اُردُو
Perspective

نیٹو کے 75 سال: سرد جنگ سے گرم جنگ تک

یہ 5 اپریل 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے والے '75 years of NATO: From Cold War to hot war' اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔ 

4 اپریل کو نیٹو فوجی اتحاد نے اپنی 75 ویں سالگرہ منائی۔ نیٹو کی بنیاد 1949 میں دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے چار سال سے بھی کم عرصے کے بعد جو سرد جنگ کے ابتدائی سالوں میں سوویت یونین کے خلاف ایک اتحاد کے طور پر رکھی گئی تھی۔ آج یہ بنی نوع انسان کو تیسری عالمی جنگ میں جھونک رہا ہے۔

جمعرات 4 اپریل 2024 کو برسلز میں نیٹو ہیڈ کوارٹر میں نیٹو-یوکرین کونسل کے گول میز اجلاس کا ایک عمومی منظر۔ [AP Photo/Geert Vanden Wijngaert]

برسلز میں نیٹو کے وزرائے خارجہ نے ایک میٹنگ کے ذریعے سالگرہ منائی جو یوکرین میں روس کے خلاف جنگ کے ایک بڑے نئے اضافے کے ساتھ اسکے لیے وقف تھی۔ فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کی جانب سے روسی افواج سے لڑنے کے لیے یوکرین میں زمینی فوج بھیجنے کی تجویز کے چند ہی ہفتوں بعد ہی نیٹو یوکرین کے دفاعی رابطہ گروپ کو سنبھالنے کی تیاری کر رہا ہے جو یوکرین کو امداد فراہم کرتا ہے۔ روس کے خلاف یوکرین کی جنگ نیٹو کی کمانڈ میں آپریشن کے طور پر ابھر رہی ہے۔

امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے کہا کہ یوکرین کے لیے نیٹو کی حمایت ایک 'ٹھوس چٹان' کی ماند ہے اور اس عزم کا اظہار بھی کیا کہ 'یوکرین نیٹو کا رکن بنے گا۔' جرمنی، فرانس اور پولینڈ کے وزرائے خارجہ — اینالینا بیرباک، سٹیفن سیجورن، رادوسلو سیکورس نے پولیٹیکو جریدے میں کہا کہ نیٹو کی طاقتوں نے یوکرین کو 200 بلین یورو سے زیادہ کی رقم دی ہے۔ انہوں نے عہد کیا: 'ہماری حمایت اس وقت تک جاری رہے گی جب تک اس میں اور جتنی شدت سے ضرورت ہو گی۔'

نیٹو طاقتیں اس وقت اسرائیل کی طرف سے غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کر رہی ہیں جس میں 40,000 سے زیادہ لوگ مارے جا چکے ہیں۔ اسے پھیلتی ہوئی عالمی جنگ کے حصے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔

نیٹو کے سیکرٹری جنرل جینز سٹولٹن برگ نے اپنی سالگرہ کے موقع پر کہا کہ 'ہم جانتے ہیں کہ ہماری سلامتی علاقائی نہیں ہے بلکہ یہ عالمی ہے۔' یوکرین میں جنگ اس کی واضح عکاسی کرتی ہے۔ ایشیا میں روس کے دوست چین جارحیت کی جنگ جاری رکھے ہوئے ہیں۔ چین روس کی جنگی معیشت کو سہارا دے رہا ہے۔ بدلے میں ماسکو اپنا مستقبل بیجنگ کے پاس گروی رکھ رہا ہے۔ شمالی کوریا اور ایران ہتھیاروں اور گولہ بارود کی خاطر خواہ سپلائی کر رہے ہیں۔ بدلے میں، پیانگ یانگ اور تہران کو روسی ٹیکنالوجی اور سامان مل رہا ہے جو انہیں اپنی میزائل اور جوہری صلاحیتوں کو آگے بڑھانے میں مدد کرتا ہے۔

یہ دعویٰ کہ نیٹو یورپ کے 'دفاع' اور 'سیکیورٹی' کی خدمات انجام دیتا ہے، اس دعوے کی بنیاد شروع ہی سے ایک پروپیگنڈا اور جھوٹ ہے۔ جیسا کہ ٹراٹسکی تحریک نے ہمیشہ سے اصرار کیا ہے کہ نیٹو شروع سے ہی عظیم سامراجی طاقتوں کا جنگی اتحاد تھا۔

جب نیٹو کی بنیاد 75 سال پہلے رکھی گئی تھی تو فورتھ انٹرنیشنل کے میگزین جو اس وقت جیمز پی کینن کے تحت امریکن سوشلسٹ ورکرز پارٹی شائع کر رہی تھی نے اعلان کیا کہ: 'شمالی بحر اوقیانوس کا معاہدہ صرف ایک اور فوجی اتحاد نہیں ہے بلکہ اس واقعہ کی بہت زیادہ اہمیت ہے جو 'سرد جنگ' پر اس کے اثرات سے کہیں زیادہ ہے جس کے لیے اسے فوری طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے۔

یورپ کی پرانی سامراجی طاقتوں کا بحران — جن کی ''مشرق کے باغی لوگوں کو ''پرامن'' کرنے کی کوششیں تاریخ کی سب سے مہنگی اور زبردست ناکامیوں میں سے ایک ثابت ہو رہی ہیں۔ جن کے لیے 'صرف اپنے داخلی وسائل سے اپنے ملکوں میں 'استحکام' حاصل کرنا بالکل ناممکن ہو گیا ہے'۔ اور جو 'بیرونی مدد کے بغیر انفرادی طور پر یا اجتماعی طور پر سوویت یونین کی طاقت کا مقابلہ کرنے کے لیے تسلیم شدہ طور پر بے اختیار ہیں' اس لیے انہوں نے 'امریکی سامراج کو عالمی سرمایہ داری کا نگراں بننے پر مجبور کیا تھا۔'

'لیکن یہ صرف اس صورت عالمی سطح پر اس کردار کو مؤثر طریقے سے پورا کر سکتا ہے' فورتھ انٹرنیشنل کے اداریے نے خبردار کرتے ہوئے لکھا ہے۔ 'اسی وجہ سے ہم نے بار بار پیش گوئی کی ہے کہ عالمی تسلط کا راستہ عالمی جنگ کا راستہ ہو گا۔'

یہ سطریں آج ایک بار پھر انتہائی اہم ہیں۔ اپنی بنیاد کے 75 سال بعد نیٹو پہلے سے کہیں زیادہ تیسری عالمی جنگ شروع کرنے کے قریب جا پہنچا ہے۔

1949 میں نیٹو کی بنیاد کے قائم کے ساتھ ہی جیسا کہ جرمنی کی تقسیم پر مہر لگ گئی اور چین میں انقلاب کی فتح ہوئی نیٹو نے ایک متشدد رد انقلابی پالیسی اپنائی۔ امریکہ، فرانس اور دیگر نیٹو سامراجی طاقتوں نے انڈوچائنا، کوریا، الجزائر اور اس سے آگے سفاکانہ نوآبادیاتی جنگیں چھیڑ دیں۔ نیٹو نے یونان اور ترکی میں بغاوت کی پشت پناہی کی اور سوویت یونین کے اثر و رسوخ کو روکنے کے لیے افریقہ اور لاطینی امریکہ میں بائیں بازو کی قوم پرست حکومتوں کے خلاف کارروائی کی۔

تاہم امریکی حکمران اشرافیہ میں اس بات پر تنازعہ چھڑ گیا کہ آیا سوویت یونین سے 'کنٹینمنٹ' کے ذریعے لڑنا ہے یا فوجی 'رول بیک' کے ذریعے جس سے جوہری جنگ کا خطرہ ہو گا۔ سرد جنگ کے ابتدائی دور میں 'کنٹینمنٹ' کے حق کے حامی سیکشن کو برتری حاصل رہی۔ تاہم امریکی سامراج نے اکتوبر انقلاب کی کامیابیوں کو پلٹنے اور سوویت یونین کو تباہ کرنے کے اپنے طویل مدتی ہدف کو کبھی ترک نہیں کیا۔

تاہم 1991 میں سرد جنگ کا خاتمہ ہوا جب سٹالنسٹ بیوروکریسی نے اپنی تاریخی غداری میں آخری قدم اٹھایا اور اکتوبر انقلاب سے پیدا ہونے والے ملکیتی رشتوں کو ختم کر دیا اور سرمایہ داری کو بحال کیا اور وارسا معاہدہ اور سوویت یونین کو تحلیل کر دیا۔

نیٹو جس نے ہمیشہ اپنے وجود کو مبینہ طور پر سوویت یونین سے لاحق خطرے کی وجہ سے جواز کے طور پر پیش کیا خود کو تحلیل نہیں کیا۔ جیسا کہ فورتھ انٹرنیشنل نے 1949 میں لکھا تھا نیٹو کا قیام 'سرد جنگ' پر اس کے اثرات سے کہیں زیادہ ہے جس کے لیے اسے فوری طور پر ڈیزائن کیا گیا ہے'، اور یہ کہ 'دنیا کے تسلط کا راستہ' 'عالمی جنگ کا راستہ' تھا۔ '

امریکی سامراج نے سوویت یونین کی تحلیل کو اپنے عالمی تسلط کو دوبارہ قائم کرنے اور کوریا، ویت نام اور دیگر جگہوں پر ہونے والی شکستوں کو پلٹنے کا موقع سمجھا۔ وہ اس حقیقت سے مطمئن نہیں ہوئے کہ گورباچوف، یلسن اور بعد میں پیوٹن نے سوویت یونین کو استحصال کے لیے بین الاقوامی سرمائے کے لیے کھول دیا تھا بلکہ اس کے برعکس وہ روس کی نوآبادیاتی محکومی چاہتے تھے۔

امریکہ کے یورپی اتحادیوں نے اپنے سامراجی مفادات کی پیروی کرتے ہوئے اس عمل کی شرکت داری کی۔ نیٹو وہ آلہ ہے جس کے ساتھ وہ اس مقصد کو حاصل کرتے ہیں۔ سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سے نیٹو یا اس کے ارکان بغیر کسی رکاوٹ کے عملی طور پر جنگ لڑ رہے ہیں۔

امریکہ نے پہلی بار 1990 میں عراق پر حملہ کیا۔ 1999 میں نیٹو نے بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اقوام متحدہ کے مینڈیٹ کے بغیر سربیا پر بمباری کی اور کوسوو کی علیحدگی پر مجبور کیا۔ 2001 میں نیٹو نے پہلی اور واحد بار باہمی دفاعی شق کو استعمال کیا ی اور افغانستان پر قبضہ کر کے 20 سال تک جاری رہنے والی جنگ کا آغاز کیا اور اس کا خاتمہ ملک کی تباہی اور طالبان کی واپسی پر ہوا۔ اگرچہ بعد میں عراق، لیبیا اور شام کے خلاف جنگیں نیٹو کے سرکاری ڈھانچے سے باہر ہوئیں لیکن ان کی حمایت نیٹو کے بیشتر رکن ممالک نے کی۔

مشرق وسطیٰ کی جنگوں کے ساتھ ساتھ نیٹو نے منظم طریقے سے روس کی طرف پیش قدمی کی اور پورے مشرقی یورپ اور بالٹک ریاستوں کے ساتھ سابق سوویت یونین کے حصے شامل کر لیے۔

دنیا کے سب سے طاقتور فوجی اتحاد کی تعداد 12 سے بڑھ کر 32 ہو گئی۔ پچھلے سال، اس نے دفاع پر 1.3 ٹریلین ڈالر خرچ کیے یا عالمی فوجی اخراجات کا 60 فیصد تھا۔ صرف امریکہ کا فوجی بجٹ 905 بلین ڈالر تھا جو کہ اگلے 15 ممالک کے مشترکہ بجٹ سے زیادہ ہے۔ اس کے برعکس چین نے صرف 220 بلین ڈالر اور روس نے 109 بلین ڈالر دفاع پر خرچ کیے ہیں۔

نیٹو نے 2014 سے روس کے ساتھ جنگ ​​کے لیے منظم طریقے سے تیاری کر رکھی ہے جب امریکہ اور جرمنی نے کیف میں مغرب نواز کٹھ پتلی حکومت کے قیام کے لیے بغاوت کی حمایت کی۔ نیٹو نے لاتعداد یوکرین کو مسلح کیا بالآخر اس تمام جارحانہ مداخلت نے 2022 میں پیوٹن حکومت کے مایوس رجعتی حملے کو اکسایا۔ پھر نیٹو نے روس کے خلاف جنگ چھیڑ دی جس میں یوکرینی باشندوں کو اپنے سامراجی مفادات کے لیے چارے کے طور پر استعمال کیا گیا جس سے لاکھوں یوکرین کی جانیں ضائع ہو گئیں جس سے ایٹمی تنازعے میں اضافے کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ 

اس پاگل پن کی جڑیں بین الاقوامی سرمایہ دارانہ نظام کے ناقابل حل تضادات میں پیوست ہیں۔ ذرائع پیداوار کی نجی ملکیت اور اس پر مبنی بورژوا قومی ریاست کو جدید پیداوار کے عالمی کردار سے ہم آہنگ نہیں کیا جا سکتا جو اربوں محنت کشوں کو ایک سماجی عمل میں متحد کرتا ہے۔ سامراج کے پاس اس کا واحد جواب دنیا کی پرتشدد از سر نو تقسیم ہے۔

اس جنگ کو چھیڑنے کے لیے نیٹو کی سامراجی طاقتوں کو داخلی طور پر فاشسٹ پولیس سٹیٹ حکومتیں بنانا ہوں گی تاکہ محنت کش طبقے میں بڑھتی ہوئی مخالفت کو دبایا جا سکے جس میں عسکریت پسندی کے بڑے اخراجات اور جنگ کے نتائج کو مزدوروں پر ڈالا جائے۔ ٹرمپ، میلونی، انتہائی دائیں بازو کے متبادل متبادل برائے جرمنی (اے ایف ڈی) اور دیگر نیو فاشسٹوں کا عروج تمام بورژوا جماعتوں کی دائیں طرف بڑھوتی کا صرف تیز ترین اظہار ہے۔

لیکن سرمایہ دارانہ نظام کا بحران وہاں سوشلسٹ انقلاب کے حالات کو بھی پیدا کرتا ہے۔ چوتھے بین الاقوامی میگزین کا اپریل 1949 کا اداریہ ان الفاظ کے ساتھ ختم ہوا: ' جرنل سٹاف نے احتیاط سے تمام ہنگامی حالات اور واقعات کا حساب لگایا ہے - سوائے ایک کے۔ دنیا کے لوگوں کے اتحاد کا جو سب سے بڑھ کر امن چاہتے ہیں۔ کریملن کی چالیں نہیں بلکہ شنگھائی اور انڈونیشیا، میلان، روہر اور ڈیٹرائٹ میں طبقاتی جدوجہد ہے جو موت رد عمل اور آمریت کے اس ناپاک معاہدے کی مہلک کمزوری کو ثابت کرے گی۔

یہ الفاظ آج بھی اتنے ہی متعلقہ ہیں جتنے اس وقت تھے۔ صرف محنت کش طبقے کی ایک بین الاقوامی ماس تحریک جنگ کے خلاف جدوجہد کو سرمایہ دارانہ استحصال کے خلاف جدوجہد سے جوڑ کر عالمی جنگ اور ایٹمی تباہی کا راستہ روک سکتی ہے۔

Loading