اُردُو
Perspective

عام ہڑتال اور بڑے احتجاج نے اسرائیلی حکومت کو ہلا کر رکھ دیا۔

یہ 27 مارچ 2023 کو انگریزی میں شائع 'General strike and mass protests stagger Israeli regime' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

دسیوں ہزار اسرائیلی سموار 27 مارچ 2023 کو یروشلم میں پارلیمنٹ کے باہر وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے عدالتی بحالی کے منصوبے کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں۔ (اے پی فوٹو/اے پی) [AP Photo/AP]

سموار کی شام دیر گے یروشلم  میں اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے اعلان کیا کہ وہ اسرائیلی پارلیمنٹ کنیسٹ کی کارروائی کو عارضی طور پر معطل کر رہے ہیں جس منصوبے کو وہ بروائیکار لانے کے لئے جو اقدام اٹھانا چاہتے ہیں وہ ملک کے عدالتی نظام کے خلاف ایک کودیتا کے مترادف ہے۔ یہ ریاست کا واحد ادارہ ہے جسے انتہائی دائیں بازو کا اتحاد کنٹرول نہیں کرتا۔

نیتن یاہو نے یہ سیاسی پسپائی کا طریقہ کار اسرائیل کی تاریخ میں مقبول اپوزیشن کے سب سے بڑے ہنگامے اور احتجاج کے پیش نظر اختیار کیا کیونکہ اتوار کو بڑے پیمانے پر سڑکوں پر ہونے والے احتجاجی مظاہروں کا اختتام سموار کو اسرائیلی محنت کش طبقے کے وسیع حصوں کی طرف سے مکمل واک آؤٹ پر ہوا۔ ہوائی اڈے، شپنگ، ٹرانسپورٹ، مینوفیکچرنگ، یوٹیلیٹیز، اسکول، ڈے کیئر سینٹرز، یونیورسٹیاں اور عملی طور پر تمام سرکاری کام متاثر ہوئے۔ پوری دنیا میں اسرائیلی سفارت خانے بند کر دیے گئے اور نیویارک شہر میں اسرائیلی قونصل جنرل نے استعفیٰ دے دیا۔

اس سیاسی کشیدگی کا فوری محرک نیتن یاہو کا اپنے وزیر دفاع یوو گیلنٹ کو برطرف کرنے کا فیصلہ تھا جس نے ہفتے کے روز ان سے مطالبہ کیا کہ وہ عدلیہ کے ہاتھوں کو جکڑنے کے منصوبے سے باز رہے کیونکہ یہ سیاسی تنازعہ اسرائیل کی دفاعی افواج (آئی ڈی ایف) کی تقسیم کا باعث بن رہا ہے۔ گیلنٹ، نیتن یاہو کی اپنی لیکوڈ پارٹی کے ایک اعلیٰ رہنما ہے  نے ہزاروں ریزرو فوجیوں کے بیانات کا حوالہ دیا کہ انہیں بلائے جانے پر انہوں نے  انکار اس لیے کیا ہے کہ وہ کہتے ہیں کہ ہم  جمہوریت کو تباہ کرنے والی حکومت کے ماتحد کام نہیں کرنا چاہتے ہیں۔

فوجی بحران اس تنازعہ کا صرف ایک اظہار ہے جس نے اسرائیل کو داخلی طور پر شدت سے ہلا کر رکھ دیا ہے اور صیہونیت کے اس بنیادی تصور کو توڑ دیا ہے کہ اسرائیل دنیا کے خلاف تمام یہودیوں کے اتحاد کی نمائندگی کرتا ہے۔ اس کے برعکس اسرائیل انتہائی زیادہ سماجی، سیاسی اور طبقاتی تنازعات کا شکار ہے۔ جسکا  نیتن یاہو نے خود اعتراف کیا ہے کہ ملک 'خانہ جنگی' کے دہانے پر ہے۔

احتجاجی تحریک کے خود ساختہ رہنما جو زیادہ تر پچھلی حکومت کے عہدیدار ہیں جنہوں نے گزشتہ سال انتخابات کے بعد نیتن یاہو کے لیے  راستہ ہموار کیا جیسے کہ بینی گانٹز اور یائر لاپڈ جو خود صہیونی ریاست کے محافظ اور فلسطینی عوام پر  ظلم و ستم کے برابر شریک ہیں۔ یہ وہ ہی  عدالتی نظام ہے جس کا وہ دفاع کرتے ہیں۔ وہ کسی 'ترقی پسند' متبادل کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ نیتن یاہو کے اقدامات پر صرف اس لیے اعتراض کرتے ہیں کہ انہیں ڈر ہے کہ وہ اسرائیل کی ریاست پر پڑے ہوئے نام نہاد جمہوری پردے کو پھڑتے  ہوئے ریاست کو ننگا کر کے اسکی اصلیت کو آشکارا  کر دے گا۔

بہر حال بڑے پیمانے پر عوامی تحریک ظاہر کرتی ہے کہ اس کی بنیاد میں بے شمار مسائل موجود  ہیں۔ طویل عرصے سے دبے ہوئے سماجی تضادات حکمران اشرافیہ میں تنازعات کے ذریعے کھل کر پھٹ رہے ہیں جو اسرائیلی آبادی کے وسیع عوام اور سب سے بڑھ کر محنت کش طبقے کو سیاسی منظر عام  پر لا رہے ہیں۔ سپریم کورٹ پر تنازعہ کا التوا یا حل بھی اس سماجی تحریک کی مزید نشوونما کو دبا نہیں سکے گا جو اسرائیل کے اندر بے پناہ معاشی عدم مساوات اور عالمی سرمایہ دارانہ بحران کے اثرات سے ہمکنار ہے۔

تاہم اس تحریک کے بڑے پیمانے  کے باوجود اس عوامی تحریک میں ایک کمزوری ہے جس کو اگر درست سمت پر نہ ڈالا گیا  تو پھر یہ مہلک ثابت ہو گی: اس نے اب تک کسی بھی طرح سے فلسطینی عوام کے جدوجہد کو قبول نہیں کیا ہے۔ اس احتجاج میں اسرائیلی پرچموں کا ایک سمندر موجود تھا نہ ہی انہوں نے  مقبوضہ علاقوں کی فلسطینی آبادی اور اسرائیلی عربوں کی حمایت حاصل کرنے کی کوئی بھی کوشش کی ہو۔

کامیابی کا کوئی بھی موقع حاصل کرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ یہودی محنت کشوں اور نوجوانوں کو صیہونی نظریہ کے اندھیرے بند دروازے کو توڑنا ہوگا  اور سرمایہ داری کے خلاف مشترکہ جدوجہد میں یہودی اور عرب محنت کشوں کے انقلابی اتحاد پر مبنی سوشلسٹ حکمت عملی اپنانا ہوگی۔

ایسی تحریک کی بڑھوتی کے لیے ایک طاقتور معروضی بنیاد موجود ہے۔ کئی مہینوں سے، تل ابیب، یروشلم اور دیگر شہروں میں بڑے پیمانے پر مظاہرے ہو رہے ہیں جو اسرائیلی  ملک کے آبادی کے لحاظ سے بہت بڑے ہیں۔ تاہم  اس ہفتے کے آخر میں ہونے والے واقعات ایک کیفیتی جست تھے۔ لوگوں کی ایک  بڑی تعداد سڑکوں پر نکل آئی  اور ایک  اندازے کے مطابق  100,000 ہجوم نے تل ابیب کے راستے مرکزی سڑک کو بلاک کر دیا  پولیس کی جانب سے اسے کھونے کی کوششوں کا انہوں نے زبردست مقابلہ کیا۔ اور یروشلم میں نتن یاہو کی سرکاری رہائش گاہ کے سامنے ہزاروں افراد نے مظاہرہ کیا۔

ہڑتالیں اتوار کو شروع ہوئیں جو اسرائیل میں ایک عام کام کا دن ہوتا ہے اور اس قدر تیزی سے پھیل گی کہ ہسٹادرٹ جیسی سرکاری ٹریڈ یونین فیڈریشن جو طویل عرصے سے اسرائیلی ریاست کا براہ راست آلہ کار رہی ہے نے ملک گیر عام ہڑتال کی کال دینے پر مجبور ہوئی۔ ہڑتال کی تحریک کی طاقت کے سامنے جھکتے ہوئے کئی  مالکان نے پیر کو بندش کا بھی  اعلان کیا۔ بین گوریون بین الاقوامی ہوائی اڈے سے روانہ ہونے والی تمام پروازیں بند کر دی گئیں اور ملک کی دو اہم بندرگاہیں حیفہ اور اشدود کو بند کر دیا گیا۔

نیتن یاہو کے عدالتی کودیتا پر کنیسٹ کی کارروائی کو عارضی طور پر معطل کرنے کا اعلان کرنے والے بیان نے مقبول اپوزیشن کی طاقت کو تسلیم کیا۔ انہوں نے کہا کہ قومی ذمہ داری کے تحت  قوم کو ٹکڑے ٹکڑے ہونے سے روکنے کی خواہش کے لیے میں قانون سازی کو معطل کرنے کا مطالبہ کر رہا ہوں۔ 'جب مذاکرات کے ذریعے خانہ جنگی کو روکنے کا امکان ہو گا تو میں مذاکرات کے لیے وقت کا تعین کر دوں گا۔'

جب کہ نیتن یاہو نے حزب اختلاف کے ساتھ بات چیت کا وعدہ کیا تھا وہ دراصل اپنے ہی انتہائی دائیں بازو کے اتحاد میں کھلے عام فاشسٹ عناصر کے ساتھ مذاکرات کر رہے ہیں کیونکہ انہوں نے ابتدا میں اس بڑی تحریک کے سامنے کسی بھی طرح کی پسپائی  حتیٰ کہ ایک  طریقہ کار  کے طور پر  بھی اسکی مخالفت کی تھی۔ التوا کو قبول کرنے کا ان کا معاہدہ ان کے درمیان  ایک ناخوشگوار رعایت کے ساتھ سامنے آیا: حکومت وزارت داخلہ کے کنٹرول میں ایک نیا نیشنل گارڈ قائم کرے گی، اور اسے فنڈ اور اسلحے سے لیس کرے گی جس کی سربراہی فاشسٹوں کے ایک  اہم لیڈروں میں سے ایک اتمار بین گویر کر رہے ہیں۔ جو کہ مقبوضہ مغربی کنارے کا آباد کار ہے۔

اس  دوران  میں جب عدالتی کودیتا کو معطل کیا گیا  اسے فاشسٹ اور حکومت نئے سرے سے سیاسی اپوزیشن کے خلاف تشدد کے منظم استعمال کی تیاری کے لیے استعمال کریں گے۔ ان کا مقصد ایک ایسی نیم فوجی فورس بنانا ہے جو فوج کے برعکس سیاسی طور پر صرف انتہائی مہا نسل پرست اور مذہبی صہیونیوں کو شامل کرنے کے لیے پرکھا جائے گا تاکہ اسے اسرائیلی محنت کش طبقے اور نوجوانوں کے خلاف اندرونی جبر کے لیے زیادہ آسانی سے استعمال کیا جا سکے۔

عدالتی 'اصلاحات' کے بل کی عارضی معطلی کو اپنی منظوری دینے والے کابینہ کے آخری وزیر بین گویر نے اپنے حامیوں کو ایک ٹویٹ میں اس انداز سے خوش کیا: 'اصلاح منظور ہو جائے گی۔ نیشنل گارڈ قائم کیا جائے گا۔ میں نے وزارت قومی سلامتی کے لیے جس بجٹ کا مطالبہ کیا تھا اسے مکمل طور پر پاس کیا جائے گا۔ ہمیں کوئی نہیں ڈرا سکتا ہے۔ عوام کا فیصلہ بدلنے میں کوئی کامیاب نہیں ہوگا۔ میرے بعد دہرائیں: جمہوریت!' آخری جملے کا لفظ یعنی جمہوریت حکومت مخالف مظاہرین کے مرکزی نعرے کا مذاق اڑانے والا حوالہ تھا۔

مزید برآں یہ کی اب جب کہ نیتن یاہو کو  سانس لینے کی مہلت مل گی ہے  وہ اس دورانیہ کو ایران کے خلاف فوجی اشتعال انگیزی شروع کرنے کے لیے استعمال کر سکتے ہیں اور عسکریت پسندی کے اچانک جزبات کا سہارا لیتے ہوئے  قومی 'اتحاد' پیدا کرنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ اس میں وہ مغربی یورپ اور امریکہ میں اپنے سامراجی سرپرستوں کی مثال پر گامزن ہوں گے جنہوں نے یوکرین میں روس کے خلاف پراکسی جنگ چھیڑ دی ہے تاکہ اپنے بڑھتے ہوئے اندرونی تناؤ کو بیرونی دشمن کی طرف موڑ سکیں۔

نیتن یاہو نے عدالتوں کو کابینہ اور کنیسیٹ کے براہ راست کنٹرول میں رکھنے کا منصوبہ پیش کیا تاکہ کم از کم اپنے اپ کو نااہلی سے بچایا جا سکے۔ ان کے خلاف بدعنوانی کے متعدد الزامات کے تحت مقدمہ چلایا جا رہا ہے اور اگر جرم ثابت ہو گیا تو عدالتیں انہیں عہدے پر رہنے کے لیے نااہل قرار دے سکتی ہیں۔

لیکن مسائل اس سے کہیں زیادہ بنیادی اہمیت کے حامل  ہیں۔ عدالتی اقدامات کا اصل مقصد  مذہبی صہیونیوں اور آباد کاروں کی بے لگام آمریت کی راہ میں حائل تمام قانونی اور ہر اُس  طریقہ کار کی رکاوٹوں کو ختم کرنا ہے جو یہودی آبادی کی ایک اقلیت ہیں لیکن سیاسی نظام پر تیزی سے غلبہ حاصل کر رہے ہیں۔

اسرائیل میں پرتشدد جبر اور آمریت کی طرف رخ ایک عالمی عمل اور رجحان  کا حصہ ہے۔ جس کا اظہار ہمیں فرانس اور سری لنکا میں حالیہ مہینوں میں دیکھی دیتا ہے یہ عمل  سامراجی طاقتوں اور غریب اور مظلوم ممالک دونوں میں ابھر رہا ہے۔ حکمران طبقے کو عالمی سرمایہ داری کے سماجی اور سیاسی بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ نظر نہیں آتا سوائے ان جبری طریقوں پر انحصار کرنے کے۔ جمہوریت کے حفاظتی بٹن جل رہے ہیں اور جدید معاشرے کے دو بڑے طبقے سرمایہ دار اور محنت کش طبقہ کھلی جدوجہد میں ایک دوسرے کے مد مقابل  ہیں۔

پچھلے مہینوں کے واقعات اسرائیل میں سیاسی رجعت اور ریکشن کے ایک طویل دور کے خاتمے کی نشاندہی کرتے ہیں جس میں طبقاتی جدوجہد کو منظم طریقے سے دبا دیا گیا تھا اور صیہونیت کے نظریے کے زریعے محنت کش طبقے کو فوج کے ماتحت ہونے کا جواز فراہم کرنے کے لیے قائم کیا گیا تاکہ اس کے ساتھ  فلسطینی عوام پر ظلم و ستم کا سلسلہ جاری رہ سکے۔ اب فلسطینیوں کے خلاف سب سے زیادہ متحرک ہونے والی قوتوں کو سب سے بڑھ کر اب  فاشسٹ آباد کار عناصر  کو یہودی محنت کشوں اور نوجوانوں کے خلاف بھی استمعال کیا جا رہا ہے۔

ان حملوں نے ایک بڑی تحریک کو بھڑکا دیا ہے جس نے اسرائیلیوں کی ایک بڑی تعداد کو سڑکوں پر لا کھڑا کیا جہاں انہوں نے انتہائی دائیں بازو کے خلاف اپنی طاقت کا اندازہ لگانا شروع کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے یہودی مزدوروں اور نوجوانوں کو صیہونیت کے ساتھ سیاسی حساب کتاب کی تاریخی ضرورت کے طور پر بھی سامنے کر دیا  ہے۔

صہیونی اسرائیل کو ایک غیر طبقاتی ریاست کے طور پر پیش کرتے ہیں جہاں تمام یہودی ایک جھنڈے کے نیچے اکٹھے ہو سکتے ہیں اور پھر جہاں سماجی تقسیم مٹ جائے گی یہ ہمیشہ سے ایک انتہائی بڑا جھوٹ رہا ہے۔ اسرائیلی ریاست کی بنیاد فلسطینی عوام کی منظم بے دخلی اور تشدد اور دہشت گردی کے ذریعے ان کی جبری بے دخلی سے ہوئی۔ اس کے بعد اسرائیل کے علاقے کو وسعت دینے اور اسے مشرق وسطیٰ میں امریکی سامراج کے لیے ایک طاقتور  جوہری ہتھیاروں سے لیس فرنٹ لائن  کے طور پر بنانے کے لیے جنگوں کا سلسلہ شروع ہوا۔

1948 میں فورتھ انٹرنیشنل  عالمی ٹراٹسکیسٹ تحریک نے مذہبی شناخت پر مبنی اسرائیل کے قیام کو انتہائی رجعت پسند قرار دیتے ہوئے اسکی شدید مذمت کی اور بیان کیا کہ  یہ فلسطین میں رہنے والے عربوں اور یہودیوں دونوں کے لیے ایک المیہ ہے۔ اس نے اعلان کیا:

چوتھی انٹرنیشنل  یہودی سوال کے 'صیہونی حل' کو یوٹوپیائی اور رجعت پسندی کے طور پر مسترد کرتی ہے۔  اور یہ اعلان کرتی ہے کہ صیہونیت سے مکمل طور پر دستبردار ہونے کے لئے یہودی محنت کشوں کی جدوجہد کو عرب محنت کشوں کی سماجی، قومی اور آزادی کی جدوجہد کے ساتھ ضم کرنے کی لازمی شرط ہے۔

سرمایہ داری کے خلاف مشترکہ جدوجہد میں مشرق وسطیٰ کے محنت کش طبقے—یہودیوں، عربوں، کردوں، ترکوں، آرمینیائیوں اور دیگر لوگوں کے متحد ہونے کا یہ نقطہ نظر آج پہلے سے کہیں زیادہ زور سے گونج رہا ہے۔ یہ آمریت، قومی جبر اور سامراجی جنگ کے خلاف انقلابی جدوجہد کی واحد بنیاد ہے۔

یہودی مزدوروں اور نوجوانوں کے لیے ان حالات میں اپنے جمہوری حقوق کا دفاع کرنا ناممکن ہے جب تک  اسرائیل کی فلسطینی آبادی اور مقبوضہ علاقے وحشیانہ فوجی جبر اور بڑھتے ہوئے مسلسل آپریشن اور آباد کاروں کے تشدد کی زد میں ہوں۔ مغربی کنارے اور غزہ میں فوجی آمریت اور اسرائیل کے اندر جمہوریت ایک ساتھ  نہیں ہو سکتی۔

وہ تمام گروہ جو عرب اور یہودی مزدوروں کے مشترکہ جدوجہد میں متحد ہونے کے امکان کو مسترد کرتے ہیں وہ سیاسی طور پر دیوالیہ ہو چکے ہیں اور آخری تجزیے میں صہیونیت کے نقطہ نظر کا اشتراک کرتے ہیں اگرچہ ایک الٹی شکل میں، اسرائیل کی ریاست کو مستقل اور ناقابل تغیر تسلیم کرتے ہیں اور یہودیوں محنت کش طبقے کو ختم کر دیتے ہیں۔

اس میں فلسطینیوں کے دونوں بورژوا قومی گروہ شامل ہیں جیسے بدعنوان  پی ایل آؤ  اور اسلامی بنیاد پرست حماس اور بین الاقوامی 'یکجہتی' تحریکیں جیسے بائیکاٹ، ڈیویسٹمنٹ اینڈ سینکشنز (بی ڈی ایس)  جو صیہونی حکمران کے جرائم کے لیے یہودی مزدور طبقے کو مؤثر طریقے سے مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔

ہم 1948 میں چوتھی انٹرنیشنل کی تدوین کو دوبارہ دہراتے ہیں: ہمارا نقطہ نظر 'یہودی محنت کشوں کی جدوجہد کو عرب محنت کشوں کی سماجی، قومی اور آزادی پسند جدوجہد کے ساتھ ملانا ہے۔'

گزشتہ ہفتوں کے واقعات نے اس تصور کو تقویت بخشی ہے کہ اسرائیل کے یہودی کارکن فلسطین کے عرب مزدوروں سمیت دنیا بھر میں اپنے طبقاتی بھائیوں اور بہنوں سے کسی نہ کسی طرح  سے بھی مختلف نہیں ہیں۔ مرکزی مسئلہ احتجاجی تحریک کی رجعتی صہیونی قیادت پر قابو پانا ہے اور فلسطینی عوام کے قومی حقوق سمیت ملازمتوں، معیار زندگی اور جمہوری حقوق کے دفاع کے لیے مشترکہ جدوجہد میں عرب اور یہودی محنت کشوں کے اتحاد کے لیے جدوجہد کرنا ہے۔ یہ صرف بین الاقوامی سوشلزم کے پروگرام اور نقطہ نظر کی بنیاد پر کیا جا سکتا ہے۔

Loading