰ سفارت کار وانگ یی نے اس معاہدے کو 'فتح' قرار دیتے ہوئے مزید کہا کہ چین عالمی مسائل کو حل کرتا رہے گا۔ انہوں نے اعلان کیا کہ اس نے 'ممالک کے درمیان تنازعات اور اختلافات کو بات چیت اور مشاورت کے ذریعے حل کرنے کی ایک مثال قائم کی ہے۔'

 وانگ نے اعلان کیا کہ معاہدہ یہ ظاہر کرتا ہے اور اس اعلان  میں امریکہ پر پردہ پوشی میں تنقید کرتے ہوئے کہا  کہ کس طرح دونوں ممالک 'بیرونی مداخلت سے چھٹکارا حاصل کر رہے ہیں، اور صحیح معنوں میں مشرق وسطیٰ کے مستقبل اور تقدیر کو اپنے ہاتھ میں لے رہے ہیں۔' مشرق وسطیٰ میں چین کی سفارتی مداخلت اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکہ یوکرین میں روس کے خلاف اپنی جنگ کو بڑھا رہا ہے اور ایشیا میں بیجنگ کے ساتھ تنازع کی تیاریوں کو تیز کر رہا ہے۔

بائیڈن انتظامیہ نے سعودی ایران ڈیل پر خاموش ردعمل دیا ہے۔ قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے قدرے محدود حمایت کرتے ہوئے کہا: 'اس حد تک کہ یہ تناؤ کو کم کر سکتا ہے یہ حساب کے کھاتہ میں ایک اچھے پہلو کے طور پر  ہے۔' تاہم  اس کے بعد انہوں نے واضح طور پر کہا کہ امریکہ مشرق وسطیٰ میں اپنے کردار سے دست بردار نہیں ہوگا۔

تاہم امریکی میڈیا میں تبصرے واشنگٹن کے گہرے خدشات کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ بیجنگ  امریکہ کو مات کرتے ہوئے اُس  سے بازی لے جا ہے اور وہ تیل کی دولت سے مالا مال خطے میں زیادہ نمایاں کردار ادا کر رہا ہے۔

ہل اخبار  میں شائع ہونے والے ایک مضمون  بعنوان 'چین کی ثالثی میں ایران اور سعودی معاہدہ امریکہ کے لیے ایک خوف سے کم نہیں ہے۔ ' اٹلانٹک کونسل کے تجزیہ کار جوناتھن پینکوف کے تبصروں کا حوالہ دیتے ہوئے کہا: 'یہ امریکی پالیسی سازوں کے لیے ایک انتباہ ہونا چاہیے: مشرق وسطیٰ کو چھوڑ دو۔ اور بعض اوقات مایوس کن، یہاں تک کہ وحشیانہ، لیکن دیرینہ اتحادیوں کے ساتھ تعلقات ترک کر دیں، اور آپ چین کے لیے ایک خلا کو پر کرنے کے لیے خالی جگہ چھوڑ دیں گے۔'

جہاں امریکہ اور اس کے اتحادی ایران کو جوہری ہتھیار بنانے سے روکنے کے بہانے اس پر معاشی پابندیاں لگا رہے ہیں واشنگٹن نے مشرق وسطیٰ میں اپنی مداخلتوں میں سعودی بادشاہت کے ساتھ اپنے دیرینہ تعلقات پر انحصار کیا۔

تاہم، گزشتہ جولائی میں بائیڈن کے ریاض کے دورے کے بعد سے امریکہ اور سعودی تعلقات میں تناؤ آ گیا ہے۔ تین ماہ بعد اوپیک نے تیل کی قیمتوں کو بلند رکھنے کے لیے مبینہ طور پر سعودی عرب اور روس کے ساتھ مل کر ایک انتظام میں تیل کی پیداوار میں 20 لاکھ بیرل یومیہ کمی کردی۔ سعودی عرب نے یوکرین پر روسی حملے کی مذمت نہ کر کے واشنگٹن کو مزید جھٹکا  دیا ہے۔

 بائیڈن انتظامیہ نے سعودی کے اس اقدام کے ردعمل کے طور پر یمن کی جنگ میں امریکی فوجی حمایت کو ختم کر کے اور  ہتھیاروں کی فروخت کو محدود کر دیا اور ساتھ ہی سویلین نیوکلیئر پروگرام شروع کرنے میں مدد کی سعودی اپیلوں کا جواب نہ دے کر سعودی عرب کو ناراض کر دیا۔

چین نے سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے موقع سے فائدہ اٹھایا ہے۔ وال اسٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ چینی صدر شی جن پنگ نے گزشتہ دسمبر میں ریاض میں عرب رہنماؤں سے ملاقات کی تھی جہاں انہوں نے اس سال ایران کے ساتھ خلیج تعاون کونسل (جی سی سی) کے بیجنگ میں ایک اعلیٰ سطحی اجتماع کی تجویز پیش کی تھی۔

واضح طور پر پورے خطے میں توانائی کے ایک بڑے خریدار اور تجارتی شراکت دار کے طور پر چین کی پوزیشن نے اس سال کے آخر میں بیجنگ میں ہونے والی وسیع تر میٹنگ کے پیش نظر سعودی عرب اور ایران کے درمیان ایک معاہدے کو انجینئر کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔

ایران خاص کر امریکی سرپرستی  میں سخت معاشی پابندیوں کے نتیجے میں ایک بڑے معاشی اور مالیاتی بحران کا سامنا کر رہا ہے اور اس کی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں تیزی سے گر رہی ہے اور شہری علاقوں میں جنوری میں افراط زر کی شرح 50 فیصد سے زیادہ ہو گئی ہے۔ ان پابندیوں کے دوران  چین ایرانی تیل کا سب سے بڑا خریدار رہا اور اس کا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار بھی ہے۔ گزشتہ سال دوطرفہ تجارت 15.8 بلین ڈالر تھی جو پچھلے سال سے 7 فیصد زیادہ تھی۔

فروری کے وسط میں ایرانی صدر ابراہیم رئیسی نے بیجنگ کے سرکاری دورے کے ایک بعد ایران نے اپنے اعلیٰ جوہری مذاکرات کار علی باقری کانی کو سعودی عرب کے ساتھ معاہدے کی بنیاد رکھنے کے لیے بھیجا تھا۔ جب رئیسی نے شی سے ملاقات کی تو باقری کانی نے پردے کے پیچھے ایران کے مطالبات کو چینی حکام کے ساتھ رکھ۔ انہوں نے مبینہ طور پر چین سے مطالبہ کیا کہ وہ 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے کے لیے بین الاقوامی مذاکرات میں مداخلت کرے جسے ٹرمپ نے پابندیوں کے خاتمے کی جانب ایک قدم کے طور پر اچانک ختم کر دیا تھا۔ انہوں نے چینی سرمایہ کاری اور ایرانی کرنسی کے لیے تعاون کی بھی اپیل کی۔ بدلے میں ایران نے سعودی عرب کے ساتھ بات چیت کے لیے پیشگی شرائط  نہ رکھنے پر اتفاق کیا۔

 ایران کی سپریم نیشنل سیکیورٹی کونسل کے سیکریٹری علی شمخانی جو گزشتہ ہفتے ایک معاہدے کو حتمی شکل دینے کے لیے بات چیت کے لیے بیجنگ میں تھے نے ایرانی میڈیا کو بتایا کہ اس سرکاری دورے نے 'ایرانی اور سعودی وفود کے درمیان انتہائی سنجیدہ مذاکرات کی راہ ہموار کی ہے۔' مستقبل میں استحکام اور علاقائی سلامتی کو فروغ دینے میں مدد مل سکتی ہے۔ گزشتہ جمعے کو معاہدے کے اعلان کے بعد ایرانی کرنسی امریکی ڈالر کے مقابلے میں 10 فیصد سے زیادہ بڑھ گئی۔

گہرے ہوتے ہوئے بین الاقوامی اقتصادی بحران اور یوکرین میں امریکہ اور نیٹو کی جنگ اور چین کے ساتھ بڑھتے ہوئے تنازعے کی وجہ سے پیدا ہونے والے غیر مستحکم عالمی حالات میں ایران اور سعودی عرب کے درمیان معاہدہ دیرپا معاہدے سے زیادہ عارضی جنگ بندی کا کردار رکھتا ہے۔ دنیا کے دیگر حصوں کی طرح مشرق وسطیٰ جو کہ امریکی سامراجی جنگوں کا ہدف ہے روس اور چین کے ساتھ امریکی تصادم کی شدت کی گرفت میں ہے۔ سعودی ایران دشمنی جو اسلامی بنیاد پرستی کا مقابلہ کرنے کے پروپیگنڈے کے ذریعے پورے مشرق وسطی میں کھیلی جاتی رہی ہے پھر تیزی سے دوبارہ تنازعات میں ڈوب سکتی ہے۔

گزشتہ جمعے کی ڈیل پر اس کا فوری ردعمل جو بھی ہو، واشنگٹن کا بیجنگ کو مشرق وسطیٰ  یا دنیا میں کہیں بھی اپنا اثر و رسوخ بڑھانے کی اجازت دینے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے اور اسے روکنے کے لیے وہ  ہر گندی چال کو استعمال کرنے سے دریغ نہیں کرے گا۔

Loading