اُردُو

بلنکن بیجنگ میں: واشنگٹن روس کے خلاف جنگ کو بڑھانے کے لیے چین کے ساتھ کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش میں ہے

یہ 19 جون 2023 کو انگریزی میں شائع ہونے  'Blinken in Beijing: Washington tries to ease tensions with China to escalate war against Russia' والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

امریکی وزیر خارجہ اینٹونی بلنکن نے چین کے صدر شی جن پنگ سے ملاقات اور ملک کے خارجہ امور کے حکام کے ساتھ گھنٹوں بات چیت کے بعد کل چین کا دو روزہ دورہ اختتامہ ہوا۔ بلنکن کا دورہ چین کے ساتھ امریکی تصادم کو روکنے اور بیجنگ کے ساتھ بڑھتے ہوئے تناؤ کو کم کرنے کی مذموم کوشش تھی کیونکہ یوکرین میں روس کے خلاف جنگ میں امریکہ اور نیٹو کے فوجی اضافے کی تیاری کی جا رہی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن پیر 19 جون 2023 کو بیجنگ چین میں چینی صدر شی جن پنگ سے مصافحہ کر رہے ہیں۔ [اے پی فوٹو/لیہ ملیس/پول فوٹو] [AP Photo/Leah Millis/Pool Photo]

اقتدار سنبھالنے کے بعد سے بائیڈن انتظامیہ نے صرف اوبامہ اور ٹرمپ کے دور میں اٹھائے گئے سفارتی، اقتصادی اور فوجی اقدامات کو تیز کیا ہے تاکہ چین کو تنازعات کی تیاری میں کمزور کیا جا سکے۔ چین کے ساتھ امریکہ کے تعلقات میں بگاڑ فروری میں اس وقت نمایاں ہوا جب بلنکن کا بیجنگ کا منصوبہ بند دورہ منسوخ کر دیا گیا جب امریکی فضائیہ نے امریکی فضائی حدود میں ایک چینی غبارے کو غیر مصدقہ دعووں پر مار گرایا کہ وہ فوجی اڈوں کی جاسوسی کر رہا تھا۔

بلنکن بیجنگ پہنچے اور منافقانہ طور پر اعلان کیا کہ امریکہ چین کا گھیراوُ نہیں چاہتا اور نہ ہی کوئی تنازعہ چاہتا ہے۔ شی سے ملاقات سے قبل انہوں نے یقین دلایا کہ واشنگٹن دونوں ممالک کے درمیان تعلقات کو مستحکم کرنے میں بیجنگ کے ساتھ ملکر کام کرے گا۔ دوسرے تبصروں میں بلنکن نے کہا کہ امریکہ 'ذمہ داری سے اس مقابلے کا انتظام اس طرح کرے گا تاکہ تعلقات تنازعہ کی طرف نہ جائیں۔'

دو روز کے دوران سفارتی آداب مجلسی کا ایک معمولی سا اہتمام کیا گیا۔ تاہم تنازعات کے دو طرفہ نکات میں سے کسی کو بھی حل نہیں کیا گیا جو امریکہ کی طرف سے جان بوجھ کر پیدا کیا گیا ہے۔ اور عوامی تبصروں نے بند دروازوں کے پیچھے ہونے والے ناراض تبادلوں کی طرف اشارہ کیا جسے بلنکن نے سفارتی زبان میں 'صاف، ٹھوس اور تعمیری بات چیت' کے طور پر بیان کیا۔

بلنکن نے پیر کو چین کے خارجہ امور کے اعلیٰ عہدیدار وانگ یی سے تین گھنٹے تک ملاقات کی۔ چین کی وزارت خارجہ کے ایک بیان کے مطابق وانگ نے 'امریکہ سے مطالبہ کیا تھا کہ وہ 'چین کے خطرے کے نظریہ' کی تشہیر بند کرے چین کے خلاف غیر قانونی یکطرفہ پابندیاں ہٹائے اور چین کی تکنیکی ترقی کو دبانے سے باز رہے مزید یہ کہ چین کے اندرونی معاملات میں من مانی مداخلت سے باز رہے۔'

بائیڈن انتظامیہ نے نہ صرف چین کے ساتھ تقریباً 360 بلین ڈالر کی تجارت پر ٹرمپ کے دور میں لگائے گئے محصولات کو برقرار رکھا ہے بلکہ انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں سے مبینہ طور پر منسلک چینی حکام پر یکطرفہ پابندیوں میں توسیع کی ہے اور اعلی درجے کے سیمی کنڈکٹرز کی فروخت پر بے مثال برآمدی کنٹرول نافذ کر دیا ہے۔ چینی صنعتوں کو تکنیکی طور پر تباہ کرنے کے ساتھ رعایت دینے سے کوسوں دور بلنکن نے برآمدی کنٹرول کے وسیع دائرہ کار کے باوجود قومی سلامتی کی بنیاد پر فیصلے کا دفاع کیا۔

نہ ہی بلنکن نے تائیوان پر خطرناک تناؤ کو کم کرنے کے لیے کوئی اقدام کیا جسے امریکہ نے جان بوجھ کر تائی پے کے ساتھ قریبی سیاسی اور فوجی تعلقات کو تیز کر کے، 'ون چائنہ' کی پالیسی کو نقصان پہنچایا ہے جو واشنگٹن اور بیجنگ کے درمیان سفارتی تعلقات کی اصولی بنیاد رہی ہے۔ ون چائنا پالیسی کے تحت جس کا وہ تیزی سے صرف نام ہی کے طور پر مشاہدہ کرتا ہے امریکہ ڈی فیکٹو کے طور پر بیجنگ کو تائیوان سمیت تمام چین کا جائز حکمران تسلیم کرتا ہے۔

اپنے بیان میں چینی وزارت خارجہ نے دونوں ممالک کے تعلقات میں موجودہ 'سرد مہری ' کے لیے واشنگٹن کے 'چین کے بارے میں غلط تاثر اور چین کے جانب غلط پالیسیوں' کو مورد الزام ٹھہرایا۔ بلنکن کے دورے کا ذکر کرتے ہوئے اس نے خبردار کیا 'چین-امریکہ تعلقات میں ایک نازک موڑ پر ہیں اور اب یہ ضروری ہے کہ بات چیت یا تصادم یا پھر تعاون یا تنازعہ میں سے کسی ایک کا انتخاب کیا جائے۔' اس نے امریکہ سے مطالبہ کیا کہ 'چین-امریکہ کے تعلقات کی بڑھتے ہوئے زوال کو روکنے کے لیے اسے صحت مند اور مستحکم ٹریک پر واپس لے جایا جائے۔'

بات چیت کے دوران بہت کم چیزوں پر اتفاق ہوا۔ بلنکن اور چینی وزیر خارجہ کن گینگ کے درمیان پانچ گھنٹے تک جاری رہنے والی بات چیت اس کے ساتھ ختم ہوئی جسے معمولی فوائد کے طور پر بیان کیا گیا جس میں دوبارہ ملاقات اور مخصوص چیلنجوں پر 'کام کی سطح' کی میٹنگوں کو منظم کرنے کا معاہدہ شامل ہے۔ کن گینگ نے کہا کہ دونوں ممالک نے چین اور امریکہ کے درمیان مسافر پروازوں میں اضافے اور طلباء دانشوروں اور کاروباری افراد کے مزید تبادلوں کی حوصلہ افزائی پر تبادلہ خیال کیا۔ کن گینگ نے سال کے آخر میں واشنگٹن آنے کی دعوت قبول کی۔ بعد میں ژی نے اشارہ کیا کہ وہ نومبر میں سان فرانسسکو میں ایشیا پیسیفک اکنامک کوآپریشن (اے پی ای سی) کے رہنماؤں کے سربراہی اجلاس کے دوران بائیڈن سے ملاقات کر سکتے ہیں۔

تاہم بلنکن نے تسلیم کیا کہ دورے کے دوران ان کی ترجیحات میں سے ایک یہ تھی کہ دونوں ممالک کے درمیان ملٹری ٹو ملٹری کمیونیکیشن چینل کی دوبارہ بحالی جس پر کوئی اتفاق نہیں ہو سکا۔ امریکہ کا دعویٰ ہے کہ چین کے ارد گرد آبی اور فضائی حدود میں خطرناک واقعات سے بچنے کے لیے ایسا طریقہ کار ضروری ہے۔ تاہم امریکہ نے جان بوجھ کر جنوبی چین اور مشرقی چین کے سمندروں بشمول آبنائے تائیوان میں 'آزادی بحری جہاز' کے نام پر اشتعال انگیز بحری اور فضائی کارروائیاں کرکے خطرات کو بڑھا دیا ہے۔

واشنگٹن نے یوکرین پر روس کے حملے کی مذمت کرنے میں ناکامی پر چین کے ساتھ تناؤ کو بڑھانے کے لیے روس کے خلاف امریکی نیٹو جنگ کا استعمال کیا تھا۔ فروری کے آخر میں بلنکن نے میونخ سیکورٹی کانفرنس کے موقع پر وانگ کا سامنا کرتے ہوئے چین پر روس کو مہلک امداد فراہم کرنے پر 'غور' کرنے کا الزام لگایا۔ جس کا چین نے اہم سفارتی تبادلے منجمد کرکے جواب دیا۔

پیر کے روز بلنکن نے تسلیم کیا کہ چین نے امریکہ اور دیگر ممالک کو یقین دلایا ہے کہ اس نے یوکرین میں استعمال کے لیے روس کو مہلک مدد فراہم نہیں کی اور نہ ہی کرے گا۔ اُس نے صحافیوں بات کرتے ہوئے بتایا کہ 'ہم اس اقدام کی تعریف کرتے ہیں اور نہ ہی ہم نے کوئی ایسا ثبوت دیکھا ہے جو اس سے متصادم ہو،'۔ پھر کوئی ثبوت پیش کیے بغیر اس نے اس کے باوجود 'تشویش' کا اظہار کیا کہ چینی کمپنیاں روس کو ٹیکنالوجی فراہم کر رہی ہیں جو یوکرین کی جنگ کے لیے استعمال کی جا سکتی ہے اور چینی حکومت سے 'بہت چوکس' رہنے کا مطالبہ کیا۔

بلنکن کے دورے کا محدود نتیجہ جو کہ 2018 کے بعد کسی امریکی وزیر خارجہ کا پہلا دورہ ہے اس حقیقت کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ چین کے ساتھ تعلقات کو 'مستحکم' کرنے کے لیے ایک حکمت عملی کی چال تھی کیونکہ یوکرین میں روس کے ساتھ امریکہ کی جنگ کو بڑھا رہا ہے۔ امریکی سامراج کی حکمت عملی چین پر اس کے عالمی اقتصادی اور فوجی تسلط کے لیے سب سے بڑے خطرے کے طور پر مرکوز ہے کیونکہ انڈو پیسیفک میں امریکی فوج کی تیاری تیزی سے جاری ہے۔

سابق اسسٹنٹ سکریٹری آف اسٹیٹ اے ویس مچل کے فارن پالیسی میں ایک حالیہ تبصرے نے دو ٹوک انداز میں امریکی سیکورٹی حلقوں میں پائی جانے والی سوچ کو واضح کیا جسے 'سلسلہ بندی' کے نام سے جانا جاتا ہے - پہلے روس کی فوجی شکست اور اسکو اپنے ماتحت کرنا اور پھر اپنے اہم حریف چین کو کچلنے کی جنگ کی جانب پیش قدمی کرنا۔

اس مضمون میں جس کا عنوان ہے 'یوکرین کی طویل جنگ سے امریکہ کی حکمت عملی کو تبدیل نہیں کرنا چاہئے،' مچل نے استدلال کیا کہ امریکہ کو اب بھی اس نقطہ نظر کو اپنانا چاہئے جس کی اس نے گزشتہ سال وضاحت کی تھی 'اپنے دو بڑی طاقت کے مخالفوں کی جوڑی میں پہلے نسبتنا کمزور کے ساتھ جنگ اور پھر طاقتور کے ساتھ فیصلہ کن طور پر مکمل نمٹنے کے چیلنج کے لیے تیار تھی۔

ان تنقیدوں کا جواب دیتے ہوئے کہ یوکرین میں جنگ امریکی مقاصد کو حاصل کیے بغیر آگے بڑھ رہی ہے مچل نے اعلان کیا کہ 'چین اور روس کے دو محاذوں کے چیلنج سے نمٹنے کے لیے امریکہ کے لیے ترتیب سازی بہترین حکمت عملی ہے۔' یہ نوٹ کرنے کے بعد کہ امریکہ کا اندازہ ہے کہ چین دو سے پانچ سال تک تائیوان کے خلاف جنگ کے لیے تیار نہیں تھا اس نے یوکرین کے تنازعے کے 'اکسانے کا اثر یا ردعمل ' کی تعریف کی جس میں 'امریکی فوج کے اہم ذخائر کو جمع کرنے اور جنگ کے لیے مجموعی تیاری کو تیز کیا گیا۔ اسکے علاوہ ' یورپ اور ایشیا میں امریکی اتحادیوں کے درمیان زیادہ دفاعی اقدامات کا سنجیدگی سے اطلاق ہے۔

ان تبصروں سے واضح ہوتا ہے کہ بلنکن کا بیجنگ کا دورہ امریکہ کے لیے وقت حاصل کرنے کی کوشش سے زیادہ اور کچھ نہیں ہے تاکہ وہ چین سے پہلے روس کے خلاف فیصلہ کن ضرب لگا تاکہ وہ بعد میں چین کے خلاف جنگ کی طرف بڑھے۔ انسانیت کو ایٹمی مسلح طاقتوں پر مشتمل عالمی تصادم کی طرف دھکیلنے میں امریکی سامراجی پالیسی کی سراسر لاپرواہی کا مقابلہ عالمی محنت کش طبقے کی متحد تحریک کے ذریعے ہی کیا جا سکتا ہے تاکہ دیوالیہ سرمایہ دارانہ نظام کو ختم کیا جا سکے جو جنگ کی بنیادی وجہ ہے۔

Loading