اُردُو

گلوبل وارمنگ جولائی کے پہلے ہفتے میں گرمی نے نیا عالمی ریکارڈ بنایا ہے۔

یہ 7 جولائی 2023 کو انگریزی میں شائع 'Global warming drives new world heat records in first week of July' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

یونیورسٹی آف مائن کے کلائمیٹ ری اینالائزر کے اعداد و شمار کے مطابق 3، 4 اور 5 جولائی کے یہ تین روز ریکارڈ شدہ انسانی تاریخ کے گرم ترین دن تھے۔ انسٹی ٹیوٹ نے رپورٹ کیا کہ سموار کو اوسط عالمی درجہ حرارت سموار کو 17۰10 ڈگری سیلسیس اور منگل اور بدھ کو 17۰18 ڈگری سیلسیس تک پہنچ گیا۔ ان دونوں درجہ حرارت نے 14 اگست 2016 کے 16۰92 ڈگری سیلسیس کے پچھلے ریکارڈ کو توڑ دیا۔

یوروپی یونین کے زیر انتظام کوپرنیکس کلائمیٹ چینج سروس کے ڈیٹا نے بھی گلوبل وارمینگ کی نئی بلندیاں ریکارڈ کیں۔ تاہم قدرے مختلف میٹرکس کا استعمال کرتے ہوئے کوپرنیکس نے سموار کے روز 16.88 ڈگری سیلسیس اور منگل کو 17.03 ڈگری سیلسیس کی ریکارڈ بلندی کی اطلاع دی جس نے گزشتہ اگست 2016 کی بلند ترین 16.80 ڈگری سیلسیس کے ریکارڈ کو توڑ دیا ہے۔

سموار 3 جولائی 2023 کو بیجنگ میں ایک شدید گرم دن کے دوران اپنی گردن پر الیکٹرک پنکھا پہنے ایک سیکورٹی گارڈ اپنا پسینہ پونچھ رہا ہے۔ [ اے پی فوٹو/اینڈی وونگ ] [AP Photo/Andy Wong]

اگرچہ دونوں کے اعداد و شمار ابھی ابتدائی ہیں اور آنے والے ہفتوں اور مہینوں میں اس کی تصدیق ہو جائے گی لیکن اسے ایک سخت انتباہ کے طور پر لینا ہو گا کہ زمین تیزی سے گرم ہو رہی ہے اور انسانوں کے خود پیدا کردہ حالات کی وجہ سے ماحولیاتی تبدیلیاں تیز ہو رہی ہیں۔ یہ گزشتہ جون پہلے ہی ریکارڈ پر گرم ترین مہینے کے طور پر نوٹ کیا جا چکا ہے کہ شمالی نصف کرہ میں سال کے گرم ترین دن تھے لیکن جولائی اور پورا اگست ابھی باقی ہے۔

مجموعی طور پر گرمی اس سال مزید بڑھ گئی ہے ایل نینو گرم پانی کا ایک بینڈ جو بحر الکاہل میں بے قاعدگی سے ابھرتا ہے اور جو مہینوں یا سالوں کے دوران گرم درجہ حرارت کا سبب بنتا ہے۔ یہ پیشین گوئی کی گئی ہے کہ موجودہ سائیکل موسم سرما 2023 اور 2024 دونوں آب و ہوا کے مانیٹروں کی رپورٹس اس بات کی تصدیق کرتی ہیں جو کئی دہائیوں سے مشہور ہے کہ سرمایہ دارانہ پیداوار کی انارکی نوعیت ہر سال اربوں ٹن گرین ہاؤس گیسیں زمین کے ماحول میں چھوڑتی ہے جو زیادہ سے زیادہ گرمی کو جزب کرتی ہوئی تیزی سے ہولناک ماحولیاتی آفات کا باعث بنتی ہے۔ عالمی سطح پر درجہ حرارت 19 ویں صدی کے اختتام پر تیزی سے بڑھنا شروع ہوا تھا جس کی بڑی وجہ کوئلے کے بڑے پیمانے پر استعمال ٹرینوں اور بعد میں کوئلے سے چلنے والے پہلے پاور اسٹیشنوں کے ذریعے ہوا۔ یہ 1912 کے اوائل میں نوٹ کیا گیا تھا کہ کوئلہ جلانا اور اس کے نتیجے میں کاربن ڈائی آکسائیڈ 'ہوا کو زمین کے لیے زیادہ مؤثر تہہ نما چادر بنانے اور اس کے درجہ حرارت کو بڑھانے کا رجحان رکھتا ہے۔'

اور اگرچہ 20 ویں صدی کے وسط میں عالمی درجہ حرارت میں استحکام آیا عالمی درجہ حرارت میں ایک سیکنڈ اور اس سے بھی زیادہ تیز بڑھنا 1970 کی دہائی میں شروع ہوا جو آج تک جاری ہے۔

زمین کے اوسط درجہ حرارت میں معمولی تبدیلیوں میں بھی کتنی توانائی شامل ہے اس کا کچھ اندازہ لگانے کے لیے، کوئی اس بات کا موازنہ کر سکتا ہے کہ صنعتی انقلاب کے ظہور سے پہلے 1750 کے مقابلے میں اب ہمارے سیارے پر گرین ہاؤس گیسوں کے ذریعے کتنی شمسی توانائی پھنس یا جزب ہو گئی ہے۔ عالمی سطح پر سرمایہ دارا نہ نظام میں درجہ حرارت تقریباً 1۔2 ڈگری سیلسیس بڑھ چکا ہے، اور ماحول اب 273 سال پہلے کے مقابلے میں زمین کی پوری سطح پر فی مربع میٹر اضافی 3۔22 واٹ جذب کرتا ہے۔

فضا میں حاصل ہونے والی اضافی توانائی کی مقدار ہر دس سیکنڈ میں ایک میگاٹن جوہری وار ہیڈ کو دھماکے سے اڑا دینے کے مترادف ہے۔ یہ شیطان کا میٹرنوم ہے۔

صرف اس سال موسمیاتی تبدیلی کے اثرات پہلے ہی تباہ کن رہے ہیں۔ ساؤتھ آف چائنا ٹوڈے کی ایک رپورٹ کے مطابق چین میں درجہ حرارت اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ گوانگسی صوبے میں کارپ مچھلیاں پانی کے تالاب میں رہتے ہوئے بھی 'جل کر ہلاک ہو گئے'۔ بھارت میں درجہ حرارت بڑھنے سے کم از کم 44 افراد ہلاک ہو چکے ہیں اور حقیقی تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔ اور میکسیکو میں گرمی کی لہروں کے نتیجے میں صرف اس سال کم از کم 112 اموات ہوئیں۔

عالمی اوسط درجہ حرارت میں اضافہ اس سال کینیڈا کے جنگلات میں آگ لگ جانے کے تاریخی واقع سے بھی جڑا ہوا ہے جس نے کینیڈا اور ریاستہائے متحدہ کے بڑے حصوں کو کئی دنوں تک راکھ اور دیگر ذرات سے ڈھانپے رکھا ہے۔ فضائی آلودگی عالمی سطح پر اموات کی سب سے بڑی وجوہات میں سے ایک ہے۔ آور ورلڈ ان ڈیٹا نے رپورٹ کیا ہے کہ 2019 میں بیرونی اور اندرونی فضائی آلودگی کے نتیجے میں 6.7 ملین لگ بھگ افراد ہلاک ہوئے جو کہ عالمی سطح پر ہونے والی تمام اموات کا تقریباً 12 فیصد ہے۔ جنگل کی آگ خاص طور پر جو اب لگ رہی ہے اور دنیا بھر میں جنگل کی آگ کے بڑے موسم جو پچھلی دو دہائیوں میں نمودار ہوئے ہیں ان اموات میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔

گزشتہ سال پاکستان میں آنے والا ملک گیر سیلاب موسمیاتی بحران کی جدید نوعیت کی ایک اور مثال تھا۔ ورلڈ ویدر ایٹریبیوشن کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں سب سے زیادہ متاثر ہونے والے صوبوں میں سندھ اور بلوچستان تھے جن میں بارشیں اس سے 75 فیصد زیادہ تھیں جو گلوبل وارمنگ کے بغیر تھیں۔ ریکارڈ بارشیں ہمالیہ میں تیزی سے پگھلتے ہوئے گلیشیئرز کے ساتھ مل کر پانی کے بڑے ریلے پیدا ہوئیں جس نے 1,700 سے زائد افراد کو ہلاک کیا جن میں سے ایک تہائی بچے اور نوجوان تھے اور 2.2 ملین گھر تباہ جبکہ 4.4 ملین ایکڑ فصلیں ڈوب گئیں اور 80 لاکھ مرد خواتین اور بچے مستقل طور پر بے گھر ہو گئے۔ اقتصادی لحاظ سے کل لاگت 40 بلین ڈالر تھی اور سیلاب کے عروج پر ملک کا ایک تہائی حصہ زیر آب تھا۔

اور اس کا مطلب یہ ہے کہ بڑھتی ہوئی خشک سالی زیادہ طاقتور سمندری طوفان، تیزی سے ٹھنڈے قطبی بھنور اور بہت سے دوسرے انتہائی موسمی واقعات کے بارے میں اور کیا کہا جائے جو پچھلے 20 سالوں سے رونما ہو کر عام ہو چکے ہیں۔

موسمیاتی تبدیلی کے زبردست اثرات نے یہاں تک کہ 'موسمیاتی پناہ گزینوں' کے ایک خاص زمرے کو جنم دیا ہے۔ اقوام متحدہ کے پناہ گزینوں کے ادارے (یو این ایچ سی آر) کے مطابق موسمیاتی تبدیلی سے متعلقہ آفات کے نتیجے میں ہر سال اوسطاً 21.5 ملین انسان بے گھر ہوتے ہیں۔ ایجنسی کا اندازہ ہے کہ 2050 تک 1.2 بلین ایسے پناہ گزین ہوں گے جن کی اکثریت دنیا کے غریب ترین خطوں سے ہے۔ اور ان لوگوں کے برعکس جو مہاجرین کی رسمی تعریف کے تحت آتے ہیں جو 1951 میں قائم کی گئی تھی وہ لوگ جو بڑے پیمانے پر ماحولیاتی واقعات کی وجہ سے اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں ان کے پاس ظلم و ستم سے بچنے یا دوسرے ممالک میں آباد ہونے کے لیے کوئی قانونی چارہ نہیں ہے۔

بحران کا پیمانہ کسی بھی ضروری حل کو لازمی طور پر عالمی بناتا ہے۔ ہوا کسی کسٹم چوکیوں کی پابندی نہیں کرتی اور نہ ہی پانی سمندری خودمختاری کا خیال رکھتا ہے۔ پھر بھی اتنے بڑے انسانی مصائب کے باوجود عالمی سرمایہ دار حکمران جو حریف قومی ریاستوں میں بٹے ہوئے ہیں موسمیاتی تبدیلی کو صرف 'کاربن کریڈٹ' پر لڑنے اور ' گھاٹا اور نقصان' کے فنڈز قائم کرنے کے طریقے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں بورژوازی جس کے پاس اس جاری اور بڑھتے ہوئے تباہ کن مسئلے کے بارے میں جاننے اور اسے ختم کرنے کے لیے ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے مالی قیاس آرائیوں کی نئی شکلیں تیار کر رہا ہے اور صرف خالی خُولی باتوں کو انجام دے رہا ہے۔

اصل حل محنت کش طبقے کی جانب سے اسکی موڑ اور باری پر ہے جو آب و ہوا کی وجہ سے سب سے زیادہ تباہ ہوئے ہیں اور ساتھ ہی ایک طاقتور اور فطری طور پر عالمی سماجی قوت ہیں۔ جس طرح کینیڈا میں ڈاک ورکرز کی ہڑتال کو قومی سرحدوں کے پار امریکہ میں یو پی ایس ڈرائیوروں، برطانیہ میں اساتذہ، جنوبی کوریا بھر کے مزدوروں اور فرانس میں بڑے پیمانے پر احتجاج کے ساتھ متحد ہونا چاہیے اسی طرح گلوبل وارمنگ کو ختم کرنے اور ریورس کرنے کی جنگ کا دائرہ بین الاقوامی ہونا چاہیے۔.

اور ایسی جدوجہد سیاسی ہونی چاہیے ماحولیاتی تباہی کو ختم کرنے کے لیے تکنیکی آلات تیار کرنا کافی نہیں ہے۔ سرمایہ داری کو ختم کر دینا چاہیے اس کے ساتھ استحصال کرنے والے اس طبقے کو جو اس سے فائدہ اٹھاتے ہیں جیسے ہی کہ محنت کش طبقہ عالمی سوشلسٹ انقلاب برپا کرتا ہے۔

Loading