اُردُو
Perspective

ولنیئس نیٹو سربراہی اجلاس نے عالمی تسلط کے منصوبوں کی نقاب کشائی کی ہے۔

یہ 13 جولائی 2023 کو انگریزی میں شائع ہونے والے “Vilnius NATO summit unveils plans for global domination' اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

اس ہفتے لیتھوانیا کے شہر ولنیئس میں نیٹو کے 31 ارکان کے سربراہان مملکت اور حکومت کی طرف سے اپنایا گیا اعلامیہ عالمی جنگ کا خاکہ ہے۔ 24 صفحات پر مشتمل دستاویز کا صرف ایک حصہ سربراہی اجلاس کے مرکزی مسئلے یعنی یوکرین کی جنگ سے متعلق ہے۔ باقی تمام صفحات میں نیٹو پوری دنیا پر اپنی مرضی مسلط کرنے کے اپنے ارادے کا اعلان کرتا ہے۔ کوئی بھی براعظم اور شاید ہی کوئی خطہ اس میں چھوڑا گیا ہو جسے دستاویز میں نیٹو کی '360 ڈگری اپروچ' کہا گیا ہے۔

دستاویز کے ابتدائی حصوں کی توجہ روس کے ساتھ تنازع پر ہے۔ پیوٹن حکومت کی اس زبان میں مذمت کی جاتی ہے جو یوکرین کی جنگ کے کسی بھی حل کو مذاکرات کی میز پر شروع سے ہی مسترد کرتی ہے۔ نیٹو کا مطالبہ ہے اس کے 'جنگی جرائم' کے لیے 'کوئی استثنیٰ' نہیں ہو سکتا، اور 'تمام ذمہ داروں' کا 'جوابدہ ہونا ضروری ہے،'۔ اور امن کے لیے پیشگی شرط یہ ہے کہ 'روس کا یوکرین سے مکمل اور غیر مشروط انخلاء'۔ پیوٹن کو ، اس میں کہا گیا ہے، 'اس کی مخالفانہ پالیسیوں اور اقدامات کی روشنی میں، ہم روس کو اپنا پارٹنر نہیں مان سکتے۔'

میڈیا کے زیادہ تر تبصروں نے اس حقیقت پر توجہ مرکوز کی ہے کہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ 'یوکرین کا مستقبل نیٹو میں ہے جب کہ ' یہ رکنیت کے لیے کوئی مخصوص ٹائم لائن نہیں دیتا جسکا یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی نے مطالبہ کیا ہے۔ بلکہ اس کے بجائے اس میں کہا گیا ہے کہ یوکرائن کی رکنیت کسی مستقبل کی تاریخ پر طے کی جائے گی، 'جب تمام اتحادی متفق ہوں گے اور شرائط پوری ہوں گی۔'

حکمت عملی کے اعتبار سے نیٹو کی بڑی طاقتوں خاص طور پر امریکہ اور جرمنی نے فیصلہ کیا کہ اب یوکرائن کی باقاعدہ رکنیت کا وقت نہیں ہے، کیونکہ یہ پھر آرٹیکل 5 کو متحرک کرے گا اور بائیڈن انتظامیہ کو سیاسی طور پر مفید افسانے سے محروم کر دے گا کہ امریکہ روس کے ساتھ جنگ میں نہیں ہے۔ مزید برآں یہ پولینڈ یا نیٹو کے دیگر ارکان کے لیے یوکرین کے اندر فوجیوں کی تعیناتی امریکی منظوری کے ساتھ کرنے کا راستہ کھلا چھوڑ دیتا ہے تاکہ پورے اتحاد پر جنگ کا الزام نہ آسکے۔

اتحاد کو جنگ کے باضابطہ اعلان کا پابند کیے بغیر قانونی ابہام کو برقرار رکھنے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ نیٹو جنگ کو بہت زیادہ آگے نہیں بڑھا رہا ہے یوکرین کو جنگ جاری رکھنے اور روس کے مزید مالی وسائل کو نچوڑنے لیے یوکرین کو لامتناہی فوجی اور مالی مدد فراہم کی جا رہی ہے۔

نئے اعلامیہ میں اعلان کیا گیا ہے کہ 'یوکرین کا مکمل یورو-اٹلانٹک انضمام کا راستہ 2008 میں قائم کردہ ممبرشپ ایکشن پلان کی ضرورت سے آگے بڑھ گیا ہے'، کیونکہ 'یوکرین تیزی سے قابل عمل اور سیاسی طور پر اتحاد کے ساتھ مربوط ہو گیا ہے۔'

اس میں مزید کہا گیا ہے، 'ہم یوکرین کے لیے سیاسی اور عملی حمایت کو مزید بڑھانے کے اپنے عزم پر ثابت قدم ہیں کیونکہ وہ اپنی بین الاقوامی سطح پر تسلیم شدہ سرحدوں کے اندر اپنی آزادی، خودمختاری اور علاقائی سالمیت کا دفاع جاری رکھے ہوئے ہے اور جب تک اس کے لیے ضروری ہے ہم اپنی حمایت جاری رکھیں گے۔ '

امریکہ جرمنی اور نیٹو کے دیگر ممالک نے یوکرین کو مزید خاطر خواہ فوجی امداد دینے کا وعدہ کیا۔ جی -7 ممالک جو سبھی ولنیئس میں موجود تھے بشمول جاپان کے جو کہ نیٹو کا رکن نہیں ہے نے ایک علیحدہ معاہدے میں یوکرین کو وسیع امداد دینے بشمول جدید ترین ہتھیاروں کی فراہمی کا وعدہ کیا ہے۔

یوکرین کے خلاف جنگ کو بھڑکانے کے بعد امریکہ اور نیٹو طاقتیں یوکرین کے عوام کی ہولناک تباہی کی قیمت پر ایک وسیع اور عالمی فوجی کشیدگی کو منظم کرنے کے لیے اس کواستعمال کر رہی ہیں۔ یہ پہلے پہل پہلے روس کے ساتھ تنازعہ پر لاگو ہوتا ہے جو پورے یورپ کا احاط کرتا ہے۔

کانفرنس میں اپنایا گیا کل 4,000 صفحات پر مشتمل جنگی منصوبہ جس میں پورے مشرقی یورپ میں فوجیوں اور ہتھیاروں کی تعیناتی کی تفصیلات بیان کی گئی ہیں شاید اس پیغام سے بھی زیادہ اہم ہے۔ نیٹو کی ریپڈ ری ایکشن فورس کو 40,000 سے بڑھا کر 300,000 کر دیا جائے گا۔ اعلامیہ سے مراد 'ہمارے 360 ڈگری اپروچ کے مطابق تمام اتحادیوں کی بروقت کمک کو یقینی بنانے کے لیے' منصوبوں کا حوالہ ہے۔ ہم نے اعلی شدت اور کثیر علمداری کے اجتماعی دفاع کے لیے تیار رہنے کے لیے ان منصوبوں کو مکمل وسائل اور باقاعدگی سے استعمال کرنے کا عہد کیا ہے۔

ایک سال قبل میڈرڈ میں نیٹو کے آخری سربراہی اجلاس کے بعد سے اس نے روس کے گرد ایک حقیقی محاصرہ کر رکھا ہے۔ اس وقت اس نے فن لینڈ اور سویڈن کو شامل ہونے کی دعوت دی اور ایک حکمت عملی پیپر اپنایا جس میں مشرقی یورپ میں نیٹو کے فوجیوں میں بڑے پیمانے پر اضافے اور فوجی اخراجات میں نمایاں اضافہ کے تصور کو اجاگر کیا گیا تھا۔

ان فیصلوں پر عمل درآمد اب بہت آگے بڑھ چکا ہے۔ فن لینڈ نیٹو کا رکن ہے اور ولنیئس میں سویڈن کے الحاق کی راہ میں حائل آخری رکاوٹیں ہٹا دی گئیں۔ اس کے نتیجے میں روس کے ساتھ نیٹو کے رکن ممالک کی زمینی سرحد سائز میں دگنا سے بھی زیادہ ہو گئی ہے اور سینٹ پیٹرزبرگ سے صرف 150 کلومیٹر کے فاصلے پر راہ گئی ہے۔ بحیرہ بالٹک اب نیٹو کا سمندر بن گیا ہے جس تک روس کو صرف سینٹ پیٹرزبرگ کے ایک چھوٹے سے کونے اور کیلینن گراڈ کے محصور علاقے سے ہی رسائی حاصل ہے۔

روس کے ساتھ تنازع خود عالمی تسلط کے تفصیلی خاکے کا حصہ ہے۔

اعلامیہ کی مرکزی توجہ چین پر مرکوز ہے جس پر الزام لگایا گیا ہے کہ 'اپنے عالمی منصوبے کی طاقت اور اثرات کو بڑھانے کے لیے اُس نے وسیع پیمانے پر سیاسی، اقتصادی اور فوجی آلات استعمال کیے ہیں۔' یہ 'بد نیتی پر مبنی ہائبرڈ اور سائبر آپریشنز' اور ' مقابلے کی بیان بازی اور غلط معلومات' کے ساتھ اتحاد کی سلامتی کو نقصان پہنچا رہا ہے اور 'اہم تکنیکی اور صنعتی شعبوں اہم انفراسٹرکچر اور اسٹریٹجک مواد اور سپلائی رسد کے ذرائع کو کنٹرول کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔'

سربراہی اجلاس کا اعلامیہ 'پی آر سی اور روس کے درمیان گہری اسٹریٹجک پارٹنرشپ پر تنقید سے ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ہماری اقدار اور مفادات کے خلاف قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظم کو کم کرنے کی ان کی باہمی طور پر تقویت دینے کی کوششوں پر شدید حملہ کرتا ہے۔'

سامراجی طاقتوں کی تیار کردہ ہر دستاویز کی طرح نیٹو کے اعلامیہ منافقت سے بھرا ہوا ہے۔ امریکہ اور یورپی طاقتیں قومی 'خودمختاری اور علاقائی سالمیت' کے دفاع کی بات کرتی ہیں جب کہ انہوں نے خود دنیا کے کونے کونے میں جارحیت کی جنگیں شروع کر رکھی ہیں۔ وہ یوکرین کے مکمل حق پر اصرار کرتے ہیں کہ وہ اپنے 'اسٹریٹجک پارٹنرز' یعنی نیٹو میں شمولیت اختیار کرے لیکن چین اور روس کے اس حق سے انکار کرتے ہیں۔ وہ نیٹو کے حق پر اصرار کرتے ہیں کہ وہ یوکرین کو لامحدود ہتھیار فراہم کرے لیکن روس کو کسی بھی قسم کی فوجی مدد کو جنگ کا ایک حقیقی عمل تصور کرتے ہیں۔

جب دستاویز 'قواعد پر مبنی بین الاقوامی آرڈر' کو برقرار رکھنے کی بات کرتی ہے تو اس کا مطلب سامراجی طاقتوں کا ایک 'حکم' ہے اور اس بولی کو سب سے بڑھ کر امریکہ کو دینا چاہیے۔

اس مقصد کے لیے، 'شمالی بحر اوقیانوس' معاہدہ تنظیم کو ایک فرینکنسٹین عفریت میں تبدیل کر دیا گیا ہے جو دنیا کے ہر حصے میں اپنے مفادات اور 'اقدار' کا دعویٰ کرتا ہے۔ 'بحیرہ اسود کا خطہ اتحاد کے لیے اسٹیٹجک اہمیت کا حامل ہے،' اعلامیہ میں کہا گیا ہے۔ مشرق وسطیٰ اور افریقہ سٹریٹجک مفادات کے خطے ہیں اور انڈو پیسیفک نیٹو کے لیے بہت اہم ہے۔

کس نقشے پر کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کی کیا مشرق وسطیٰ ہند بحر الکاہل شمالی بحر اوقیانوس کے ساحلوں کو چھوتے ہیں؟

یہاں تک کہ قطب شمالی، بیرونی خلا اور سائبر اسپیس میں، نیٹو کی 'سیکیورٹی' کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔ سائبر حملہ بھی جنگ کو بہانے کے طور پر استمعال کر سکتا ہے: 'نقصان پر مبنی سائبر سرگرمیوں کا ایک واحد یا مجموعی مجموعہ مسلح حملے کی سطح تک پہنچ سکتا ہے اور نارتھ اٹلانٹک کونسل کو واشنگٹن معائدہ کے آرٹیکل 5 کی درخواست کرنے کی قیادت کر سکتا ہے ہر معاملے میں یہ بنیاد فراہم کرسکتا ہے ۔' یہ آرٹیکل 5 نیٹو کے تمام ممبران کو پابند کرتا ہے کہ وہ کسی رکن کو فوجی حملے میں مدد فراہم کریں۔

دستاویز میں خاص طور پر منحوس جوہری جنگ کے بارے میں بار بار حوالہ جات ہیں جو سامراجی جنگی منصوبہ سازوں کے حساب کتاب میں داخل ہو چکے ہیں۔ اس میں کہا گیا ہے کہ 'ہم انفرادی اور اجتماعی طور پر قوتوں، صلاحیتوں، منصوبوں، وسائل، اثاثوں اور بنیادی ڈھانچے کی پورے سلسلے میں ڈیٹیرنس اور دفاع کے لیے وسائل بشمول جوہری ہتھیاروں سے لیس جنگ کے لئےہم مرتبہ حریفوں کے خلاف انتہائی شدت، کثیر علمداری فراہم کریں گے“۔ 'اس کے مطابق ہم تربیت اور مشقوں کو تقویت دیں گے جو روایتی اور متعلقہ اتحادیوں کے لیے بحران یا تنازعہ کی ایک جوہری جہت کی تقلید کریں گے جس سے تمام عملداری اور تنازعات کے پورے میدان میں نیٹو کی ڈیٹیرنس اور دفاعی پوزیشن کے روایتی اور جوہری اجزاء کے درمیان زیادہ ہم آہنگی کی سہولت فراہم کی جائے گی۔ '

یہ دستاویز پیوٹن حکومت کی حکمت عملی کے سیاسی دیوالیہ پن کو بے نقاب کرتی ہے جس نے ایک پالیسی اپنائی ہے جس کا مقصد سامراجی طاقتوں پر 'سیکیورٹی گارنٹی' کے لیے دباؤ ڈالتے ہوئے ان سے ڈیل کرنی تھی ۔ لیکن امریکی اور یورپی سامراجی طاقتیں سمجھوتہ نہیں چاہتیں وہ عالمی تسلط چاہتی ہیں۔ یوکرائنی جوابی کارروائی کی واضح ناکامی کے باوجود امریکہ اور نیٹو جنگ کو جاری رکھنے کے لیے اپنی طاقت میں ہر ممکن کوشش کریں گے چاہے کتنے ہی یوکرینی مارے جائیں۔ روس ایک ایسے جال میں پھنس گیا ہے جس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ تنازعہ جتنا لمبا ہوتا جائے گا پیوٹن حکومت پر جنگ یا تو بڑھنے یا ہتھیار ڈالنے کا دباؤ بڑھتا جائے گا۔ حکومت کی سرمایہ دارانہ بنیاد پر سیاست کے فریم ورک کے اندر کوئی قابل اطمینان درمیانی راستہ نہیں ہے۔

لیکن نیٹو کی پالیسیاں جیسا کہ وہ ولنیئس اعلامیہ میں جس کا اظہار خیال کرتی ہیں ایک مکمل فریب اور لاپرواہ کردار کی حامل ہیں۔ عالمی فتح اور تسلط کے عظیم منصوبے عالمی سرمایہ داری کے بحران سے جنم لیتے ہیں۔ 30 سال سے زیادہ عرصے سے امریکہ نے اپنے یورپی 'شراکت داروں' کی حمایت سے فوجی طاقت کے ذریعے اپنے اقتصادی غلبے کے زوال کو روکنے کی کوشش کی ہے جس کے عراق، افغانستان، لیبیا اور متعدد دیگر ممالک کے لیے تباہ کن نتائج برآمد ہوئے ہیں۔

ان کے پاس جدید پیداوار کے سماجی اور بین الاقوامی کردار کی عدم مطابقت کا ایک ہی جواب ہے وہ نجی ملکیت اور قومی ریاست ہے جس پر سرمایہ داری کی بنیاد ہے دوسری جانب ان کے تحت دنیا کی پرتشدد از سر نو تقسیم اور اس پر تسلط قائم کرنا ہے جو پہلے ہی پہلی اور دوسری عالمی جنگوں کی وجہ کے طور پر لڑی گی تھیں۔

سامراجی طاقتوں کے جنگی منصوبے سماجی تصادم کو بہت زیادہ بڑھا دیں گے۔ دستاویز تمام دستخط کنندگان سے جنگ پر ' جی ڈی پی کا کم از کم 2 فی صد “ کرنے کا عہد کرتی ہے۔ تاہم اس میں کہا گیا ہے کہ 'بہت سے معاملات میں موجودہ کمی کو دور کرنے اور زیادہ متنازعہ سیکیورٹی صورت حال سے پیدا ہونے والے تمام علمداریوں کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے جی ڈی پی کے 2 فی صد سے زیادہ اخراجات کی ضرورت ہوگی۔'

اور اس کی قیمت کون ادا کرے گا؟ بیرون ملک جنگ میں اضافہ داخلی طور پر آبادی کی اکثریت محنت کش طبقے کے سماجی پروگراموں، اجرتوں اور ملازمتوں پر حملے میں اضافے پر مبنی ہو گا ۔

سربراہی اجلاس کے شرکا اس سے بخوبی واقف ہیں۔ پوری دستاویز میں اندرونی کشمکش کے درپردہ حوالہ جات موجود ہیں۔ اس سے مراد 'حکومت کے تسلسل کو یقینی بنانے کے لیے ہماری قومی اور اجتماعی صلاحیت کو بڑھانے'، 'فوجی کارروائیوں کے لیے سول سپورٹ کو فعال کرنے' اور 'معاشرتی لچک کو فروغ دینے' کی ضرورت ہے۔ دستاویز یہاں تک کہ حکومتوں کے اندرونی مخالفین کے لیے 'غیر ریاستی اداکاروں' کے خلاف آرٹیکل 5 کے استعمال کے امکان کا حوالہ دیتی ہے جو کہ 'ہمارے سیاسی اداروں ہمارے اہم انفراسٹرکچر،

ہمارے معاشروں ہمارے جمہوری نظاموں ہماری معیشتوں اور ہماری سلامتی اور شہریوں کو نشانہ بناتے ہیں۔'

نیٹو کا پوری دنیا پر اپنی مرضی مسلط کرنے کا دعویٰ جیسا کہ ولنیئس اجلاس کے دستاویز میں وضع کیا گیا ہے یہ جنون کی سرحدیں ہیں۔ لیکن یہ ایک حکمران طبقے کا پاگل پن ہے جس کی پیٹھ دیوار کے ساتھ ہے۔ اپنی تمام تر جھنجھلاہٹ اور دھمکیوں کے لیے نیٹو کے ارکان نے انتہائی بحرانی حالات میں ولنیئس میں اپنا سربراہی اجلاس منعقد کیا۔ بڑی سامراجی طاقتوں کے حکمران اشرافیہ اپنے اور اپنی حکومتوں کے اندر ہر چیز کو ایک ساتھ رکھنے کی شدت سے کوشش کر رہے ہیں۔ سب سے بڑھ کر وہ محنت کش طبقے میں بڑھتی ہوئی سماجی مخالفت کا سامنا کر رہے ہیں۔

جنگ کا خاتمہ محنت کش طبقے کی ابھرتی ہوئی جدوجہد کو سامراج کی مخالفت میں ایک ساتھ یکجا کرنے ہی سے ممکن ہے ۔ ایسی تحریک کے لیے معروضی حالات تیزی سے پکا رہے ہیں۔ اس سال پہلے ہی امریکہ، فرانس، جرمنی، برطانیہ اور تمام بڑے سرمایہ دار ممالک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے اور ہڑتالیں ہو چکی ہیں۔ جنگ میں اضافے کو بڑھانے والی تمام حکومتوں کو حقارت سے دیکھ جاتا ہے اور بین الاقوامی محنت کش طبقے میں جنگ کی زبردست مخالفت پائی جاتی ہے۔

اب سب سے بڑا اور اہم فریضہ یہ ہے کہ اس معروضی تحریک کو سیاسی طور پر باشعور بنانا ہے اور محنت کش طبقے کے اندر عدم مساوات اور استحصال کے خلاف جنگ کو سامراجی جنگ اور سرمایہ دارانہ قومی ریاستی نظام کے خلاف جنگ سے جوڑنے کی ضرورت کا ادراک پیدا کرنا ہے۔ ہم ان تمام لوگوں سے گزارش کرتے ہیں جو اس نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہیں کہ وہ چوتھی انٹرنیشنل کی انٹرنیشنل کمیٹی اور اس کے سیکشنز سوشلسٹ ایکویلیٹی پارٹیوں میں شامل ہوں اور اس کی تعمیر کریں۔

Loading