اُردُو

ولنیئس میں نیٹو سربراہی اجلاس چین کے خلاف جنگ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔

یہ 14 جولائی 2023 کو انگریزی میں شائع 'Vilnius summit marks NATO’s turn to war against China' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

نیٹو سربراہی اجلاس جو ابھی ابھی ولنیئس لتھوانیا میں اختتام پذیر ہوا ہے اُس نے عالمی تنازعے کے لیے ایک وسیع منصوبہ مرتب کیا اور جس میں واضح کیا گیا کہ یوکرائن میں روس کے خلاف جنگ سامراجی مفادات کے لیے اور دیگر سمجھے جانے والے خطرات کے ساتھ تصادم اور جنگ کی جانب محض ایک قدم ہے۔ اس کے مشترکہ اعلامیے نے واضح کیا کہ چین اس میں سرفہرست ہے اس حوالے سے وہ امریکی اتحادیوں کے ہمراہ انڈو پیسیفک خطے میں نیٹو کی زیادہ سے زیادہ فوجی موجودگی کے لیے تیار ہے۔

لیتھوانیا میں نیٹو کے اجلاس میں آسٹریلوی وزیر اعظم انتھونی البانی، جنوبی کوریا کے صدر یون سک یول، جاپانی وزیر اعظم فومیو کیشیڈا اور نیوزی لینڈ کے وزیر اعظم کرس ہپکنز کے ساتھ (بائیں سے دائیں)۔ [تصویر: انتھونی البانی فیس بک] [Photo: Anthony Albanese Facebook]

جبکہ یہ اعلان کرتے ہوئے کہ نیٹو بیجنگ کے ساتھ 'تعمیری مزاکرات کے لیے کھلا' ہے اعلامیے نے چین کو سیاہ ترین رنگوں میں رنگ دیا اور اعلان کیا کہ اس کے 'عزائم اور جابرانہ پالیسیاں ہمارے مفادات سلامتی اور اقدار کو چیلنج کرتی ہیں۔'

اس نے چین پر الزام لگایا کہ وہ 'اپنی حکمت عملی، ارادوں اور فوجی تشکیل کے بارے میں مبہم ہے' اور 'بد نیتی پر مبنی ہائبرڈ اور سائبر آپریشنز' اور 'تصادم پر مبنی بیان بازی اور غلط معلومات پھیلانے' میں ملوث ہے، 'اہم تکنیکی اور صنعتی شعبوں، اہم انفراسٹرکچر کو کنٹرول کرنے کے لیے اور اسٹریٹجک مواد اور سپلائی فراہمی سلسلہ' اور 'اس کے معاشی فائدہ کو استعمال کرتے ہوئے اسٹریٹجک انحصار پیدا کرنے اور اس کے اثر و رسوخ کو بڑھانا ہے۔'

یہ کیا حیران کن منافقت ہے! یورپ اور ایشیا میں اپنے اتحادیوں کی بڑھتی ہوئی شمولیت کے ساتھ امریکی سامراج ایک دہائی سے زیادہ عرصے سے چین کے ساتھ سفارتی، اقتصادی اور اسٹریٹجک طور پر بڑھتے ہوئے تصادم میں مصروف ہے۔ صدر اوباما ٹرمپ اور بائیڈن کے دور سے امریکہ نے ان مندرجہ ذیل تمام لمبی فہرستوں کا سہارا لیا ہے جن میں تصادم کی بیان بازی کو بڑھاوا دینا، تعزیری محصولات، جرمانہ اور پابندیاں عائد کرنے کے لیے اپنی معاشی طاقت کا استعمال کرنا اور بڑے پیمانے پر خطہ میں فوجی اتحادوں کی تشکیل میں شامل ہونا اور مخالف اتحادوں کو استحکام بخشنا ان سبھی کو واشنگٹن نے ممکنہ حد تک مبہم بنانے کی کوشش کی ہے۔

چین کے خلاف مرکزی الزام اور امریکہ اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے لامتناہی طور پر دہرایا جاتا ہے یہ ہے کہ 'وہ قوانین پر مبنی بین الاقوامی نظام بشمول خلائی، سائبر اور سمندری علمداری ' کو تباہ کرنے کی کوشش کرہا ہے تاہم یہ الزام بیجنگ کے مقابلے میں واشنگٹن کے جارحانہ منصوبوں کے بارے میں زیادہ صاف طور پر دیکھی دیتے ہیں۔ ' ترتیب پر مبنی بین الاقوامی قواعد' دوسری عالمی جنگ کے بعد کے میکانزم کے علاوہ کچھ نہیں ہے جو امریکی سامراج نے عالمی سرمایہ داری کو بحال کرنے اور عالمی نظام میں اپنی غالب پوزیشن کو یقینی بنانے کے لیے قائم کیا تھا جس میں اس نے اپنے قوانین کو اِجرا کا حکم دیا تھا۔

اپنے تاریخی زوال کے موجودہ حالات میں امریکہ اپنی باقی ماندہ فوجی طاقت کو اپنی عالمی بالادستی کو قائم رکھنے کی غرض سے لاپرواہ کوشش میں استعمال کر رہا ہے۔ بلقان، مشرق وسطیٰ، شمالی افریقہ اور وسطی ایشیا میں ایک کے بعد ایک مجرمانہ جارحیت کی جنگ چھیڑنے کے بعد واشنگٹن اب یوکرین میں روس کے خلاف جنگ میں مصروف ہے تاکہ ماسکو کو غیر مستحکم کرتے ہوئے اسے اپنے ماتحت کیا جا سکے۔ اور چین کے ساتھ بھی ایسا ہی عمل رِاو رکھے گا جسے وہ اپنے عالمی تسلط کے لیے سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے۔

مزید برآں روس کو سیاسی طور پر گھٹنے ٹیکنے کی کوشش کرنے کے لیے دسیوں اربوں کا جدید ترین فوجی سازوسامان یوکرین میں بھیجتے ہوئے امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں کا مطالبہ ہے کہ چین یوکرین پر روسی حملے کی مذمت کرے اور ایک خطرناک دھمکی کے زریعے اسے خبردار کرے۔ 'روس کو کسی بھی قسم کی جان لیوا امداد فراہم کرنے سے گریز کریں۔' یوکرین پر روسی حملہ پویٹن حکومت کے رجعتی قومی مفادات اور دولت مند والیگرشی طبقے کے بنیاد پر کیا گیا ہے لیکن امریکہ نے ماسکو کو ایسا کرنے کے لیے جان بوجھ اکساتے ہوئے کیا اور قدم قدم پر نیٹو اتحادیوں کے ساتھ گھیرے میں لے لیا۔

اب امریکہ چین کے خلاف اسی طرح کی اشتعال انگیزیوں میں مصروف ہے اور یہ الزام عائد کرتا ہے کہ وہ تائیوان پر حملہ کرنے کی تیاری کر رہا ہے یہاں تک کہ واشنگٹن تیزی سے جزیرے میں تائیوان کو ایک آزاد ریاست کے طور پر دیکھ رہا ہے یہ جانتے ہوئے کہ یہ بیجنگ کے لیے سرخ لکیر ہے۔

ایشیاء میں نہ صرف امریکہ بلکہ نیٹو کی تشکیل کو واضح کیا گیا ہے کہ اب امریکہ کے چار اتحادیوں جاپان، جنوبی کوریا، آسٹریلیا اور نیوزی لینڈ کے رہنماؤں کی دو نیٹو سربراہی اجلاسوں میں انکی شراکت پچھلے پہلے سال میڈرڈ میں ہوئی تھی اور اس سال ولنیئس میں۔ یہ دنیا کے دونوں اطراف کے امریکی اتحادیوں کے درمیان غیر واضح سمجھ بوجھ کو اجاگر کرتا ہے کہ یوکرائن کی جنگ کوئی الگ تھلگ تنازعہ نہیں ہے بلکہ اس کا دائرہ عالمی ہے۔ اس طرح نام نہاد ایشیا پیسفک فور (آے پی 4) نے امداد اور عملے کے ساتھ روس کے خلاف نیٹو کی جنگ کی حمایت کی ہے جبکہ نیٹو کے اتحادی ایشیا میں اپنے تعلقات اور فوجی موجودگی کو گہرا کر رہے ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ نے ہند- بحرالکاہل میں دو اہم اسٹریٹجک معاہدوں کو قیام عمل میں لیا ہے - چار فریقی سیکورٹی ڈائیلاگ یا کواڈ جس میں امریکہ، جاپان، آسٹریلیا اور ہندوستان شامل ہیں، اور امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا کے درمیان آکس (AUKUS) معاہدہ پر مشتمل ہے۔ چین کے ساتھ جنگ ​​کی واضح تیاری میں آکس آسٹریلیا کو ایٹمی طاقت سے چلنے والی حملہ آور آبدوزیں اور دیگر جدید ترین ہتھیار فراہم کرے گا۔ نیٹو سربراہی اجلاس میں بھارت کو مدعو نہیں کیا گیا تھا۔ تاہم نئی دہلی چین کے خلاف امریکی قیادت میں شامل ہو گیا ہے، اس نے روس کے یوکرین پر حملے کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھا کیونکہ اس کے ساتھ اس کے اہم تعلقات ہیں۔

ولنیئس سربراہی اجلاس کے تناظر میں نیٹو آے پی 4 ممالک کی حیثیت کو اپ گریڈ کرنے کے لیے تیار ہے جن کے ساتھ اس وقت 'دنیا بھر میں شراکت دار' کے طور پر برتاؤ کیا جاتا ہے۔ جب کہ تفصیلات پر بات چیت کو لپیٹ کر رکھا جا رہا ہے نیٹو انفرادی طور پر تیار کردہ پارٹنرشپ پروگرام کی تشکیل کے لیے چاروں ممالک میں سے ہر ایک کے ساتھ بات چیت کر رہا ہے۔ یہ دستاویزات سائبر سیکیورٹی، خلائی اور نام نہاد غلط معلومات سے لڑنے سمیت متعدد فوجی مسائل پر قریبی تعاون کی بنیاد کو فروغ دینا ہے۔

اگرچہ نیٹو نے بظاہر اتحاد کا مظاہرہ پیش کیا لیکن بڑی سامراجی طاقتوں کے درمیان تقسیم ہے کیونکہ ہر ایک اپنے معاشی اور اسٹریٹجک مفادات کو آگے بڑھانا چاہتا ہے۔ واضح طور پر فرانس نے ٹوکیو میں نیٹو کے دفتر کے قیام کی تجویز کی مخالفت کی جو کہ ایشیا میں یہ پہلا دفتر ہے اور خطے میں نیٹو کی موجودگی کو مستحکم کرنے کے لیے قائم کیا گیا ہے۔ نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے گزشتہ ماہ یہ خیال پیش کیا اور دعویٰ کیا کہ یہ چین اور روس کے بڑھتے ہوئے چیلنج کے جواب میں ہے۔ فروری میں انہوں نے اعلان کیا کہ نیٹو کے شراکت داروں میں جاپان سے زیادہ قابل کوئی نہیں ہے جو کہ دنیا کی تیسری بڑی معیشت ہے جس کی ایک جدید ترین اور تیزی سے بڑھتی ہوئی فوج ہے۔

چین نے سٹولٹن برگ کی اس تجویز پر سخت تنقید کی ہے۔ وزارت خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے اس واضح حقیقت کی طرف اشارہ کیا کہ 'ایشیا شمالی بحر اوقیانوس کے جغرافیائی دائرہ کار سے باہر ہے ' انہوں نے مزید کہا 'تاہم ہم نے دیکھا ہے کہ نیٹو اس خطے میں مشرق کی طرف جانے پر تُلا ہوا ہے علاقائی معاملات میں مداخلت اور بلاک تصادم اور اشتعال انگیزی کو ہَوا دے رھا ہے۔'

اپریل میں چین کے دورے کے بعد میکرون نے فرانسیسی میڈیا کو بتایا کہ یورپ کو آنکھیں بند کر کے امریکا کی پیروی نہیں کرنی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ 'یورپ حقیقی اسٹریٹجک خود مختاری کے عناصر پیدا کرنے کے عمل میں ہے اور اسے کسی قسم کے گھبراہٹ کے اضطراب میں نہیں پڑنا چاہیے اور امریکی پالیسی پر عمل کرنے سے باز رہنا چاہیے۔' اگر یہ تائیوان کے موضوع پر صرف ایک 'پیروکار' ہوتا اور 'امریکی رفتار اور چینی حد سے زیادہ رد عمل کے مطابق ہوتا' تو یورپ ایک ' مزارع' بن جاتا حالانکہ یہ 'تیسرا قطب' ہو سکتا ہے۔ میکرون کے تبصروں سے منسلک فرانس میں اور زیادہ وسیع پیمانے پر یورپ کے حکمران حلقوں میں یہ خدشہ ہے کہ چین کے خلاف امریکی اشتعال انگیزیوں کی پشت پناہی سے یورپی اقتصادی اور اسٹرٹیجک مفادات پر اثر پڑے گا۔

امریکہ جس چیز کی تیاری کر رہا ہے وہ جوہری ہتھیاروں سے لیس طاقتوں کے ساتھ ایک عالمی تنازعہ ہے جس کے نتائج انسانیت کی تباہی ہے اُسے بالکل نظرانداز کر دیا گیا ہے۔ تمام سامراجی طاقتیں کم از کم ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو یوکرائن کی جنگ سے بڑھتے ہوئے معاشی اور سماجی بحرانوں کا شدید سامنا ہے جو طبقاتی جدوجہد کو ہَوا دے رہے ہیں۔ عالمی جنگ کی طرف موڑ کا مقصد صرف دنیا بھر میں ان کے استصالی مفادات کے علاوہ اندرونی طور پر گمبیر معاشی اور سماجی تناؤ کو بیرونی دشمن کے خلاف باہر کی طرف موڑنے کی ایک مایوس کن کوشش بھی ہے۔

بڑھتی ہوئی طبقاتی جدوجہد تاہم ایک سماجی بنیاد کے لیے وہ ذرائع فراہم کرتی ہے جو جوہری تباہی کی طرف بڑھنے کو روکے - سرمایہ داری کے خاتمے اور دنیا کی دیوالیہ حریف قومی ریاستوں کی تقسیم پر مبنی جنگ مخالف تحریک میں انٹرنیشنل سطح پر محنت کش طبقے کا اتحاد تاریخ اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔

Loading