اُردُو
Perspective

بائیڈن بھارت کے انتہائی دائیں بازو کے وزیر اعظم مودی کو اعلی اعزاز عطا کرنے کے لیے واشنگٹن کی قیادت کر رہے ہیں۔

یہ 22 جون 2023 کو انگریزی میں شائع 'Biden leads Washington in feting Modi, India’s far-right prime minister' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

صدر جو بائیڈن اور پوری امریکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے مطابق ہندوستان کے انتہائی دائیں بازو کے ہندو بالادستی کے وزیر اعظم نریندر مودی اپنے چار روزہ امریکی دورے کے قیام کے دوران جو جمعہ کو ختم ہو رہا ہے ہر اعزاز اور توجہ کا مرکز رہے گا۔

صدر جو بائیڈن، خاتون اول جل بائیڈن اور ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی جمعرات 22 جون 2023 کو واشنگٹن میں وائٹ ہاؤس کے جنوبی لان میں ریاستی آمد کی تقریب کے اختتام پر وائٹ ہاؤس میں چہل قدمی کر رہے ہیں۔ [اے پی فوٹو/اینڈریو ہارنک] [AP Photo/Andrew Harnik]

شاندار اور تقریب سے بھرپور سرکاری دورے کے علاوہ مودی کو جمعرات کی سہ پہر امریکی کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کے لیے مدعو کیا گیا تھا۔ اس طرح وہ ونسٹن چرچل اور یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلسنکی کے ہمراہ صرف مٹھی بھر غیر ملکی سیاسی رہنماؤں میں سے ایک طور پر ان میں شامل ہو گئے ہیں جنہوں نے دو بار ایسا اعزاز حاصل کیا ہے۔

تمام رپورٹوں کے مطابق بائیڈن اور مودی سربراہی اجلاس کا مقصد ہند-امریکہ 'عالمی اسٹریٹجک شراکت داری' جس کا حدف چین کے خلاف ہے کو اگلی سطح تک آگے بڑھانا ہے۔

اربوں ڈالر کے ہندوستانی اسلحے کی خریداری اور مشترکہ فوجی پیداوار کے ساتھ اسکی ترقی اور تعمیر کے اقدامات اور خاص کر چین کے لیے ایک حریف پیداواری سلسلہ کے مرکز کے طور پر ہندوستان کے ابھرنے کے لیے اقدامات اہم سربراہی اجلاس کو 'پایہ تکمیل ' کرنے کے اہداف کا مرکز ہیں۔

جارج ڈبلیو بش اور براک اوباما سے لے کر ڈونلڈ ٹرمپ اور اب بائیڈن تک امریکی صدور ریپبلکن اور ڈیموکریٹک کے جانشینوں نے 'مشترکہ اقدار' پر مبنی دنیا کی سب سے زیادہ آبادی والی 'جمہوریتوں' کے اتحاد کے طور پر ہند-امریکہ کی شراکت داری پر انہیں آسامی بنانے پر زور دیا ہے۔ '

آج یہ جھوٹ پہلے سے کہیں زیادہ صریح اور فحش ہے۔ اپنے نو سال کے اقتدار کے دوران مودی اور اس کی ہندو بالادستی پسند بی جے پی نے مسلم مخالف اور اقلیت مخالف تعصب اور تشدد کو کھلے عام ہوا دیتے ہوئے جمہوری حقوق پر زبردست وار کیا ہے۔

اس میں گائے کے ذبیحہ پر پابندی اور ماروائے قانون کیانصاف کے ذریعے نافذ کیے جانے والے امتیازی قوانین شامل ہیں۔ مسلم حکومت کے مخالفین کے گھروں کو بلڈوزر کرنا۔ وسیع انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر سنسرشپ اور انسداد دہشت گردی کے سخت قوانین کے تحت صحافیوں کو مقدمے کے بغیر غیر معینہ مدت تک جیل بھیجنے کے ساتھ لیبر کوڈ 'اصلاح' کی منظوری جو زیادہ تر ہڑتالوں کو مجرم اور غیر قانونی قرار دیتی ہے۔

یہاں تک کہ دائیں بازو کی بورژوا اپوزیشن کے لیڈروں کو بھی بی جے پی اور اس کے فسطائی اتحادیوں نے گھیر لیا ہے اور انکی سرزنش میں کوئی کمی نہیں چھوڑی جس کی قیادت ہندو بالادست آر ایس ایس کر رہی ہے جس کے مودی خود تاحیات رکن ہیں اور سیاسی اقتدار پر مکمل اجارہ داری قائم کرنا چاہتے ہیں۔ پرنسپل اپوزیشن پارٹی کانگریس پارٹی کے رہنما راہول گاندھی کو حال ہی میں جعلی جھوٹے الزامات میں سزا سنائی گئی تھی۔ انہیں اگلے سال ہونے والے قومی انتخابات میں حصہ لینے سے روک دیا گیا ہے اوران کی اپیل کے نتائج تک وہ جلد ہی جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو سکتے ہیں۔

امریکی سیاسی اسٹیبلشمنٹ اور میڈیا نے چینی ملک کی تاریخی طور پر مسلم ایغور اقلیت کے خلاف ریاست کی 'نسل کشی' کے صاف طور پر جھوٹے طریقے سے من گھڑت الزامات لگائے ہیں۔ تاہم اس کے باوجود بھارت کے متنازعہ مسلم اکثریتی جموں و کشمیر میں قائم نیم پولیس ریاستی حکومت انکی نظروں سے اوجھل ہو کر خاموشی سے گزر جاتی ہے۔

واضح طور پر مودی اور ان کی بی جے پی ایک آمرانہ حکومت کے لیے سیاسی اور جعلی قانونی بنیادیں قائم کر رہے ہیں جو ایک فرنٹ لائن ریاست کے طور پر چین کے خلاف اپنے اسٹریٹجک حملے میں امریکی سامراج کے لیے خدمات انجام دینے کے مقصد کے حصول کے ساتھ ساتھ تیزی سے پھیلتے اور بڑھتے ہوئے سرکش ہندوستانی محنت کش طبقے کے ظالمانہ استحصال کو نافذ کرے گی۔

بائیڈن انتظامیہ اور واشنگٹن کی سیاسی اشرافیہ مودی کے جرائم کے ریکارڈ اور اس کے آمرانہ اقدامات اور عزائم سے بخوبی واقف ہیں۔ تقریباً ایک دہائی تک اسکی امریکہ پر داخلے پر پابندی عاید کی گی تھی اور پھر 2014 میں ہندوستان کے وزیر اعظم بننے کے بعد ہی اس پابندی کو ختم کیا گیا۔ مودی کو ان کے کردار کی وجہ سے امریکہ میں داخلے سے روک دیا گیا تھا جب گجرات کے وزیر اعلیٰ کی حثیت سے اس نے 2002 میں مسلم مخالف قتل عام کو اکسانے اور سہولت فراہم کرتے ہوئے 2000 افراد کو ہلاک کیا گیا تھا۔ اور جس سے لاکھوں مسلمان بے گھر ہوئے تھے۔

بائیڈن انتظامیہ کے ایک نامعلوم 'سینئر' اہلکار نے حال ہی میں الجزیرہ کو اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ مودی حکومت نے ایک زہریلا فرقہ وارانہ ماحول پیدا کر رکھا ہے جس میں 'مسلمانوں کے خلاف نسل کشی، خود ساختہ اقدام قتل اور دیگر نفرت آمیز تشدد، عبادت گاہوں پر حملے اور گھروں کو مسمار کرنے کی کھلے عام کال دی جاتی ہے وغیرہ جیسے عوامل شامل ہیں۔ اور بعض صورتوں میں مذہبی اقلیتوں پر حملوں میں ملوث افراد کے لیے مہربانی اور یہاں تک کہ معافی بھی شامل ہے۔'

سینیٹر برنی سینڈرز اور الزبتھ وارن سمیت کانگریس کے 75 ارکان نے بائیڈن کو ایک خط پر دستخط کرتے ہوئے اس بات پر زور دیا گیا کہ وہ مودی کے ساتھ ان کے سربراہی اجلاس کے دوران انسانی حقوق کے خدشات کو اٹھائیں یہ فریب اور مکاری کے لبادے میں لیپٹی ہوئی شکوہ وزاری قابل رحم طور پر جمہوری ساکھ کو بچانے کی نام نہاد کوشش ہے تاکہ وہ امریکی سامراجی پالیسی کو بہتر طور پر فروغ دے سکیں جس میں روس کے خلاف جنگ بھی شامل ہے۔

خط کا آغاز اور اختتام ہند-بحرالکاہل میں 'استحکام' یعنی سامراجی مفادات کو برقرار رکھنے میں ہند-امریکہ کی شراکت کی مرکزیت کو اجاگر کرتے ہوئے ہوا اور بائیڈن کی تعریف کی گئی کہ وہ 'انسانی حقوق' کو دوبارہ امریکی خارجہ پالیسی کا مرکزی اصول بنا رہے ہیں۔ جب بات مودی حکومت کی ہو تو وہ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے تھے کہ بائیڈن کو 'سیاسی وسعت کے سکڑنے اور مذہبی عدم برداشت میں اضافے کے علاوہ سول سوسائٹی کی تنظیموں اور صحافیوں کو نشانہ بنانے پریس اور انٹرنیٹ تک رسائی کی آزادیوں پر بڑھتی ہوئی پابندیوں کا ذکر کرنا چاہیے.'

اگر مودی ہندوستان کے سرمایہ دار طبقے کے موزوں نمائندے ہیں ( سب سے اوپر 1 فیصد جو غربت اور بدحالی کے سمندر میں ملک کی 45 فیصد دولت پر قبضہ کرتے ہیں) تو امریکہ کے بائیڈن اور ٹرمپ بھی ان سے مختلف نہیں ہیں۔ جو کہ سابق سینیٹر، نائب صدر اور اب سامراجی سازشوں میں ڈوبے صدر کی حیثیت سے نصف صدی گزار چکے ہیں۔ اس نے امریکی عوام کی پیٹھ کے پیچھے روس کے ساتھ جنگ ​​بھڑکانے اور اسے عملی کرنے کی سازش کی ہے اور اس جنگ کو جاری رکھنے کے لیے 'جتنا وقت درکار ہو اور اسکی جتنی بھی قیمت ادا کرنی پڑے' بشمول ایٹمی جنگ کو چھیڑنا تک ہر اقدامات کو اس نے آگے بڑھایا ہے۔ ٹرمپ فاشسٹ ارب پتی ہے جس نے 6 جنوری 2021 کی ناکام بغاوت کے ذریعے صدارتی آمریت قائم کرنے کی کوشش کی اس دوران وہ سوشلزم کو ختم کرنے کا عزم کر کے حکمران طبقے کی حمایت حاصل کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔

فسطائی ٹھگ مودی کو سرکاری واشنگٹن کے گلے لگانے کا اتفاق اور جوش اس بات کی گواہی دیتا ہے کہ حکمران طبقے کو جارحیت اور جنگ کا بخار چڑھا ہوا ہے جو کہ ان پیچیدہ مسائل سے نکلنے کا واحد راستہ ہے جس کا اسے بیرون ملک امریکی عالمی بالادستی حاصل کرنے اور اندرونی طور پر تیزی سے بے چین محنت کش طبقے کو دبانے میں درپیش ہے۔ یہاں تک کہ جب وہ یوکرین کے ساتھ جنگ ​​میں مصروف ہے امریکی سامراج چین کے ساتھ پُرتشدد تصادم کے لیے کمر بستہ ہے جسے اس نے اپنے اہم اسٹریٹجک حریف کے طور پر شناخت کیا ہے۔

جیسا کہ بائیڈن انتظامیہ ان جڑواں مقاصد کو عملی جامہ پہننے کی جانب گامزن ہے اس کے بارے میں بھڑک اٹھنے کا ایک یقینی عنصر موجود ہے۔ سیکرٹری آف سٹیٹ اینٹونی بلنکن کے 18-19 جون کے حالیہ دورہ چین کا بیان کردہ مقصد چین کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنا تھا جس میں شی کے ساتھ ملاقات بھی شامل تھی۔ یہ حکمت عملی کی تبدیلی واشنگٹن اور اس کے نیٹو اتحادیوں کے لیے ایسے حالات میں روس کے ساتھ جنگ ​​جاری رکھنے کے لیے بہتر حالات پیدا کرنے کے ساتھ جڑی ہوئی ہے جہاں یوکرائنی جوابی کارروائی کی جنگ میں ناکامی کے بعد نیٹو کی براہ راست مداخلت کے لیے شور مچا ہوا ہے۔

 جیسا کہ بائیڈن اپنے چین مخالف اتحادی مودی کا استقبال کرنے کے لیے تیار ہے اور پھر بھی اس نے شی کو ڈکیٹٹر کہا کر اس کے خلاف کوڑے برسا کر زخم پر نمک چھڑکنے کا انتخاب کیا ہے۔

اس نے کہا کہ بھارت کو واشنگٹن کے سٹریٹیجک عزائم کے لیے استعمال کرنا ایک طویل عرصے سے جاری حکمت عملی کا حصہ ہے۔ اسی طرح نیٹو کی توسیع کے ذریعے روس کو اسٹریٹجک طور پر گھیرنے اور یوکرین کو نیٹو اور یورپی یونین پراکسی میں تبدیل کرنے کی امریکی مہم بھی ہے۔

اور اس ہی کی طرح، ہند- امریکی فوجی اور سیکیورٹی 'شراکت داری' کو مکمل لاپرواہی کے ساتھ آگے تیزی سے بڑھایا جا رہا ہے۔

اس میں ایک آگ بھڑکانے والا عنصر بھارت چین سرحدی تنازعہ اور تین چوتھائی صدی پرانی بھارت اور پاکستان کی سٹریٹجک دشمنی کو امریکہ اور چین کے تصادم کے ساتھ ملانا ہے جس میں ہر ایک پر بڑے پیمانے پر نیا دھماکہ خیز الزام عائد کیا جا رہا ہے۔

پہلے ٹرمپ اور اب بائیڈن کی قیادت میں امریکہ نے ہند چین سرحدی تنازعہ میں غیرجانبداری کے کسی بھی انداز کو ترک کر دیا ہے۔ واشنگٹن اب اسے معمول کے مطابق چین اور اس کے جنوبی بحیرہ چین کے پڑوسیوں کے درمیان امریکہ کی طرف سے بھڑکانے والے علاقائی تنازعات کو چینی 'جارحیت' کی مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ ایسے حالات میں جہاں ہندوستان اور چین کے درمیان ہمالیہ کی متنازعہ سرحد پر ایک دوسرے کے خلاف دسیوں ہزار فوجی ٹینک اور جنگی طیارے کھڑے ہیں ہندوستانی حکام اس بات پر فخر کر رہے ہیں کہ 'حقیقی وقت' امریکی انٹیلی جنس نے انہیں مبینہ چینی دراندازی کا کامیابی سے مقابلہ کرنے کے قابل بنایا ہے۔

اپنے سربراہی اجلاس کے دوران بائیڈن شائستگی سے مودی کی مطلق العنان حکمرانی اور ہندو بالادستی کو نظر انداز کریں گے لیکن وہ روس کے ساتھ ہندوستان کے اسٹریٹجک تعلقات کے سوال پر ان پر ضرور دباؤ ڈالیں گے۔ ہندوستانی بورژوازی کے اپنے استحصالی ایجنڈے کی غرض سے نئی دہلی نے امریکی دباؤ کو مسترد کر دیا ہے کہ وہ یوکرین کی جنگ میں روس کو 'جارح' قرار دے اور اسکے خلاف سزا دینے والی پابندیاں عائد کرے۔

اس کے بجائے مودی نے چین کے خلاف امریکی فوجی سٹریٹیجک حملے میں بھارت کو مزید مکمل طور پر شامل کرکے واشنگٹن کو راضی کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور یہ انضمام اس ہفتے کے سربراہی اجلاس میں مزید بڑھ گیا اور جس میں مشترکہ مشقوں اور باہمی تعاون کے معاہدوں کی ایک مسلسل بڑھتی ہوئی تعداد شامل ہے جو پہلے سے ہی وسیع ہے۔ پچھلے تین سالوں میں اور وبائی امراض سے پیدا ہونے والے معاشی اور جغرافیائی سیاسی بحران کے جواب میں ہندوستان نے امریکہ اور اس کے اہم ایشیا پیسیفک اتحادیوں جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ دو طرفہ، سہ فریقی اور چارطرفہ تعلقات کو بڑے پیمانے پر بڑھایا ہے۔ اس نیٹ ورک کے سب سے اوپر کواڈ ہے جو ان کا امریکی قیادت میں نیم فوجی اور سیکیورٹی اتحاد ہے۔

یہ کہ امریکی سامراج روس کے خلاف جنگ چھیڑ رہا ہے جبکہ چین کے ساتھ منظم طریقے سے جنگ کی تیاری کر رہا ہے اس بات کی اہمیت کو اجاگر کرتی ہے کہ یوکرین کی جنگ کوئی قسط نہیں بلکہ دنیا کی ایک نئی سامراجی تقسیم کا ابتدائی مرحلہ ہے۔ لیکن وہی سرمایہ دارانہ تضادات جو سامراجی جنگ میں پھٹ رہے ہیں ساتھ ہی عالمی طبقاتی جدوجہد میں ایک وسیع ابھار کو ہوا دے رہے ہیں اور سوشلسٹ انقلاب کے لیے معروضی حالات پیدا کر رہے ہیں۔

Loading