اُردُو
Perspective

سمندر میں یکے بعد دیگرے دو واقعات: ایک آبدوز ٹائٹن اور دوسرے میں سینکڑوں مہاجرین بحیرہ روم میں ڈوب گئے۔

یہ 22 جون 2023 کو انگریزی مى شائع ہونے 'Two episodes at sea: The submersible Titan and hundreds of refugees drowned in the Mediterranean' والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

اتوار کو سینٹ جانز نیو فاؤنڈ لینڈ سے تقریباً 435 میل جنوب میں شمالی بحر اوقیانوس میں لاپتہ ہونے والے آبدوز ٹائٹن کے ڈرامے کو دنیا بھر میں لاکھوں لوگ فالو کر رہے ہیں۔ بحری جہاز کے پانچ مسافروں نے اپنے شوق کی خاطر ٹائٹینک کے ملبے کو دیکھنے کے لیے سفر کیا وہ سمندری لائنر جو اپریل 1912 میں تقریباً 1,500 متاثرین کے ساتھ ڈوب گیا تھا جو سطح سے 12,500 فٹ (3,800 میٹر) نیچے واقع ہے۔

 ان پانچوں کی قسمت جن میں اسٹاکٹن رش جو کہ اوشین گیٹ ایکسپیڈیشن کے سی ای او (وہ کمپنی جو ٹائٹینک کے لیے سیاحت فراہم کرتی ہے) امیر برطانوی تاجر اور مہم جو ہمیش ہارڈنگ اور پاکستانی کارپوریٹ ڈائریکٹر شہزادہ داؤد اور ان کے بیٹے سلیمان اور اسکے علاوہ فرانسیسی غوطہ خور ماہر پال- ہنری نارجیولیٹ ہیں جو اس وقت نامعلوم ہیں۔ اتوار کی صبح جب جہاز اترا تو مبینہ طور پر انہیں 96 گھنٹے آکسیجن کی فراہمی کی موجودگی میسر تھی۔

[Photo: OceanGate Expeditions]

یہ واقعہ ایسا ناگزیر ہے کہ جس میں وقت اور عناصر کے خلاف دوڑ ہو لاکھوں لوگوں کی دلچسپی اور تشویش کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہے۔ لوگ جان لیوا حالات میں پھنسے ہوئے لوگوں کے لیے دل کی گہرائیوں سے اور فطری طور پر محسوس کرتے ہیں اور موجودہ صورت میں یہ اس امید کے خلاف امید کرتے رہیں گے کہ ٹایٹن کے مسافروں کو ان کی خوفناک صورتحال سے نکالا جا سکے گا۔

افراد کی سماجی حیثیت ہمارے رویے کو متاثر نہیں کرتی۔ سوشلسٹ تحریک میں کسی ایسے شخص کے لیے کوئی جگہ نہیں ہے جو مٹھی بھر ارب پتیوں کی ممکنہ موت پر خوش ہو کر یہ تصور کرے کہ اس طرح کا واقعہ دنیا کو ایک بہتر جگہ بنا دے گا۔ حقیقت میں سماجی انقلاب کا عمل ہمدردی میں ایک عمومی ترقی کے ساتھ جڑا ہوا ہے اور اسی ہی کی ضرورت ہے جیسا کہ لیون ٹراٹسکی نے ایک بار مشاہدہ کیا تھا کہ لوگوں کی 'انتہائی ترقی یافتہ نفسیات کے ساتھ' کا عمل ہی ترقی کا باعث ہوتا ہے۔

اس کے باوجود اس ممکنہ طور پر المناک واقعہ کے بارے میں چوکنا دینے کا مناسب عمل اور ادراک اس کے ذریعہ اٹھائے گئے تمام سنگین سماجی مسائل کا عمل مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا ہے۔

سب سے پہلے کچھ دردناک لیکن پھر تاریخی ستم ظریفی ذہن میں آتی ہے۔ اصل آر ایم ایس ٹائٹینک کے ڈوبنے اور اس کے موجودہ دور کی شبیہ اور ٹائٹن کے درمیان مماثلتیں ہیں جو اب چھوٹے پیمانے پر چلائی گئی ہیں۔ جیسا کہ 1912 کی تباہی میں نمایاں امیر متاثرین بھی تھے جن میں جان جیکب ایسٹر چہارم بزنس میگنیٹ اور تباہ شدہ جہاز پر سوار سب سے امیر ترین فرد اور پنسلوانیا ریل روڈ کے ایگزیکٹو جان تھیئر شامل تھے۔

1912 کے ڈوبنے اور بہت زیادہ ہلاکتوں کی تعداد جیسا کہ مختلف تحقیقات نے دکھایا ہے مکمل طور پر بچایا جا سکتا تھا۔ کیونکہ وہ کارپوریٹ منافع کی بھوک، ناقص منصوبہ بندی، ان گنت غلطیوں اور سادہ حماقتوں کی مشترکہ پیداوار تھے۔ امریکن سوشلسٹ پارٹی کے رہنما یوجین وی ڈیبس نے اس وقت نشاندہی کی تھی 'اگر یہ غرور اور عیش و عشرت لالچ اور عیش و آرام نہ ہوتا جس نے بالائی عرشہ(ڈیک) کو پرتکلف نمائش گاہ میں بدل دیا تو ٹائٹینک کبھی بھی سمندر کی تہہ تک نہ جاتا۔ یوجین وی ڈیبس نے ' صدارتی انتخابی کی مہم میں تقریباً 1 ملین ووٹ حاصل کیے۔

اسی طرح یہ یقین کرنے کی وجہ معلوم ہوتی ہے کہ اوشین گیٹ کی سرگرمیاں جانچ پڑتال کے قابل ہیں۔ 2018 میں کمپنی کے ڈائریکٹر آف میرین آپریشنز ڈیوڈ لوچریج نے جو میڈیا میں بیان کیا گیا ہے اسے 'ایک خوفناک کوالٹی کنٹرول رپورٹ' کے طور پر سینئر انتظامیہ بشمول سی ای او اسٹاکٹن رش کے سامنے پیش کیا اور ان کی کوششوں کی وجہ سے انہیں برطرف کر دیا گیا۔ لوچریج نے اپنی رپورٹ کا آغاز اس بات پر زور دیتے ہوئے کیا کہ اب وقت آگیا ہے کہ 'ان اشیاء کو مناسب طریقے سے حل کیا جائے جو اہلکاروں کے لیے حفاظتی خطرہ بن سکتے ہیں' اور یہ کہ 'متعدد مسائل کی وجہ سے سنگین حفاظتی خدشات لاحق ہیں۔'

اور بچاؤ کی کوششوں سے خوفناک معاملات وابستہ ہیں۔ جس طرح ٹائٹینک میں صرف 20 لائف بوٹس تھیں اور اس نقط نظر سے وہ 1178 افراد کو سمیٹنے کے قابل تھیں لیکن جہاز میں سوار 2200 افراد میں سے نصف سے کچھ زیادہ اور ان میں سے بہت سے سمندر میں صرف آدھی بھری ہوئی تھیں۔

یہاں تک کہ اگر آبدوز ٹائٹن کی نشان دھی کر بھی لی جاتی ہے تو جان بچانے کی کوششوں میں اس حقیقت کی وجہ سے رکاوٹ پیدا ہوتی کہ کم از کم حکومتی ہاتھوں میں فی الحال کوئی بھی 'بچاؤ کی صلاحیت' موجود نہیں ہے۔ فوربس کے ایک تبصرے میں حیران کن طور پر بتایا گیا ہے کہ جیسا کہ 'انتہائی سیاحتی مہم جوئی کے لیے جو عالمی منڈی ابھری ہے،' آبدوز بچاؤ اب 'بڑے پیمانے پر پرائیویٹائزڈ کوشش' کا حصہ بن چکا ہے اور 'زیادہ تر حکومتوں کے پاس پانی کے اندر پھنس جانے والے لاپتہ بحری جہازوں کو مدد پیش کرنے کے لیے بہت کم ہی کچھ بچا ہے۔ ' امریکہ کی بچاؤ کی صلاحیتوں میں کمی ڈرامائی طو پر منظر عام آ رہی ہے۔ 1960 میں امریکی بحریہ نے نو سرشار آبدوز ریسکیو بحری جہازوں اور دو فلیٹ ٹگس کو زیر سمندر بچاؤ کے کام کے لیے نصب کیا۔ لکین آج اس سروس کے پاس ایک وقف شدہ زیر سمندر ریسکیو جہاز بھی نہیں ہے۔'

ایک بار پھر ہمیں یہ دردناک واقع بتاتا ہے کہ امریکہ کی وسیع فوج، سیکورٹی اور 'انسداد دہشت گردی' کا آلہ صرف زندگیوں کو ختم کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے ناکہ انہیں بچانے کی۔

موجودہ المیہ 'انتہائی سیاحت' کو مثبت کی روشنی میں نہیں پرکھتا ہے۔ پانچ افراد کو زندہ اور اچھی حالت میں دیکھنے کی خواہش ان کی احمقانہ 'مہم جوئی' کی منظوری کا اشارہ نہیں ہے۔ اکثر ایسے افراد جن کے پاس بہت زیادہ پیسہ ہوتا ہے بہت زیادہ وقت ہوتا ہے ان کے سروں میں بہت کم دماغ ہوتا ہے بیہودہ اور حد سے زیادہ خود اعتماد انہیں اپنی اور دوسرے لوگوں کی زندگیوں کو خطرے میں ڈال دیتا ہے۔ بیزوس، برانسن، مسک اور ان کے جیسے لوگ کسی کے لیے کوئی سماجی کام نہیں کرسکتے وہ ایک طفیلی وجود کی ماند ہیں۔

طبقے کا سوال دونوں سانحات میں چھری کے تیز دھار بلیڈ کی طرح اندر گھس جاتا ہے۔ تقریباً 709 ٹائٹینک مسافروں میں سے تیسری (یا جہاز کا وہ حصہ جو مسافروں کو سستا پڑتا ہے) کلاس میں ایک اندازے کے مطابق 537 کی موت ہوئی تھیں۔ تقریباً 80 فیصد مرد تیسرے درجے کے مسافروں کی موت ہو گئی جب کہ صرف 3 فیصد فرسٹ کلاس خواتین کو اس قسمت کا سامنا کرنا پڑا۔ جیسا کہ اچھی طرح سے دستاویز کیا گیا ہے ٹائی ٹینک پر سوار مسافروں کو ان کے نچلے عرشہ میں جنگلاوُں کے دروازوں کے ذریعے اپنی جگہ تک محدود رکھا گیا تھا جن میں سے کچھ پانی سے بھرے ہوئے جہاز کی وجہ سے کبھی کھلے نہیں تھے۔

ایک سو گیارہ سال بعد طبقاتی تقسیم ایک اور بھی بلند اور مہلک مرحلے تک پہنچ گئی ہے۔ یہ اب دو الگ الگ جہازوں کی کہانی بن چکی ہے: ایک طرف ٹائٹن اور دوسری طرف ماہی گیری کی کشتی جو 13 جون کو بحیرہ روم میں ڈوب گئی تھی جس سے سینکڑوں مایوس مہاجرین ہلاک ہو گئے تھے۔

بدھ 14 جون 2023 کو یونان کے ساحلی محافظ کی طرف سے فراہم کردہ ایک ہینڈ آؤٹ تصویر میں دکھایا گیا ہے کہ بہت سے لوگ ایک پھٹی ہوئی ماہی گیری کی کشتی پر عملی طور پر ڈیک کے ہر آزاد حصے کو ڈھانپ رہے ہیں جو بعد میں الٹ گئی اور جنوبی یونان میں ڈوب گئی جس سے کم از کم 79 افراد ہلاک اور بہت سے لاپتہ ہو گئے۔ [اے پی فوٹو/ہیلینک کوسٹ گارڈ بذریعہ اے پی] [AP Photo/Hellenic Coast Guard via AP]

جلدی اور تیزی سے دیگر دولت مند افراد کے اسی جہاز پر سوار ہونے کا تصور کرنا یہاں تک کہ اس کے بالائی عرشہ پر بھی ممکن نہیں ہے اور پھر ان بدقسمت لوگوں کا تصور کیا جائے جو کہ امیر مہم جوؤں کے ایک گروپ کو لے جانے والے آبدوز کے قریب کہیں بھی ہوں جو کہ ایک ٹکٹ کے لیے 250,000 ڈالر ادا کر رہے ہیں۔ یہ اب دو مکمل طور پر الگ الگ دائرے ہیں ایک دوسرے سے مخالف، دور اور دوسرے سے غیر متاثر ہیں۔

شمالی بحر اوقیانوس کے واقعہ کی نہ روکنے والی میڈیا رپوٹینگ یونانی ساحل پر پچھلے ہفتے کے خوفناک سانحے کے ڈوبنے کی رپورٹینگ سے بالکل مختلف ہے۔ یونان میں ڈوبنے والے افراد جن میں پاکستانی، مصری، شامی، افغان اور فلسطینی، زیادہ تر بے نام اور جن کا عوامی طور پر کوئی چرچا نہیں ہوا مر گئے۔ اور اس بات کا امکان نہیں ہے کہ ان میں سے کچھ کی شناخت ہوسکے گی۔

ایک اور سخت ستم ظریفی یہ ہے کہ طرف دو دولت مند پاکستانی ٹائٹن کے مسافر ہیں جبکہ دوسری طرف سینکڑوں غریب پاکستانی مرد عورتیں اور بچے جو بحیرہ روم میں دم توڑ گئے جس سے ان کے آبائی ملک میں غم و غصہ اور احتجاج کی لہر ہے۔

 ڈوبنے والوں کو بچاؤ کی کوششوں میں سہولت فراہم کرنے سے کہیں دور مختلف یورپی حکومتیں اور مرکزی طور پر یونان ان حالات کے لیے براہ راست ذمہ دار ہیں جنکی وجہ سے مسافر بڑے پیمانے پر ڈوبنے کا باعث بنے۔ افسران نے جھوٹ بولا اور اپنے کردار پر پردہ ڈالا اور مرنے والوں اور زخمیوں کے بارے میں بہتان تراشی کی۔ زندہ بچ جانے والے پناہ گزینوں کو گندے گوداموں میں پھینک دیا گیا۔ میڈیا کی شخصیات حقائق بیان کرنے میں مشکل سے جاگ سکیں۔ بڑے پیمانے پر اموات اب ان لوگوں کے لیے حسب معمول ایک کاروبار بن چکا ہے۔ رپورٹنگ کا واضح مطلب یہ تھا کہ مصیبت زدہ پناہ گزینوں نے اپنی قسمت داوُ پر لگا دی تھی۔ 'قلعہ یورپ' کی حقیقت جیسے ' امریکہ کے گرد دیوار'، ناقابل بیان غیر انسانی سرکاری حقائق ہیں۔

یونان کے قریب ماہی گیری کے جہاز پر سوار سینکڑوں افراد کو بچانا ایک بار جب وہ واضح طور پر خطرے میں داخل ہو گئے تھے آسان تھا جبکہ اس کے برعکس جہاز کا سمندر کی تہہ میں غرق ہونے کے بعد مسافروں کو بچانے کا عمل کہیں زیادہ مشکل ہوتا۔ کسی بھی اسی حکومت یا بحری قوت کے لیے جو ایسا کرنا چاہتی ہو۔ یہ سوال اٹھانا جائز ہے کہ آیا اس میں ملوث یورپی حکومتوں کے قتل عام کے ریکارڈ کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ مثال قائم کرنے اور دوسرے مسافروں کو دھمکانے اور ڈرانے کے ذریعہ پناہ گزینوں کی موت کو جان بوجھ کر ڈوبنے کے لیے چھوڑ دیا گیا ہو تاکہ دوسروں کو سنگین وارنینگ دے سکیں۔

بلاشبہ پورے سانحے سے آسانی سے بچا جا سکتا تھا اگر فرار ہونے والے لوگوں کو محض وقار کے ساتھ اور بغیر کسی رکاوٹ کے ایک براعظم یا ملک سے دوسرے براعظم تک جانے کی اجازت دی جاتی۔ ان کی بڑے پیمانے پر ہجرت سامراجی جنگوں اور مغربی طاقتوں کی طرف سے کی گئی دیگر فوجی اور معاشی کارروائیوں کی وجہ سے ہوئی ہے وہی حکومتیں جو اب سمندر میں ان کی موت کی صدارت کر رہی ہیں۔

سماجی عدم مساوات، نو نوآبادیاتی جنگ، آمریت اور تارکین وطن کے خلاف نفرت کی نشوونما، سرکاری سیاست اور میڈیا کا گھٹیاپن اور دنیا کہ 'افسوسناک حالات میں اسکے معنی میں ' ان دو متضاد اقساط کا ڈیبیوٹینٹ(نوجوان امیر یا اعلیٰ طبقے کے جو پہلی بار فیشن ایبل سماجی تقریبات میں جاتے ہیں) ہے۔ تاہم بلا شبہ ایک غیر فعال مجرمانہ سماجی نظام کے سامنے بڑے پیمانے پر آبادی کی عمومی تحریک کا رجحان بائیں بازو کی جانب سماجی انقلاب کی طرف ہے۔

Loading