اُردُو
Perspective

ٹرمپ پر فرد جرم اور امریکہ میں فاشزم کا خطرہ

یہ 4 اگست 2023 کو انگریزی میں شائع 'The indictment of Trump and the threat of fascism in America' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ پر رواں ہفتے 2020 کے انتخابات کے نتائج کو الٹنے کی ان کی کوششوں سے پیدا ہونے والے چار سنگین الزامات پر فرد جرم عائد کی گئی تھی جس کا اختتام 6 جنوری 2021 کو یو ایس کیپیٹل پر ہجوم کے دھاوا سے ہوا۔

آئین کا تختہ الٹنے اور آمریت قائم کرنے کی کوشش کرنے پر سابق صدر کے خلاف قانونی چارہ جوئی سزا اور قید مکمل طور پر جائز ہے۔ لیکن یہاں تک کہ اگر ٹرمپ کو 2024 میں وائٹ ہاؤس واپس آنے کے بجائے جیل جانا پڑا تو اس سے فاشسٹ تشدد, عالمی جنگ اور آمرانہ حکمرانی کے بڑھتے ہوئے خطرے کو ختم نہیں کیا جا سکے گا۔

یہ خطرات ارب پتی رئیل اسٹیٹ کے چکمہ دینے والے آدمی کی منحرف انا سے نہیں بلکہ امریکی اور عالمی سرمایہ داری کے ناقابل حل تاریخی تضادات سے پیدا ہوتے ہیں۔

سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ جمعرات 3 اگست 2023 کو آرلنگٹن ورجینیا میں رونالڈ ریگن واشنگٹن نیشنل ایئرپورٹ پہنچے۔ ٹرمپ نے 2020 کے انتخابات کو پالٹانے کی کوششوں سے متعلق چار سنگین الزامات میں "مجرم نہ " ہونے کا وعدہ کیا۔ [اے پی فوٹو/ایلکس برینڈن] [AP Photo/Alex Brandon]

کارپوریٹ میڈیا کے سرکردہ مرکزی اداریے ٹرمپ پر فرد جرم کے بارے میں خوش فہمی پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں - سابق صدر کے خلاف لایا گیا تیسرا سنگین مجرمانہ مقدمہ اسے اس ثبوت کے طور پر منا رہے ہیں کہ امریکہ کے سیاسی سرمایہ دارانہ ادارے اسکی سازش اور حملے سے بچ گئے ہیں۔

نیو یارک ٹائمز جو اس رجحان کو فروخ دیے رہا ہے بدھ کے روز اُس نے ایک اداریہ میں لکھا کہ ٹرمپ کے خلاف استغاثہ 'ایک بار پھر یہ ظاہر کرتا ہے کہ امریکہ میں قانون کی حکمرانی ہر ایک پر لاگو ہوتی ہے یہاں تک کہ جب مدعا علیہ ملک کا اعلیٰ ترین عہدے دار تھا۔'

اس نے نتیجہ اخذ کیا کہ 'ایک سابق صدر پر اپنے عہدے کا انتہائی غلط استعمال کا الزام لگایا جا رہا ہے اور آخر کار عدالتی پینچ کے ذریعہ اس کا فیصلہ کیا جائے گا۔ مسٹر ٹرمپ نے ملک کے آئینی نظام اور قانون کی حکمرانی کو ختم کرنے کی کوشش کی۔ وہ نظام اس کے حملوں سے بچ گیا اور اب اسے اس نقصان کا ذمہ دار ٹھہرائے گا۔

یہ امریکی جمہوریت پر نام نہاد توقعات پیدا کرنے کے لیے نشے کی زیادہ خوراک دینے سے انہیں خوش فہمی میں مبتلا کرنے کی ایک کوشش ہے جو امریکی حکومت کے طبقاتی کردار اور امریکی سرمایہ داری کے سماجی، معاشی اور سیاسی بحران کی شدت دونوں کو چھپانے کی ایک واردات کے طور پر ہے۔

اسے شروع کرنے کے لیے ٹرمپ کے خلاف قانونی کارروائی کے نتائج کی یقین دہانی مشکل ہی سے ہو سکتی ہے باوجود اس کے کہ یہ خود فریبی کی مشقوں کے سوا اور کچھ نہیں۔ ایم ایس این بی سی ٹی وی چینل نے ایک مکمل پینل اس قیاس آرائی اور بحث کے لیے وقف کر دی کہ ٹرمپ کے لیے جیل کے کیسے انتظامات کیے جا سکتے ہیں جو تمام سابق صدور کے لیے فراہم کردہ تاحیات خفیہ سروس تحفظ سے متصادم نہ ہوں۔

ٹرمپ ریپبلکن پارٹی میں سب سے آگے ہیں اور اگر وہ صدارتی انتخاب جیت جاتے ہیں — خاص کر بائیڈن انتظامیہ کی دیوالیہ، رجعتی اور عسکری پالیسیوں کی بدولت — وہ دوبارہ وائٹ ہاؤس میں داخل ہوں گے اور ایک بار پھر محکمہ انصاف اور کسی بھی وفاقی معاملے پر کنٹرول حاصل کرتے ہوئے اپنے خلاف قائم کیسز کو ختم کر دیں گے۔ 

اگر ٹرمپ کو راستے سے ہٹا بھی دیا جائے تو ریپبلکن پارٹی میں یکساں طور پر اسکے مد مقابل اور بھی فاشسٹ اور جمہوریت مخالف موجود ہیں۔ ان کے سرکردہ چیلنجر فلوریڈا کے گورنر رون ڈی سینٹیس نے پہلے ہی جمہوری حقوق، عوامی تعلیم اور اپنی ریاست میں کورونا وائرس کی وبا کو کم کرنے کی کوششوں پر محاذ آرائی کی ہے۔ انہوں نے بدھ کے روز فخر کیا کہ اگر وہ صدارت جیت جاتے ہیں تو وہ 'پہلے دن سے گلے کاٹنا شروع کر دیں گے۔' یہ محض ایک استعارہ نہیں تھا بلکہ ایک سنگین دھمکی تھی۔

نہ ہی صدر بائیڈن کا دوبارہ انتخاب ملازمتوں، معیار زندگی اور جمہوری حقوق پر جاری حملوں سے کوئی مہلت فراہم کرتا ہے۔ بائیڈن کا تعلق امریکی حکمران اشرافیہ کے اس دھڑے سے ہے جو طبقاتی جدوجہد کو دبانے اور محنت کشوں پر اپنے حملوں کو نافذ کرنے کے لیے ٹریڈ یونینوں پر انحصار کرنا چاہتا ہے۔ یہ کارپوریٹسٹ پروگرام امریکی معاشرے کو سامراجی جنگی مہم کے تابع کرنے کی کوششوں کا حصہ ہے جس کی توجہ اب یوکرین میں روس کے خلاف پراکسی جنگ پر مرکوز ہے جب کہ تائیوان، بحیرہ جنوبی چین یا کسی دوسرے پر چین کے خلاف جنگ کی تیاری جاری ہے اور اسکے یہ اقدامات کسی بھی وقت پھٹ کر جنگ کی شکل اختیار کر سکتے ہیں۔

خصوصی وکیل جو کے اس کیس کی تحقیقات کر رہا ہے 45 صفحات پر مشتمل فرد جرم اور کارپوریٹ میڈیا دونوں میں ٹرمپ کے خلاف کیس کی پیش کش حقیقی خطرات کو چھپانے کے مترادف ہے۔ ٹائمز کا اداریہ یہ دلیل دیتا ہے فرد جرم کی تشریح کرتے ہوئے کہ 'مجرمانہ اسکیم' 14 نومبر 2020 کو شروع ہوئی جب مسٹر ٹرمپ نے نتائج کو چیلنج کرنے کے لیے روڈی گیولیانی (ان کے وکیل نے 'شریک سازشی 1' ہونے کا اعتراف کیا) کی طرف رجوع کیا۔ ایریزونا کی ریاست جہاں دونوں میں سخت مقابل تھا جس میں مسٹر ٹرمپ ہار گیا تھا۔

فرد جرم میں ٹرمپ اور ان کے سب سے زیادہ طاقتور 'سازش کاروں' دونوں کے جرائم کو چپھایا گیا ہے جن کا فرد جرم میں کوئی ذکر نہیں کیا گیا ہے - یہ ملٹری انٹیلی جنس اپریٹس کے وہ اہلکار جن پر ٹرمپ ایک آمرانہ حکومت قائم کرنے کے اپنے منصوبوں کو انجام دینے کے لیے انحصار کر رہے تھے۔ اکتوبر 2019 کے اوائل میں ٹرمپ نے کسی بھی انتخابی شکست کو ٹالنے کے اپنے ارادے کا اعلان کر دیا تھا اور یہ 2020 کی انتخابی مہم کے موسم گرما اور موسم خزاں کے دوران اس پر ڈھول پیٹنا شروع کر دیا تھا۔ یہاں تک کہ ڈیموکریٹک امیدوار بائیڈن نے جون 2020 میں خود یہ اعتراف کیا تھا کہ ان کا سب سے بڑا خوف یہ تھا کہ ٹرمپ انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیں گے۔

اسی مہینے ٹرمپ نے آمریت کا اپنا پہلا وار کیا جس میں پولیس تشدد کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہروں کے خلاف 1807 کے بغاوت ایکٹ کا مطالبہ کرنے کی تجویز پیش کی گئی جس نے منیاپولس میں جارج فلائیڈ کے پولیس قتل کے بعد ملک کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ 

سیاسی تشدد کے خطرے کا ایک اور اشارہ اکتوبر 2020 میں 14 فاشسٹوں کی گرفتاری کے ساتھ سامنے آیا جو مشی گن کے ڈیموکریٹک گورنر گریچن وائٹمر کو اغوا اور قتل کرنے کی سازش کر رہے تھے اور ان کے چھٹی گزارنے والے گھر پر نگرانی کر رہے تھے،

 انہوں نے بموں کا استمعال کیا اور فرار کے راستوں کی منصوبہ بندی کی تھی۔ یہ گروپ سب سے پہلے کوویڈ- 19 کے دوران جو سال کے آغاز میں محدود لاک ڈاؤن کے خلاف جو ٹرمپ کی طرف سے اکسائے گے تھے والے مظاہروں کے جواب میں اکٹھا ہوا۔ (اس گروپ نے اپنے حامیوں سے مشی گن کے گورنر وائٹمر کے ظلم سے 'آزاد' کرنے کا مطالبہ کیا۔)

انتخابات کے دن تک آنے والے ہفتوں میں بائیڈن کی جیت کی طرف رائے دہندگان میں یہ بات مشہور تھی کہ ٹرمپ شکست کو قبول نہیں کریں گے۔ ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے انتخابات کے بعد بغاوت کی تیاریوں کے بارے میں انتباہ کے بعد انتباہ شائع کیا۔ ایسی بہت سی انتباہات کی ایک مثال 24 ستمبر 2020 کو سامنے آئی:

ٹرمپ انتخابی مہم نہیں چلا رہا ہے بلکہ وہ صدارتی آمریت قائم کرنے کے لیے ایک سازش تیار کر رہا ہے۔ یہ ان کی یکم جون کی تقریر کے ساتھ شروع کی گئی پوری سازش کا تسلسل ہے جس میں وہ بغاوت کے ایکٹ کی التجا کر رہا ہے اور اندرونی مظاہرین کے خلاف فوج کو تعینات کرنے کی دھمکی دے رہا تھا۔

ٹرمپ اور اس کے سازشی ساتھی جس بے رحمی کے ساتھ اپنے منصوبوں کو عملی جامہ پہنا رہے ہیں اور ڈیموکریٹک پارٹی اور اس کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن کی بے رحمی اور بزدلی کے درمیان ایک حیرت انگیز تضاد پایا جاتا ہے۔ یہاں تک کہ جب ٹرمپ اقتدار پر اپنے غیر قانونی قبضے کو آسان بنانے کے لیے سپریم کورٹ کی آڑ میں منصوبہ بنا رہے تھے ڈیموکریٹس نے اعلان کیا ہے کہ نومبر کے انتخابات سے پہلے ٹرمپ کی کسی اور جج کی تقرری کو روکنے کے لیے کچھ نہیں کیا جا سکتا۔ (ٹرمپ کی بغاوت کا انتخاب، منجانب ڈیوڈ نارتھ اور جوزف کشور)

ڈیموکریٹک پارٹی نے اس پورے جاری عمل کے دوران اس کی اہمیت کو چھپانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی، یہاں تک کہ جب اس کی اپنی پارٹی کے سرکردہ اراکین جیسے کہ وائٹمر کو قتل کرنے کا نشانہ بنایا گیا پھر بھی امریکی عوام کو خبردار کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی۔ اور اس سلسلے میں کودیتا کے خلاف اپوزیشن کو متحرک کرنے کے لیے کوئی بھی حکمت عملی تیار نہیں کی گی۔ کودیتا کے دن ڈیموکریٹس خاموش رہے اور ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیھٹے رہے۔ بائیڈن نے یہاں تک کہ کودیتا کے منصوبہ ساز ان چیف، ڈونلڈ ٹرمپ کو قومی ٹیلی ویژن پر ملک سے خطاب کرنے کا مطالبہ کیا۔

پچھلے ڈھائی سالوں کے دوران ڈیموکریٹس نے 6 جنوری کے واقع کے پس پردہ سماجی اور سیاسی قوتوں کو بے نقاب کرنے کی کسی سنجیدہ کوشش سے گریز کیا۔ بائیڈن انتظامیہ کی بنیادی ترجیح جنگ کی بنیاد پر ریپبلکن پارٹی میں اپنے 'ساتھیوں' کے ساتھ دو طرفہ معاہدہ کرنا رہی ہے - جنہوں نے کودیتا کی حمایت کی تھی۔

بائیڈن نے خود کودیتا اور جب سے ٹرمپ پر یہ فرد جرم عائد کی گئی تھی اس کے بارے میں کچھ نہیں کہا۔ ٹرمپ اپنی پوری انتخابی مہم کو فرد جرم پر ریفرنڈم کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں لیکن بائیڈن چاہتے ہیں کہ یہ ایک نان ایشو رہے۔

ٹائمز نے جمعرات کو شائع ہونے والے ایک مضمون میں لکھا ہے کہ 'بائیڈن کے مہم کے عہدیداروں اور اتحادیوں کا خیال ہے کہ وہ ووٹروں کی زندگیوں پر زیادہ براہ راست اثر ڈالنے والے موضوعات پر توجہ مرکوز کر سکتے ہیں یعنی معاشی مسائل، اسقاط حمل تک رسائی اور موسمیاتی تبدیلیاں ' جبکہ مسٹر ٹرمپ کے اٹھائے گے اقدامات پر واضح طور پر بحث کرنے سے گریز کرنا ہے۔

یعنی ڈیموکریٹس اپنے معیاری اور بے بنیاد جھوٹ کی بنیاد پر ایک مہم چلانے کا ارادہ رکھتے ہیں، جبکہ 'مسٹر ٹرمپ کے ایشوز '- یعنی امریکی جمہوریت کے حیران کن بحران کو جس حد تک ممکن ہو نظر انداز کیا جائے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ڈیموکریٹس وال سٹریٹ اور ملٹری انٹیلی جنس اداریے کا ایک حصہ ہے جو سرمایہ دارانہ ریاست کے دفاع، اور جنگ کو آگے بڑھانے اور محنت کش طبقے کی مخالفت کو دبانے کے بارے میں فاشزم کے بڑھنے سے کہیں زیادہ فکر مند ہیں۔

1929 میں لیون ٹراٹسکی نے اجتماعی معاشی بحران اور طوفانی طبقاتی جدوجہد کے اثرات کے تحت سرمایہ دارانہ جمہوریت کے زوال کے بارے میں لکھا:

الیکٹریکل انجینئرنگ سے جمہوریت کو مشابہت دیتے ہوئے اس کی تعریف قومی یا سماجی جدوجہد سے بہت زیادہ بجلی کے لوڈ والے کرنٹوں سے تحفظ کے لیے حفاظتی سوئچز اور سرکٹ بریکرز کے نظام کے طور پر کی جا سکتی ہے۔ انسانی تاریخ کا کوئی دور بھی آج کے دور کے مقابل میں تضادات سے اتنا زیادہ چارج نہیں ہوا ہے۔ … طبقاتی اور بین الاقوامی تضادات کے اثرات کے تحت جو بہت زیادہ چارج ہو چکے ہیں اس لیے جمہوریت کے حفاظتی سوئچ یا تو جل جاتے ہیں یا پھٹ جاتے ہیں۔ ہمیں آمریت کا شارٹ سرکٹ یہی ظاہر کرتا ہے۔ (لیون ٹراٹسکی کی تحریریں 1929 'کیا پارلیمانی جمہوریت سوویت یونین کی جگہ لے سکتی ہے؟' صفحہ 52-57۔)

آمریت کا خطرہ صرف ڈونلڈ ٹرمپ کی زہریلی شخصیت سے نہیں ہے بلکہ اسکی بنیاد سماجی اور طبقاتی تناؤ سے آتی ہے جو امریکی معاشرے کو چیر پھاڑ رہا ہے۔ انقلابی سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر محنت کش طبقے کی مداخلت ہی متبادل فراہم کر سکتی ہے۔

Loading