اُردُو
Perspective

یورپی یونین یوکرین جنگ پر مزید 50 بلین یورو خرچ کر رہی ہے۔

یہ 2 فروری 2024 کو انگریزی میں شائع ہونے 'European Union spends another €50 billion on Ukraine war' والے اس تناظر کا اردو ترجمہ ہے

یورپی یونین کے 27 سربراہان مملکت اور حکومت نے جمعرات کو یوکرین میں جنگ کو بڑھانے کے لیے 50 بلین یورو (54 بلین امریکی ڈالر) جاری کرنے کا فیصلہ کیا۔ دسمبر میں ہنگری کے وزیر اعظم وکٹر اوربان کے ویٹو کی وجہ سے یہ متعلقہ فیصلہ ناکام ہو گیا۔

جرمن چانسلر اولاف شولز بنڈسٹیگ میں خطاب کرتے ہوئے [تصویر از DBT/Florian Gaertner/photothek] [Photo by DBT/Florian Gaertner/photothek ]

50 بلین یورو ان رقوم کا صرف ایک حصہ ہے جو امریکہ، یورپی یونین، جرمنی اور دیگر یورپی طاقتیں روس کے خلاف جنگ کو مالی اعانت فراہم کرنے اور تیز کرنے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔ یہ فنڈز خصوصی طور پر اگلے چار سالوں کے لیے یوکرین کے ریاستی بجٹ کو سپورٹ کرنے کے لیے فراہم کیے جا رہے ہیں اور اس کا مقصد ملک کو دیوالیہ ہونے سے روکنا ہے کیونکہ وہ اب تنخواہوں اور دیگر اخراجات ادا کرنے کے قابل نہیں رہا ہے۔

اسلحہ اور گولہ بارود کی ترسیل کے لیے بھاری رقم آن 50 بلین یورو میں شامل نہیں ہے۔ جیسا کہ یورپی یونین کی خارجہ پالیسی کے سربراہ جوزپ بوریل نے بدھ کو یورپی یونین کے وزرائے دفاع کے ساتھ بات چیت کے بعد اعلان کیا کہ 13 یورپی ممالک اکیلے یوکرین کو 2024 میں 21 بلین یورو کی فوجی امداد کی مدد کرنا چاہتے ہیں جس میں جرمنی 7.4 بلین یورو کی فوجی امداد کے ساتھ سرفہرست ہے۔.

کیل انسٹی ٹیوٹ فار ورلڈ اکانومی کے 'یوکرین سپورٹ ٹریکر' نے حساب لگایا ہے کہ یوکرین کو 24 جنوری 2022 سے 31 اکتوبر 2023 کے درمیان مجموعی طور پر 247 بلین ڈالر کی فوجی، مالی اور انسانی امداد ملی ان میں سب سے بڑا حصہ یورپی یونین کا تھا جو 81 بلین ڈالر تھا اس کے بعد 75 بلین ڈالر کے ساتھ امریکہ اور 22 بلین ڈالر کے ساتھ جرمنی دوسرے نمبر پر ہے۔ یہ یوکرین کی سالانہ مجموعی داخلی پیداوار سے نمایاں طور پر زیادہ ہے جو جنگ سے پہلے کے آخری سال 2021 میں 200 بلین ڈالر تھی۔

یہ اعداد و شمار جنگ کی اصل نوعیت کے بارے میں ایک کھلی حقیقت ہیں۔ نیٹو کی طاقتیں اسلحہ اور گولہ بارود کی رسد اور حکمت عملی فراہم کرتی ہیں وہ یوکرین کے ریاستی ڈھانچہ کے لیے اور وولوڈیمیر زیلنسکی کی کرپٹ اولیگارک حکومت کی مالی معاونت کرتی ہیں اور اسکے بدلے میں وہ یوکرین کے نوجوانوں کو جنگ کے چارے کے طور پر استمعال کرتے ہیں۔

یہ دعویٰ کہ یہ جنگ ’’جمہوریت‘‘ اور ’’آزادی‘‘ کے بارے میں ہے۔ اگر فرض کے طور پر یہ تصور کیا جائے کہ یوکرین کو فوجی طور پر 'جیت' جانا چاہیے اور یورپی یونین میں داخل ہونا چاہیے تو اس صورت میں بھی وہ بہت زیادہ مقروض رہے گا اور اس کا محنت کش طبقہ بین الاقوامی کارپوریشنوں کے استحصال کا باعث بنے گا۔ یورپی یونین نے اب جو 50 بلین یورو جاری کیے ہیں ان میں سے 33 بلین یورو طویل مدتی قرضوں میں ہیں جو مالیاتی منڈیوں سے لیے گئے ہیں اور ان کی واپسی ضروری ہے۔

یوکرین کی جنگ کے ساتھ نیٹو جس حقیقی مقصد کی پیروی کر رہا ہے وہ روس کو ختم کرنا اور اس کے خام مال اور تزویراتی طور پر اہم علاقوں پر کنٹرول حاصل کرنا ہے۔ وارسا معاہدہ اور سوویت یونین کی تحلیل کے بعد سے نیٹو نے متعلقہ معاہدوں کی خلاف ورزی کرتے ہوئے اپنی سرحدوں کو مشرق کی طرف مزید بڑھا دیا ہے اور تمام مشرقی یورپ اور سابق سوویت یونین کے کچھ حصوں کو فوجی اتحاد میں ضم کر دیا ہے۔ 2014 میں نیٹو طاقتوں نے کیف میں ایک دائیں بازو کی روس مخالف بغاوت کو عملی جامہ پہنایا جو موجودہ جنگ کا باعث بنی ہے۔

پیوٹن حکومت جو روسی اولیگارشی کے مفادات کی نمائندگی کرتی ہے نیٹو کی مداخلت کا جواب اس کے پاس سوائے یوکرین پر اپنا رجعتی حملہ کرنے کے علاوہ کچھ نہیں تھا اور اس امید پر کہ نیٹو کی طاقتیں انہیں رعایتیں دینے پر مجبور ہو جائے گی۔

لیکن نیٹو طاقتیں رعایت دینے کے موڈ میں نہیں ہیں۔ وہ نہ صرف یوکرین میں جنگ کو مالی امداد فراہم کر رہے ہیں اور اسے بڑھا رہے ہیں بلکہ بڑے پیمانے پر خود کو روس کے خلاف مسلح کر رہے ہیں اور روسی سرحد پر ہزاروں فوجیوں کو تعینات کر رہے ہیں۔ جاری 'Stadfast Defender' سرد جنگ کے خاتمے کے بعد نیٹو کی سب سے بڑی مشق ہے۔ تقریباً 90,000 فوجی روس پر حملے کی مشق کر رہے ہیں۔؟؟؟

جرمنی کے وزیر دفاع بورس پسٹوریئس جیسے سرکردہ سیاست دانوں نے اعلان کیا ہے کہ یورپ کو جوہری ہتھیاروں سے لیس روس کے ساتھ 'پانچ سے آٹھ سال کے عرصے میں' جنگ کے لیے تیار ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جرمنوں کو 'خطرات کے ساتھ دوبارہ جینا سیکھنا ہوگا اور اپنے آپ کو فوجی، سماجی اور شہری تحفظ کے لحاظ سے تیار کرنا ہوگا۔' نیٹو کی ملٹری کمیٹی کے چیئرمین راب باؤر 'روس کے ساتھ براہ راست تصادم' کی تیاری کے لیے 'جنگی معیشت' بنانے کے لیے پرعزم ہیں۔

یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کے موقع پر جرمن چانسلر اولاف شولز اور دیگر یورپی سربراہان حکومت نے واضح کیا کہ اگر ڈیموکریٹس اور ریپبلکنز کے درمیان تنازعات کی وجہ سے یوکرین کی جنگ کے حوالے سے امریکی عزم میں کمی آتی ہے تو وہ روس کے خلاف جنگ کو بھی جاری رکھیں گے یا انتخابات ہوتے ہیں اور اگر ڈونلڈ ٹرمپ کی فتح کے نتیجے میں امریکہ کی توجہ چین کے ساتھ جنگ ​​پر زیادہ ہوتی ہے پھر بھی وہ روس کے خلاف یوکرین میں جنگ جاری رکھیں گے اور اس میں شدت لائیں گے۔

فنانشل ٹائمز میں شائع ہونے والے ایک تبصرے میں شولز اور ڈنمارک، جمہوریہ چیک، ایسٹونیا اور ہالینڈ کے سربراہان حکومت نے مطالبہ کیا: 'ہمیں اپنے عزم کو مضبوط کرنا چاہیے اور اپنی کوششوں کو دوگنا کرنا چاہیے اور اسکے لیے ضروری ہے تاکہ یہ یقینی بنایا جا سکے کہ ہم اپنی حمایت کو یوکرین کے لیے برقرار رکھیں۔۔' اس کے لیے ضروری ہے کہ 'یورپ میں صنعتی صلاحیتوں میں توسیع' کے ساتھ ساتھ 'رکن ممالک کی طرف سے پائیدار سرمایہ کاری' کی ضرورت ہے۔

بیان مزید کہا گیا ہے کہ 'موسم سرما کے دوران اور طویل مدتی دونوں کے لیے یوکرائنی دفاع کی حمایت اور اسے برقرار رکھنے کی ہماری صلاحیت اہم ہے۔' تبصرے میں مزید کہا ہے کہ 'ہم یورپیوں پر یہ خاص ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ اس لیے ہمیں عمل کرنا چاہیے۔‘‘

برسلز روانگی سے قبل جرمن پارلیمنٹ میں دیے گئے حکومتی بیان میں شولز نے اور بھی واضح انداز میں اپنے عزم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ پیوٹن نے امریکی صدارتی انتخابات اور یورپ میں تھکاوٹ پر اپنی امیدیں وابستہ کر رکھی ہیں اُس نے وعدہ کیا:

کہ ہم اس سال اس جنگ کے لیے اپنا بڑا حصہ ڈالیں گے اور ہم اس بات کو یقینی بنانے کے لیے ہر ممکن کوشش کریں گے تاکہ یورپ کا مشترکہ تعاون اتنا بڑا ہو کہ یوکرین اس پر بھروسہ کر سکے اور یہ کہ پیوٹن کسی موقع پر بھی ہماری حمایت ختم ہونے کی توقع نہیں کر سکے۔

جرمن سامراج جس نے پہلے پہلی اور دوسری عالمی جنگوں میں یوکرین پر اپنا کنٹرول حاصل کیا تھا اور دو بار روس کو فتح کرنے کی کوشش کی تھی جرمنی اب عالمی سرمایہ داری کے گہرے بحران اور سامراجی تسلط والے عالمی نظام کے خاتمے پر رد عمل ظاہر کر رہا ہے جیسا کہ اس نے اُس وقت کیا تھا: یعنی اپنے آپ کو یورپ کی بالادستی کی پوزیشن میں لانے کی کوشش کرنا دوبارہ مسلح کرنا اور فوجیوں کو اس عمل کے لیے تیار کرنا۔

روس کے خلاف جنگ کے علاوہ جرمنی اور دیگر یورپی طاقتیں غزہ میں فلسطینیوں کی نسل کشی کی حمایت کرتی ہیں جو امریکہ اور اس کے اتحادیوں کو مشرق وسطیٰ کو زیر کرنے کے لیے ایک اور جنگ کا پیش خیمہ بنانے کے ساتھ ساتھ چین کے خلاف امریکی افواج کی تعیناتی کا کام کرتی ہے۔

جرمن اور یورپی عسکریت پسندی کی واپسی نہ صرف جغرافیائی سیاسی حریفوں کے خلاف ہے بلکہ جرمن اور یورپی محنت کش طبقے کے خلاف بھی ہے اور ساتھ ہی پیٹی بورژوازی کے استحصال زدہ طبقے جیسے کسانوں کو بھی جنگ اور عسکریت پسندی کے اخراجات برداشت کرنا ہوں گے، 

برسلز میں یورپی یونین کے سربراہی اجلاس کا محاصرہ احتجاجی کسانوں نے کیا جنہوں نے اپنے ٹریکٹروں سے پوری سڑکیں بند کر دیں۔ فرانس، جرمنی، پولینڈ، جمہوریہ چیک، لتھوانیا اور یونان میں کسان بھی سبسڈی میں کٹوتیوں کے خلاف احتجاج کر رہے ہیں جس سے ان کا ذریعہ معاش تباہ ہو رہا ہے۔

محنت کش طبقہ تیزی سے ملیٹنٹ بن رہا ہے۔ جرمنی میں، یورپی یونین کے سربراہی اجلاس سے ایک ہفتے پہلے، ٹرین ڈرائیوروں نے ریل ٹریفک کو پانچ دن کے لیے بند کر دیا ہوائی اڈے کے کارکنوں نے ایک دن کے لیے ہوائی ٹریفک بند کر دی اور بس اور ٹرام ڈرائیوروں نے ایک دن کے لیے پبلک ٹرانسپورٹ بند کر دی۔ دنیا بھر میں آٹو انڈسٹری، سپلائر اور متعدد دیگر صنعتوں میں حقیقی اجرتوں میں چھانٹیوں اور کٹوتیوں کے خلاف مزاحمت بڑھ رہی ہے۔

جنگ کے خطرے کا مقابلہ صرف محنت کشوں کی طبقاتی جدوجہد کو سرمایہ داری کے خلاف شعوری تحریک میں بدل کر ہی کیا جا سکتا ہے۔ اس کے لیے ٹریڈ یونینوں کی طرف سے جکڑی گی زنجیروں سے آزاد ہونے کی ضرورت ہے جو حکومتوں کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں اور جنگ کی پالیسی کی حمایت کرتی ہیں اور ایک ایسی بین الاقوامی پارٹی کی تعمیر کی ضرورت ہے جو جنگ اور سرمایہ داری کے خلاف جدوجہد میں یورپ، امریکہ اور پوری دنیا کے محنت کشوں کو متحد کرے۔ اور انہیں سوشلسٹ پروگرام کے لیے جیتا جائے۔

یہ وہ نقطہ نظر ہے جس کے لیے چوتھی انٹرنیشنل کی بین الاقوامی کمیٹی اور اس کے سیکشنز، سوشلسٹ ایکویلٹی پارٹیوں نے جدوجہد کی ہے۔

Loading