یہ 17 اپریل 2023 میں انگریزی میں شائع ہونے
'French President Macron’s China trip exacerbates conflicts between imperialist powers' والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔
فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کے حالیہ دورہ چین پر شدید تناؤ سامنے ابھر کر آیا ہے جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی چین اور روس کے خلاف جارحانہ کارروائیوں کے حقیقی اہداف پر روشنی ڈالتا ہے۔ معاشی بحرانوں، ہنگامہ خیز مالیاتی منڈیوں اور طبقاتی کشمکش کی نشوونما سے متاثر، سامراجی طاقتیں دنیا کو زبردستی دوبارہ تقسیم کرنے کی جدوجہد کر رہی ہیں تیسری عالمی جوہری جنگ کا خطرہ ہے جو بنی نوع انسان کی بقا کو سوالیہ نشان بنا دے گی۔
ان کے فوری مقاصد روس کی تسلط اور اس کے وسیع قدرتی وسائل کی لوٹ مار کے ساتھ ساتھ چین کا گھیراو کر کے اس کے معاشی عروج کو روکنا ہے۔ لیکن تصادم کی شدت لامحالہ خود سامراجی طاقتوں کے درمیان شدید جھڑپوں کا باعث بن رہی ہے خاص طور پر امریکہ اور یورپ کے درمیان بلکہ حریف یورپی طاقتوں کے درمیان بھی تضادات پھٹ رہے ہیں۔
امریکہ نے حالیہ مہینوں میں تقریباً روزانہ کی بنیاد پر چین کے خلاف نئی اشتعال انگیزی شروع کر رکھی ہے۔ ون چائنا پالیسی جو 50 سال تک چین کے ساتھ تعلقات پر استوار تھی اب ترک کر دی گئی ہے۔ امریکی فوج چینی ساحل کے قریب ایک کے بعد ایک جارحانہ فوجی مشقیں کر رہی ہیں۔ گزشتہ ہفتے فلپائن کے ساتھ تاریخ کی سب سے بڑی مشترکہ فوجی مہم کا آغاز ہوا۔
اس کشیدہ صورتحال میں میکرون نے ایک بڑے اقتصادی وفد کے ہمراہ چین کا دورہ کیا صدر شی جن پنگ نے میکرون کا پرجوش استقبال کیا اور متعدد منافع بخش اقتصادی سودوں پر اتفاق کیا اور یوکرین کے لیے چینی صدر شی کے امن اقدام کی تعریف کی۔
دورے سے واپس روانگی پر فرانسیسی صدر نے پھر کھل کر اپنا اظہار کیا جو بہت سے دوسرے یورپی سیاست دان اسی طرح سوچتے ہیں لیکن سیاسی وجوہات کی بناء پر کھل کر اظہار نہیں کرنا چاہتے۔ لیس ایکوس اور پولیٹیکو جریدے کے صحافیوں کے ساتھ ایک انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے خود کو امریکہ کی چین کے بارے میں پالیسی سے سختی سے دور رکھا۔
انہوں نے کہا کہ 'یورپ حقیقی سٹریٹجک خود مختاری کے عناصر پیدا کرنے کے عمل میں ہے اور اسے کسی قسم کے گھبراہٹ کے اضطراب میں نہیں پڑنا چاہیے اور امریکی پالیسی پر عمل نہیں کرنا چاہیے۔' اسے کسی بلاک منطق میں داخل نہیں ہونا چاہئے اور خود کو بحرانوں میں ڈالنے کی اجازت نہیں دینا چاہئے 'جو کہ ہمارے نہیں ہیں۔' اگر یہ تائیوان کے موضوع پر صرف ایک 'پیروکار' رہے اور 'امریکی رفتار اور چین حد سے زیادہ ردعمل کو اپناتا ہے'، تو یورپ ایک 'زیر سایہ اور ماتحت' بن جائے گا حالانکہ یہ 'تیسرا قطب' ہو سکتا ہے۔
میکرون نے زور دے کر کہا کہ جن 'لڑائیوں' کو لڑنے کی ضرورت ہے وہ 'ہماری سٹریٹجک خودمختاری میں تیزی' اور 'ہماری معیشتوں کے لئے مالیاتی فنڈز کو محفوظ بنانا' ہیں۔ امریکیوں پر انحصار کم کرتے ہوئے یورپی دفاعی صنعت کو وسعت دینا ہے۔ جس چیز کی ضرورت وہ 'یورپی جنگی معیشت' ہے۔
ایک شق میں جو ممکنہ طور پر واشنگٹن میں خاص احتیاط کے ساتھ نوٹ کی گئی تھی وہ میکرون کی جانب سے واضح طور پر امریکی ڈالر کے بطور معروف عالمی کرنسی کے کردار کے خلاف بات تھی۔ انہوں نے کہا، 'میں اس موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک نکتے پر زور دینا چاہوں گا: کہ ہمیں ڈالر کی اضافی علاقائیت پر انحصار نہیں کرنا چاہیے۔'
فرانسیسی سامراج کا نمائندہ۔
میکرون نے فرانسیسی سامراج کے نمائندے کے طور پر اپنی بات کی نہ کہ ایک امن کے حامی کے طور پر۔ ایک طویل عرصے تک وہ چینی پالیسی پر سخت گیر موقف رکھنے والوں میں سے ایک تھے۔ فرانس خود کو ایک ہند اور بحرالکاہل کی طاقت سمجھتے ہوئے جسکے 1.6 ملین باشندوں کے ساتھ سمندر پار علاقوں پر مشتمل اس نے جاپان، بھارت اور دیگر ممالک کے ساتھ چین مخالف اتحاد کی کوشش کی تھی۔
لیکن امریکہ نے اسے اس دوڑ میں دور کر دیا۔ جب امریکہ نے ستمبر 2021 میں برطانیہ اور آسٹریلیا کے ساتھ آکس (آئے یو کے یو ایس) سہ فریقی اتحاد پر دستخط کیے اور آسٹریلیا نے 56 بلین ڈالر مالیت کی فرانسیسی آبدوزوں کی خریداری منسوخ کر دی تو ان کے درمیان تنازعہ بڑھ گیا۔ میکرون نے احتجاج کے طور پر واشنگٹن اور کینبرا سے فرانسیسی سفیروں کو واپس بلایا اور 'یورپی خودمختاری' یا 'اسٹریٹجک خود مختاری' کے لیے اپنی مہم کو تیز کر دیا جس کو اس نے پہلے ہی پیرس کی سوربون یونیورسٹی میں 2017 کے پروگرامی تقریر میں فروغ دیا تھا۔
اقتصادی سیاسی اور عسکری شعبوں میں 'اسٹریٹجک خود مختاری' کے لیے یہ دباؤ بڑے پیمانے پر فوجی تشکیل کے ساتھ ہے۔ تازہ ترین فرانسیسی فوجی بجٹ میں دفاعی اخراجات میں سالانہ 3-4 بلین یورو کے اضافے کا جائزہ کیا گیا ہے۔ 2030 تک فوجی بجٹ بڑھ کر 69 بلین یورو ہو جائے گا جو کہ 2017 میں 32 بلین یورو تھا۔ نصف سے زیادہ فنڈز فرانس کے جوہری ہتھیاروں کی جدید کاری کے لیے مختص کیے گئے ہیں: وار ہیڈز اور میزائلوں کے ساتھ ساتھ رافیل جیٹ طیاروں کی تجدید اور آبدوزیں جو انہیں فائر کرسکتی ہیں۔
پنشن میں کمی کر کے دیگر چیزوں کے ساتھ اس کی مالی اعانت کی جائے گی جس کے خلاف لاکھوں لوگ ہفتوں سے سڑکوں پر نکل رہے ہیں۔ میکرون ان سے آمرانہ اقدامات کے ساتھ ان سے نمٹتے ہیں۔ وحشیانہ پولیس کارروائیوں اور آبادی کی مرضی کے یکسر خلاف اور پارلیمنٹ میں ووٹ کے بغیر یہ اقدامات اٹھائے جا رہے ہیں۔
امریکہ کی چین پالیسی پر میکرون کے ریمارکس پر امریکہ اور اس کے قریبی اتحادیوں میں جیسا کہ توقع کی جا رہی تھی اسے سخت اور ناراض مخالفانہ ردعمل کا سامنا کرنا پڑا۔ نیویارک ٹائمز نے فرانسیسی صدر پر چین پر قابو پانے کی امریکی کوششوں کو نقصان پہنچانے کا الزام لگایا۔ وال سٹریٹ جرنل کے اداریے نے دھمکی دی کہ وہ روس کے خلاف جنگ میں یورپ کو اس جنگ میں اپنے حال پر چھوڑ دے گا جس جنگ کو امریکہ نمایاں طور پر آگے بڑھا رہا ہے اور اس پر اخراجات کر رہا ہے:
میکرون چاہتا ہے کہ امریکہ روس کی جارحیت کے خلاف یورپ کی مدد کے لیے جلدی کرے لیکن بظاہر بحرالکاہل میں چینی جارحیت کے خلاف غیر جانبداری کا عہد کرتا ہے۔ تمہارا شکزیہ میرے دوست.
پولینڈ کے وزیر اعظم میٹیوز موراویکی نے کہا کہ امریکہ کے ساتھ اتحاد یورپی سلامتی کے لیے 'مکمل بنیاد' ہے۔ میکرون کا نام لیے بغیر انہوں نے الزام لگایا کہ وہ 'سب کے ساتھ روس کے ساتھ اور مشرق بعید کی طاقتوں کے ساتھ کام کرنے' کا خواب دیکھ رہے ہیں۔
جرمنی کی جانب سے تنقید
یورپی یونین اور جرمنی کی جانب سے بھی شدید میکرون کے دورہ چین پر احتجاج کیا گیا۔ یوروپی کمیشن نے کہا کہ میکرون نے کمیشن کی صدر ارسولا وان ڈیر لیین کے ساتھ جو اتفاق کیا تھا اس کے برعکس کیا ہے جنہوں نے ان کے ساتھ بیجنگ کا سفر کیا اور چین کی تائیوان پالیسی پر سخت تنقید کی۔
جرمن نیوز میگزین ڈیر اسپیگل نے سرخی لگائی: 'کیا میکرون اب مکمل طور پر دماغ سے فارغ ہو گیا ہے؟' جنوبی جرمن اخبار (زیٹنگ) نے فرانسیسی صدر پر 'امریکہ کے ساتھ یورپ کے تعلقات میں بگاڑ پیدا کرنے اور ساتھ ہی پورے یورپ میں خندق کھودنے' کا الزام لگایا۔ کرسچن ڈیموکریٹک یونین کے سیاست دان جوہان وڈیفل نے تنقید کرتے ہوئے کہا کہ: 'زیادہ یورپی خودمختاری کے لئے میکرون کی اپیل بالکل درست ہے: ہم امریکہ کے خلاف نہیں بلکہ اس کے ساتھ چلتے ہوئے اس مقصد کو تکمیل کر سکتے ہیں۔'
جرمن وزارت خارجہ نے کہا کہ میکرون چین کے ساتھ سخت مقابلے کی مخالفت کر رہا ہے لیکن یہ خیال کہ تائیوان پر چینی حملے کی صورت میں یورپ غیر جانب دار رہ سکتا ہے یہ مضحکہ خیز ہے۔ اس کے علاوہ امریکہ سے قریبی تعلق کو کسی یورپی خطرے کے طور پر نہیں دیکھا گیا بلکہ یورپی سلامتی کے لیے ایک شرط کے طور پر دیکھا گیا جو کہ خاص طور پر وسطی اور مشرقی یورپ کے حوالے سے ہے۔
سرکاری اکاؤنٹس کے مطابق جرمنی کی وزیر خارجہ اینالینا بیرباک نے جمعرات کو چین کا سفر کیا تاکہ میکرون کی طرف سے تباہ شدہ یورپی اور ٹرانس اٹلانٹک اتحاد کے تاثر کو بحال کیا جا سکے۔ اپنے چینی ہم منصب کن گینگ کے ساتھ ملاقات میں اس نے زور دیا کہ چین کا تائیوان کے ساتھ زبردستی دوبارہ اتحاد یورپ کے لیے ناقابل قبول ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس نے میکرون کے ریمارکس کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ فرانسیسی چین کی پالیسی یورپی چین کی پالیسی کی بالکل 'عکاس' کرتی ہے۔
حقیقت یہ ہے کہ برلن بھی طویل عرصے سے 'اسٹریٹیجک خود مختاری' کی پالیسی پر عمل پیرا ہے چاہے وہ اس کے لیے کوئی دوسری اصطلاحات استعمال کرے۔ سرکردہ سیاست دان اور ذرائع ابلاغ کا خیال ہے کہ نیٹو ایک عارضی اتحاد ہے اور امریکہ اور یورپ کے عالمی اقتصادی مفادات طویل مدت میں مطابقت نہیں رکھتے اور جرمنی کو اپنی فوجی طاقت کے بل بوتے پر اپنے سامراجی مفادات کی پیروی کرنی چاہیے۔
میکرون کے تبصرے پر اخبار فرینکفرٹر آلگیمین زیتونگ (ایف آے زیڈ) نے تبصرہ کرتے ہوئے وضاحت کی کہ یورپی باشندے ڈونلڈ ٹرمپ کی صدارت کے بعد سے جانتے ہیں کہ 'زندگی کے ہر معاملے میں واشنگٹن پر مزید بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔' ایسا ہی ایک برج 2024 میں دوبارہ آسکتا ہے اور مزید کہا کہ میکرون کا یہ تجزیہ کہ یورپ کو اسٹریٹجک خودمختاری جیسی چیز کے لیے کوشش کرنی چاہیے اس لیے ابتدائی طور پر غلط نہیں ہے۔
جس طرح پہلے 2003 میں عراق جنگ میں جرمنی کی گیرہارڈ شروڈر کی حکومت اور جارج ڈبلیو بش کے تحت امریکہ کی حکومت کے درمیان شدید تنازعات کو جنم دیا تھا۔ 2014 کے بعد سے جرمنی باضابطہ طور پر ایک بار پھر عالمی فوجی طاقت کے طور پر اہم کردار ادا کرنے کے ہدف پر عمل پیرا ہے۔ اور 2017 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ تصادم کے بعد جرمن چانسلر انجیلا مرکل نے اعلان کیا کہ وہ وقت ختم ہو گیا جس میں جرمنی مکمل طور پر دوسروں پر انحصار کر سکتا تھا۔ اس نے کہا کہ 'ہم یورپیوں کو واقعی اپنی تقدیر اپنے ہاتھ میں لینا ہو گی،'
جرمنی اور فرانس کے درمیان رقابت
لیکن یورپی عظیم طاقت کی پالیسی کا سوال اور اسکا تعاقب لامحالہ طور پر جرمنی اور فرانس کے درمیان پرانی دشمنیوں کو واپس منظر عام پر لاتا ہے جن کے درمیان تین بڑی جنگیں 1871 اور 1945 میں شدید طو پر لڑی گئیں۔ فرانکو جرمن شراکت داری اور جنگ کے بعد کا یورپی اتحاد امریکی سرپرستی میں پروان چڑھا ہے کیونکہ اسکی جغرافیائی سیاسی اور اقتصادی وجوہات تھیں لہٰزا اس بنا پر مغربی یورپ کو پرسکون کرنے میں انکی دلچسپی تھی۔
یہاں تک کہ اگر پیرس اور برلن یورپ کو ایک آزاد عالمی طاقت کے طور پر ترقی دینے کے مقصد پر متفق ہو سکتے ہیں یعنی ایک 'تیسرے قطب' جیسا کہ میکرون نے کہا ہے تو پھر یہ سوال سوال پیدا ہو گا کہ اس کا حاکم کون ہو گا اور یورپ پر کس کا غلبہ ہو گا یہ ناقابل مصالحت تنازعات کو جنم دے گا۔ خاص طور پر یوکرائنی جنگ کے آغاز کے بعد سے جرمن اور فرانسیسی مفادات واضح طور پر مختلف ہو چکے ہیں۔
جرمنی جو ابتدائی طور پر اپنے اہم توانائی فراہم کرنے والے ملک روس کے ساتھ اپنے اقتصادی تعلقات منقطع کرنے سے گریزاں تھا پھر یوکرائنی جنگ کے آغاز میں امریکہ کے ساتھ شامل ہوا تھا اور اب وہ ہٹلر کے بعد جنگ کو دوبارہ ہتھیاروں کے سب سے زیادہ وسیع پروگرام کے لیے استعمال کر رہا ہے۔
اس کا بیان کردہ ہدف یورپ کا 'فوجی رہنما' بننا ہے۔ اسکا کھل اظہار سابق وزیر دفاع کرسٹین لیمبریچٹ نے کچھ یوں کیا 'جرمنی کا حجم، اس کا جغرافیائی محل وقوع، اس کی معاشی طاقت، مختصر یہ کہ اس کا وزن ہمیں ایک اہم طاقت بناتا ہے، چاہے ہم اسے پسند کریں یا نہ کریں اور فوجی طور پر بھی،‘‘ اس نے یہ چھ ماہ قبل کہا تھا۔
جرمنی نے اپنے اسلحے کے بجٹ میں تین گنا اضافہ کر دیا ہے اور وہ امریکہ کے بعد سب سے بڑا جنگجو بن گیا ہے۔ کیل انسٹی ٹیوٹ فار دی ورلڈ اکانومی کے حساب سے امریکہ نے جنگ کے پہلے سال میں 71.3 بلین یورو خرچ کیے جبکہ جرمنی نے 7.4 بلین یورو اور فرانس نے صرف 1.8 بلین یورو خرچ کیے۔
اخبار ایف آے زیڈ کے ایک تبصرے کے مطابق میکرون کے انٹرویو کا مقصد کم از کم 'وفاقی حکومت جس نے فروری 2022 سے ریاستہائے متحدہ سے اپنی قربت کا مظاہرہ کیا ہے اور فرانکو- جرمن محور سے کم وابستگی ظاہر کی ہے۔'
یوکرائن کی جنگ کے ساتھ جرمنی اپنے جیوسٹریٹیجک مفادات کی پیروی کرتا ہے جس میں فرانس کے مفادات شامل نہیں ہیں۔ روس کو زیر تسلط کر نے کے علاوہ جرمن سامراج کا تعلق مشرقی یورپ یا 'وسطی یورپ' کے تسلط سے ہے جیسا کہ اسے پہلے بھی کہا جاتا تھا- جو کہ پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کے دوران اس کے اہم ترین جنگی مقاصد میں سے ایک تھا۔ دوسری عالمی جنگ میں شکست کے بعد اس کہ زیر اثر اس خطے میں اس نے اپنے بڑے اور سب سے پہلے جرمن علاقے ترک کیے۔
آج، پولینڈ، بالٹک ریاستیں اور دیگر مشرقی یورپی ممالک جرمن معیشت کے لیے سستی مزدوری کا ایک اہم ذخائر ہیں۔ جب بھی امریکہ کے ساتھ تنازعہ ہوا تو ان ممالک نے اپنا رخ واشنگٹن کی طرف کر لیا۔
یوکرائن کی جنگ میں امریکہ کے ساتھ اتحاد کو خطرے میں نہ ڈالنے کے لیے جرمن حکومت چین سے مزید دور ہو رہی ہے جس کے ساتھ اس کے اب تک کی تمام یورپی ریاستوں کے قریبی تعلقات رہے ہیں۔ اقتصادی طور پر، چین اب بھی جرمنی کا سب سے اہم تجارتی شراکت دار ہے۔ 2022 میں جرمن کمپنیوں نے چین میں 11.5 بلین یورو کی سرمایہ کاری کی ہے جو پہلے سے کہیں زیادہ ہے۔
جرمن حکومت اب مزید آگے بڑھ رہی ہے اور جاپان، بھارت، برازیل اور دیگر ممالک کے ساتھ نئے اتحاد کی تلاش میں ہے۔ بیجنگ کے دورے میں بیرباک نے چین کو ایک 'ساتھی، مدمقابل اور نظامی حریف' کے طور پر بیان کیا اور 'غیر صحت بخش انحصار' پر اعتراض کیا لیکن اس بات پر بھی زور دیا کہ اس کا مطلب ہے 'تعلق کو منقطع نہیں کرنا'۔
نیٹو کی طرف سے یوکرین میں جنگ میں مسلسل اضافہ چین کے خلاف امریکہ کی منظم جنگی تیاریاں اور جرمنی اور فرانس کی حریف عظیم طاقت کی خواہشات یہ ظاہر کرتی ہیں کہ سرمایہ دارانہ بنیادوں پر جنگ کے خطرے سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ جو چیز سامراجی عظیم طاقتوں کو تیسری عالمی جوہری جنگ کے جنون کی طرف دھکیل رہی ہے وہ ہے — جیسا کہ 1914 اور 1939 — سرمایہ دارانہ نظام کا ناقابل حل بحران ہے جو صرف سماجی عدم مساوات، معاشرتی زوال اور ماحولیاتی تباہی ہی لا سکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ بین الاقوامی محنت کش طبقے کے متحرک ہونے پر مبنی ایک بین الاقوامی جنگ مخالف تحریک کی تعمیر کی جائے جس میں عسکریت پسندی کے خلاف جدوجہد اور جنگ کو اس کے مقصد یعنی سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد کے ساتھ ملایا جائے۔ یہ سوال 30 اپریل کو انٹرنیشنل کمیٹی آف دی فورتھ انٹرنیشنل کے زیر اہتمام یوم مئی منانے کے لیے دنیا بھر میں آن لائن ریلی کے مرکز میں ہوگا۔
