اُردُو
Perspective

نیٹو کا ولنیئس سربراہی اجلاس روس کے خلاف اپنی جنگ کو بڑھانے کی منظوری دے گا۔

یہ 10 جولائی 2023 کو انگریزی میں شائع 'NATO’s Vilnius summit will authorize escalation of its war against Russia' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

9 جولائی 2023 بروز اتوار ولنیئس لتھوانیا میں نیٹو سربراہی اجلاس کے مقام کے ارد گرد باڑ کے ساتھ سپاہی پہرے دے رہے ہیں۔ [AP Photo/Mindaugas Kulbis]

منگل اور بدھ کو نیٹو کا ایک سربراہی اجلاس لتھوانیا کے شہر ولنیئس میں ہوگا جس میں روس کے خلاف نیٹو فوجیوں کی براہ راست مداخلت کے لیے میڈیا مہم چلائی جائے گی تاکہ یوکرائنی جنگی کوششوں کے خاتمے کو روکا جا سکے۔

یہ مہم اگر اس مطالبے کی شکل اختیار کرتی ہے کہ یوکرین کو نیٹو میں شامل کیا جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ یوکرین نیٹو کے آرٹیکل 5 کا احاطہ کرتا ہے اور اس کے نتیجے میں یہ ہوگا کہ امریکہ روس کے ساتھ جنگ ​​میں جانے کے لیے معاہدے کی ذمہ داری کا پابند ہو گا۔

یہ چاہے نیٹو اتحاد میں یوکرین کے داخلے کے ذریعے ہو یا 'سیکیورٹی گارنٹی' کے ذریعے ان دونوں صورتوں میں تنازع میں نیٹو فوجیوں کے براہ راست داخلے کے لیے جان بوجھ کر سفارتی ڈھانچہ بنایا جا رہا ہے۔

یہ میڈیا مہم جو کہ نیٹو حکومتوں کے اعلیٰ ترین عہدوں کے اندر رائج رویوں کی عکاسی کرتی ہے ایک بڑھتے ہوئے فریب اور غیر منقولہ کردار کی بلندیوں کو چھو رہی ہے جس میں بڑے اخبارات تیسری عالمی جنگ کے لیے کوشاں ہیں۔

نیو یارک ٹائمز کے ادارتی سیکشن میں شائع ہونے والا ایک مضمون جس کا عنوان ہے 'ایک نیٹو دعوت یوکرین کو بنا یا توڑ دے گی' میں اعلان کیا گیا ہے کہ 'اب ماسکو کے سامراجی خوابوں کو دفن کرنے کا وقت آ گیا ہے۔ یوکرین کو اب ولنیئس میں نیٹو میں شمولیت کی سیاسی دعوت دینے سے بہتر اور کوئی طریقہ نہیں ہے۔

مصنف الیونا گیٹ مینچک اس حقیقت پر تشویش کا حوالہ دیتی ہیں کہ اس طرح کے تنازعہ سے روسی صدر ولادیمیر پیوٹن ' پریشانی اور تشویش ' کے عالم میں 'اپنے جوہری ہتھیاروں میں ڈوبنے' کا باعث بنے گا۔

وہ لکھتی ہے،

اب، پچھلے سالوں کی طرح حاضرین اجلاس کا یوکرین کو نیٹو میں مدعو کرنے پر خطرات پر پریشانی اور تشویش کا سلسلہ پھر سے شروع ہو گیا ہے۔ اور ایک بار پھر مسٹر پیوٹن کو مزید اکسانے کے خطرے پر مرکوز ہے۔ روسی فوج کا نیٹو کے ساتھ فوجی تصادم کا کوئی امکان نہیں ہے۔ وہ بمشکل یوکرین کی مسلح افواج کا مقابلہ کر رہا ہے۔

یہ سِرے ہی سے مکمل طور پر پاگل حد تک بیان ہے۔ دو جوہری ہتھیاروں سے لیس طاقتوں کے درمیان جنگ سے لاحق خطرات کا اندازہ لگانے میں دونوں فریقوں کی روایتی قوتوں کی نسبتاً سبقت بے معنی ہے۔

اگر نیٹو کی فوج روس کو شکست دینے کی دھمکی دیتی ہے تو روس کا فوجی نظریہ جوہری ہتھیاروں کا استعمال کرنا ہے جس سے ایک ایٹمی جنگ شروع ہو جائے گی جس میں اکیلے روسی ایٹمی ہتھیار نہ صرف امریکہ کے ہر بڑے شہر کو تباہ کر سکتے ہیں بلکہ انسانی تہذیب کو مکمل طور پر ختم کر سکتے ہیں۔

تنقیدی طور پر گیٹ مینچوک اس بات پر زور دیتے ہیں کہ وقت کی اہمیت کو دیکھتے ہوئے جوہری ہتھیاروں سے لیس ریاست کے ساتھ جنگ ​​میں جانے کے فیصلے کو آئندہ صدارتی انتخابات میں ایک مسئلہ نہ بننے دیا جائے:

نیٹو کے کچھ مَُذَبذب رہنما یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان کے پاس عام طور پر یوکرین کو اتحاد میں دعوت پر کوئی اعتراض یا اختلاف نہیں ہے۔ یوکرین کی دعوت کے خلاف کچھ نہیں ہے۔ لیکن کیا آئیڈیل وقت جیسی کوئی چیز ہے؟ اگلے سال واشنگٹن میں نیٹو سربراہی اجلاس اُس وقت منقد ہو گا جب امریکہ صدارتی مہم کی تیاری میں مصروف ہوگا؟ یہ مشکوک لگتا ہے۔

جنگ میں امریکی داخلے کے لیے ایک اور بھی غیر منقولہ مطالبہ گارڈین کے سائمن ٹڈسال کی طرف سے آیا جس نے ہفتے کے آخر میں اداریہ کے صفحہ میں شائع کیا جس میں براہ راست نیٹو کے فوجیوں کو جنگ میں شامل ہونے کا مطالبہ کیا گیا۔ مضمون میں جس کا عنوان ہے، 'نیٹو کو آخرکار روس کو روکنے کے لیے قدم اٹھانا ہی چاہیے،' ٹڈسال نے مطالبہ کیا 'لہذا براہِ کرم مزید شرائط، اعتراضات اور ہوشیار انتباہات کی ضرورت نہیں۔ نیٹو کو یوکرین کی فتح کو یقینی بنانے کے لیے اپنی قابل ذکر طاقت کو استعمال کرنا چاہیے۔

یہ اعلان کرتے ہوئے کہ 'یوکرین کے [نیٹو سے] الحاق کو تیزی سے نتیجہ تک لے جایا جائے،' ٹڈسال نے اس مہم کا مرکزی محرک یوں بیان کیا: 'اگرچہ یہ مسئلہ اہم ہے نیٹو کو اس ہفتے ایک بہت بڑے سوال کا سامنا ہو گا کیا نیٹو یہ یقینی بنانے کے لیے کافی کچھ کر رہا ہے؟ کہ کیف جنگ جیت جائے یا کم از کم ہار نہ کھائے۔

کئی مہینوں تک، امریکی میڈیا نے یوکرین کے موسم بہار کے حملے کا اعلان کیا جسے اس نے جنگ میں فیصلہ کن موڑ قرار دیا صرف ایک ماہ قبل اکانومسٹ نے اعلان کیا تھا کہ 'مغربی فوجی حکام کا خیال ہے کہ روس کی کم تر حوصلہ افزائی اور فوجیوں کی بیڈھنگ تربیت جو مہینوں کے بے نتیجہ حملوں کے بعد تھک چکی ہیں کیا خندقوں اور قلعوں کے دفاع کے لیے جدوجہد کر سکتی ہیں۔'

اب انہیں یوکرین کی جارحیت کی ناکامی کا سامنا ہے - جس نے دسیوں ہزار فوجیوں کی ہلاکت کے باوجود کچھ حاصل نہیں کیا ہے - امریکی میڈیا کا دعویٰ ہے کہ کیف حکومت کو فوجی شکست سے بچانے کا واحد راستہ براہ راست مداخلت کرنا ہے۔

ولنیئس میٹنگ کو فاتحین کی سربراہی کانفرنس کے طور پر تصور کیا گیا تھا۔ اس کے برعکس نیٹو طاقتیں فوجی ناکامی کے پس منظر میں میٹنگ کر رہی ہیں اور یہ میٹنگ 'مایوس کا سربراہی اجلاس' ہوگا۔ نیٹو کی تمام حکومتیں گہرے داخلی بحرانوں کا سامنا کر رہی ہیں جو اُن کی اُکسائی گئی جنگ ایک بڑی ناکامی وجہ سے مزید بحرانی شدت اختیار کر جائے گی۔

مئی میں اس اعلان کے بعد کہ امریکہ یوکرین کو ایف -16 لڑاکا طیارے بھیجے گا بخموت کی شکست کے دوران ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے سوال کیا کہ، 'امریکہ اس تازہ ترین شکست کا کیا جواب دے گا؟ واشنگٹن اور کتنا آگے بڑھ سکتا ہے؟ کیا کوئی شک کر سکتا ہے کہ، جدید لڑاکا طیاروں کی یوکرین روانگی کے بعد پریس میں بائیڈن کے سامنے مطالبات پیش کیے جائیں گے کہ وہ یوکرین کو 'دفاعی' جوہری ہتھیار بھیجیں یا نیٹو کے دستوں کے لیے، چاہے آسمانوں میں ہوں یا زمین پر براہ راست لڑائی میں ملوث؟ ہونے کے لیے۔

ان پیشین گوئیوں کی تصدیق چند مہینوں میں ہو گئی ہے۔

اتوار کو بائیڈن نے کہا کہ یوکرین کا نیٹو میں شامل ہونا 'قبل از وقت' ہے۔ بائیڈن نے کہا، 'ہم روس کے ساتھ جنگ ​​میں ہیں، اگر ایسا ہوتا۔' اس اعلان کو فروری 2022 میں بائیڈن کے اس اعلان کے تناظر میں دیکھا جانا چاہیے کہ 'یہ خیال کہ ہم جارحانہ سازوسامان بھیجیں گے اور ہمارے پاس طیارے اور ٹینک اور ٹرینیں ہوں گی جسے تیسری عالمی جنگ کہا جاتا ہے ' جس کی پیروی امریکہ نے شروع کی۔ اہم جنگی ٹینک اور ایف -16 کی تعیناتی کر کے بائیڈن انتظامیہ نے ہر اُس سرخ لکیر کا دعویٰ کہ وہ یوکرین میں عبور نہیں کرے گی لیکن اُس نے سرخ لکیر بالآخر عبور کی - کچھ معاملات میں تو دنوں میں اور کچھ صرف ہفتوں کے بعد۔

محنت کش طبقے کی براہ راست مداخلت کے بغیر جنگ میں مسلسل اضافہ جاری رہے گا جسے جنگ کے خلاف اپنی بین الاقوامی مہم شروع کرکے جواب دینا ہوگا۔ وہی سرمایہ دارانہ بحران جو روس کے ساتھ جنگ ​​کی مسلسل شدت کو آگے بڑھاتا ہے اس طرح سے جنگ مخالف تحریک کی بنیاد بھی فراہم کرتا ہے۔ اس پورے سال کے دوران لاکھوں مزدوروں نے زندگی کے عذب کے دوران آسمان سے چھوتی قیمتوں اور انتہائی استحصال کی وجہ سے بڑے پیمانے پر ہڑتالوں اور مظاہروں میں حصہ لیا ہے۔

ابھرتی ہوئی محنت کش طبقے کی تحریک کو سامراج کے خلاف جدوجہد کے ساتھ جوڑنے کی اشد ضرورت ہے جو انسانیت کو ایٹمی جنگ کے تباہ کن دہانے کی طرف تیزی سے لے جا رہی ہے۔ عسکریت پسندی اور عدم مساوات، استحصال اور سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف حزب اختلاف کو جنگ ​​کی مخالفت کے خلاف متحد کرنا ناگزیر ہے۔

Loading