اُردُو
Perspective

نیتن یاہو کی حکومت گراوُ! غزہ پر سامراجی حمایت یافتہ صیہونی حملے بند کرو!

یہ 9 اکتوبر 2023 کو انگریزی میں شائع ہونے 'Down with Netanyahu’s government! Stop the imperialist-backed Zionist onslaught against Gaza!' والے اس بیان کا اردو ترجمہ ہے۔

ہفتہ 7 اکتوبر 2023 کو غزہ شہر میں اسرائیلی فضائی حملے کے بعد فلسطینی اپارٹمنٹ ٹاور پر ہونے والے دھماکے سے آگ اور دھواں اٹھ رہا ہے۔ (اے پی فوٹو/عدیل ہانا) [AP Photo/Adel Hana]

1- انٹرنیشنل کمیٹی آف دی فورتھ انٹرنیشنل (آئی سی ایف آئی) نے اسرائیلی قبضے کے خلاف غزہ میں ہونے والی بغاوت کے بعد نتن یاہو حکومت کی طرف سے فلسطینی عوام کے خلاف اعلان جنگ کی صاف صاف الفاظ میں مذمت کی ہے۔ نازیوں کی یاد تازہ کرنے والی اسرائیلی حکومت کی نہایت مضحکہ خیز اقدام کو غزہ کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو ختم کرنے کے مطالبے سے کم نہیں کہا جا سکتا۔ آئی سی ایف آئی نے بائیڈن انتظامیہ اور یوروپی یونین کی حکومتوں کی طرف سے نسل کشی کی اس مہم کو دی جانے والی مکمل حمایت کے اعلانات کی مذمت کی ہے جو اب اسرائیلی مسلح افواج کی جانب سے اس پر منصوبہ بندی اور عمل درآمد کیا جا رہا ہے۔ خطے میں امریکی طیارہ بردار بحری جہاز کی روانگی فلسطینی عوام پر بڑے پیمانے پر حملے کے ساتھ سامراجی یکجہتی کا ایک مذموم مظاہرہ ہے۔

2- یہ عالمی سطح پر اور خود اسرائیل میں محنت کش طبقے کی ذمہ داری ہے کہ وہ فلسطینی محنت کشوں اور نوجوانوں کو ظلم کے خلاف جدوجہد میں ان کا دفاع کریں۔ سامراجی مراکز اور پوری دنیا میں اسرائیلی حکومت کو ہتھیاروں کی ترسیل کے خلاف احتجاج اور مخالفت ہونی چاہیے۔ ہر ملک میں غزہ اور مغربی کنارے پر قبضے کے خاتمے کا مطالبہ کرتے ہوئے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہونے چاہئیں۔

3. ہم خاص طور پر اسرائیلی محنت کش طبقے اور یہودی آبادی کے تمام ترقی پسند عناصر سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ حکومت کے زہریلے شاونزم کو مسترد کریں۔ اسرائیلی مزدوروں اور نوجوانوں کو خود اس شاونزم سے الگ کرنا چاہیے اور نیتن یاہو حکومت کے مجرمانہ اقدامات کی مذمت کرنی چاہیے، جو ان کے مفادات کی نمائندگی نہیں کرتے۔

4- جیسا کہ پوری تاریخ میں ہمیشہ ہوتا رہا ہے، عوام کی طرف سے مزاحمت کا ہر عمل حکمران اشرافیہ کے شدید غصے کو جنم دیتا ہے۔ بائیڈن، شولز، میکرون اور باقی حکمران اشرافیہ 'دہشت گردی' کا نعرہ لگا سکتے ہیں جب تک وہ تھک کر نڈھال نہیں ہو جاتے۔ لیکن صیہونی نواز پروپیگنڈے کے باوجود محنت کشوں نوجوانوں اور مظلوموں کی ہمدردیاں فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ اور یہ سمجھا جاتا ہے کہ یہ جو سب کچھ ہو رہا ہے وہ ایک ظالمانہ قبضے کے خلاف ایک عوامی بغاوت ہے، اور یہ کہ 'دہشت گردی' سے حکمران طبقے کا مطلب اپنے مفادات اور پالیسیوں کی مخالفت کا کوئی مظہر ہے۔

5. یوکرین کی جنگ کی طرح فلسطین کے واقعات سرمایہ دارانہ میڈیا میں اپنے پورے تاریخی تناظر سے کٹے ہوئے ہیں۔ نئی بننے والی اسرائیلی ریاست کے فلسطین پر قبضے اور وہاں رہنے والوں کو ان کے آبائی وطن سے بے دخل کیے ہوئے 75 برس بیت چکے ہیں۔ 1967 کی چھ روزہ جنگ کو 55 سال بیت چکے ہیں، جس نے مغربی کنارے پر اسرائیلی قبضے اور الحاق کا آغاز کیا تھا۔ غزہ پر 2006 کی اسرائیلی جنگ اور اس کے نتیجے میں ہونے والی ناکہ بندی کو 17 سال ہو چکے ہیں جیسا کہ ہیومن رائٹس واچ کے الفاظ میں غزہ کو ایک ' فضا میں کھلی جیل' میں تبدیل کر دیا تھا۔ کئی دہائیوں کے دوران زمین کے چھوٹے چھوٹے حصوں پر بے شمار قتل و غارت اور بمباری ہوئی ہے جس پر فلسطینیوں کو مرتکز کیا گیا ہے- اور ساتھ ہی ان علاقوں میں جہاں پر انہوں نے پناہ لی جیسا کہ 1982 میں لبنان کے صابرہ اور شتیلا پناہ گزین کیمپوں میں فلسطینیوں کا قتل عام کیا گیا۔

6. اس سارے معاملے میں اسرائیل کو سامراجی طاقتوں کی پشت پناہی حاصل رہی ہے سب سے بڑھ کر امریکہ جس کے لیے اسرائیل مشرق وسطیٰ میں چیف پراکسی کے طور پر کام کر رہا ہے۔ اقوام متحدہ نے اپنی قراردادوں کو نافذ کرنے سے انکار کر دیا ہے جب کہ عرب بورژوا حکومتوں نے سامراج اور اسرائیل کے ساتھ معاہدے کر کے فلسطینی عوام کو قتل عام اور مار پیٹ کے لیے چھوڑ دیا ہے۔ یہ سب کچھ کرنے کے باوجود اسرائیلی ریاست اور اس کے حمایتی فلسطینیوں کے جمہوری اور سماجی حقوق کے لیے جدوجہد کو دبانے میں کامیاب نہیں ہو سکے۔

7. یہ ایک فیصلہ کن لمحہ ہے۔ کئی مہینوں سے نیتن یاہو اور اس کے فاشسٹ اتحادی پارٹنرز، بازل سموٹریچ کی قیادت میں مذہبی صیہونیت اور لٹمار بن جیویر کی قیادت میں جیوش پاور نے اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کی طرف سے حملے کی قیادت کی ہے۔ پولیس اور آباد کار گروپوں نے مسجد الاقصی میں اشتعال انگیزی کے ساتھ ساتھ مغربی کنارے، غزہ اور خود اسرائیل کے قصبوں اور دیہاتوں پر قریب قریب روزانہ حملے کیے ہیں۔

8. فلسطینی عوام کی مزاحمت نیتن یاہو کے لیے ایک سیاسی شکست ہے، جو اسرائیلی قانون میں بھی مجرم ہے۔ اسرائیل کی سیاسی زندگی کی یہ حقیقت ہے کہ یہ بے ایمان غنڈہ جیل سے باہر رہنے کے لیے اقتدار سے چمٹا رہتا ہے۔ اس بات کو لاکھوں اسرائیلی بھی تسلیم کرتے ہیں کہ نیتن یاہو نے فلسطینیوں کے خلاف اشتعال انگیزی کی ہے تاکہ ایک پرتشدد ردعمل کو اکسایا جا سکے جسے داخلی مخالفت کو دبانے اور بے راہ کرنے کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ تاہم اس کی مجرمانہ سکیموں پر فلسطینیوں کا ردعمل نیتن یاہو کے حساب کتاب سے کافی حد تک بڑھ گیا ہے۔

9. حماس نے ایک ناقابل تسخیر یہودی بستی میں دشمن کے فوجیوں کے گھیرے میں رہنے اور مسلسل نگرانی اور ٹارگٹڈ قتل کا نشانہ بننے کے باوجود ہزاروں افراد پر مشتمل ایک فوجی کارروائی شروع کی ہے۔ یہ اس بات کی حقیقت ہے کہ غزہ کے بیس لاکھ باشندوں کی زبردست حمایت کی وجہ سے اس پیمانے کے آپریشن کی منصوبہ بندی خفیہ رکھی جا سکتی تھی۔ یہ ایک حقیقی عوامی بغاوت ہے جو بڑے پیمانے پر مسلح جابر کے خلاف شروع کی گئی تھی جو 1943 میں وارسا یہودی بستی کے یہودی قیدیوں کی بغاوت اور 1944 میں جرمن نازیوں کے قبضے کے خلاف وارسا کے محنت کش طبقے کی زبردست بغاوت کی مثال دیتی ہے۔

10. اسرائیل کا حکمران طبقہ اس وقت اس مقام پر ہے جہاں اس کے موجودہ باشندوں کی زبردستی بے دخلی کے ذریعے ایک علیحدہ یہودی ریاست کے حصول کے رجعتی تناظر کو صرف قتل عام اور نسلی تطہیر سے ہی برقرار رکھا جا سکتا ہے۔ نیتن یاہو نے 43 کلومیٹر لمبی اور 10 کلومیٹر چوڑی غزہ کی پٹی کو 'ملبے' کے ڈھیر میں تبدیل کرنے کا وعدہ کیا ہے اور اس کی قیدی آبادی سے کہا ہے کہ وہ 'راستے سے ہٹ جائیں' اور یہ بھی جانتے ہوئے کہ وہ ایسا نہیں کر سکتے۔

11. وحشیانہ فوجی ردعمل شروع ہو چکا ہے۔ 'آپریشن آئرن سوورڈز' کے دوسرے دن اسرائیل نے غزہ میں 800 اہداف پر حملے کیے ہیں اور اس کی بجلی کی سپلائی بند کر دی ہے محصور علاقے اور ہسپتالوں اور رہائشی ٹاوروں کو راکٹوں اور فضائی حملوں سے نشانہ بنا کر تباہ کر دیا ہے اور اندر اور باہر سامان کی نقل و حرکت روک دی گئی ہے جہاں پر سینکڑوں بے سہارا لوگوں کے گھر ہیں۔ شہری فلسطینی فضائی بمباری سے پناہ کی تلاش میں اقوام متحدہ کی رلیف ورکرز ایجنسی کے زیر انتظام اسکولوں میں پہنچ گئے ہیں۔

12. یہ ایک واضع حقیقت ہے کہ ریاستہائے متحدہ کی بائیڈن انتظامیہ اور دنیا کی تمام بڑی طاقتوں کے رہنماؤں اور ذرائع ابلاغ کی طرف سے نیتن یاہو کے اعلان جنگ کی عالمی حمایت کے طور پر یہ مظالم ڈھے جا رہے ہیں۔ دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی سماجی بدامنی اور بڑھتی ہوئی ہڑتالوں کی سرگرمیوں کے دوران ہر جگہ حکمران طبقہ اس مثال سے خوفزدہ ہے کہ عوامی مخالفت کا کوئی بھی مظہر کھل کر سامنے آئے گا۔

13. سامراجی رہنما اور ان کی میڈیا کی بازگشت 'دہشت گردی' کی مخالفت نہیں کر رہے ہیں بلکہ عوام قبضے اور اسرائیل کی طرف سے روزانہ کی جانے والی دہشت گردی کی بڑے پیمانے پر مخالفت کر رہے ہیں۔ اور وہ فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی حمایت اور اسکے علاوہ اسے ایران، شام اور لبنان کے خلاف علاقائی جنگ تک پھیلانے تک کریں گے۔ وال اسٹریٹ جرنل کا اداریہ نے لکھا ہے:

اور براہ کرم اسرائیل کی 'ناکہ بندی' یا 'قبضے' کی مزید مذمت نہ کریں... وائٹ ہاؤس کی ترغیب یہ ہو گی کہ اسرائیل کو آزادانہ طور پر جواب دینے کے لیے ایک ہفتے یا اس سے زیادہ کا وقت دیا جائے اور پھر نیتن یاہو حکومت کو دستبردار ہونے کے لیے کہا جائے۔ یہ ہمیشہ امریکی طرز رہا ہے لیکن اس بار ایسا نہیں ہونا چاہیے۔ اور اگر ایک وسیع جنگ چھڑ جاتی ہے تو امریکہ کو اسرائیل کو حماس اور حزب اللہ کی عسکری صلاحیت کو تباہ کرنے کے لیے ضروری ہتھیار اور سفارتی مدد فراہم کرنا ہوگی۔

14. میڈیا کو بائیڈن انتظامیہ کی طرف سے اس طرح کی پسپائی سے خوف کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ کل وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے اس بات کی تصدیق کی کہ امریکہ خطے میں ایک کیریئر اسٹرائیک گروپ بھیجے گا، جس میں 50 بلین ڈالر کا فورڈ طیارہ بردار بحری جہاز بھی شامل ہے اور 'آنے والے دنوں میں' جنگی سازوسامان فراہم کرے گا۔ یہ اسرائیل کے ساتھ محض 'یکجہتی' نہیں ہے بلکہ جنگ میں شامل ہونے کی تیاری ہے۔ اسرائیل کے فوجی ردعمل کی بھرپور حمایت میں فلسطینیوں کے قتل کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا گیا۔ تحمل کی کوئی بات نہیں کی گی اور نہ ہی جنگ بندی کو روکنے دینے کی۔ سامراجی حلقوں میں اب صرف ایک تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ اسرائیل کو جنگی سازوسامان کی فراہمی یوکرین پر روس کے خلاف امریکی نیٹو کی بڑھتی ہوئی جنگ کے لیے درکار ہتھیاروں کی سپلائی کو کم کر سکتی ہے۔

15. فلسطینی عوام کی حمایت کے کسی بھی اور تمام اظہار کو بدنام کرنے کے لیے سامراجی حکومتیں اور میڈیا لامحالہ 'یہود دشمنی' کا الزام لگاتے ہیں۔ یہ گھٹیا بہتان منافقت سے لتھڑا ہوا ہے۔ جب یہ ان کے مفادات کو پورا کرتا ہے تو حکمران اشرافیہ کو ہٹلر کے وکالت کرنے والوں اور نیو نازیوں کے ساتھ اتحاد کرنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ جرمن حکومت دائیں بازو کے ماہرین تعلیم کی طرف سے نازی حکومت کے جرائم کو درست ثابت کرنے اور اسے پاک کرنے کی کوششوں کی تائید کرتی ہے۔ دو ہفتے سے بھی کم عرصہ قبل پوری کینیڈین پارلیمنٹ نے وزیر اعظم ٹروڈو اور جرمن سفیر کے ساتھ نازی وافن-ایس ایس کے سابق رکن یاروسلاو ہنکا کے لیے کھڑے ہو کر سلامی پیش کی، جس نے ہولوکاسٹ میں یہودیوں کے قتل عام میں حصہ لیا تھا۔ 

16. نیتن یاہو حکومت کسی بھی بڑے سے بڑے جرم کی صلاحیت رکھتی ہے۔ لیکن یہ ناقابل تسخیر نہیں ہے۔ اس کی جنگی فریادوں کی خونریزی حکومت کے خوف اور مایوسی کو چھپا نہیں سکتی۔ اسے نہ صرف فلسطینی عوام کی مزاحمت کا سامنا ہے بلکہ اسرائیلی محنت کش طبقے کی بڑھتی ہوئی مخالفت کا بھی سامنا ہے۔ نیتن یاہو حکومت اور اس کے آمرانہ اقدامات کے خلاف سال بھر سے اسرائیلی مزدوروں اور نوجوانوں کے بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوتے رہے ہیں۔ ان مظاہروں کو سرکاری سیاسی قیادت نے نقصان پہنچایا ہے جس نے فلسطینیوں پر ظلم و ستم کا مسئلہ اٹھانے سے انکار کر دیا۔ نیتن یاہو کے اعلان جنگ نے صیہونی اپوزیشن کے اہم رہنماؤں یش اتید کے یائر لاپڈ اور نیشنل یونٹی پارٹی کے بینی گینٹز کو بھی اٹل طور پر بے نقاب کیا ہے جنہوں نے اسرائیلی جنگی منصوبوں کے ساتھ یکجھتی کی ہے اور نیتن یاہو کے ساتھ قومی اتحاد کی حکومت بنانے کے لیے گہری پیش رفت جاری ہے۔

17. اسرائیل کے محنت کشوں اور نوجوانوں کے لیے فلسطینی انکے کے دشمن نہیں ہیں بلکہ اُن کے لیے نیتن یاہو حکومت اور اسرائیلی حکمران طبقہ ہے۔ اسرائیل کے اندر جمہوری طرز حکمرانی کو ختم کرنے کے اقدامات سماجی عدم مساوات کے انتہائی بڑھنے اور سماجی پروگراموں پر بڑھتے ہوئے حملے سے جڑے ہوئے ہیں۔

18. موجودہ صورتحال کا عظیم تاریخی اور سیاسی تضاد یہ ہے: اسرائیلی محنت کش طبقہ صہیونی جبر کے خلاف فلسطینی عوام کے جمہوری حقوق کے لیے جدوجہد کیے بغیر اپنے جمہوری حقوق کا دفاع نہیں کر سکتا۔ اور فلسطینی اسرائیلی محنت کش طبقے کے ساتھ جنگی اتحاد بنائے بغیر جمہوری حقوق اور سماجی مساوات کی اپنی خواہشات حاصل نہیں کر سکتے۔ واحد قابل عمل نقطہ نظر ایک فرضی 'دو ریاستی حل' نہیں ہے بلکہ یہودی اور عرب مزدوروں کی ایک متحد سوشلسٹ ریاست ہے۔

19. فلسطینیوں کی جدوجہد جتنی بھی مستحکم اور بہادری سے بھری ہی کی کیوں نہ ہو لیکن وہ جن ناقابل برداشت حالات کا سامنا کر رہے ہیں وہ سوشلزم کے لیے محنت کش طبقے کی ایک بین الاقوامی تحریک کے فروغ کے بغیر حل یا حاصل نہیں ہوں گے۔ یہ بات اسرائیل میں یہودی مزدوروں اور نوجوانوں کے لیے بھی انتہائی اہمیت کی حامل ہے۔ یہود دشمنی کے نئے سرے سے بڑھنے سے خطرات بہت حقیقی ہیں۔ لیکن یہ غزہ اور مقبوضہ مغربی کنارے کے عوام کی جمہوری جدوجہد سے نہیں بلکہ سرمایہ داری اور سامراج کی طرف سے بھڑکائے گئے رجعتی قومی شاونزم سے پیدا ہوتا ہے۔

20. فلسطین میں بغاوت بذات خود دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر ہڑتالوں اور مظاہروں کی شکل میں غصے اور مخالفت کے بڑھتے ہوئے سلسلے کا ایک عمل ہے۔ سوشلسٹ اور انقلابی پروگرام اور تناظر سے رہنمائی حاصل کرنے والی یہی سماجی قوت محنت کش طبقہ ہے ہے جسے سامراجی جنگ، عدم مساوات اور ہر قسم کے جبر کے خاتمے کے لیے متحرک ہونا چاہیے۔ یہ ٹراٹسکیسٹ فورتھ انٹرنیشنل کا تناظر اور پروگرام ہے جس کی قیادت بین الاقوامی کمیٹی کر رہی ہے۔

9 اکتوبر

Loading