اُردُو

پاکستان میں انتخابات فوج کے زیر کنٹرول سجائے ہوئے فریم ورک میں ہو رہے ہیں۔

یہ 7 فروری 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے 'Pakistan to go to polls in elections stage managed by military' اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

کئی مہینوں کی تاخیر اور غیر یقینی صورتحال کے بعد دنیا کے پانچویں سب سے زیادہ آبادی والے ملک پاکستان میں ووٹرز اس جمعرات 8 فروری کو قومی اور صوبائی اسمبلی کے انتخابات میں ووٹ ڈالنے والے ہیں۔

پاکستانی ریاست اپنی امریکی حمایت یافتہ فوج سے بڑھ کر تشدد، دھمکی اور کھلے عام بیلٹ بکس بھرنے کے ذریعے انتخابات میں ہیرا پھیری کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے۔ تاہم فوج نے اس سے پہلے کبھی انتخابی نتائج کو منظم کرنے کے لیے اس قدر رکاوٹ کے ساتھ مداخلت نہیں کی۔

فوج کے فوری اہداف وزیر اعظم عمران خان اور ان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کو ناکارہ کر کے الیکشن کی دوڑ سے باہر رکھنا ہے جن کے بارے میں یہ خیال کیا جاتا ہے کہ اگر انہیں کھڑا ہونے دیا گیا تو وہ انتخابات میں سرفہرست رہیں گے۔

عمران خان جو ایک دائیں بازو کے اسلامی پاپولسٹ ہیں ریاستی رازوں کو افشا اور سیاسی طور پر بنائے گے جھوٹے بدعنوانی کے الزامات کے تحت گزشتہ آٹھ ماہ سے جیل میں بند ہیں۔ انتخابات کے قریب آتے ہی ان گرد حلقہ تنگ کر دیا گیا گزشتہ ہفتے اسے مجرم قرار دیا گیا ہے اور اسے بالترتیب 14، 10 اور 7 سال قید کی سزا سنائی گئی ہے۔ یہ سزا انہیں سرکاری حیثیت میں دیے گئے تحائف سے غیر قانونی طور پر فائدہ اٹھانے، ریاستی راز افشا کرنے اور اس کی بیوی سے طلاق کے 40 دن گزر جانے سے پہلے شادی کرنے کے جرم میں دیے گے تھے۔ 

دریں اثناء پی ٹی آئی پر اپنے ہی بینر اور انتخابی نشان تلے الیکشن لڑنے پر پابندی عائد کر دی گئی ہے۔ اس کے وہ رہنما جو آزاد حیثیت سے الیکشن لڑ رہے ہیں پولیس کے چھاپوں، تشدد اور دھمکیوں کی دیگر اقسام کا نشانہ بنے ہیں۔

ایسے حالات میں جہاں پاکستان اقتصادی جغرافیائی اور سیاسی بحرانوں کے ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ملاپ سے تباہی کی طرف جا رہا ہے فوجی اور بورژوازی کے غالب دھڑوں نے فیصلہ کیا ہے کہ عوامی مرضی کا کوئی بھی اظہار نیز دائیں بازو کی مسخ شدہ محدود کردار جو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی ہی پیدوار ہے انہیں مزید اجازت نہیں دی جا سکتی.

حالیہ مہینوں میں خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں (نومبر میں مہنگائی 40 فیصد تک پہنچ گئی تھی) اور ملازمتوں میں کٹوتیوں کے ساتھ ساتھ فوج کی طرف سے 'گمشدگی' اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف عوامی جدوجہد کی لہر دیکھی گئی ہے۔

آئین پر عمل ہوتا تو نومبر کے اوائل میں انتخابات ہو چکے ہوتے۔ تاہم عبوری وزیر اعظم انوار الحق کاکڑ کی سربراہی میں نگراں انتظامیہ نے جو فوج کی طرف سے قابل اعتماد اور عوام کی حالت زار اور ان کے بنیادی حقوق کی توہین کے لیے بدنام تھے نے انہیں ملتوی کرنے کے لیے مختلف بہانے تلاش کیے۔ اضافی تین ماہ کا استعمال عمران خان اور ان کی پی ٹی آئی کے خلاف جبر کو تیز کرنے کے لیے کیا گیا ہے فوج کے ترجیحی وزیر اعظم کے امیدوار کے لیے سیاسی وکٹ کو بہتر طور پر تیار کیا گیا ہے اور ساتھ ہی انتہائی غیر مقبول آئی ایم ایف کے حکم نامے کے بیڑے کے نفاذ کے ساتھ آگے بڑھنے کے لیے اقدامات اٹھائے گے ان میں توانائی کی قیمتوں میں سبسڈی میں بڑے پیمانے پر کٹوتیاں، ٹیکس میں اضافہ اور تیز رفتار نجی کاری کے پروگرام شامل ہیں۔

پاکستان کے سابق وزیر اعظم نواز شریف تصویر کے (درمیان میں) جمعرات 18 جنوری 2024 کو حافظ آباد، پاکستان میں انتخابی مہم کے جلسے سے خطاب کر رہے ہیں۔ [اے پی فوٹو کے ایم چوہدری] [AP Photo/K.M. Chaudary]

پاکستانی فوج کے اعلیٰ افسران نے ہر لحاظ سے تین بار وزیر اعظم رہنے والے اور پاکستان مسلم لیگ نواز کے تاحیات قائد نواز شریف کی اقتدار میں واپسی کی راہ ہموار کرنے کی کوشش کی ہے۔ پاکستان کے امیر ترین خاندانوں میں سے ایک نواز شریف نے اپنے سیاسی کیرئیر کا آغاز جنرل ضیاء الحق کی سرپرستی میں کیا جو کہ امریکی حمایت یافتہ فوجی آمر اور رجعت پسند تھے جنہوں نے 1980 کی دہائی میں پاکستانی سیاست اور معاشرے کی 'اسلامائزیشن' کی قیادت کی۔

نواز شریف جنہوں نے آخری بار 2013-17 تک وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا جو ملک کی فوج، خارجہ اور قومی سلامتی کی پالیسیوں پر جوش و خروش سے اپنے کنٹرول حاصل کرنا چاہتا تھا آخرکار اسکا فوج سے تنازع ہو گیا۔ تاہم انہوں نے بظاہر پی ایم ایل (این) کے رہنما کے ساتھ اپنے اختلافات کو ختم کر دیا ہے اس توقع کے ساتھ کہ وہ ایک ایسی حکومت کی سربراہی کرے گی جن کا دعویٰ ہے کہ وہ پاکستان کی معیشت کو 'دوبارہ بحال' کرئے گی جو حقیقی اجرتوں میں کمی، عوامی اثاثوں کو فروخت کرنے، اور سرمائے پر تمام ریگولیٹری پابندیوں کو ہٹا کر سرمایہ کاری کو آگے بڑھے گی۔ 

اکتوبر میں نواز شریف برطانیہ سے واپس آئے جہاں وہ بدعنوانی کے جرم میں جیل سے بچنے کے لیے 2019 سے رہ رہے تھے۔ چند ہفتوں کے اندر، عدالتوں نے اس سزا کو کالعدم قرار دے دیا ان کے خلاف دیگر الزامات کو خارج کر دیا اور جنوری میں سپریم کورٹ نے بدعنوانی کے مرتکب سیاستدانوں پر عوامی عہدے کے لیے کھڑے ہونے پر تاحیات پابندی کو ختم کر دیا۔

نواز شریف فوج کی حمایت پر زور دیتے ہوئے 'معاشی ترقی' کے امیدوار کے طور پر مہم چلا رہے ہیں۔ انہوں نے بارہا عمران خان کی جانب سے فوج کے خلاف مبینہ طور پر اپوزیشن کو اکسانے کے لیے مذمت کی ہے اس مزمت میں اُس نے 9 مئی 2023 کے واقعات میں عمران خان کے 'تباہ کن' کردار کو بھی شامل کیا ہے یہ واقعہ اُس وقت رونما ہوا جب کمرہ عدالت میں پیشی کے دوران نیم فوجی دستوں نے عمران خان کو اپنے قبضے میں لیا جس سے پی ٹی آئی کے حامی مشتعل ہو گئے اور ملک میں سیکیورٹی فورسز کے ساتھ جھڑپیں ہوئیں.

نواز شریف نے اس ہفتے جیو نیوز کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا کہ 'عمران خان نے جو کچھ کیا اور جو کچھ ان کے ساتھ ہوا وہ خود اس کا اپنا کرتا دھرتا ہے۔' انہوں نے ملک کے 1998 کے جوہری بم تجربات کے حوالے سے بات جاری رکھتے ہوئے کہا کہ ’’ہم نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا۔ ہم نے 9 مئی کو اپنی ہی فوج پر حملہ نہیں کیا۔ ہم امن اور ترقی کے لیے ہیں۔'

پی ٹی آئی کے مؤثر طریقے سے انتخابات سے محروم ہونے کے بعد پی ایم ایل (این) کی اصل حریف پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) ہے جو سرمایہ داروں اور جاگیرداروں کی خاندانی جماعت ہے۔ اب اس کی قیادت بلاول بھٹو زرداری کر رہے ہیں جو دو بار کی مقتول وزیر اعظم بے نظیر بھٹو کے بیٹے اور ذوالفقار علی بھٹو کے پوتے ہیں جنہیں وزیر اعظم کے طور پر معزول کر دیا گیا تھا اور بعد ازاں جنرل ضیاء نے پھانسی کا حکم دیا تھا۔ پی پی پی نے کبھی خود کو ایک 'اسلامی سوشلسٹ' پارٹی کے طور پر فروغ دیا تھا لیکن جب بھی اس نے گزشتہ چار دہائیوں کے دوران اقتدار سنبھالا ہے اس نے آئی ایم ایف کی اسٹریٹی کو لاگو کیا ہے اور واشنگٹن کے ساتھ قریبی تعلقات کو آگے بڑھایا ہے۔

پی ایم ایل (این) اور پی پی پی نے نواز شریف کے بھائی شہباز شریف کی قیادت میں مخلوط حکومت میں اکٹھے ہوئے تھے جب عمران خان کی حکومت اپریل 2022 میں فوج کے ذریعہ ترتیب دیے گئے پارلیمانی عدم اعتماد کے ووٹ میں گرائی گئی اور اس عدم اعتماد کو واشنگٹن کی حمایت حاصل تھی۔ اپنے 15 مہینوں کے اقتدار کے دوران مخلوط حکومت نے 2022 کے سیلاب سے ہونے والی تباہی کے درمیان سفاکانہ سبسڈی اور بجٹ میں دیگر کٹوتیاں لگا کر آئی ایم ایف کی منظوری حاصل کی اور اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ خراب تعلقات کو ٹھیک کرنے میں کامیاب ہوئی۔ تاہم پاکستانی عوام میں اس کی حمایت میں واضع کمی آئی۔

آئی ایم ایف جس کے ساتھ پاکستان کی حکومت کو ملک کے بڑے غیر ملکی قرضوں کے پیش نظر تقریباً یقینی طور پر مزید قرضوں کے لیے بات چیت کرنی پڑے گی نے 'وسیع بنیاد ' حکومت بنانے کے لیے اپنی ترجیح کا اشارہ دیا ہے۔ اس طرح پاکستانی اور عالمی سرمائے کی جانب سے سفاکانہ اقدامات کے نفاذ کی مقبولیت کو سیاسی اشرافیہ کے درمیان بانٹ دیا جا سکتا ہے اور کسی بھی بڑی جماعت کو مخالف ظاہر کر کے سیاسی فائدہ حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی جا سکتی۔

تاہم ان کے درمیان تاریخی عداوت کو دیکھتے ہوئے یہ امکان نہیں سمجھا جاتا ہے کہ پی پی پی دوبارہ حکومت میں پی ایم ایل (این) کے جونیئر پارٹنر کے طور پر کام کرنے پر راضی ہوگی۔

پی ٹی آئی ایک دائیں بازو کی محنت کش طبقے کی مخالف جماعت ہے جو مختلف اسلامی بنیاد پرست گروہوں کے ساتھ اتحاد کرتی چلی آئی ہے۔ 2018 کے انتخابات میں عمران خان کو فوج کی طرف سے ملنے والی پس پردہ حمایت اور اقتدار دلانے تک فوج کے ساتھ رہا۔ اقتدار میں ایک بار آنے کے بعد انہوں نے پاکستان میں اب تک نافذ کیے گئے آئی ایم ایف کے آسٹریٹی اور تنظیم نو کے پروگراموں کو مسلط کرنے کے لیے 'اسلامی فلاحی ریاست' کے قیام کے بارے میں اپنی عوامی بیان بازی کو تیزی سے ترک کر دیا۔ اپنی پارٹی، فوج اور روایتی سیاسی اسٹیبلشمنٹ کے درمیان حقیقی تعلقات کو مزید گہرا کرنے کے لیے اُس نے اپنی کابینہ میں ایسے وزراء اور عہدیداروں کو شامل کیا جنہوں نے جارج ڈبلیو بش کے 'دہشت گردی کے خلاف جنگ' کے اتحادی آمر جنرل پرویز مشرف کے ماتحت خدمات انجام دیں۔

اگر فوج نے بالآخر عمران خان پر ہلہ بول دیا اور ان کی برطرفی کے لیے حزب مخالف کو اشارہ دیا تو اس کی وجہ یہ تھی کہ اس نے فروری 2022 میں ان کے ماسکو کے دورے کو دیکھا اور روس کے ساتھ امریکہ-نیٹو کی طرف سے اکسائی گئی جنگ میں پاکستان کی 'غیرجانبداری' کے فوری اعلان نے اسلام آباد کے واشنگٹن کے ساتھ پہلے سے خراب تعلقات کو غیر ضروری طور پر خطرے میں ڈال دیا۔ اس کے علاوہ عمران خان نے آئی ایم ایف کے اصرار پر 2023 کے آغاز میں جو توانائی کی سبسڈی میں بڑے پیمانے پر کٹوتیوں کا اعلان کیا تھا پھر ایک عوامی شور و غل کے پیش نظر ان کو پلٹ دیا جس سے حکمران طبقے کے اعتماد کو بھی بری طرح سے نقصان پہنچا۔

اپنی برطرفی کے بعد سے عمران خان عوامی حمایت کا ایک پیمانہ جو خاص طور پر شہری متوسط ​​طبقے کے حصوں میں پی ٹی آئی کی روایتی بنیاد کے درمیان برقرار رکھنے اور یہاں تک کہ دوبارہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ آبادی کے ایک بڑے حصے کی طرح یہ پرتیں چھوٹے دکانداروں سے لے کر حالیہ یونیورسٹیوں کے فارغ التحصیل افراد تک اس وجہ سے انکی طرف دیکھتی رہی جو گزشتہ دو سالوں کے بڑھتے ہوئے معاشی بحران جس میں قیمتوں میں اضافہ روپیہ کی گرتی ہوئی قدر اور بڑے پیمانے پر بے روزگاری اور روزگار کا کم ہونا شامل ہیں جن سے انکی زندگیاں متاثر ہوئی ہیں۔

کئی سالوں کے دوران وہ سیاسی طور پر ناکام رہے اور انتخابات میں بڑی اکثریت سے ہارتے رہے عمران خان نے اپنے کو ایک 'بیرونی' کے طور پر پیش کر نے کی کوشیش کی یعنی کہ وہ اسٹبلشمنٹ سے علیدہ اور بے طرف ہے اور اپنی حکومت کے گرانے والی سازشوں کو بھی اسی نقط نظر سے چلانے کی کوشش جاری رکھی۔ بلاشبہ اس نے اس قانونی انتقام پر عوامی غم و غصہ کا بھی فائدہ اٹھایا اور عوامی ہمدردی سے بھی فائدہ اٹھایا ہے جس کا نشانہ خود ان پر اور پی ٹی آئی پر دہشت گردی کے الزامات لگنے سے ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ جمہوری حقوق کو پامال کرنے والی فوج کے خلاف عوامی جذبات میں اضافے سے بھی ہوا ہے کیونکہ فوج قومی بجٹ کا بڑا حصہ بھارت کے ساتھ پاکستان کی رجعتی فوجی -اسٹریٹیجک دشمنی پر ضائع کر دیتی ہے اور جس نے اپنے زیر کنٹرول کمپنیوں کے ذریعے وسیع دولت اور طاقت اکٹھی کر رکھی ہے۔

 ایک ڈھیلی ڈاھلی توپ کے طور پر طعن زدہ عمران خان نے بعض اوقات فوج اور امریکی غنڈہ گردی پر کڑی تنقید کی ہے۔ اس کے باوجود وہ بار بار اس طرح کے ریمارکس سے پیچھے ہٹ جاتے رہے ہیں اور فوج اور امریکہ کے ساتھ ملکر کام کرنے کے لیے تیار ہونے کی پیش کش کرتے ہیں اور اس نے ساتھ ہی پاکستان-امریکہ کے اسٹریٹجک اتحاد کے لیے اپنی حمایت کو واضح بھی کیا ہے۔ 1950 کی دہائی کے اوائل میں اس اتحاد کا محور پینٹاگون اور راولپنڈی میں پاکستانی فوج کے ہیڈ کوارٹر کے درمیان ہمیشہ شراکت داری رہی ہے۔

پاکستان کی اگلی حکومت کی سیاسی ساخت کچھ بھی ہو یہ محنت کش طبقے اور دیہی عوام کے ساتھ تلخ تنازعہ میں آجائے گی، یہاں تک کہ جب وہ ایک پیچیدہ جغرافیائی سیاسی بحران پر بات چیت کرنے کی کوشش کرتی ہے، جس کی جڑیں امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتے ہوئے ہمہ جہتی اسٹریٹجک تنازعہ سے جڑی ہوئی ہیں جو دو اسکے اہم ترین اسٹریٹجک اتحادی ہیں۔

اگرچہ سرکاری طور پر اس کی تردید کی گئی ہے لیکن یہ بڑے پیمانے پر رپورٹ کیا گیا ہے کہ پاکستانی فوج واشنگٹن کے حکم پر یوکرین کو بیک چینلز کے ذریعے ہتھیار فراہم کر رہی ہے۔

واشنگٹن پاکستان کے مغربی پڑوسی ایران کے خلاف تیزی سے جنگ شروع کرنے کے دہانے کے قریب آ چکا ہے جس کے ساتھ ہی اسلام آباد ایک اسٹریٹجک المیہ سے دوچار ہو چکا ہے۔ امریکہ اور دیگر پاکستانی اتحادی خاص طور پر خلیجی ریاستیں جو شروع سے ہی اس طرح کے تنازعے میں دھنسنے کا خطرہ مول لے رہی ہیں وہ حمایت کے لیے اسلام آباد کی طرف دیکھیں گے۔ دوسری جانب بیجنگ بالآخر ممکنہ طور پر فوجی ذرائع کے ذریعے امریکی سامراج کو توانائی سے مالا مال مشرق وسطیٰ کو اپنے مفادات کے خلاف دوبارہ ترتیب دینے سے روکنے کی کوشش کرے گا جو دراصل چین کے ساتھ امریکہ کی جنگ کی تیاری کا ایک حصہ ہے۔

پاکستان پہلے ہی حملوں اور جوابی حملوں کی لپیٹ میں آ چکا ہے۔ گزشتہ ماہ اسلام آباد نے اپنی سرزمین سے ایران کے خلاف کام کرنے والے بلوچی علیحدگی پسندوں پر ایرانی حملے کا بدلہ مشرقی ایران میں اہداف پر حملہ کیا جو مبینہ طور پر پاکستان کے صوبہ بلوچستان کی علیحدگی کے لیے لڑنے والے گروہوں سے وابستہ تھے۔

دسمبر میں پاکستان کے چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر نے واشنگٹن کے ایک ہفتے کے دورے کے دوران بائیڈن انتظامیہ اور پینٹاگون کے اعلیٰ عہدے داروں بشمول سیکریٹری آف اسٹیٹ انٹونی بلنکن سے ملاقات کی جس کے بارے میں عملی طور پر عوامی سطح پر کچھ نہیں کہا گیا۔

Loading