اُردُو
Perspective

غزہ میں اسرائیل کی نسل کشی کے خلاف عالمی احتجاج کے موڑ کا رخ محنت کش طبقے کی طرف ہونا چاہیے۔

یہ 23 اکتوبر 2023 کو انگریزی میں شائع ہونے 'The global protests against Israel’s genocide in Gaza must turn to the working class' والے اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے۔

ہفتہ 21 اکتوبر 2023 کو واشنگٹن میں اسرائیل کی طرف سے فلسطینیوں کی نسل کشی کے خلاف ایک مظاہرے کے دوران لوگ یو ایس کیپیٹل کی طرف مارچ کر رہے ہیں۔ (اے پی فوٹو/اینڈریو ہارنک) [AP Photo]

غزہ میں فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی بڑھتی ہوئی نسل کشی نے دنیا کے ہر براعظم میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کو جنم دیا ہے جس میں لاکھوں افراد شامل ہیں۔

ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ ان مظاہروں کو اسرائیل میں نیتن یاہو حکومت کی طرف سے کیے جانے والے ہولناک جرائم کی زبردست مخالفت کے اظہار کے طور پر خوش آمدید کہتی ہے۔ سیاسی جمود کا ایک طویل دور جس کے دوران حکمران طبقات نے اپنی جنگی پالیسیوں اور سیاسی ردعمل کے ذریعے کامیابی سے آگے بڑھایا ختم ہو رہا ہے۔

برطانیہ میں 300,000 سے زیادہ افراد نے ہفتے کے روز لندن میں ایک ریلی میں شرکت کی جو 2003 میں عراق پر حملے کے بعد سب سے بڑا جنگ مخالف مظاہرہ تھا، اور لندن کی تاریخ کا سب سے بڑا مظاہرہ تھا۔ نیویارک، شکاگو، لاس اینجلس اور واشنگٹن ڈی سی میں دسیوں ہزار افراد نے مارچ کیا، اتوار کو پیرس میں پلیس ڈی لا ریپبلک میں 15,000 سے زائد افراد نے ریلی نکالی۔ جرمن شہروں کولون، فرینکفرٹ، ہینوور، کارلسروہے، مونسٹر اور سٹٹ گارٹ میں ہزاروں افراد نے مارچ کیا 7000 نے ڈسلڈورف میں احتجاج کیا۔ اسپین، آسٹریلیا، کینیڈا اور دیگر کئی ممالک میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہوئے۔

مظاہرے پورے مشرق وسطیٰ میں پھیل رہے ہیں۔ السیسی کی آمریت کے احکامات کی خلاف ورزی کرتے ہوئے ہفتے کے روز ہزاروں افراد مصر کے تحریر اسکوائر پر جمع ہوئے جو 2011 میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کا مرکز تھا۔ گزشتہ ایک ہفتے کے دوران لبنان، ترکی، عراق، اردن، یمن، مراکش، ملائیشیا اور انڈونیشیا میں مظاہرے ہوئے ہیں۔ پاکستان اور الجزائر میں دس لاکھ سے زائد اور رباط، مراکش میں لاکھوں افراد کے احتجاجی مظاہرے ہوئے۔

ان مظاہروں نے پوری دنیا میں مختلف قومیتوں کے لوگوں کو متحد کیا ہے۔ ریاستہائے متحدہ اور یورپ میں مظاہروں میں بڑی تعداد میں یہودیوں نے اسرائیلی حکومت کی نسل کشی کی مذمت کی ہے۔ پورے امریکہ، یورپ اور مشرق وسطیٰ میں نوجوان مظاہروں اور سکولوں کے واک آؤٹ میں حصہ لے رہے ہیں اور پوری نسل کو سیاست میں متحرک کیا جا رہا ہے۔

اس عالمی تحریک کے سامنے کارپوریٹ میڈیا یہ بہانہ کر رہا ہے کہ مظاہروں کا کوئی وجود نہیں ہے۔ نیویارک ٹائمز، واشنگٹن پوسٹ، اور گارڈین کے صفحہ اول نے مظاہروں کو نظر انداز کیا ہے اور رات کی خبروں پر ان کی اطلاع نہیں دی گئی ہے۔

ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک مضمون 'اسرائیل اور یوکرین میں جنگوں کے لیے امریکی حمایت کے بارے میں ووٹرز کیا سوچتے ہیں' میں اس بات کا ذکر تک نہیں کیا گیا کہ جنگ کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں۔ یہ ہی روایہ مقامی میڈیا کا ہے۔ شکاگو میں، جہاں ہفتے کے آخر میں دسیوں ہزار افراد نے مظاہرہ کیا نہ تو بڑے اخبارات، شکاگو سن ٹائمز اور شکاگو ٹریبیون نے کوئی مضمون شائع کیا۔

یہ بڑے پیمانے پر جنگ مخالف تحریک اسرائیل کی نسل کشی کے ایک بڑے اضافے کے دوران بڑھوتی پا رہی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ اور امریکی نیٹو محور کی حمایت کے ساتھ اسرائیل حملے کی تیاری میں اپنی بمباری مہم کو تیز کر رہا ہے۔ اس نے شمالی غزہ میں ہوائی جہاز گرائے ہیں جس میں اعلان کیا گیا ہے کہ جو بھی انخلاء نہیں کرے گا اس کے ساتھ دہشت گرد سمجھا جائے گا۔ یہ مطالبہ کر رہا ہے کہ شمال میں باقی تمام ہسپتالوں کو بند کر دیا جائے، جب اس نے گزشتہ ہفتے ایک ہسپتال پر بمباری کی جس میں تقریباً 500 افراد ہلاک ہوئے۔ یہ رہائشی عمارتوں پر ڈرون حملے شروع کر رہا ہے اور تباہی کی دستاویز کرنے والے صحافیوں کو نشانہ بنا رہا ہے۔

الجزیرہ کے مطابق 'گزشتہ 24 گھنٹوں کے دوران نہ رکنے والے اسرائیلی فضائی حملوں کے نتیجے میں غزہ میں کم از کم 400 افراد کی ہلاکت کی اطلاع ہے جسے فلسطینی میڈیا نے 7 اکتوبر کو حماس کے حملے کے بعد کی 'سب سے زیادہ بمباری' قرار دیا ہے۔' اسرائیل نے مغربی کنارے اور جنوبی غزہ کے شہر رفح میں جنین کے خلاف بھی حملے شروع کیے ہیں جہاں سے فلسطینی سرحد عبور کر کے مصر جانے کی کوشش میں بھاگے ہیں۔

اس کے ساتھ ساتھ امریکہ اور نیٹو طاقتیں پورے خطے میں وسیع تر تصادم کی تیاری کر رہی ہیں۔ امریکہ نے ایک درجن سے زیادہ جنگی بحری جہاز بشمول دو طیارہ بردار بحری جہازوں کو مشرق وسطیٰ کے لیے روانہ کیا ہے اور غیر متعینہ تعداد میں فوجیوں کو ممکنہ طور پر ہزاروں یا دسیوں ہزار میں ہائی الرٹ رکھا ہے۔ امریکی اہلکار علاقائی جنگ کے اندیشے میں پورے خطے میں سفارتخانے خالی کر رہے ہیں۔

اتوار کے روز سابق نائب صدر مائیک پینس نے غزہ میں امریکی زمینی دستوں کی تعیناتی کی وکالت کی جب کہ سینیٹر لنڈسے گراہم نے واضح طور پر جنگ میں 'تیسرے محاذ' کی دھمکی دی جس میں براہ راست ایران کو نشانہ بنایا گیا۔

غزہ کے لوگوں کے خلاف اسرائیل کی جنگ سامراجی تشدد کے عالمی بھڑکنے کا صرف ایک حصہ ہے۔ امریکی حکمران طبقہ مشرق وسطیٰ کے تنازع کو عالمی جنگ کے ایک محاذ کے طور پر دیکھتا ہے جس میں روس اور چین شامل ہیں۔ بائیڈن انتظامیہ نے 7 اکتوبر کو حماس کے اسرائیل پر حملے کو اپنی پیش قدمی کے لیے ایک بڑا جواز بنا لیا ہے تاکہ عالمی فوجی کشیدگی کو بڑھایا جا سکے۔ مشرق وسطیٰ میں جنگ کے لیے 14 بلین ڈالر کے علاوہ بائیڈن یوکرین میں جنگ کے لیے 60 بلین ڈالر کا مطالبہ کر رہے ہیں۔

بائیڈن انتظامیہ کا مقصد یوکرین کو اس کے موسم بہار کے حملے کی ناکامی کے ساتھ شکست کا سامنا کرنا پڑا۔ امریکہ نے فوجی ہارڈویئر کی فراہمی پر تمام پابندیاں ہٹا دی ہیں اور جنگی زون میں امریکی فوجیوں کی تعیناتی کے لیے پردے کے پیچھے منصوبے جاری ہیں۔ روس کے خلاف جنگ کو خود چین کے ساتھ تصادم کی تیاری کا حصہ سمجھا جاتا ہے۔

غزہ کی جنگ کے ردعمل میں جو مظاہرے شروع ہوئے ہیں ان کو پوری دنیا میں پھیلایا جانا چاہیے۔ لیکن بڑے پیمانے پر اپوزیشن کا ابھرنا سیاسی نقطہ نظر اور پروگرام کے بارے میں اہم سوالات اٹھاتا ہے۔

اس ماس موومنٹ کی بڑھوتی میں مرکزی چیلنج اسے محنت کش طبقے کی طرف لے جانا ہے۔ یہ مظاہرے دنیا کے ہر حصے اور ہر صنعت میں مزدوروں کی طرف سے عالمی ہڑتال کی تحریک کے دوران ہو رے ہیں۔

اس سال اسرائیلی نسل کشی کی حمایت کرنے والی تمام حکومتوں کو بڑے پیمانے پر مخالفت کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ فرانس میں لاکھوں مزدوروں نے صدر ایمانوئل میکرون کے پنشن پر حملے کے خلاف بڑے پیمانے پر ہڑتال کی تحریک میں حصہ لیا۔ برطانیہ میں دسیوں ہزار ریل اور پوسٹل ورکرز نے اپنی ملازمتوں اور اجرتوں کے لیے ایک تلخ جدوجہد کی۔

امریکہ میں دہائیوں کی سب سے بڑی ہڑتال کی تحریک، جس میں مصنفین، تعلیمی کارکنان، اور لاکھوں آٹو ورکرز شامل ہیں جاری ہیں جس پر بائیڈن انتظامیہ کے ساتھ مل کر کام کرنے والی ٹریڈ یونین اپریٹس کنٹرول کرنے کی شدت سے کوشش کر رہی ہے۔

حکمران طبقہ دو محاذوں پر جنگ لڑ رہا ہے: دنیا کی عالمی تقسیم اور محنت کش طبقے کے خلاف اندرونی جنگ کے طور پر اور جنگ کے لیے جو سیکڑوں بلین ڈالر مختص کیے جا رہے ہیں ان کی ادائیگی داخلی طور پر پر محنت کش طبقے پر حملے میں اضافے کے ذریعے کی جائے گی۔ مزید برآں یہ کہ جمہوری حقوق پر حملہ اسرائیل کے مظالم کی مخالفت کو مجرم قرار دینے کی کوشش حکمران اشرافیہ کی پالیسیوں کی مخالفت کے تمام مظاہر پر ہو گی۔

غزہ میں نسل کشی اور حکمران اشرافیہ کی وسیع جنگی پالیسی کو روکنے کے لیے محنت کش طبقے کو متحرک ہونا چاہیے۔ مزدوروں کو چاہیے کہ اسرائیل کو ان تمام وسائل سے محروم کرنے کے لیے صنعتی اقدام کریں جو اس کی جنگ میں استعمال کیے جاسکتے ہیں۔ پوری دنیا میں ڈاک ورکرز، ہوائی اڈے اور ٹرانزٹ ورکرز کو اسرائیل کی طرف کسی بھی ہتھیاروں کی ترسیل سے انکار کر دینا چاہیے۔

سامراجی تشدد کے یہ ظالمانہ اقدامات کے خلاف لڑائی جو غزہ کے خلاف نسل کشی کی مہم ایک حصہ ہے لازمی طور پر سرمایہ داری کے خلاف لڑائی ہے۔

بنی نوع انسان کو درپیش گہرے بحران کا حل محنت کش طبقے میں جڑی ایک طاقتور سوشلسٹ تحریک کی ترقی ہے۔ اس ہفتے کے آخر میں ہونے والے مظاہروں کو جنگ مخالف ماس موومنٹ کی بڑھوتی میں ایک اہم سنگ میل کی حیثیت رکھتی ہے جس کو گہرا کرنے وسعت دینا اور سب سے بڑھ کر سوشلسٹ نقطہ نظر کی بنیاد پر محنت کش طبقے کی طرف متوجہ ہونا چاہیے۔

Loading