اُردُو
Perspective

واشنگٹن یوکرین میں خون کی ہولی کی تجدید کا مطالبہ کرتا ہے۔

یہ 28 جولائی 2023 کو انگریزی میں شائع 'Washington demands renewed bloodbath in Ukraine' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

اس ہفتے یوکرین نے روس کے خلاف امریکی- نیٹو جنگ میں اپنے حملے کے ایک بڑے نئے مرحلے کا آغاز کیا ہے اور بہت محفوظ سمجھی جانے والی خندقوں کے خلاف بکتر بند حملے دوبارہ شروع کر دیے ہیں۔

نیویارک ٹائمز نے امریکی حکام کے بیانات کی بنیاد پر رپورٹ کیا کہ 'یوکرین کی تقریباً دو ماہ پرانی جوابی کارروائی کا بنیادی زور اب جاری ہوا ہے۔'

یوکرین کا ایک سپاہی باخموتُ ڈونیٹسک کے علاقے یوکرین منگل 4 جولائی 2023 کو فرنٹ لائن پر حال ہی میں کھودی گئی خندق میں بیٹھا ہے۔ [ اے پی فوٹو لبکوس] [AP Photo/Libkos]

روسی صدر ولادیمیر پیوٹن نے جمعرات کو کہا کہ 'میں اس بات کی تصدیق کر سکتا ہوں کہ جنگ میں نمایاں طور پر شدت آئی ہے اور ' یہ کہتے ہوئے کہ ' حملوں میں بڑی تعداد میں' یوکرائنی بکتر بند گاڑیاں استعمال کی گئیں جس سے 'بھاری نقصان' ہوا۔

حملے کے پہلے مرحلے کے خونی شکست کے بعد جس نے یوکرین کے حملوں کو عارضی طور پر روکنے پر مجبور کر دیا تھا یوکرین کے فوجیوں کو ایک بار پھر انہیں زبردستی اور مجبور کرتے ہوئے دفاعی محاذوں پر ڈالا جا رہا ہے جو ہزاروں کی تعداد میں بارودی سرنگوں اور خندقوں کا سامنا کرتے ہوئے مر رہے ہیں۔

یوکرین کو بہت زیادہ انسانی نقصانات کا سامنا کرنا پڑا ہے اور جنگ صرف اس لیے جاری ہے کہ اسے نیٹو نے بڑے پیمانے پر مسلح کیا ہے۔ یوکرین وسیع محاذ کے الگ تھلگ علاقوں میں تھوڑا بہت جو فائدہ اٹھا رہا ہے اس کے لیے زندگیوں کے بے لاگ اخراجات کی ضرورت ہے۔ یوکرائنی سامراجی طاقتوں کے مفادات کو آگے بڑھانے کے علاوہ اور کسی مقصد کے لیے نہیں مر رہے ہیں۔

حملوں میں تازہ ترین اضافہ وِلنیئس لتھوانیا میں نیٹو کے سربراہی اجلاس کے بعد ہوا ہے جہاں نیٹو کے ارکان نے روس کی مغربی سرحدوں پر دسیوں ہزار فوجیوں کو تعینات کرنے اور روس اور چین کے ساتھ تنازعے کے لیے مالی امداد کے لیے فوجی اخراجات میں بڑے پیمانے پر اضافہ کرنے کا وعدہ کیا۔

یوکرین میں جنگ شدت سے جاری ہے اور اسکے خلاف عوامی مخالفت بڑھ رہی ہے یوکرین کے صدر زیلنسکی کو سربراہی اجلاس میں جنگ کو آگے بڑھانے کے احکامات دیے گئے تاکہ جارحانہ کارروائی جاری رکھی جائے چاہے اس کے لیے انسانی جانوں کو جو بھی قیمت چکانی پڑے۔

کئی مہینوں تک امریکی میڈیا نے 'موسم بہار کی جارحیت' کو جنگ میں ایک فیصلہ کن موڑ کے طور پر فروغ دیا جو روسی افواج کو عبرتناک شکست دے گا۔

لیکن شکست اس قدر زبردست رہی کہ امریکی میڈیا بھی ہفتوں کی خاموشی کے بعد اسے ایک آفت کے طور پر تسلیم کرنے پر مجبور ہو گیا۔

پچھلے ہفتے وال سٹریٹ جرنل نے رپورٹ کیا کہ 'جب یوکرین نے اس موسم بہار میں اپنا بڑا جوابی حملہ شروع کیا تو مغربی فوجی حکام کو معلوم تھا کہ کیف کے پاس وہ تمام تربیت یا ہتھیار نہیں ہیں جو اسے روسی افواج کو ختم کرنے کے لیے ضروری ہے۔ لیکن انہوں نے امید ظاہر کی کہ یوکرائنی ہمت اور وسائل ایک دن اسے کامیابی سے ہمکنار کر دیں گے۔

اس لیے ' وہ اس لیے ایسا نہیں کر سکے کیونکہ گہری اور مہلک بارودی سرنگیں، وسیع قلعہ بندی اور روسی فضائی طاقت نے مل کر یوکرائنی فوجیوں کی اہم پیش رفت کو بڑی حد تک روک دیا ہے۔'

نیو یارک ٹائمز ایک مضمون میں اور بھی زیادہ براہ راست طور پر بیان کیا ہے جسے پہلے پوشیدہ کر دیا گیا تھا پھر اس میں بہت زیادہ ترمیم کی گئی تھی۔ اس نے یوکرائنی یونٹ کے بارے میں '200 فیصد' ہلاکتوں کی شرح کے ساتھ اطلاع دی جس کا مطلب یہ ہے کہ اس کے تمام فوجی ہلاک یا زخمی ہو گئے پھر ان کی جگہ نئے بھرتی ہونے والوں کو لے لیا گیا جن میں سے پھر سبھی ہلاک یا زخمی ہو گے۔

اس میں نوجوان فوجیوں کی ایک بڑی تعداد کے مارے جانے کا بیان دیا گیا ہے اور 'ان کی جگہ اکثر بڑی عمر کے افراد بھرتی کیے جاتے ہیں جنہیں کارروائی پر زبردستی مجبور کیا گیا تھا۔'

یوکرین میں جسمانی لحاظ سے تندرست آبادی کا زیادہ تر حصہ ہتھیاروں کے سائے تلے ہے جنہیں زبردستی بھرتی کر کے لڑنے پر مجبور کیا جاتا ہے۔

جنگ کی ہدایت امریکہ اور نیٹو طاقتیں کر رہی ہیں اور خون خرابہ کو جاری رکھنا چاہتی ہیں۔ دی اکانومسٹ نے جمعرات کو لکھا کہ ('یوکرین کی فوج کا جنوب کی جانب نئی ​​افواج کو ٹھکانے لگانا ہے')، 'کچھ امریکی اور یورپی فوجی حکام کا کہنا ہے کہ یوکرین کے کمانڈر درحقیقت اپنی نئی بریگیڈ کے ساتھ حملہ کرنے میں بہت سست روی کا مظاہرہ کر رہے ہیں یہ ایک غلطی جو ان کے خیال میں یوکرین سے گزشتہ سال کھیرسن میں سرذد ہوئی تھی.

اس نے امریکی چیئرمین آف جوائنٹ چیفس آف اسٹاف مارک ملی کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ 'مختلف جنگی مشقیں جو وقت سے پہلے کی گی تھیں اور جس نے پیش قدمی کی کچھ سطحوں کی پیش گوئی کی تھی،' لیکن یہ 'سست راوی کا شکار ہوئیں'۔

سامراجی طاقتوں کے دباؤ میں آکر یوکرائنی جرنیلوں نے 'تازہ خون ' کو جنگ میں دھکیلنے کا فیصلہ کیا ہے جسے اکانومسٹ یوکرینی فوجیوں جوان اور بوڑھے کو موت کے گھاٹ اتارے جانے کی وضاحت کے لیے استعمال کرتا ہے۔

جنگ جوں جوں آگے بڑھ رہی ہے، یہ ڈھونگ کہ امریکہ ’’جمہوریت‘‘ کے نام پر لڑ رہا ہے کھل کر عیاں ہو رہی ہے۔

جمعرات کو امریکی صدر جو بائیڈن نے وائٹ ہاؤس میں اٹلی کی وزیر اعظم جارجیا میلونی سے ملاقات کی۔ بائیڈن نے اعلان کیا، 'اٹلی اور امریکہ بھی یوکرین کے ساتھ مضبوط طور پر کھڑے ہیں اور میں روسی مظالم کے خلاف دفاع میں آپ کی بھرپور حمایت پر آپ کی تعریف کرتا ہوں۔'

میلونی اطالوی فاشسٹ ڈکٹیٹر بینیٹو مسولینی کی کھلے عام مداح ہے۔ اس نے شرمناک الفاظ میں اعلان کیا، 'میرے خیال میں مسولینی ایک اچھے سیاست دان تھے' انہوں نے مزید کہا، 'اس نے جو کچھ کیا۔ وہ اٹلی کے لیے کیا۔'

اس مہینے کے نیٹو سربراہی اجلاس کے اختتام کے بعد ایک تقریر میں بائیڈن نے اعلان کیا، 'یوکرین کے ساتھ ہماری وابستگی کمزور نہیں ہوگی۔ ہم آزادی اور خودمختاری کے لیے آج کل اور جب تک اس کے لیے کھڑے ہوں گے۔‘‘ یوکرین کے ساتھ ساتھ اٹلی میں فاشسٹوں کے ساتھ اتحاد کے ذریعے 'آزادی' اور بڑے پیمانے پر قتل عام کے ذریعے 'آزادی' کے لیے کھڑے رہیں گے۔

لامتناہی جنگ کے لیے یہ عزم لامتناہی اضافہ پر مشتمل ہے۔ جمعرات کو، روئٹرز نے اطلاع دی کہ یو ایس ایم ابرامز کے اہم جنگی ٹینک اگست اور ستمبر میں یوکرین پہنچنا شروع کر دیں گے، اس کے بعد ایف- 16 لڑاکا طیارے اس سال کے آخر تک پہنچیں گے۔

یہ پچھلے سال کے دوران ریاست ہائے متحدہ امریکہ کی طرف سے بڑھتے ہوئے اقدامات کے سلسلے کا نتیجہ ہے۔ سال کا آغاز اس اعلان کے ساتھ ہوا کہ امریکہ بریڈلی بکتر بند جنگی گاڑیاں یوکرین کو بھیجے گا جس کے فوراً بعد اہم جنگی ٹینک بھیجے گئے۔ مئی میں وائٹ ہاؤس نے اعلان کیا کہ وہ ایف -16 لڑاکا طیارے بھیجے گا، اس کے بعد کلسٹر گولہ بارود بھیجے گا۔

اس سال کے شروع میں منظر عام پر آنے والی پینٹاگون کی دستاویزات کے مطابق زمین پر امریکی اور نیٹو کے سیکڑوں فعال ڈیوٹی ملٹری اور انٹیلی جنس اہلکار موجود ہیں جن کے ساتھ نیٹو ممالک سے ممکنہ طور پر سینکڑوں یا ممکنہ طور پر ہزاروں 'رضاکار' بھی ہیں۔

بدھ کے روز بائیڈن انتظامیہ نے امریکی حکومت کو حکم دیا کہ وہ پیوٹن کے خلاف مقدمہ چلانے میں سہولت فراہم کرنے کے لیے بین الاقوامی فوجداری عدالت کو دستاویزات حوالے کرنا شروع کرے۔

یہ اقدام وسیع داخلی بحث کے بعد ہے کہ آیا یہ کارروائی ریاست ہائے متحدہ امریکہ کو جس نے جارحیت کی مجرمانہ جنگوں میں لاکھوں افراد کو ہلاک کیا ہے کو عدالت کے ذریعے قانونی چارہ جوئی کے لیے کھول دے گا جس کے دائرہ اختیار کو وہ تسلیم نہیں کرتا ہے۔

تاہم وائٹ ہاؤس نے فیصلہ کیا ہے کہ استغاثہ کو آگے بڑھایا جائے جس کا مقصد عسکری تنازعہ کو آگے بڑھانا ہے۔ روس کی فوجی شکست کا مطلب ہے دوسرے لفظوں میں امریکی فاتحوں کے ہاتھوں پیوٹن کے خلاف مقدمہ چلانا۔

اس کارروائی کا مقصد کسی بھی مذاکراتی تصفیے کو روکنا ہے جس کی امریکہ شروع سے مخالفت کرتا آیا ہے۔ امریکہ چین پر غلبہ حاصل کرنے اور اسے زیر کرنے کے لیے پیش قدمی کے طور پر روس کو اسٹریٹجک شکست دینے کے لیے پرعزم ہے۔

تازہ حملے کا نتیجہ کچھ بھی ہو یہ یوکرین، روس اور دنیا کے لوگوں کے لیے تباہی کا باعث ہوگا۔ اگر یہ کارروائی ایک خونی شکست کے طور پر جاری رہتی ہے، تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ محاذ کے خلاف توپوں کے چارے کے طور پر بھیجے گئے ان گنت ہزاروں یوکرینی فوجیوں کی موت ہوگی۔ اگر یوکرین روسی فرنٹ لائن کو توڑنے اور جزیرہ نما کریمیا کو منقطع کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے تو یہ روسی حکومت پر جوہری ہتھیاروں کے استعمال کو بڑھانے کے لیے بہت زیادہ سیاسی دباؤ پیدا کر سکتا ہے۔

یہ جنگ جو پہلے ہی لاکھوں لوگوں کی جان لے چکی ہے اسے روکنا چاہیے! جنگ میں اضافہ ایک ساتھ ساتھ عالمی ہڑتال کی ایک لہر بھی بڑھ رہی ہے جیسا کہ کینیڈا میں ڈاک ورکرز، امریکی اداکاروں اور اسکرین رائٹرز، اور یو پی ایس، ییلو فریٹ اور شمالی امریکہ کی آٹو انڈسٹری میں لڑائیاں شروع ہیں۔

اپنے سماجی حقوق کے دفاع میں محنت کشوں کی بڑھتی ہوئی جدوجہد کو جنگ اور عسکریت پسندی کے خلاف لڑائی کے ساتھ جوڑنا ضروری ہے۔

Loading