اُردُو

مصر میں فوجی بغاوت کو 10 سال بیت گئے۔

یہ 7 جولائی 2023 کو انگریزی میں شائع '10 years since the military coup in Egypt' ہونے والے اس ارٹیکل کا اردو ترجمہ ہے۔

اس ہفتے مصر میں فوجی بغاوت کی دسویں برسی منائی جا رہی ہے۔ 3 جولائی 2013 کو اس وقت کے فوجی سربراہ جنرل عبدالفتاح السیسی نے سامراجی طاقتوں کی حمایت سے اقتدار سنبھالا اور پوری دنیا میں سب سے سفاک اور خونریز ترین حکومت قائم کی۔

اس وقت کے جنرل عبدالفتاح السیسی بدھ 24 اپریل 2013 کو [اے پی فوٹو/جم واٹسن] [AP Photo/Jim Watson ]

سیسی کی بغاوت خون کی ہولی پر منتج ہوئی۔ 14 اگست 2013 کو ان کی کمان میں فوج اور پولیس یونٹوں نے مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں بغاوت کے مخالفین کے دو احتجاجی کیمپوں کو تباہ کر دیا جس میں ایک ہزار سے زائد افراد ہلاک ہو گئے جن میں بہت سی خواتین اور بچے بھی شامل تھے۔ ہیومن رائٹس واچ نے اسے 'قتل عام' قرار دیا 'مصر کی جدید تاریخ میں غیر قانونی اجتماعی قتل کا یہ بدترین واقعہ تھا۔' 

اس کے بعد سے اب تک سینکڑوں اور مظاہرین حکومت کے حواریوں کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ دسیوں ہزار سیاسی قیدی ملک کے اذیت ناک عقوبت خانوں میں بے کیف زندگی گزار رہے ہیں۔ احتجاج اور ہڑتالوں پر پابندی ہے۔ آزاد میڈیا پر سنسر اور پابندی عائد ہے اور ایسی جماعتیں اور تنظیمیں بھی شامل ہیں جو حکومت پر تنقید بھی کرتی ہیں۔ سیسی کے مصر میں سزائے موت کا استعمال مسلسل بڑھ رہا ہے۔ 2020 میں پھانسیوں کی تعداد - تین گنا بڑھ کر اور سرکاری رپورٹ کے مطابق 107 ہوگئی۔

سیسی کی بغاوت محض اس وقت کے صدر اسلام پسند محمد مرسی اور اخوان المسلمون کے خلاف نہیں تھی جس کے وہ رکن تھے۔ اس کا مقصد مصری انقلاب کو کچلنا تھا۔ 2011 کے اوائل میں لاکھوں محنت کشوں اور نوجوانوں نے بڑے پیمانے پر ہڑتالوں اور مظاہروں کے ذریعے مغربی حمایت یافتہ دیرینہ آمر حسنی مبارک کو حکومت چھوڑنے پر مجبور کر دیا اور اس احتجاج نے مصری سرمایہ داری اور خطے پر سامراج کے تسلط کو بنیادوں تک ہلا کر رکھ دیا تھا۔

مصری فوج نے 12 اپریل 2011 کو قاہرہ کے مرکزی تحریر اسکوائر پر حملہ کیا۔

سیسی کی بغاوت کے ساتھ فوج نے عوامی تحریک کو روکنے کی کوشش کی جو مرسی کے دور میں بھی کبھی نہیں تھمی تھی۔ 2013 کی پہلی ششماہی میں مزدوروں نے اسلام پسند حکومت کے خلاف 4,500 سے زیادہ ہڑتالیں اور سماجی احتجاج کا اہتمام کیا۔ جب جون 2013 کے آخر میں بڑے پیمانے پر مظاہروں کی کال دی گئی تو لاکھوں افراد نے ملک بھر میں مرسی کی سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے خلاف اور غزہ پر اسرائیل کے حملے اور شام میں سامراجی حکومت کی تبدیلی کی جنگ کے خلاف بڑا احتجاج کیا۔

جیسا کہ 2011 میں مبارک کی معزولی کے ساتھ احتجاج نے محنت کش طبقے کی زبردست طاقت کو ظاہر کیا۔ ایک ہی وقت میں بغاوت نے ایک بار پھر مصری انقلاب نے بنیادی مسئلے کی طرف متوجہ کیا: وہ سیاسی نقطہ نظر اور قیادت کا فقدان تھا۔ بین الاقوامی سوشلسٹ پروگرام کی بنیاد پر اقتدار کی جدوجہد کے لیے محنت کش طبقے کو متحرک کرنے کے لیے انقلابی پارٹی کی عدم موجودگی میں فوج آخر میں غلبہ حاصل کرنے میں کامیاب رہی۔

عوامی تحریک کو منتشر کرنے اور بالآخر اسے سیسی کے ظلم تک پہنچانے میں مرکزی کردار مصری جعلی بائیں بازو نے ادا کیا۔ انقلابی سوشلسٹ (آر ایس) جیسی قوتیں جو برطانیہ میں سوشلسٹ ورکرز پارٹی (ایس ڈبلیو پی) اور جرمنی میں بائیں بازو کی پارٹی کے ساتھ قریبی روابط رکھتی ہیں نے اعلان کیا کہ محنت کش طبقہ کوئی آزادانہ کردار ادا نہیں کر سکتا اور اُسے بورژوازی کے کسی ایک بازو یا دوسرے سے اسے اپنے کو ماتحت کرنا ہوگا۔

11 فروری 2011 کو مبارک کے زوال کے فوراً بعد آر ایس نے مسلح افواج کی سپریم کونسل (ایس سی آے ایف) کے بارے میں اشتباہ پیدا کیا جس نے مبارک کے سابق وزیر دفاع محمد طنطاوی کی قیادت میں اقتدار سنبھالا۔ برطانیہ کے گارڈین میں آر ایس کارکن اور بلاگر حسام الحمالوی نے 'نوجوان افسروں اور سپاہیوں' کو 'ہمارے اتحادی' کے طور پر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے اعلان کیا کہ فوج 'آخر کار ایک 'سویلین' حکومت کی جانب منتقلی کو انجام دے گی۔'

جیسے ہی فوج نے اپنے حقیقی کردار کو ظاہر کیا اور ہڑتالوں اور احتجاج کو پرتشدد طریقے سے دبانا شروع کیا تو مزدوروں اور نوجوانوں میں 'دوسرے انقلاب' کی آوازیں اٹھنے لگیں۔ آر نے اسے واضح طور پر مسترد کر دیا اور اس کے بجائے اخوان المسلمون کو 'انقلاب کے دائیں بازو' کے طور پر فروغ دیا۔ انہوں نے 2012 کے صدارتی انتخابات کے انعقاد کے دوران مرسی کی حمایت کی اور اس کے بعد اسلام پسندوں کی فتح کو 'انقلاب کی فتح' اور ' اور ردانقلاب کو ایک عظیم کامیابی' کے طور پر منایا۔

فوجی بغاوت میں آر ایس کے کردار نے اس کے رد انقلابی کردار کو پوری طرح بے نقاب کیا۔ آر ایس نے اسے 'دوسرے انقلاب' کا نام دیا اور فوجی قیادت پر ایک بار پھر اس نے توقع وابستہ کرتے ہوئے محنت کشوں اور نوجوانوں میں الجھن کو ہوا دی۔ 11 جولائی کو ایک بیان میں اس نے بغاوت کی حکومت پر دباؤ ڈالنے کا مطالبہ کیا کہ 'لاکھوں غریب مصریوں کے فائدے کے لیے سماجی انصاف کے حصول کے لیے فوری اقدامات کیے جائیں۔'

بغاوت کے لیے آر ایس کی حمایت صرف الفاظ تک محدود نہیں تھی۔ اس نے فعال طور پر اس کے لیے راستہ تیار کیا تھا۔ آر ایس تمرود اتحاد کے سب سے زیادہ فعال حامیوں میں شامل تھا - جو جعلی بائیں بازو کا ملغوبہ 'لبرلز' (محمد البرادعی) مصری ارب پتی (نگیب سویرس) اور مبارک حکومت کے سابق نمائندے (احمد شفیق) پر مشتمل تھا جن کا مشن یہ تھا کہ عوامی مزاحمت کو ملٹری کی چکیوں کی گرفت میں بدلنا تھا۔

جب سیسی نے 3 جولائی کو سرکاری ٹیلی ویژن پر قبضے کا اعلان کیا تو تمرود کے رہنما محمود بدر اور محمد عبدالعزیز ان کے شانہ بشانہ کھڑے تھے۔ صرف چند ہفتے پہلے 28 مئی 2013 کو گیزا میں آر ایس ہیڈکوارٹر میں دونوں کا پرجوش استقبال کیا گیا تھا۔ قبل ازیں آر ایس نے ایک بیان جاری کیا تھا جس میں تمرود کو 'انقلاب کو مکمل کرنے کا ایک طریقہ' قرار دیا تھا اور 'اس مہم میں مکمل طور پر حصہ لینے کا ارادہ' کا اعلان کیا تھا۔

دس سال بعد آر ایس اپنی تاریخی انقلاب دشمن اقدامات کو چھپانے اور ڈھانپنے کے لیے تکلیف میں ہے۔ 'مصر: رد انقلاب کی دہائی' کے عنوان سے بغاوت کی برسی پر اپنے مضمون میں حمالوی نے بیان کیا کہ 'مصری مزدوروں کی مرسی کی حکمرانی سے مایوسی بالآخر مختلف کیمپوں سے مزدور تحریک کے رہنماؤں کے اثر و رسوخ کی بدولت ایک رجعتی پوزیشن میں بدل گئی۔' حمالوی اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ وہ خود اور آر ایس ان 'رہنماؤں' اور 'کیمپوں' میں شامل تھے۔

ایک شخص جس کا نام حمالوی نے لیا ہے وہ 'آزاد' ٹریڈ یونین لیڈر اور سیسی کی بغاوت کی کابینہ میں افرادی قوت کے پہلے وزیر کمال ابو ایتا ہے۔ انہوں نے بطور وزیر 'صنعتی ہڑتالوں اور احتجاجوں کو ناکام بنانے میں مرکزی کردار ادا کیا تھا۔' اس کی حکمرانی کے تحت 'صنعتی ایکشن کمیٹی کے منتظمین کو برطرف کیا گیا اور اُن کو چن چن کر نشانہ بنایا گیا اور صبح سویرے ان پر چھاپے مار کر انہیں گرفتار کیا گیا۔ اور آزاد یونینوں کا گلا گھونٹ دیا گیا اور ہڑتالوں پر پابندی لگا دی گئی۔ ایک بار پھر حمالوی یہ بتانے میں ناکام رہے کہ ناصری ابو ایتا کئی سالوں سے آر ایس کے قریبی اتحادیوں میں سے ایک تھے۔

کمال ابو ایتا جو بعد میں سیسی کی بغاوت کی کابینہ کے پہلے وزیر محنت تھے گیزا میں انقلابی سوشلسٹ سینٹر میں خطاب کر رہے ہیں۔ [تصویر بذریعہ حسام الحمالوی / سی سی کی طرف سے 2.0] [Photo by Hossam el-Hamalawy / CC BY 2.0]

یہ کہ حمالوی آر ایس اور ان کے بین الاقوامی اتحادی یہ تسلیم کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ ان کی سیاسی لائن تباہی کا باعث بنی ہے ان کے اس کردار سے ایک نتیجہ صاف طور پر اخذ کیا جا سکتا ہے۔ کی جعلی بائیں بازو کی حامی سرمایہ دارانہ دھاروں سے پیوست میں متوسط ​​طبقے کے خوشحال پرتوں کے مفادات کی ترجمانی کرتے ہوئے وہ محنت کش طبقہ کے ایک آزاد انقلابی تحریک کے خدشہ سے انتہائی خوف زدہ رہتے ہیں اس کے مقابلے میں وہ کسی بھی رد انقلاب کو قبول کرتے ہیں خواہ کتنا ہی زیادہ خونی کیوں نہ ہو۔

مزدوروں اور نوجوانوں کو اس تجربے سے ضروری سیاسی نتائج اخذ کرنا ہوں گے۔ جمہوری اور سماجی حقوق کے لیے اپنی جدوجہد میں کامیابی کے لیے انھیں اپنی آزاد انقلابی قیادت اور بین الاقوامی سوشلسٹ نقطہ نظر کی ضرورت ہے۔ عالمی سوشلسٹ ویب سائٹ اور فورتھ انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی جو لیون ٹراٹسکی کے مستقل انقلاب کے نقطہ نظر پر مبنی ہے -

نے انقلاب کے ہر مرحلے پر اس سمت کے لیے جدوجہد کی ہے۔

10 فروری 2011 کو محنت کش طبقے کے ہاتھوں مبارک کا تختہ الٹنے سے ایک دن پہلے ورلڈ سوشلسٹ ویب سائٹ کے انٹرنیشنل ایڈیٹوریل بورڈ کے چیئرپرسن ڈیوڈ نارتھ نے لکھا:

انقلابی مارکسسٹوں کی ذمہ داری محنت کشوں کو سیاسی طور پر فعل اور پختہ کرنا ہے جب وہ زبردست سیاسی تجربات سے گزرتے ہوئے اقتدار کے لیے ایک آزاد جدوجہد کی ضرورت کو سمجھتے ہیں۔ انقلابی مارکسسٹوں کو مزدوروں کو ان تمام غلط فہمیوں کے خلاف مشورہ دینا چاہیے کہ ان کی جمہوری خواہشات بورژوا پارٹیوں کی سرپرستی میں حاصل کی جا سکتی ہیں۔ انہیں سرمایہ دار طبقے کے سیاسی نمائندوں کے جھوٹے وعدوں کو بے دردی سے بے نقاب کرنا چاہیے۔ انہیں محنت کشوں کی طاقت کے آزاد آوزاروں کی تخلیق کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے جو سیاسی جدوجہد کے تیز ہونے کے ساتھ ساتھ محنت کش طبقے کو اقتدار کی منتقلی کی بنیاد بن سکتی ہے۔ انہیں یہ بتانا ہوگا کہ محنت کشوں کے ضروری جمہوری مطالبات کی تکمیل سوشلسٹ پالیسیوں کے نفاذ سے الگ نہیں ہے۔

سب سے بڑھ کر انقلابی مارکسسٹوں کو اپنے ملک کی سرحدوں سے باہر مصری محنت کشوں کے سیاسی افق کو بلند کرنا چاہیے۔ انہیں اس بات کی وضاحت کرنی چاہیے کہ مصر میں جو جدوجہد اب سامنے آ رہی ہے وہ عالمی سوشلسٹ انقلاب کے ابھرتے ہوئے عالمی عمل سے جڑے ہوئے ہیں اور مصر میں انقلاب کی فتح کے لیے قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی حکمت عملی کی ضرورت ہے۔

ایسے حالات میں جن میں دنیا بھر میں طبقاتی جدوجہد بڑھ رہی ہے اور محنت کش اپنی حکومتوں کی جنگ نواز اور اسٹریٹی کی پالیسیوں کے خلاف بغاوت کر رہے ہیں اس مارکسی حملوں کو مضبوط کرنا ضروری ہے۔ مصر میں ایک انقلاب کافی معروضی طور پر تیار ہو چکا تھا۔ جو چیز غائب تھی وہ موضوعی عنصر تھا یعنی ایک انقلابی پارٹی جو عوام میں لنگر انداز ہوتے ہوئے اور بین الاقوامی سوشلزم کے تناظر کے لیے لڑائی میں بَرسَرپَیکار ہوتی۔ مصر میں انقلاب اور رد انقلاب کا اہم سبق یہ ہے کہ وقت پر ایسی انقلابی قیادت تیار کی جائے۔

Loading