اُردُو
Perspective

ولنیئس میں نیٹو سربراہی اجلاس: کا انعقاد مشہور زمانہ تاریخی جرم کے مقام پر جہاں جنگ کی سازش تیار کی جا رہی ہے۔

یہ 11جولائی 2023 کو انگریزی میں شائع  'NATO summit in Vilnius: War plotting at the site of a historic crime' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

آج نیٹو کے رہنما وِلنیئس، لتھوانیا میں اجلاس کریں گے، جو یوکرین میں جنگ کے میدان سے صرف چند سو میل دور ہے جو پہلے ہی لاکھوں جانیں لے چکا ہے۔

اس میں کوئی شبہ نہیں کہ روسی بربریت کی مذمت میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔ بلاشبہ لتھوانیا کی حکومت خاص طور پر، نیٹو کی جنگ کی قیادت کرنے میں اس کی کوششوں کا شکریہ ادا کیا جائے گا یا جیسا کہ میڈیا پریس کے فرمانبردار چمچے اسے 'جمہوریت' کے دفاع کی لڑائی کہتے ہیں۔

جو بائیڈن جس نے ابھی یوکرین کو کلسٹر بموں کی فراہمی کی منظوری دی تھی جو کہ جدید دور کی جنگ کے سب سے خطرناک اور مجرمانہ ہتھیاروں میں سے ایک ہے وہ شدت سے ولادیمیر پیوٹن کی غیرانسانی حرکتوں کی مذمت کرے گا۔ اولاف سکولز جس کی حکومت ہٹلر کے بعد خود کو دوبارہ بڑے پیمانے پر ہتھیاروں سے لیس کر رہی ہے اور تقریباً 4,000 جرمن فوجی لتھوانیا میں تعینات کرنے والی ہیاور جرمن سامراج کے کچھ بدترین جرائم کے منظر دوبارہ دوہرائے گی اور اچھی طرح سے تیار شدہ جنگی پروپیگنڈے کا سہارا لے گی۔

جس شہر میں وہ ملاقات کر رہے ہیں اس کی تاریخ کے بارے میں بات نہیں کی جائے گی: ولنیئسُ جسے کبھی 'یورپ کا یروشلم' کہا جاتا تھا۔ یورپی یہودیوں کی نازیوں کی زیر قیادت تباہی کی تاریخ میں سب سے بڑے اور وحشیانہ قتل عام کا مقام ہے۔ تقریباً 210,000 یہودی آبادی کا 95 فیصد تک قتل عام سے لتھوانیا میں اموات کی شرح تقریباً یورپ کے کسی بھی دوسرے ملک میں سب سے زیادہ ریکارڈ کی گئی۔ لتھوانیائی قوم پرست اس تاریخی جرم کے اصل مجرموں میں شامل تھے۔

1941 میں لتھوانیائی سیکورٹی پولیس کے ارکان لتھوانیائی عبادت گاہ کو جلا رہے ہیں۔

اپنے یوکرائنی ہم منصبوں کی طرح لتھوانیائی بورژوازی بھی تاریخی طور پر کمیونزم مخالف کی تلخ روایت کو مذموم یہودی دشمنی کے ساتھ جوڑ دیا۔ 1940 میں لتھوانیا پر سوویت یونین کے قبضے کے بعد انتہائی دائیں بازو کے قوم پرست اور جرنیل جرمنی فرار ہو گئے، جہاں انہوں نے نازی حکومت کے ساتھ براہ راست تعاون میں لتھوانیائی ایکٹیوسٹ فرنٹ (ایل اے ایف) کی بنیاد رکھی۔

مغربی یوکرین میں نازیوں اور یوکرائنی قوم پرستوں کی تنظیم (او یو این) کی طرف سے شروع کیے گئے قتل عام کے ساتھ تقریباً ہم عصر ایل اے ایف اور جرمن قابضین نے لتھوانیا میں بڑے پیمانے پر قتل عام کا ننگا ناچ شروع کر دیا۔ تین سال سے بھی کم عرصے کے اندر یہ آٹھ سو سالا پرانی کمیونٹی جس نے یہودیوں اور عالمی ثقافت کی ترقی میں مرکزی کردار ادا کیا تھا تقریباً مکمل طور پر ختم ہو گی۔

22 جون 1941 کو نازیوں کے حملے سے پہلے لتھوانیا میں رہنے والے تقریباً 210,000 یہودیوں میں سے 195,000 کو 1945 میں جنگ کے اختتام تک قتل کر دیا گیا تھا غالب اکثریت کو 1941 کے آخر تک مرا جا چکا تھا۔

لتھوانیا میں ہولوکاسٹ کی سب سے خوفناک خصوصیت آبادی کی اکثریت کو کھلے عام اور انتہائی بے شرمی سے یہودیوں کو بربریت کا نشانہ بنایا گیا اور انہیں ڈھونڈ ڈھونڈ کر تشدد اور قتل عام کیا گیا۔ مورخ ماشا گرین بام نے نازیوں کے حملے سے پہلے اور اس کے فوراً بعد کے دنوں میں ملک میں پھیلنے والے قاتلانہ ہنگامے کا ایک دلکش بیان پیش کیا ہے۔

لیتھوانیا میں نازیوں کے داخلے کا جسے 1940 میں سوویت یونین نے اپنے ساتھ ملا لیا تھا کا قوم پرست، کمیونسٹ مخالف اور متشدد یہودی دشمن قوتوں نے پرجوش استقبال کیا۔ اس کی سرکردہ شخصیات میں برلن میں لتھوانیا کے سفیر کرنل کازیس سکرپا بھی شامل تھے جو ایڈولف ہٹلر کے پرجوش مداح کے طور پر مشہور تھے۔ جرمن حملے سے پہلے سکرپا نے لتھوانیائی فاشسٹوں کے ایک بڑے نیٹ ورک کی سرپرستی کی۔ گرین بام لتھوانیا کے یہودیوں کے بارے میں لکھتے ہیں: ایک قابل ذکر کمیونٹی کی تاریخ 1316-1945:

لتھوانیائی فاشسٹوں، نازی ہمدردوں، اور لتھوانیائی قوم پرستوں کے یہ سیل ایل اے ایف (لتھوانیائی ایکٹیوسٹ فرنٹ) کے اہم اجزاء تھے جو قوم پرست کا سب سے بڑا اور بہترین منظم گروپ تھا۔ لیکن بہت سے دوسرے دھڑے بھی تھے جیسے آئرن ولف، لتھوانیائی فریڈم آرمی، فالکنز اور لتھوانیائی بحالی فرنٹ۔ انہوں نے یونیورسٹیوں، سول سروس، پیشہ وار یہاں تک کہ ہائی اسکولوں تک رسائی حاصل کی۔ لتھوانیائی ذرائع کے مطابق ان خفیہ گروپوں اور سوویت مخالف یونٹوں کے ارکان کی تعداد 100,000 تک پہنچ گئی۔

حملے سے تین دن پہلے سکرپا نے نازی گیسٹاپو (خفیہ پولیس) اور وہرماچٹ (فوج) کے ساتھ مسلسل رابطے میں تھا اور اُس نے لیتھوانیا میں 37 نمبر کتابچہ بڑے پیمانے پر تقسیم کیا۔ یہ لتھوانیائی یہودیوں کی مکمل تباہی کے لیے ایک غیر مخفی اعلان تھا۔ اس میں کہا گیا:

آخرکار یہودیوں کے لیے حساب کا اہم دن آن پہنچا ہے۔ لتھوانیا کو نہ صرف ایشیائی بالشویک غلامی سے بلکہ دیرینہ یہودی جوئے سے بھی آزاد ہونا چاہیے۔

لتھوانیا کے لوگوں کے نام سے ہم سنجیدگی کے ساتھ اعلان کرتے ہیں کہ لتھوانیا میں یہودیوں کو۔ وائٹاؤٹس عظیم (لتھوانیا کا حاکم) کی طرف سے دی گئی پناہ گاہ کا قدیم حق ہمیشہ کے لیے اور بغیر کسی ریزرویشن کے ختم کر دیا گیا ہے۔

وہ یہودی جو لتھوینیا کے باشندوں پر ظلم کرنے کے مجرم ہیں ان کو مقدمے کے لیے لایا جائے گا۔ جو فرار ہونے میں کامیاب ہو جائیں گے انہیں دوبارہ پکڑ لیا جائے گا۔ یہ تمام دیانتدار لتھوانیائی باشندوں کا فرض ہے کہ وہ اپنے طور پر ایسے یہودیوں کو روکنے کے لیے اقدامات کریں اور اگر ضروری ہو تو انھیں سزا دیں۔ نئی لتھوانیائی ریاست کی تعمیر نو صرف لتھوانیائی ہی کریں گے۔ تمام یہودیوں کو لتھوانیا سے ہمیشہ کے لیے خارج کر دیا گیا ہے۔ تاکہ یہودیوں کو معلوم ہو جائے کہ ان پر کیا گیا اٹل سزا کا فیصلہ لاگو ہو گیا ہے ۔ ایک بھی یہودی کو شہریت کا حق حاصل نہیں ہوگا۔ ماضی کی غلطیوں اور یہودیوں کی طرف سے سرزد ہونے والی برائیوں کو درست کیا جائے گا اور ہماری آریائی قوم کے خوشگوار مستقبل اور تخلیقی کام کی مضبوط بنیاد رکھی جائے گی۔ آئیے ہم لتھوانیا کی آزادی اور قوم کی تطہیر کے لیے تیاری کریں۔

اس لمبی لتاڑ نے قتل و غارت گری کی ایک لہر کو جنم دیا۔ سب پیشگی خبردار رہو: لیتھوینیا کے ہجوم کے ذریعہ یہودیوں کے خلاف انجام پانے والے بھیانک جرائم کے بارے میں گرین بام کے بیان کو پڑھنا مشکل ہے، جنہیں قوم پرستی نے کمیونسٹ دشمنی کے جنون میں مبتلا کر دیا تھا۔ گرین بام لکھتے ہیں:

25 جون کو لتھوانیائی حامیوں نے جنہوں نے خود کو آزادی پسندوں کے طور پر بیان کیا چھوٹے قصبوں اور دیہاتوں میں یہودیوں کے خلاف تین روزہ قتل و غارت گری شروع کر دی، جس کے دوران 150 سے زیادہ یہودی برادریوں کی پوری آبادی ہلاک ہو گئی۔ کچھ یہودیوں کو ان کے گھروں سے نکال کر زندہ جلا دیا گیا وحشیانہ طریقے سے مارا پیٹا گیا اور عبادت گاہوں، سکولوں اور دیگر عوامی مقامات پر لے جایا گیا جنہیں پھر نذر آتش کر دیا گیا۔ دوسری صورتوں میں تمام یہودی خاندانوں کو قریبی جنگلات یا ندی کے کنارے لے جایا گیا جہاں گڑھے یا خندقیں تیار کی گئی تھیں اور پھر انہیں گولی مار دی گئی۔ کئی علاقوں میں، جیسے کہ تیلسیائی کے علاقے میں رینیائی اور گیرولیائی، میرٹز (مرکین)، پلنگین (پلنج)، ساکیائی (شاکی) اور کیلم (کیلمے) میں یہودیوں کو اپنی قبریں خود کھودنے پر مجبور کیا گیا۔ اوکمرج میں تقریباً تمام یہودیوں کو عبادت گاہ میں لے جا کر زندہ جلا دیا گیا۔ سیریجائی میں یہودیوں کو برہنہ حالت میں سڑکوں پر گھسیٹا گیا اور پھر خوشی منانے والے ہجوم کی موجودگی میں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ پینیویزیس میں یہودیوں سمیت کئی نوجوان خواتین جن کی عصمت دری کی گئی تھی کو جلتے ہوئے چونے میں پھینک دیا گیا۔

صرف کوونو میں لتھوانیائی حامیوں نے ان دو دنوں کے دوران تقریباً 4,000 یہودیوں کو قتل کر دیا جو حملے اور شہر میں جرمن افواج کی آمد کے دوران کیے گے۔ ایک خاص وحشیانہ مظالم بعد میں لیتوکیس کوآپریٹو کے شہر کوونو گیراج میں پیش آیا۔ تقریباً 60 یہودی مردوں کو جن کا انتخاب لتھوانیان پاسداروں نے سڑکوں پر بے ترتیب طور پر کیا، انہیں گیراج میں لے جایا گیا اور وحشیانہ طریقے سے مارا پیٹا گیا اور تشدد کا نشانہ بنایا گیا کیونکہ ایک بڑا ہجوم وہاں کھڑا تھا اور دیکھ رہا تھا۔ جب یہودی زمین پر زخمی اور کراہ رہے تھے ان کے تشدد کرنے والے ہجوم کی تفریح ​​کے لیے انہیں بے رحمی سے مارتے رہے یہاں تک کہ وہ مر گئے۔ یہودیوں کے ایک اور گروہ کو گیراج صاف کرنے اور مقتولین کو دفنانے کے لیے لے جانے کے لیے گھسیٹ لیا گیا۔

سلوبوڈکا (ولیجامپول) میں لتھوانیان حامی گھر گھر جا کر یہودیوں کو ڈھونڈ رہے تھے۔ ان کے متاثرین کو دریائے ولیجا میں پھینک دیا گیا جو لوگ ڈوب نہیں سکے انہیں تیرتے ہوئے گولی مار کر ہلاک کر دیا گیا۔ یہودیوں کے مکانات کو آگ لگا دی گئی اور ان کے مکینوں کو زندہ جلا دیا گیا کیونکہ لتھوانیان حامیوں نے فائر فائٹرز کے قریب جانے کا راستہ روک دیا۔ اپنے آپ کو آزادی پسند کہنے والے غنڈوں نے یہودیوں کو اندھا دھند ذبح کیا۔ بہت سے واقعات میں جسم کے اعضاء کاٹ دیے گئے اور ادھر ادھر بکھر گئے۔

25 جون کو لتھوانیان پاسدارن نے سلوبوڈکا کے چیف ربی زلمان اوسوسکی کا سر قلم کر دیا اور اس کے کٹے ہوئے سر کو اس کے گھر کی اگلی کھڑکی میں دکھایا۔ اس کا سر کے بغیر جسم ایک دوسرے کمرے میں دریافت ہوا جو تلمود کے ایک کھلی کتاب کے قریب بیٹھا تھا اور جس کا وہ مطالعہ کر رہا تھا۔

ان 150 علاقوں میں سے زیادہ تر جرمن قابض افواج کے پہنچنے سے 24 گھنٹے قبل جوڈنرین (یہودی سے پاک) ہو چکے تھے۔ اس نے مقامی آبادی کو لوٹ مار اور لوٹ مار کے جنون میں اپنے سابق یہودی پڑوسیوں کے گھروں اور کاروباروں پر جھپٹنے کا ایک مختصر موقع فراہم کیا۔ بہت سے قتل اور لوٹ مار کی وارداتیں دن دیہاڑے اکثر گواہوں کی خوشامد کے دوران کی گئیں۔ جب وہ چرچ میں لوگوں میں شریک ہوئے تو پادریوں نے ان کی ہمت اور حب الوطنی کی تعریف کی۔

جون 1941 کے آخری ہفتے کے مظالم جنگ کے خاتمے تک بلا روک ٹوک جاری رہے۔ یہودی بنیادی طور پر اس قتل عام کا نشانہ تھے لیکن اکیلے وہ نہیں تھے۔ لتھوانیا میں قتل عام کا سب سے بدنام مقام ولنیئس کے مضافات میں واقع پونیری جنگل تھا۔ ایک اندازے کے مطابق 1941 اور 1944 کے دوران 100,000 لوگوں کو جن میں تقریباً 70,000 یہودی 20,000 پولش اور 8,000 سوویت جنگی قیدی تھے یہ جرمن ایس ایس آئن سیٹزگروپپن اور ان کے لتھوانیائی ساتھیوں کے ہاتھوں قتل ہوئے۔ زیادہ تر ہلاکتیں یاپاٹننگیسس بوریس(Ypatingasis būrys) کی 80 مردوں کی مضبوط یونٹ کی طرف سے کی گئیں جو ایس ایس میں منظم لتھوانیائی رضاکار تھے۔ قتل عام صرف سوویت ریڈ آرمی کی پیش قدمی کے ساتھ ہی ختم ہوا تھا۔

جنگ کے بعد بہت سے بدترین نازی معاونوں اور اجتماعی قتل میں انک شریک کروں نے بغیر کسی نقصان کے پرامن اپنی زندگی جاری رکھی۔ ایل ایف اے کے بانی کازیس سکرپا نے ڈبلن ٹرینیٹی کالج اور یو ایس کی کانگریس لائبریری میں کام کیا۔ ان کا انتقال 18 اگست 1979 کو واشنگٹن ڈی سی میں 84 سال کی عمر میں ہوا۔

ولنیئس میں لتھوانیائی سیکورٹی پولیس کے سربراہ الیگزینڈراس لیلیکس جو ولنیئس کی یہودی برادری کے قتل کے مرکزی منتظمین میں سے ایک تھے نے سی آئی اے میں ملازمت حاصل کی اور اسے امریکہ ہجرت کرنے کی اجازت دی گئی۔ وہ میساچوسٹس میں آباد ہوئے اور امریکی شہریت حاصل کی۔ یہ 1994 تک اس کے جرائم کی تحقیقات میں طویل تاخیر کی وجہ سے اس کی شہریت ختم ہوگئی۔ وہ لتھوانیا واپس آیا اور نسل کشی کے الزام میں اس کے خلاف مقدمہ چلانے کے مطالبات سے بچ نہیں سکا۔ لیکن لیلیکس ستمبر 2000 میں 93 سال کی عمر میں فیصلہ آنے سے پہلے ہی انتقال کر گئے۔

سوویت یونین کی تحلیل کے بعد نئی لتھوانیائی بورژوازی نے اپنے نازیوں کے ساتھ تعاون کرنے والے آباؤ اجداد کی بحالی کو فروغ دیا۔ کبھی کبھار اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر سیاسی مصلحت پرو فارما جاری کرت ہوئے اور لتھوانیائی یہودیوں کی ہلاکت پر سرکاری افسوس کے سخت بیانات جاری کیے حکومت اور بڑی جماعتوں نے 1941 اور 1945 کے درمیان ہونے والے جرائم کے پیمانے کو کم کیا اور اس پر پردہ ڈالا۔

اپنی پہلی کارروائیوں میں سے ایک کے طور پر نئی لتھوانیا کی پارلیمنٹ نے سوویت حکومت کی طرف سے نازیوں کے ساتھ تعاون کے الزام میں سزا یافتہ لتھوانیائی باشندوں کی بحالی کی۔ گلیوں کا نام ایل اے ایف لیڈروں جیسے سکرپا کے نام پر رکھا گیا تھا۔ لیتھوانیا کی سرکاری ملٹری اکیڈمی جو کہ دیگر نیٹو ملٹری اکیڈمیوں کے ساتھ منسلک ہے کا نام ایک اور بدنام زمانہ نازی حامی جوناس زیمائٹس کے نام پر رکھا گیا تھا۔ دریں اثنا ہولوکاسٹ سے بچ جانے والے جو سوویت حامیوں کے ساتھ نازیوں اور ان کے لتھوانیائی اتحادیوں کے خلاف لڑے تھے ان پر 'تعاون' اور 'جنگی جرائم' کے لیے مقدمہ چلایا گیا۔

لتھوانیائی فاشسٹ جوناس نوریکا کے کیس نے بین الاقوامی شہرت حاصل کر لی ہے۔ جنگ کے بعد جس سے سوویت یونین میں پھانسی دی گئی اسے 1991 کے بعد کی لتھوانیا کی حکومت نے 'کمیونسٹ ظلم' کے خلاف ایک جنگجو کے طور پر منایا۔ اس کے اعزاز میں سڑکوں کا نام تبدیل کر دیا گیا، اور نوریکا کو کراس آف وائیٹس سے نوازا گیا یہ سب سے بڑا اعزاز ہے جو لتھوانیا کی طرف سے ایک مرنے والے شخص کو دیا جاتا ہے۔ لیکن سال 2000 میں نوریکا کی پوتی کے پاس طویل مخفی خاندانی دستاویزات سامنے آئیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ اس نے 'لتھوانیا کے اپنے علاقے میں تمام یہودیوں کو پکڑ کر ایک یہودی بستی میں بھیجنے کا حکم دیا تھا جہاں انہیں مارا پیٹا گیا بھوکا رکھا گیا، تشدد کا نشانہ بنایا گیا، عصمت دری کی گئی اور پھر قتل کیا گیا۔ ' نیو یارک ٹائمز میں 27 جنوری 2021 کو شائع ہونے والا آداریہ کے صفہ 'مزید جھوٹ نہیں کے عنوان سے میرے دادا نازی تھے، از سلویا فوٹی]

ان انکشافات کے باوجود نوریکا کو آج بھی لتھوانیا میں قومی ہیرو کے طور پر اعزاز سے نوازا جاتا ہے۔ لتھوانیائی اکیڈمی آف سائنسز میں ان کی یادداشت کے لیے ایک یادگاری تختی موجود ہے۔ تاریخی سچائی کی اس شدید غلط بیانی کی مذمت کرنے والی ایک دستاویزی فلم جس کا عنوان جے، ایکیوز (J’Accuse) ہے حال ہی میں مکمل کی گی ہے اور دسمبر 2022 میں میامی جیوش فلم فیسٹیول میں دیکھی گی تھی۔

جے، ایکیوز ٹریلر / میامی یہودی فلم فیسٹیول 2023

لتھوانیا کی وزیر اعظم۔انگریڈاشمونیٹی اور وزیر خارجہ لینڈ گیبریلیئسُ جن کے ساتھ بائیڈن،سکولز، فرانس کے میکرون اور برطانیہ کے رشی سنک یوکرین کے نیٹو کے ساتھ الحاق اور براہ راست فوجیوں کی تعیناتی کے مشورے پر بات کریں گے حکمران ہوم لینڈ یونین پارٹی کے رکن اور پارٹی کے نائب ہیں۔ شدید یہودی دشمنی کا ایک تلخ ریکارڈ رکھتے ہیں۔

2019 میں ملک میں واحد یہودی عبادت گاہ کو انتہائی دائیں بازو کی طرف سے مسلسل دھمکیوں کی وجہ سے غیر معینہ مدت کے لیے ولنیئس میں بند کرنا پڑا۔ لتھوانیا کی یہودی برادری کے ایک بیان کے مطابق ہوم لینڈ یونین پارٹی نے نہ صرف مداخلت کرنے سے انکار کیا بلکہ انتہائی دائیں بازو کی قوتوں کی حوصلہ افزائی بھی کی جس میں 'لتھوانیا کے یہودیوں کے اجتماعی قتل کے مجرموں کو تسلیم کرنے کے لیے عوامی سطح پر مسلسل بڑھتی ہوئی خواہش کا اظہار کیا گیا۔ پر اور مطالبہ کیا ہے کہ انہیں قومی ہیروز کے طور پر یاد رکھ جائے اور یادگاری تختیوں اور دیگر طریقوں سے نوازا جائے۔

بائیڈن، شولز، میکرون اور سنک اس تاریخ سے لاعلم نہیں ہیں۔ لیکن وہ نازیوں اور ان کے ساتھیوں کے جرائم کی کسی بھی تکلیف دہ سچائی کو ظاہر نہ کرنے کے طور پر دیکھتے ہیں کیونکہ سچی ان کے جیو پولیٹیکل ایجنڈوں کو ختم کرتی ہیں اور اس لیے انہیں جھوٹ کو سچ اور سچ کو جھوٹ کہنا پڑتا ہے۔ 

یوکرین میں جو پراکسی جنگ چھیڑی جا رہی ہے اسے جھوٹ کے ذریعے چلایا گیا ہے اور اسے جواز بنایا گیا ہے۔ یوکرین، پولینڈ، لتھوانیا اور جرمنی میں نازیوں اور ان کے ساتھیوں کی جعل سازی اور بحالی نیٹو کے ایجنڈے کے ضروری اجزاء ہیں۔

ولنیئس میں نیٹو کے سازشیوں کے اجتماع میں ایک عجیب تاریخی منطق کام کر رہی ہے۔ موجودہ عالمی سامراج کے رہنما 80 سال پہلے کیے گئے ان جرائم کے سیاہ سائے کے نیچے انسانیت کے خلاف اپنے نئے جرائم کی سازش کر رہے ہیں۔

Loading