اُردُو
Perspective

امریکی میڈیا نے جنین میں اسرائیلی جنگی جرائم پر اپنے لب سی لیے ہیں۔

یہ 7 جولائی 2023 کو انگریزی میں شائع 'US media covers up Israeli war crimes in Jenin' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

بدھ 5 جولائی 2023 کو مغربی کنارے کے جینین پناہ گزین کیمپ میں ایک فلسطینی خاتون تباہ شدہ سڑک پر چل رہی ہے۔ (اے پی فوٹو/ ماجدی محمد) [اے پی فوٹو] [AP Photo]

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے ماہرین کے ایک پینل نے بدھ کے روز ایک بیان جاری کیا جس میں مغربی کنارے کے جنین اور دیگر مقامات پر اسرائیلی فوجی کارروائیوں کی مذمت کی گئی اور کہا گیا کہ یہ 'طاقت کے استعمال پر بین الاقوامی قوانین اور معیارات کی سنگین خلاف ورزیوں کے مترادف ہیں اور یہ جنگی جرائم بن سکتے ہیں۔'

اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کمیشن کے زیراہتمام کام کرنے والے تین رکنی گروپ نے اسرائیلی فوج کی طرف سے کئی کارروائیوں کی طرف اشارہ کیا جس کے نتیجے میں 'مقبوضہ آبادی کو ہلاک اور شدید زخمی کیا گیا ان کے گھروں اور انفراسٹرکچر کو تباہ کیا گیا اور زبردستی ہزاروں افراد کو نقل مکانی مجبور کیا گیا۔'

جنین کے باہر بڑے نیم مستقل پناہ گزین کیمپ پر دو روزہ حملہ جس میں 14,000 مکین تھے فلسطینی عسکریت پسندوں کے ساتھ شدید لڑائیوں کرنے کے ساتھ پانی اور بجلی کی فراہمی معطل کر دی گی اور صحت کی سہولیات سمیت شہری بنیادی ڈھانچے کی جان بوجھ کر توڑ پھوڑ کی جو وسیع پیمانے پر تباہی کا باعث بنے۔ کم از کم 12 فلسطینی مارے گئے جن میں چار نوجوان بھی شامل ہیں۔ 100 سے زیادہ زخمی ہوئے اور کیمپ کی ایک چوتھائی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوئی۔

عینی شاہدین بشمول صحافیوں نے رپورٹ کیا کہ اسرائیل ڈیفنس فورس (آئی ڈی ایف) نے 1,000 فوجیوں کو جن میں سے زیادہ تر ایلیٹ کمانڈو یونٹس کے تھے کو گنجان آباد رہائشی علاقے میں بھیجا جنہوں نے کاروائی کرتے ہوئے مکانات اور بڑے ڈھانچوں کو تباہ کردیا۔

اقوام متحدہ کے پینل کے مطابق 'یہ حملے 2002 میں جنین کیمپ کی تباہی کے بعد سے مغربی کنارے میں سب سے زیادہ شدید حملے تھے۔' ان میں فضائی حملے بھی شامل تھے جو دو دہائیوں کے بعد میں پہلا حملہ تھا۔ صحت کی دیکھ بھال کا نظام انکا خاص ہدف تھا متعدد رپورٹس کے مطابق ایمبولینسوں کو زخمیوں کو نکالنے سے روکا گیا اور آئی ڈی ایف کے فوجیوں نے جینین جنرل ہسپتال میں آنسو گیس فائر کی۔

اقوام متحدہ کے بیان میں مزید کہا کہ:

کہ یہ حملے فلسطینی آبادی کے لیے اجتماعی سزا ہیں جنہیں اسرائیلی حکام کے مطابق 'اجتماعی سلامتی کا خطرہ' قرار دیا گیا ہے۔ 'مقبوضہ فلسطینی سرزمین میں فلسطینی بین الاقوامی قانون کے تحت محفوظ افراد ہیں جن میں بے گناہی کے قیاس سمیت تمام انسانی حقوق کی ضمانت دی گئی ہے. اور قابض طاقت کے ذریعے ان پر اجتماعی سلامتی کے لیے خطرے کے طور پر نہیں دیکھا جا سکتا جب تک وہ الحاق کو آگے بڑھاتا ہے اور مقبوضہ فلسطینی سرزمین اور اس کے فلسطینی باشندوں کی نقل مکانی اور بے دخلی' کی پیروی کرتا ہے۔

امریکی میڈیا میں تاہم جینن میں زمین حقائق کی بنیاد پر حالات یا اقوام متحدہ کے پینل کے نتائج کا عملی طور پر کوئی ذکر نہیں ہے۔ اسرائیلی آپریشن کے بارے میں رپورٹنگ عام طور پر ان دعوؤں کی تکرار تک محدود رہی ہے کہ اس کا مقصد 'انسداد دہشت گردی' تھا۔ واشنگٹن پوسٹ نے اقوام متحدہ کے پینل کی جانب سے اسرائیلی کارروائی کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دینے کی مذمت کے لیے صرف ایک جملہ لکھا۔ نیویارک ٹائمز نے اس بارے مىں کچھ بھی نہیں لکھا۔ ٹیلی ویژن نیٹ ورک بھی اتنے ہی خاموش تماشائی تھے۔

اسرائیلی قبضے کے تحت مغربی کنارے کی وحشیانہ حقیقت یہ ہے کہ: فلسطینیوں کے خلاف جاری اور منظم تشدد اور جبر باقدگی سے جاری ہے۔ اسرائیلی فوجی اور انتہائی دائیں بازو کے آباد کار دونوں لوگوں کو قتل کر رہے ہیں انہیں سر عام گولی مار رہے ہیں ان کے گھروں کو تباہ کر رہے ہیں اور اس زمین کو لوٹ رہے ہیں جہاں وہ صدیوں سے آباد ہیں۔

وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کی حکومت دائیں بازو کی جماعتوں کا اتحاد ہے جس میں مکمل طور پر فاشسٹ بھی شامل ہیں جن کا مغربی کنارے پر غیر قانونی بستیوں میں بڑا اڈہ ہے۔ حکومت دہشت گردی اور قتل و غارت کی اس مہم کے منطقی انجام کی تیاری کر رہی ہے: جس کا ہدف لاکھوں فلسطینیوں کی زبردستی نقل مکانی کرنا اور مغربی کنارے کو اسرائیل میں شامل کرنا ہے۔

فاشسٹ جماعتوں کے رہنما مغربی کنارے کی پوری عرب آبادی کو ہٹانے اور اس علاقے کو الحاق کرنے کے اپنے عزم کی کھل کر بات کرتے ہیں۔ اس میں وہ اپنے آپ کو عربوں کے خلاف قتل عام کا وہ نمونہ بنا رہے ہیں جو 1947-48 میں اسرائیل کی بنیاد میں شامل کیے گے تھے۔ اس مہم جسے آج 'نسلی قتل عام ' کہا جائے گا کیونکہ فلسطین کے ایک عرب اکثریتی علاقے کو یہودی اکثریتی ریاست اسرائیل میں تبدیل کر دیا۔

مغربی کنارے پر اسرائیلی جارحیت امریکی حکومت کی مکمل منظوری اور حمایت سے ہو رہی ہے۔ بائیڈن انتظامیہ نے یقینی طور پر اس آپریشن کو پہلے ہی کرنے کا عندیہ دیا تھا اور حقیقت کے بعد اس کی منظوری کا اظہار کیا تھا۔ وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کرین جین پیئر نے بدھ کو کہا کہ 'ہم نے یہ کئی بار کہا ہے:

ہم یقینا اسرائیل کی سلامتی اور حماس، فلسطینی اسلامی جہاد اور دیگر دہشت گرد گروپوں کے خلاف اپنے لوگوں کے دفاع کے حق کی حمایت کرتے ہیں اسرائیل ہمارا ایک قریبی اتحادی ہے اور شراکت دار ہے اور ہم قومی سلامتی اور یقیناً دفاعی حکام کے ساتھ رابطے میں ہیں۔ اس لیے ہماری گفتگو میں کوئی نیا سرکاری بیان نہیں ہے لیکن ہم انکے ساتھ باقاعدہ رابطے میں ہیں۔

کارپوریٹ میڈیا کی کوریج نے مغربی کنارے پر اسرائیل کی بربریت سے لاتعلقی کا اشارہ بائیڈن کے روایہ سے لیا جہاں فوجی تشدد کو مسلح آباد کاروں کی طرف سے فلسطینی قصبوں اور دیہاتوں کے خلاف ہنگامہ آرائی کے ساتھ مل کر قبضے کی بڑھتی ہوئی گھٹن کو نافذ کرنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ اس سال اب تک کم از کم 155 فلسطینی اسرائیلی فوجیوں اور آباد کاروں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں جو 2002 میں دوسرے انتفادہ کے بعد سب سے بڑی تعداد ہے۔

دریں اثنا میڈیا خاص کر ان اشخاص کو نشانہ بناتا ہے جو اسرائیل کی ریاست کے طرز عمل پر تنقید کرتا ہے اور انہیں یہود مخالف قرار دیتا ہے۔ یہ خاص طور پر عوامی شخصیات کے خلاف ہے۔ جیسا کہ حال ہی میں موسیقار راجر واٹرس راک بینڈ پنک فلائیڈ کے بانی جو کئی دہائیوں سے فلسطینی عوام کے اصولی حامی رہے ہیں اور یوکرین میں نیٹو کی جنگ کے مخالف ہیں اور

اب وہ امریکہ کے چند نمایاں مخالفین میں سے ایک ہیں۔

امریکی میڈیا یوکرین کی جنگ اور مغربی کنارے میں مقیم فلسطینیوں پر جاری حملوں کے حوالے سے بے شرم دوہرا معیار برقرار رکھے ہوئے ہے۔ مقبوضہ علاقوں میں اسرائیلی تشدد اور قبضے کو چھپاتے ہوئے میڈیا ایک سال سے زیادہ عرصے سے ایک پراسرار مہم میں مصروف ہے جس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ روسی فوج یوکرین میں نسل کشی کے جرائم میں ملوث ہے۔

پیوٹن حکومت کی بربریت کو چھپانے یا معاف کرنے کی کوئی وجہ نہ ضرورت ہے جو سرمایہ دار ارب پتیوں کی اولیگاری کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے جنہوں نے سوویت یونین کے خاتمے کے بعد اپنی دولت اور ثروت حاصل کیں ہیں۔ لیکن یہی معیار یوکرین کے صدر ولادیمیر زیلنسکی کی حکومت پر لاگو ہونا چاہیے جو کہ نازی کٹھ پتلی اسٹیپن بانڈرا کے پرستاروں اور فاشسٹوں کے ساتھ ہم پیالہ و ہم نوالہ ہیں۔ اور اس کا اطلاق اسرائیل کی ریاست کے جرائم پر بھی ہونا چاہیے جو کہ مشرق وسطیٰ میں امریکی سامراج کی طویل اتحادی ہے۔

نہ ہی نیویارک ٹائمز اور نہ ہی واشنگٹن پوسٹ نے جینن میں اسرائیلی حملے پر ادارتی طور پر تبصرہ کرنے کی زحمت گوارا کی حالانکہ امریکی حکومت کے ساتھ متصادم حکومت کی طرف سے اس طرح کی کارروائی سخت مذمت کو ہوا دیتی۔

حملے سے ایک دن پہلے پوسٹ نے ایک اداریہ شائع کیا جس کی سرخی تھی، 'روس کو اس کے جنگی جرائم کے لیے جوابدہ ٹھہراؤ۔' اس نے یوکرین میں روسی کارروائیوں کے بارے میں اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی تنظیموں کی مختلف رپورٹس کے نتائج کا حوالہ دیا لیکن پھر اسی قسم کے ثبوت کو نظر انداز یا مسترد کر دیا جاتا ہے جب بات جینن میں اسرائیلی کارروائی کی ہوتی ہے۔

اداریہ میں یہ قابل ذکر نتیجہ اخذ کیا گیا ہے کہ مخصوص مظالم کے علاوہ 'درحقیقت، مسٹر پیوٹن اور ان کے اعلیٰ مشیروں کی ایک جماعت نے پہلے جنگ چھیڑ کر ایک وسیع تر جرم کا ارتکاب کیا ہے۔ انہیں جارحیت کے جرم کا ارتکاب کرنے کے لئے قانونی چارہ جوئی کا سامنا کرنا چاہئے - ان پر بھی نیورمبرگ ٹرائلز میں نازی جنگی مجرموں کے خلاف استعمال ہونے والا وہی الزام عائد کیا جائے جو کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد لگایا گیا تھا۔

ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ نے بار بار نیورمبرگ کی نظیر کا حوالہ دیا ہے جو کہ افغانستان اور عراق میں جارج ڈبلیو بش سے لے کر امریکی انتظامیہ کے اقدامات ان سب پر لاگو ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں کوئی بھی ایسی حکومت نہیں ہے جو واشنگٹن ڈی سی میں رہنے والی حکومت کے مقابلے میں اس سے زیادہ جنگ چھیڑ کر 'جارحیت کا جرم' کرنے میں مصروف عمل ہو۔

نیورمبرگ ٹربیونل نے نازی حکومت کے اہم میڈیا کے حمایتوں کو بھی جنگی جرائم کی سزا سنائی۔ پوسٹ کے ایڈیٹرز ہر امریکی فوجی مہم جوئی کے وفادار حامیوں کو محتاط رہنا چاہیے کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔

Loading