اُردُو
Perspective

نازی کی طرز پر بھر پور لفاظی حملے میں ٹرمپ نے سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا مطالبہ کیا۔

یہ 27 جون 2023 کو انگریزی میں شائع 'In Nazi diatribe, Trump calls for mass deportations of socialists and communists' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نیو ہیمپشائر فیڈریشن آف ریپبلکن ویمن لیلک لنچون منگل 27 جون 2023 کو کونکارڈ، نیو ہیمپشائر میں خطاب کر رہے ہیں [اے پی فوٹو/اسٹیون سین] [AP Photo/Steven Senne]

ہفتہ کے روز واشنگٹن ڈی سی میں ایک انتخابی تقریر میں سابق صدر اور سرکردہ ریپبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ نے امریکہ میں سوشلزم اور کمیونزم کے بڑھتے ہوئے خطرے کے خلاف ایک فاشسٹ ڈٹرائب (لمبی لتاڑ) پیش کی۔ ٹرمپ نے اعلان کیا کہ اگر وہ منتخب ہو گئے تو وہ ہوم لینڈ سکیورٹی کے محکمے کو بائیں بازو کے لوگوں شہریوں اور غیر شہریوں کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کرنے کا حکم دیں گے۔

دائیں بازو کے فیتھ اینڈ فریڈم کولیشن کے زیر اہتمام ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ٹرمپ نے جنگی الفاظ میں کہا: ' آخر کار یا تو کمیونسٹ امریکہ کو تباہ کر دیں یا ہم کمیونسٹوں کو تباہ کر دیں۔' اپنے سیاسی آئیڈیل ایڈولف ہٹلر سے مستعار لی گئی تباہ کن زبان کا استعمال کرتے ہوئے اس نے مزید کہا کی 'یہ آخری جنگ ہے۔ میرے ساتھ آپ کے ساتھ ہم گلوبلسٹوں کو باہر نکال دیں گے ہم کمیونسٹوں کو باہر نکال دیں گے۔

ٹرمپ نے مزید کہا کہ 'ہم کمیونزم کی طرف بڑھ رہے ہیں۔ ہمارے ملک کی تاریخ میں ایسا دور کبھی نہیں آیا۔ اور اسی سے کمیونزم کا آغاز ہوتا ہے۔ اور ہم اسے ہونے نہیں دے سکتے۔'

ٹرمپ نے اپنی دوبارہ انتخابی مہم کے مرکز میں سوشلسٹوں اور کمیونسٹوں کو امریکہ سے پاک کرنے کی ضرورت کو واضع طور پر بیان کیا۔

انہوں نے بائیں بازو کے خیالات رکھنے والے تارکین وطن کی بڑے پیمانے پر ملک بدری کا مطالبہ کیا: 'وفاقی قانون، امیگریشن اینڈ نیشنلٹی ایکٹ کے سیکشن 212 (ایف) کا استعمال کرتے ہوئے میں اپنی حکومت کو حکم دوں گا کہ وہ تمام کمیونسٹوں اور تمام مارکسسٹوں کے داخلے سے انکار کرے۔ جو لوگ ہمارے ملک میں شامل ہونے آتے ہیں وہ ہمارے ملک سے محبت کریں۔ اگر وہ ہمارے ملک کو تباہ کرنا چاہتے ہیں تو ہم انہیں نہیں چاہتے… تو ہم غیر ملکی عیسائیوں سے نفرت کرنے والے کمیونسٹوں، سوشلسٹوں اور مارکسسٹوں کو امریکہ سے دور رکھیں گے۔ ہم انہیں امریکہ سے باہر رکھ رہے ہیں۔‘‘

لیکن ٹرمپ نے اس سے آگے بڑھتے ہوئے مزید کہا کہ ان کی مہم امریکی شہریوں کو ان کے سیاسی خیالات کے باعث ملک بدر کرنے کی کوشش کرے گی: 'آج میں اپنے امیگریشن سسٹم کی سالمیت کے تحفظ کے لیے ایک نئے منصوبے کا اعلان کر رہا ہوں۔ وفاقی قانون امریکہ میں کمیونسٹوں اور مطلق العنان لوگوں کے داخلے پر پابندی عائد کرتا ہے۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ ہم ان لوگوں کے ساتھ کیا کریں گے جو یہاں پہلے سے موجود ہیں جو یہاں پلے بڑھے ہیں؟ میرے خیال میں ہمیں ان کے لیے ایک نیا قانون پاس کرنا ہوگا۔ 

اس طرح کے بیانات امریکہ کی کسی بڑی سیاسی شخصیت نے پہلے کبھی نہیں دیے۔

1933 کے ڈینیچرلائزیشن قانون، ریخ شہریت کے قوانین اور 1941 کے ریخ شہریت کے قانون کے گیارہویں فرمان جیسے قوانین کے ذریعے، نازی حکومت نے لاکھوں جرمنوں کو اس بنیاد پر شہریت کے حقوق سے محروم کر دیا کہ ان کے سوشلسٹ خیالات یا یہودی یا روما پس منظر کی وجہ سے انہیں ”عوامی کمیونٹی ' سے باہر رکھا جائے۔ ٹرمپ اور اسٹیفن ملر جیسے مشیر ہٹلر اور نازی پارٹی کی سیاسی تاریخ کے طالب علم ہیں اور ان قوانین سے بخوبی واقف ہیں۔ ٹرمپ اپنے سونے کے کمرے میں ہٹلر کی تقاریر کی کتاب کے ساتھ سوتے تھے اور 2018 میں اپنے صدارتی عملے سے کہا کہ 'ہٹلر نے کچھ اچھے کام کیے ہیں۔'

جسے 'امریکی جمہوریت' کہا جاتا ہے وہ اس حد تک تنزلی کا شکار ہو گئی ہے کہ ریپبلکن پارٹی اور ریاستہائے متحدہ کے سابق صدر نازی کے اہم دعویدار ہیں اور ہٹلر کی زبان کا استعمال کرتے ہوئے ٹرمپ فاشزم کے بنیادی مقصد کی وضاحت کر رہے ہیں جو تاریخی طور پر سب سے بڑھ کر سوشلسٹ تحریک اور محنت کش طبقے میں تمام منظم مزاحمت کی تباہی پر مبنی ہے۔

ٹرمپ صرف اپنی حد تک یہ سب کچھ نہیں بولتے حکمران طبقے کا ایک بڑا حصہ اس بات پر قائل ہے کہ انہیں محنت کشوں کی ایک بڑی سماجی تحریک کا سامنا ہے جو ان کی دولت اور مراعات کے لیے سب سے بڑا خطرہ ہے۔

ٹرمپ کے موجودہ اقدامات سے واضح ہوتا ہے کہ اگر 6 جنوری 2021 کی بغاوت کی کوشش کامیاب ہو جاتی تو ٹرمپ نے آئین کو ختم کر دیا ہوتا اور انتہائی ریاستی تشدد کے ساتھ نیچے سے اپوزیشن کو بے دردی سے دبا دیا ہوتا۔ اس نے جس ہجوم کو کیپیٹل کی عمارت تک پہنچایا وہ نائب صدر مائیک پینس اور ہاؤس سپیکر نینسی پیلوسی سمیت اہم سیاسی شخصیات کو پکڑنے کے لیے چند ہی سیکنڈوں میں آ پہنچا۔ یہ سازش اس حقیقت کے باوجود ناکام ہوئی کہ ڈیموکریٹک پارٹی نے اسے کامیاب ہونے سے روکنے کے لیے کوئی اقدام نہیں کیا۔

ریپبلکن پارٹی نے ٹرمپ کے فاشسٹ نقشے قدم کا راستہ اختیار کیا ہے۔ منگل کے روز فلوریڈا کے سینیٹر رک سکاٹ نے ایک ویڈیو بیان جاری کرتے ہوئے اعلان کیا 'میں آپ کو ایک سفری انتباہ جاری کر رھا ہوں۔ اگر آپ سوشلسٹ یا کمیونسٹ ہیں تو میں اسکے بارے میں دو بار سوچوں گا اگر آپ چھٹی لینے یا فلوریڈا جانے کے بارے میں سوچ رہے ہیں۔'

حالیہ مہینوں میں کرس ہیجز جیسے منحرف سیاسی پنڈتوں اور ذہنی طور پر مفلوج کارکنوں نے 'بائیں دائیں اتحاد' کے جھنڈے تلے ٹرمپ کے فاشسٹ حامیوں کی طرف اپنا رخ کیا ہے۔ جیسا کہ ٹرمپ کی تقریر سے واضح ہوتا ہے وہ ایسی قوتوں کے ساتھ اتحاد کی وکالت کر رہے ہیں جو انہیں گرفتار یا ملک بدر کر دے اگر اس سے بدتر اور کچھ نہ کیا۔

جہاں تک ڈیموکریٹس کا تعلق ہے وہ جمہوری حقوق کے دفاع میں بڑے پیمانے پر سماجی احتجاج شروع کرنے کے خوف سے فاشسٹ خطرے کو بیان نہیں کر سکتے۔

ڈیموکریٹک پارٹی فوجی انٹیلی جنس ایجنسیوں سے اپیل کے ذریعے ٹرمپ کو سیاسی منظر نامے سے ہٹانے کی کوشش کر رہی ہے اور ان کے خلاف جاسوسی ایکٹ کے تحت مقدمہ چلا کر وائٹ ہاؤس چھوڑنے کے بعد ریاستی رازوں سے پردہ اٹھانے کے بعد ان کے خلاف کارروائی کی جا رہی ہے۔ وہ ٹرمپ کے فاشزم سے بہت کم فکر مند ہیں جتنا کہ وہ روس کے خلاف امریکی-نیٹو جنگ کے ممکنہ خلل یا اس سے بھی بدتر یہ کی سرمایہ داری کے خلاف محنت کش طبقے کی تحریک کی ریڈیکلیزشن سے خوف زد ہیں۔

کیونکہ ان کی تقسیم ایک دوسرے کے ساتھ جتنی حقیقی اور تلخ ہے حکمران طبقے کے یہ دونوں دھڑے سوشلزم سے نفرت پر متفق ہیں۔ فروری میں ایوانِ نمائندگان نے 'سوشلزم کی ہولناکیوں کی مذمت' کی قرارداد کے لیے بھاری اکثریت سے ووٹ دیا۔ تمام 219 ریپبلکن نمائندوں نے قرارداد کے حق میں ووٹ دیا جیسا کہ ایوان کے ڈیموکریٹس کی اکثریت نے بشمول کانگریس کے اراکین جن کی امریکہ کے ڈیموکریٹک سوشلسٹوں نے توثیق کی تھی۔ یہ ووٹ بائیڈن انتظامیہ کے ہاؤس ریپبلکن اور ڈیموکریٹس کے ساتھ مل کر ممکنہ ریل روڈ ہڑتال کو غیر قانونی قرار دینے کے ہفتوں بعد آیا۔

لیون ٹراٹسکی نے امریکی حکمران طبقے کو دنیا کا 'سب سے مضبوط اور سب سے زیادہ خوف زدہ' حکمران طبقہ کہا۔ حکمران طبقہ جانتا ہے کہ وہ صحت اور معاشی بحرانوں کے درمیان سماجی تناؤ کے آتش فشاں کے اوپر بیٹھا ہے۔ طبقاتی جدوجہد بین الاقوامی سطح پر پھوٹ رہی ہے اور ٹریڈ یونین بیوروکریسیوں کے پاس مزدوروں کی نظروں میں ہڑتالوں کو مؤثر طریقے سے روکنے اور الگ تھلگ کرنے کے لیے کافی جواز نہیں ہے۔ مزدوروں میں بار بار کے میں سوشلزم کے لیے خاص طور پر نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی حمایت ظاہر ہوتی ہے۔

حکمران طبقہ اس بات سے خوفزدہ ہے کہ ابھرتی ہوئی محنت کش طبقے کی تحریک خود شعوری طور پر سوشلسٹ قیادت حاصل کر لے گی جیسا کہ اس نے 1917 میں روس میں کیا تھا۔ 2017 میں روسی انقلاب کی صد سالہ سالگرہ پر مورخ سائمن سیباگ مونٹیفیور نے خبردار کیا کہ 'اکتوبر انقلاب ٹھیک ایک صدی قبل ولادیمیر لینن کی طرف سے منظم کیا گیا تھا اب بھی ان طریقوں سے متعلقہ ہے جو سوویت یونین کے ٹوٹنے کے وقت ناقابل تصور معلوم ہوتا تھا ' اور شکایت کی کہ ولادیمیر لینن کو 1917 سے پہلے قتل نہیں کیا گیا تھا۔ واشنگٹن پوسٹ میں این ایپل بام نے قارئین پر زور دیا کہ 'یاد رکھیں 1917 کے آغاز میں… زیادہ تر مرد جو بعد میں دنیا میں بالشویک کے نام سے مشہور ہوئے وہ سازشی اور سماج کے دھارے سے دور تصور پرست تھے۔ سال کے آخر تک انہوں نے روس کو اٹھا لیا۔

چھ سال بعد ان خدشات کو سرمایہ داری کے بحران نے امریکی سیاست کے مرکزی سٹیج پر قبضہ کرنے کے لیے آگے بڑھایا ہے۔

Loading