اُردُو

امریکی بیلسٹک میزائل آبدوز جنوبی کوریا بھیجے گا۔

یہ 4 جولائی 2023 کو انگریزی میں شائع 'US to dispatch ballistic missile submarine to South Korea' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

پورے ہند-بحرالکاہل میں اپنی فوجی تیاری کے ایک سلسلے کے طور پر امریکہ اوہائیو کلاس جوہری ہتھیاروں سے لیس بیلسٹک میزائل آبدوز (ایس ایس بی این) جنوبی کوریا کو بھیجنے کا منصوبہ بنا رہا ہے جو اس کے بیڑے میں سب سے بڑا ہے یہ پہلی بار چار دہائیوں میں ایسا ہوا ہے جبکہ اس آبدوز کی آمد کی صحیح تاریخ اب تک جاری نہیں کی گئی ہے لیکن توقع ہے کہ یہ 27 جولائی جو کوریائی جنگ کے خاتمے کی سالگرہ کے آس پاس بھیجی جائے گی۔

اوہائیو کلاس بیلسٹک آبدوز یو ایس ایس الاباما (ایس ایس بی این 731) [تصویر: امریکی بحریہ کی تصویر بذریعہ رے ناریماتسو] [Photo: US Navy photo by Ray Narimatsu]

واشنگٹن اور سیول نے آبدوز کی تعیناتی کو اور ان کے بڑھتے ہوئے فوجی تعاون کو شمالی کوریا کے مبینہ 'خطرے' کے دفاعی ردعمل کے طور پر تیار کیا ہے۔ امریکی افواج کے کوریا کے نائب کمانڈر لیفٹیننٹ جنرل سکاٹ پلیس نے گزشتہ جمعرات کو کہا کہ 'مستقبل قریب میں آپ جوہری طاقت سے چلنے والی بیلسٹک میزائل آبدوز کے ذریعے بندرگاہ کے دورے سے ڈیٹرنس بڑھانے کے لیے امریکی عزم کے ایک اور نمائش کی توقع کر سکتے ہیں۔'

امریکی صدر جو بائیڈن اور ان کے جنوبی کوریا کے ہم منصب صدر یون سک یول نے اپریل میں واشنگٹن میں ہونے والی ان دونوں کی سربراہی ملاقات کے دوران جوہری ہتھیاروں سے لیس آبدوز اور دیگر اسٹریٹجک اثاثوں کو بھیجنے پر اتفاق کیا تھا جسے 'واشنگٹن اعلامیہ' کا نام دیا گیا تھا۔ دونوں نے نیوکلیئر کنسلٹیٹو گروپ (این سی جی) کی تشکیل کے ذریعے امریکی جوہری ہتھیاروں پر اپنے تعاون کو مزید گہرا کرنے پر بھی اتفاق کیا۔

این سی جی سیئول کو امریکی جوہری ہتھیاروں کے استعمال کے لیے منصوبہ بندی اور تربیت میں واشنگٹن کے ساتھ زیادہ قریب سے رابطہ قائم کرنے کی اجازت دے گا یعنی جوہری ہتھیاروں کو لانچ کرنے کی صلاحیت رکھنے والی آبدوز کا دورہ صرف ایک بندرگاہ میں آمد صرف روایتی نہیں ہے بلکہ ایٹمی جنگ کے لیے منصوبہ بندی میں سیول کی شرکت کا ایک پہلو ہے۔

اس جوہری تعاون کا مقصد شمالی کوریا جو 26 ملین افراد پر مشتمل غریب ملک ہے اسکے لیے نہیں ہے۔ بلکہ یہ سب سے بڑھ کر چین کے خلاف امریکہ کی اکسائی گئی جنگ کی تیاریوں کا ایک حصہ ہے جس کے لیے یون انتظامیہ نے جنوبی کوریا کے محنت کش طبقے کی پشت کے پیچھے اس پر دستخط کیے ہیں۔

اس سلسلے میں پلیس نے جمعرات کو یہ بھی کہا کہ 'جیسے جیسے ہمارا اتحاد بڑھتا جا رہا ہے ہم نہ صرف شمال مشرقی ایشیا کی سلامتی بلکہ ایک آزاد اور کھلے ہند- بحرالکاہل اور ایک آزاد اور کھلے عالمی معمول کے لیے اپنے وعدوں پر قائم رہیں گے۔ ' انہوں نے مزید کہا کہ واشنگٹن اور سیول 'زیادہ اسٹریٹجک گہرائی پیدا کرتے ہوئے بین الاقوامی تعاون میں اضافہ کریں گے اور قواعد پر مبنی بین الاقوامی نظم کو زیادہ سے زیادہ مدد فراہم کریں گے۔'

واشنگٹن اور اس کے اتحادی ایشیا میں امریکی بالادستی کو تسلیم کرنے سے انکار کرنے پر بیجنگ کی مذمت کے لیے معمول کے مطابق 'آزاد اور کھلا ہند-بحرالکاہل' اور 'قواعد پر مبنی بین الاقوامی ترتیب' جیسے جملے استعمال کرتے ہیں۔ امریکی فوج اشتعال انگیزی سے ایسے بحری جہاز اور ہوائی جہاز بھیجتی ہے جو چین کے قریب 'نیویگیشن کی آزادی' کے سفر کے دوران خطے میں جوہری ہتھیار پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔

ایک ہی وقت میں واشنگٹن منافقانہ طور پر کسی بھی واقعے پر بیجنگ کو ایک خطرہ قرار دینے کے لیے اس کی مذمت کرتا ہے جس میں حالیہ دعوے بھی شامل ہیں کہ چین کیوبا میں ایک جاسوسی چوکی قائم کر رہا ہے۔ یہ اس حقیقت کے باوجود ہے کہ تقریباً ہر قوم جاسوسی کی کسی نہ کسی شکل میں ملوث ہے۔ امریکہ خود دنیا بھر میں دشمنوں اور اتحادیوں کے خلاف بڑے پیمانے پر جاسوسی کی کارروائیاں کرتا چلا آیا ہے اور کر رہا ہے۔ امریکہ دوسرے لفظوں میں دوسری اقوام سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ واشنگٹن میں طے شدہ سخت ضابطہ اخلاق کی پابندی کریں جب کہ وہ مناسب سمجھے تو ان قوانین کو نظر انداز کرے۔

یہاں تک کہ جب امریکہ اپنے نیٹو اتحادیوں کے ساتھ مل کر یوکرین میں روس کے خلاف جنگ کو بڑھا رہا ہے وہ چین کے ساتھ ایک تنازعہ کے لیے تیزی سے تیاری کر رہا ہے جسے واشنگٹن اپنے عالمی تسلط کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔

آبدوز کا آئندہ متوقع دورہ جون میں ہے جو یو ایس ایس مشی گن، اوہائیو کلاس گائیڈڈ میزائل آبدوز (ایس ایس جی این) کی اسی طرح کی روانگی کے بعد ہے۔ بیلسٹک میزائلوں کے بجائے یہ جہاز ٹوماہاک کروز میزائل فائر کرتا ہے جو روایتی یا جوہری وار ہیڈ لے جا سکتا ہے۔ یو ایس ایس مشی گن 22 جون کو جنوبی کوریا کی بحریہ کے ساتھ مشترکہ مشقوں کے بعد جنوبی کوریا سے روانہ ہوا۔

دونوں اتحادیوں کی طرف سے کی جانے والی دیگر مشقوں میں گزشتہ جمعہ کو جزیرہ نما کوریا میں مشترکہ فضائی مشقیں شامل ہیں جن میں کم از کم ایک امریکی بی - 52 اسٹریٹجک بمبار بھی شامل تھا۔ مشقوں میں جنوبی کوریا کے ایف - 35 اے اور ایف - 16 کے ایف لڑاکا طیاروں کے ساتھ ساتھ ایف - 16 اور ایف -15 ای امریکی لڑاکا طیارے بھی شامل تھے۔

ان مشقوں اور فوجی دوروں کا استعمال شمالی کوریا اور چین کو اکسانے کے لیے کیا جا رہا ہے۔ واشنگٹن نے جنوبی کوریا کے ساتھ بڑے پیمانے پر فوجی مشقیں دوبارہ شروع کر دی ہیں جس پر پیانگ یانگ کا ردعمل سامنے آیا ہے جس میں عام طور پر میزائل تجربات شامل ہیں۔ شمالی کوریا نے 25 جون کو کوریائی جنگ کے آغاز کی سالگرہ کے موقع پر ایک بڑے جلسے کا انعقاد کیا جس نے اگلے دن جاری کردہ ایک بیان میں امریکہ کی 'جوہری جنگ کو بھڑکانے کی مایوس کن کوششوں' کی مذمت کی۔

جب کہ شمالی کوریا کا میزائل امریکہ کے پاس موجود ہتھیاروں کے مقابلے میں انتہائی کمزور ہے واشنگٹن نے ان تجربات اور پیانگ یانگ کی مشتعل بیانات کو بہانے بنا کر خطے کو مزید عسکریت پسندی کے جواز کے طور پر پیش کیا ہے۔ 

امریکہ جنوبی کوریا میں اپنی ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس (THAAD) بیٹری کے مکمل رول آؤٹ کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ ٹھاڈ کو پہلی بار 2017 میں نصب کیا گیا تھا اس سے کچھ دیر قبل جو کہ اب اہم اپوزیشن ڈیموکریٹک پارٹی آف کوریا (ڈی پی) کے مون جے اِن نے صدر کا عہدہ سنبھالا تھا۔ ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس کی تعیناتی کی حمایت کرتے ہوئے اور خود کو جنگ کے مخالف کے طور پر جھوٹے انداز میں پیش کرتے ہوئے مون نے تنصیب کو روکنے کے لیے حقیقی اقدامات کرنے کے بجائے ماحولیاتی خطرے کی تشخیص پر زور دیا۔

خطرے کی تشخیص کے ساتھ اب یہ نتیجہ اخذ کیا گیا ہے بیٹری کی مکمل تعیناتی کے لیے راستہ صاف ہو گیا ہے۔ بیٹری میں اے این/ ٹی پی وائے ریڈار سسٹم شامل ہے جو چین کی گہرائی تک جاسوسی کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے اس وجہ سے بیجنگ بیٹری کو سیکیورٹی خطرہ قرار دیتا ہے۔ واشنگٹن کا دعویٰ ہے کہ جنوبی کوریا کو شمالی کوریا کے ممکنہ حملے سے بچانے کے لیے یہ ضروری ہے۔ حقیقت میں ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس جو سیونگجو کاؤنٹی میں اپنے موجودہ مقام سے سیئول کا احاطہ بھی نہیں کرتا کا مقصد امریکی اڈوں کی حفاظت کرنا ہے کیونکہ واشنگٹن نے جنوبی کوریا کو چین کے ساتھ جنگ ​​کی صف اول میں تبدیل کر دیا ہے۔

سیول چین مخالف جذبات کو بھڑکانے کے لیے بھی کام کر رہا ہے حکومت نے اعلان کیا ہے کہ ٹرمینل ہائی ایلٹیٹیوڈ ایریا ڈیفنس پر بیجنگ کا احتجاج اور اضافی بیٹریوں کی ممکنہ تعیناتی جنوبی کوریا کی 'خودمختاری' پر حملے کی نمائندگی کرتی ہے۔ یہ اس انداز کی یاد دلاتا ہے جس میں نیٹو نے دعویٰ کیا تھا کہ یوکرین میں سلامتی کی ضمانتوں کے لیے روس کی درخواستیں کیف کی خودمختاری پر حملہ تھا یہاں تک کہ جب واشنگٹن نے ملک میں جنگ شروع کر رکھی تھی۔

جنوبی کوریا کے مزدوروں کو چین مخالف شاونزم اور امریکہ کی قیادت میں بیجنگ کے خلاف جنگی مہم کو فروغ دینے کی حکومت کی کوششوں کو مسترد کرنا چاہیے۔ جنوبی کوریا، امریکہ اور چین کے محنت کشوں کو ایک دوسرے کے درمیان تنازعہ میں کوئی دلچسپی نہیں ہے اور انہیں محنت کش طبقے کی ایک بین الاقوامی جنگ مخالف تحریک کے سلسلے کے طور پر متحد ہونا چاہیے تاکہ سرمایہ داری کا خاتمہ کرئے جو جنگ اور موجودہ عالمی انتشار کی وجہ ہے۔