اُردُو

بائیڈن اور مودی نے " نئے اور بڑے" فوجی اور ٹیکنالوجی کے معاہدوں پر دستخط کیے اور ہندوستان اور امریکہ کے اتحاد کو پرجوش انداز میں ویلکم کہا

یہ 28 جون 2023 کو انگریزی میں شائع 'Biden and Modi sign 'ground breaking' military-technology agreements, hail enhanced Indo-US alliance' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

ہندوستانی وزیر اعظم نریندر مودی کا 20 سے 23 جون کو امریکہ کا چار روزہ سرکاری دورہ ہتھیاروں کی فروخت اور مشترکہ فوجی پیداوار سے لے کر اہم معدنیات اور لچکدار پیداواری سلسلوں تک ہر چیز سے متعلق معاہدوں پر دستخط کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

وزیر اعظم مودی امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے معاونین سمیت ہندوستان اور امریکہ میں میڈیا سبھی نے سربراہی اجلاس اور اس کے ساتھ ہونے والے معاہدوں کو ہندوستان اور امریکہ تعلقات کو ایک نئے باب کے طور پر سراہا ہے۔

صدر جو بائیڈن اور ہندوستان کے وزیر اعظم نریندر مودی جمعرات 22 جون 2023 واشنگٹن میں۔ [اے پی فوٹو/ایوان ووکی] [AP Photo/Evan Vucci]

اس میں شک نہیں یہ اقدامات وہ ضرور اس لیے اٹھیں گے کیونکہ واشنگٹن چین کے خلاف اپنی ہمہ جہتی، سفارتی، اقتصادی، اسٹریٹجک اور فوجی کارروائی میں بھارت کو پہلے سے زیادہ مکمل طور پر اپنے ساتھ ضم کر رہا ہے۔ اور مودی حکومت اور ہندوستانی حکمران طبقہ اسٹریٹجک 'احسانات' کے بدلے چین کے ' عروج' کو ناکام بنانے کے لیے امریکی سامراج کی مہم کو آسان بنانے کے لیے تیار ہیں۔ جب کہ ہندوستانی بورژوازی اپنے ملک کی 'دنیا کے اندر اپنی تیز رفتار ترقی' پر فخر کرتی ہے لیکن اسے یہ خوف بھی ہے کہ اس کے عظیم طاقت کے عزائم کا ادراک کرنے کا راستہ تیزی سے بند ہو رہا ہے اور اسے یہ خدشہ مارے جا رہا ہے کہ جلد ہی ملک کے تیزی سے بڑھتے ہوئے وحشیانہ استحصال کا شکار محنت کش طبقے کے غضب کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔

مودی کے امریکہ میں چار دنوں کے دوران جس میں ایک ریاستی عشائیہ، بائیڈن کے ساتھ دو گھنٹے کی ون آن ون ملاقات، کانگریس کے مشترکہ اجلاس سے خطاب اور ایلون مسک اور دیگر ارب پتیوں اور کارپوریٹ سی ای اوز کے ساتھ ملاقاتیں شامل تھیں۔ ان تمام کے بارے اور بڑے گھمنڈ کے ساتھ ہند-امریکہ 'عالمی اسٹریٹجک پارٹنرشپ' 'جمہوریت' اور 'مشترکہ اقدار' پر مبنی باہمی اشتراک کی پرجوشی سے تہشیر کی گی۔ بائیڈن نے اپنے عشروں پر محیط دور اقتدار میں سامراجی جنگوں اور سازشوں کی پیروی کرتے ہوئے اتنا شرمندگی یا ہچکچاہٹ کا مظاہرہ نہیں کیا جتنا اس نے مودی کا ولولہ انگیز اور پر جوش استقبال کیا جو ایک انتہائی دائیں بازو کی آمرانہ حکومت کے سربراہ ہیں جو ہندو فرقہ پرستی کو مسلسل ہوا دے رہا ہے اور جس پر خود طویل عرصے سے امریکہ میں داخلے پر پابندی عائد تھی جس نے 2002 کے گجرات میں مسلم مخالف قتل عام میں ایک کلیدی کردار ادا کیا۔

سربراہی اجلاس کے اختتام پر مودی اور بائیڈن نے 6000 سے زائد الفاظ 58 پیراگراف پر محیط طویل مشترکہ بیان جاری کیا۔ اس میں بہت سے مشترکہ اقدامات کی فہرست دی گئی ہے اور جمہوریت، متنوع اور انسانی حقوق کے لیے مشترکہ وابستگی کی جعلی منحوس اور جھوٹ پر مبنی دعوتوں پر ہے۔

لیکن اس بیان کے پہلے ہی پیراگراف کے اختتام پر ہند-امریکہ کے ہمیشہ سے قریبی اتحاد کی اصل بنیاد اور محرک کو بڑے واضع انداز میں بیان کیا گیا تھا۔ اس نے کواڈ (QUAD)کی اہمیت پر زور دیا- جو کہ چین مخالف، بھارت، امریکہ اور اس کے اہم ایشیا پیسیفک اتحادیوں، جاپان اور آسٹریلیا کے درمیان نیم فوجی اتحاد ہے اور ایسے الفاظ میں کیا جسے واشنگٹن معمول کے مطابق اس کی حکمت عملی کو درست ثابت کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے۔ چین کو گھیرے میں لے کر ایشیا پر اپنی بالادستی کو قائم کرنے کے لیے قانونی حیثیت فراہم کرے۔ مشترکہ بیان میں اعلان کیا گیا 'ہمارا تعاون عالمی بھلائی کا کام کرے گا کیونکہ ہم ایک آزاد، کھلے، جامع اور لچکدار ہند- بحرالکاہل کی جانب اپنا حصہ ڈالنے کے لیے کثیرالجہتی اور علاقائی گروپوں کی حدود کے ذریعے کام کرتے ہیں جیسا کہ خاص طور پر ہمارا کواڈ اتحاد۔ ہمارے دو عظیم ممالک کے درمیان شراکت داری سے انسانی کاروبار کا دنیا میں کوئی بھی گوشہ ایسا نہیں ہے جو سمندروں اور ستاروں تک پھیلا نہ ہو۔

سربراہی اجلاس میں کیے گئے اقدامات اور معاہدوں کا مقصد چین کے اثر و رسوخ کا مقابلہ کرنا اسے اسٹریٹجک طور پر الگ تھلگ کرنا اس پر فوجی طور پر دباؤ ڈالنا اور اسے معاشی طور پر کمزور کرنا ہے- اور یہ سب کچھ امریکی سامراج کو چینی ریاست کے خلاف جنگ کرنے کے لیے کمر بستہ کرنے کے لیے اس نے عوامی سطح پر اسے اسٹریٹجک مخالف کے طور پر اس کے اصول کا نام دیا ہے۔

ان میں سے بہت سے اقدامات ہندوستان اور امریکہ کے فوجی تعلقات کو مضبوط بنانے اور ان کی مسلح افواج کے باہمی تعاون سے براہ راست جڑے ہوئے ہیں۔ دوسرے ہندوستان کو چین کے متبادل پیدواری مرکز کے سلسلے کے طور پر فروغ دینے کے لیے خدمات انجام دیتے ہیں - امریکی کوششوں کے ایک حصے کے طور پر 'فرینڈ شور' مینوفیکچرنگ اور ہائی ٹیک سامان اور ہتھیاروں کی تیاری میں درکار وسائل کو محفوظ بنانے کے لیے کارآمد ہو۔

نئے یا حال ہی میں شروع کیے گئے میں مندرجۂ زیل اقدامات شامل ہیں:

  • امریکہ میں قائم مائیکرون ٹیکنالوجیز کیے لیے مودی کی آبائی ریاست گجرات میں مائیکرون 2.75 بلین ڈالر کی مائیکرو چپ مینوفیکچرنگ اور ٹیسٹنگ کی سہولت کی فراہمی کے لیے عمارت کی تعمیر کے لیے مہیا کرے گا جبکہ بقیہ 825 ملین ڈالر کی ہندوستان اور گجرات کی حکومتیں اس میں سرمایہ کاری کریں گی۔
  •  امریکہ کی زیرقیادت معدنیات سیکورٹی پارٹنرشپ (ایم ایس پی) میں ہندوستان کی شمولیت جس کا مقصد نایاب زمینوں سمیت اہم معدنیات تک رسائی حاصل کرنا اور ریفائننگ کی صلاحیت کو بڑھانا ہے۔ ایم ایس پی کے موجودہ اراکین میں جی - 7 کے ممالک، یورپی یونین، سویڈن، فن لینڈ، جنوبی کوریا اور آسٹریلیا ہیں۔
  •  خلائی تعاون پر امریکہ کی قیادت والے آرٹیمس میں ہندوستان کی شمولیت جس کا مقصد راکٹری اور خلائی سے متعلق دیگر ٹیکنالوجیز میں ہندوستان-امریکہ تعاون کو آسان بنانا ہے جن میں سے اکثر فوجی اطلاق پر مشتمل ہیں۔
  • امریکی بحریہ اور تین ہندوستانی شپ یارڈز کے درمیان معاہدے، دو ہندوستان کے مغربی ساحل (بحیرہ عرب) پر اور ایک ہندوستان کے مشرقی ساحل (خلیج بنگال) پر امریکی جنگی جہازوں کو درمیانی سفر میں خدمات اور مرمت فراہم کرنے کے لیے ترتیب دیے جائیں گے۔
  • ہتھیاروں اور ہتھیاروں کے نظام کی مشترکہ پیداوار اور ترقی کو فروغ دینے کے لیے متعدد طریقہ کار کو فروغ دینا جن میں شامل ہیں: دفاعی صنعتی تعاون کا روڈ میپ؛ سپلائی کے انتظامات اور باہمی دفاعی خریداری کے انتظامات کی حفاظت 'جو غیر متوقع سپلائی سلسلے میں رکاوٹوں کی صورت میں دفاعی سامان کی فراہمی کو قابل بنائے گی۔' اور ہندوستان-امریکہ دفاعی سرعتی ماحولیاتی نظام (انڈس- ایکس)۔ مؤخر الذکر کو 'یونیورسٹی، انکیوبیٹر، کارپوریٹ، تھنک ٹینک، اور نجی سرمایہ کاری کے اسٹیک ہولڈرز کے نیٹ ورک' کے طور پر بیان کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد نئی فوجی ٹیکنالوجیز کو فروغ دینا اور 'امریکی دفاعی شعبے کے ساتھ ہندوستان کی ابھرتی ہوئی نجی شعبے کی دفاعی صنعت کے انضمام کو تیز کرنا ہے۔'

بھارت نے اب 3 بلین ڈالر سے زیادہ کی لاگت سے امریکی ساختہ مسلح ایم کیو -9 بی سی گرڈین یو اے وی ایس یا شکاری ڈرون خریدنے کے منصوبوں کو بھی حتمی شکل دی ہے۔

ہندوستانی اور امریکی حکومت کے ترجمانوں اور فوجی سیکورٹی کے تجزیہ کاروں نے جنرل الیکٹرک کی جانب سے ہندوستان میں اپنے ایف 414 جیٹ انجن کو جزوی طور پر پرائیویٹ شدہ ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ (ایچ اے ایل) کے ساتھ مشترکہ طور پر تیار کرنے کی تجویز کی خصوصی اہمیت پر زور دیا ہے۔ یہ انجن ہندوستان کے مقامی طور پر تیار کردہ تیجس مارک 2 لڑاکا جیٹ میں استعمال کیا جائے گا جس کی پیداوار 2026 میں شروع ہو جائے گی۔ امریکہ اپنی جیٹ انجن ٹیکنالوجی کی جوش و خروش سے حفاظت کرتا ہے اور اب تک اسے صرف اپنے قریبی اتحادیوں کے ساتھ شیئر کرتا رہا ہے۔ رپورٹس کے مطابق معاہدے کے تحت جی ای اپنے ہندوستانی شراکت داروں کے ساتھ ایف 414 میں استعمال ہونے والی ٹیکنالوجیز میں سے کچھ 'قیمت کے لحاظ سے 80 فیصد' کا اشتراک کرے گا۔

گزشتہ جمعرات کو واشنگٹن میں مودی کے ساتھ جی ای - ایچ اے ایل معاہدے کا اعلان کرتے ہوئے جی ای کے سی ای او ایچ لارنس کلپ جونیئر نے اسے 'تاریخی' معاہدہ قرار دیا اور مزید کہا کہ جی ای کو 'صدر جو بائیڈن اور وزیر اعظم مودی اور ان دونوں قوموں کے درمیان قریبی ہم آہنگی کے وژن کو آگے بڑھانے میں کردار ادا کرنے پر فخر ہے۔“ 

واشنگٹن کے نقطہ نظر سے ہتھیاروں کی فروخت، مشترکہ پیداوار کے معاہدے اور ٹیکنالوجی کی منتقلی متعدد مقاصد کی تکمیل کرے گی۔ وہ چین کے مقابلے ہندوستان کی فوجی صلاحیتوں کو تقویت دے گی اور روسی ساختہ ہتھیاروں اور ہتھیاروں کے نظام پر انحصار سے ہندوستان کو چھڑانے میں مدد حاصل ہو گی جس سے ہندوستان اور روس کی دیرینہ اسٹرتیجک شراکت داری کو کم کرنے اور بالآخر توڑنے کے لیے موثر ثابت ہو گی۔ اور اس طرح بھارت اور اس کی فوج کو امریکہ پر زیادہ سے زیادہ انحصار کرنا پڑے گا۔

واشنگٹن اور نئی دہلی ہندوستان کو امریکی ہتھیاروں کی صنعت کا ایک بڑا ذیلی ٹھیکیدار اور امریکی ڈیزائن کردہ ہتھیاروں کا سستے مزدوری کی صعنت بنانے کا مقصد بھی رکھتے ہیں۔ پینٹاگون کا مقصد اس طرح اپنے اخراجات کو کم کرنا اور امریکی ہتھیاروں کے مینوفیکچررز کی نچلے ڈھانچوں کو بڑھانا ہے۔ جبکہ ہندوستان کا ہدف یہ ہے کہ امریکی سرمایہ کاری میں اضافہ کرئے تاکہ اس کی فوجی صنعتوں کو بڑا فروغ حاصل ہو۔ فی الحال انڈیا دنیا کے سب سے بڑے ہتھیاروں کے درآمد کنندگان میں سے ایک ہے اور بی جے پی کی حکومت کے تحت اس نے خود کو بڑے پیمانے پر دیسی ہتھیاروں کی تیاری کو وسعت دینے اور اپنے ہتھیاروں کی برآمدات کو 2025 تک سالانہ 5 بلین ڈالر تک بڑھانے کا ہدف مقرر کیا ہے۔

چین کے خلاف امریکی سامراج کے اسٹرٹیجک حملے کے لیے بھارت کو استعمال کرنے کے لیے بائیڈن انتظامیہ کی مہم گزشتہ چار ڈیموکریٹک اور ریپبلکن انتظامیہ کی پالیسیوں پر استوار ہے اور اسکا تسلسل ہے۔

یہ پالیسیاں پہلے سے کہیں زیادہ واضح طور پر ہندوستان کو چین کے خلاف ایک امریکی فرنٹ لائن ریاست میں تبدیل کرنے کی طرف مرکوز کی گئی ہیں جو زمینی اور سمندری دونوں اطراف پر مشتمل ہیں۔ بھارت چین کا ہمسایہ ہے اور اس بات پر فخر کرتا ہے کہ اس نے جوہری صلاحیت کے حامل میزائل تیار کیے ہیں جو بھارت کی زمین سے کسی بھی جگہ سے چین کے تمام علاقوں کو نشانہ بنا سکتا ہے۔ یہ جغرافیائی طور پر بھی بہترین مقام ہے جہاں سے بحر ہند پر غلبہ حاصل کرنا ہے جس کے ذریعے چین کا تیل اور برآمدات کا زیادہ تر حصے کی یہاں سے ترسیل ہوتی ہے۔ امریکی حوصلہ افزائی کے ساتھ بھارت بلیو واٹر نیوی بنا رہا ہے اور بحر ہند کی نگرانی اور گشت میں بڑھتے ہوئے کردار کا دعویٰ کیا ہے۔

امریکہ جاپان اور آسٹریلیا کے ساتھ دوطرفہ، سہ فریقی اور چار فریقی فوجی سیکیورٹی معاہدوں اور مشقوں کے بڑھتے ہوئے نیٹ ورک کے ذریعے نئی دہلی چین کے خلاف واشنگٹن کی جنگی تیاریوں میں مکمل طور پر شامل ہو گیا ہے۔

پچھلے تین سالوں کے دوران واشنگٹن نے چین بھارت سرحدی تنازعہ میں بھی مداخلت کی ہے۔ یقیناً امریکہ اب ہمالیہ کے تنازعے کو دوسرے تنازعوں کے ساتھ جوڑتا ہے جو اس نے بیجنگ کی 'جارحیت' کی مثال کے طور پر چین اور اس کے جنوبی بحیرہ چین کے پڑوسیوں کے درمیان بھڑکانے میں مدد کی ہے۔

اس سے بھی زیادہ افسوسناک بات یہ ہے کہ ہندوستانی فوج کو اب چینی فوجیوں کی نقل و حرکت کے بارے میں امریکی انٹیلی جنس 'حقیقی وقت' میں موصول ہو رہی ہے انٹیلی جنس جس پر وہ انتہائی فخر کر رھا ہے ان کی متنازع سرحد پر ہندوستانی اور چینی فوجیوں کے درمیان ہونے والے مقابلوں پر مادی طور پر اثر انداز ہو رہی ہے جہاں دونوں ممالک نے دسیوں فوجیوں اور ہزاروں فوجی، ٹینک اور جنگی طیاریکو آگے بڑھایا ہے۔۔

یقینی طور پر واشنگٹن نے اس وقت غصے سیاپنے دانت پیسے ہونگے جب نئی دہلی نے مغربی مطالبات کو مسترد کرتے ہوئے روس کو یوکرین پر نیٹو کی طرف سے اکسائی گئی جنگ میں 'جارحیت پسند' قرار دینے اور پابندیاں عائد کرنے کی مخالفت کی۔ لیکن بائیڈن انتظامیہ اور پینٹاگون نے اپنے غصے پر قابو پاتے ہوئے کچھ وقت کا انتظار کیا یہاں تک کہ بھارت کی رعایتی قیمت والے روسی تیل کی تیزی سے بڑھتی ہوئی درآمدات پر بھی آنکھیں بند کر لیں تاکہ وہ چین کے خلاف اقدامات کی تکمیل کریں جیسے وہ زیادہ اہم اسٹریٹجک معاملہ سمجھتے ہیں۔ چین کے خلاف اپنی طاقت کو مضبوط کر سکے۔ لیکن اس کا ایک لمحے کے لئے بھی یہ مطلب نہیں ہے کہ واشنگٹن طویل مدتی میں ماسکو کے ساتھ نئی دہلی کی اسٹریٹجک شراکت داری کو کمزور کرنے اور بالآخر اسے توڑنے کے لیے کام نہیں کر رہا ہے۔

مودی حکومت، کانگریس پارٹی اور دیگر بورژوا اپوزیشن قوتوں کی مکمل ملی بھگت کے ساتھ یہ تمام پارٹیاں ہند-امریکہ اتحاد کے جارحانہ اور بڑھتے ہوئے جنگی کردار کو کبھی کبھار جھوٹی تصدیق کے ساتھ چھپانے کی کوشش کرتے ہیں اور دعوی کرتے ہیں کہ یہ کسی دوسرے ملک کے خلاف نہیں ہے۔

واشنگٹن اور نئی دہلی دونوں کی طرف سے روزانہ کی بنیاد پر لفظوں اور خاص طور پر عمل میں اس کا انکار کیا جاتا ہے۔

بھارت امریکہ اتحاد رجعت پسند لاپرواہ اور آگ بھڑکانے والا ہے۔ یہ خطے اور دنیا کو ایک تباہ کن فوجی تصادم کے قریب لے جا رہا ہے۔ اس نے جوہری ہتھیاروں سے لیس روس اور چین کے ساتھ بیک وقت تصادم کی جستجو میں واشنگٹن کی جنگجو پالیسی کی حوصلہ افزائی کی ہیاور اس کے نتیجے میں چین کے ساتھ ہندوستان کا سرحدی تنازعہ اور پاکستان کے ساتھ تاریخی دشمنی امریکہ اور چین کے تصادم سے جڑی ہوئی ہے جس سے ان سب پر بڑے پیمانے پر نئے دھماکہ خیز الزامات کا اضافہ ہوا ہے۔ 

جنوبی ایشیا چین، امریکہ اور پوری دنیا کے محنت کشوں کو سامراج اور حریف سرمایہ دارانہ حکومتوں اور سرمایہ داری کے تمام سیاسی نمائندوں کے خلاف متحد کرنے والی جنگ مخالف تحریک کی بڑھوتی ایک ناگزیر اسٹریٹجک ضرورت کے طور پر سامنے آئی ہے۔

Loading