اُردُو
Perspective

روس میں ناکام بغاوت: وجوہات اور نتائج

یہ 25 جون 2023 کو انگریزی میں شائع ہونے  'The failed coup in Russia: Causes and consequences' والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

ویگنر گروپ ملٹری کمپنی کے مالک یوگینی پریگوزن [اے پی فوٹو] [AP Photo]

روسی کرائے کی فوج ویگنر کے سربراہ ایوگینی پریگوزن کی قیادت میں بغاوت کی کوشش مقامی وقت کے مطابق ہفتہ کی شام کے اوقات میں منہدم ہو گئی۔ بیلاروس کے صدر الیگزینڈر لوکاشینکو کی ثالثی میں ہونے والے ایک معاہدے میں پریگوزن نے روس چھوڑ دیا ہے اور روسی خفیہ سروس (ایف ایس بی) نے ویگنر رہنما کے خلاف پہلے دن شروع کی گئی بغاوت کی تحقیقات کو ختم کر دیا ہے۔ غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ اس معاہدے میں وزیر دفاع شوئیگو اور چیئرمین چیف آف اسٹاف ویلری گیراسیموف کے اور ویگنر کی افریقہ منتقلی شامل ہے۔

پریگوزن نے اپنی بغاوت کا آغاز مقامی وقت کے مطابق جمعہ کی شام کو ایک 30 منٹ کی ویڈیو کے ساتھ کیا جس میں اس نے روس کی فوجی قیادت کے خلاف تنقید کی اور روسی حکمران طبقے کے اندر نیٹو کے حامی دھڑے سے براہ راست اپیل کی۔ پریگوزن جس نے صرف چند ہفتے قبل نیٹو کے خطرے سے نمٹنے کے لیے بڑے پیمانے پر متحرک ہونے اور جنگی معیشت کی طرف مکمل موڑ کا مطالبہ کیا تھا اب دعویٰ کیا ہے 'یوکرین کی مسلح افواج نیٹو کے ساتھ مل کر روس پر حملہ نہیں کریں گی۔'

ہفتے کی صبح روسی صدر ولادیمیر پیوٹن ٹیلی ویژن پر نمودار ہوئے اور انہوں نے پریگوزن کا نام لیے بغیر الزام لگاتے ہوئے کہا کہ یہ نیٹو کی پشت پنائی میں کیا گیا ہے۔ پیوٹن نے کہا 'آج روس اپنے مستقبل کے لیے ایک سخت جدوجہد کر رہا ہے نیو نازیوں اور ان کے سرپرستوں کی جارحیت کو پسپا کر رہا ہے۔ مغرب کی پوری فوجی، اقتصادی اور معلوماتی مشین ہمارے خلاف برسرائے پیکار ہے۔

ہفتے کی شام کے بعد ویگنر کے دستوں نے روستوو آن ڈان اور ماسکو کے مضافات پر قبضہ کر لیا پریگوزن نے اعلان کیا کہ وہ پیچھے ہٹ جائیں گے۔ اس کی اچانک پسپائی واضح طور پر اس بات کی نشاندہی کرتی ہے کہ وہ ایک کامیاب بغاوت کے لیے جس سطح پر حمایت کی توقع کر رہے تھے وہ پورا نہیں ہو سکی۔

 وہ کیا اسباب تھے جو پریگوزین کو بغاوت کی جانب لے گے؟ سب سے پہلے یہ واضح ہے کہ روسی ریاست اور فوجی آپریٹس کے ساتھ اس کے بڑھتے ہوئے تنازعات اس سے ٹکرا گے۔ بغاوت کی کوشش سے قبل پریگوزین کی جانب سے وزیر دفاع شوئیگو کی وحشیانہ مذمت کی گئی تھی جن پر انہوں نے کافی جارحانہ انداز میں جنگ نہ کرنے کا الزام لگایا تھا اور بتایا گیا ہے کہ ویگنر کے لیے فنڈز میں کافی حد تک کمی کی جانی تھی۔ اور اس ماہ کے شروع میں پریگوزن نے پیوٹن کے اس مطالبے کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ ویگنر کو فوج کی قیادت کے کنٹرول میں رکھا جائے۔

اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ فوج پیوٹن کی اس بدتمیز اور بے عزت (فوج کے لیے) ٹھگ کی دیرینہ سرپرستی سے تنگ آچکی تھی۔ یوکرین میں اس کی کارروائیاں اگرچہ ایک محدود حد تک مفید تھیں مگر تربیت یافتہ افسران کے جنگ کے پیشہ ورانہ طرز عمل میں بھی مداخلت کرتی تھیں۔ پریگوزین جس سے کوئی محفوظ طریقے سے اندازہ لگا سکتا ہے اس نے اپنے خلاف کارروائیوں کو روکنے کے لیے بغاوت کی کوشش کی۔

دوسرا یہ یقین کرنا سیاسی بے خبری کی انتہا ہو گی کہ نیٹو گزشتہ 24 سے 36 گھنٹوں کے واقعات میں ایک غیر فعال تماشائی رہا ہے۔ یہ یقینی طور پر پرگوزین اور روسی فوج کے درمیان بڑھتی ہوئی لفظی جنگ کو انتہائی احتیاط کے ساتھ دیکھ رہا ہے اور یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ اس نے اس سے رابطہ کیا تھا۔ بغاوت شروع کرنے پر پریگوزن کی طرف سے نیٹو کے حامی جواز کی کوئی اور قابل اعتبار وضاحت نہیں ہے۔

پریگوزن کے نیٹو رابطوں کے پاس یہ مطالبہ کرنے کی معقول وجہ معلوم ہوتی کہ وہ ابھی کاروائی کریں۔ یوکرین کی طرف سے نیٹو کی حمایت یافتہ جوابی کارروائی میں بغاوت کو شروع ہوئے تین ہفتوں سے بھی کم عرصہ ہوا ہے۔ اس کی تیاری کے لیے اربوں ڈالر کی لاگت آئی ہے یہ اب تک ایک ناکام ثابت ہوا ہے جس میں روزانہ ہزاروں یوکرینی فوجی مر رہے ہیں اور صرف چند دیہات پر قبضہ کیا گیا ہے۔ صرف دو ہفتوں میں نیٹو ولنیئس میں ایک بڑا سربراہی اجلاس منعقد کرے گا جس میں بغاوت کی کوشش تک یوکرین کی فوجی شکست کے زیر اثر رہنے کا خطرہ ہے۔

بائیڈن انتظامیہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے اندازہ لگایا کہ بغاوت کی کوشش چاہے کامیاب نہ بھی ہو حکومت کو غیر مستحکم کرے گی اور اس کی فوجی کارروائیوں کو نقصان پہنچائے گی۔ کسی بھی صورت میں بغاوت کی کوشش نے میڈیا کے بیانیے کو یوکرین کے ناکام جوابی حملے سے ناکام پیوٹن حکومت کی طرف منتقل کر دیا ہے۔

امریکی سامراج کے اعلیٰ سطحی نمائندوں کا زیلنسکی حکومت اور روسی اولیگارکی کے اندر نیٹو کے حامی اپوزیشن کا فوری ردعمل سے یہ واضح ہوتا ہے کہ بغاوت کوئی حیران کن بات نہیں تھی۔

امریکی فوج کے لیفٹیننٹ کرنل الیگزینڈر ونڈمین، جو ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے روس کے خلاف جنگ کی امریکی تیاریوں میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں نے جمعہ کی شام ٹویٹ کیا 'ان تمام لوگوں کے لیے جو یہ سوچ رہے ہیں کہ یوکرین میں جنگ کیسی جا رہی ہے روس میں بغاوت اچھے انداز سے طرح چل رہی ہے۔ بعد ازاں بغاوت کے دوران اس نے تجویز پیش کی کہ نیٹو اپنے فضائی دفاع کو 'یوکرین تک 100 میل' تک پھیلانے کا موقع استعمال کرے۔

کانگریس کی خاتون ایلیسا سلوٹکن جو کہ امریکہ میں سی آئی اے کی سرکردہ ڈیموکریٹس میں سے ایک ہیں نے ٹویٹ کیا کہ 'امریکہ کا اس مرحلے پر یہ موقف ہونا چاہیئے کہ واقعات کی قریب سے پیروی کر ے تاکہ ہمارے یوکرینی اتحادیوں کو میدان جنگ کی طرف سے پیش کردہ کے ہر مواقع سے فائدہ اٹھانے میں مدد مل سکے اور تاریخ کے ایک غیر متوقع لمحے پر لچکدار اور چوکس رہے۔' یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے بھی پریگوزن کی بغاوت کی کوشش کی حمایت کا اظہار کیا۔

لندن میں مقیم روسی سابق اولیگارچ میخائل خودورکوفسکی جو پیوٹن حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے نیٹو کی حمایت یافتہ اپریشن میں ایک مرکزی شخصیت کے حامل ہیں نے بغاوت کی کوشش کو 'منفرد موقع' کے طور پر سراہا اور لوگوں سے مطالبہ کیا کہ وہ ہتھیار اٹھائیں تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جا سکے کہ پریگوزن ' بچ سکیں اور انہیں کریملن پہنچنے کا کہا۔ پریگوزن کی پسپائی کے بعد خودورکوفسکی نے اپنے ٹیلیگرام اکاؤنٹ پر بغاوت کی کوشش کو پیوٹن حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا قرار دیا:

حکومت کو پہنچنے والے نقصان کا پیمانہ لاجواب ہے۔ یوکرین کے ساتھ مذاکرات اگر وہ شروع ہوتے ہیں تو انکی بہت کمزور پوزیشن سے ہو گی۔ فوج کی خودمختاری اور اس طرح اس کی لڑنے کی صلاحیت بہت کم ہو جائے گی۔ اپوزیشن کو کچھ نتائج اخذ کرنا ہوں گے. اگر جنگ ختم نہیں ہوئی تو نئی بغاوت کے آنے میں زیادہ دیر نہیں لگے گی۔ کام واضح ہیں۔ ہم کام پر مامور ہو جائیں گے۔

یہ کہ یہ بغاوت نیٹو کی کسی اہم سطح پر شمولیت کے ساتھ تیار کی گئی تھی جو کافی واضح ہے۔ لیکن بغاوت کو بنیادی طور پر صرف سی آئی اے کی سازش کی پیداوار کے طور پر پیش کرنا روسی حکومت میں موجود حقیقی تقسیم اور اس کی پالیسیوں کا تعین کرنے والے سماجی مفادات کو نظر انداز کرنا ہوگا۔

پریگوزین کی بغاوت کی کوشش خود پیوٹن حکومت کے دیوالیہ پن کو بے نقاب کرتی ہے جس میں سے خود پریگوزن ابھر کر سامنے آئے تھے۔ وہ ایک فرینکنسٹین عفریت ہے جسے پیوٹن نے بنایا تھا اور جس پر روسی صدر اپنا کنٹرول کھو چکے ہیں۔ 

کئی دہائیوں تک پیوٹن اور پریگوزن قریبی اتحادی تھے۔ کچھ عرصہ پہلے تک ویگنر گروپ جس کی ابتدا روسی ملٹری انٹیلی جنس جی آر یو میں ہوئی تھی کو پیوٹن اور ریاستی مشینری کے اندر دیگر طاقتور قوتوں کی واضح سرپرستی حاصل تھی۔

پریگوزن ایک فاشسٹ جنگجو ارب پتی اور سزا یافتہ مجرم ہے جو روسی اشرافیہ کے ایک بڑے دھڑے کی نمائندگی کرتا ہے جو جنگ کی صرف اس لیے مخالفت کرتا ہے کہ ملک کے وسیع مالا مال وسائل تک سرمایہ دار طبقے اور ریاست کی مراعات یافتہ رسائی کے تحفظ کے لیے پیوٹن کی کوششوں کی قیمت انہیں مہنگی پڑی ہے۔

پیوٹن نے ان دھڑوں کے درمیان توازن قائم کرنے کی کوشش کی ہے اور مخالف اولیگرک مفادات کے لیے مصالحت کی اس کوشش نے اس طرز عمل کا تعین کیا ہے جسے وہ اب بھی 'خصوصی فوجی آپریشن' کہتے ہیں۔

شروع سے ہی یوکرین میں کریملن کی پالیسی اس امید پر مبنی ہے کہ محدود فوجی دباؤ مغربی سامراجی طاقتوں کو روسی سرمایہ دارانہ حکومت کے 'جائز' سیکورٹی مفادات کو قبول کرنے پر آمادہ کر سکتا ہے۔ پیوٹن اسی مقصد کے لیے تگ و دو میں مصروف ہے حالانکہ اسکی ان کی تمام 'سرخ لکیریں' کو عبور کیا جا چکا ہے، تازہ ترین 'سرخ لکیر' ان کا تختہ الٹنے کی کوشش ہے۔

پیوٹن کس طرح کا ردعمل ظاہر کرتا ہے یہ دیکھنا باقی ہے چاہے فوجی اضافے کے ذریعے یا کسی قسم کی اہم رعایتوں کے ساتھ کس بندوبست تک پہنچنے کے لیے۔ تاہم سامراجی طاقتیں سمجھوتے میں دلچسپی نہیں رکھتیں۔ ان کا آخری ہدف روس کی از سر نو تقسیم کرنا ہے تاکہ پورے سابق سوویت یونین کے وسیع وسائل کو اپنے براہ راست کنٹرول میں لایا جائے۔

بالآخر پیوٹن اور پریگوزین دونوں ایک ہی سماجی طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں: ایک اولیگارکی جو مجرمانہ اور محنت کش طبقے سے نفرت اور جرائم میں ڈوبی ہوئی ہے جو سوویت یونین کی سٹالنسٹ تباہی اور سرمایہ داری کی بحالی سے ابھری ہے۔

وا ضح طور پر حکمران طبقے میں اپنے مخالفین پر حملہ کرتے ہوئے دونوں نے 1917 کے روسی انقلاب کے تمام تر تماشے کو جنم دیا ہے، جس میں پیوٹن نے بغاوت کے دوران اعلان کیا تھا کہ 'اس طرح کا دھچکا روس کو 1917 میں دیا گیا تھا جب یہ ملک پہلی عالمی جنگ میں لڑ رہا تھا۔ لیکن فتح اس سے چھین لی گئی: سازشیں، جھگڑے اور فوج اور قوم کی پشت پر سیاست کرتے ہوئے سب سے بڑے ہنگامے میں بدل گیا فوج کی تباہی اور ریاست کا انہدام اور وسیع علاقوں کا نقصان، بالآخر اسکا نتیجہ خانہ جنگی کے سانحے کی صورت میں پیش آیا۔'

پیوٹن کی بالشوزم پر تازہ ترین مذمت اس کے نفسیاتی طور پر جنونی کردار کو ایک جانب رکھتے ہوئے تاریخ سے ان کی اپنی لاعلمی کو بے نقاب کرتی ہے۔ حقیقت میں 1914 میں زار کی حکومت کی تباہ کن جنگ میں کودنے اور اس تنازعہ کی مجرمانہ بدانتظامی نے روس کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا۔ 1917 میں انقلاب کے پھوٹ پڑنے سے بورژوا عارضی حکومت کی اپنے سامراجی مفادات کو بچانے کی کوششوں نے مزید تباہی پیدا کی۔

ستمبر 1917 میں محنت کش طبقے کو دبانے کے لیے جنرل کورنیلوف کی خفیہ طور پر کیرنسکی کی حمایت کی کوشش کا نتیجہ اگر کامیاب ہو جاتا تو پیٹرو گراڈ کو جرمن سامراج کی فوجوں کے حوالے کر دیا جاتا۔ اس نتیجے کو بالشویک پارٹی کی طرف سے متحرک مزدوروں کی ایک عوامی بغاوت نے روکا دیا جس نے بغاوت کو کچل دیا اور اکتوبر میں اقتدار پر قبضہ کر لیا۔

یہ نئی سوویت ریاست تھی جس نے لیون ٹراٹسکی کی قیادت میں ریڈ آرمی بنائی تھی جس نے 1918 اور 1921 کے درمیان عالمی سامراج کی حمایت یافتہ رد انقلاب کی قوتوں کو شکست دی۔

روسی اور یوکرائنی اولیگارچیز کے مفادات سامراج کی استصالی پالیسیوں کے خلاف محنت کش عوام کے مفادات کے دفاع کی کسی بھی ترقی پسند شکل کو خارج کر دیتے ہیں۔

بنیادی خدشہ جو روسی اولیگاری کے تمام طبقات دھڑوں کے درمیان مشترک ہے وہ یہ ہے کہ یہ جنگ روسی، یوکرائنی اور بین الاقوامی محنت کش طبقے کے اندر مارکسی بین الاقوامیت کی طاقتور روایات کو دوبارہ زندہ کرنے کے لیے حالات پیدا کرے گی۔ یوکرین میں جنگ کو بین الاقوامی محنت کش طبقے کی آزاد انقلابی تحریک کے ذریعے روکا جانا چاہیے نہ کہ نیٹو کی حمایت یافتہ پیوٹن حکومت کا تختہ الٹنے اور نہ ہی روس کی از سر نو تقسیم کے ذریعے۔

Loading