اُردُو
Perspective

ٹرمپ پر 2020 کے انتخابات میں شکست کو بزور طاقت روکنے کے لیے 4 الزامات پر فرد جرم عائد کی گئی۔

یہ 1 اگست 2023 کو انگریزی میں  'Trump indicted on 4 counts for seeking to overturn 2020 election defeat' شائع ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر منگل کو چار سنگین الزامات کے تحت فرد جرم عائد کی گئی جو 2020 کے صدارتی انتخابات میں اپنی شکست کو الٹانے کے لیے ان کی غیر قانونی اور بدعنوان کوششوں سے پیدا ہوئے تھے۔ ٹرمپ کو جمعرات کو فیڈرل ڈسٹرکٹ جج تانیا ایس چٹکن کے سامنے پیش کیا جائے گا۔

6 جنوری 2021 کی فاشسٹ کودیتا کے لیے ٹرمپ کے خلاف قانونی چارہ جوئی اور قید کی سزا مکمل طور پر جائز اور ضروری ہے۔ واشنگٹن ڈی سی کے ایک بڑے بینچ کی طرف سے لگائے گئے الزامات جو خصوصی وکیل جیک اسمتھ نے طلب کیا تھا جو محتاط اور قانونی زبان میں پیش کیے گئے ہیں لیکن اس کے باوجود فرد جرم قابل مذمت ہے۔

خصوصی وکیل جیک اسمتھ واشنگٹن میں محکمہ انصاف کے دفتر میں منگل 1 اگست 2023 کو سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر فرد جرم عائد کرنے کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔ [اے پی فوٹو/ جیکولین مارٹن] [AP Photo/Jacquelyn Martin]

تاہم اس میں ٹرمپ کے جرائم کا صرف ایک حصہ بیان کیا گیا ہے اور وہ اس کے سب سے بڑے جرم پر خاموشی اختیار کر رکھی ہے جو طاقت کے ذریعے حکومت کا تختہ الٹنے اور خود کو وائٹ ہاؤس پر بطور ڈکٹیٹر کے طور مسلط کرنے کی کوشش کی تھی۔ 

فردِ جرم میں جن چار الزامات کی تفصیل دی گئی ہے وہ یہ ہیں: وفاقی حکومت کو دھوکہ دینے کی سازش (ڈیموکریٹ بائیڈن کے ذریعے جیتی گئی سات قریبی معرکہ آرائی والی ریاستوں میں ووٹروں کی جعلی فہرست جمع کرنے)؛ امریکی عوام کے حقوق کی خلاف ورزی کی سازش (ووٹ ڈالنے کے حق کی نفی کے ساتھ کسی اور کے ووٹوں کی گنتی)؛ وفاقی کارروائی میں رکاوٹ ڈالنے کی سازش یعنی 6 جنوری 2021 کو کانگریس کی طرف سے منتخب نمائیوں کے ووٹ کی تصدیق میں خلل ڈالنا؛ اور وفاقی کارروائی میں بڑی رکاوٹ ڈالنے کے لیے اس نے ہجوم کو واشنگٹن بلایا اور پھر کیپیٹل پر ہلہ بول دیا جس کی وجہ سے کانگریس کی تصدیق میں کئی گھنٹوں کی تاخیر ہوئی۔

فرد جرم کے تقریباً تمام 123 پیراگراف کا تعلق سات ریاستوں: ایریزونا، جارجیا، مشی گن، نیواڈا، نیو میکسیکو، پنسلوانیا اور وسکونسن سے مطلق ہے جہاں کے ووٹروں نے بائیڈن کو منتخب کیا اور ٹرمپ کی جانب سے اسے جعلی ووٹروں کے زریعے بدلنے کی کوششوں سے ہے۔ اس میں سازش اور فرڈ کے مختلف غیر قانونی حربے شامل تھے جو اس کے وکیل کے شریک سازش کاروں نے وضع کیے تھے جن میں ریاستی قانون ساز محکمہ انصاف اور نائب صدر مائیک پینس شامل تھے۔

یہ کارروائیاں پچھلے دو سالوں میں بڑے پیمانے پر نمایا طور پر مشہور ہو گئی ہیں: ٹرمپ کے 'انتخابات' کی جعلی فہرستیں جنہوں نے کانگریس میں جھوٹے حلف نامے جمع کرائے؛ ریاستی قانون سازوں کو راغب کرنا کہ وہ نومبر میں منتخب ہونے والوں کو تبدیل کرنے کے حق کے لیے آمادہ کرنا؛ محکمہ انصاف سے ریاستی قانون ساز ادارے کو خط بھیجنے کے لیے کہنا کہ محکمہ انصاف ان ریاستوں میں انتخابی دھوکہ دہی کے معتبر دعووں کی تحقیقات کر رہا ہے۔ اور آخر کار مائیک پینس نے اپنی رسمی طاقت کا استعمال کرتے ہوئے 6 جنوری کو منتخب نمائیدوں کے ووٹوں کی گنتی کی صدارت کرتے ہوئے بائیڈن کے انتخاب کنندگان کی تصدیق کو روکا گیا، یا پھر اسے ٹرمپ کے انتخابی حق میں تبدیل کیا گیا یا اس معاملے کو ان ریاستوں کو واپس بھیج دیا جہاں ریپبلکن کے زیر کنٹرول ریاستی قانون ساز ادارے جو اس فرڈ کی تکمیل کرسکیں

فرد جرم واضح کرتی ہے کہ ٹرمپ کے اقدامات جمہوریت پر حملہ تھے: ' اور بے بنیاد دھوکہ دہی کے دعووں کے بہانے پر مدعا علیہ نے بعض ریاستوں میں عوامی ووٹ کو یکسر نظر انداز کرنے کے لیے اسے حکام کو تعینات کیا گیا جنہوں نے لاکھوں ووٹرز کو حق رائے دہی سے محروم کر دیا اور جائز ووٹرز کو مسترد کر دیا اور بالآخر غیر قانونی رائے دہندگان کی طرف سے مدعا علیہ کے حق میں تصدیق انتخابات کا سبب بنیں…'

فردِ جرم میں صرف چھ غیر فرد جرم والے شریک سازش کاروں کی فہرست میں شامل کیا گیا ہے حالانکہ ان کی سرگرمیوں کی تفصیل اتنی تفصیل سے ہے کہ کم از کم پانچ کی شناخت ہو چکی ہے یہ تمام وکلاء: روڈی گیولیانی، جان ایسٹ مین، سڈنی پاول، اور کینتھ چیسبرو یہ سب ٹرمپ کے لیے کام کر رہے تھے۔ اور یہ سب اس سازش میں شریک رہے ہیں اور اس کی دوبارہ انتخابی مہم میں متحرک رہے ہیں جبکہ جیفری کلارک جو اس وقت اسسٹنٹ اٹارنی جنرل بھی تھے۔

ٹرمپ کی بغاوت کے وکیل جان ایسٹ مین (بائیں) اور روڈی گیولیانی (دائیں) 6 جنوری 2021 کو کانگریس پر حملے سے قبل وائٹ ہاؤس کے باہر خطاب کر رہے ہیں۔ [تصویر: سی - سپان. او آر جی (سکرین گریب ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس)] [Photo: C-Span.org (Screengrab WSWS)]

شریک سازش کاروں پر الزامات اور ان کے انتخاب کی فرد جرم کی نوعیت انتہائی محدود ہے۔ 6 جنوری کو کیپیٹل پر پرتشدد حملے میں ملوث کسی بھی فاشسٹ ٹھگ کو شریک سازش کے طور پر نامزد نہیں کیا گیا ہے جس میں پراؤڈ بوائز اور اوتھ کیپرز جیسے فاشسٹ گروپوں کے رہنما بھی شامل ہیں، جن میں سے کئی کو کودیتا کی سازش کا مجرم قرار دیا گیا ہے۔

یہ الزامات حکومت کا تختہ الٹنے کی کوشش کے مترادف ہیں اور ٹرمپ کے خلاف یہ الزام عائید نہیں کیا گیا، حالانکہ وہ بغاوت کی سازش کا سرغنہ تھا وہ راجر سٹون جیسے سیاسی ساتھیوں کے ذریعے فاشسٹ لیڈروں سے رابطے میں تھا اور الیکشن سے پہلے ایک بحث کے دوران پراؤڈ بوائز کو ' اپنے پیچھے کھڑے ہونے' کی ہدایت کی۔ ان گروپوں کے لیڈر اور پیدل آنے والے دونوں ہی اپنے آپ کو ٹرمپ کے جنگجو سمجھتے تھے جو 6 جنوری کو ان کے حکم پر واشنگٹن آئے تھے۔

فرد جرم میں ریپبلکن پارٹی میں ٹرمپ کے ساتھی سازش کاروں کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا جنہوں نے ناکام کودیتا کی کوشش میں اہم کردار ادا کیا جس میں انتخاب کے دوران انتخابی تصدیق کو روکنا بھی شامل ہے۔

سب سے اہم بات یہ ہے کہ فرد جرم میں امریکی قومی سلامتی کے ادارے کے کسی اہلکار کا ذکر نہیں کیا گیا ہے جنہوں نے 6 جنوری کو سوشل میڈیا پر وسیع پیمانے پر زیر بحث تشدد کے منصوبوں کے بارے میں انٹیلی جنس رپورٹس کو نظر انداز کر کے اہم کردار ادا کیا اور دارالحکومت پر پرتشدد حملے کو آگے بڑھنے کی اجازت دی گئی۔، اور کئی گھنٹوں تک نیشنل گارڈ کے دستوں کی روانگی کو تعطل میں رکھا جب کہ ہجوم نے کیپیٹل پولیس کو زیر کر لیا اور پھر واشنگٹن ڈی سی کے علاقے میں مقامی حکومتوں کی طرف سے کمک کے لیے بھیجی گئی پولیس سے ٹکراؤ اور لڑائی ہوئی ۔

یہ تصور کرنا کہ یہ واقعات ٹرمپ کے ہدایت کے بغیر رونما ہوئے ہیں سراسر بکواس ہے۔ لیکن فرد جرم ایسے کسی بھی الزام سے گریز کرتی ہے کہ ٹرمپ ہجوم کی کارروائیوں کا فائدہ اٹھانے کے علاوہ نائب صدر پینس پر انتخابی تصدیق کو مسترد کرنے کے لیے دباؤ ڈالنے کے علاوہ کچھ اور نہیں کر رہے تھے۔

6 جنوری کو ہونے والی سست رفتار تحقیقات کے دوران بائیڈن انتظامیہ کی اولین ترجیح ملٹری انٹیلی جنس اپریٹس کی اہم ایجنسیوں کی حفاظت اور کسی بھی ایسی چیز سے اسے بچنا رہی ہے جو اس کی کوششوں میں خلل ڈال سکتی ہے یعنی پہلے روس کو اشتعال دلانا اور پھر اس کے ساتھ یوکرین میں

جنگ ​​کو بڑھانا۔

فرد جرم میں ان بات چیت کی تفصیلات دی گئی ہیں جن میں ٹرمپ کے سازشی ساتھی کھلے عام عوامی بغاوت کے امکان کا حوالہ دیتے ہیں اگر ٹرمپ نے صدارت برقرار رکھنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں پھر اپوزیشن کو فوجی طاقت کے ذریعے ہی کچلنے کی ضرورت ہو گی۔

پیراگراف 81 وائٹ ہاؤس کے ڈپٹی کونسلر اور 'کو-کانسپیریٹر 4' (اسسٹنٹ اٹارنی جنرل جیفری کلارک) کے درمیان ہونے والی بات چیت کا تذکرہ کرتا ہے جس میں وکیل نے متنبہ کیا کہ اگر کوئی اہم انتخابی فراڈ نہیں پایا گیا اور ٹرمپ نے بہرحال عہدے پر رہنے کی کوشش کی تو اسکے نتیجے میں ' 'امریکہ کے ہر بڑے شہر میں فسادات ہوں گے۔' شریک سازشی 4 نے جواب دیا 'ٹھیک ہے [ڈپٹی وائٹ ہاؤس کونسل] اسی لیے تو اس کے لیے بغاوت کا ضابطہ موجود ہے۔

ڈیموکریٹک پارٹی کی جانب سے بغاوت کے خلاف ردعمل نہ دینے میں ایک اہم غور و فکر یہ تھا کہ ایسا کچھ کرنے سے گریز کیا جائے جو آئین کے خاتمے کی کوشش کے خلاف عوامی مخالفت کو متحرک کرے۔ بغاوت کے بعد سے بائیڈن انتظامیہ کا بنیادی مقصد ریپبلکن پارٹی میں اپنے 'ساتھیوں' کو بچانا رہا ہے۔

یہ واقعی قابل ذکر ہے کہ ٹرمپ کے خلاف کیپیٹل پر ہونے والے پرتشدد حملے سے متعلق مجرمانہ الزامات عائد کرنے میں ڈھائی سال لگے ہیں جو اربوں لوگوں کو ٹیلی ویژن پر دکھایا گیا تھا اور جس میں ٹرمپ نے خود ٹویٹس اور ایک ویڈیو بیان میں اپنے الفاظ کے ذریعے۔، حملے میں اس کی ہمدردی اور ملوث ہونے کا ثبوت فراہم کیا۔

وائٹ ہاؤس نے جتنا ممکن ہو سکے اس سے بچنے کی کوشش کی جیسا کہ بائیڈن نے پہلی بار عہدہ سنبھالتے ہوئے کہا تھا کہ ایک مضبوط ریپبلکن پارٹی کو برقرار رکھنے اور پارٹی کے بڑھتے ہوئے فاشسٹ کردار کو چھپانے کے لیے بائیڈن دو طرفہ تعاون میں مشغول ہونے کی کوشش کر رہا ہے۔ جون میں واشنگٹن پوسٹ نے 6 جنوری کی بغاوت کے لیے ٹرمپ کی تحقیقات سے بچنے کے لیے بائیڈن کے محکمہ انصاف کے اقدامات کے بارے میں رپورٹ کیا۔

انتظامیہ کی پالیسی کے ہر دوسرے پہلو کی طرح ٹرمپ پر فرد جرم عائد کرنے کا وقت یوکرین میں روس کے خلاف جنگ کے مطالبات سے مشروط لگتا ہے۔ یوکرائنی 'موسم بہار کی جارحیت' کے نتیجے میں ایک خونی تعطل کا سامنا کرنا پڑا وال سٹریٹ اور ملٹری انٹیلی جنس اپریٹس امریکی خارجہ پالیسی میں ٹرمپ کی بے ترتیب اور خلل انگیز مداخلتوں کو برداشت نہیں کر سکتے۔

فوری طور پر کچھ بھی ہو وہ گہرے سیاسی بحران اور خانہ جنگی کے ماحول کو حل نہیں کریں گے جو امریکی ریاست کو لپیٹ میں لے رہا ہے ٹرمپ بدستور ری پبلکن پارٹی کے سربراہ اور آئندہ صدارتی انتخابات میں اس کے سرکردہ امیدوار ہیں۔

جیسا کہ ڈبلیو ایس ڈبلیو ایس نے لکھا اس وقت آنے والی فرد جرم کی خبر پہلی بار سامنے آئی:

عالمی مالیاتی سرمائے کا مرکز اور سامراجی سازشوں کا مرکز امریکہ میں سیاسی نظام ٹوٹ پھوٹ کے مقام پر پہنچ چکا ہے۔ 'آزاد دنیا' کی قیادت کرنے اور عالمی سطح پر جمہوریت کو برقرار رکھنے کے واشنگٹن کے دعوے کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اگر ٹرمپ کو سیاسی منظر نامے سے ہٹا بھی دیا جائے تو بھی اس سے امریکی جمہوریت کا گہرا بحران حل نہیں ہو گا۔ ریپبلکن پارٹی اور فوجی ریاستی ادارے میں ان کی جگہ لینے کے خواہشمند بہت سی شخصیات ہیں۔

جمہوری حقوق کا دفاع دونوں سرمایہ دار پارٹیوں کے خلاف محنت کش طبقے کی ایک تحریک کی بڑھوتی سے جڑا ہوا ہے جو سوشلسٹ نقطہ نظر پر مبنی ہو ۔ جو ملازمتوں اور اجرتوں پر بڑھتے ہوئے حملے کی مخالفت کو جنگ اور آمریت کے خلاف لڑائی سے جوڑتا ہو۔

Loading