اُردُو

یوکرین جنگ میں روس کی مدد پر واشنگٹن نے چین کو دھمکی دی ہے۔

یہ 10 اپریل 2024 میں انگریزی میں شائع ہونے والے 'Washington threatens China over aid to Russia in Ukraine war' اس آرٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

جیسا کہ یوکرین میں روس کے ساتھ جنگ ​​میں واشنگٹن کو شکست کا سامنا کرنا پڑا ہے امریکی حکام چین کو دھمکی دے رہے ہیں کہ اگر روس نے نیٹو کی حمایت یافتہ یوکرائنی حکومت کو شکست دی تو اس کے سنگین نتائج برآمد ہوں گے۔

دسمبر 2023 میں کیپٹل ہل واشنگٹن میں نائب وزیر خارجہ کرٹ کیمبل [اے پی فوٹو/مریم زوہیب] [AP Photo/Mariam Zuhaib]

امریکہ چین تعلقات کی قومی کمیٹی میں کل خطاب کرتے ہوئے امریکی نائب وزیر خارجہ کرٹ کیمبل نے چین اور شمالی کوریا کی روس کے ساتھ تجارت کو روسی فتوحات کا ذمہ دار ٹھہرایا۔ کیمبل نے کہا کہ یورپ میں تزویراتی استحکام تاریخی طور پر 'ہمارا سب سے اہم مشن ہے“۔ کیمبل نے خبردار کیا کہ یوکرین میں روسی علاقائی پیش رفت سے 'یورپ میں طاقت کے توازن کو بدل سکتے ہیں جو واضح طور پر ہمارے لیے ناقابل قبول ہیں۔'

“ہم نے چین کو براہ راست کہہ دیا ہے کہ اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو اس کا اثر امریکہ اور چین کے تعلقات پر پڑے گا۔ ہم ساتھ نہیں بیٹھیں گے اور نہ کہیں گے کہ سب کچھ ٹھیک ہے،‘‘ کیمبل نے جاری رکھتے ہوئے کہا 'ہم اسے صرف روسی سرگرمیوں کے ایک منفرد نمونے کے طور پر نہیں دیکھیں گے بلکہ چین اور شمالی کوریا کی حمایت یافتہ سرگرمیوں کے ایک مشترکہ نمونے کی حیثیت کے طور پر دیکھیں گے۔ یہ ہمارے مفادات کے خلاف ہے۔'

کیمبل نے کہا کہ یوکرین پر 2022 کے حملے کے بعد روسی فوج کی ابتدائی ناکامیوں سے چینی حکام گھبرا گئے تھے اور روس میں 'مکمل قسم کی صلاحیتوں' کو دوبارہ استوار کیا گیا 'ابتدائی طور پر یہ ایک دفاعی کوشش تھی۔ کیمبل نے کہا کہ وہ روس میں حکومت کی تبدیلی نہیں دیکھنا چاہتے تھے۔ تاہم اس نے دعویٰ کیا، 'روس تقریباً مکمل طور پر واپس آ چکا ہے، اور وہ اب یوکرین کے لیے اور آس پاس کے علاقوں کے لیے ایک اہم خطرہ ہیں۔'

چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے فوری طور پر کیمبل کے ریمارکس کو مسترد کر دیا۔ 'چین اور روس کو عام اقتصادی اور تجارتی تعاون میں شامل ہونے کا حق ہے ' ماؤ نے مزید کہا کہ'اس قسم کے تعاون کو محدود یا اس میں مداخلت نہیں ہونی چاہیے اور چین اس تنقید یا دباؤ کو قبول نہیں کرتا ہے۔'

اس سے ایک روز قبل روسی وزیر خارجہ سرگئی لاوروف اپنے چینی ہم منصب وانگ یی اور چینی صدر شی جن پنگ کے ساتھ دوستانہ بات چیت کے لیے بیجنگ گئے تھے۔ وہاں وانگ نے عہد کیا کی'بیجنگ اور ماسکو عالمی سطح پر تزویراتی تعاون کو مضبوط بناتے رہیں گے اور ایک دوسرے کو مضبوط تعاون فراہم کریں گے۔'

لاوروف نے اپنی طرف سے روس کے صدر ولادیمیر پیوٹن کے حالیہ دوبارہ منتخب ہونے کی تعریف کرنے پر بیجنگ کا شکریہ ادا کیا۔ لاوروف نے کہا کہ 'انتخابی نتائج نے روسی عوام کے ہمارے رہنما اور جاری ملکی اور خارجہ پالیسیوں پر گہرے اعتماد کی تصدیق کی ہے۔' 'یہ خاص کر پی آر سی [عوامی جمہوریہ چین] کے ساتھ اسٹریٹجک تعامل اور شراکت داری کو مضبوط کرنے کے کورس پر بھی اسکا اطلاق ہوتا ہے۔'

چین کے خلاف امریکی دھمکیاں اس بات کی نشاندہی کرتی ہیں کہ یوکرین میں روس کے ساتھ جنگ ​​عالمی تسلط کی جنگ کا ایک حصہ ہے جسے نیٹو سامراجی طاقتیں تیزی سے پھیلا رہی ہیں اور جو کنٹرول سے باہر ہوتی جا رہی ہیں۔ پہلے ہی امریکی حکام نے شمالی کوریا سے آرٹلری گولوں کی روسی درآمدات اور چین سے کھدائی کی مشینری، سیمی کنڈکٹرز اور بال بیرنگ کی درآمدات پر مذمت کی ہے۔ ان دھمکیوں کے غیر موثر ہونے کے ساتھ ہی جیسا کہ یوکرینی فوجوں کو مسلسل شکست کا سامنا ہے اور ماسکو اور بیجنگ قریبی تعاون کا وعدہ بڑھا رہے ہیں- تو امریکی حکام کو کشیدگی میں اضافے کے خطرے کے علاوہ کوئی دوسرا جواب نظر نہیں آتا۔

یوکرین کی جنگ ایشیا میں فوجی کشیدگی کو بڑھا رہی ہے۔ پچھلے ہفتے کیمبل نے جاپان کو آسٹریلیا-برطانیہ-یو ایس اوکس (AUKUS) اتحاد میں شامل کرنے کا مطالبہ پیش کیا کیونکہ یہ تائیوان پر چین کے ساتھ جنگ ​​جیتنے کی بنیاد ثابت ہو سکتا ہے۔ چین کے گلوبل ٹائمز اخبار نے رپورٹ کیا کہ آج اعلیٰ چینی قانون ساز ژاؤ لیجی شمالی کوریا کا تین روزہ دورہ شروع کر رہے ہیں جو 'بین الاقوامی صورتحال کی گہری تبدیلیوں' پر 'گہری اور قریبی تزویراتی بات چیت' کے لیے ہے۔

ان فوجی تناؤ کے محور میں چین کے خلاف اقتصادی جنگ کی امریکی دھمکیاں شامل ہیں اور امریکی ڈالر کے غالب عالمی کردار کو استعمال کرتے ہوئے چین کا گلا گھونٹنے کے لیے ایسی پابندیاں لگائی جا رہی ہیں جس طرح واشنگٹن نے 2015 کے ایرانی جوہری معاہدے کو ختم کرنے کے بعد ایران کو امریکی ڈالر کے لین دین سے باہر کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔ چین کو الگ تھلگ کرنے کے تباہ کن عالمی اثرات مرتب ہونگے جسکی 17.5 ٹریلین ڈالر کی معیشت ہے جو دنیا کی بیشتر بڑی معیشتوں کے لیے سب سے بڑا یا دوسرا سب سے بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ چین پر یہ اقتصادی پابندیاں ایران پر لگائی گی امریکی پابندیوں کے مقابلے میں اسکے اثرات کہیں زیادہ اور مہلک ثابت ہونگے۔

8 اپریل کو بیجنگ میں ایک پریس کانفرنس میں امریکی وزیر خزانہ جینٹ ییلن نے دو ٹوک انداز میں چین کو دھمکی دی۔ اس نے کہا کہ'صدر بائیڈن اور میں اس بات کے لیے پرعزم ہیں کہ ہم اس مواد کے بہاؤ کو روکنے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے جو روس کے دفاعی صنعتی اڈے کی حمایت کر رہا ہے اور یوکرین کے خلاف جنگ چھیڑنے میں اس کی مدد کر رہا ہے۔ ہم اس کردار کے بارے میں فکر مند رہتے ہیں جو پی آر سی میں شامل کمپنیاں روس کی فوجی خریداری میں ادا کر رہی ہیں۔“

'میں نے زور دیا کہ پی آر سی میں شامل کمپنیوں کو، روس کی جنگ کے لیے مادی مدد فراہم نہیں کرنی چاہیے، اور اگر وہ ایسا کرتی ہیں تو انھیں اہم نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا،' جینٹ ییلن نے مزید کہا: ' کوئی بھی بینک جو اس اہم لین دین کی سہولت فراہم کرتا ہے روس کے دفاعی صنعتی اڈے پر فوجی یا دوہرے استعمال کے سامان خود کو امریکی پابندیوں کے خطرے سے دوچار کرتے ہیں۔“

ییلن کے تبصرے پر رپورٹ کرتے ہوئے بلومبرگ نیوز ایجنسی نے نوٹ کیا: 'وزارت خزانہ میں یہ صلاحیت موجود ہے کہ مالیاتی اداروں کے خلاف امریکہ کا حتمی ہتھیار امریکی ڈالر تک ان کی رسائی کو ختم کر سکتا ہے جو بین الاقوامی سطح پر کام کرنے والے کسی بھی بینک کے لیے ایک وجودی خطرہ ہے۔' 2020 میں ایران کے خلاف اس ہتھیار کے استعمال کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے ہانگ کانگ کی آزادی کے مظاہروں پر بیجنگ کے کریک ڈاؤن کے دوران چین کو اس کی دھمکی دی تھی۔

امریکی ڈالر تک چینی رسائی کو مسدود کرنے سے کم از کم ابتدائی مدت کے لیے چین کو زیادہ تر عالمی تجارت سے باہر کر دیا جائے گا۔ امریکی ڈالر اب بھی عالمی مالیات میں ایک غالب کردار ادا کرتا ہے جو اب امریکی صنعتی زوال کے کئی دہائیوں کے بعد ریاستہائے متحدہ کے حقیقی معاشی وزن کے تناسب سے بالکل مطابقت نہیں رکھتا ہے۔ عالمی تجارت کا مکمل طور پر 88 فیصد اور بینک ڈپازٹس کا 60 فیصد امریکی ڈالر میں ہے حالانکہ 2022 میں امریکہ عالمی اقتصادی پیداوار کا صرف 15 فیصد اور عالمی برآمدات کا 8 فیصد تھا۔

ایسی امریکی پابندیوں کے خوف سے کئی ممالک پہلے ہی ڈالر سے جزوی طور پر اپنے کو علیدہ کرنے کی تگ و دوَ کر رہے ہیں۔ چین نے ڈالر کو بائی پاس کرنے اور روس، قازقستان، برازیل، ارجنٹائن، ترکی، پاکستان، سعودی عرب، تھائی لینڈ اور لاؤس سمیت ممالک میں مقامی کرنسیوں کے لیے چینی یوآن کی براہ راست تجارت کرنے کے لیے تبادلہ کرنے کے معاہدے کیے ہیں۔ یہ تبادلہ روس کے ساتھ یومیہ 20 بلین یوآن (2.76 بلین امریکی ڈالر) کے ہیں، برازیل کے لیے کل 190 بلین یوآن، ارجنٹائن میں 130 بلین یوآن، اور ترکی میں 23 بلین یوآن کے ہیں۔

چین کو نشانہ بنانے والی امریکی پابندیاں دنیا بھر کے اربوں محنت کش لوگوں کے لیے بھی تباہی کا باعث بنیں گی جو سستے چینی اشیائے ضرورت کی خریداری پر انحصار کرتے ہیں۔

یہ اب خود واضح ہو چکا ہے کہ یوکرین کی جنگ میں صرف سادگی میں یہ کہہ دینا کہ فروری 2022 میں پہلی گولی کس نے چلائی بلکہ اس میں دوسری بہت سے عوامل شامل ہیں۔ سٹالنسٹ بیوروکریسی کے سوویت یونین کو تحلیل کرنے کے 30 سال بعد سرمایہ داری ایک بار پھر کہیں زیادہ مہلک بحران سے دوچار ہے۔ اس کے جوہر میں وہی بنیادی تضادات ہیں جسکی عظیم مارکسسٹوں نے وضاحت کی تھی اور جن تضادات کے پھٹنے سے 20 ویں صدی کی عالمی جنگوں کی بنیاد ڈالی تھی یعنی عالمی معیشت اور قومی ریاست کے نظام کے درمیان اور سماجی طور پر منظم پیداوار اور منافع پر نجی حصول کے درمیان تضادات نے دو عالمی جنگوں کی بنیاد رکھی تھی۔

واشنگٹن اور اس کے نیٹو سامراجی اتحادیوں نے طاقت کے توازن اور عالمی مالیات میں اپنی جگہ مستحکم کرنے کے لیے ایک عالمی تنازع شروع کر رکھا ہے۔ اس موسم سرما میں فرانسیسی صدر ایمانوئل میکرون کا یہ اعلان کہ فرانس روس سے لڑنے کے لیے یوکرین میں زمینی فوج بھیج سکتا ہے اس خطرے کی نشاندہی کرتا ہے کہ یہ ابھرتی ہوئی تیسری عالمی جنگ جوہری طاقتوں کے درمیان براہ راست مسلح تصادم کا باعث بنے گی۔

ماسکو اور بیجنگ یوکرین میں روسی فتوحات اور عالمی معیشت میں 45 سال کے انضمام کے بعد چین کی وسیع ترقی کے باوجود سامراجی جنگ کو روکنے کے لیے کوئی نقطہ نظر نہیں رکھتے۔ چین میں سٹالنسٹ بیوروکریسیوں کی سرمایہ داری کی بحالی اور 1989-1991 میں سوویت یونین کی تحلیل سے ابھرنے والی حکومتیں جنگ کے خلاف محنت کش طبقے کو اسکی مخالفت کرنے کی اپیل کے لیے باضابطہ طور پر اس قابل نہیں ہیں۔ اس کے بجائے امریکی حکام کے تبصرے یہ ظاہر کرتے ہیں کہ سامراج ان حکومتوں کی کسی نہ کسی میدان میں کامیابیوں پر صرف ان کے خلاف اشتعال انگیزیوں کو مزید بڑھا کر ردعمل ظاہر کرتا ہے۔

واحد قوت جو جنگ کو روک سکتی ہے وہ محنت کش طبقہ ہے جو سرمایہ داری کے خلاف اور سوشلزم کے لیے بین الاقوامی جنگ مخالف تحریک میں متحرک ہے۔

Loading