اُردُو
Perspective

غزہ کے اسپتال پر اسرائیلی بمباری پر عالمی غم و غصہ پھوٹ پڑا

یہ 18 اکتوبر 2023 کو انگریزی میں شائع ہونے والے  'Global outrage erupts over Israeli bombing of Gaza hospital' اس ارٹیکل کا ارودو ترجمہ ہے۔ 

17 اکتوبر 2023 بروز منگل کو الاحلی عرب ہسپتال پر اسرائیلی فضائی حملے میں ہلاک ہونے والے فلسطینیوں کی لاشیں غزہ سٹی کے الشفا ہسپتال کے سامنے کے صحن میں رکھی ہیں۔ (اے پی فوٹو/عبد خالد) [AP Photo/Abed Khaled]

منگل کے روز اسرائیلی فوج نے غزہ شہر میں العہلی عرب کرسچن ھسپتال پر جی پی ایس گائیڈڈ بم گرایا جس میں 500 سے زائد طبی عملے مریض اور مہاجرین ہلاک ہوئے۔ اینگلیکن کرسچن چرچ کے زیرانتظام یہ ہسپتال بم دھماکے سے بے گھر ہونے والے 1000 سے زیادہ لوگوں کو پناہ دے رہا تھا۔ ہسپتال کے ڈاکٹروں اور طبی عملے نے دلیری سے اسرائیلی مطالبات کو مسترد کر دیا تھا کہ وہ مزید جنوب میں منتقل ہو جائیں یہ کہتے ہوئے کہ جنوبی غزہ میں ان کے شدید زخمی مریضوں کو رکھنے کے لیے کافی بستر نہیں ہیں۔

اس ظلم نے پورے مشرق وسطیٰ، یورپ اور امریکہ میں لاکھوں افراد کی طرف سے بڑے پیمانے پر احتجاج کو جنم دیا ہے۔ ہزاروں افراد نے وائٹ ہاؤس کے باہر ریلی نکالی امریکی صدر جو بائیڈن پر نسل کشی کا الزام لگانے والے بینرز اٹھائے ہوئے تھے۔

اسرائیلی حکومت اور امریکی میڈیا نے اس جھوٹ کو پروان چڑھانے کی مہم شروع کر رکھی ہے کہ فلسطینیوں نے خود ہی اپنے ہی ہسپتال پر بمباری کی۔ اسرائیل نے اس بمباری کی ذمہ داری سے انکار کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ یہ حملہ غزہ سے داغے گئے راکٹ کی وجہ سے ہوا جو غلط فائر ہوا۔ ساری دنیا جانتی ہے کہ یہ ایک صاف جھوٹ اور من گھڑت بیان ہے۔ یہ قتل عام اسرائیل نے امریکی نیٹو کے قریبی تعاون سے کیا تھا۔

غزہ پر بمباری کوئی اتفاقی بات نہیں ہے۔ پچھلے 10 دنوں میں ہسپتالوں، رہائشی عمارتوں اور دیگر شہری انفراسٹرکچر پر درجنوں حملوں کے سلسلے میں یہ صرف تازہ ترین، اور انتہائی گھناؤنا واقعہ ہے۔ یہ مکمل طور پر جنگ کے لیے اسرائیل کی حکمت عملی کے مطابق ہے جو کہ بڑے پیمانے پر جانی و مالی نقصان پہنچا کر آبادی کو دہشت زدہ کرنا ہے۔

13 اکتوبر کو اسرائیل نے جہازوں سے پرچیاں گرایں جس میں 1.1 ملین افراد کو شمالی غزہ چھوڑنے کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ اسرائیل نے شمالی غزہ میں ایک 'فری فائر زون' بنا رکھا ہے جس میں ہر مرد عورت اور بچہ نشانہ ہے۔ جنگ کے حامی امریکی تھنک ٹینک، اٹلانٹک کونسل نے بیان کیا کہ اسرائیلی بمباری جس میں گزشتہ 10 دنوں میں 3000 سے زیادہ افراد ہلاک ہو چکے ہیں نے 'خاص طور پر محفوظ مقامات کو نشانہ بنایا ہے جن میں ہسپتال، بازار، پناہ گزین کیمپ، مساجد، تعلیمی سہولیات، اور پورے محلے' شامل ہیں۔

اس نے مزید بیان کیا کہ اسرائیل کے 'گنجان آبادی والے شہری علاقوں پر اندھا دھند حملے اور احتیاطی تدابیر کے فقدان کے حملے آئی ایچ ایل کی خلاف ورزی کرتے ہیں اور ممکنہ طور پر جنگی جرائم کے مترادف ہیں۔ جب منظم طریقے سے یا بڑے پیمانے پر کیا جاتا ہے تو وہ انسانیت کے خلاف جرائم بن سکتے ہیں۔'

غزہ کی وزارت صحت کے انڈر سیکرٹری کے مطابق حملے سے چند دن پہلے اسرائیل نے زندہ گولہ بارود کا استعمال کرتے ہوئے ہسپتال پر 'انتباہی' گولیاں چلائیں۔ اس حملے کے بعد اسرائیلی فوج نے ہسپتال کو خالی کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ 'ہم نے کل آپ کو دو گولوں سے خبردار کیا تھا۔'

آئی ڈی ایف کے ایک ترجمان نے سی این این کو بتایا کہ اسرائیل نے 'بات چیت کو روک دیا' جس سے یہ انکشاف ہوا کہ 'وہ سمجھتے ہیں کہ یہ ایک راکٹ تھا جس نے غلط فائر کیا تھا۔' ' بات چیت کو ریکاڈ' کیا تھا کا یہ حوالہ فوری طور پر کولن پاول کی اقوام متحدہ سے پہلے 2003 کی بدنام زمانہ تقریر کو یاد کرتا ہے جہاں اس نے بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کے وجود کو ثابت کرنے کے طور پر 'بات چیت کو ریکاڈ' کرنے کا بہانہ بنایا تھا۔

حملے کے جواب میں بائیڈن نے ٹویٹر پر لکھا کہ'میں غزہ کے العہلی عرب ہسپتال میں ہونے والے دھماکے اور اس کے نتیجے میں ہونے والے خوفناک جانی نقصان پر شدید غمزدہ ہوں۔ ریاستہائے متحدہ تنازعات کے دوران شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ کے لیے واضح طور پر کھڑا ہے اور ہم اس سانحے میں ہلاک یا زخمی ہونے والے مریضوں طبی عملے اور دیگر بے گناہوں کے لیے سوگوار ہیں۔

کیسی گھٹیا پن اور منافقت ہے!

اس جنگی جرم میں تمام سامراجی طاقتیں ملوث ہیں۔ العہلی عرب ہسپتال پر حملہ جرمن چانسلر اولاف شولز کے نیتن یاہو کے ساتھ ملنے کے چند گھنٹے بعد کیا گیا اور یہ اعلان کیا کہ جرمنی کے پاس 'صرف ایک جگہ ہیاور وہ اسرائیل کے ساتھ کھڑا ہے۔'

جرمن سامراج کے اپنے جرائم کو اسرائیل کے جرائم کا جواز فراہم کرنے کے لیے استعمال کرتے ہوئے شولز نے کہا کہ ہولوکاسٹ کے لیے جرمنی کی 'ذمہ داری کا تقاضا ہے کہ ہم اسرائیل کی سلامتی اور وجود کو برقرار رکھنے میں مدد کریں۔' گویا فلسطینیوں کے عوام کو بمباری اور بھوک سے مرنے کا نازیوں کے ہاتھوں یورپی یہودیوں کے اجتماعی قتل سے کوئی تعلق تھا۔

ہسپتال پر بمباری نیتن یاہو حکومت کے ساتھ 'یکجہتی کے لیے کھڑے ہونے' کے لیے بائیڈن کی اسرائیل آمد سے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت پہلے ہوئی ہے۔ اسرائیل نے منگل کو قتل ہونے والے 500 فلسطینیوں کے خون میں رنگے ہوئے بائیڈن کے لیے سرخ قالین بچھا دیا ہے۔ جیسے ہی بائیڈن کا طیارہ نیچے پہنچے گا لاشیں ملبے سے نکالی جاتی رہیں گی۔

بائیڈن نیتن یاہو سے ہاتھ ملانے اور انہیں حملے پر مبارکباد دینے کے لیے اسرائیل کا سفر کرکے اپنے 'غصے' کا اظہار کر رہے ہیں، جو ممکنہ طور پر امریکہ کی طرف سے فراہم کردہ بم اور لڑاکا طیاروں سے کیا گیا تھا۔ اس کی انتظامیہ اس ظلم میں پوری طرح ملوث ہے۔

ہفتے کے آخر میں امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے اعلان کیا کہ ایسی کوئی 'سرخ لکیریں' نہیں ہیں جس سے آگے امریکہ اسرائیل کی حمایت نہیں کرے گا۔ محکمہ خارجہ نے اعلان کیا ہے کہ امریکی حکام کے لیے 'جنگ بندی' یا 'تعلق میں کمی' کا مطالبہ کرنا جائز نہیں ہے۔

انتہائی دائیں بازو کی نیتن یاہو حکومت نے غزہ کی آبادی کے خلاف نسل کشی اور نسلی تطہیر کی مہم شروع کر رکھی ہے۔ اس نے ملک کے شمال سے لاکھوں لوگوں کو بے گھر کر دیا ہے شہری انفراسٹرکچر پر منظم طریقے سے بمباری کی ہے اور پوری آبادی کے لیے خوراک پانی اور طبی دیکھ بھال منقطع کر دی ہے۔ اسرائیل کی حکومت کا مقصد غزہ کے لوگوں کو ان کی سرزمین سے بے گھر کرنا اور ان لوگوں کو بے وطن بے زمین پناہ گزینوں میں تبدیل کرنا ہے۔

اس منصوبے کا واضع اظہار ایک اسرائیلی اہلکار نے کیا تھا جس نے کہا تھا کہ غزہ کو 'خیموں کا شہر' بنا دیا جائے گا اور 'زمین پر گرا دیا جائے گا۔' اس پالیسی کو سامراجی طاقتوں کی مکمل حمایت حاصل ہے جنہوں نے اسرائیل کو مشرق وسطیٰ میں اپنی کلائنٹ ریاست فلسطینیوں کے قتل عام اور بے گھر کرنے کے لیے اختیار کل دیا ہے۔

[AP Photo]

گزشتہ ہفتے کے دوران اسرائیلی اور امریکی حکام نے جو زبان استعمال کی اس کا مقصد ایسی فضا پیدا کرنا تھا جس میں اس قسم کی دہشت گردی کو نافذ کیا جا سکے۔ نیتن یاہو اور وزیر دفاع یوو گیلنٹ دونوں نے فلسطینیوں کو 'جانور' کہا۔ منگل کو نیتن یاہو نے مزید آگے بڑھتے ہوئے فلسطینیوں کو 'اندھیرے کے بچے' قرار دیا۔ پچھلے ہفتے بائیڈن نے اس زبان کی بازگشت کرتے ہوئے فلسطینیوں کے اقدامات کو 'خالص برائی 'قرار دیا جو اپنے جیل کیمپ سے نکلے تھے۔

دیرینہ فلسطینی رہنما یاسر عرفات نے اکثر اس قول کو دہرایا تھا: کہ 'ہم ریڈ انڈین نہیں ہیں،' امریکہ کی مقامی امریکی آبادی کی منظم تباہی قتل عام اور بے گھر ہونے کا حوالہ دیتے ہوئے اس پر سامراجی طاقتیں اعلان کرتی ہیں ’’ہاں، تم ہو‘‘۔

فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی کی کھلم کھلا بات اس وقت سامنے آئی ہے جب امریکہ اس جنگ میں براہ راست ملوث ہے۔ منگل کو پینٹاگون نے مشرق وسطیٰ میں ممکنہ تعیناتی کے لیے 2000 فوجیوں کو چوکس رہنے کا حکم دیا۔ اس نے یہ بھی اعلان کیا کہ یو ایس ایس باتان امبیبیئس ریڈی گروپ بشمول 2,400 میرینز کو بھی دو امریکی طیارہ بردار بحری جہازوں کے ساتھ خطے میں تعینات کیا جائے گا۔ امریکی فوج نہ صرف فلسطینیوں کو نشانہ بنا رہی ہے بلکہ ایران کے ساتھ جنگ ​​کے حالات بھی پیدا کر رہی ہے۔

جو تصادم ہو رہا ہے اسے امریکہ کی طرف سے روس اور چین کو نشانہ بنانے والے عالمی عسکریت پسندی کے بھڑکنے کے تناظر میں ہی سمجھا جا سکتا ہے۔ یوکرین میں روس کے ساتھ امریکی جنگ اب ایک عالمی انتشار کی شکل اختیار کر رہی ہے اور مشرق وسطیٰ میں علاقائی جنگ کی شکل اختیار کر رہی ہے۔

واشنگٹن پوسٹ نے رپورٹ کیا کہ بائیڈن انتظامیہ نے یوکرین کو مسلح کرنے کے لیے 20 بلین ڈالر کے بل کو یوکرین مشرق وسطیٰ اور بحرالکاہل میں جنگوں کے لیے 100 بلین ڈالر کے بڑے پیکج میں تبدیل کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

یوکرین میں جنگ کے جواز کے لیے استعمال کیے جانے والے تمام جھوٹ اسرائیل کی فلسطینیوں کے خلاف نسل کشی سے پھٹ رہے ہیں۔ امریکی حکومت نے دعویٰ کیا ہے کہ وہ روسی جارحیت کے خلاف 'قومی خودمختاری' کی حمایت کر رہی ہے کہ روس 'جنگی جرائم'، یہاں تک کہ 'نسل کشی' بھی کر رہا ہے-اب تمام سامراجی طاقتیں کھل کر حمایت کر رہی ہیں جو حقیقت میں نسل کشی ہے۔ اگر یوکرین میں روسی کارروائیوں کے حوالے سے امریکی میڈیا کے تمام جھوٹے پروپیگنڈے کو مان بھی لیا جائے تو یہ اس کے مقابلے میں بہت کم ہے جو اسرائیل اب پوری دنیا کی آنکھوں کے سامنے کر رہا ہے۔

حقیقی وقت میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی مذمت کرنے کے لیے لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئے ہیں۔ تمام تر جھوٹ، پروپیگنڈے اور دھمکیوں کے باوجود عوام کے وسیع جذبات فلسطینیوں کے ساتھ ہیں۔ ان مظاہروں کو مزدوروں اور نوجوانوں کی وسیع تر پرتوں کو شامل کرنے کے لیے وسیع کیا جانا چاہیے۔ انہیں ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور بین الاقوامی سطح پر استحصال کے خلاف مزدوروں کی بڑھتی ہوئی ہڑتال کی لہر سے منسلک ہونا چاہیے۔

سموار کے روز فلسطینی ٹریڈ یونینوں کے ایک گروپ نے دنیا بھر کے مزدوروں سے ان کی ہڑتال کی حمایت کرنے کا مطالبہ کیا:

'جیسے جیسے اسرائیل نے اپنی فوجی مہم کو بڑھایا، فلسطینی ٹریڈ یونینز بین الاقوامی سطح پر ہمارے ہم منصبوں اور تمام ضمیر کے لوگوں سے مطالبہ کرتی ہیں کہ وہ اسرائیل کے جنگی جرائم کے ساتھ تمام قسم کی ملی بھگت کو ختم کریں، اسرائیل کے ساتھ ہتھیاروں کی تجارت کو فوری طور پر روک دیں نیز تمام فنڈنگ ​​اور فوجی تحقیق کے علاوہ ' اس نے مزید کہا کہ 'اس فوری نسل کشی کی صورت حال کو فلسطینی عوام کے ساتھ عالمی یکجہتی میں بڑے پیمانے پر اضافے سے ہی روکا جا سکتا ہے اور یہ اسرائیلی جنگی مشین کو روک سکتا ہے۔ ہمیں آپ سے ضرورت ہے کہ آپ دنیا میں کہیں بھی ہوں اسرائیلی ریاست کو مسلح کرنے سے روکنے کے لیے فوری کارروائی کریں۔

عالمی سوشلسٹ ویب سائٹ نے فلسطینی ٹریڈ یونینوں کی کال کی توثیق کی ہے۔ اس کے علاوہ ہم پوری دنیا کے مزدوروں سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ اسرائیل کو ان تمام وسائل سے محروم کرنے کے لیے ہڑتال کی کارروائی کریں جو اس کی جنگ میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ پوری دنیا میں ڈاک ورکرز، ہوائی اڈے اور ٹرانزٹ ورکرز کو اسرائیل کی طرف کسی بھی ہتھیار کو سنبھالنے سے انکار کر دینا چاہیے۔

مزدوروں کو غزہ پر اسرائیلی بمباری کو فوری طور پر روکنے اور تمام اسرائیلی فوجیوں کی نقل مکانی اور غزہ کی سرحد سے ان کے انخلاء کا مطالبہ کرنا چاہیے۔ غزہ کا محاصرہ ختم کیا جائے اور خوراک، پانی، بجلی، طبی امداد اور دیگر تمام ضروریات فوری طور پر دستیاب کی جائیں۔

بین الاقوامی فوجداری عدالت کو نیتن یاہو، شولز، بائیڈن اور امریکی نیٹو محور میں شامل تمام سرکردہ شخصیات کے خلاف کارروائی شروع کرنی چاہیے جو غزہ کے خلاف اسرائیلی نسل کشی کی حمایت کر رہے ہیں۔

پوری دنیا کے محنت کشوں اور نوجوانوں کی مداخلت سے ہی اس نسل کشی کو روکا جا سکتا ہے اور ذمہ داروں کا محاسبہ کیا جا سکتا ہے۔

Loading